Thursday, May 4, 2023

امریکہ کی اعصاب شکن ۔۔۔۔۔ انتخابی مہم تیزی سے بوڑھے ہوتے چچا سام کی معمر قیادت

 

امریکہ کی اعصاب شکن انتخابی مہم

تیزی  سے بوڑھے ہوتے چچا سام کی معمر قیادت

صدر جو بائیڈن نے دوسری مدت کیلئے انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ منگل 25 اپریل کو صبح جاری ہونے والے سمعی و بصری پیغام میں انکا کہنا تھا کہ چار سال پہلے امریکہ کی خوشی و خوشحالی اور جمہوریت و ملکی سالمیت کا جو منصوبہ انھوں نے پیش کیا تھا اسکی تکمیل کیلئے مزید چار سال درکار ہیں۔ صدر بائیڈن نے 20 جنوری 2021 کو حلف اٹھایا تھا اور انکی مدت جنوی 2025 میں ختم ہورہی ہے۔ نئے صدر کیلئے 5نومبر 2024 کو ووٹ ڈالے جائینگے۔ یہاں انتخابات کی تاریخیں پہلے سے طئے ہیں۔ صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے پیر کے بعد والے منگل کو ہوتے ہیں۔ابھی ان انتخابات کو ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ باقی ہے لیکن انتخابی مہم کا آغاز گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے ہوچکا ہے بلکہ، سابق صدر ٹرمپ نے تو اس سے بھی کافی پہلے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کردیاتھا۔

امریکہ میں ایک درجن سے زیادہ پارٹیاں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں جن میں لبریٹیرین پارٹی، سوشلسٹ ورکرز پارٹی، کمیو نسٹ پارٹی، گرین پارٹی، فلیٹ ارتھ پارٹی وغیرہ شامل ہیں لیکن یہاں عملاً دوپارٹی نظام قائم ہے اور اس بار بھی مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان رہیگا۔

امریکی صدر کی مدتِ چار سال ہے جبکہ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے ارکان 2 برس اور سینٹر 6 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ پانچ نومبر کو صدر و نائب صدر کے ساتھ ایوانِ نمائندگان کی جملہ 435نشستوں کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائنگے۔اسی روز سینیٹ کی 33 نشستوں پر اور11 ریاستوں میں گورنروں کا معرکہ بھی سجے گا۔ دو امریکی کالونیوں، سمووا Samoaاور پورتو ریگو کے گورنروں کا چناو بھی اسی  روز ہوگا۔

آنے والے انتخابات 2020 کی مردم شماری کے بعد ہورہے ہیں جسکی وجہ سے 13 ریاستوں میں ایوان نمائندگان کی  کل نشستوں میں فرق واقع ہوا ہے۔ کولوریڈو، فلورڈا، مونٹانا، شمالی کیرولینا اور اوریگن  ریاستوں کی ایک ایک نشست بڑھ گئی ہے، جبگہ ٹیکسس میں  دو نشستوں کا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب کیلی فورنیا، الی نوائے، مشیگن، نیویارک، اوہایو،  پنسلوانیہ اور مغربی ورجنیا  کی ایک ایک نشست کم ہوگئی۔ ٹیکسس، مغربی ورجنیا اور فلورڈا ریپبلکن پارٹی کے قلعے ہیں۔ اسکے مقابلے میں نیویارک، کیلی فورنیا اور الی نوائے ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ۔

اسوقت 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی تعداد 222 ہے جبکہ 213 نشستوں پر ڈیموکریٹ ارکان براجمان ہیں۔سینیٹ میں  48 ریپبلکن کے مقابلے میں  ڈیموکریٹس کی تعداد 49 ہے۔ تین آزاد ارکان میں سے سینیٹر برنی سینڈرز اور   سینیٹر اینگس کنگ Angus Kingنے خود کو ڈیموکریٹک  پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ سینیٹر کرسٹن سنیما صاحبہ 2018 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئی  تھیں لیکن انھوں نے 2020 کے  اپنی جماعت کو خیرباد کہہ کر آزاد حیثیت اختیار کرلی، انکا نظریاتی جھکاو ریپبلکن پارٹی کی طرف ہے۔ گویا عملی طور پر اس وقت 100 رکنی سینیٹ  میں  ڈیموکریٹس کی تعداد 51 ہے۔

اگلے برس سینیٹ کی جن 33 نشستوں پر انتخابات ہونگے، ان میں سے  20 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور انکے  2 آزاد اتحادیوں کی مدت پوری ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی  اور انکی ایک آزاد  اتحادی سمیت 11 سینیٹروں کی مدت مکمل ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایوان نمائندگان اور سیینٹ  کے مقابلوں میں رہپبلکن کا پلہ بھاری ہے۔

یہاں پارٹی نامزدگی کا پروانہ (ٹکٹ) نہ تو زماں پارک، رائے ونڈ یا بلاول ہاوس سے عطا ہوتا ہے اور نہ ہی پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ بلکہ نامزدگی کیلئے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں جنکا اہتمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔سیاسی جماعت کی رکنیت کیلئے بھی مرکزی مجلس عاملہ یا قیادت کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں اور ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنابہت کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

امریکی انتخاب کے اس تعارف کے بعد اب آتے ہیں پرائمری انتخابات کی طرف کہ یہ اس معرکے کا سب سے اعصاب شکن مرحلہ ہے۔ دونوں پارٹیاں اپنے امیدوار کا انتخاب مرکزی اجتماع میں کرتی ہیں اور ریاستی  یا پرائمری انتخابات میں سالانہ اجتماع کیلئے مندوبین کا چناوہوتا ہے ۔ ہر ریاست سے مندوبین کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں یعنی سالانہ اجتماع میں چھوٹی ریاستوں سے کم اور بڑی ریاستوں سے زیادہ مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ پرائمری انتخابات میں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے انکے مندوبین کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اِس بار ریپبلکن پارٹی کا انتخابی اجتماع 15 تا 18 جولائی ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں منعقد ہوگا جہاں 2467 مندوبین اپنے صدارتی امیدوار کا چناو کرینگے۔ ضابطے کے تحت جیتنے کیلئے کم ازکم پچاس فیصد یا 1234 مندوبین کی حمائت ضروری ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں منتخب مندوبین کے علاوہ پارٹی کے ریاستی سربراہان، پارلیمان کے منتخب نمائندے، سابق صدور و نائب صدور بر بنائے عہدہ مندوب شمار ہوتے ہیں ان لوگوں کو مندوبین اشرافیہ)  (Super Delegatesکہا جاتا ہے یہ اشرافیہ ٹکٹ کیلئے امیدوارکے چناو میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس سال ڈیمو کریٹک پارٹی کے مندوبین کی تعداد 744اشرافیہ کے ساتھ 4514 ہے۔ رائے شماری کے دوران پہلے مرحلے میں عام مندوبین کی رائے لی جائیگی اور اگر کسی بھی امیدوار کو کم از کم 1886 کی حمائت حاصل نہ ہوسکی تو دوسرے مرحلے میں اشرافیہ  بھی ووٹ ڈالنیگے اور اس مرحلے میں کامیابی کیلئے کم از کم  2557 ووٹ درکار ہیں۔امیدوار کے چناو کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی بیٹھک اس بار 12 سے 19 اگست تک شکاگومیں سجے گی۔ پرائمری انتخابات کا مرحلہ اگلے برس فروری سے شروع ہوگر  جولائی تک جاری رہیگا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کیلئے صدر بائیڈن، آنجہانی سینٹر رابرٹ کینیڈی کے صاحبزادے اور سابق صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی جونیر اور ممتاز دانشور محترمہ میرین ولیمسن نے خود کو بطور امیدوار پیش کیا ہے۔

ریپبلکن پارٹی کی جانب سے سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ، ریڈیو میزبان لیری ایلڈر، جنوبی کیرولینا کی سابق گورنر نمرتا سنگھ رندھاوہ المروف نکی ہیلی، ریاست آرکنسا کے سابق گورنر عسیٰ ہچنسن(Asa Hutchinson) ممتاز کاروباری شخصیت وِوِک راماسوامی اپنی خواہش کا سرکاری اعلان کرچکے ہیں۔ اسکے علاوہ فلورڈا کے گورنر ران ڈی سینٹس، سابق نائب صدر مائک پینس اور جنوبی کیرولینا کے سینیٹر ٹم اسکاٹ بھی میدان میں اترنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔

ابھی انتخابات میں کافی وقت باقی ہے لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ صدر بائیڈن کو پارٹی کے ٹکٹ کیلئے کوئی خاص مشکل نہیں ہوگی، دوسری جانب ڈانلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔

اگر ایک بار پھرجناب بائیڈن اور ڈانلڈ ٹرمپ آمنے سامنے آئے تو امریکہ کی سیاسی روایات صدر بائیڈن کے حق میں ہیں، اب تک پہلی مدت کے بعد شکست کھاجانے والے 6 سابق صدور نے انتخابات میں حصہ لیا ہے جن میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ Grover Clevelandکو کامیابی نصیب ہوئی۔ صدر کلیولینڈ 1884میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرادیا۔ 1892 کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔

اگر 2024کا میدان صدربائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ کے درمیان سجا تو یہ 1956 کے بعد پہلا واقعہ ہوگا کہ دوامیدوار پئے در پئے دو بار ایکدوسرے کے سامنے آئے ہیں، 1952 میں ریپبلکن ڈویٹ آئزن ہاور (Dwight Eisenhower)  نے ایڈلائی اسٹیونسن (Adlai Stevenson)کو شکست دی، چار سال بعد 1956 میں یہ دونوں حضرات ایک بار پھرمد مقابل ہوئے  اور جناب اسٹیونسن  دوسری بار بھی ہار گئے۔

صدر بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں جنکی عمر 80 برس ہے اور انکے ممکنہ حریف ڈانلڈ ٹرمپ 76 سال کے ہیں۔گذشتہ ہفتے فاکس ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے رہپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کی خواہشمند محترمہ نکی ہیلی نے کہا کہ 'جو لوگ 2024 میں صدر بائیڈن کو ووٹ دینگے وہ حقیقت میں  کملا دیوی ہیرس کو صدر بنارہے پیں' یعنی صدر بائیڈن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ مدت مکمل کرنے سے پہلے فوت ہوجائینگے اور امریکی آئین کے تحت نائب صدر ہیرس صدارت سنبھال لیں گی۔ ہمارے خیال میں  نکی صاحبہ کا یہ تبصرہ انتہائی غیر شائستہ ہے۔

 انتخابات ڈیڑھ سال دور ہیں، اور پر تولنے والے کئی امیدوار ابھی میدان میں نہیں اُترے، چنانچہ آج کیلئے  یہ ابتدائی گفتگو کافی ہے۔  امیدواروں کی  تقریب رونمائی یا منہہ دکھائی مکمل ہوجانے کے بعد  منشور اور انتخابی حکمت عملی پر  تجزیہ پیش کیا جائیگا، انشااللہ۔ فی الحال تو عشاقانِ لیلےٰاقتدار اور کلیدِ ایوانِ مرمریں کے خواہشمند اپنی مہم کیلئے عطیات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات  میں صدر ٹرمپ کو ایک ارب 96 کروڑ  ڈالر کے عطیات ملے اور جناب جوبائیڈن کے مداحوں نے ایک ارب 69 کروڑ ڈالر انتخابی چندہ دیاتھا۔

ابھی تک صدر بائیڈن کے انتخابی بٹوے میں کوئی بڑا عطیہ نہیں آیا۔ پارٹی ٹکٹ کیلئے انکی حریف محترمہ میرین ولیمسن نے آٹھ لالھ ڈالر جمع کئے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈانلڈ ٹرمپ ایک کروڑ 44 لاکھ ڈالر کیساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔اس میدان میں انکے قریب ترین حریف ویوک راماسوامی ہیں، جنھوں نے ایک کروڑ 14 لاکھ ڈالر جمع کرلئے۔ نکی ہیلی صاحبہ  نے اب تک 51 لاکھ ڈالر انتخابی چندہ وصول کیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 مئی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 5 مئی 2023

روزنامہ امت کراچی 5مئی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 مئی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment