ایک دن ان ہی قتل گاہوں میں، قاتلوں کو بھی قتل
ہونا ہے
برما کی سابق اسٹیٹ کونسلر
(سربراہ حکومت ) آنگ سان سوچی (Aung San Sui Kyi)کے چار ساتھیوں کو سزائے موت دیدی گئی، ان لوگوں کو ایک فوجی عدالت
نے جنوری میں سزائے موت سنائی تھی۔پھانسی چڑھانے جانیوالوں میں سان سوچی کے قریبی
ساتھی 53 سالہ کھیا من یو (Kyaw Min Yu)المعروف جمی اور سابق رکن
قومی اسمبلی، ہپ ہاپ موسیقی کے گلوکار 41 سالہ پھیو زیاتھا (Phyo Zeya Thaw) شامل ہیں۔ اسکے علاوہ بحالیِ جمہوریت کے دو رہنما ہلا میو انگ (Hla Myo Aung)اور انگ تھورا زن (Aung Thora Zan)بھی موت کے گھاٹ اتار دئے
گئے۔ فوجی جنتا کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ
دہشت گرد اور ملک دشمن عبوری حکومت National Unity
GovernmentیاNUGکا حصہ تھے، برمی فوج نے NUGکو غیر ملکی سرمائے سے چلنے والا ملک
دشمن دہشت گردگروہ قراردیا یے۔
حکومت کی مخالفت اور تنقید
کوئی جرم نہیں کہ اس پر سزا ہو کجا کہ حکومت مخالفین کو پھانسی پر لٹکادیا جائے ۔برمی
فوجی جنتا کا یہ قدم قابل مذمت ہے اور انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کے مرتکبین
عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔
تاہم برما میں انسانی حقوق
کی ِخلاف ورزی کا یہ پہلاواقعہ نہیں۔ یہی جنرل من آنگ ہیلینگ Min Aung Hlaingجب 2012 میں روہنگیا (برمی مسلمانوں)
کے لہو سے ہولی کھیل رہا تھا تو محترمہ سوچی اس بھیڑیئے کی پشت پرتھیں۔ اسوقت وہ نیشنل
لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما تھیں اور جب ان سے کسی نے برمی مسلمانوں کے خلاف فوجی
آپریشن پر تبصرہ کرنے کو کہا اس پتھر دل خاتون نے بے نیازی سے کہا کہ برمی
مسلمان؟؟ یہاں مسلمان کب آئے؟ جب صحافی نے کہا کہ روہنگیا آ بادی کے خلاف آپریشن
ہورہا ہے تو سوچی صاحبہ بولیں، روہنگیا تو بنگالی پناہ گزین ہیں وہ برمی کب سے
ہوگئے؟
جب 2015کے انتخابات کیلئے فہرست بنانے کا آغاز ہوا تو سان سوچی اورانکی
نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی نے بودھ انتہا پسندوں کیساتھ ملک گیر تحریک چلائی کہ
انتخابی فہرستوں میں روہنگیا ووٹروں کا ا ندراج نہ کیا جائے اور انکے دباو پر
الیکشن کمیشن نے روہنگیا ووٹروں کے نام انتخابی فہرست سے حذف کردئے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد
حکومت سنبھالنے پر سان سوچی صاحبہ نے جنرل ہیلینگ کو دہشت گردوں کے خلاف جرات مندانہ
آپریشن پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس شیطان نے نئے عزم کے ساتھ روہنگیا
آبادی میں کاروائی شروع کی۔ روہنگیا آبادی کے گھروں کو نصف شب کے بعد اسوقت نذرِ
آتش کیاگیا جب مکین بے خبر سورہے تھے۔ خوش نصیب مرد تو لنگی اور بنیان میں جلتے
ہوئے گھروں سے نکل آئے لیکن باحیا خواتین کی بڑی تعداد ستر پوشی کی فکر میں گھر سے
نکل نہ سکی اور عفت و عصمت کا استعارہ بنی حوا کی یہ بیٹیاں شعلوں سے گھرے
مکانوںمیں جل کر خاک ہوگئیں۔ تین ہفتوں کے اس آپریشن میں برما روہنگیا آبادی سے
'پاک ' ہوگیا۔ اسلئے کہ آگ اور فائرنگ سے بچ جانے والے سخت جان بنگلہ دیش کی طرف
ہنکا دئے گئے۔سان سوچی نے اس آپریشن کو دفاع وطن کیلئے ضروری قراردیا۔ جب بی بی سی
کی مشال حسین نے اس بارے میں نوبل انعام یافتہ سان سوچی سے روہنگیا کُش آپریشن کے
بارے میں سوال کیا تو محترمہ نے فرمایاTensions were due to
a "climate of fear" caused by " worldwide perception that global
Muslim power is 'very great'". ۔ یعنی 'کشیدگی کا محرک
خوف کا وہ ماحول ہے جس نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے بارے میں عالمی تاثر کی
بنا پر جنم لیا ہے'
سان سوچی کے ہیرو یہی جنرل
ہیلینگ اب انکے ساتھیوں کو تختہ دار پر کھینچ رہے ہیں۔ آج پھانسی پر لٹکائے
جانیوالے سوچی کے چاروں ساتھیوں میں سے کسی نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف
بربریت کی مذمت نہیں کی تھی۔
الحمد اللہ کسی فرد یا گروہ کی زیادتی ہمیں اتنا مشتعل نہیں کرسکتی کہ ہم ناانصافی پر اُتر آئیں۔ برمی فوجی جنتا کا یہ قدم شرمناک ہے جسکی دنیا کو مذمت کرنی چایئے۔ عالمی عدالت انصاف میں روہنگیا نسل کشی کے خلاف مقدمہ زیرسماعت ہے، امید ہے کہ اپنے ماضی سے شرمندہ ہوکر سوچی صاحبہ جنرل ہیلنگ کے خلاف سلطانی گواہ بننے پر غور کرینگی۔برمی مسلمانوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائیگا اور برما سے نکالے جانیوالے روہنگیا کو عزت وقار سے انکے گھروں میں دوبارہ آباد کیا جائیگا۔
No comments:
Post a Comment