Thursday, November 17, 2022

مریکہ کے وسط مدتی انتخابات ۔غیر متوقع نتائج، منقسم مینڈیٹ، ٹرمپ ازم کی شکست

 

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

غیر متوقع نتائج، منقسم مینڈیٹ، ٹرمپ ازم کی شکست  

منگل آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات کئی اعتبار سے تاریخی ہیں۔ اس بار بھی حکمراں پارٹی کو تھوڑی بہت مشکلات تو آئیں لیکن  روائت کے برخلاف وسط مدتی انتخابات میں حکمراں جماعت کا صفایا نہیں ہوا۔گورنروں کے انتخابات میں خواتین کی کارکردگی غیر معمولی رہی،بہت سے اہم معرکے خواتین نے سر کئے اور کئی نئے سنگ میل نصب ہوئے۔ انتخابات کے تجزئے سےپہلے اس موضوع پر چند سطور۔

  اس بار 36 ریاستوں میں گورنر کے انتخابات ہوئے جن میں 25 خواتین نے قسمت آزمائی کی، گویا دونوں جماعتوں میں گورنر کے عہدے کیلئے ایک تہائی پارٹی ٹکٹیں خواتین نے جیت لیں۔ پندرہ خواتین نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ حاصل کئے جبکہ ریپبلکن پارٹی کے نام پر  10 خواتین سامنے آئیں۔ گزشتہ وسط مدتی انتخابات میں 16 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔اب تک گورنر کیلئے صرف سفید فام اور ہسپانوی نژاد خواتین کو نامزد کیا جاتا تھا لیکن آٹھ نومبر کو تین سیاہ فام خواتین بھی میدان میں تھیں اور ان تینوں کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔اتفاق سے یہ سب ہار گئیں۔

پانچ ریاستوں میں ایک خاتون کے مقابلے دوسری عورت میدان میں تھی، یعنی جیتوں تو تجھے پاوں، ہاروں تو پیا تیری والا معاملہ رہا۔ ریاست مین (Maine)، الابامہ، مشیگن، آیووا، جنوبی ڈکوٹا، کنسس (Kansas)، اوریگن اور نیو میکسیکو پر پہلے ہی سے حوا کی بیٹیاں فرمانروا  ہیں۔ان تمام خواتین نے نئی مدت کا انتخاب جیت لیا۔ اوریگن میں محترمہ کیٹ براون اپنے چار سال مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوئیں  تو انکی جانشین بھی ایک عورت ہیں۔

ریا ست میسیچیوسٹس (Massachusetts) آرکنسا (Arkansas)اور ایریزونا(Arizona) نے 9 نومبر کو گورنری کا تاج خواتین کے سر رکھ دیا۔ نیویارک میں محترمہ کیتھی ہوکل (Kathy Hochul)کامیاب ہوگئیں۔ کیتھی صاحبہ نائب گورنر تھیں لیکن جب گزشتہ سال گورنر اینڈریو کومو خواتین سے ٹھِرک اور دست درازی کے اسکینڈل کی وجہ سے استعفیٰ پر مجبور ہوئے تو موصوفہ بقیہ مدت کیلئے بربنائے عہدہ گورنر بنادی گئیں۔ منگل کو اہلِ نیویارک نے انھیں چار سال کیلئے اپنی گورنر منتخب کرلیا۔ مختصر یہ کہ ایوان ہائے گورنر کی 26 کنجیوں کیلئے ہونے والی دوڑ میں 12 خواتین نے منزلِ مقصود حاصل کرلی۔

کچھ سماجی سنگ میل بھی طئے ہوئے

میسیچیوسٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہم جنس (Lesbian) خاتون گورنر منتخب ہوئیں۔اکیاون سالہ مورا ہیلی،  اپنے اس میلان کا کھل کر اعلان کرچکی ہیں۔  صنفی ترجیح کے اعتبار سے اوریگن کی سبکدوش ہونے والی 62 سالہ کیٹ براون اور انکی نومنتخب جانشیں محترمہ ٹینا کوٹیک بھی صنفی میلان کے اعتبار سے ہم جنسں ہیں۔ وجودِزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے  بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔

امریکہ میں صدر کی مدت چار اور ایوانِ نمائندگان کی دوسال ہے جبکہ سینیٹ کے ارکان چھ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے کیلئےسینیٹ کا نظام کچھ اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جوانتخابات،  صدر کی مدت کے درمیان  منعقد ہوں انھیں وسط مدتی کہا جاتا ہے۔

وسط مدتی انتخابات عام طور سے حکمراں جماعت کیلئے بڑے بھاری ہوتے ہیں۔ اوباما دورِ اقتدار میں ہونے والا 2014 کا وسط مدتی انتخاب حکمراں صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کو دیوالیہ کرگیا۔ سینیٹ کی نو نشستیں چھین کر ریپبلکن پارٹی نے ایوان بالا میں 46 کے مقابلے میں اپنی پارلیمانی قوت کو 54 کرلیا۔کچھ ایسا ہی معاملہ ایوان نمائندگان میں پیش آیا جہاں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی سے  13 نشستیں ہتھیا لی گئیں اور 435کے ایوا ن میں 247  نشستیں جیت کر ری پبلکن پارٹی نے دونوں ایوانوں میں واضح برتری حاصل کرلی۔ اسکے نتیجےمیں  اوباما انتظامیہ عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اِن انتخابات کے بعد صدر اوباما کی لاچارگی کا یہ عالم تھا کہ جب فروری 2016میں سپریم کورٹ کےقاضی جسٹس اسکالیا کا انتقال ہوا تو ریپبلکن پارٹی نے آنجہانی جسٹس کے جانشیں کیلئے سینیٹ کا توثیقی اجلاس بلانے سے صاف انکار کردیا حتٰی کہ جنوری 2017 کو اوباما حکومت کی مدت ختم ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے جسٹس اسکیلیا کی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند  قاضی کا تقرر کیا۔ امریکہ میں وفاقی جج، فوج کے سربراہ، سفیروں، ارکانِ کابینہ اور دوسری اہم تقرریاں سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔

دورِ ٹرمپ کے وسط مدتی انتخاب میں حکمراں ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ پر اپنی گرفت برقرار رکھی،  لیکن 199 کے مقابلے میں 235 نشستیں جیت کر ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان نمائندگان پر قبضہ کرلیا۔ یہ انتخابات 2018 میں ہوئے تھے۔

اس بار بھی فضا کچھ ایسی ہی تھی۔ زبردست مہنگائی اور بڑھتی ہوئی شرح سود سے ہر گھر کے اخراجات اوسطاً  350 ڈالر ماہانہ بڑھ گئے ہیں جبکہ اجرتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ پٹرول اور گھر کے کرائے سے لے کر دوا اور غذا تک تمام اشیائے ضرورت کی قیمت آسمان پر ہے۔ بازارِ حصص میں شدید مندی ہے۔پینشن کے منتظم مالیاتی ادارے سرمایہ کاری کیلئے حصص کی خریدو فروخت کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق بازارِ حصص میں لگی عمر رسیدہ امریکیوں کی جمع پونجی 35 سے 40 فیصد تک بے قدر ہوچکی ہے۔

ریپبلکن پارٹی نے مہنگائی اور اقتصادی خرابیوں کا ذمہ دار صدر بائیڈن کی بائیں بازو کی طرف مائل پالیسیوں کو ٹھیرایا۔ دوسری طرف اسقاط حمل، خواتین کے تولیدی حقوق، صنفی مساوات اور جمہوری روایات کا تحفظ ڈیموکریٹک پارٹی کا منشور تھا۔ حال ہی امریکی عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں اسقاط کی اجازت و پابندی کا اختیار ریاستوں (صوبوں) کو سونپ دیا ہے۔ فیصلہ ہوتے ہی ریپبلکن پارٹی کے زیرانتظام ریاستوں نے اسقاط کو قابل سزا جرم بنادیا  اور بعض ریاستوں میں یہ قوانین اتنے سخت ہیں کہ خاتون کو اسقاط کیلئے ہسپتال یا مطلب لے جانے والی ٹیکسی کا عملہ بھی شریکِ جرم سمھجا جاتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی اسے 'حفاظتِ حیات' یا pro-life مہم کا نام دیتی ہے،

نوجوان خواتین کی اکثریت 'میرا جسم میری مرضی' کی قائل ہےاور pro-choiceکے عنوان سے منظم ان خواتین کا موقف ہے کہ تولیدی حقوق میں مداخلت بنت حوا کے اختیار میں کٹوتی ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما ہیلری کلنٹن صنفی مساوات اور خواتین کے تولیدی اختیار کو بنیادی انسانی حق قرار دیتی ہیں۔ اسی کیساتھ سماجی مساوات، رنگداروں کیساتھ بدسلوکی کے خاتمے، پولیس اصلاح، ماحولیاتی آلودگی اور تعلیم کیلئے  جاری ہونے والے قرض کی جزوی معافی کو حکمراں جماعت نے  اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ عوام کی اکثریت سماجی معاملات پر ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی  ہے لیکن معاملہ جب یہاں  آپہنچا کہ  'فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟ ' تو بڑی اکثریت کی اولین ترجیح پیٹ نظر آئی۔

ان انتخابات میں سابق ٹرمپ نے غیر معمولی دلچسپی لی بلکہ یوں کہئے کہ وسط مدتی انتخابات،  آنے والے صدارتی انتخاب کیلئے انکی مہم کا نقطہِ آغاز تھااور ووٹنگ کےایک ہفتے بعد یعنی 15 نومبر کوانھوں نے 2024 کے  انتخاب میں حصہ لینے کا رسمی اعلان بھی کردیا۔ جناب ٹرمپ نے اب تک 2020 کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور پرائمری انتخابات کے دوران انھوں نے اپنی جماعت کی ٹکٹ کے خواہشمند اُن امیدواروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جنھوں نے گزشتہ انتخاب کو شفاف و منصفانہ قراردیا ہے۔ امریکہ میں ریاستیں انتخابات کی نگرانی کرتی ہیں اور نتائج کی تصدیق ریاست کے سکریٹری آف اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے جو براہ راست منتخب کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ریپلکن پارٹی کے جن سکریٹری آف اسٹیٹ نے صدارتی انتخاب کے نتائج کی بلا اختلافی نوٹ تصدیق کی ان سب کے خلاف صدر ٹرمپ نے مورچہ لگایا اورا نکی اکثریت اس بار پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوگئی۔ یہی حال گورنر، سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی پارٹی ٹکٹ کے ان خواہشمندوں کا ہوا جو گزشتہ انتخابات کو شفاف قراردیتے ہیں۔  'عظمت رفتہ کی طرف واپسی' کے نام سے مشہور اس مہم کا انگریزی مخفف MAGAہے۔ اس مہم کے نتیجے میں اکثر جگہ انکے حامی ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سابق صدر نے کئی بُرج گرادئے۔

دوسری جانب سماجی و اقتصادی معاملات کیساتھ صدر بائیڈن اور سابق صدر بارک حسین اوباما نے امریکی نظامِ انتخاب کے بارے میں پر صدر ٹرمپ کی جانب سے پھیلائے جانیوالے شکوک و شبہات کو  شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے آخری انتخابی خطاب میں صدر بائیڈن نے زور دیکر کہا کہ شفاف انتخابی نظام امریکی جمہوریت کی بنیاد ہے اور جڑوں پر تیشہ چلانے والے جمہوریت اور مملکت کے مخلص نہیں۔ صدراوبامہ نے جارجیا کے انتخابی جلسے میں متنبہ کیا کہ خواتین اور اقلیتوں کے غصب کئے ہوئے بنیادی حقوق بیلٹ کے ذریعے ہی واپس آسکتے ہیں لیکن انتخابی نظام کے بارے میں شک پیدا کرکے پرچہِ انتخاب کی حرمت پامال کی جارہی ہے۔ آنے والے انتخابات میں مقابلہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کا نہیں  بلکہ democracy is on the ballotیعنی جمہوریت داو پر ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن اور اوباما کی یہ حکمت کامیاب رہی۔

انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح رہے:

سینیٹ کی جن 20 نشستوں کا ریپبلکن کو دفاع کرنا تھا ان میں ایک یعنی پنسلوانیہ کی نشست ڈیموکریٹک پارٹی نے چھین لی۔ ڈیموکریٹک سینیٹروں کی مدت مکمل ہونے پرجو 14 نشستیں خالی ہوئی تھیں ان سب کا حکمراں جماعت نے کامیابی سے دفاع کیا۔نتائج کے مطابق سینیٹ کی 100 میں سے 50 نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں، 49 پر ریپبلکن براجمان ہیں جبکہ جارجیا کی نشست پر دوسرے مرحلے کیلئے 6دسمبر کو ووٹ ڈالے جائینگے۔

 ایوان نمائندگان میں ریپبلکن کے 217اور ڈیموکریٹک پارٹی کے 207 امیدوار کامیاب ہوئے، باقی 11 نشتوں پر انتخاب کے نو دن بعد تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے، 435 رکنی امریکی ایوان نمائندگان میں واضح برتری کیلئے کم از کم 218 نشستیں درکار ہیں۔ منزل تک پہنچنے کیلئے ریپبلکن کو باقی ماندہ 11نشستوں میں سے صرف ایک مزید جیتنی ہے جبکہ ڈیموکریٹس کو ایوان نمائندگان پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے تمام کی تمام باقی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ حزب اختلاف کو ایوان زیریں میں بال سے باریک برتری حاصل ہوجائیگی۔

گورنروں کے  مقابلے میں صدر بائیڈن کی جماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ میسیچیوسٹس، میری لینڈ اور ایریزونا کی گورنری حکمراں جماعت نے ریپبلکن سے چھین لی۔ دوسری طرف  نوادا (Nevada) میں ریپبلکن نے  ڈیموکریٹ گورنر کو شکست دیدی۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی نے گورنری کے 18 اور ریپبلکن نے 17معرکے سر کئے۔ ایک نشست پر گنتی کا اعصاب شکن مرحلہ جاری ہے۔

یہ نتایج صدر بائیڈن کیلئے بے حد حوصلہ افزا ہیں۔ انتخابات کی رات تک ماہرین اور خود صدربائیڈن کا خیال تھا کہ ایوانِ نمائندگان کیساتھ سینیٹ بھی خطرے میں ہے لیکن صدر اوباما کی جانب سے democracy is on the ballotکا نعرہ نوجوان تعلیمیافتہ طبقے میں خاصہ موثر رہا۔ اس رجحان کا اندازہ اسطرح کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ انتخاب پر شک کاکھلم کھلا اظہار کرنے والے ٹرمپ کے  حامی 28 ریپبلکن امیدوار شکست کھاگئے۔ جن میں 8 سینیٹ، 12 گورنر اور 8 سکریٹری آف اسٹیٹ کیلئے مقابلے پر اترے تھے۔ شکست سے دوچار ہونے والوں مشاہیر میں سینیٹ کیلئے پنسلوانیہ سے محمد چنگیز آز، ایریزونا سے آدم لکسالٹ، گورنر کیلئے نیویارک سے لی زیلڈن، پنسلوانیہ سے ڈگ ماسٹریانو اور مشیگن سے محترمہ ٹیوڈر  ڈکسن شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے 2020 لے انتخابات کو دھاندلی زدہ اور نظامِ انتخاب کو غیر شفاف کہا تھا۔ وسط مدتی انتخابات میں صدر بائیڈن کی توقع اور جائزوں سے کہیں بہتر کارکردگی کو سیاسی مبصرین نے anti-Democratic, extremist, MAGA Republicans یعنی جمہوریت دشمن، انتہاپسند ماگا ریپلکن یا 'ٹرمپ ازم' کی شکست قرار دیا ہے۔

ہفت  روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 نومبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 18 نومبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment