Friday, November 4, 2022

یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟؟

 

یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟؟

لانگ مارچ اور عمران خان پر حملے کے بعد سے  سیاسی و صحافتی دانشور صورتحال کا اپنے انداز میں تجزیہ کررہے ہیں، اس   حوالے سے چند سطور:

عزیزو! اب  تک   ہمارے سیاسی نیتاوں کو  وردی والوں  سے اپنے  معاملات میں مدا خلت کی شکائت  تھی۔ کہا جاتا تھا کہ سجیلے  جوان    دوڑ میں   آگے نکل  جانیوالے   'سرکش' گھوڑے کو نا اہلی  کا چابک    لگاکر میدان سے  نکال باہر کرتے  ہیں ۔  پھر نئے شہسوار کو  'پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنادیا جائیگا'، ' پاکستان ایک مثالی لبرل و معاشرہ  بنے گا' ، دو نہیں ایک پاکستان' 'مدنی  ریاست'   'صاف چلی ،  شفاف چلی ' جیسے پرکشش نعروں اور وعدوں کیساتھ ایوان میں لایا جاتا ہے۔  کچھ عرصے  بعد   جب راندہ ِ  درگاہ گھوڑے  کے سر سے مقبولیت کا بھوت   اترجاتا ہے تو اسکے  سافٹ وئر میں مناسب تبدیلی کرکے اس new and improved  جانور کو دوبارہ مقابلے کے نشان پر کھڑا کردیا جاتا ہے کہ 'چل مرے گھوڑے بسم اللہ'

لگتا ہے کہ اس بار  ہمارے    سیاستدان   وردی والوں  سے ملنے والی کڑوری  دوا انھیں کو پلانے میں کامیاب ہوگئے۔

فوج  میں قیادت کی تبدیلی    بہت اہم سنگ میل ہے  کہ اوپر آنے  والی تبدیلی،  دوسرے اعلیٰ افسران کیلئے  ترقی ، من پسند تبادلے اور پرکشش مواقع کا پیغام لاتی ہے۔ فوج بہت منظم ادارہ ہے لیکن وہ سب  ہیں پاکستانی اور انسان، چنانچہ انکے یہاں بھی غیر مرئی  اور مہذب قسم کی  محکمہ جاتی سیاست، روابط، فون  وملاقات  اور ترغیب کاری   (lobbying)کی 'واردات' ہوتی ہے۔

آجکل فوج کے کماندارِ اعلی  جناب قمر باجوہ صاحب کی سبکدوشی کا مرحلہ درپیش  ہے۔  باجوہ صاحب کی چھڑی کے خواہشمندوں  میں جنرل  فیض حمید،  جنرل عاصم منیر احمد شاہ اور جنرل ساحر شمشاد مرزا سرِ فہرست ہیں۔ جنرل فیض حمید اور کپتان ایک دوسرے کے ممدوح ہیں اور خانصاحب کی    دوبارہ تخت نشینی کی دیوانگی کی حد تک خواہش کا ایک بنیادی محرک بھی یہی کہ وہ 'تکڑے اور محب وطن'  جنرل فیض حمید کو کماندارِ اعلیٰ تعینات کر سکیں۔ دوسری طرف جنرل فیض حمید بھی  یقین کی حد تک پرامید ہیں کہ اِ دھر لیلٰےِ اقتدار نے کپتان کے گلے میں بانہیں ڈالیں  ادھر  جرنیلی چھڑی خود بخود انکی  بغل میں ہوگی۔اس حوالے سے کپتان اپنی خواہش  اور پسند کو  غیر مبہم انداز میں اتنی  بار دہراچکے ہیں کہ باقی دو جرنیل  حضرات کو اس منصب پر تقرری کیلئے عمران خان کی حمائت کی کوئی امید نہیں۔

 جنرل فیض حمید نے   اپنی تقرری کیلئے ترغیب کاری کا دائرہ  عسکری میدان سے سیاسی اکھاڑے تک بڑھادیا ہے اور GHQکی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیاں کپتان کے گوش گزار کردی جاتیں ہیں۔ اسی بناپر کپتان بڑے پراعتماد انداز میں کہتے پھر رہے  ہیں کہ 'مجھے اپنے خلاف ہونے والی ہرسازش کا علم ہے' ۔ پہلے سیاسی تبدیلیوں کے مشورے چھاونیوں میں ہوتے تھے اسی طرھ اب GHQکے مستقبل پر بلڈی سویلین کھل کر بحث کررہے ہیں۔

آرمی  چیف کے ساتھ  دوسری تقرریاں بھی ہونی ہیں جن میں سب سے اہم ڈائریکٹر جنرل سی یا DG Counter Intelligenceہے۔  ڈی جی سی  بربنائے عہدہ  آئی ایس آئی کے سربراہ   کو جوابدہ ہیں  لیکن فوج کے سربراہ بھی  ڈی جی سی کو ہدایات دیتے ہیں یعنی انکی reporting  dotted lineفوج کے سربراہ کو بھی ہے۔ ڈی جی سی   کا کام دہشت گردوں پر نظر رکھنا ہے اسلئے ، ملا، مساجدم مداراس کیساتھ سیاسی جماعتیں بھی انکی عقابی نگاہوں کا ہدف ہیں۔

آجکل ڈی جی سی    میجر جنرل فیصل نصیر ہیں جنھیں  عمران خاں ، وزیراداخلہ اور وزیراعظم کیساتھ وزیرآباد حملے کا سرغنہ نامزد کرنا چاہتے ہیں۔جنرل فیصل نصیر اور جنرل فیض  حمید کی آویزش برسوں پرانی ہے۔   کافی وعرصہ پہلے  جب  جنرل فیصل (تب بریگیڈیر) کراچی میں ملٹری انٹیلیجنس سے وابستہ تھے اسوقت انکی کراچی ہی میں تعینات بریگیڈیر شاہد پرویز سے نہیں بنتی تھی جو کراچی میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر تھے۔ شاہد پرویز جناب فیض حمید کے منظورِ نظر تھے تو فیصل نصیر،  جنرل ساحرشمشاد   کی good booksمیں۔ بعد میں جنرل فیض حمید کی مخالفت کے باوجود فیصل نصیر ترقی کرکے میجر جنرل بن گئے اور اب دوماہ پہلے انھیں GGCتعینات کردیا گیا۔جنرل فیض حمید اس ہزیمت کو اب تک نہیں بھولے۔

آئین کے تحت سپہ سالار کا تقرر وزیراعظم کی ذمہ داری ہے اسلئے  بظاہر فیض حمید کا اس منصب پر آنا  بعد از قیاس لگتا ہے کہ  وہ جنرل عاصم اور جنرل ساحر شمشار سے جونئیر ہیں اور شہباز شریف   کے  وہ اس حد تک منظور نظر نہیں کہ  انھیں  اپنے افسران پر سے چھلانگ لگواکر کمان کی چھڑی سونپ دی جائے۔جنرل فیض حمید کے چیف بننے کی ایک صورت یہی باقی رہ گئی ہے کہ  ملک گیر ہڑتال اور دھرنوں سے شریف حکومت کو مفلوج کردیا جائے اور ملک ایسی بحرانی کیفیت میں   آجائے کہ   جنرل باجوہ اور شریف انتظامیہ  کیلئے  جنرل فیض حمید کے تقرر کے سوا اور کوئی راستہ نہ رہے۔اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے   آزادی مارچ شروع  ہوا ۔ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کاحوصلہ ساتویں آسمان کو چھورہاتھا اسلئے  کپتان اور جنرل دونوں کو توقع تھی کہ

وہ جو پی کر شراب نکلے گا

کس طرح آفتاب نکلے گا

لیکن  شرکا میں وہ  جوش و خروش نظر نہ آیا جسکی کپتان کو توقع تھی۔ مجمع ہر جگہ بلاشبہ بہت بڑا تھا لیکن یہ  کارواں نہ بن سکا یعنی لوگ بڑی تعداد میں آتےپرجوش انداز میں عمرا  ن خان کا خطاب سنتے اور تقریر ختم ہونے پر ساتھ چلنے کے بجائے خدا حافظ کہہ کر گھروں کی راہ لیتے اور دوسرے شہر میں نیا مجمع حاضر ہوجاتا۔ شاہ محمود قریشی ، اسدعمر اور دوسرے امن جو رہنماوں کا خیال تھا کہ اس کارواں کا لانگ مارچ کے بجائے عوامی رابطہ  مہم بنادیا جائے لیکن مہم جو کپتان   اور انکے غیر مرئی سہولت کاروں کے خیال میں وقت نکلا جارہا تھا۔ اسی دوران صدف نعیم کی شہادت سے مزید دھچکہ لگا۔

بدقسمتی سے سیاست کی بدقماش و بدخصال دیوی کو انسانی خون بہت پسند ہے۔ چنانچہ تجربہ کار سیاسی طبیبوں نے تحریک کیلئے خون کا انجیکشن تجویز کیا اور حملہ ہوگیا جس میں تین معصوم بچوں کا باپ اپنی جان سے گیا۔حکمت عملی یہ تھی کہ اسے مذہبی جنونی کا حملہ قراردیا جائے۔ تحقیقات کے آغاز سے بھی پہلے وزیرِداخلہ رانا ثنااللہ نے اس  حملے کو مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ   انھیں راستے سے ہٹانے کیلئے مذہبی انتہا پسندوں کو  استعمال کیا جائیگا، ملاؤں کے سر الزام دھرنے کا خانصاحب اور حکومت دونوں کا فائدہ ہے۔ سلمان رشدی پر حملے کی مذمت کرکے خاںصاحب مغرب میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرچکے ہیں اب خود کو مذہبی انتہا پسندوں کا ہدف ثابت کرکے وہ مزید منظور و محبوب نظر ہوجائینگے۔ سرکار کوبھی اس میں فائدہ ہے۔ جھوٹا سچا الزام لگاکر امریکہ کی خوشنودی کیلئے دو ایک حفاظ کو پھانسی چڑھادینا نقصان کا سودا نہیں۔

اس حملے کے ردعمل میں فیصل نصیر کو ہدف بنایا گیا۔ تاکہ فوج میں عمران خان  کے ترغیب کار  یہ کہہ سکیں کہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ اور جنرل باجوہ  کی حماقتوں سے اب فوج عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن  چکی ہےاور اگر اس ادارے کی ساکھ کو بچانا ہے تو عمران کے منظور نظر کوسپہ سالاری عطاکردو ورنہ اگر عوام بے قابو ہوگئے تو فوج بھی صورتحال پر قابو نہ پاسکے گی


1 comment:

  1. سنگل پوائنٹ ایجنڈا یہی ہے کہ فیض حمید کسی بھی طرح آرمی چیف بن جائے، عوام جائے بھاڑ میں

    ReplyDelete