یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے؟؟؟
گزشتہ
8 سال سے خانہ جنگی کا شکار لبیا آجکل شدید مشکل میں ہے۔ بحر روم کے کنارے شمالی افریقہ کے اس ملک کی کل آبادی صرف چونسٹھ لاکھ ہے۔ فی
کس آمدنی کے اعتبار سے اسکا شمار دنیا کے
امیر ترین ملکوں میں ہوتاتھا۔ اسکے تپتے ہوئے صحراوں کے نیچے تیل کے چشمے
ابل رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں یہاں تیل کے ذخائر بہت کم گہرائی پرپائے جاتے ہیں
جسکی وجہ سے پیداواری لاگت خاصی کم ہے اور نکلنے والا خام تیل اسقدر صاف و شفاف ہے
کہ اسکی صفائی پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔بدامنی سے پہلے لیبیا میں تیل کی یومیہ
پیداوار بیس لاکھ بیرل تھی۔دولت کی فراوانی کے ساتھ یہاں خواندگی کا تناسب بیاسی
فیصد سے زیادہ تھا۔اسکے باجود لیبیا میں بیرو زگاری کا تناسب اوپیک کے تمام ملکوں
سے زیادہ تھا۔
دسمبر 2010 میں تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر المعروف ربیع العربی یا عرب اسپرنگ سے ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا بھی متاثر ہوا اور
فروری 2011سے ملک کے طول و عرض میں مظاہرے
شروع ہوگئے۔ طاقت کے غیر ضروری استعمال نے
جلتی پر تیل کا کام کیا اورجواب میں مظاہرین بھی مسلح ہوگئے یا کردئے گئے۔ کرنل قذافی
نے مظاہرین سے نمٹنے کی ذمہ داری اپنے ایک معتمد کرنل خلیفہ ابولقاسم حفتر کو سونپ
دی۔ کرنل حفتر کرنل قذافی کی آنکھ کاتارہ تھے اور چاڈ کی خانہ جنگی کو کچلنے کیلئے
1986 میں جب لیبیاکی فوج وہاں بھیجی گئی تو اسکے سربراہ کرنل حفتر ہی تھے۔اس
دوران انکا رویہ انتہائی خراب تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انکے خلاف
مقدمہ بھی قائم ہوا۔ کرنل قذافی کے خلاف تحریک کو کچلنے کیلئے بھی حفتر صاحب نے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن جیسے ہی انھیں
اندازہ ہوا کہ قذافی اقتدار کی بنیادیں ہل چکی ہیں موصوف فوج سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ
بعد انھیں شہریت دیدی گئی۔ادھر 20 اکتوبر 2011 کو کرنل قذافی ایک مسلح جتھے کے
ہاتھوں ماردئےگئے۔
آمر اس مفروضے پر نظم حکومت اور ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں کہ
قیامت تک وہی برسراقتدار رہینگے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لیبیا میں بھی تھا۔ چنانچہ
کرنل قذافی کے قتل سے سارانظام درہم برہم ہوگیا اور قبائلی سردار ایک دوسرے کےمد
مقابل آگئے۔ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے کرنل حفتر نے 2011 کے اختتام پر لبیا
واپس آکر فوج کی نوکری دوبارہ شروع کردی۔ وہ چیف آف اسٹاف بننا چاہتے تھے لیکن
انکی دال نہ گلی اور وہ واپس امریکہ چلے گئے۔
دوسری طرف فوج نے سیاسی عمل کی حمائت جاری رکھی۔ 7 جولائی 2012کو پارلیمانی انتخابات ہوئے اور
جرنیلوں کی عبوری کونسل نے اقتدار جنرل نیشنل کونسل(GNC) کو منتقل کردئے۔ ابتدائی بندوبست کے مطابق GNCکا کلیدی کام نئے
دستور کی تدوین اور اسکی بذریہ منتخب ریفرنڈم توثیق تھا۔ انتخابات کے فوراً بعد
ملک میں بم دھماکے اور فرقہ وارانہ فساد شروع ہوگئے اوراسی کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ
بلکہ خریدوفروخت کا بازار بھی گرم ہوگیا، نامزد وزیراعظم مصطٖفے شکور اعتماد کا
ووٹ لینے میں ناکام رہے۔ جسکے بعدعلی زیدان وزیراعظم نامزد ہوئے لیکن ڈیڑھ سال بعد
مارچ 2014 میں تیل اسمگلنگ کے اسکینڈل نے انکی بساط لپیٹ دی اور عبداللہ الثانی
وزیراعظم منتخب کرلئے گئے۔ عبداللہ الثانی نے سیاسی عدم استحکام اور بدامنی سے
پریشان ہوکر جمہوری ڈرامہ ختم کرکے سنوسی
بادشاہت کے قیام کی تجویز دی لیکن انکی بات کو پزیرائی نہ مل سکی۔
جون 2014 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس
میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کرکے
مخالفین کو نکال دیا۔ یہاں سے نکلے ہوئے ارکان نے مشرق میں مصر کی سرحد پر ساحلی
شہر طبرق میں اسمبلی لگالی۔ متوازی اسمبلیوں نے قوت کے حصول کیلئے عسکریت پسندوں
سےتعلقات استوار کرلئےاور یہیں سے لیبیا کی تباہی کے ئے دور کا اغاز ہوا۔
سیاسی خلا اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف
داعش نے لیبیا میں انٹری ڈالدی تو دوسری جناب ملک کی خدمت کا جذبہ لئے خلیفہ حفتر
امریکہ سے واپس آگئے۔ ملک واپس آتے ہی انھوں نے لیبیا نیشنل آرمی (LNA) کے نام سے اپنی
ملیشیا بنالی اور آناً فاناً ملیشیا کو جدید ترین اسلحے سے لیس کردیا گیا۔ بھاری
مشاہرے پیش کرکے لیبیا کی فوج سے سینکڑوں
افسران توڑ لئے گئے اور LNAکی میزائیل بردار کشتیوں نے خلیج صدرہ میں گشت شروع کردیا۔ جلد ہی حفتر صاحب
کو فیلڈمارشل کے عہدے پر 'ترقی' دیدی گئی اور LNA نے ملک کے طول و عرض میں کاروائیاں شروع کردیں۔ جنرل حفتر ملک
کو درپیش اسلامی بنیاد پرستی کے مقابلے کیلئے سیکیولر نجات دہندہ بن کر آئے تھے چنانچہ طبرق اسمبلی نے حفتر ملیشیاکوگود لے لیا۔
2015کے آغاز میں مصری فضائیہ کے بمباروں نے طبرق اسمبلی کی حمائت میں داعش ٹھکانوں
کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔قتل و غارتگری کے ساتھ بات چیت بھی جاری رہی۔
17 مارچ 2015کو طرابلس اسمبلی، طبرق اسمبلی اور دوسری سیاسی
جماعتوں کے درمیان وفاق الوطنی یا GNAکے نام سے ایک وسیع
البنیاد حکومت کا معاہدہ طئے پاگیا جسکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ
توثیق کردی۔ بحث مباحثے کے بعد وزیراعظم کیلئے فائز السراج کے نام پر اتفاق ہوگیا۔
60 سالہ فائز ترکی النسل ہیں، انکے والد مصطفےٰ السراج سنوسی حکومت میں وزیررہ چکے
ہیں۔ فائر صاحب کرنل قذافی سے بھی اچھے
تعلقات تھے ۔ جنوری 2016 کو فائزالسراج کی 17 رکنی کابینہ کا افتتاحی اجلاس تیونس
میں ہوا اور اسی سال 30 مارچ کو فائز انتظامیہ نے طرابلس آکر اقتدار سبنھال لیا۔
ابتدا میں جنرل حفتر نے فائزالسراج کی حمائت کی لیکن 'فیلڈ
مارشل' کا اصرار تھا کہ انھیں فوج کا سربراہ یا وزیردفاع بنایا جائے۔ حفتر صاحب
اسوقت 74 برس کے تھے چنانچہ فوج کی سربراہی کی درخواست ترنت مسترد کردی گئی اورکابینہ
میں انکی شمولیت پر سیاسی قوتوں میں اتفاق نہ ہوسکا۔ چنانچہ حفتر ملیشیا وفاق کے
خلاف کھل کر میدان میں آگئی۔حفتر ملیشیاکیلئے متحدہ عرب امارات نے
اسرائیل سے جدید ترین ڈرون اور تیزرفتار میزائل بردار کشتیاں خریدی
ہیں جنکے استعمال کی تربیت جنرل
السیسی فراہم کررہے ہیں۔ وفاق الوطنی نے الزام لگایا ہے کہ
سعودی عرب بھی حفتر کی مالی مدد فراہم کررہا ہے اوربحرروم میں
اسرائیل کے جہاز ڈرون کی نگرانی کررہے ہیں ۔گزشتہ چند ماہ سے حفتر ملیشیا کی
سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ملک کے بڑے حصے اور تیل کی تنصیبات پر حفتر کا قبضہ
ہوچکا ہے۔ اس سال 12 فروری کو سلامتی کونسل نے صفر کے مقابلے میں 14ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں لیبیا کے تمام متحارب
گروہوں کوفائزالسراج کی اطاعت قبول کرنے اور فوری
جنگ بندی کا حکم دیا گیا۔ تاہم سعودی عرب ، مصر، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل
کے ساتھ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان یعنی فرانس اور روس خود
اپنےہی فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حفتر کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کررہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات ملیشیا کی حمائت میں اتنا پرجوش ہے کہ دشمن کا
دوست دشمن کے اصول پر تیونس اور مراکش سے بھی اسکے تعلقات میں رخنہ آگیاہے۔ ان
دونوں ملکوں نے لیبیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں وفاق مخالف قوتوں کی حمائت
سے انکار کردیا ہے۔ حال ہی میں امارات نے اپنے یہاں کام کرنے والے بہت سے مراکشیوں
کوملازمت سے نکال دیا ۔ مراکش اور تیونس سے امارات اور السیسی کی نفرت کی بنیادی
وجہ ان ملکوں میں اخوان المسلمون کی ہمدرد حکومتیں ہیں۔ تیونس میں النہضہ کے
امیر راشد الغنوشی پارلیمان کے اسپیکر ہیں اور مراکش میں اخوانی فکر سے وابستہ حزب
العدالۃ والتنميہ یا جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے۔
کرائے
کے سپاہی فراہم کرنے والی روسی کمپنی ویگنر گروپ (Wagner
Group)کے
1200 ماہر نشانچی بھی LNAکا حصہ ہیں۔ کہنے
کو تو ویگنر ایک نجی سیکیورٹی کمپنی ہے جسکے مالک روسی صدر پوٹن کے قریبی دوست Yevgeny
Prigozhimہیں
لیکن امریکی سی آئی آے کا خیال ہے کہ ویگنر روسی فوج کا چھاپہ مار دستہ ہے۔ یہ گروپ
اس سے پہلے کریمیا، سوڈان اور موزنبیق میں دہشت گردی کرتا رہا ہے اور کئی
سالوں سےشام میں سرگرم ہے۔ دارالحکومت دمشق اور بشارالاسد کی ذاتی حفاظت ویگنر کی
ذمہ داری ہے۔ ویگنر کی وجہ شہرت بدترین تشدد ہے۔ ستم ظریفی کہ اسکے شعبہ
تشددو تعذیب کے کلیدی ارکان مصری فوج سے لئے گئے ہیں۔اس شعبے کوتفتیشی سیل کہا
جاتا ہے۔ویگنر کے علاوہ شامی فوج کے 200 گوریلے بھی حفتر ملیشیا کا حصہ ہیں۔فرانسیسی بحریہ کے بحر روم میں تعینات جہاز
مبینہ طور پر حفتر کی کشتیوں کو ایندھن فراہم کرنے کے علاوہ وفاق الوطنی کی
نقل وحرکت کے بارے میں معلومات دے رہے ہیں۔
دوسری
طرٖف ترکی حفتر ملیشیاکی آبی و فضائی دہشت گردی سے نبٹنے کیلئے ڈرون، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل اور دوسرا
دفاعی سامان فراہم کررہا ہے۔ ترکی سلامتی کونسل کی رضامندی سے GNAکواعلانیہ
مدد دےکررہا ہے جبکہ روس اور فرانس اجلاسوں میں GNAکی
حمائت کا وعدہ اور خفیہ طور پر LNAکی پشت پناہی
کررہے ہیں۔
ترکی قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی میں بھی بھی لیبیا کی مدد
کررہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی
میں تیل کی صنعت نے خاصی ترقی کی ہے۔ کئی
ترک ساختہ رگیں (Rigs)عراق میں سرگرم عمل ہیں۔ سرکاری تیل کمپنی TPICکے پاس تین جدید
ترین رگ بردار جہاز بھی ہیں۔اسکے علاوہ Seismic کشتیاں اور آزمائش و پیمائش کے جدید ترین آلات اب ترکی خود
تیار کررہاہے۔ چندماہ پہلےصدر ایردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیاض السراج کی
ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے بحر روم
میں قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی کیلئے مشترکہ کوششوں کا عزم کیا ۔ معاہدے کے ساتھ
ہی TPICنے اپنا رگ بردار
جہاز لیبیا کے پانیوں کی طرف بھیجنے کا اعلان کردیا۔
لندن کے اخبار العرب الجدید نے انکشاف کیا ہے کہ امارات اور
مصر نے ہفتر ملیشیا کے 50 انتہائی تجربہ
کار بحری قذاقوں پر مشتمل ایک چھاپہ مار دستہ تشکیل دیا ہے جو
لییبا کے ساحلو ں کے قریب تیل و گیس کی
تلاش میں مصروف ترک جہازوں اور تنصیبات کو نشانہ بنائیگا۔ مزید 50 چھاپہ مار تربیت
کے مرحلے سے گزرنے کے بعد اس دستے کا حصہ بن جائینگے۔ بھرتی کئے جانیوالے یہ سپاہی
اسرائیل میں تربیت حاصل کررہے ہیں۔
اس 'آپریشن' کیلئے متحدہ عرب امارات جدید ترین
کشتیاں فراہم کررہاہے جو زیرآب استعمال ہونے والے میزئیلوں سے لیس ہیں۔
ان کشتیوں کی نگرانی مصری بحریہ کریگی ۔
امارات اس سے پہلے
ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے والے چینی ساختہ ٹینک شکن Blue Arrow 7 میزائل ہفتر ملیشیا کو دے
چکاہے جس نے لیبیا کی فوج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ خیال ہے کہ آبی جنگ میں استعمال ہونےوالےاسی قسم کے
میزائل رگ، حفاطتی کشتیوں اور تنصیبات کے
خلاف استعمال ہونگے۔دوسری طرف ترکی بھی غافل نہیں اور انکی وزارت دفاع کہہ چکی ہے
کہ اگر بحر روم میں ترکی کے معاشی مفادات کو ہدف بنایا گیا تو بحر ابیض (بحرروم)
کو آگ کے سمندر میں تبدیل کردیا جائیگا
حالیہ
دنوں میں وفاق الوطنی نے حفتر ملیشا پر اپنا دباو بڑھادیا ہے۔ چند ہفتہ پہلے
GNAنے
حفتر ملیشیا کے خلاف کامیاب کاروائی کرکے تیونسی
سرحد کے قریب ساحلی علاقے کا بڑا حصہ آزاد کرالیا۔اس کاروائی میں لیبیا کو ترک
بحریہ کی حمائت حاصل تھی۔ ترکی کے جدید ترین ڈرون کی موثر کاروائی نےصبراتہ،
صرمان، رقدالین، الجمیل اور زلطن سے حفتر ملیشیا کو فرار پر مجبور کردیا۔ان علاقوں
پر قبضے سے لیبیا کی Offshoreتیل و گیس تنصیبات
پر مرکزی حکومت کی گرفت مضبوط ہوگئی۔
دوسرے
مرحلے میں GNA نے دارالحکومت طرابلس کے جنوب
مغربی مضافاتی علاقے میں الوطیہ فوجی ہوائی اڈے پر زبردست حملہ کیا۔الوطیہ
کا اڈہ حفتر ملیشیا کے قبضے میں ہے جہاں سے حفتر ملیشیا لیبیا
کی فوج پر حملے کرتی ہے اور یہیں سے اسرائیل ساختہ جدید ترین ڈرون بھی اڑان بھرتے ہیں ۔ ترک ڈرون حملوں سےLNA کی
دفاعی لائن تباہ ہو گئی جسکے بعدحفتر ملیشیا کیلئے پسپائی کے سوا اور کوئی
راستہ نہ تھا۔پسپا ہوتی حفتر ملیشیا نے طرابلس کے معيتيقہ ائرپورٹ اور اس سے
متصل شہری آبادی پر اندھا دھند راکٹ برسادئے۔ 24 گھنٹے کے دوران 100 سے زیادہ
روسی ساختہ راکٹ ائر پورٹ اور شہری آبادی پر گرے جس سےایک شیر خوار بچے سمیت
17شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ائرپورٹ پر ایندھن سے بھری دوٹنکیاں بھی
نشانہ بنیں جس ے لاکھوں گیلن قیمتی جیٹ فیول جل کر خاک ہوگیا اور کھڑے کئی
نجی طیارے بھی تباہ ہوگئے۔ اب یہ ائرپورٹ استعمال کے قابل نہیں رہا۔
کرونا وائرس کے امدادی سامان کی درآمد کیلئے یہی ائر پورٹ استعمال ہوتا ہے۔ فرانس
اور اسرائیلی بحریہ کی مدد سے حفتر ملیشیا نے لیبیا کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی
کررکھی ہے۔
اقوام
متحدہ کے لیبیا مشن UNSMILنے ان حملوں
اور شہری نقصانات پر' تشویش' کا اظہار اور انھیں روکنے
کی' درخواست' کی ہے۔ مشن کی تشویش کو GNAنے
ناکافی قراردیتے ہوئے مسترد کردیاہے۔ GNAکے ترجمان نے کہا
کہ سلامتی کونسل کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ ان حملوں پر ترکی کا شدید
ردعمل سامنے آیا ہے۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر شہری آبادیوں پر
حملے نہ رکے تو ترک فضائیہ حفتر ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائیگی۔ امریکی وزارت
خارجہ نے حفتر ملیشیا کی حمائت پر پہلی بار روس کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت
خارجہ کے ایک افسر کرس رابنسن نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ روس
نے شام سے سینکڑوں کرائے کے فوجی حفتر ملیشیا کی مدد کیلئے
بھیجے ہیں جولیبیا کے نہتے شہریوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔جناب رابنسن نے روس اور شام
کی مذمت توکی لیکن انکی گفتگو میں اسرائیل، فرانس، جنرل السیسی اور متحدہ عرب
امارات کاذکر نہ تھا۔ معلوم نہیں فاضل امریکی افسر صاحب چشم پوشی فرمارہےتھے یا یہ
سفارتی تجاہل عارفانہ کا ایک انداز تھا؟؟
سوال
یہ ہے کہ خلیفہ حفتر کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنگھی ہے کہ اسرائیل،
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس اور فرانس سب انکے دیوانے ہیں؟ ہمارا تو خیال ہے
کہ ان میں سے نہ تو کوئی ' فیلڈ مارشل' سے مخلص ہے اور نہ حفتر خود کسی کے دل سے حامی و وفادارہیں۔ان تمام ممالک کے اپنے اپنے
مفادات ہیں جنکے حصول کیلئے لیبیا کے بے گناہ لوگ ذبح کئے جارہے ہیں۔ مصر، سعودی
عرب اور متحدہ عرب امارات ترک اور اخوان دشمنی میں GNAکی مخالفت کررہے ہیں کہ وزیراعظم اخوان کے بارے میں
معاندانہ رویہ نہیں رکھتے۔ لیبیا میں عوامی سطح پر اخوان کی سیاسی جماعت تعمیر و
انصاف پارٹی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ گزشتہ سات آٹھ سالوں کی خانہ جنگی کی بنا پر
لیبیا کے لوگ معاشی طور پر بیحد پریشان ہیں جبکہ ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا میں
بھی سماجی خدمت اخوان کا طرہ امتیاز ہے۔ اخونیوں نےگلی محلے کی سطح پر امدادباہمی
مراکز قائم کررکھے ہیں جسکی وجہ سے عام لوگ اخوان کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ
نکال لینا قبل از وقت ہوگاکہ آئندہ انتخابات میں تعمیر و انصاف پارٹی بھاری اکثریت
سے کامیاب ہوگی لیکن عوامی پزیرائی کی بنا پر بلدیاتی و انتظامی سطح پر اخوان
یقیناً ایک موثر کردار اداکرینگے اور منتخب نمائندوں کیلئے اخوان کو نظر انداز
کرنا آسان نہ ہوگا۔تیونس اور مراکش میں اخوانی پہلے ہی شریک اقتدار ہیں۔ الجزائر
میں بھی انکے اثرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔جنرل السیسی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بدترین
تشدد اور قید و بند کے باوجود خود انکے ملک میں اخوان ایک مقبول عوامی قوت ہیں۔
دوسری طرف شمال میں ترکی موجود ہے یعنی بحر روم کے شمال اور جنوب دونوں جانب
اسلامی قوتیں خاصی موثر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران بحر روم میں ترکی بحریہ نے
بھی اپنی قوت میں خاصہ اضافہ کرلیا ہے۔جنرل السیسی، اسرائیل ،سعودی عرب اور امارات
کی طرح روس اور فرانس کو بھی بحرروم میں
ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور شمالی
افریقہ میں ' بنیاد پرستوں' کی سیاسی کامیابیوں پر تشویش ہے۔ روس کو تو اسلام سے
براہ راست کوئی پریشانی نہیں لیکن کریملن
کو اسلام پسندوں کے اثرات بڑھنے سے شام کے
تنہا اور دیوار سے لگ جانے کا خوف ہے۔
فرانس اور مغربی ممالک کی معیشت کیلئے بحر روم ریڑھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے سمجھنے کیلئےعلاقے کی جغرافیہ کا ایک مختصر سا جائزہ
قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ بحر اسود
مشرقی یورپ کیلئے بحری نقل وحمل کا واحد ذریعہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ
سمندر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہواہے اور کھلے سمند ر تک اسکی رسائی نہیں۔
استنبول کے قریب آبنائے باسفورس اسے بحر مرمارا سے ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی تنگ ترین
آبنائے ہے جسکی چوڑائی صرف سات سو میٹر ہے۔ بحر مرمارا بھی خشکیوں سے گھرا سمندر
ہے جسے اہلیان استنبول نہر ترکی کہتے ہیں۔ بحر مرمارا دراصل ایشیا اور یورپ کی سرحد
ہے۔ آبنائے ڈرڈانیلس (Dardanelles Strait) بحر مرمارا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔گویا
سارا مشرقی یورپ آبی نقل و حمل کیلئے ترکی کا محتاج ہے جسکی حدود میں واقع دو
آبنائے بحر اسود کو بحر روم تک رسائی دیتی ہیں۔ یہ راستے اسقدر تنگ ہیں کہ انھیں
بند کردینا بہت مشکل نہیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی آبنائے باسفورس کو بند
کرنے کی دھمکی دیکر روس کو ملک پر بمباری سے باز رکھ چکا ہے۔
آب آتے ہیں بحر روم کی طرف تو یہ بھی اپنی وسعتوں کے باوجود
خشکیوں سے گھرا ہوا ہے اور یہا ں سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں ایک مراکش اور
اسپین کے درمیان آبنائے جبل الطارق جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتی ہے اور
دوسراراستہ مصر کی نہر سوئز سے گزرتا ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔ایک سو ترانوے
کیلومیٹر طویل نہر سوئز 1869میں کھودی گئی تھی اسکی چوڑائی صرف آٹھ میٹر ہے۔یہ مصنوعی
نہر مصر کی ملکیت ہے اور قاھرہ کو اس پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اور پھر معاملہ نہر
سوئز پر ہی ختم نہیں ہوجاتا کہ بحر احمر سےکھلے پانیوں تک رسائی آبنائے باب المندب
سے ہوتی ہے جو یمن اور جبوتی کے درمیان واقع ہے۔
بحر روم کے علاوہ اسرائیل کیلئے دوسرا راستہ خلیج عقبہ کا
ہے۔ یہاں سے اسرائیلی جہاز شرم الشیخ کے قریب انتہائی تنگ سی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے
بحر احمرکے ذریعے بحر عرب کے کھلے پانیوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ خلیج عقبہ اور اسکے
بعد بحر احمر سے بحر عرب تک کا سارا راستہ مسلم ساحلوں کو چھوتا نظر آتاہےاور
بحرعرب سے سے پہلے انھیں باب المندب کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔
شمالی افریقہ اور بحر روم کے حوالے سے اسرائیل اور یورپ
مغرب کی فکر مندی بہت واضح ہے اور اسکا
تعلق صرف تیل سے نہیں بلکہ آبی شاہراہوں
کے حوالے سے نیٹو، امریکہ اور اسرائیل اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں۔ہمارے خیال میں تو یہ خوف غیر
ضروری و خودساختہ ہے لیکن مغربی دانشور زیب داستاں کیلئے مفروضے کی بنیاد پر تراشی
گئی اس تشویش کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہےہیں۔ انکا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ میں ترکی
کی ہمخیال حکومتیں بن جانے سے یورپ کا بڑا حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اسکے نتیجے میں بحر اسود، بحر روم، بحر احمر، خلیج عقبہ اورخلیج
عرب و فارس میں آزاد جہاز رانی مخدوش ہوجائیگی۔ بے بنیاد خوف اور انجانے خدشات پر
پہلے الجزائر کو خون میں نہلایاگیا، ہزاروں مصری موت کے گھاٹ اترے اور اب لیبیا کے
لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل کراچی 15 جون
No comments:
Post a Comment