جاپان کے سابق وزیر اعظم کا قتل
جاپان کے سابق
وزیراعظم شنزو آبے (Shinzo Abe) 8 جولائی کو قتل کردئے گئے۔ وہ
جنوب مشرقی جاپان کے شہر Naraمیں اپنی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک جلسے سے خطاب کررہے
تھے کہ انھیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ واقعے کے دودن بعد، اتوار 10جولائی کو جاپانی ایوانِ بالا یعنی ہاوس
آف کونسلرز (House of Councilors)کی 245 میں سے 124 نشستوں پر انتخابات
ہونے تھے۔ آفرین ہے جاپانی قوم پر کہ اس بہیمانہ
قتل کے باوجود یہ انتخابات وقت پر ہونےا ور
تمام جماعتوں نے انتخابی مہم بھرپو انداز
میں جاری رکھی۔وزیراعظم اور مقتول رہنما کی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ فیومیو
کشیدہ نے قوم سے اپنے خطاب میں کہاکہ ' ہم اپنےقائد پر چلنے والی گولیوں کا انتقام پرچیوں (ووٹوں) سے
لیں گے'
ایوان بالا (سینیٹ)
کو جاپانی سینگین (Sangiin)کہتے ہیں۔ اسے آپ ہندوستان کی راجیہ سبھا یا
پاکستان کی سینیٹ سمجھیں۔ سینگین کی مدت 6 سال ہے اور اسے کچھ اس طرح ترتیب دیا
گیا ہے کہ ہر تین سال بعد نصف کے قریب ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جاپان میں
ایوان بالا کی ساٹھ فیصد نشستوں پر پاکستان اور ہندوستان کی طرح حلقہ وار چناو
ہوتا ہے جبکہ 40 فیصد ارکان متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔جناب ایبے کے قتل سے انکی حکمران جماعت کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچا اور
جن 124 نشستوں پر اتخابات ہوئے ان میں سے 83 لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی جھولی میں آگریں۔اتوار کو ووٹ ڈالنے کا تناسب 52 فیصد رہا، گزشتہ انتخاب میں
48 فیصد رجسٹرد جاپانی ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
شنزو
ایبے کا مبینہ قاتل 41 سالہ ٹیٹسوا
یاماگامی(Tetsuya Yamagami) جاپانی فوج کا سابق
سپاہی ہے۔اس نے اپنے ابتدائی اعترافی بیان میں کہا کہ اسے سابق وزیراعظم کی معاشی پالیسوں اور 'غریب کُش' اقدامات پر سخت غصہ تھا اور اس
نے جناب ایبے کو جان سے مارنے کیلئے انکے سینے کا نشانہ لیا۔
حکمرانوں
اور سیاسی رہنماوں کا قتل لرزہ خیز تو ہے لیکن یہ واقعات انہونے شمار نہیں ہوتے۔
امریکہ کے چار صدور دورانِ اقتدار قتل کئے جاچکے ہیں۔ جن میں سب سے مشہور ابراہام
لنکن ہیں جنھیں وہائٹ ہاوس کے تھیٹر میں ایک کھیل دیکھتے ہوئے 1865 میں چند فٹ کے
فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔ صدر جیمز گارفیلڈ 1881 میں دارالحکومت کے ریلوے اسٹیشن پر
گولیوں سے بھون دئے گئے۔۔صدر ولیم مک کنلی 1901 اور صدر رجان ایف کینیڈی 1963 میں
قتل ہوئے۔ صدر کینیڈی کے قتل کے 5 سال بعد انکے چھوٹے بھائی سینٹر رابرٹ کینیڈی کو
لاس انجیلس
کے ہوٹل میں گولی مار دی گئی۔ سینٹر صاحب کا مبینہ قاتل سرحان سرحان ایک مسیحی
فلسطینی ہے جو امریکہ کی اسرائیل نواز پالسی پر سخت برہم تھا۔ سرحان سرحان کیلی فورنیاکے
ایک وفاقی قید خانے میں عمر قید بھگت رہا ہے۔برطانوی وزیراعظم اسپینسر پرسِول (Spencer
Perceval) مئی 1812
میں قتل ہوئے۔
برصغیر میں آزادی کے بعد رہنماوں کے
قتل کی پہلی المناک وارادت جنوری 1948 میں ہوئی جب مہاتما گاندھی قتل کردئے گئے
جسکے تین سال بعد اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوبزادہ لیاقت علی خان
مارے گئے، 1984 میں بھارتی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی ایک حملے میں اپنی جان سے
گئیں اور دسمبر 2007 میں پاکستان کی سابق
وزیراعظم بینظیر بھٹو گولیوں کا نشانہ بنیں۔ سوئے اتفاق کہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی
کے کمپنی باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران ہدف بنایا گیا۔ بعد میں کمپنی باغ
کا نام لیاقت باغ رکھدیا گیا جہاں جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئے بینظیر
بھٹو پرگولی چلائی گئی۔
عرب دنیا کے مقتول رہنماوں کا ذکر کیا جائے تو مصر کے صدر انوارالسادات 1970 میں فوجی پریڈ کے
دوران ایک سپاہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن
عبدالعزیز کو بھرے دربار میں انکے بھتیجے نے قتل کردیا۔ لیبیا کے معمر قذافی 2011
کی عوامی بغاوت کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے۔
جاپان کا شمار دنیاکے چند محفوظ ترین
ملکوں میں ہوتا ہے۔ وہاں خودکشی تو عام ہے لیکن قتل
کی واردتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ جاپان میں امریکہ کے برخلاف عام لوگوں کو پستول یا
بندوق رکھنے کی اجازت نہیں اور شکار کیلئےلائسنس بھی کڑی جانچ پڑتال کے بعد ملتا
ہے۔جناب ایبے کے خون سے پہلے گزشتہ 63 سال کے دوران وہاں صرف
دو سیاسی قتل ہوئے ، 1960 میں سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجیرو اسانوما(Inejiro Asanama) کو ایک
بدنام زمانہ جرائم پیشہ گروہ نے تلوار سے کاٹ کر ہلاک کردیا تھا۔اس نوعیت کا آخری
قتل 2007 میں ہوا جب ناگاساکی کے امیرِ شہر ایچو ایتو (Iccho Ito) کو گولیوں
سے چھلنی کردیا گیا۔ سیاسی قتل سے ناآشنا جاپانی اپنے سابق وزیراعظم کے قتل پر اب
تک سکتے میں ہیں۔فروری 1986میں ایسی ہی کیفیت سوئیڈن پر طاری ہوئی تھی جب
وزیراعظم الوف پامے Olof Palme کو اسوقت قتل کردیا گیا
جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ سنیما سے فلم دیکھ کر پیدل ایوان وزیراعظم واپس آرہے
تھے۔ سوئیڈن ا ب بھی نسبتاً پرامن ملک ہے
لیکن اسوقت اعتمادکا یہ عالم تھا کہ وزیراعظم اور اعلیٰ حکومتی عمال نجی سرگرمیوں
کے دوران محافظوں کےبغیر سفر کرتے تھے۔
شنزوآبے طویل ترین مدت
تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے جاپانی سیاست دان تھے۔انکے اقتدار کا مجموعی دوارنیہ 9 سال سے زائد رہا۔جناب
ایبے نے 21 ستمبر 1954 کو ایک صاحبِ ثروت و اقتدار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انکا ننہیال اور ددھیال دونوں ہی
کا تعلق مقتدر طبقے سے تھا۔ امریکہ سے پبلک پالیسی میں اعلیٰ تعلیم کے بعد 1993
میں وہ ملک کے جنوب مغربی جاپان کے ساحلی شہر یاما گچی (Yamaguchi)
سے
ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک
سبھا) کے رکن منتخب ہوئے اور 2021 تک ہر انتخاب میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے۔ وہ
ستمبر 2006 میں وزیر اعظم
منتخب ہوئے، اسوقت ایبے صاحب کی عمر 52 برس تھی اور انکا شمار جاپان کے سب سے کم
عمر وزیر اعظم میں ہوتا تھا۔اس سے قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جاپانی قوم کتنی
تیزی سے بوڑھی ہورہی ہے۔
اقتدار سنبھالتے ہی جناب
ایبے نے اپنے قدامت پسند منشور پر جارحانہ انداز عملدرآمد شروع کردیا۔حکومتی
اخراجات میں کمی کیلئے سماجی فلاح و بہبود اور اجتماعی خیر کے کئی پرواگرام بند
کردئے گئے۔ اسوقت امریکہ میں شوقِ کشور کُشائی میں ڈوبے جارج بش برسراقتدار تھے۔اپنے
امریکی دوست کے زیر اثر جناب ایبے نے بھی دفاعی اخراجات میں بھاری اضافہ کردیا اور
ساتھ ہی شمالی کوریا کے خلاف انکا لہجہ بڑا سخت ہوگیا۔ اس دوران بحرالکاہل پر نظر
رکھنے انھوں نے جاپان، ہندوستان، آسٹریلیا اور امریکہ کے مابین چار فریقی مکالمہ
برائے تحفظ (Quadrilateral Security Dialogue) المروف Quadکی تجویز
پیش کی جسے صدر بش کی جانب سے زبردست پزیرائی نصیب ہوئی۔ کواڈ کا آغاز تو مکالمے
کی صورت میں ہوا لیکن جلد ہی یہ معاہدہِ
اربعہ کی شکل میں ان چار ملکوں کی بحریہ کا عسکری اتحاد بن گیا۔چین کا خیال ہے کہ
کواڈ بحرالکاہل کا نیٹو ہے جسکا مقصد ضرورت پڑنے پر بحر جنوبی سے بحر ہندکی طرف آنے
اور جانیوالے بحری ٹریفک کو قابو کرنا ہے۔ بحر ِجنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے
والا راستہ آبنائے ملاکا سے ہوکر گزرتاہے جسکی نگرانی کیلئے ہند ناو سینا (بھارتی
بحریہ) نے بحر انڈمان اور خلیج
بنگال کے قریب امریکی و آسٹریلوی بحریہ کے تعاون سے جنگی جہاز تعینات کردئے ہیں۔اسی
دوران شینزو ایبے نے امریکی صدر کے اصرار پر اضافی فوجی دستے اور مہلک ہتھیار
افغانستان بھیجے۔
ان اقدامات سے انھیں مغرب میں تو پزیرائی نصیب ہوئی لیکن فوجی اخراجات میں
اضافے اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں کٹوٹی کو جاپانی عوام نے پسند نہیں کیا۔اسی
کیساتھ جناب ایبے کے بعض وزرا کے بارے میں بدعنوانیوں کی کچھ کہانیاں بھی منظر عام
پر آئیں اور 2007 کے پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف کی
ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان بالا حکمراں جماعت سے چھین لیا اور جناب ایبے نے وزارت
عظمیٰ سے استعفی دیدیا۔
پانچ سال بعد 2012 کے انتخابات میں انکی جماعت نے ایوان
نمائندگان کی 480 میں سے294 نشستیں جیت
لیں لیکن ایوان بالا میں انکے مخالفین کو برتری حاصل تھی۔ جاپانی آئین کے تحت ایوان
بالا ایوان نمائندگان کی کسی بھی قرارداد،
ضابطہِ قانوں یا فیصلوں کو مسترد کرسکتا ہے اور اس ویٹو کو غیر موثر کرنے کیلئے ایوان نمائندگان کی دوتہائی
اکثریت ضروری ہے چنانچہ جناب ایبے نے واضح اکثریت کے باوجود دوتہائی حمائت کیلئے ٓمذہبی خیالات کی حامل انتہائی قدامت پسند جماعت نیو کمیٹو پارٹی (NKP)سے مل کر مخلوط حکومت بنالی۔جناب ایبے کی قیادت میں
حکمراں اتحاد نے 2014اور اسکے بعد 2017 کے انتخابات میں پالیمانی برتری برقرار
رکھی اور وہ پہلے مدت کے بعد مسلسل تین بار جاپان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔اسطرح انھیں کم عمر کیساتھ سب سے طویل عرصے تک جاپان کاوزیراعظم
رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، جس ملک میں وزرائے اعظم کے اقتدار کی اوسط عمر ڈیڑھ سال
ہے وہاں انجہانی نے 9 سال حکومت کی۔
دوسرے بہت سے رہنماوں کی طرح کرونا کی وبا شینزوایبے کے زوال کا سبب بنی۔ اس
نامراد سے نبٹنے کیلئے ایبے سرکار نے جو اقدامات اٹھائے وہ عوام میں خاصے غیر
مقبول تھے۔ اسی دوران انکی صحت بھی خراب ہوگئی۔قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جناب ایبے
بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا تھے چنانچہ انھوں نے گزشتہ برس 28 اگست کو اسعفیٰ
دیدیا اور انکے معتمد یوشی سوگا (Yushihide Suga)وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ جناب سوگا بہت جلد عوام میں غیر
مقبول ہو گئے اور صرف تیرہ ماہ بعد انھوں نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیدیا۔ اب مسٹر
فیومیو کشیدہ وزیراعظم ہیں۔ سیاست کے ڈھنگ نرالے ہیں کہ 2020 سے لبرل ڈیموکریٹک
پارٹی کی غیر مقبولیت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈر تھا کہ اتوار کو ایوان بالا کے انتخابات
میں حکمراں جماعت کو ہزیمت کا سامنا ہوگالیکن جناب ایبے کے قتل نے پانسہ پلٹ دیا اور اب ایوان زیریں کے ساتھ
حکمراں جماعت کو ایوا ن بالا میں بھی برتری حاصل ہوگئی ہے۔
آنجہانی جاپانی تاریخ
کے سب سے قدامت پسند وزیراعظم ہونے کے سساتھ تعصب و تنگ نظری کی حد تک قوم پرست
تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج کے مظالم کی ذکر پر موصوف مشتعل ہوجاتے تھے
اور بات بے بات پھٹ پڑنے کی عادت سے جاپان
کا قریب ترین علاقائی حلیف جنوبی کوریا بھی ان سے نالاں تھا ۔
جاپانی کی شرح پیدائش
میں کمی اور تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی کا
موصوف کو شدت سے احساس تھا۔ انکے دور میں شرح پیدائش بڑھانے کے لیے کئی پالیسیاں وضع
کی گئیں۔ دفاتر اور کارخانوں میں نوجوان والدین کے لیے کام کی جگہ کو دوستانہ
بنایا گیا۔ ماؤں کیلئے دورانِ
رضاعت تنخواہ کے ساتھ تعطیل اور دوسری مراعات کا اعلاں کیا گیا۔ نوزائیدہ بچوں کیلئے
خصوصی وظیفے جاری ہوئے۔افرادی قوت کیلئے ویزے کی پابندیوں کو بھی نرم کیا گیا لیکن
شام، عراق، لیبیا اور دوسرے علاقے عرب پناہ گزینوں کی جاپان
میں آبادکاری کی تجویز شینزو ایبے نے یکسر مسترد کردی۔
اس قتل کا بنیادی
محرک سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظالمانہ پہلو ہے جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانیوالوں
کو آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کرنے کے بجائے ان بدنصیبوں کی ناداری کا سبب اس طبقے
کی نااہلی اور کام چوری کو قراردیتا ہے۔ یاماگامی اسی طبقے کا ایک فرد ہے جس کی محرومی
نے انتقام کی ایسی آگ اسکے دل میں بھڑکادی جس نے اسے جناب ایبے کے قتل کیلئے یکسو
کردیا۔ جاپانی سراغرساں ادارے اور تحقیقات کار اب تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ
مبینہ قاتل نے آتشیں اسلحہ کیسے حاصل کیا کیوں کہ اسکے پاس اسلحے کا لائسنس نہیں تھا اور جاپان میں لائسینس
کے بغیر ایک کارتوس خریدنا بھی ممکن نہیں۔
ملزم کے گھر کی تلاشی کے دوران جو شواہد
حاصل ہوئے اسکے مطابق وہاں 'گھریلو ساخت' کا اسلحہ پایا گیا۔ چونکہ یاماگامی سابق
فوجی ہے اسلئے غالباً اس نے پرزے جوڑکر 'جُگاڑ' کے ذریعے پستول تیار کرلی اور سابق وزیراعظم کو اتنے قریب سے نشانہ بنایا کہ یہ مہمل سی پستول مہلک ثابت ہوئی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15
جولائی 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 15 جولائی 2022
روزنامہ امت کراچی 15 جولائی 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جولائی 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment