تیل کی سیاست اور زیر زمین حقیقت
سیاہ دودھ کی نہروں کابہاو کمزور پڑرہا ہے
صدر
بائیڈن کا حالیہ دورہ سعودی عرب کھوداپہاڑ نکلا چوہا بلکہ چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی ثابت ہوا۔ امریکی صدر
اپنے احباب کو کہہ کر آئے تھے کہ محمد بن سلمان ہم سے وقتی طور پر ناراض ہیں لیکن وہ امریکہ کے
مخلص دوست ہیں چنانچہ اس نازک وقت میں ضرور
ہماری مدد کرینگے۔لیکن ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مہنگی
توانائی صدر بائیڈن کے خلاف دودھاری بلکہ پنج دھاری تلوار ہے جسکی ہر ضرب چچا سام کی چودھراہٹ اور امریکہ میں بائیڈن کی صدارت دونوں کے دن گنتی جارہی ہے۔
ایک
طرف تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے صدر پیوٹن
کا بٹوہ ابلا پڑرہا ہے اور انھیں جنگی اخراجات
کی کوئی فکر نہیں۔ حال ہی میں روس نے ایران سے کئی سو ڈرون خریدے ہیں۔ تیل کی فروخت سے یہ تمام اخراجات باآسانی پورے
ہورہے ہیں۔ جبکہ یوکرین کی مدد کرنے والے امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی آمدنی کا
خطیر حصہ تیل اور گیس کی خریداری پر خرچ کررہے ہیں اورجو چند پیسے بچ رہے وہ یوکرین
جنگ میں پھنک جاتے ہیں۔
مہنگے
تیل نے بازار کو آگ دکھادی ہے۔ نونہالوں کا
دوددھ ہو یا روٹی ، انڈے اور دال ساگ، غذا
اور دوا سب کے دام آسمان پر ہیں۔سونے کے بھاو بکتی توانائی نے پیداواری لاگت کو آسمان کے ہم پلہ کردیا ہے نتیجے کے طور پر کارخانوں
کو تالہ لگا گر مزدوروں کو سرخ جھنڈی (pink slip)دکھائی
جارہی ہے۔انتخابات کے دنوں میں مہنگائی ، بیروزگای اور کساد بازاری حکومت کیلئے موت کا سامان ہےاور امریکہ میں چار ماہ
بعد وسط مدتی انتخابات ہیں۔
یہی دردمند کتھا کہانی لیکر
صدر بائیڈن سعودی عرب گئے ، جمال خاشقجی کے معاملے پر شہزادے کی شان میں جو گستاخی
سززد ہوگئی تھی ، اسکی معافی بھی مانگ لی لیکن شہزادہ گلفام نے صاف صاف کہدیا کہ ارامکو کیلئے پیداوار کو 13 ملین یا ایک کروڑ تیس لاکھ بیرل روزانہ سے زیادہ کرنا ممکن نہیں۔ اسوقت سعودی
کنویں ہر روز 10.46ملین یا ایک کروڑ چالیس لاکھ 60 ہزار بیرل تیل اُگل رہے ہیں یعنی سعودی تیل کا اضافی حجم 25 لاکھ چالیس ہزار بیرل یومیہ ہوگا۔
امریکی
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کی درخواست پر سردمہری دراصل شہزادے کی
ناراضگی کا اظہار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔
کرونا کے دوران جب تیل کی قیمتیں زمین سے لگی ہوئی تھیں تب ارامکو نے (نفع میں)
بھاری نقصان اٹھایاہے اور یہ انکے لئے کمائی کا وقت ہے اور امریکہ ایسا کونسا انکا
سگا ہے ہے کہ جسکے مفاد میں وہ نفع کی بہتی گنگا سے اٹھ جائیں۔ کیا واشنگٹن
اسکے عوض سعودی عرب کو اپنا اسلحہ رعائتی داموں فروخت کریگا۔ امریکی
بہادر ہمیشہ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ولی عہد کی ناراضگی اور مملکت کا مالیاتی و اقتصادی مفادات اپنی جگہ
لیکن سعودی تیل کے ذخائر، انکی
مقداراور قابل کشید مدت کی بناپر تکنیکی
اعتبار سے بھی پیداوار میں بھاری اضافہ ممکن
نہیں۔ سعودی عرب میں 70 فیصد سے زیادہ تیل اِن 6 میدانوں
سے حاصل ہوتا ہے
غوار:
یہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑامیدان ہے۔ یہاں 1948 میں تیل دریافت ہوا۔ الاحسا
کے علاقے میں یہ میدا ن 8400 مربع کلومیٹر
رقبے پر پھیلاہوا ہے۔ یہاں کنووں کی اوسط گہرائی 6500 فٹ ہے۔ چٹانوں کو نظام خاصہ مستحکم ہے اسلئے کھدائی زیادہ مشکل نہیں، نتیجے کے طور
پر یہاں پیداواری لاگت دنیا میں سب سے کم ہے۔پندرہ بیس سال پہلے یہاں سے 50 لاکھ
بیرل تیل روزانہ نکالاجاتا تھا ۔اب یہ مقدار گھٹ کر 38 لاکھ بیرل رہ گئی ہے۔غوار سے یومیہ 2 ارب مکب فٹ (2bcf) گیس بھی حاصل کی جاتی ہے۔ایک زمانے تک سعودی
پیداوار کا نصف غوار سے حاصل ہوتا لیکن اب مجموعی پیداوار میں غوار کا حصہ ایک تہائی
سے کچھ زیادہ رہ گیاہے
خریص : ظہران اور ریاض کے درمیان ی2890 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہہ میدان 1965
میں دریافت ہوا لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار
کا آغاز 2006 میں ہوا ۔خریص سے اوسطاً پندرہ لاکھ بیرل تیل یومیہ حاصل کیا جاتا ہے۔
بہت سے ماہرین خریص کو غوار کا حصہ سمجھتے ہیں۔
قطیف اور ابو سعفہ : خلیج سے متصل
قطیف میدان سے یومیہ پانچ لاکھ اور خلیج کے اتھلے پانیوں میں ابوسعفہ
سے 3 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالاجاتا ہے
السفانیہ: خلیج عرب (یافارس) میں یہ
میدان 1956 میں دریافت ہوا اور 1957 میں پیدااوار شروع ہوئی۔ سفانیہ سے 12 لاکھ بیرل تیل حاصل
ہوتا ہے
شیبہ: یہ میدان لق و دق صحرا میں ہے جسے
ربع الخالی کہتے ہیں۔ غالباً یہ سعودی تیل
کا خلیج سے دور واحد میدان ہے ورنہ تمام بڑے میدان خلیج یا اسکے کنارے واقع ہیں۔
ان چھ میدانوں سے اوسطاً 83 لاکھ بیرل
تیل روزانہ حاصل ہوتا ہے جو مملکت کی کل
پیداوار کے 79 فیصد سے زیادہ ہے۔
سعودیوں کیلئے اصل فکر کی بات غوار کے
لچھن ہیں ۔کنووں میں تیل کے نیچے پانی کی
تہہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے تیل اوپر
آتا ہے پانی کی تہہ بھی اوپر آتی رہتی ہے اور تیل کیساتھ پانی بھی اوپرآتا ہے جسے پیداواری اصطلاح میں Water Cutکہتے ہیں۔ اسوقت غوار میں پانی کا حجم 38 فیصد ہوگیا ہے یعنی ہر سو میں 62 بیرل تیل اور 38 پانی ہے اور خیال ہے کہ 2027 یعنی پانچ سال بعد یہ تناسب 50 فیصد
ہوجائیگا۔
پانی کی مقدار بڑھنے سے جہاں تیل کی
پیداوار کم ہوتی ہے وہیں اس پانی کو ٹھکانے لگانا ایک دردِ سر ہے۔ عام طور سے
کنویں کھود کہ یہ پانی ذخیرے کے نیچے پمپ کردیا جاتا ہے تاکہ تیل اور پانی کی پیداوار سے کم ہونے والے دباو کو برقراررکھا جائے ۔ یہ خاصہ مشکل ، محنت طلب اور
خرچے کا سودا ہے اور بعض اوقات Water Management کا خرچ تیل کی آمدنی سے
بڑھ جاتا ہے۔ سندھ کے علاقے بدین میں بھی یہ مسئلہ ہے۔
ارامکو
کی لائق و فائق اور دورِ جدید کے تقاضوں
سے قیادت کو اس صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ وہ وزارت کو اس معاملے سے برابر آگاہ رکھے ہوئے ہیں اور جب
ولیعہد صدر بائیڈن سے بات کررہے تھے اسوقت مستقبل کی پوری صورت گری انکے سامنے تھی۔
محمد بن سلمان کے رویہ
السعودیہ(vision)
2030 کا مرکزی محرک بھی یہ
زمینی صورتحال ہے جسکی وجہ سے مملکت
آمدنی کیلئے خام تیل پر ا نحصار کم سے کم کرنا چاہتی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ خام تیل کی کشید کیساتھ ارامکو ساری دنیا میں تیل صاف کرنے کے کارخانوں، پائپ لائنوں اور نقل و حمل کے
منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔نئے دریافت ہونے والے زیادہ تر
میدانوں سے گیس کشید کی جارہی ہے، چنانچہ LNG تنصیبات اور پلانٹ پر سرمایہ کاری ہوری ہے۔
مستقبل میں خام تیل
کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد
ترجیح ہوگی ، ریفائنری کیساتھ اپنے پیٹرول پمپوں کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی تقسیم
پر توجہ دی جائیگی۔ تیل کےسکڑتے ذخائر کی بناپر خام تیل کا برآمدی حجم کم ہوگا اور آمد نی میں اضافے
کیلئے خام مال کے بجائے اضافی قدر یا value addition کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں کاربن سے پاک ، ماحول
دوست ایندھن کی مانگ بڑھ رہی ہے، 2030 سے تقریباً آدھے یورپ میں پیٹرول سے چلنے
والی گاڑیان متروک ہورہی ہیں جسکی پیش بندی میں سیاحت اور کاروباری سرگرمیوں کا فروغ وژن 2030 کا کلیدی جزو ہے
مختصراً یوں سمجھئے کہ زیر زمین ذخائر کی صورتحال کے پیش نظر بھاری سرمایہ کاری کے بغیر پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں جبکہ سیاہ سونے کیلئے اضافی سرمایہ کاری شہزادہ گلفام کے وژن 2030 اور تزویراتی (اسٹریٹیجک) منصوبے سے متصادم ہے ۔ اسی بناپر انھوں نے امریکی صدر کو تیل کی پیدوار میں خفیف سے اضافے پر ٹرخادیا۔
No comments:
Post a Comment