کرونا وائرس! امریکہ چین کشیدگی
کرونا
وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں۔قطبِ جنوبی پر منجمد قطع ارض یا انٹارکٹیکا
Antarcticaکے سوا دنیاکا کوئی حصہ اس نامراد وائرس
محفوظ نہیں۔کیا امیر و کیا غریب ساری دنیا اس کے چنگل میں ہے اور انسانی حیات کے
ساتھ اسباب حیات کو بھی اس موذی نے غارت کردیا ہے۔
وبا کے
آغاز سے ہی اس فتنہ پرور کی 'شان نزول' اور جائے ولادت پر گفتگو ہورہی ہے۔ نظریہ
سازش پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے
اور چودھراہٹ و کشور کشائی کے منحوس شوق
نے دنیا کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اس امکان پر بھی بحث جاری ہے کہ یہ وبا بلکہ
قیامت صغریٰ حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon)کے ناکام تجربے یا
تیاری کے دوران ایک حادثے کا شاخسانہ ہے۔ تادم تحری اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت
یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی محکمہ سراغرسانی نے جو
رپورٹ جمع کرائی ہے اسکے مطابق کرونا وائرس کی
تغیر پزیری (Mutation) فطری نوعیت کی ہے جس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ اسکی جنم بھومی لیبارٹری نہیں۔ یہی مشاہدہ عالم ادارہ صحت کا بھی ہے۔
کرونا وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار کی بحث تو اب ختم ہوتی
نظر آرہی ہے لیکن اسکے پھیلاو کے حوالے سے امریکہ
اور چین کے درمیان بیان بازی کی ایک خوفناک جنگ چھڑ چکی ہے
جسے دھمکیوں کا تڑکہ لگاکر صدر ٹرمپ نے دوآتشہ کردیا ہے۔ چین کے خلاف امریکی صدر
کے آتشیں بیا نئے کو انکے مخالفین صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دے رہے
ہیں۔ قارئین کو یقیناً علم ہوگا کہ 3 نومبر کو امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں جب
صدر کے ساتھ مقننہ، کئی ریاستوں میں گورنر اور مقامی قیادت کا چناو بھی ہوگا۔ صدر
ٹرمپ کیلئے صدارتی انتخاب کے ساتھ کانگریس میں واضح برتری بھی ضروری ہے تاکہ وہ
قوم پرست و قدامت پسند ایجنڈے پر جارحانہ
پیشقدمی جاری رکھ سکیں۔ یہاں صدارت چونکہ دو مدتوں تک محدود ہے اسلئے ' فکر
عاقبت' سے بے نیازی امریکی صدرور کو انکی دوسری مدت میں خاصہ بیباک بنادیتی ہے۔ اور اس مرحلے پراگر
مقننہ بھی موافق مل جائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔
کرونا
وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ داخلی محاذ پر کسی حد تک دفاعی پوزیشن میں ہیں۔انکے
مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ اس مفروضے پر معاملے
کو ٹالتے رہے کہ کرونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی
ٹیلی ویژن چینل 12 کا انکشاف انتہائی سنسنی خیز ہے۔ اپریل کی 16 تاریخ کو مذکورہ
ٹیلی ویژن نے بتایا کہ امریکہ کی عسکری خفیہ ایجنسیوں کو نومبر کے دوسرے ہفتے میں
ووہان (چین) سے وبا کے آغاز کا اندازہ ہوچکا تھا۔بیماری پھوٹ پڑنے کی
خبر اسوقت تک عام نہیں ہوئی تھی لیکن چین کو اسکے بارے میں علم تھا۔امریکی
ایجنسیوں نے مبینہ طور پر اسکے بارے میں
صدرٹرمپ کو بتادیا لیکن امریکی صدر نے اس خبر کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسی کیساتھ
امریکیوں نے اپنے دومعتمد عسکری اتحادیوں یعنی نیٹو NATOاور
اسرائیلی مسلح افواج (IDF)کوبھی متوقع خطرے سے مطلع کردیا۔ اسرائیل کی عسکری
قیادت نے نومبر ہی سے علاقے (مشرق وسطیٰ) میں اس وبا کے ممکنہ پھیلاوکا
جائزہ لینا شروع کردیاتھااسرائیلی فوج نے ممکنہ وبا کے بارے میں اسرائیلی
حکومت خاص طور سے وزارت صحت کوبھی مطلع بلکہ متنبہ کیا لیکن صدر ٹرمپ کی طرح
اسرائیل کی سیاسی قیادت نے بھی پانی سر سے اونچا ہونے تک کسی قسم کے حفاظتی
اقدامات نہیں کئے ۔ کچھ اسی قسم کا رویہ یورپی حکومتوں کا بھی رہا۔مستعد و ہردم
چوکنا رہنے والے ممالک کی جانب سے یہ ٖغفلت کچھ عجیب سی محسوس ہورہی ہے۔
اب ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی دباو سے نکلنے کیئے صدر ٹرمپ
معاملے کا رخ چین کی طرف موڑنے کی کوشش کررہے پیں۔ شروع میں انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس
ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات (Virology) میں
تولد ہوا اورچینیوں کی نالائقی سے leakہوگیا۔ انھیں شکوہ
ہے کہ چین نے وائرس کے اثرات کو محدود
رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اسکے پھیلاو سے امریکہ کو جان کر لاعلم
رکھا گیا۔اسکی وجہ انکے خیال میں چین کی یہ خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ دوسری مدت کا انتخاب نہ جیت سکیں۔
گزشتہ
چند ہفتوں سے چین کے خلاف صدرٹرمپ اور انکے ساتھیوں کا رویہ خاصہ جارحانہ ہوگیا ہے
اور معاملہ صرف امریکی حکومت تک محدود نہیں۔ یورپی رہنما بھی کرونا وائرس کی
پھیلاو کے باب میں چینی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے شاکی ہیں۔ فرانس کے صدر ایمیونل میکران نے کہاکہ پھیلاو کے معاملے
میں چین نے شفاف انداز میں اعدادوشمار جاری نہیں کئے، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کر رہے ہیں۔
اس
معاملے پر 30 اپریل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی غور کیا گیا۔ اقوام
متحدہ کے صحافتی ذرایع کاکہتا ہے کہ اجلاس کے دوران امریکہ اور چین کے مندوبین وائرس کے نقطہ آغاز
پر بحث کرتے رہے۔ برطانیہ اور فرانس کے سفارت کاروں نے اس حوالے سے سلامتی کونسل کی عدم دلچسپی بلکہ سرد مہری کو
تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس
کے بعد کونسل کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران کرونا وائرس کے پھیلاو سے
متعلق سلامتی کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ چین نے کسی بھی قدم کی مخالفت کرتے ہوئے
وائرس کے معاملے کو سلامتی کونسل کےدائرہ
اختیار سے باہر قراردیا جبکہ امریکہ کی جانب سے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ
کرونا وائرس سے متعلق کونسل کے اعلانات میں مقامِ ولادت کے طور پر چین کا حوالہ ضروری
ہے۔
سیاسی رہنماوں کے ساتھ یورپ کے اخبارو جرائد میں بھی چین کے
خلاف مضامین شایع ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمن اخبار Bildنے اپنے ادارئے میں کرونا وائرس کئ پھیلاو کا چین پر الزام
لگاتے ہوئے جرمنی کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے 130ارب یورو ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمن اخبار کا ذکر کرتے ہوئے
29 اپریل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس سے کئی
گنا زیادہ رقم کی بات کر رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ابھی امریکہ نے حتمی رقم کا
تعین نہیں کیا۔ البتہ اس پر سوچ بچار جاری ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ اگر یہ ایک
غلطی تھی تو چین کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہئےلیکن اگر ایسا جان بوجھ کر کیا گیا
ہے تو بیجنگ کو اس کے نتائج بھگتنا ہونگے۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ مبہم سی دھمکی بھی دے
گئے کہ انکے پاس ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں۔
3 مئی
کو امریکی ٹیلی ویژن ABCسے باتیں کرتے ہوئے امریکہ کے وزیرخارجہ وزیر
خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ چین ایک عرصے سے دنیا
میں سمی آلودگی یا infectionپھیلارہا ہے اور وہاں بہت سے غیر معیاری تجربہ خانے موجود ہیں۔ وزیر
خارجہ نے کہا کہ بہت سے شواہد کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ
وائرس ووہان کی تجربہ گاہ سے نکلا جہاں چمگادڑوں میں اس وائرس کی موجودگی پر تحقیق
ہو رہی تھی۔ انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی
ان رپورٹوں سے اتفاق کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس مصنوعی نہیں بلکہ فطری
ہے لیکن وہ اس امکان کو مسترد کرنے کو تیار نہیں کہ اسکی ولادت ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات میں
ہوئی ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے چین پر الزام لگایا کہ کرونا وائرس کے
پھیلاوکے بارے میں دنیا کو تاخیر سے بتایاگیا۔ اگر یہ معلومات بروقت فراہم کردی
جاتی تو بہت سی انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ چین نے عالمی
ادارہ صحت کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔جناب پومپیو نے کہا کہ امریکی یا دوسرے
ممالک کے ماہرین کو ووہان لیبارٹری جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی چین نے وائرس کا نمونہ فراہم کیا۔ چین یہ بتانے کو بھی تیار نہیں کہ کرونا وائرس نے کہاں جنم لیاہے۔
جناب پومپیو نے کہا کہ
صدر ٹرمپ ذمہ داروں کے احتساب کیلئے پرعزم ہیں۔
دوسرے دن امریکی وزارت داخلی سلامتی (DHS)نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ جنوری میں وباکے زور
پکڑ جانے کے باوجود چین سے اسکی سنگینی پر پردہ ڈالے رکھا اور بیجنگ یہ تاثر
دیتارہا ہے کہ یہ ایک موسمیاتی اور معمولی و محدود علاقائی وائرس ہے۔اسی کے ساتھ
چین نے ماسک، حفاطتی لباس، وینٹی لیٹر
اوروبا سے نبٹنے کیلئے ضروری سامان کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ نہ صرف چینی
کارخانوں کو ان سامان کی برآمد سے منع کردیا گیا گیا بلکہ امریکہ، یورپ اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک سے یہ
سامان بڑی تعداد میں درآمد کیا گیا۔
تندو
تیز بیانات کے علی الرغم چین امریکہ تجارت
اب بھی صدر ٹرمپ کی ترجٰیحات میں شامل
ہے۔جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان زراعت سے متعلق اس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت
چین نے امریکہ سے کئی ارب ڈالر کی غذائی اجناس، دودھ اور جانوروں کے گوشت خریدنے
کا وعدہ کیا تھا۔اس جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ حالیہ تناعے سے پہلے چین اور امریکہ
کے تعلقات بہتر ہو چکے تھے پھر اچانک یہ سب کیوں ہوگیا؟ سیاسی مبصرین کا خیال ہے
کہ امریکی صدر 'غلطی سے وبا کے پھیلنے' اور 'جان بوجھ کر پھیلانے' کے امکانات کو الگ الگ رکھ کر واپسی کا
راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بہت
صراحت سے کہا کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سےالزام تراشی پر افسوس
کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کومشورہ دیا کہ وہ وائرس پر قابو پا نے میں ناکامی کا
ملبہ چین پر گرانے کے بجائے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ بیجنگ اس آفت سے نمٹنے
کیلئے مدد فراہم کرنے کو تیار ہے اور اس مرحلے پر منفی بیانات کسی کے مفاد میں
نہیں۔
ہلاکتوں
کے اعدادوشمار کے بارے میں چینی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کیاکہ ابتدائی اعداد
و شمار میں بعض نقائص تھے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئ ترجمان نے کہا کہ آفت کے آغاز پر
اسپتالوں میں محدود جگہ اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے رابطوں کا فقدان تھا۔
اس بناپر ہلاکتوں کی تعداد صحیح طور پر مرتب نہیں کی
جاسکی ۔مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد نظر ثانی شدہ اعداد و شمار جاری کردئے گئے
ہیں۔بیجنگ نے ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کی
کوئی کوشش نہیں کی اور نہ چینی حکومت کو
اسکی ضرورت تھی۔
6 مئی
کو امریکی وزیرخارجہ کے الزامات کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہواچون
ینگ (Hua Chunying)نے اس معاملے پر
داخلی سیاسی مفادات کے لئے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کے بجائےطبی ماہرین اور
سائنسدانوں سے رائے لینے کی ضرورت پر زوردیا۔ ترجمان نے کہا کہ جناب پومپیو اس معاملے
پر باربار اور بلا تکان بول رہے ہیں لیکن اب تک انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا
جس سے صاٖف ظاہر ہے کہ انکے پاس کوئی ٹھوش شواہد موجود ہی نہیں۔
امریکہ
کی کئی عدالتوں میں متاثرین نے چین کے خلاف نجی استغاثے دائر کردئے ہیں۔ ان
درخواستوں میں کہا گیا ہےکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس ووہان کے مچھلی بازار سے پھیلا ہےجہاں گوشت،
مچھلیاں اور سبزی کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازار میں حفظان صحت کے ضابطوں کا
نفاذ چینی حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں بیجنگ ناکام رہا۔ اس غلطی سے کرونا وائرس
پھیلا جس نے سائلین کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر چین نے خوراک کے حوالے سے مناسب
قوانین نافذ کئے ہوتے تو وائرس نہ پھیلتا۔چنانچہ چینی حکومت کا اس نقصان کے ازالے
کا حکم دیا جائے۔ خیال ہے کہ ان درخواستوں میں ہرجانے کے جو دعوے کئے جارہے ہیں
انکا مجموعی حجم 2000 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی
عدالت کا فیصلہ چین کیلئے قابل قبول نہ ہوگا اور اسکے لئے عالمی ادارہ صحت سے رجوع
کر نے ضرورت ہے۔
عالمی
ادارہ صحت کے ڈائریکٹر مائیکل ریان کہہ
چکے ہیں کہ امریکی حکومت نے ایسے کوئی شواہد نہیں فراہم کئے جس سے اس دعوے کو
تقویت مل سکے کہ کرونا وائرس چین کی لیبارٹری سے پھوٹا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے
کہ کرونا وائرس جانوروں سے انسان میں منتقل ہوا اور یہ ممکنہ طور پر چین کی اس
مارکیٹ سے پھیلا ہے جہاں جنگلی جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا تھا۔ صحت کی ماہر صحت
ماریا وین کرکوف نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے 15 ہزار ڈی این اے کا مطالعہ
کرنے کے بعد انکی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ ایک قدرتی وائرس ہے۔ماریا وین
اور مائیکل ریان دونوں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس چمگادڑ میں پایا گیا ہے، یعنی یہ مصنوعی نہیں۔
ساتھ
ہی عالمی ادارہ صحت کے ماہرین وبا کے مقابلےکے لیے دنیا کی دو بڑی
معیشتوں کے درمیان تعاون پر زور دے رہے
ہیں۔ WHOکا کہنا ہے کہ اس عالمی آفت سے نمٹنے کیلئے ساری دنیا میں
مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور اس موقع پر انگشت نمائی اور الزام تراشی سے وبا کے
خلاف کوششوں پر منفی اثر پڑیگا۔ لیکن امریکی حکومت یہ مشورہ ماننے کو تیار نہیں
اور صدر ٹرمپ یہ کہہ کر عالمی ادارہ صحت کی امداد معطل کرچکے ہیں کہ ادارہ چین کا طرف دار ہے۔ دنیا کی دو بڑی قوتوں کے
درمیان کشیدگی عالمی امن کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں لیکن مشترکہ تجارتی مفادات کے
تناظر میں معاملہ بیانات اور حد سے حد مقدمہ بازی تک ہی محدود رہتا نظر آرہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت دہلی 17 مئی
2020
No comments:
Post a Comment