دنیا کے سات بڑوں کا اجلاس ۔۔ صدر بائیڈن کو شرمندگی کا سامنا
دنیا کے سات بڑے ممالک یعنی گروپ سات یا G-7کا سربراہی اجلاس جرمن شہر کُرن (Krun)کے تاریخی قلعے شلوس ایلاماو (Schloss Elmau) میں ختم ہوگیا۔ کوہِ ایلپس کے دامن میں یہ چار منزلہ عمارت اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد یہاں ہٹلر کے ہاتھوں بے گھر کئے جانیوالے یہودیوں نے پناہ لی تھی۔ بلند مینار والا یہ قلعہ 1914 میں ایک فلسفی اور پروٹیسٹنٹ عالم جوہانس ملر اور ماہرِ تعمیرات (Architect) پروفیسر کارل سیٹلر نے تعمیر کیا تھا۔ جون کی 26 سے 28 تاریخ تک جاری رہنے والی یہ بیٹھک گروپ سات کی 48 ویں سربراہ کانفرنس تھی ۔ گزشتہ چوٹی کانفرنس ایک سال پہلے لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ سینتا لیسویں سربراہی اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ رکن ممالک کی کارپوریشنوں پر کم سے کم 15 فیصدانکم ٹیکس کا نفاذ تھا۔
گروپ سات، نظریاتی طور پردنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973 میں اسوقت ہواجب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی ۔ اسکے نتیجے میں یورپ اورامریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیرخزانہ نے اپنے جرمن (اسوقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیرخزانہ گسکارڈدیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربرکو مشورے کیلئے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نبٹنے کیلئے مشترکہ لائحہِ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پرجب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کیلئے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کیساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت کے بعد مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔اس غیر رسمی و غیر روائتی مجلس کا نام 'لائبریری گروپ' طئے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شال ہوا اور لائبریری گروپ G-5بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے گروپ پانچ کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس میں 1975 کے اس تین روزہ اجلاس کو اقتصادی چوٹی کانفرنس یا ورلڈ اکنامک سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں اٹلی بھی شریک ہوا چنانچہ اس محفل کو گروپ 6 کہا جانے لگا۔
اسکے اگلے برس امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے اپنی کالونی پورتوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جہاں کینیڈا کے وزیراعظم آنجہانی پیرے ٹروڈو (موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے جسکے بعد یہ ادارہ گروپ سات بن گیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کیلئے 1997 کا سربراہی اجلاس ڈینور (Denver)شہر کی نوتعمیر شدہ سرکاری لائبریری میں طلب کیا جس میں روسی صدر بورس یلسن بھی مدعو کئے گئے اور یہ فورم گروپ آٹھ بن گیا۔2014کی سربراہ کانفرنس بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (روس) میں ہونی تھی لیکن کریمیا پر قبضے کے بعد روس کو گروپ آٹھ سے نکال دیاگیا۔اُس سال سربراہ کانفرنس بیلجیم کے شہر برسلز میں ہوئی اور یہ تنظیم اب دوبارہ گروپ سات ہے۔
اپنی ولادت سے پہلے پانچ چھ سال تک گروپ سات اقتصادی اتحاد کے طور پر کام کرتا رہا۔ کچھ علمائے سیاست ، گروپ سات کو آزاد عالمی مرکز دانش یا Think tankقراردیتے ہیں۔لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کیلئے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں امریکی صدر رونالڈ ریگن اور برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے زور اور اصرار پر عالمی سیاست اور دفاعی امور پر بھی بحث مباحثہ شروع ہوا۔
گروپ سات ممالک کی مجموعی آ بادی دنیا کے 10 فیصد کے برابر ہے لیکن دنیا کی 31 فیصد دولت ان سات ممالک میں ہے۔ گروپ سات کے دولت و ثروت کا تخمینہ جی ڈی پی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ان ممالک میں جہاں وسائل اور دولت کا انبار ہے وہیں گروپ سات دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی ایک بڑا سبب ہے کہ 21 فیصد کاربن کا اخراج ان ہی سات ملکوں سے ہوتاہے۔
اس بار گروپ سات چوٹی کانفرنس کا خیالیہ یا theme 'عادل دنیا کی طرف پیشقدمی' تھا۔اور جن موضوعات پر بحث کی گئی وہ کچھ اسطرح ترتیب دئے گئے :
- سیاسی، عسکری اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار عالمی نظام
- اقتصادی استحکام
- صحت مند زندگی
- بہتر مستقبل کیلئے سرمایہ کاری
- اتحاد میں برکت UNITED TOGETHER
یہ گروپ چونکہ بنیادی طور پر اقتصادیات کا فورم ہے اسلئے اس میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اس نوعیت کے دوسرے ادارے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس بار ہندوستان، ارجنٹینا، انڈونیشیا، سینکال اور جنوبی افریقہ کے سربراہان بھی خصوصی دعوت پر بطور مبصر شرکت ہوئے۔ یوکرین روس تنازعے میں کریملن کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تین ماہ پہلے جرمنی کے چانسلر اولاف شلز نے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن صدر بائیڈن کے اصرار پر جرمنی نے یہ اعتراض واپس لے لیا۔
ایجنڈا اپنی جگہ لیکن یوکرین بات چیت پر چھایا رہا تاہم مشترکہ اعلامئے میں اسکا براہ راست کوئی ذکر نہ تھا۔اختتام پر مندرجہ ذیل چار نکاتی 'عہدنامہ' جاری ہو
- گروپ سات رہنماوں نےانسانی حقوق کے تحفظ کا عزم کرتے ہوئے چین میں ویغور مسلمانوں کیساتھ مبینہ بدسلوکی کی شدید مذمت کی۔
- کاربن سے پاک ماحول کے حصول کیلئے 2030 تک Decarbonized Road کے ہدف کا اعادہ کیا گیا۔
- اسی کیساتھ 2035 تک توانائی کے باقی شعبوں کو کاربن سے پاک یا ڈی کاربونائزڈ کرنے کا ہدف طئے ہوا
- گروپ نے شاہراہیں، مواصلاتی ڈھانچے اور ماحولیاتی کثافت کے خاتمے کیلئے اگلے پانچ سال کے دوران دنیا بھر میں 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جس میں سے نصف یورپی ممالک فراہم کرینگے۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے 'کاربن سے پاک ماحول' کی مختصر سے تشریح پر چند سطور
پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ دورِ حاضر کا روائتی ایندھن ہے ۔ خام تیل اور گیس کا کیماوی نام ہائیڈروکاربن ہے۔ کوئلہ سے حاصل ہونے والی گیس میتھین methane بھی ہائیڈروکاربن ہے جس کے جلنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائیڈ اور دوسرے مرکبات خارج ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانی صحت کیلئے مضر ہیں بلکہ یہ کرہ ارض کی طرف آنے والی اوزون سے بچاو کیلئے قدرت کی تعمیر کردہ مدافعتی تہہ یا Ozone Layerمیں شگاف کا سبب بھی بن رہی ہے۔ کاربن سے پاک سڑک و شاہراہ کا مطلب ہے کہ 2030 کے بعد پٰیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ترک کردی جائینگی جبکہ 2035 کے بعد بجلی گھروں کیلئے بھی تیل کے استعمال پر پابندی ہوگی۔
بادی النطر میں مشتر اعلامئے سے انصاف پر مبنی مستحکم و پائیدار دنیا کی تعمیر کا عزم ظاہر ہوتا ہے لیکن بات چیت کی جو تفصیل امریکی ذرایع ابلاغ پر تفصیلات شایع ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ترقی و خوشحالی کیلئے جس خطیر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ دراصل چین کے Belt and Road Initiativesیا BRIکے توڑ کیلئے ہے۔ چین نے One Belt one Roadکے نام سے برّی اور آبی شاہرایوں کا یہ عالمی منصوبہ 2013 میں شروع کیا تھا جسے اب BRIکہا جاتا ہے۔امریکہ نے اس مقصد کیلئے 200 اور یورپی یونین نے 300 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ جاپان اور کینیڈا 100 ارب ڈالر فراہم کرینگے۔ ان منصوبوں کیلئے امریکہ کی ترجیحات صحت عامہ، صنفی مساوات اور Digital Infrastructure ہیں۔کانفرنس میں بحث و مباحثے کے دوران یورپی رہنماوں نے دنیا میں چین کے بڑھتے ہوے اثر و رسوخ کو عالمی جمہوریت، عقیدے کی آزادی اورآزاد پریس کیلئے خطرہ قراردیا۔ چینی وزارت خارجہ نے بعض رہنماوں کی تقریروں پر سامراجی تکبر کی پھبتی کستے ہوئے یورپی رہبنماوں کو سردجنگ کی گھسی پٹی حکمت عملی ترک کرنے کا مشورہ دیاہے۔
اسی تناظر میں شمالی کوریا نے ایشیائی نیٹو کے قیام کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔گروپ سات اور اسکے فوراً بعد نیٹو سربراہ کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری خبر رساں ایجنسی KCNA کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان ایشیائی نیٹو بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا ہدف شمالی کوریا ہوگا۔ بیان میں شمالی کوریا نے نیٹو کی میڈرڈ(ہسپانیہ) چوٹی کانفرنس میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی بطور مبصر شرکت اور اس دوران امریکہ ، جاپان اور جنوبی کوریا کے خصوصی سربراہی اجلاس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ “تین کا یہ ٹولہ “ شمالی کوریا کے خلاف معامداانہ عزائم رکھتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار معاہدہ اربع یا QUADکے خلاف کیا ہے۔ کواٖڈ، ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکی بحریہ کے درمیان ایک غیر تحریری فوجی معاہدہ ہے جسکا مقصد بحرالکاہل میں آزادانہ جہاززانی کو یقینی بناناہے۔بیجنگ کا خیال ہے کہ کواڈ اب جنوب ایشیائی نیٹو کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
اسی کیساتھ امریکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جو دوفیصلے جاری کئے ہیں، گروپ سات کے قائدین، اسے سربراہ کانفرنس میں کئے جانیوالے فیصلوں کے منافی قراردے رہے۔
افتتاحی اجلاس سے دودن پہلے امریکی عدالت عظمی نے اسقاطِ حمل کے معاملے کو ریاستوں کے حوالے کردیا۔ 1973میں سپریم کورٹ نے میرا جسم میری مرضی کا اصول تسلیم کرتے ہوئے اسقاط کو پُر امید ماووں کا حق قرار دیا تھا۔ لیکن اب تین کے مقابلے میں 6 ججوں نے فیصلہ دیا کہ اسقاط کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ ریاستوں کو کرنا چاہے۔ تیرہ سے زیادہ ریاستوں کی مقننہ اسقاط کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں ۔ گروپ سات کا کہنا ہے کہ صنفی مسساوات اور خواتین کا اقتصادی استقلال اس سال کے فیصلوں کی روح ہے اور امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کا حق خواتین سے چھین کر حوا کی بیٹی کو دوسرے درجے کی مخلوق بنادیا ہے جسے اپنے جسم پر بھی اختیار حاصل نہیں۔فیصلے سے امریکی سپریم کورٹ کی نظریاتی تقسیم ایک بار پھر سامنے آگئی۔ تینوں لبرل ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی۔دلچسپ بات کہ اس فیصلے کا مسودہ کچھ عرصہ پہلے Leakہو چکا تھا۔
امریکی عدلیہ میں قدامت پسندوں نے پیشقدمی جاری رکھتے ہوئے ایک اور فیصلہ یہ سنایا کہ مقتدرہ برائے تحفظِ ماحول (EPA)کو کلیدی ضابطے بنانے کا اختیار نہیں ۔اس سلسلے میں قانون سازی وفاقی اور ریاستی مقننہ کو کرنا چاہئے۔ یہ فیصلہ بھی نظریاتی بنیادوں پر ہوا اور تینوں لبرل ججوں نے اکثریتی فیصلے کی خلاف نوٹ لکھے۔ اس فیصلے سے جہاں EPAکی قدغنوں سے پریشان امریکی سرمایہ کارو صنعتکار, خاص طور تیل اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ طبقے نے اطمینان کا سانس لیا ہے وہیں گروپ سات کی قیادت کو ڈر ہے کہ EPAمفلوج ہوجانے کی صورت میں 2030 تک کاربن سے پاک شاہراہوں کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوجائیگا۔
صدر بائیڈن نے اپنے حلیفو ں کو یقین دلایا ہے کہ ان دونوں معاملات پر قانون سازی کے ذریعے وہ عدالتی فیصلوں کے منفی اثرات کے سد باب میں کامیاب ہوجائینگے لیکن زمینی حقائق اور نومبر کے انتخابات کیلئے کے عوامی جائزے برسراقتدار ڈیمو کریٹک پارٹی کیلئے انتہائی مایوس کن ہیں۔ سیاسیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ دونوں حکمراں جماعت کے ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں ۔گروپ سات کا بھی یہی خیال ہے کہ دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن نومبر کے انتخابات کے بعد قانون سازی کے اختیار سے محروم بائیڈن انتظامیہ عملاً اپاہج بطخ یا Lame duckبن کر رہ جائیگی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 جولائی 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 8 جولائی 2022
روزنامہ امت کراچی 8 جولائی 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 جولائی 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment