جینے کے نئے انداز یا نیا جال
لائے پرانے شکاری؟؟
وزیراعظم
عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا جلد ختم ہونے والی نہیں اور
ہمیں اسکے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لینا چاہئے۔ ایک ہفتہ قبل ایسی ہی بات عالمی
ادارہ صحت کے ماہر متعدی امرض ڈاکٹر مائک رائن نے بھی کی تھی۔ ڈاکٹر
صاحب نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی ٹاسک فورس کے روح روں ڈاکٹر انتھونی فاوچی کے خیال میں ویکسین
کی تیاری کیلئے اٹھارہ ماہ ایک خوش کن
تخمینہ ہے اور چند ماہ بلکہ سال کی تاخیر خار ج ازامکان نہیں۔
ویکسین
کی دریافت کے حوالے سے جو دعوے کئے جارہے ہیں اس پر
سائنسدانوں کے درمیان اختلافات اور تحٖفظات ہیں۔ امریکہ کے مرکز برائے انسدادامراض (CDC)کا خیال ہے کہ دواساز ادارے
ویکسین کی دریافت کے معاملے میں غیر حقیقت پسندانہ دعوے کررہے ہیں۔ تازہ ترین خبر 15
مئی کو شائع ہوئی جب امریکی ریاست کیلی فورناکے دواساز ادارے سورینٹو (Sorrento) نے کرونا وائرس
کے تریاقچے یا antibodyدریافت کرنے کا دعویٰ
کیا۔ ادارے کےسربراہ ڈاکٹرہنری جی کا کہنا ہے کہ انکا دریافت کردہ تریاقچہ اس مرض
سے 100 فیصد تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجوزہ تریاقچے کی ہئیت اور حکمت
عملی کی شاعرانہ انداز میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ 'یہ تریاقچہ وائرس کو بانہوں
میں سمیٹ کی جسم سے باہر نکال دیتا ہے'
چینی نژاد ڈاکٹر جی کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن ابھی انکی ایجاد
کو CDCمیں جانچ پڑتال،
تفتیش اور پھر تصدیق و توثیق کے پل صراط سے گزرنا ہے۔ نجی سطح پر CDCحکام نے ڈاکٹر جی کے
دعوے کو'کمپنی کی مشہوری' کی ایک کوشش قرارادیا ہے۔اس انکشاف سے کمپنی کے حصص کی
قیمتیں 2.62سے بڑھ کر 9 ڈالر ہوگئیں لیکن بازار بندہونے تک یہ قیمت 6.76ڈالر پر واپس آگئی۔ڈاکٹر جی کیلئے کامیابی کی امیدودعا کے
ساتھ یہ وضاحت ضروری کہ ماضی میں گلیاڈ(Gilead)، موڈرنا (Moderna)اور جانس اینڈ جانسن نے بھی کرونا وائرس کی ویکسین دریافت
کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اسی کے ساتھ تائیوان، آسٹریلیا، جرمنی اور چین میں بھی
تریاقچوں کی دریافت میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے لیکن CDC کے خیال میں دلی ہنوز دوراست۔
دوہفتہ
قبل اسرائیل کے سابق وزیردفاع نفتالی بینیٹ Naftali
Bennettنے
کرونا وائرس کی سرکوبی کیلئے تریاقچے کی تیاری کا دعوی کیاتھا۔48 سالہ
نفتالی دائیں بازو کی قدامت پسند یمینیہ پارٹی کے سربراہ ہیں اور وہ نیتھں یا ہو
کی عبوری کابینہ میں وزیردفاع تھے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نیتھن ٰیاہو نے جو نئی
کابینہ تشکیل دی ہے اس میں انھیں کوئی قلمدان نہیں سونپا گیا۔ٹائمز آف اسرائیل کے
مطابق جناب بینیٹ نے اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ برائے حیاتیاتی تحقیق یا Institute
for Biological Research(IBR) میں اس شاندار پیش قدمی کے بنفس نفیس مشاہدے
کے اختتام پر اعلان کیا کہ 'کامیاب تجربات و آزمائش کے بعد یہ ویکسین اب
حصول حق ایجاد یا Patent کے مرحلے میں ہے
جسکے بعد تجارتی بنیادوں پر پیداوار شروع کردی جائیگی'۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے اس
چشم کشا اعلان سے عالمی سطح پرکوئی غیر
معمولی سنسنی نہیں پیدا ہوئی جس سے لگتا ہے کہ مبالغہ آمیزی کی بنا پر دنیا کے
سائنسدان اسرائیلیوں کے اس دعوے کو سنجیدہ لینے پر تیار نہیں۔
ویکسین
کی تلاش کیلئے سرتوڑ کوششوں اور دعووں کے علی الرغم اٹلی کے ایک مایہ ناز
تحقیقی مرکز ماریو نگری انسٹیٹیوٹ آف فارماکولوجیکل ریسرچ (Mario Negri Institute of Pharmacological
Research)کے
ڈائریکٹرGiuseppe
Remuzziنے اس موذی وائرس
کے جلد فنا و معدوم ہوجانے کی نوید سنادی۔ اٹلی کے شہر میلان میں دواوں اور
حیاتیاتی طبیات پرتحقیق کیلئے یہ ادارہ 1961میں ایک فیاض اور انسان
دوست شخصیت ماریو نگری کے گراں قدر عطئے سے قائم ہوا تھا۔71سالہ ماہر
امرض خون ڈاکٹرز
ریمو زی 1440تحقیقاتی مقالوں کے خالق
ہیں۔پرفیسر
ریموزی کا کہنا ہے کہ کرونا کی قوت روز بروز کم ہورہی ہے اور وہ پرامید ہیں کہ
ویکسین کی تیاری سے پہلے ہی دنیاسے یہ بلا کافور ہو جائیگی۔اپنامشاہدہ بیان کرتے
ہوئے پروفیسر صاحب نے کہاکہ کرونا سے متاثر ہونے والے اکثر نئے افراد میں مرض کی شدت
پہلے مریضوں کے مقابلے کم ہورہی ہے اور اٹلی
میں کرونا کے نئے مریضوں کی نسبتاً کم تعداد کو انتہائی نگہداشت (ICU)تک
جانے کی نوبت پیش آرہی ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ موذی اپنی اثر پزیری کھو رہا ہے
اور اگر سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ ویکسین آنے سے پہلے ہی یہ وباقصہ پارینہ بن
جائیگی۔
ایک طرف پروفیسر ریموزی اتنے پرامید تو دوسری جانب حیاتی
طبیات پر جدید تحقیق کیلئے قائم کردہ
امریکی مقتدرہ (BARDA) کے
ماہرِ ویکسین ڈاکٹر رک برائٹ نے گزشتہ ماہ امریکی کانگریس میں توانائی و تجارت کی
ذیلی کمیٹی برائے صحت کے روبرو سماعت کے دوران خدشہ ظاہر کیا کہ اگر سنجیدگی
اختیار نہ کی گئی توکرونا وبا کے امریکہ پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔ اسکا خاتمہ
تو درکنار کرونا پرقابو بھی اب بہت دورکی بات ہے اور یہ کافرہ دسمبر تک امریکیوں
سے زندگی کا خراج وصول کرتی رہیگی۔ ڈاکٹر برائٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ سردیوں میں
متعدی نزلہ و زکام اور کرونا کا خونی امتزاج قیامت برپا کرسکتا ہے یعنی صحت کے
حوالے سے امریکی تاریخ کا تاریک ترین موسم سرماہمارا انتظار کررہاہے۔ سماعت کے
دوران انھوں نےصدر ٹرمپ کے مشوروں کو fakeسائنس قرارادیتے ہوئے کہا کہ صدر کی تجویزکردہ Hydroxychloroquineکرونا مریضوں
کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کو ناکافی قراردیتے
ہوئے کہا کہ حکومت شعبہ صحت اور سائنسدانوں کی گزارشات پر کان دھرنے کو تیار نہیں
اور عوام کو اس ضمن میں لاعلم رکھا جارہا ہے۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے صدر
ٹرمپ نے ڈاکٹر برائٹ کو بصد سامان رسوائی برطرف کردیا۔ گزشتہ ہفتے اپنے طیارے میں
صحافیوں کو برطرفی کی وجہ بتاتے ہوئے امریکی صدر نے کہا 'میں ٖڈاکٹر برائٹ کو نہیں
جانتا، ان سے کبھی ملا ہوں اورنہ ملاقات کی کوئی خواہش ہے۔ کانگریس میں سماعت کے
دوران مجھے وہ سخت غصے میں ایک ناخوش
