Wednesday, June 15, 2022

فخر ِبلوچاں گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

 

فخر ِبلوچاں   گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے  ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

فخر ِبلوچاں گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

اردو کے نامور نقاد اور ماہرلسانیات ڈاکٹر و پروفیسر گوپی چند نارنگ طویل علالت کے بعد امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر شارلیٹ میں انتقال کر گئے۔ گوپی جی 11 فروری 1931 کو بلوچستان کے ضلع دُکّی میں پیدا ہوئے۔انکے والد دھرم چند نارنگ اردو اور فارسی کے ادیب تھے۔ گوپی چند تقسیم ہند کے وقت ہندوستان چلے گئے لیکن بلوچستان اور پاکستان سے تعلق برقراررہا۔

انھوں نے جامعہ دہلی سے اردو ادب میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب ماسٹر کی تکمیل کے ساتھ ہی دلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد جامعہ دہلی سے وابستہ ہوگئے۔بعد میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر نارنگ نے ناروے کی جامعہ اوسلو، امریکہ کی جامعہ وسکونسن اور جامعہ منی سوٹا میں بھی درس و تدریس کے فرائض سرانجام دئے۔

ڈاکٹر صاحب کو لہجے اور ہجے سے بہت دلچسپی تھی اور اس موضوع پر انھوں نے 'املانامہ' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی

انکی پہلی کتاب 'دلی کا کرخنداری لہجہ'1961 میں شایع ہوئی جسےبے حد پزیرائی نصیب ہوئی۔ڈاکٹر صاحب نے اردو ، ہندی اور انگریزی میں 60 سے زیادہ کتابیں تخلیق کیں جن میں

ہندسوستانی قصوں سے ماخوذاردو مثنویاں

پرانوں کی کہانیاں

انیس شناسی

اقبال کا فن

اصولیاتِ میر

سانحہِ کربلا بطورِ شعری استعارہ

امیر خسرو کا ہندی کلام

اردوغزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب

ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری

ترقی پسندی اور جدیدیت

دیکھنا تقریر کی لذت

بہت مشہور ہوئیں۔

گوپی چند نارنگ کو ہندوستان کا سب سے بڑے اعزاز پدما بھوشن اور صدرپاکستان کی جانب سے طلائی تمغے کے علاوہ دنیا کے کئی ددسرے ممالک نے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔

بلاشبہ پاکستان اور بلوچوں کیلئے فرزندِ بلوچستان کے یہ اعزازات فخر کا باعث ہیں

گوپی جی ادھر کچھ عرصے سے اپنے بیٹے ڈاکٹر تارُن نارنگ کے ساتھ شارلٹ میں قیام پزیر تھے۔ انتقال کے وقت انکی عمر 91 سال تھی۔ آنجہانی نے بیوہ منّوراما نورنگ اور دو بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔ایک شاعر نے گوپی جی کو کچھ اس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا

دوپاوں سے چلتا دریا، اِک پاوں پہ ٹہری جھیل

جھیل کی نبھی پر رکھی ہے اردو کی قندیل


No comments:

Post a Comment