عالمی کشیدگی اور ایندھن کی قیمتیں
ترک صدر کہتے ہیں کہ دنیا 5 بڑوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ اس سے جناب ایردوان کی مراد ویٹو کی شکل میں امریکہ، برطانیہ، فرنس، چین اور روس کا اقوام متحدہ پر تسلط ہے۔ مزے کی بات کہ یہ پانچ بڑے جنھوں نے قیام امن کے نام پر چودھراہٹ قائم کی ہے وہی دنیا کی ہر خونریزی کے اہم فریق ہیں۔
اب ایک بارپھر یہ بڑےکیل کانٹنے سے لیس فساد پھیلانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ دنیا کے دو مقامات پر کشیدگی اپنے عروج پر ہے، بلکہ یوں کہئے کہ بارود بچھایا جاچکا بس دھاگے کو آگ دکھانے کی دیر ہے
مشرقی یورپ میں روس اور یوکرین کی سرحدپر آمنے سامنے تیار کھڑے لاکھوں فوجی یلغار کے حکم کا انتظار کررہے ہیں۔ روس کو ڈر ہے کہ نیٹو یوکرین کو اپنی رکنیت دیکر اسکی سرحد پر آبیٹھنے کیلئے تیار ہے۔ چنانچہ کریملن ، یوکرین کو روس کا حصہ بنالینا چاہتا ہے تاکہ نیٹو سے دوبدو مقابلہ رہے اور امریکہ کے یورپی اتحادی یوکرینی چلمن کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔
صدر بائیڈن اور انکے یورپی اتحادی یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کو انجام بد سے ڈرا رہے ہیں۔واشنگٹن مقابلے کیلئے یوکرین میں خوفناک ہتھیاروں کا انبار لگارہا ہے جبکہ 8900 امریکی فوجیوں کو بھی فوری کوچ کیلئے تیار رہنے کا حکم دے دیا گیاہے۔صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ روس کسی بھی وقت طبلِ جنگ بجا سکتا ہے۔
یہ بات بہت واضح ہے ہے اگر روس یوکرین پر چڑھ دوڑا تو امریکہ اور نیٹویوکرین کی حفاظت کیلئے اپنے جوانوں کی زندگی داو پر نہیں لگائینگے اور روسی معیشت کا گلا گھونٹ کر صدرپوٹن کو نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جائگی یعنی مغرب کے ساہوکار یوکرین کے دفاع کیلئے سینہ و سر پیش کرنے کے بجائے روس کے خلاف سونے کی گولیاں استعمال کرینگے۔
تیل اور گیس روسی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے اور مجموعی برآمدی حجم کا نصف سے زیادہ دوسرے ملکو ں کو ایندھن کی برآمد پر مشتمل ہے۔ یورپ، روسی ایندھن کا سب سے بڑا گاہک ہے اور یورپی ممالک اپنی ضرورت کی 39 فیصد گیس روس سے خریدتے ہیں۔ اسٹونیا، پولینڈ، سلاواکیہ اور فن لینڈ میں گیس کی 75 فیصد ضرورت روس پوری کرتا ہے۔
خیال ہے کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں یورپی یونین روسی ایندھن کی درآمد بند کرکے اسکی معیشت کو فیصلہ کن ضر ب لگائیگی۔
سوال یہ ہے کہ سخت سردی کے موسم میں گیس کا اتنا بڑا حجم اور کون فراہم کرسکتا ہے؟
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں۔ امریکی صدر اپنے یورپی اتحادیوں سے سمعی و بصری راطبے پر مصروف گفتگو ہیں اور رائٹرز کے مطابق توانائی کے امریکی ماہرین کے خیال میں روسی گیس کا متبادل موجودہے۔ قطر اور ناروے نے یقین دلایا ہے کہ وہ یورپ کو روسی گیس کے مساوی حجم با آسانی فراہم کرسکتے ہیں۔آذربائیجان بھی یورپ کو اضافی گیس بیچنے کا خوہشمند ہے اور برآمد کیلئے شاہ دین گیس فیلڈ سے ترکی تک گیارہ سو میل لمبی TANAPگیس پائپ لائن پہلے سے موجود ہے جہاں سے TAPپائپ لائن کے ذریعے البانیہ اور اٹلی تک رسائی مل سکتی ہے۔
اگر امریکی ماہرین کا دعویٰ اور تجزیہ درست ہے تو یورپ کیلئے روسی گیس کا متبادل کچھ مشکل نہیں لیکن اسکے نتیجے میں قطر کے ایشائی صارفین کیلئے گیس اور پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوسکتی ہیں۔
مشرقی یورپ کے ساتھ اسوقت مشرق وسطٰی کی عسکری صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں، جہاں یمن کے حوثی اب براہ راست متحدہ عرب امارات پر حملے کررہے ہیں۔ اسکا آغاز 17 جنوری کو ابوظہبی کے صنعتی علاقے پر ڈرون اور منجنیقی (ballistic)میزائیل حملوں سے ہوا جس میں ابوظہبی قومی تیل کمپنی (ADNOC)کی تنصیبات کو سخت نقصان پہنچا اور تیل سے بھرے تین ٹینکر جل کر خاک ہوگئے۔ اس حملے میں دوہندوستانی اور ایک پاکستانی کارکن مارے گئے۔ ان تنصیبات کے ساتھ ابوظہبی کے زیرتعمیر ائرپورٹ کوبھی نشانہ بنایاگیا جس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا ،لیکن تعمیراتی مشنری تباہ اور کچھ زیرتعمیر عمارتین منہدم ہوگئیں۔ جواب میں اتحادی طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر بمباری کی جس سے مرکزی جیل میں نظر بندسو سے زیادہ قیدی مارے گئے۔ ساحلی شہر الحدیدہ کے مواصلاتی مرکز پر بمباری سے یمن کا فون اور انٹرنیٹ کا نظام معطل ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد یعنی 24 جنوری کو حوثیوں نے ابوظہبی پرایک بار پھر میزائیل داغے اور اس بار حملے کا ہدف ابوظہبی کے مضافات میں واقع الظفرہ فوجی اڈہ تھا جہاں 2000امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ کے میزائیل شکن پیٹریاٹ نظام نےان میزائیلوں کوفضا میں روک کر ناکارہ کردیا لیکن ایک ہفتے میں دوحملوں اور امریکی فوج کو ہدف بنانے کی کوشش سے جنگ کا دائرہ ابوظہبی تک بڑھانے کے حوثی عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
حوثیوں کی اس محاذ آرائی کا عسکری حوالے سے کیا نتیجہ نکلے گااس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن علاقے میں کشیدگی سے تیل کی نقل و حمل متاثر ہوسکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے ایشیا کو جانے والا تیل، آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے جوحوثیوں کے سرپرست ایران کی پہنچ میں ہے جبکہ جزیرہ نمائے عرب سے ایشیا کی طرف جانے والا دوسرا راستہ آبنائے باب المندب سے نکلتا ہے جہاں ماضی میں حوثی نشانچیوں نے سعودی تیل ٹینکروں کو نشانہ بنایاہے۔
اگر حوثیوں کے ابوظہبی پر حملوں اور خلیجی اتحادیوں کی جوابی کاروائیوں میں مزید شدت آئی تو اس بات کا پوراامکان ہے کہ آبنائے ہرمز اور باب المندب کا راستہ مخدوش ہوجائےجسکےنتیجے میں تیل نہ صرف مہنگا ہوجائیگا بلکہ اسکی رسد میں بھی خلل آسکتا ہے
No comments:
Post a Comment