ملازم نظر آرہے تھےاور لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر برائٹ کی کارکردگی بھی
اچھی نہیں '
CDCکے ڈائریکٹر ڈاکٹر
رابرٹ ریڈ فیلڈ بھی موسم سرما کے دوران کرونا کے دوسرے حملے کا خدشہ ظاہر کررہے
ہیں۔ صدر ٹرمپ نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ریڈ فیلڈ کےبیان پر اپنے ٹویٹ
میں کہا کہ 'فیک میڈیا' نے CDC کے ڈائریکٹر کی گفتگو توڑ
مروڑ کر پیش کی ہے اور انھیں توقع ہے کہ ڈاکٹر ریڈ فیلڈ جلد ہی اسکی وضاحت کرد ینگے
لیکن تین ہفتے گزرجانے کئ باوجود ڈاکٹر صاحب
نے تردیدی یا وضاحتی نوٹ جاری نہیں
کیا۔
لاک
ڈاون کے مسئلے پر بھی ساری دنیا میں رائے عامہ تقسیم ہے۔ بندشیں ختم کرنے کیلئے
سارے امریکہ میں مظاہرے ہورہے ہیں، ریاست وسکونسن کی سپریم کورٹ نے ایک حکم کے
ذریعے لاک ڈاون کے غیر ائینی قراردیدیا ہے۔حال ہی میں اینسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین
ریرچ یا IPORنے پاکستان کے بارے میں جو جائزہ شائع کیاہے اسکے مطابق ایک
تہائی کے قریب شہری لاک ڈاون کو فوری ختم کردینے کا مظالبہ کررہے ہیں۔اس
بندش کی کوکھ سے بھوک و بیروزگاری کا جو خوفناک وائرس جنم لیتا نظر آرہا
ہے۔ اسکی تباہ کاریوں کا تصور ہی اذیت ناک ہے۔لبنان، عراق، سوڈان، تیونس اور
مصر میں 40فیصد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔امیر خلیجی
ممالک کا حال بھی اچھا نہیں کہ کرونا وائرس بہت تیزی سے تیل کی صنعت کو چاٹ
رہا ہے۔
کہا
جارہا ہے کہ کرونا وائرس امیر غریب میں فرق نہیں کرتا لیکن امریکہ کی حد تک
تو یہ بات بہت واضح ہے کہ سیاہ فام اور ہسپانوی اسکا خاص ہدف ہیں۔کچھ
ایسا ہی حال برطانیہ میں ہے جہاں کرونا رنگدار وں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا
ہے دوسری طرف برطانیہ کے ولی عہد ہوں یا وزیر اعظم بورس جانسن، مصر کے جنرل السیسی
ہوں یا اسرائیل کے وزیرصحت سب بہت تیزی سے صحتیاب ہوگئے۔اقتصادیات کے علما کا کہنا
ہے کہ کساد بازاری کا وائرس بھی کرونا کی طرح غریبوں سے امتیازی سلوک
کریگا۔امیروں کیلئے لاک ڈاؤن Paid Vacationہے جس
سے یہ طبقہ رج کے لطف اندوز ہورہا ہے۔ جب بندش ختم ہوگی یہ اپنی نوکریوں اور
کاروبار پر واپس چلے جاینگے ۔ یعنی زندگی ، صحت اور روشن مستقبل سب محفوظ،
جبکہ غریب اگر گھر میں بند رہ کر کرونا وائرس سے بچ بھی گیا تو اسے ایک طویل عرصے
تک قرض، بیروزگاری، محتاجی اور توہین کا عذاب سہنا ہے۔خیراتی اداروں کی اعانت ،اہل
ثروت کی فیاضی، احساس پروگرام، مودی و صدر ٹرمپ کے امدادی پیکیج محض وقتی
راحت کے سامان ہیں۔ گھر کا کرایہ، بجلی پانی کے بل، قرض کی قسطیں، اسکول کی فیس
اور علاج معالجہ کیلئے روزگار ضروری ہے لیکن روزگار کے مواقع
لاک ڈاؤن کی نذر ہوتے نظر آرہے ہیں۔یعنی زندگی کی امید موہوم پر غریب بھوک و بیروزگاری
کی دلدل میں دھنستاجا رہا ہے تاکہ امرا صحت کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔
سماجیات
کے علما کا کہنا ہے کہ جان اور مال کے ساتھ کرونا وائرس عقائد و ایمان کو بھی
نشانہ بنا رہا ہے۔دفتر،دوکان و مدارس کے ساتھ عبادت گاہیں بھی ویران ہیں ۔کعبہ و
کلیسا، مندرودیوار گریہ مقفل ہیں اور کہیں کہیں حاشیہ خیال میں عقائد بھی لرزتے
محسوس ہورہے ہیں۔لیکن رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس آزمائش سے لوگوں کا
خدا پر ایمان مضبوط ہوا ہے۔ حال میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے
ادارے Pew
Research Centerنے کرونا وائرس کے عقائد پر اثرات کے حوالے سے ایک
جائزہ شائع کیا ہے۔اس دوران صرف امریکی مسیحیوں اور یہودیوں کی رائے لی گئی ہے اسلئے
یہ کہنا مشکل ہے کہ کرونا مسلمانوں کے عقائد و ایمان پر کیا اثر ڈال رہاہے۔ جائزے
کے مطابق، اس آفت نے 24فیصد مسیحیوں کے خدا پر ایمان کو مزید مستحتکم کردیادو فیصد
افراد کا ایمان متزلزل ہوگیاجبکہ26فیصد افراد نے کہا کہ انکو مذہب سے پہلے
بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ امریکی یہودیوں کے عقائد کرونا سے متاثر
ہوتےنظرنہیں آتےصرف سات فیصد یہودیوں کا خیال ہے کہ اس آزمائش سے انکا ایمان مزید
راسخ ہوگیا اور 69فیصد امریکی یہودیوں کے ایمان پر کرونا وائرس نے مثبت یا
منفی کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ڈالا جبکہ 22فیصد یہودی مذہب کو اتنا اہم سمجھتے ہی نہیں کہ اس بات پر غور بھی کریں۔
کرونا
وائرس نے جہاں دنیا بھر کے انسانوں کا چین و سکون غارت کر رکھا ہے وہں جباران عالم
کیلئے یہ وبا نعمت سے کم نہیں ۔ انسداد وبا کے نام پرنسل پرستوں اور
اپنی ہی قوم کو غلام بنالینے والوں نے تمام اختیارات کو اپنی ذات میں سکیڑ
لیا ہے۔ جہاں مستحکم جمہوری اقدار کی بنا پر ایسا کرنا ممکن نہیں وہاں حالات سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے نسل پرست و تنگ نظر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری ہےصدر
ٹرمپ نے کرونا کے نام پر قانونی ایمیگریشن 3ماہ کیلئے معطل کردی ہے خیال
ہے کہ 90 دن مکمل ہونے پر ایمیگریشن کو مرحلہ وار یورپ، اسرائیل، نیوزی لینڈ،
کینیڈا اور آسٹریلیا کیلئے کھول دیا جائیگا۔اب ایشیائیوں اور افریقیوں پر امریکہ کے
دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اور بن نے اپنی پارلیمان سے
جملہ اختیارات حاصل کرلئے ہیں جسکے تحت وہ کرونا وائرس کے متعلق جھوٹی خبر نشر یا
شائع کرنے کے الزام میں کسی بھی صحافی کو گرفتار اور اخبار و ٹی وی کو بند کرسکتے
ہیں۔ انکے فیصلے کے خلاف کسی بھی عدالت کو دادرسی کا اختیار نہیں۔کچھ ایسے ہی
اختیارات مصر کے جنرل السیسی نے بھی حاصل
کرلئے جسکےتحت پولیس کسی بھی گھر میں گھس کر تمام لوگوں کو
کرونا وائرس کے اچانک ٹیسٹ پر مجبور کرسکتی
ہے۔ مثبت ٹیسٹ والے افراد وائرس پھیلانے
کے الزام میں گرفتار کرلئے جائنگے
گھروں
کے اندر کسی قسم کی نشست کے شبہے میں پولیس اہل خانہ کو گرفتار کرسکتی ہے۔سراغرساں
اداروں کو شک ہے کہ اخوان محلوں کی روائتی اجتماعی افطار کے دوران درس قرآن کی
نشستیں سجارہے ہیں۔ اس کی آڑ میں مظاہروں اورسیاسی جلسوں کے خلاف بھی اب انسداد
کرونا قوانین کے تحت کاروائی ہوگی جسے کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکتا
اب
آتے ہیں new
normalکی طرف۔ یہ ڈاکٹر انتھونی فاوچی کی وضع کردہ اصطلاح ہے
جو درحقیقت کرونا کے ساتھ جینے کی رسومات اور اور نئے رکھ رکھاو کا تعارف ہے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ
اظہار محبت و گرمجوشی کیلئے مصافحہ و معانقہ کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔ اب محبوب
کوپہلو بلکہ سینے سے لگانے کے بجائے6 فٹ دور رکھنا دونوں کی زندگی کیلئے ضروری ہے۔
بچوں اور پیاروں کو چھونے، سہلانے اور چومنے کی عادت بھی ترک کرنی ہوگی۔ یہ کرونا
کی دنیا کا نیامعاشرتی رکھ رکھاو یا new
normal ہوگا
'۔ ماہرین طب اور متعدی امراض کے ماہرین کہہ
رہے ہیں کہ new normalصرف انفرادی
معاملے تک محدود نہیں رہیگا بلکہ اب ریستوران، سنیماگھر، کھیل کے میدان ، اسکول، بس
، ریلوے اور ہوائی اڈوں پر سماجی فاصلے کے
نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے نشستوں، کاونٹرز اور دوسری تنصیبات میں مناسب ترمیمات
کرنی ہوگی، دفاتر کو بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ بس، ریل اور جہازپر سفر
کرنے والوں کیلئے رکھ رکھاو کے نئے ضابطےترتیب دیئے جائینگے۔یوں سمجھئے کہ
جیسے نائن الیون کے بعد فضائی سفر کے اطوار بدل جانے کیساتھ ساری
دنیا میں شہری و انفرادی آزادیاں قصہ پارینہ بن گئیں کچھ اسی نوعیت کی تبدیلی COVID-19کی
زنبیل میں موجود ہے۔ آجکل ایک موہوم سے شک پرآپکو جہاز سے اتارا جاسکتاہے یا دہشت
گردی کے شبہے میں سیکیورٹی اہلکار کے ہاتھوں کسی شخص کی گرفتاری بلکہ ہلاکت بھی
کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں اسی طرح اب ہلکے سےبخاریاکھانسی پر آپ مشکوک سمجھے
جاسکتے ہیں۔ویکسین کے بازار میں آنے کے بعد ہر مسافر کو ویکسین کا صداقت نامہ
جیب میں رکھنا ہوگا اور کرونا پھیلانے کی غیرارادی کوشش بھی قابل دست اندازی
پولیس قرار پائیگی۔اس سلسلے میں قانون سازی پر سوچ و بچار بھی شروع ہوگئی ہے۔
14
مئی کو آسٹریا کے چانسلر سباسشین کرزSebastian
Kurtz کی
دعوت پر سات ملکوں کا آن لائن سربراہی اجلاس ہوا جس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم
اسکاٹ موریسن،نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسنڈاآڑدرن، ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ
ریڈرکسن Mette Fredrickson،
یونان کے وزیراعظم کراکس مٹسوٹاکس Kyriakos Mitsotakis،
چیکوسلاواکیہ کے وزیراعظم آندرے بابس Andrej Babisاور اسرائیلی
وزیراعظم بنیامین نیتھن یاہو المعروف بی بی نے شرکت کی۔ وال اسٹریٹ جرنل
کے مطابق ان رہنماوں کی ویڈیو لنک بیٹھک دوہفتہ پہلے بھی ہوچکی ہے۔ حالیہ
اجلاس میں کرونا وائرس کے حوالے سے ان ممالک
کے درمیان 'محفوظ پرواز معاہدے' پر غور کیا گیا۔ان ساتوں رہنماوں کا خیال ہے کہ ان
کے یہاں کرونا وائرس کا سد باب بہت ہی موثر انداز میں کیاگیا ہے اور
ان سب کو COVID-19کے حوالے سے محفوظ
ترین ملک ہونے کا دعویٰ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے شرکا کو
انسداد وبا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آگاہ کیا اور 'محفوظ پروازمعاہدے'
کی تفصیلات و لوازمات پرغور کیا گیا۔
بی
بی نے ایک اسرائیلی کمپنی کے تیار کردہ Moovit Appکے بارے میں بتایا
جسکے ذریعے 102 ملکوں کے 3100 شہروں میں 80 کروڑ مسافروں پر نظر رکھی جاسکتی
ہے۔گزشتہ دنوں 90 کروڑ ڈالر کے عوض یہ Applicationامریکی
کمپنی Intel
نے
خریدلی ہے۔Intelاس سے
پہلے اسی نوعیت کی ایک اور اسرائیلی کمپنی Mobileyeبھی
خرید چکی ہے۔اجلاس میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے ان ممالک نے بین
الاقوامی پروازیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور باہر سے آنے والوں کی
تیزترین اور شفاف جانچ پڑتال کے نظام پر غور کیا گیا۔ اجلاس
میں سیاحت کی صنعت کےتحفظ اور آمدورفت محفوظ بنانے کیلئے کوششیں اور جستجو تیز کرنے کیلئے مزید اجلاس منعقد کرنے
کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران مسافروں میں کرونا وائرس
کی موجودگی کی نشاندہی کیلئے اسرائیلی کی
سائبر سیکیورٹی اتھارٹی سے استفادہ کیا جائیگا۔اسرائیل اور آسٹریا کے درمیان
سراغرسانی خدمات کیلئے قریبی تعلقات ہیں اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے وبا کے
دوران طبی مدد اور احتیاطی سامان کے ساتھ آسٹریا کو مرض کے پھیلاو پر
نظر رکھنے کیلئے monitoringکی
جدید سہولتیں فراہم کی تھیں۔ خیال ہے کہ سات کے اس گروپ کو وسعت
دی جائیگی اور یورپ و ایشیا کے مزید ممالک کو شامل کرکے ایک
عالمی Travel
Databaseمرتب
کیا جائیگا۔اس ڈیٹا بیس میں مسافروں کے ویکسین کا ریکارڈ، امراض
(فشارخون، ذیابطیس، دمہ وغیرہ)کی نشاندہی، عمومی صحت سے متعلق معلومات، ماضی
قریب میں کئے جانیوالے سفر ونقل و حمل کی تفصیلات درج ہونگی۔ خیال رہے کہ
ڈیٹا بیس میں صرف ان ممالک کے شہری ہی نہیں بلکہ وہاں جانے والے غیر ملکیوں سے متعلق
بھی تمام معلومات اکھٹی کی جاینگی۔
اسرائیلی وزیراعظم نے حال ہی میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی Shin Betکو موبائل فون سے
صارفین کی مکمل معلومات حاصل کرنے کا اختیار دے دیاہے۔ بادی النظر میں تو یہ کرونا
کے پھیلاو کے روکنے کیلئے تمام شہریوں اور سیاحوں کو بروقت خبردار کرنے کی ایک
کوشش ہے۔ تمام صارفین کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ اپنے مکمل کوائف موبائل فون میں
محفوظ رکھیں جس میں کروناسمیت صحت سے متعلق تمام ٹسٹ کے نتائج شامل ہیں۔ اس App کے ذریعےموبائل
فون کے مقام کی نگرانی کی جائیگی اور اگر صارف کےقریب کسی بھی ایسے شخص کو پایا
گیا جو کرونا سے متاثر ہے تو SMSکے ذریعے فوراً وہاں سے ہٹ جانے اورمتاثرہ شخص کو وہاں
سےدور چلےجانے کی ہدائت کی جائیگی۔اگر یہ محسوس کیا گیا کہ صارف اور مشکوک شخص
اتنے قریب اور اتنی دیر ساتھ رہے ہیں جس
سے وائرس کی منتقلی کا خطرہ ہے تو صاٖرف
کو قرنطینہ روانگی کی ہدائت کی جائیگی۔ حکم عدولی قابل دخل اندازی پولیس ہوگی۔
فلسطینیوں
کو شکائت ہے کہ Shin
Bet کرونا وائرس کی آڑ میں انکی کی نقل و حرکت کا مکمل ڈیٹا جمع کررہی۔ سات ملکی معاہدہ کے تحت ان ممالک کے درمیان شہریوں اور
وہاں آنے والے غیر ملکیوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوگا۔ اسdata baseکی نگرانی اسرائیلی
سائبر سیکیورٹی کریگی۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا،دریافت کے بعد
ہوائی سفر کیلئے ویکسین کا صداقت نامہ دکھانا لازمی قرارپائیگا اور ایسا لگ رہا ہے
کہ اس تریاق پر ایک یا دو ملکوں کی اجارہ داری ہوگی جسکے منہ مانگے
دام میں چھوٹی اقوام کو اپنی آزادی کے ساتھ امنگوں اور خوابوں کو بھی گروی رکھنا
پڑیگا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 22مئی
2020
No comments:
Post a Comment