میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟؟؟
افغان سیاستدانوں نے کابل ائرپورٹ پر حملے کی غیرجانبدار عالمی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے
چارسال پہکے امریکہ کے سرکاری ریڈیو VOA پر اپنے ایک انٹرویو میں سابق اففان صدر حامد کرزئی نے داعش کو امریکہ کا آلہ کار قرار دیا تھا
انخلا کے حالیہ آپریشن پر اسٹوڈنٹس پہلے دن سے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ اسی بنا پر انھوں نے اسکی توسیع سے انکار کردیا ہے۔ کابل کے عسکری تجزیہ نگارمسلسل کہتے چلے آئے ہیں کہ ائرپورٹ کے باہر ہجوم دہشت گردوں کا فطری اور آسان ہدف ثابت ہوسکتا ہے
دنیا میں کہیں بھی مصدقہ سفری سفری دستاویز (پاسپورٹ، ویزا اور ٹکٹ) کے بغیر مسافروں کو ائر پورٹ کے اندر نہیں جانے دیا جاتا۔یہاں معاملہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے کابل میں اپنے سفارتخانوں پر قفل چڑھائے ہوئے ہیں اور اپنے سہولت کاروں سے کہا جارہا ہے کہ امریکہ جانے کیلیے ائرپورٹ پہنچ جاو۔جب ائرپورٹ کے باہر تعینات اسٹوڈنٹس ان لوگوں سے شناختی و سفری دستاویز طلب کرتے ہیں تو بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے۔
بدقسمتی سے موسم بھی سازگار نہیں اور سورج بادشاہ بہت تپے ہوئے ہیں ۔ چلچلاتی گرمی میں دونوں طرف جب پارہ چڑھتا ہے تو تو تڑاخ سے معاملہ دھکم پیل اور ضرب و شلاق تک پہنچ جاتا ہے
اسی تماشے سے فائدہ اٹھاتےہوئے خون کے پیاسوں نے آج معصوم لہو سے علاقے کو گلنار کردیا۔نظریہ سازش پر یقین کرنے والے کہہ رہے پیں کہ اب داعش کو طلبہ کے خلاف صف آرا کیا جارہا ہے
یعنی نیا جال لائے پرانے شکاری
No comments:
Post a Comment