سیاہ و سفید کا جھگڑا
آپ نے لیبیا کے موضوع پر ہماری کوئی پوسٹ ملاحظہ فرمائی
ہونگی۔ بہت سے احباب نے دریافت کیا ہے کہ فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کے پاس ایسی کونسی
گیڈر سنگھی ہے کہ فرانس، روس، اسرائیل، مصر،شام، یونان ، متحدہ عرب امارات اور
سعودی عرب سب انکے دیوانے ہیں۔
اسکو مختصر ترین
الفاظ میں اسطرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ سیاہ وسفید یعنی بحر اسود اور بحرابیض
(روم) پر کنٹرول کا معاملہ ہے۔ یورپی ممالک
کی معیشت کیلئے بحر روم و بحر اسود ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسے سمجھنے
کیلئےعلاقے کی جغرافیہ کا ایک مختصر سا جائزہ قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
بحر اسود، یوکرین،
جارجیا، رومانیا اور بلغاریہ کیلئے بحری نقل وحمل کا واحد ذریعہ ہے مگر مشکل یہ ہے
کہ یہ سمندر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہواہے اور کھلے سمندر تک اسکی رسائی نہیں۔
استنبول کے قریب آبنائے باسفورس اسے بحر مرمارا سے ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی تنگ ترین
آبنائے ہے جسکی چوڑائی صرف سات سو میٹر ہے۔ بحر مرمارا بھی خشکیوں سے گھرا سمندر
ہے جسے ترک نہر استنبول کہتے ہیں۔ بحر
مرمارا دراصل ایشیا اور یورپ کی سرحد ہے۔ آبنائے ڈرڈانیلس (Dardanelles Strait) بحر مرمارا کو
خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔گویا سارا مشرقی یورپ آبی نقل و حمل
کیلئے ترکی کا محتاج ہے جسکی حدود میں واقع دو آبنائے بحر اسود کو بحر روم تک
رسائی دیتی ہیں۔ یہ راستے اسقدر تنگ ہیں کہ انھیں بند کردینا بہت مشکل نہیں اور
دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی آبنائے باسفورس کو بند کرنے کی دھمکی دیکر روس کو
ملک پر بمباری سے باز رکھ چکا ہے۔
آب آتے ہیں بحر روم کی طرف تو یہ بھی اپنی وسعتوں کے باوجود
خشکیوں سے گھرا ہوا ہے اور یہا ں سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں ایک مراکش اور
اسپین کے درمیان آبنائے جبل الطارق جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتی ہے اور
دوسراراستہ مصر کی نہر سوئز سے گزرتا ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔ایک سو ترانوے
کیلومیٹر طویل نہر سوئز 1869میں کھودی گئی تھی اسکی چوڑائی صرف آٹھ میٹر ہے۔یہ مصنوعی
نہر مصر کی ملکیت ہے اور قاھرہ کو اس پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اور پھر معاملہ نہر
سوئز پر ہی ختم نہیں ہوجاتا کہ بحر احمر سےکھلے پانیوں تک رسائی آبنائے باب المندب
سے ہوتی ہے جو یمن اور جبوتی کے درمیان واقع ہے۔
بحر روم کے علاوہ اسرائیل کیلئے دوسرا راستہ خلیج عقبہ کا
ہے۔ یہاں سے اسرائیلی جہاز شرم الشیخ کے قریب انتہائی تنگ سی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے
بحر احمرکے ذریعے بحر عرب کے کھلے پانیوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ خلیج عقبہ اور اسکے
بعد بحر احمر سے بحر عرب تک کا سارا راستہ مسلم ساحلوں کو چھوتا نظر آتاہےاور
بحرعرب سے سے پہلے انھیں باب المندب کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔
شمالی افریقہ اور بحر روم کے حوالے سے اسرائیل اور یورپ
مغرب کی فکر مندی بہت واضح ہے اور اسکا
تعلق صرف تیل سے نہیں بلکہ آبی شاہراہوں
کے حوالے سے نیٹو، امریکہ اور اسرائیل اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں۔ہمارے خیال میں تو یہ خوف غیر
ضروری و خودساختہ ہے لیکن مغربی دانشور زیب داستاں کیلئے مفروضے کی بنیاد پر تراشی
گئی اس تشویش کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہےہیں۔ انکا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ میں ترکی
کی ہمخیال حکومتیں بن جانے سے یورپ کا بڑا حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اسکے نتیجے میں بحر اسود، بحر روم، بحر احمر، خلیج عقبہ اورخلیج
عرب و فارس میں آزاد جہاز رانی مخدوش ہوجائیگی۔ بے بنیاد خوف اور انجانے خدشات پر
پہلے الجزائر کو خون میں نہلایاگیا، ہزاروں مصری موت کے گھاٹ اترے اور اب لیبیا کے
لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
احباب کی آسانی کیلئے ہم نے تین تقشے بھی یہاں چسپاں کردئے
ہیں
·
بحراسودو بحر روم
·
خلیج عقبہ
No comments:
Post a Comment