Thursday, June 9, 2022

روسی تیل اور گیس پر پابندی ۔۔۔ خواہش اور زمینی حقائق

 

روسی تیل اور گیس پر پابندی ۔۔۔ خواہش اور زمینی حقائق  

چار جون کو روس یوکرین جنگ کے 100 دن مکمل ہوگئے۔ جب 24 فراوری کو روسی فوج نے حملے کا آغاز کیا اسوقت صدر ولادیمر پوٹن کا خیال تھا کہ چار دن میں کاروائی مکمل کرلی جائیگی لیکن اسکا اختتام چار مہینے میں بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ یورپ کےعسکری ماہرین یوکرین کو روس کا ایک اور افغانستان بنتا دیکھ رہے ہیں۔

کشیدگی کے آغاز پر  امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں نے جنگ کی صورت میں یوکرین کو مکمل حمائت کا یقین دلایا تھا تاہم یہ وضاحت کردی گئی تھی کہ جنگ کیلئے فوجی نہیں بھیجے جائینگے، یعنی اسلحے کی شکل میں یوکرین کی حمائت اور اقتصادی پابندیاں لگاکر روس کو لاغر و کمزور کیا جائیگا۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ سونے کی ان گولیوں  سے لگنے والا زخم گولہ بارود سے زیادہ  گہرا، مہلک و تکلیف دہ ہوگا۔

فروری کے اختتام پر جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا، امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا نے دنیا بھر میں پھیلے روسی اثاثے منجمد کردئے۔ایک اندازے کے مطابق  کریملن کے معطل و منجمد کئے جانے والے اثاثوں کا مجموعی حجم 300 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

امریکہ کا اصل ہدف روسی ایندھن ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کا 33 فیصد حصہ امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہ بہ ماہ معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ان تینوں ملکوں کی پیدوار تقریباً برابر ہے اور اوسطاً ہر ملک اپنے کنووں سے ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالتاہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ اور روس کی ایک کروڑ دس لاکھ بیرل بتائی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب کی پیدوار 95 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

تیل اور گیس کی روسی برآمدات کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل روزانہ ہے جس میں سے 25 لاکھ بیرل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جو یورپی ضرورت کا چالیس فیصد ہے۔ پولینڈ، ہنگری، فن لینڈ، مالدووا اور چیکو سلاواکیہ (سلاوانیہ اور چیک ریپبلک) کی 70 سے 80 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں،  جب تیل اور گیس کی بات ہوتی ہے تو اسکا ذکر بیرل میں کیا جاتا ہے۔  بیرل مائع کو ناپنے کا پیمانہ ہے جبکہ  گیس کی پیمائش حجم یا حرارت کے معیار (Thermal)پر ہوتی ہے لیکن تجزیاتی آسانی کیلئے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کو  'تیل کے مساوی'کی شرح سے فی بیرل یا Oil Equivalent  میں پیش کیا جاتا ہے۔

جنگ سے پہلے خیال تھاکہ جیسے ہی یوکرین پر حملہ ہوا روس سے  یورپ کیلئے جرمنی آنے والی گیس پائپ لائن بند کردی جائیگی۔ لیکن حملے کے بعد بھی یورپ کو روسی گیس کی فراہمی جاری ہے ۔ یوکرینی صدر مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ روسی ایندھن  پر پابندی عائد کی جائے۔ صدر زیلینسکی کہتے ہیں کہ 'ہم پر گرنے والا اور ہر روسی بم اور میزائیل یورو اور ڈالر سے خریدا جارہا ہے'

گزشتہ ہفتے  یورپی یونین  کے اجلاس کے بعد یونین کی بیرونی پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے  اعلان کیا کہ اس سال کے اختتام تک یورپ کیلئے روسی ایندھن کی درآمد دوتہائی کم کردی جائیگی۔روس سے یورپ آنے والی گیس اور LNGکا حجم 185 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک  رومانیہ، پولینڈ، سلاواکیہ ، چیک ریپبلک، فن لینڈ ،بلغاریہ اور مالدوواکو فراہم کی جانے والی روسی گیس  اسکے علاوہ ہے۔

جناب بوریل  کا خیال  ہے کہ  یورپ کیلئے  تیل اور گیس پر پابندی کے بعد بھی دنیا میں روسی ایندھن کے گاہکوں کی کمی نہیں رہیگی لیکن اس سے روسی تیل اور گیس کے بھاو ، دباو میں آجائینگے۔ یورپی یونین کے حالیہ اجلاس میں روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنے کے دوسرے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔ مجوزہ پابندیوں کی اس فہرست میں روس کے  تمام بینکوں کابین الاقوامی مالیاتی ترسیلات کے نظام سوئفٹ SWIFT سے رابطہ منقطع کرنا شامل ہے۔

دلچسپ بات کہ روسی تیل اور گیس پر پابندی کے ضمن میں پائپ لائن کے ذریعے درآمدات  کو استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض  ہے کہ  روس سے آنے والے تیل اور گیس کا 80 فیصد حجم پائپ لائن کے ذریعے یورپ پہنچتا ہے۔ توانائی کے ماہرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جہازوں کے ذریعے آنے والے 20 فیصد ایندھن پر پابندی لگاکر  درآمد ایک تہائی کردینے کا ہدف کیسے حاصل ہوگا ۔ روسی گیس کی خریداری روکنے کی یوکرینی خواہش اور امریکی دباو اپنی جگہ لیکن مشرقی یورپ کے غریب اور خاص طور سے خشکی میں گھرے ممالک کی اپنی مجبوریاں ہیں۔

مثال کے طور پر  ہنگری صاف صاف کہہ چکا ہے کہ روسی  تیل پر پابدی اسکے لئے قابل قبول نہیں بلکہ وہ  درآمدات کے دام  بھی اب روسی سکّے یعنی  روبل میں ادا کررہا ہے۔ آسٹریا اور نیٹو کے چند دوسرے ارکان بھی  روس سے روبل میں لین دین کررہے ہیں۔ یررپی یونین کے دستور کے تحت تمام کلیدی فیصلے متفقہ ہونے ضروری ہیں اسلئے پابندی سے مخالف ممالک کو استثنیٰ دینا یونین کی مجبوری ہے۔

تین جون کو جناب بوریل نے معاہدے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اسکے مطابق روس سے آنے والی تاریخی درزبا (Druzbha)تیل پائپ لائن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائیگی۔ روسی زبان میں درزبا کے معنی دوستی کے ہیں، چنانچہ مغربی یورپ میں اسے دوستی پائپ لائن کہا جاتا ہے۔ اپنے  نظریاتی اتحادیوں کو تیل فراہم کرنے کیلئے سوویت یونین نے  1958 میں یہ پائپ لائن بچھائی تھی۔ چالیس انچ قطر کی 4 ہزار کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کی گنجائش 14 لاکھ بیرل یومیہ سے زیا دہ ہے ۔ دوستی پائپ لائین  مشرقی روس سے یوکرین،بلارُس، پولینڈ ، ہنگری، سلاواکیہ، چیک ریپبلک، آسٹڑیا اور جرمنی کے مشرقی حصے کو روسی تیل فراہم کرتی ہے۔ مرکزی پائپ لائن اور اس سے ملحق جزوی ٹکٖڑوں کی  مجموعی لمبائی ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ  ہے اور اس اعتبار سے درزبا کو  دنیا کی طویل ترین پائپ لاین کہا جاسکتا ہے

فیصلے کا اعلان تو جمعہ 3 جون کا ہوا لیکن پولینڈ اور ہنگری کے اصرار کی بنا پر درزبا پائپ لائن کو ملنے والا استثنیٰ نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا۔ اس خبر پر یوکرینی صدر زیلینسکی نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ یکم جون کو سمعی اور بصری رابطے پر یورپی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ روسی تیل کی درآمد پر مکمل پابندی  ضروری ہے تاکہ کریملن کی آمدن میں کمی واقع ہو۔ انھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ یکجہتی کے دعوے زبانی خرچ سے زیادہ کچھ نہیں جب یوکرین کے خلاف جارحیت کی سرمایہ کاری کوئی اور نہیں بلکہ خود یورپ اور نیٹو ممالک کررہے ہیں۔

صدر زیلینسکی کے جذباتی خطاب کے بعد یورپی کمیشن کی صدر، ارسلا وان ڈر لین نے یوکرینی دوستوں کو یقین دلایا کہ چھ ماہ کے اندر روسی تیل کی خریداری میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور 2022 کے اختتام تک خام تیل کی درآمد میں دوتہائی کٹوتی کا ہدف حاصل کرلیا جائیگا۔ اسی کیساتھ محترمہ وانڈرلین نے دعویٰ کیا کہ اس سال کے اختتام تک روسی  LNG اور پٰٹرولیم مصنوعات کی درآمد صفر ہوجائیگی۔اپنی تقریر میں واندرلین صاحبہ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ ہدف کا اصول بہت آسان نہیں کہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ارکان کی جانب سے  متفقہ منظوری درکار  ہے جبکہ کئی رکن ممالک کا روسی تیل پر   انحصار 80 فیصد سے زیادہ ہے۔

توانائی کی صنعت سے وابستہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے ہے کہ  جناب جوزف بوریل اور وانڈرلین صاحبہ کی یقین دہانیاں صدر زالینسکی سے اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یوکرین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر محترمہ واندڑ لین کی تقریر کے آخری حصے کا خوب مضحکہ اڑایا گیا جس میں انھوں نے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کو یوکرین میں اپنی وحشیانہ جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

ماہرینِ توانائی  کے خیال میں یورپ کو روسی تیل اور گیس کی خریداری  صفر کردینے کی امریکی خواہش غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ دو ماہ پہلے اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بحث مباحثہ ہو چکا  ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی سہیل بن محمدالمزروئ نے روس کے بائیکاٹ کو ناقابل عمل قراردیتے ہوئے جب  وہاں موجود تیکنیکی  ماہرین سے سوال کیا  کہ  اگر روسی تیل پر پابندی لگادی جائے تو اس کمی کو کون پورا کرے گا؟ تو وہاں مکمل خاموشی رہی۔بعد میں اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے جناب المرزوئی نے بتایا کہ روسی تیل کا حجم ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے اور فی الوقت دنیا میں کسی بھی مقام سے  تیل کی اتنی بڑی اضافی مقدار حاصل نہیں کی جاسکتی۔

ایک ماہ پہلے محترمہ ارسلا وانڈرلین سے  ملاقات کے دوران امریکی صدر نے یورپ کو 15 ارب مکعب میٹراضافی گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن اب تک امریکی LNGکا اضافی حجم وعدے کا دس فیصد بھی نہ ہوسکا۔ایک اور مشکل کہ LNG ٹینکروں کے ذریعے یورپ پہنچائی جارہی ہے اور ایندھن کا خرچ بڑھنے کی وجہ سے باربرداری کے اخراجات دگنے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

تیل اور گیس کے علاوہ فن لینڈ کو بجلی کے بحران کا بھی سامنا  ہے کہ اسکے مشرقی حصوں کیلئے سستی برقی توانائی روس سے خریدی  جاتی تھی لیکن جیسے  ہی نیٹو کو رکنیت کی درخواست  دی  گئی،  روسی کمپنیوں نے بجلی بند کردی۔ متبادل انتظام تو ہوکیا لیکن روس کے مقابے میں مغربی فن لینڈ سے آنے والی بجلی کے نرخ دگنے ہیں۔اسی نوعیت کی پریشانی  ایستونیا، لٹویا اور لتھوانیہ  اور مشرقی پولینڈ کو بھی ہے جو اب تک روس کی سستی بجلی سے مستفید ہورہے ہیں لیکن اگر یورپی یونین نے کریملن  کا قافیہ مزید تنگ کیا تو انکے تار بھی بے جان ہوسکتے ہیں ۔

رسد بڑھانے کیلئے امریکہ کے دباو پر تیل پیدا کرنے والے ممالک (OPEC) اپنی مجموعی پیداور میں 6 لاکھ 48ہزار بیرل یومیہ اضافے پر رضامند ہوگئے۔ خیال ہے کہ اس اضافی حجم کا بڑا حصہ سعودی عرب سے حاصل ہوگا۔ متحدہ عرب امارات سے ایک  لاکھ بیرل اضافہ متوقع ہے۔ اوپیک کے باقی ارکان کے لئے پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ممکن نہیں۔دوسری طرف پابندیوں کی بنا پر روس کی پیداوار اپریل میں گھٹ کر 95لاکھ بیرل روزانہ رہ گئی۔مارچ میں روسی کنووں سے پیداوار کا تخمینہ ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل یومیہ تھا۔

روسی تیل اور گیس کی فروخت کم سے کم کردینے کی امریکی کوششیں  کس حد تک کامیاب رہینگی، اسکے بارے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن تیل کی سیاست نے   ایندھن درآمد کرنے والے غریب ملکوں کو جس عذاب میں  مبتلاکررکھا ہے اس سے نجات کی مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اوپیک کی جانب سے پیداوار میں اضافے کی خبر ہے تو خوش آئند لیکن اس اعلان سے پہلے اوپیک ممالک ہر ماہ اپنی پیداوار میں چار لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کررہے تھے۔ گویا حقیقی اضافہ ڈھائی لاکھ بیرل روزانہ سے بھی کم ہے۔

صدر بائیڈن جولائی میں ریاض جارہے ہیں جہاں وہ ولی عہد محمد بن سلمان  سے سعودی کنووں کا منہہ مزید کھولدینے کی درخواست کرینگے۔ دیکھنا ہے کہ شہزادہِ عالم امریکی صدر کو کیا جواب دیتے ہیں؟ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی  قتل کے حوالے سے صدر بائیٖڈن کے تبصروں پر شہزادہ صاحب سخت برہم ہیں بلکہ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی ولی عہد صدر بائیڈن  کے فون کا جواب  بھی نہیں دے رہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 جون 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 جون 2022

روزنامہ امت کراچی 11 جون 2022

ہفت روزہ رہبر سرینکر 13 جون 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment