اسرائیل کا اندرونی خلفشار
نزلہ فلسطینیوں پر
اسرائیل میں جاری بحران جلد
ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔اگرچہ کہ وزیراعظم بن یامین نیتھن
یاہو المعروف بی بی نے متنازعہ 'عدلیہ اصلاحات'
یا Judicial Overhaulبل پر
رائے شماری معطل کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن مجوزہ قانون کے حامیوں اور مخالفین کے پر
تشدد مطاہرے جاری ہیں۔یکم اپریل کو تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے دھرنا دیا اور
غم و غصے کے اظہار کیلئے مشعلیں لہرائی گئیں۔
اس
مسودہ قانون یا بل کے پس منظر پر چند سطور
گزشتہ
برس 29 دسمبر کو بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی اسرائیلی حکومت کئی
اعتبار سے منفرد تھی۔ پہلی بات کہ یہ
اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند بلکہ متعصب ترین حکومت ہے۔ویسےتو 1948 میں جبری قبضے
کے بعد سے برسراقتدار آنے والی کسی بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے بارے میں اپنے
متعصبانہ جذبات پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن موجودہ حکومت میں ربائی (مذہبی
پیشوا) اور جنگجو رہنماوں کی جتنی بڑی تعداد
شامل ہے اسکی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
سب سے اہم بات کہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے کئی ارکان زیر تفتیش ہیں اور بی بی پر مالی
بے ضابطگیوں اور بددیانتی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر
اور وزیرخزانہ بیزلل سموٹرچ کے خلاف نقص امن کے پرچے کٹ چکے ہیں۔
معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سابق نائب
وزیراعظم اٰریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت
سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ جرم 1999
میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب
یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا
'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ ۔تاہم عدالت عظمیٰ کے
حکم پر اس سال جنوری میں انھیں استعفیٰ
دینا پڑا۔ مراکشی نژاد مخلوف درعی پاسداران توریت پارٹی (عبرانی مخفف شاس) کے سربراہ ہیں۔ موجودہ کنیسہ
(پارلیمان) میں شاس کی 11 نشستیں ہیں اور اپنے پارلیمانی حجم کے اعتبار یہ حکمراں
اتحاد کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ عدالتی حکم پر مجبور ہوکر بی بی نے مخلوف صاحب کو
برطرف تو کردیا لیکن انھیں کابینہ کے ہراجلاس میں 'خصوصی دعوت' پر بطور مبصر بلایا
جاتا ہے۔ مجرم اور زیر تفتیش و مقدمہ افراد کی کابینہ میں موجودگی کی بنا پر حزب
اختلاف کے ارکان کنیسہ کے اجلاسوس میں بی بی کو مسٹر کرائم منسٹر کہہ کر مخاطب کرتے
ہیں۔
اپنے اور وزرا کیخلاف مقدمات
اور شکائتی پرچوں سے تحفظ کیلئے عدالتی اصلاحات کو بل ترتیب دیا گیا۔ بی بی اور انکے
قدامت پسند اتحادیوں کو شکائت تھی کہ لبرل جج نئی حکومت کے قدامت پسند ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ معبدوں
میں اختلاط مردوزن کا مکمل سدباب، سرکاری ضیافتوں میں غیر KOSHER(حلال) غذائی اجزا پر پابندی اس ایجنڈے کے
دوسب سے اہم نکات ہیں۔ ماضی میں عدالتیں اس قسم کی پابندیوں کو غیر ضروری و ماورائے
دستور قرار دے چکی ہیں۔ اسی کیساتھ شاس پارٹی، متحدہ توریت پارٹی، خوشنودیِ رب
پارٹی، جماعتِ دینِ صیہون اور عظمتِ یہود جماعت نے اسرائیلی معاشرے سے ہم جنس پرستی (LGBT)کے مکمل استیصال کو انتخابی منشور بنایاتھا۔ لیکن عدالتی مداخلت سے قبل ہی بی بی نے اسپیکر کیلئے عامر اوہانہ (Amir
Ohana)کو امیدوارنامزد کرکے نفاذِ تلمود (یہود شریعت) کے غبارے کو سوئی چبھودی ۔عامر اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں جنھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ جب
رائے شماری کا وقت آیا تو خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ
اوی معوذ صاحب نے بھی بے شرمی سے عامر کے حق میں ہاتھ اٹھادیا۔ جناب معوذ نے انتخابی
مہم کے دوران حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے ہوئے وعدہ
کیا تھا کہ تھا کہ 2023 کی LGBTپریڈ انکی لاش پر ہوگی۔خبر ہے کہ اسپیکر صاحب
اس بار پریڈ کی قیادت کرینگے۔
کئی درجن صفحات پر مشتمل اس مسودہ قانون میں اور بہت سی باتوں کے
علاوہ ایک شق یہ بھی ہے کہ کنیسہ
واضح اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔
اسی طرح ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جسکی حتمی منظوری وزارت انصاف دیگی۔ چیف جسٹس کا تقرر
سینیارٹی کے بجائے وزیراعظم کی صوابدید پر ہوگا جسکی کنیسہ سے توثیق لازمی ہے اور
یہاں بھی واضح اکثریت کافی ہے۔
بل کے سامنے آتے ہی حزب
اختلاف اور عام لوگوں میں اشتعال پھیلا
اور ملک کے طول و عرض میں ہنگامے شروع
ہوگئے، لاکھوں لوگوں نے چوراہوں اور سڑکوں پر دھرنا دیا اور جب 9 مارچ کو بی بی سرکاری دورے پر روم روانہ ہوئے
تو انھیں تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پہنچنے کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑا۔
سیاسی
کارکنوں، طلبہ اور مزدروں کیساتھ فوج بھی عدالتی اصلاحات کے خلاف کھل کر سامنے
آئی۔ اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد محفوظ یا
Reserveدستوں پر مشتمل ہے جنھیں
بوقت ضرورت طلب کرلیا جاتا ہے۔نصف سے زیادہ ریزرو سپاہیوں نے اپنے سپہ سالار کو تحریری
طور پرمطلع کر دیا کہ وہ عدلیہ کے پر تراشنے کی حکومتی کوِششوں پر سخت پریشان ہیں۔
اسی دوران ایک فلسطینی کی مبینہ فائرنگ سے دو اسرائیلی ہلاک ہوگئے جس پر وزیرخزانہ اسموٹرچ نے بیان دیا کہ فلسطینی
آبادیوں کو فوج کے ذریعے مٹادینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل فوج 1948 سے یہی کررہی ہے لیکن وزیرباتدبیر کے اس کھلم
کھلا اعلان سے فوجی افسران میں تشویش پھیل
گئی۔ فضائیہ میں زیادہ بیچینی تھی اور بہت سے پائلٹوں نے فوج چھوڑنے کا عندیہ دے
دیا۔ موقر ٹیلی ویژن چینل 12کے مطابق کئی درجن پائلٹوں نے
فضائیہ کے سربراہ جنرل ثمر بار(Tomer Bar)سے ملاقات میں کہا کہ وزیرخزانہ کھلے عام فلسطینی شہروں کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کی بات کررہے ہیں اور یہ کام وہ سرکاری حکم کے تحت فوج سے کروانا
چاہتے ہیں۔ان پائلٹوں کا کہنا تھا کہ ایسے احکامات پر عملدرآمد کی صورت میں
اسرائیلی فوجی ذاتی حیثیت میں ذمہ دار ٹہرائے جاسکتے ہیں اور انکے خلاف عالمی
عدالت انصاف میں مقدمہ خارج از امکان نہیں۔پائلٹوں نے فوج کے سربراہ کو بتایا کہ
اس تناظر میں انکے لئے فوج سے علیحدگی ہی ایک بہتر فیصلہ ہوگا۔ روزنامہ الارض( Haaretz)کے مطابق بمبار طیارے کی
مشہور تدبیراتی وحدت (اسکوڈرن) کے 40 میں سے 37 ریزرو
Reserve پائلٹوں نے معمول کی تربیت
پر آنے سے بطور احتجاج انکار کردیا۔ جدید ترینF151
بمباروں پر مشتمل یہ وحدت ہتھوڑے کے نام سے مشہور ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ارضی حلوی Herzi Halevi نے اس صورتحال سے وزیردفاع
یووار گلانٹ(Yoav Gallant) کو مطلع کیا جنھوں نے وزیراعظم
سے خصوصی ملاقات میں انھیں بتایا کہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اگر ریزرو
سپاہیوں کی ناراضگی دور نہ کی گئی تو ملک کا دفاع خطرے میں پڑ سکتا ہے۔وزیراعظم سے
ملاقات کے بعد وزیردفاع نے اعلان کیا کہ کنیسہ میں رائے شماری کے دوران وہ بل کی
مخالفت میں ووٹ دینگے۔وزیردفاع کے اس بیان پر بی بی کے قدامت پسند اتحادی آپے سے
باہر ہوگئے جن کے خیال میں یہ کھلی بغاوت تھی چنانچہ بی بی نے جناب گلانٹ کو برطرف
کردیا۔
فلسطینی
اس تحریک میں غیر جانبدار ہیں۔ رام اللہ بار نے صاف صاف کہا کہ انھیں ریاست 1948
سے انصاف کی کوئی توقع ہے ہی نہیں لہذا عدالتی اصلاحات کا شوشہ ہمارے لئے ایک مہمل
چیزہے۔ فلسطینی اپنے سرکاری بیانات میں نام لینے کے بجائے اسرائیل کو ریاست 1948
کہتے ہیں۔ بار نے ثبوت کے طور پر اسرائیلی جریدے الارض
(Haaretz)میں شایع ہونے والی وہ رپورٹ
پیش کی جسکے مطابق اسرائیلی جیلوں میں971فلسطینی ایسے ہیں جنہیں مجسٹریٹ کے روبرو
کبھی پیش ہی نہیں کیاگیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ دس پندرہ سال سے سلاخوں کے پیچھے
ہیں۔ اخوانی فکر سے وابستہ رعم کے سربراہ منصور
عباس نے کہا کہ انکی جماعت کنیسہ میں اس بل کے ِخلاف ووٹ تو دیگی لیکن عرب باشندے سڑکوں پر نہیں آئینگے کہ کیا لبرل
اور کیا قوم پرست و قدامت پسند تمام
اسرائیلی جماعتیں فلسطینیوں کے معاملے میں یکساں رویہ رکھتی ہیں۔ اسکے باوجود بل
کے حامیوں نے مظاہرے کے دوران فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتے
یروشلم میں پیٹرول پمپ پر اپنی گاڑی میں پیٹرول بھرتے ایک فلسطینی ٹیکسی ڈرائیور
کو پولیس کے سامنے بری طرح پیٹا گیا اوراسکی گاڑی کے شیشے چکنا چور کردیے گئے۔
رمضان
کے دوسرے جمعہ کو پولیس نے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والی ایک خاتون سے دست درازی کی
کوشش کی جس پر محمد خالد العصیبی نے سپاییوں کو منع کیا،جواب میں پولیس نے
العصیبی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ حال ہی رومانیہ سے طب کی تعلیم مکمل کرنے والے اس 26 سالہ ڈاکٹر کو کم از کم 10
گولیاں لگیں۔ دوسرے دن اسی علاقے میں 24 سالہ محمد رئید برادیہ کو گولی
ماردی گئی۔ فوجیوں نے ایمبیولینس کا راستہ روک لیا اور خون بہہ جانے کی بنا پر
بردایہ نے وہیں سڑک پر دم توڑ دیا۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی یعنی 31مارچ تک 90 دنوں میں 92 فلسطینی
فوج اور پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
اسی دوران موقع سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے کنیسہ نے ایک مسودہ قانون منظور کرلیا جسکے تحت 2005 کا 'دستبرداریِ غزہ قانون ' (Gaza Disengagement
Law) منسوخ کرکے غربِ اردن کے شمالی حصے سے خالی کی جانیوالی چار بستیوں
میں اسرائیلیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیدی
گئی ہے ۔غزہ میں فلسطینیوں کے ہاتھوں بھاری نقصان کے بعد معاہدہ امن کی ایک شرط کے
طور پر کنیسہ نے یہ قانون منظور کیا تھا جسکے تحت اسرائیل نے غزہ میں اپنی تعمیر
کردہ 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور شہری واپس بلالئے تھے۔اسی
کیساتھ مغربی کنارے کے شمالی حصے (جنین ) میں تعمیر کی گئی چار بستیاں صنور، خومش،
غنیم اور قدیم بھی مسمار کردی گئیں اور ان بستیوں میں اسرائیلیوں کے جانے پر
پابندی لگادی گئی تھی۔اب نئے بل کے ذریعے 2005 کا دستبرداری بل منسوخ کر کے مغربی کنارے کے شمالی حصے کی مسمار کی
جانیوالی چاروں بستیوں کو اسرائیلیوں کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ ۔ فلسطینی اس قدم پر
سخت مشتعل ہیں، انکا خیال ہے کہ اسرائیل کا اگلا قدم غزہ پر قبضہ ہوگا۔ حسب توقع امریکہ
کو اس پر 'شدید تشویش ہے۔ جب واشنگٹن میں
اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سفارتی گوشمالی کی گئی تو وزیراعظم بن یامین
نیتھن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دستبرداری معاہدے کی منسوخی کے باوجود
دریائے اردن کے شمال مغربی کنارے پر نئی بستیاں نہیں تعمیر کی جائینگی۔بادی النظر
میں یہ 'وعدہ' اطمینان بخش ہے لیکن جب
ایک معاہدہ بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ ہوسکتا ہے تو زبانی یقین دہانی کی کیا
حیثیت؟؟۔ عدالتی اصلاحات پر بی بی سے نالاں حزب اختلاف نے دستبراداریِ غزہ قانون
کی منسوخی کیلئے حکومتی قراداد کی حمائت کی۔
پر تشدد کاروائیوں کا شکار صرف
فلسطینی نہیں بلکہ یروشلم کے مسیحی بھی انتہا پسند اسرائیلیوں کے حملوں کا ہدف ہیں۔ دو ہفتہ قبل یروشلم میں حضرت مریمؑ کے مبینہ
مزار سے متصل گرجا میں اسقفِ اعظم (Archbishop)
اعلیٰ حضرت جوشیم پر اسوقت حملے کی کوشش کی کئی جب وہ خطبہ دے ریے تھے۔ ان
غنڈوں نے وہاں موجود پادریوں کو بھی دھمکایا۔ یونانی تقلید پسند (Greek Orthodox) گرجا نے ایام صوم (Lent)کے دوران گرجا پر حملے، مقدس مقامات کی بیحرمتی اور پرامن عبادت گزاروں
کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی۔بیان میں کہا گیا ہے اسرائیلی انتہا ہسندوں کی
جانب سے گرجاگھروں، مسیحی قبرستانوں اور مذہبی مقامات پر حملے روز کا معمول بنے
ہوئے ہیں اور مقدس ایام و تہوار کے دوران ان میں شدت آجاتی ہے۔ مسیحیوں کے ایام
سوم کا اختتام 6 اپریل کو ہوا جسکے بعد اتوار
کو عیدِایسٹر منائی جائیگی۔
مسلمان بھی اس دوران رمضان
کے روزے رکھ رہے ہیں۔ گیارہ اپریل سے آخری عشرے کا آغاز ہوگا۔ فلسطینی اس دوران
زیادہ وقت مسجد اقصیٰ میں گزارتے ہیں۔ بدقسمتی سے رمضان کا آخری عشرہ فلسطینیوں بڑا بھاری گزرتا
ہے اور اس بار معاملہ کچھ زیادہ خراب لگ
رہا ہے۔ عوامی و عسکری دباو پر بی بی
عدالتی اصلاحات کا بل منظور نہیں کراسکے اور کھسیانی بلی اب بے یار و مددگار فلسطینیوں
کو نو چنے اور کاٹنے کی کوشش میں ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل،
کراچی 7 اپریل 2023
ہفت روزہ دعوت دہلی 7 اپریل
2023
روزنامہ امت کراچی 7 اپریل 2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 9اپریل
2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment