آج ترکی میں بحر مرمرا
کے ایک چھوٹے سے قطع ارض جزیرہ یشیادا Yassiadaکو 'جزیرہ آزادی و جمہوریت' قراردیدیاگیا۔ یشیادہ
بحرمرمراکے بحر الجزائر (Archipelago) میں سے ایک ہے۔ یہ مجمع الجزائر چار جزیروں پر مشتمل ہے۔
جزیرہ یشیادہ ایک جیل خانہ بلکہ عقوبت کدہ تھا جہاں ترک
تاریخ کے پہلے منتخب اسلام پسند وزیر اعظم
عدنان میندریس کو انکے وزیرخارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن ارسلان کے ہمراہ
بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس جرم میں پھانسی دیدی گئی تھی کہ اکبر نام
لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔
اس مرحلے پر ترکی
کی سیاسی تاریخ پر چند سطور احباب کی دلچسپی کیلئے
مصطفے کمال پاشا المعروف
اتا ترک (بابائے ترکی) مسلم سیکولر
دنیاکے آئیڈیل ہیں۔ کیپٹن مصطفے کمال پاشا نے جنگ چناکلے (Gallipoliمیں جو مجاہدانہ
کردار اداکیا اسکا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی لیکن جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد
انکا کردار کسی بھی اعتبار سے مناسب نہ
تھا۔
عجیب اتفاق کے اسلامی دنیا کے تمام سیکیولر و دین بیزار
افراد خود کو آزادی وجمہوریت کا علمبرادر
قرار دیتے ہیں بلکہ اسلامی شریعت پر انکا
بنیادی اعتراض ہی یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر بننے والی ریاست میں آزادی اظہارو افکار
کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔لیکن ا تاترک ہوں، پاکستان کے ایوب خان ، مصر کے جمال ناصر،
تیونس کے بورقیبہ اورپرویز مشرف سب کے سب اپنی ذات میں بدترین آمر مطلق تھے۔
خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹ کر جب ترکی جمہوری ریاست قرار
پائی تو 3
مئی 1920کو اتاترک وزیراعظم بن گئے۔ 3 سال
بعد سیکیولر آئین کی منظوری کے بعد انھوں نے صدارت کا عہدہ سنھال لیا۔1938 میں اپنے انتقال تک وہ
اس عہدے پر متکمن رہے۔
کمال اتاترک نے اپنی زندگی کے دوران ملک میں ایک جماعتی نطام رکھا اور کبھی آزادانہ
انتخابات نہیں ہوئے۔
اتاترک کی وفات کے بعد 1945 میں جماعت سازی کی اجازت دی گئی
اور اسلام پسندوں نے ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرلی جسکے سربراہ بزرگ سیاستدان جلا ل
بائر تھے ۔ایک سال بعد ہونے والے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی اچھی نہ رہی
اور عصمت انونو کی قیادت میں اتاترک کی ریپبلکن پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب
ہوگئی۔
انتخابات میں
ناکامی کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کی تنظیم نو کی گئی اور 47 سالہ تارتاری النسل عدنان میندریس نے پارٹی کو منظم کیا۔ عدنان میندریس
جنگ آزادی کے دوران فوجی خدمات انجام دے
چکے تھے اور یونانی حملے کے کامیاب دفاع
پر انھیں تمغہ بھی عطا ہوا۔فوج میں انھیں تاتاری مجاہد کہا جاتا ہے۔
950کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ریپبلکن پیپلز پارٹی کے تیئیس سالہ اقتدار
کا خاتمہ کردیا ۔ 487 رکنی قومی اسمبلی میں ریپبلکن پارٹی صرف 60 نشستیں حاصل
کرسکی۔جلال بائر ملک کے صدراور عدنان میندریس وزیر اعظم نامزد کئے گئے۔ نئی حکومت
نے
سارے ترکی میں
صنعتوں کا جال بچھا دیا
مغرب سے قریبی
تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی
ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے
جوابدہ کیا گیا
شہری آزادیوں کو
بحال کیا گیا
مدارس میں عربی
تعلیم کی اجازت دی گئی
مساجد سے عربی میں
اذان بحال کی گئی
اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں
داخلے پر پابندی ختم کردی گئی
جناب میندریس کے ان
اقدامات کی حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی، پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو
نے جب ان سے طنزیہ پوچھا کہ وہ شریعت نافذ کرکے خلافت کب بحال کر رہے ہیں تو جناب
میندریس نے بے دھڑک جواب دیا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو مکمل شریعت بھی نافذ ہوسکتی
ہے۔ اس پر انکے وزیرخارجہ فطین رستم نے پر
امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان
بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔
چارسال بعد ہونے والے انتخابات میں عدنان میندریس کی
ڈیموکریٹک پارٹی نےکامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔حکمران جماعت کو پارلیمان کی 541میں 502 نشستیں حاصل ہوئیں اور اتاترک کی پارٹی کا عملًا
صفایا ہوگیا۔ اگلے انتخابات میں عدنان
میندریس نے ایک بار پھر دوتہائی سے زیادہ نشستیں جیت کر ھیٹ ٹرک کرلی۔
اب صورتحال سیکیولر عناصر کی برداشت سے باہر ہوچکی تھی جانچہ
27 مئی 1960 کو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لالگادیا دیا۔ فوجی جنتا کا کہنا تھا
کہ عدنان میندیس کی حکومت نےعربی مدارس کی
بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کے سر
ڈھانکنے کی اجازت ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح انحراف ہے
عدنان میندریس ، وزیرخزانہ اور وزیرخزانہ کو گرفتارا کرکے
جزیری یشیادہ کے عقوبت کدے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ الزام جس پر جناب
میندریس قابل گردن زدنی ٹہرے وہ اسمبلی
میں انکی ایک تقریر تھی جسکا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے یعنی " اگر پارلیمان چاہے
تو ملک میں شریعت نافذ ہوسکتی ہے"۔ سرسری سماعت کے بعد عدنان منیدیس کو انکے
دوساتھیوں سمیت تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔
جناب میندریس کے آہنی اعصاب کا مظاھرہ اسوقت ہوا جب پھانسی
کی صبح رات کے تیسرے پہر جلاد، جیل کے سپر انٹنڈنٹ کے ھمراہ انکے سیل میں داخل ہوا۔
موصوف کے خراٹوں سے سارا سیل گونج رھا تھا اور وہ اتنی گہری نیند میں تھے کہ بیدار
کرنے کیلئے انکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے پڑے۔ جلاد کا کہنا ہے کہ اس نے پوری زندگی میں سزائے موت پانے والے فرد کو
ایسا پرسکون نہیں دیکھا۔
انکی موت کے بیس
سال بعد ایک آئنی عدالت نے جناب میندریس کی پھانسی کو وحشیانہ قتل قرار دیا اور
انھیں جدید ترکی کا معمار قرار دیتے ہوئے انکے لئے عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا
انکے دونوں سزا یافتہ ساتھی بھی اسی مقبرے میں انکے ساتھ آسودہِ خاک ہیں۔ انکی آبائی شہر ازمیر کے ھوائی اڈے اور مرکزی جامعہ کو بھی جناب
میندریس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ؏ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔
ترک عوام کی امنگوں کے قتل یعنی 27 مئی 1960 کے پہلے مارشل لاکی مذمت میں آج یشیادہ کو جزیرہ آزادی و جمہوریت قرار دیدیا گیا۔ اس
تقریب میں ترک صدر کے علاوہ قوم پرستMHPکے سربراہ دولت بقال
نے بھی شرکت کی۔
یہ یادگار ایک جدید ہوٹل، 600 نشستوں کی سماعت گاہ، خوبصورت
مسجد، ریستوران اور قہوہ خانے پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے
جہاں جمہوریت کیلئے ترک عوام کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment