Wednesday, August 4, 2021

کشمیر! آخر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا

5اگست کے یک طرفہ بھارتی اقدام کو 2 سال مکمل ہونے پر 2019 کی ایک تحریر

کشمیر! آخر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا

نریندرا مودی نے آخرِکار آرٹیکل 370 کی بلی تھیلے سے باہر نکال دی یا یوں کہئے کہ اقوام متحدہ اور عالمی  قوانین کے منہہ پر تھپڑ دے مارا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کامیابی پر امیت شاہ نے کہا تھا کہ ´مودی ہے  تو  ممکن ہے'۔ قومی سلامتی کیلئے مودی جی کے مشیر اجیت ادوال نے  عالمی سیاست کے تناظر میں اس  نعرے کو مواقع اور امکانات کی نئی جہت  دیتے ہوئےکہنا شروع کردیا کہ 'مودی  کے ساتھ ٹر مپ بھی  ہے اور اب تو سب کچھ ممکن ہے'۔ عمران خان اب بھی امریکہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن مودی نےبالکل وہی حکمتِ عملی اختیار کی ہےجو صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے کیلئے اپنائی تھی یعنی جو کرنا ہے کرگزرو، لوگ رو پیٹ کر کچھ عرصے بعد خود ہی چپ ہوجائینگے۔

 سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کی قراراداد امریکی کانگریس نے 1995 میں منظور کی تھی لیکن صدر بل کلنٹن نے ممکنہ فلسطینی ردعمل کے پیش نظر صدارتی استثنیٰ استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر عملدرآمد کو چھ ماہ کیلئے کے موخر کردیا۔ مدت کی تکمیل پر اگلے چھ ماہ کیلئے مزید استثنیٰ جاری کردیا اور یہ سلسلہ کلنٹن عہدِ صدارت کے اختتام تک قائم رکھا۔ انکے بعد آنے والے صدر بش اور صدر اوباما بھی استثنیٰ پر استثنیٰ لے کر معاملے کو ٹالتے رہے لیکن مئی 2018 میں صدر ٹرمپ نے ساری دنیا کی جانب سے شدید رد عمل کو نظر کرتے ہوئے امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کردیا۔اسی پس منظر میں ہم ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کا جائزہ لیتے ہیں جس سے مودی و ٹرمپ کی حکمت عملی میں  مماثلت کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔

کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے21  اپریل 1948 کو جو  قرارداد نمبر 47 منظور کی اس میں کشمیر کے حل کیلئے 3 مراحل تجویز کئے گئے تھے۔ یعنی پہلے کشمیر سے 'پاکستانی قبائلیوں' کا انخلا، دوسرے مرحلے میں وادی سے ہندوستانی فوج کی واپسی جسکے بعد جموں و کشمیر میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نگراں حکومت کا قیام جو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کریگی کہ کشمیری پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

اس قرارداد کی تشریح ہندوستان نے کچھ انداز میں کی کہ پاکستان کی دراندازی کے جواب میں  مزید فوجی دستے کشمیر  بھیج دئے اور ریاستی پارلیمان قائم کرکے عبوری حکومت تشکیل دیدی۔ قیام ہند وپاکستان کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جس دستاویزِ وابستگی یا Instrument of Accessionپر دستخط کئے تھے اسکے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور  ریاست پر ہندوستان کے قوانین کا اطلاق نہ ہوتا تھا۔اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد پر کا تاثر دینے کیلئے دستاویزِ وابستگی کے حوالے سے  ایک صدارتی حکم کے ذریعے ہندوستانی آئین کے باب 21 میں دفعہ 370 کا اندارج ہوا جسکے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور اسکی اسمبلی کو مکمل خودمختاری عطا کی گئی۔

اسی کے ساتھ جموں کے  پنڈتوں نے سارے دیش کے ہندووں کوکشمیر آنے کی دعوت دی تاکہ ریفرنڈم سے پہلے یہاں ہندووں کے تناسب کو بڑھایا جاسکے۔ اس مقصد کیلئے باہر سے کشمیر آنے والوں کو ریاستی ملازمتیں اور سیاحتی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے پرکشش مراعات دی گئیں۔ان اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی اور کئی جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستانی فوج نے کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلنے کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور ہزاروں کشمیری مارے گئے۔ لیکن بہیمانہ تشدد کشمیریوں کو دبانے میں ناکام رہا۔کشمیر کی شناخت برقراررکھنے کیلئے تحریک نہ صرف جاری رہی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی جسکی وجہ سے پنڈتوں نے کشمیر چلو کی تحریک معطل کردی۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے وزیراعظم نہرو کی سفارش پر ہندوستان کے صدر راجندرا پرشاد نے 14 مئی 1954 کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ہندوستانی آئین کے دفعہ 370 میں ترمیم کرکے ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے کے اندراج کا حکم  دیا جسکے تحت ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی  حیثیت کو مزید مستحکم کردیاگیا۔ دفعہ 35اے کی رو سے صرف وہی لوگ ریاست کشمیر میں:

  • سرکاری ملازمت
  • غیر منقولہ جائداد کی خرید و فروخت
  • مستقل رہائش
  • ریاستی اسمبلیوں کی رکنیت اور
  • تعلیمی وظائف و گرانٹ

کے حقدار ٹہرے جنکی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں یا یوں کہئے کہ صرف جدی پشتی کشمیری ہی ریاست کے قانونی  شہری ہیں۔اس ترمیم کے ذریعے 'کشمیر کشمیریوں کا' مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وادی کی مذہبی، لسانی و عمرانی شناخت کو محفوظ کردیا گیا۔

یہ شق پہلے دن سے ہندوستانی قوم پرستوں کو کھٹک رہی ہے اور کئی اسے مرتبہ منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی  لیکن ہربار کشمیریوں کے شدید ردعمل کی بنا پر اسکی تنسیخ معطل کردی گئی۔ تاہم حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ہی 'مودی ہے تو ممکن ہے'   کے نعرے لگاتے قوم پرست 35-Aکے خاتمے کیلئے بے حد پر عزم نظر آرہے تھے ۔

اسکے برعکس وزیراعظم کو دورہ امریکہ کی دعوت ملنے کے بعد سے اسلام اؓباد پر چہرہ  ملائم بنانے یاملک کا Soft Imageابھارنے کا بھوت سوار تھا۔اس ضمن میں ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سلامتی کونسل کی نشست کیلئے ہندوستان کی حمائت، پاکستان کی فضائی حدود کو ہندوستانی طیاروں کیلئے کھولنے کے علاوہ کچھ پاکستانیوں کیخلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری کے پرچے کاٹ کر دہلی کو اپنے اخلاص کا یقین دلایاگیا۔صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران عمران خان نے پاک بھارت تنازعے کے حل کیلئے ثالثی کی درخواست کی اور بہت لجاجت سے عرض کیا کہ اگر امریکی صدر کی کوششوں سے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدیگی کم ہوجائے تو خطے کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ صدر ٹرمپ کو دعائیں دینگے۔ امریکی صدر ثالثی پر فوراً رضامند ہوگئے اور فرمایا کہ دوہفتہ پہلے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کشمیر کے مسئلے پران سے ثالثی کیلئے کہا تھا اور وہ اس خدمت کیلئے تیار ہیں۔دلچسپ بات کہ ابھی ٹرمپ عمران ملاقات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شری رویش کمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں نریندرامودی کی جانب سے ثالثی کی سختی سے تردید کردی۔ انھوں نےکہا کہ بھارتی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی۔ دوسرے روز لوک سبھا (ہندوستانی قومی اسمبلی) میں بھارتی وزیرخارجہ شری جئے شنکر نے بھی مودی  جی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کی غیر مبہم تردیدکردی۔

پاکستان کی جانب سے مہرومحبت کے ان اشاروں سے ظالم محبوب کا دل تو کیا پسیجتا، دلی نےخاموشی کے ساتھ مزید 10 ہزار فوجی وادی کی طرف رونہ کردئے ۔ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کیلئے فوج کے بجائے اضافی سپاہیوں کو پولیس کہا گیا اور اسکا اعلان بھی وزارت دفاع کے بجاے وزارت داخلہ میں کشمیر امور کے ایڈیشنل سکریٹری شری گنیش کمار نے کیا۔ انھوں نے دلی میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر کی درخواست پر Central Armed Police Forces(CAPF)کی 100 کمپنیاں فوری طورپر مقبوضہ کشمیر بھیجی جارہی ہیں۔صحافیوں کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے گنیش کمار نے بتایا کہ  CAPFکی ہر کمپنی 100سپاہیوں پر مشتمل ہے۔اسوقت مقبوضہ کشمیر میں 4لاکھ مسلح افواج ، 65 ہزار Central Reserve Police Force(CPRF)اور ساڑھے 3 لاکھ کے قریب CAPF کے مسلح جوان تعینات ہی جن میں 10ہزارکا اضافہ کیا جارہا ہے۔

تازہ دم فوجی کمک کے آتے ہی مقبوضہ کشمیر کے تمام شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھارتی فوج نے اضافی چوکیاں قائم کرلیں۔ گھر گھر تلاشی، اس دوران خواتین سے بدتمیزی، احتجاج پر پیلیٹ گنوں کا بے دریغ اور نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ میں تیزی آگئی۔اسی کے ساتھ آزاد کشمیر کی طرف اندھادھند فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا جسکی وجہ سے  بچوں سمیت کئی لوگ شہید ہوئے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستانی آئی ایس پی آر نے الزام لگایا کہ ہندوستانی فوج کنٹرول لائن پر آباد پاکستانی شہریوں کے خلاف کلسٹر بم استعمال کررہی ہے۔

اس پیش بندی کے ساتھ 2 اکست کو کشمیر میں تعینات ہندوستانی فوج کے چنار کورکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل  کے جی ایس ڈھلوں نے  متوقع  دہشت گرد حملے کے پیشِ نظر وادی سے تمام سیاحوں کو چلے جانے کا حکم دیدیا۔سرینگر میں  پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب نے کہا کہ  دہشت گردبہت بڑی کاروائی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ انھوں نے  امرناتھ یاترا کی تقریبات کو فوری طور پرختم کرکے تمام زائرین کو بھی کشمیرسے نکل  جانے کو کہا۔ زائرین کی سہولت کیلئے ہندوستانی فوج نے پہلگام اننت ناگ سے ہندوستان کیلئے خصوصی بسیں چلانے کا بھی  اعلان کیا ۔

سرینگر سے 140کلومیٹر دور اورسطح سمندر سے 13000فٹ بلندی پر کوہ ہمالیہ کے غار میں واقع  امرناتھ مندر ہندووں کے 18مقدس ترین مقامات یا مہا شکتی  پیڑھا  میں سے ایک ہے۔ عبادت  و زیارت کیلے ہندوستان کے علاوہ نیپال سےآنے والے   لاکھوں زائرین45 دن  یہاں گزارتے ہیں۔ سخت سے سخت حالات میں بھی امرناتھ یاترا کبھی منسوخ یا معطل نہیں کی گئ

ان غیر معمولی اقدامات پر حریت پسندوں کے ساتھ ہندوستان کے حامیوں کو بھی تشویش ہوئی اور نیشنل کانفرنس کے ایک وفد نے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں 3 اگست کو گورنر ملک سے ملاقات کی جس میں ملک صاحب نے بڑی صراحت سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ کسی قسم کی آئینی تبدیلی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ گورنر ملک کاکہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں نے امرناتھ یاترا اور وادی کے دوسرے اہم علاقوں پر فدائی حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے چنانچہ حفظ ماتقدم کے طور پر 'پولیس' کی اضافی نفری طلب کی گئی ہے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر امرناتھ یاترا کی تقریبات کو قبل ازوقت ختم کرکے زائرین اور دوسرے سیاحوں کو کشمیر سے چلے جانے کی ہدائت کی گئ ہے۔ غیر معمولی عسکری نقل و حرکت کے دفاع میں یہ بھی کہا گیا کہ اگست کے  دوران  وادی میں کشیدگی عام طور سے  بڑھ جاتی ہے۔ 14 اگست کو کشمیری پاکستان کا یوم آزادی بہت شان و شوکت سے مناتے ہیں جسکے دوسرے دن ہندوستان کے یوم آزادی پریوم سیاہ مزید جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔چانچہ ہر سال ہی ان دنو ں اضافی فوجی دستے ساری وادی میں تعینات کئے جاتے ہیں۔

تاہم کشمیری قیادت گورنر صاحب کی اس یقین دہانی پر مطمئن نہ ہوئی اور محبوبہ مفتی نے وفاقی حکومت کے غیر ضروری اقدامت کو پراسرار قراردیتے ہوئے دلی سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے 14 اور 15 اگست کوبھارتی فوج کی جانب سے شدید ترین کریک ڈاون کا خدشہ ظاہر کیا۔

اس ماہ کے آغاز سے وادی میں عسکری نقل و حرکت کے ساتھ دہلی غیر معمولی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ 4 اگست کو ہفتہ وار تعطیل کے باوجود قومی سلامتی سے متعلق  ایک اہم اجلاس  وزیرداخلہ اجیت شاہ کی زیرصدارت  ہوا جس میں  قومی سلامتی کیلئے وزیراعظم کے مشیر اجیت دوال، وفاقی انٹیلیجنس کے ڈی جی  اروند کمار، را کے   سربراہ سمنت گِل اور دوسرے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ رات کو دیر تک  جاری رہنے والی اس نشست کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ جب   صحافیوں نے اجیت دوال سے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انکے  جواب دینے سے پہلے ہی وزیرداخلہ شاہ نے کہا کہ یہ ساری سفارشات کل صبح یعنی پیر کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائینگی۔ اسی دوران  شری گنیش کمار  نے مزید 2500  بھارتی فو جیوں کی فوری کشمیر روانگی کا انکشاف کیا۔ یہ   100 جوانوں کی 100 کمپنیوں کے علاوہ ہے جنکی تعیناتی 2 اگست  کو مکمل ہو چکی تھی۔ 

دوسری طرف  مقبوضہ کشمیر میں  خوف و ہراس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔حریت کانفرنس  کے ساتھ ہندوستان کے حامی رہنماوں  عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو انکے گھروں پر نظر بند کردیا گیا۔ ابتدا میں کہا گیا کہ متوقع دہشت گرد حملے کے پیشِ نظر یہ رہنما  حفاظتی حراست میں لئے گئے ہیں لیکن 5 مارچ کو ان دونوں کو تحفظ امن عامہ کے تحت گرفتار کرلیاگیا اور ساتھ ہی پیپلز کانگریس کے سجاد لون اور کانگریس کے عثمان ماجد  بھی دھر لئے گئے۔ اسکول و کالج تو پہلے ہی بند تھے 4 اگست سے ساری وادی میں  کرفیو لگادیا گیا۔گرفتاری سے پہلے محبوبہ مفتی نے سرینگر میں ایک بہت بڑے مشعل برادار جلوس کی قیادت کی۔ جلوس کے شرکا نے کشمیر کی خودمختاری اور آئین کی شق 35-Aکے حق میں نعرے لگائے۔

عسکری تیاریوں سے یہ ڈر تو بڑا واضح تھا کہ دہلی آئینی تبدیلی کا فیصلہ کرچکا ہے لیکن جس سرعت سے یہ کام ہوا اسکی کسی کو توقع نہ تھی۔ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے اسرائیل کے مشورے اور مدد سے  ایک خوفناک حملے  کے ذریعےکشمیریوں کی نسل کشی کی تیاری مکمل کرلی ہے اور 14 یا 15 اگست کو کشمیریوں کے  روائتی مظاہروں کو کچلنے کی آڑ میں یہ حملہ متوقع ہے۔ تیاریوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ 14 اگست کو یوم آزادی کے ساتھ کشمیر میں خون کی ہولی سے بڑی کاروائی کا آغاز ہوگاجسکے بعد ہنگامے اور کرفیو کی آڑ میں 35-Aسے بھی جان چھڑالی جائیگی۔

لیکن 5 اگست کی صبح وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا(سینیٹ) میں جموں و کشمیر کا تنظیمِ نو بل پیش کردیا اور اس پر بحث مکمل ہونے سے پہلے ہی صدر رام ناتھ کووند نے جموں و کشمیر حکومت کی 'رضامندی' سے صدارتی آرڈیننس جاری کرکے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو بیک جنبش قلم کالعدم قراردے دیا۔

نئے بندوبست کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کے اختتام کے ساتھ ہی اسے دو حصو ں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیاہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ دونوں کو ہندوستانی یونین کا حصہ بنادیاگیا۔ جموں و کشمیر میں اپنی قانون ساز اسمبلی بھی ہوگی جبکہ لداخ براہ راست وفاق کا حصہ ہوگا۔

اسی کے ساتھ ہندوستانی ذرایع ابلاغ خاص طور سے سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کشمیر رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے بڑی Territory ہے جسکی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ یہ اعزاز اسوقت صرف  دہلی اور پانڈے چری کو حاصل ہے۔

 ممتاز صحافی منیش کمار نے وائس آف امریکہ پر کہا کہ 35-Aکی پابندیوں کی وجہ سے کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ بند تھا جس کی وجہ سے ساری وادی غربت کا شکار ہے اورکاروبار کے مواقع محدود ہیں۔ ملکی سیاست و اقتداراور تمام وسائل  پر بھی چندخاندانوں کا قبضہ ہے لیکن اب یہاں ترقی کے دروازے چوپٹ کھل جائینگے اور ساری دنیا سے سرمایہ کار کشمیر آئینگے جہاں سیاحت کے میدان میں لامحدود مواقع موجود ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے نئے کاروبار اور روزگار کے لاکھوں مواقع ہونگے جس سے وادی میں خوشحالی آئیگی۔ امریکہ کے دامادِ اول جیررڈ کشنر نے 25 جون کو بحرین میں ہونے والی عظیم الشان امن کانفرنس کے موقع پر خوشحالی کا ایسا ہی منصوبہ فلسطینیوں کو پیش کیا تھا۔ انھوں نے امریکہ، عرب اور اسرائیلی تاجروں کے تعاون سے فلسطینی علاقوں میں زبردست معاشی سرگرمی کی پیشکش  کی تھی۔ انھوں نے چارٹ اور گراف کی مدد سے ثابت کیا کہ کاروبار کے ان نئے مواقع سے صرف چند برسوں کے دوران غزہ اور غرب اردن میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ لیکن فلسطینیوں نے آزادی و استقلال کی فاقہ کشی کو غلامی کی شکم پروری پر ترجیح دیتے ہوئے اس منصوبے کو جسے Deal of Centuryکا نام دیا گیاتھا یکسر مسترد کردیا۔

بھارتی فوج نے پوری وادی کو جس بری طرح ظلم کے شکنجے میں کسا ہواہے اسے دیکھتے ہوئے نہتے کشمیریوں کی جانب سے کسی بڑے ردعمل کی توقع نہیں لیکن سید علی گیلانی نے  14 اگست کو یوم پاکستان کے موقع پر ساری وادی میں پاکستانی پرچم لہرانے کے ساتھ370 کی منسوخٰ کے خلاف بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جس میں حریت کانفرنس کے ساتھ انھیں ہندوستان  نواز رہنماوں کی حمائت بھی حاصل ہے۔ نظربندی کے دوران اخباری کانفرنس سے مواصلاتی خطاب میں عمر عبداللہ نے بھارتی  متنبہ کیا کہ آرٹیکل 370سے چھیڑ خانی مودی سرکار کو مہنگی پڑیگی۔ محبوبہ مفتی بول اٹھیں کہ 1947 میں دو قومی نظریہ مسترد کرکےکشمیری قیادت نے ہندوستان سے الحاق کا  جو فیصلہ کیا تھا وہ آج غلط ثابت ہوا۔

پاکستانی سرحد کے قریب بھارتی فوج کے جارحانہ عزائم کو دیکھ کر بعض عسکری تجزیہ نگار یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ ہندوستانی فوج  پر زبر دست حملہ کرکے آزاد کشمیر میں فوجی دستے داخل کرنے کی کوشش کریگی۔  دو ایٹمی طاقتوں کےدرمیا ن خوفناک  جنگ کے نتیجے میں ساری دنیا میں بیچینی پھیلے  گی اور اقوامِ عالم پر دباو بڑھے گا۔ عمران ٹرمپ چوٹی ملاقات میں  ثالثی کی شرلی پہلے ہی چھوڑی جاچکی ہے۔خدانخواستہ اگر ہندوستان سرحد عبور کرنے میں کامیا ب ہو گیا تو امریکی صدر پاکستان کو دباو میں لے کر  کشمیر کیلئے اپنی مرضی کا حل مسلط کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

ہفت  روزہ فرائیڈے  اسپیشل کراچی  9 اگست 


2019

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment