غزہ میں انسانوں کا ذبیحہ
جمعہ (5 اگست) کی صبح سے غزہ
پر جاری بمباری کا سلسلہ مقامی وقت کے مطابق اتوار رات ساڑٖھے گیارہ (پاکستان پیر
کی صبح 1:30) بجے رک گیا۔ عینی شاہدین کے
مطابق چھ گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری اور جواب میں فلسظینیوں
کی راکٹ بازی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔اہلِ غزہ فلسطینی پرچم لئے جشنِ فتح منارہے ہیں۔ جمعہ سے
پیر کی صبح تک کیا ہوا، اُسے ایک عینی احمد
عرفہ نے کچھ اسطرح بیان کیا
'گھپ اندھیرے میں بم کے
دھماکے، گولوں کی چمک، بچوں اور عورتوں کی چیخیں۔ بس یوں سمجھیں کہ جہنم زمین پر
اتر آئی ہے۔ احمد غزہ وسط شہر کے قریب جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے رہائشی ہیں'
غزہ میں یہ مناظر نئے نہیں،
وحشت کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جس میں خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا
اور یہ ختم ہو بھی کیوں ،کہ معاملہ یکطرفہ ہے۔ قدیم یونانی کھیلوں میں تماشائیوں
کیلئے سب سے دلچسپ 'میچ' وہ ہوتا تھاجب ہاتھ
بندھے قیدیوں اور باغیوں پر مشتمل ٹیم کے مقابلے کیلئے چھروں، نیزوں اور بُغدوں سے
لیس تجربہ کار قصاب میدان میں اتارے جاتے۔ انسانوں کی تکہ بوٹی بنتے دیکھ کر مجمع خوشی سے بے حال ہوجاتا، حتیٰ کہ کچھ تماشائی فرط جذبات
سے بے قابو ہوکر قصابوں کو داد دینے میدان میں اترجاتے۔ فاتح 'کھلاڑیوں' کی میدان سے واپسی پر پنجروں میں بند وحشی جانور چھوڑدئے جاتے جو زندہ رہ جانیوالے خو ن میں ڈوبےجاں بلب
قیدیوں کو بھنبھوڑ اورنوچ کر اپنی بھوک مٹاتے۔ یہاں بھی اسی نوعیت کا ایک 'کھیل' ہورہا
ہے کہ جدید ترین طیارے نہتی آبادی پر خوفناک بم اورمیزائیل برسارہے ہیں۔
غزہ ، بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41
کلومیٹر لمبی خشکی کی ایک پٹی ہے جسکی چوڑائی جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر
ہے۔ قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور ، زمین کے اس ٹکڑے کا کل رقبہ 365 مربع
کلومیٹر ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ
تھا جسے 1918 میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948 میں اسے مصر کے حوالے کردیا
گیا۔ جون 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل
نے صحرائے سینائی کیساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ
اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔ غزہ گنجان علاقہ ہے جہاں 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 20لاکھ نفوس آباد ہیں یعنی 5000 افراد فی مربع کلومیٹر۔غزہ
کی 48 فیصد آبادی 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں 51 فیصد بیروزگار ہیں۔ غزہ کی56 فیصد آبادی خطِ غربت سے
نیچے ہے جسکا گزارہ اقوام متحدہ کے راشن
پر ہے۔
فروری 2006 میں فلسطین کی تاریخ کے
پہلے عام انتخابات ہوئے جنکی نگرانی اقوام متحدہ نے کی۔ اس چناو میں حماس نے 44.45 فیصد ووٹ لیکر 132رکنی قومی اسمبلی کی 74 نشستیں
جیت لیں۔ نتائج امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مصر
اور واشنگٹن کے خلیجی اتحادیوں کیلئے قابل قبول نہ تھے لیکن عوامی امنگوں کا کھلا قتل عام ممکن نہ تھا،
چنانچہ 26 مارچ 2006 کو حماس کے اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی تاریخ کے پہلے منتخب
وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ اپنی پہلی تقریر میں جناب ہانیہ نے الفتح کو
انتخابی رنجشیں بھلا کر ساتھ کام کرنے کی
دعوت دی۔ باوجودیکہ حماس کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، حماس نے نائب
وزیراعظم کا عہدہ الفتح کو پیش کرتے ہوئے مخلوط حکومت قائم کرنے خواہش ظاہر کی، جسے الفتح نے ترنت مسترد کردیا۔
دوسری طرف امریکہ نے فلسطین پر پابندیوں
کو شکنجہ سخت کردیا۔ واشنگٹن کے دباو پر قطر کے سوا تمام عرب ممالک نےفلسطین کی
امداد بند کردی۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہو ں کے کسٹم محصولات کا ایک
حصہ فلسطین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کا وہ حصہ بھی روک لیا۔اسی کیساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ
بندی کردی جسکی حمائت میں مصر نے اپنی جانب کھلنے والے رفح گیٹ کو تالہ لگادیا۔
دوسری طرف حماس اور الفتح میں مسلح تصادم نے
غزہ کو خون میں نہلادیا۔ ان جھڑپوں میں دونو ں جانب کے 600 تجربہ کار مجاہد مارے
گئے۔ بقولِ ااسماعیل ہانیہ اتنے قیمتی مجاہد
اسرائیل نے شہید نہیں کئے جتنے آپس کی لڑائی میں مارے گئے۔لڑائی کا مرکز غزہ تھا
جہاں الفتح کے لوگوں کو خاصہ نقصان پہنچا
اور انکی اکثریت غزہ چھوڑ گئی۔
جون 2007 کو فلسطین کے صدر محمود عباس
نے اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو معزول کردیا۔ اس فیصلے کے بعد مفاہمت کی رہی سہی
امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور فلسطین عملاً
غزہ، مشرقی بیت المقدس اور دریائے اردن کے
مغربی کنارے میں تقسیم ہوگیا۔
اب غزہ عملاً کھلی چھت کا جیل خانہ ہے
جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل اور مصر کی مرضی کے بغیر نہیں جاسکتی۔ پانی کی کمی کی
بناپر غزہ میں زراعت بہت مشکل ہے اور اگر قدرت کی مہربانی سے بروقت بارشوں کے
نتیجے میں فصل اچھی ہوجائے تو اسے اسرائیلی ڈرون یہ الزام لگاکر اجاڑ دیتے کہ یہاں
حماس نے اپنے عسکری تربیت کے مرکز بناررکھے ہیں، اسرائیلی کی جانب 5 کلومیڑ تک کا
علاقہ چٹیل رکھنا ضروری ہے تاکہ پوری پٹی پر نظر رکھی جاسکے۔بہت ہی محدود پیمانے
پر ایندھن کی اجازت ہے جسکی وجہ سے سخت گرمی میں یہاں اٹھارہ گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی
ہے۔غزہ کا ساحل 40 کلومیٹر طویل ہے، لیکن فلسطینیوں
کو ساحل پر جانے کی اجازت نہیں۔ ماہی گیری کی اجازت محدود ہے۔ اسرائیلی بحریہ کہ
جانب سے فلسطینی ماہی گیروں پر تشدد، اور انکی کشتیوں پر قبضہ روزمرہ کامعمول ہے۔غزہ
سے متصل سمندر کو جہاں اللہ نے انواع اقسام کی سمندری حیات سے نوازہ ہے وہیں اسکے پانیوں
کے نیچے گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ بحرِ روم میں کارش (Karish) ، لیویاتھن(Leviathan) اور ثمر
گیس فیلڈ کے تصدیق شدہ ذخائر کا مجموعی حجم 690 ارب مکعب میٹر
(690BCM)
ہے۔
ان میں سے کارش اور ثمر لبنان کی آبی حدود
میں ہیں جبکہ لیویا تھن غزہ سے متصل۔ یورپی یونین سے ہونے والے حالیہ معاہدے
کے تحت ان میدانوں سے گیس مصر پہنچائی جائیگی جہاں اسےLNGمیں تبدیل
کرکے ٹینکروں پر یورپ بھیجا جائیگا۔ خیال ہے کہ اس سودے سے اسرائیل کو 30 کروڑ
ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی۔ یعنی جس علاقے کو خود اقوام متحدہ نے متنازعہ قراردیا
ہے وہاں کا مال یورپی یونین خریدنے کو تیار ہے
مکمل ناکہ بندی کیساتھ ہر کچھ عرصہ بعد غزہ پروحشیانہ بمباری کا سلسلہ
شروع کردیا جاتا ہے اور ااسکا اوسط دورانیہ دس دن ہے ۔ غزہ پر وحشیانہ
بمباری روزمرہ کا معمول ہے لیکن آخری بڑی مہم گزشتہ
سال رمضان کی ستائیسویں شب سے شروع ہوکر 11 دن جاری رہی۔ اس مہم کے دوران اسرائیلی
طیاروں نے سارے غزہ میں بلند بالا عمارتوں کی بنیادوں کو امریکہ کے فراہم کردہ
میزائیلوں سے اس مہارت سے نشانہ بنایا کہ درجنوں
فلک بوس ٹاور مکینوں کو اپنی گود میں لئے
زمیں بوس ہوگئے۔
قتلِ عام کی گزشتہ مہم میں
کتنے فلسطینی تہہِ تیغ ہوئے اسکے حقیقی اعدادوشمار تو شائد کبھی نہ مل سکیں کہ فلک
بوس عمارتوں کےملبے میں زندہ دفن ہونے والوں کی لاشیں تو دور کی بات ان مظلوموں کانام و نشان بھی صرف انکے رب کے علم میں ہے۔ امریکی ایوان بالا
(سینیٹ) سے اپنے خطاب میں سینٹر برنی سینڈرز نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے جو
تفصیلات بیان کیں انکے مطابق غزہ کے دوسو ساٹھ افراد اپنی جان سے گئے جن میں 64
معصوم بچے اور 38 خواتین تھیں۔ ساڑھے تین ہزار افراد زخمی ہوئے۔ سترہ شفاخانے
مسمار کردئے گئے۔ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کےDesalination پلانٹ اور آبنوشی کے ذخائر کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا جسکے نتیجے میں آٹھ
لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے۔ مکانوں کی بربادی سے 72 ہزار افراد
بے گھر ہوئے۔
اس بار مہم کا آغاز 4 اگست کو دریاے اردن کے مغربی کنارے کے شہر
جنین پر اسرائیلی فوج کے دھاوے سے ہوا۔اس دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی
فلسطینی زخمی ہوئے اور ایک رہنما بسام السعدی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس حملے کے
خلاف غزہ میں احتجاج ہوا جس کے جواب میں جمعہ 5 اگست کو صبح سویرے نہتے شہریوں کو
بمبارطیاروں نے نشانے پر رکھ لیا۔ حملے کی پہلی شہید 5 سالہ بچی اعلی القدو م بنی
جسکے پھول سے جسم کے چیٹھڑے اڑگئے۔ ننھی اعلیٰ کے ساتھ 15 چھوٹے بچوں سمیت 44 فراد
جاں بحق ہوئے جن میں القدس
بریگیڈ کے کمانڈر تیسر الجعبری بھی شامل ہیں۔ دو سو سے زیادہ افراد شدید زخمی ہوئے۔ زیادہ تر لوگوں کے جسم جھلسے ہوئے ہیں۔
بمبار طیاروں کے اڑان بھرتے ہی اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے
اپنے امریکی ہم منصب سے فون پر رابطہ کیا اور حسب توقع امریکہ نے اسرائیل کو اپنی مکمل حمائت کا یقاین دلایا۔ امریکی صدر کے ترجما
ن نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے،ساتھ ہی فلسطینیوں کو تحمل کی تلقین کی گئی۔ امریکہ کی
جانب سے غیر مشروط حمائت کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم ٹیلی ویژن پر نمودار
ہوئے اور انھوں نے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ غزہ پر حملے جاری رہیں گے۔ بمباری
کے جواب میں اہل غزہ نے اسرائیلی ٹھکانوں کی طرف راکٹ داغے لیکن اکثر راکٹوں کو امریکہ
کے فراہم کردہ میزائیل شکن نظام Iron Domeنے غیر موثر کردیا۔
دوسرے دن اسرائیلی حملوں
میں شدت آگئی اور بمباری کے ساتھ رہائشی علاقوں پر اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری
شروع کردی۔بجلی گھروں کا تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا اور سارا غزہ تاریکی میں ڈوب گیا۔
شدید گرمی میں بجلی کے معطلی سے صورتحال بدترین ہوگئی۔ اسپتالوں کے آکسیجن پلانٹ
بند ہوگئے اور علاج معالجے کام کام عملاً معطل ہوگیا جبکہ بمباری و گولہ باری سے زخمی ہونے والوں کی ہسپتال
آمد تادم تحریرجاری ہے۔
دوسرے دن کی مہم کا ہدف بلند وبالا عمارتوں کے ساتھ پناہ گزینوں کے
کیمپ تھے۔ غزہ شہر کے قریب جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر حملے میں چھ معصوم بچے جھلس کر مارے گئے۔خان یونس
اور رفاح کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملوں میں معصوم بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ رفاح میں فلسطینی کمانڈر خالد منصور بھی جاں بحق ہوئے۔
عسکری جنگ کیساتھ اسرائیلی فوج کے نفسیاتی حربے بھی جارحانہ تھے۔
بمبار طیاروں پر انتہائی حساس کیمرے نصب
ہیں جو اپنی غارت گری کی عکس بندی بھی کرتے ہیں تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ قوت
قاہرہ نے ان بے اماں لوگوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے
کیلئے اسرائیلی وزارت دفاع یہ تصاویر اشاعت
عام کیلئے جاری کررہی ہے۔اس دوران مغربی میڈیا نے حسب معمول جھوٹ کا بازار گرم
رکھا۔امریکہ کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن ABCنے بہت ڈھٹائی
سے کہا کہ 'اسرائیل سارے غزہ میں عسکری
ٹھکانوں کو نشانہ بنارہا ہے”لیکن اسرائیلی وزارت دفاع کی جاری کردہ
تصاویر نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا۔ بلند بالا رہائشی ٹاوروں میں کون احمق مورچے
بناتا ہے؟
بدترین بمباری اور میڈیا کے ذریعے نفسیاتی جارحیت کے باوجود اہل
غزہ کے حوصلے بلند تھے اور بمباری کے خلاف
انکے راکٹ حملے آخری آخری لمحے تک جاری رہے۔
بموں اور میزائیلوں کی بارش میں شہدا کے جنازے اٹھائے گئے جس میں ہزاروں افراد نے
شرکت کی۔ شہادت ہماری آرزو کے فلگ شگاف نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔
فلسطنیوں کیلئے پریشان کن بات انکی بڑھتی ہوئی سفارتی و سیاسی تنہائی ہے۔ حالیہ درندگی کی ترکی، پاکستان اور
سعودی عرب کے علاوہ کسی اور نے کھل کر مذمت نہیں کی۔ اسی دوران ڈبل یو اور ڈبل آئی کی (UUII) تشکیل کیلئے گفت و شنید جاری رہی۔ یہ ادارہ یونائیٹیڈ اسٹیٹس، یونائیٹیدعرب ایمریٹس
(ڈبل یو) اور اسرائیل، انڈیا (ڈبل آئی) پر مشتمل ہے۔ اس چار رکنی اتحاد کا بینادی مقصد
بحر روم، خلیج عقبہ، بحراحمر اور ِخلیج فارس میں آزاد دنیا یعنی اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہے۔
بہتر گھنٹے کی وحشیانہ بمباری کے دوران
دنیا کیساتھ اقوام متحدہ میں بھی خاموشی رہی۔ عرب لیگ اور او آئی سی نے سلامتی
کونسل کا اجلاس بلانے کا 'زیر لب' مطالبہ لیکن امریکہ کے یقینی ویٹو کی بناپر اجلاس
نہ ہوسکا۔ اب بمباری بظاہر رک گئی ہے لیکن یہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنے سے اسرائیل کو روکنے
کی کوئی ضمانت نہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 اگست 2022
روزنامہ امت کراچی 12 اگست 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 12 اگست 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment