Thursday, May 11, 2023

امریکہ کی عظمیٰ بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

 

امریکہ کی عظمیٰ

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

دنیا بھر کے عدالتی نظام کی درجہ بندی کرنے والے ادارے عالمی پروجیکٹ برائے انصاف (WJP)نے شفافیت کے اعتبار سے امریکہ کے عدالتی نظام کو دنیا بھر میں 26 واں نمبر دیا ہے۔ ہندوستان 77  اور پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں اس ادارے اور درجہ بندی پر اعتبار نہیں کہ WJPکے مطابق ڈنمارک اور ناروے فراہمی انصاف اور تحفظِ انسانی حقوق کے معاملے میں باالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے احترام کا یہ عالم کہ ان دونوں  ملکوں میں خواتین اور طالبات کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت نہیں اور پبلک مقامات پر حجاب قابل سزاجرم ہے۔ ڈنمارک کے ایک سیاستدان Rasmus Paludanنے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کیا۔ یہ قدم سفارتی آداب و رکھ رکھاو کی صریح خلاف ورزی تھی کہ سفیروں کو ہراساں کرنا عالمی قانون کے تحت سنگین جرم ہے لیکن پولیس نے راسمس پلوڈن کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اسکے خلاف مظاہرہ کرنے والے نوجوان کو  عدالت کی توثیق سے ملک بدر کردیاگیا۔ ہندوستان میں اقلیتوں اور مقامی دلتوں (اچھوتوں)کو جس فراوانی سے انصاف مل رہا ہے اس پر تبصرہ غیر ضروری ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، ریاست منی پور میں  بدترین اقلیت کش فسادات جاری ہیں جہاں دو یہودی عبادت گاہیں اور توریت کے ایک قدیم نسخے کو آگ لگادی گئی۔   

ایک غیر ضروری بات سے گفتگو کے آغاز پر معذرت لیکن 'لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی کیا کیجئے'۔ آج کی نشست میں ہم امریکی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ)  کا کچھ ذکر کرینگے کہ بی بی عظمیٰ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

امریکہ کی عدالت عظمیٰ 9 ججوں پر مشتمل ہے جنکا تقرر تاحیات بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بیماری و معمولی معذوری کی صورت میں بھی انھیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگر کوئی کسی اخلاقی جرم میں ملوث ہوجائے تو اور بات ہے۔سینیٹ کی بالادستی امریکی جمہوریت کا سب سے خوبصورت پہلو  ہے کہ اس ادارے میں وفاق کی تمام اکائیاں برابر کی حصہ دارہیں۔ اٹارنی جنرل، کابینہ کے ارکان، فوج کے سربراہ، امریکی سفیروں، انٹیلیجینس اداروں کے سربراہ، وفاقی اور سپریم کورٹ کے جج، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں سمیت تمام اہم تقرریوں کیلئے سنییٹ کی توثیق ضروری ہے۔ ان مناصب کیلئے فرد کا انتخاب صدر کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹ تقرری کو مسترد کرسکتی ہے لیکن یہ ادارہ نیا نام  تجویز  نہیں کرسکتا۔ نامزدگی کا اختیار صدر کو ہے۔

مختلف اداروں کی طرح امریکی سپریم کورٹ پر سیاست اور نظریاتی چھاپ بڑی واضح ہے۔ انتخابی تقریروں  اور نعروں میں صدارتی امیدوار سپریم کورٹ کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کا عزم تو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن  تقرریوں میں نظریاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعیناتی تاعمر ہوتی ہے اس لئے ان نامزدگیوں کے اثرات کئی دہا ئیوں تک قائم رہتے ہیں۔

صدر اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے وقت سپریم کورٹ  4 لبرل،  3 قدامت پسند اور ایک دائیں بازو کی طرف مائل متوازن جج پر مشتمل تھا جبکہ قدامت پسند جج جسٹس اینٹوئن اسکیلیا Antonin Scalia کے انتقال کی وجہ سے ایک نشست خالی تھی۔ فروری 2016 میں جب جسٹس  اسکیلیا کا انتقال ہوا تو سابق صدر اوباما نے میرک گارلینڈ Merrick Garlandکو انکی جگہ نامزد کیا لیکن سینیٹ کے قائدایوان مچ میکونل نے موقف اختیار کیا کہ 7 ماہ بعد صدر اوباما کی آٹھ سالہ مدت صدارت پوری ہونے کو ہے لہٰذا نامزدگی نئے صدر کے انتخابات تک ملتوی کردی جائے۔ سینیٹ میں برتری کے زور پر ریپبلکن پارٹی نے مسٹر گارلینڈ کی نامزدگی پر ایوان کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سامنے معاملہ پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اس وقت دونوں جماعتیں انتخابی مہم میں الجھی ہوئی تھیں لہٰذا معاملہ ٹل گیا اور صدر ٹرمپ ملک کے صدر بن گئے۔ حلف اٹھاتے ہی انھوں نے  قدامت پسند جسٹس نیل گورسچ Neil Gorsuchکو سپریم کورٹ کاجج نامزد کردیا۔

مسٹر گورسچ کے انتہاپسندانہ قدامت پسند روئے کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی نے انکی نامزدگی کی شدید مخالفت کی۔ ضابطے کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی توثیق کیلئے 60 ووٹ درکارتھے جبکہ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے پاس صرف 52 نشستیں تھیں۔ ریپیبلکن پارٹی نے ایک قرارداد کے ذریعے انتخابی ضابطہ تبدیل کرکے جج کی توثیق کیلئے سادہ اکثریت کو کافی ٹہرادیا۔ اکثریت کے بل پر ضابطہ تبدیل کردینے کا عمل امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں Nuclear optionکہلاتا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی پر جوہری بم گرانے کے بعد جسٹس گورسچ کی 45کے مقابلے میں 54 ووٹوں سے توثیق کرالی گئی۔ جسٹس گورسچ کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسند اور لبرل 4:4سے برابراہوگئے جبکہ جسٹس انتھونی کینیڈی دائیں بازو کی طرف مائل معتدل سمجھے جاتے تھے یعنی لبرل اور قدامت پسند معرکے میں جسٹس کینیڈی کے پاس فیصلہ کن یا Swing ووٹ تھا۔

اکتوبر 2018 میں جسٹس کینیڈی مستعفی ہوگئے، صدر ٹرمپ نے انکی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند جج بریٹ کیونا Brett Kavanaugh کو نامزد کردیا اور انکی توثیق کے بعد  بنچ  کا جھکاو 4 کے مقابلے میں 5 سے قدامت پسندوں کی جانب ہوگیا۔ ستمبر 2020 میں لبرل جج ٖ محترمہ  رتھ بدر گنزبرگ کے انتقال پر صدر ٹرمپ نے لوزیانہ سے ایک قدامت پسند جج محترمہ ایمی بیرٹ کا تقرر  کرکے بنچ پر قدامت پسندوں کی گرفت چھ 3 سے فیصلہ کن کردی۔جہاں ججوں کا تقرر  سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر ہوتا ہو ہو وہاں انصاف کی کیا توقع؟

ادھر کچھ دنوں سے امریکی عدالت عظمیٰ کے قاضیوں کے بارے میں سنسنی خیز ا نکشافات ہورہے ہیں۔ ایک انتہائی شرمناک انکشاف تو جسٹس بریٹ کیونا کی توثیق کیلئے سینیٹ کے اجلاس کے دوران ہوا جب جامعہ پالوالٹو Palo Alto کیلی فورنیا میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹین بلیسی فورڈ Christine Blasey Ford نے الزام لگایا کہ ہائی اسکول کی ایک پارٹی کے دوران نشے میں دھت جسٹس کیوانا نے ان پر مجرمانہ حملے کی کوشش کی تھی۔ اسوقت ڈاکٹر صاحبہ کی عمر 17 سال تھی جبکہ جسٹس کیوانا 19 برس کے تھے۔ 34 برس پہلے ہونے والے اس واقعے کا پروفیسر صاحبہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بلکہ انھیں مقام اور تاریخ بھی یاد نہیں۔اس حساس معاملے پر بحث و مباحثے کے دوران کچھ دلچسپ اعدادوشمار سامنے آئے ہیں جسکے مطابق امریکہ میں ایک تہائی خواتین یعنی ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں مجرمانہ حملے یا جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہے۔مجرمانہ حملوں کے 90 فیصد واقعات شرم اور خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کئے جاتے۔

ڈاکٹر فورڈ کے بعد جامعہ ییل Yale Universityمیں انکی ایک اور ہم جماعت محترمہ ڈیبرا رامیریز  Deborah Ramirez نے الزام لگایا کہ جج کیونا زمانہ طالب علمی میں بلانوشی کا شکار تھے اور نشے میں آپے  بلکہ بسا اوقات جامے سے بھی باہر ہو جاتے تھے۔ ایسا ہی انکشاف دورِ طالب علمی میں انکی ایک اور واقف کار محترمہ جولی سویٹنک Julie Swetnick نے کیا۔ جولی نے اپنے وکیل کی معرفت اخبارات کو ایک خط میں بتایا کہ نشے میں دھت ہوکر جسٹس صاحب لڑکیوں سے دست درازی اور نازیبا حرکات کیا کرتے تھے۔ تاہم سینیٹ کی کمیٹی نے ان خواتین کو سماعت کیلئے طلب نہیں کیا۔ اپنی عددی برتری کو فائدہ اٹھاتے ہوئے مجلس قائمہ نے 10 کے مقابلے میں 11 ووٹوں سے اور ایک ہفتے بعد 48:50سے سینیٹ  نے  تقرری کی توثیق کردی۔

اس سال اپریل کے آغاز میں انکشاف ہوا کہ کہ قدامت پسند سیاہ فام جسٹس کلیرنس ٹامس (Clarence Thomas)گزشتہ بیس سال سے بہت ہی شاہانہ طریقے پر تعطیلات منارہے ہیں۔انکا سفر نجی طیارے پر ہوتا ہے، وہ پرتعیش بجرے (Yacht)استعمال کرتے ہیں۔ عالیشان ہوٹلوں کے وسیع و عریض Suitesمیں قیام کرتے ہیں، شاپنگ و خریدرای فراخدلی سے ہوتی ہے اور خوردونوش کا اہتمام بھی انتہائی رئیسانہ نوعیت کا ہے۔ چار سال پہلے جب وہ تفریح وتعطیل کیلئے انڈونیشیا گئے تو سفر و رہائش و خوردونوش کا خرچ پانچ لاکھ ڈالر تھا۔ظاہر ہے کہ یہ مزے سرکاری تنخواہ سے تو ممکن نہیں۔بات بڑھی تو پتہ چلا کہ ٹیکسس Texasکے ایک ارب پتی ہارلن کرو (Harlan Crow)یہ خرچ اٹھارہے ہیں۔ چوہتر سالہ ہارلن ریپبلکن پارٹی کے کرمفرماوں میں سے ہیں اور پارٹی کو اوسطاً ہر سال پچاس لاکھ ڈالر عطیہ دیتے ہیں۔اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارلن کرو نے کہا کہ جسٹس ٹامس میرے بہت عزیز دوست پیں اور دنیا کو معلوم ہے کہ میں دوستوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھے اپنے یاروں کی میزبانی نہ صرف پسند پے بلکہ میں اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں۔ تاہم دوستی بس دوستی ہے، میں نے جج صاحب سے کبھی مقدمات یا عدالتی امور کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

اپریل ہی کے مہینے میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا کہ  سپریم کورٹ کے جج جسٹس گورسچ   نے 40 ایکڑ زمین  قانونی  خدمات فراہم کرنے والے ایک ادارے یاLaw Firm کو فروخت کی۔ جج صاحب وارڈن گروپ کے شراکت دار ہیں، اس ادارے نے  Greenberg Traurig & Duffy(GTD)کو 18 لاکھ ڈالر کے عوض یہ زمین بیچی جس پر 5لاکھ ڈالر کا منافع ہوا۔ کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ زمین کی قیمت بازار سے کافی زیادہ تھی اور یہ سودا جسٹس صاحب کی تقری کے ایک ماہ بعد اکتوبر 2017 میں ہوا۔ GTDکے وکلا گورسچ صاحب کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنو ں ایک اور سنسنی خیر انکشاف ہوا کہ  قاضی القضاۃ  جسٹس جان رابرٹس کی اہلیہ  محترمہ جین  رابرٹس  (Jane Roberts) نے وکلا اور قانونی خدمات  فراہم کرنے والے مشہور ادارے  Major, Lindsey & Africaسے  ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر کمیشن وصول کیا۔ یہ ادارہ مقدمات کیلئے وکلا کی تلاش میں مدد فراہم کرتا ہے۔   جین صاحبہ کی فرم Macrae اور امریکی سپریم کورٹ کے ترجمان نے ایک اندرونی جانکار یا Whistle Blowerکے اس انکشاف پر تبصرے سے انکار کردیا لیکن  قاضی القضاۃ کی خاموشی سے لگتا ہے کہ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔ 'دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ  ہوتی ہے' چینی کہاوت

اسقاط حمل، ہم جنس پرستی یا LGBT،  اسلحہ رکھنے کے شہری حقوق (gun control)، اور ریاستی معاملات میں مذہبی عمل دخل کے حوالے سے  شدید اختلاف کے باوجود خود کو احتساب سے بالاتر رکھنے پر سارا بینچ  یکجان و متحد ہے۔ جسٹس تامس کی پرتعیش تعطیلات کی خبر آنے پر جب قاضی القضاۃ کو کانگریس میں طلب کیا گیا تو موصوف نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ ریاست سے تین آزاد و خود مختار ستون ہیں اور کسی بھی فریق کو دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہئے۔ نظریاتی خلیج کے باوجود تینوں میں سے کسی بھی لبرل جج نے قدامت پسند چیف جسٹس کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔

لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کے قانون ساز عدلیہ کو شتر بے مہار چھوڑ دینے پر تیار نہیں۔، ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ریپبلکن سینیٹر محترمہ لیسا مرکوسکی اور ڈیموکریٹک پارلیمانی پارٹی (Caucus) سے وابستہ آزاد سینیٹر انگس کنگ نے ایک ضابطہ قانون ترتیب دینے کا اعلان کیا ہے جسکے تحت سپریم کورٹ کو اخلاقی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدائت کے ساتھ ان سفارشات پر عملدرآمد، مفادات کے ٹکراو  اور عوامی شکایات کی سماعت کیلئے ایک اہلکار تعینات کیا جائیگا۔

صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا اخلاقی معیارسب سے کم  نہیں ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھتی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 12 مئی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی، 12 مئی 2023

روزنامہ امت کراچی 12 مئی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 مئی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment