اسرائیلی میزائیل حملوں میں دمشق ایر پورٹ تباہ
قیادت اپنے ہی عوام سے لڑنے میں مشغول
شام،
لبنان اور غزہ پر اسرائیل کےفضائی حملے تقریباً روزمرہ کا معمول ہیں لیکن جمعہ 10 جون کو صبح ساڑھے چار بجے اسرائیلی طیاروں
اور گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں سے دمشق کے بین الاقوامی ہوئے اڈے پر سو سے زیادہ
میزائیل داغے گئے۔ شامی فوج کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر میزائیل روسی ساختہ میزائیل
شکن نظام نے فضا میں روک کر ناکارہ بنادئے لیکن دفاعی نظام کو غچہ دیکر ہدف تک
پہنچنے والے میزائیلوں سے ایر پورٹ کو شدید نقصان پہنچا۔
مطار دمشق الدولی یعنی دمشق انٹرنیشنل ائرپورٹ علاقے کے چند
بڑے سویلین و تجارتی ہوئی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔فرانسیسی تعمیراتی اداروں کی
معاونت سے یہ ائرپورٹ 1970میں مکمل ہوا اور ہرسال 55 لاکھ مسافر اس ایر پورٹ سے
سفر کرتے ہیں۔خانہ جنگی اور پابندیوں کے باوجود
تیس سے زیادہ ملکوں کیلئے پروازیں یہاں آتی اور جاتی ہیں۔
دمشق ایر پورٹ عسکری سرگرمیوں یا مہم جوئی کیلئے استعمال
نہٰیں ہوتا، اسی لئے یہاں کسی قسم کا موثر دفاعی نظام نصب نہیں کیا گیا۔تاہم شام
کے دوسرے علاقوں کی طرح دمشق ایر پورٹ تسلسل سے اسرائیلی فوج کے حملے کا نشانہ بنتارہا
ہے۔حالیہ تباہ کن حملے سے پہلے دمشق ایرپورٹ اور اس سے متصل علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ
ماہ کے دوران اسرائیل کی جانب سے تین بڑی جارحیت کا ارتکاب ہوچکا ہے۔اپریل کی 27
تاریخ کو دمشق ائر پورٹ اور شام کے دوسرے علاقے پر میزائیل حملوں میں جنرل رامے
عبدالرحمان سمیت ایک درجن شامی سپاہی اور کئی شہری ہلاک ہوگئے تھے۔ جسکے دوہفتے
بعد وسطی شام پر بمباری میں پانچ شہری
مارے گئے اور 21 مئی کو دمشق ایرپورٹ کے قریب شہری آبادی پر 50 میزائیل برسائے گئے
جس سے تین شہری ہلاک، اور کئی رہائیشی
عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ دورن وے کو بھی نقصان پہنچا جنکی مرمت کا کام اب تک مکمل نہیں
ہوا۔
معاملہ صرف اسرائیلی حملوں تک محدود نہیں بلکہ ماضی میں
امریکی فضائیہ بھی داعش کی سرکوبی کے نام پر شام کے شہری علاقوں پر بمباری کرتی
رہی ہے۔ نومبر 2021 میں شام کے تیل پیدا
کر نے والے علاقے دیرہ زور کے قریب باغوز پر حملے میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔ جسکے
بارے میں امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) نے دعویٰ کیا کہ یہ سب کے سب داعش کے مطوبہ
دہشت گرد تھے لیکن بعد بھی تحقیقات پر معلوم ہوا کہ بدامنی سے بے گھر ہونے والے شامیوں
کی عارضی پناہ گاہ ڈرون حملوں کا نشانہ بن گئی۔ اس واقعہ میں پانچ حاملہ خواتین
اور چھ شیرخوار بچے ہلاک ہوئے۔ چند لاشیں تو ایسی تھیں کہ نوزائیدہ بچے اپنی ماوں
سے چمٹے ہوئے تھے یعنی جب کوئی جائے اماں نہ ملی تو مامتا نے گھبرا کر کلیجے کو
ٹکڑوں کو اپنی گود میں چھپالیا۔ پانچ مہینے کی تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی حکام
نے شہریوں کی موت کا اعتراف کرلیا لیکن انکا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے شہری
ٹھکانوں میں پناہ لے رکھی تھی جسکی وجہ سے یہ بے گناہ نشانہ بن گئے۔ اس قسم کی
وحشت کیلئے Collateral Damage کی معصوم سی
اصطلاح وضع کرلی گئی ہے۔
شام کے خلاف اسرائیل کی کاروائی 1967 سے جاری
ہے۔ امریکی فوج کاسب سے موثر اثاثہ انکی فضائی قوت ہے اور اس میدان میں امریکی
ٹیکنالوجی کو توڑ تو دور کی بات ہمسر بھی سامنے نہیں آیا۔ عراق اور افغانستان دونوں جگہ ناقابل تسخیر فضائی قوت نے فیصلہ کن کردار
ادا کیا ہے۔ فضائی قوت سمیت امریکہ کی تما م اہم اور کلیدی ٹیکنالوجی اور حکمت عملی
تک اسرائیل کو مکمل رسائی حاصل ہے بلکہ یوںکہئے کہ حکمت و حکومت اور دولت وثروت سب
ہی سسانجھی ہیں۔
اسرائیل امریکہ سے حاصل گئی فضائی قوت
قاہرہ کو بیرحمی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی
قوت نے 1981 میں عراق کی زیرتعمیر جوہری تنصیاب کو زمیں بوس کیا۔ جب آپریشن بابل
کے نام سے امریکہ ساختہ 8 ایف 16 اور 6 ایف 15 لڑاکا اور بمبار طیاروں نے اردن اور
سعودی عرب کی فضائی حدود پر سے پرواز کرتے ہوئے بغداد کے مضافاتی علاقے میں جوہری
تنصیبات کو اس مہارت سے نشانہ بنایا کہ داغے جانیوالے 16 کے 16 تباہ کن بم بلا
استثنا اپنے ہدف تک پہنچے اور پانچ منٹ کے اس آپریشن نے تمام جوہری پلانٹ کو سُرمہ
بنادیا۔
اسرائیل کی خوفناک فضائی قوت کے ساتھ سیاسی بحران نے شام کے قومی دفاع کو مفلوج
کررکھاہے۔ آپکو یاد ہوگا، دسمبر 2010 میں تیونس کے سیکیولر اور کرپٹ آمر
زین العابدین کے خلاف شروع ہونے والی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا، مراکش، یمن، الجزائر، اور بحرین تک پھیل گئی۔ عوامی
بیداری کی اس لہر کو الربیع العربی یا عرب اسپرنگ کا نام دیا گیا۔ شام میں اس
تحریک کی کونپل کچھ عجب انداز میں
پھوٹی، جب 15 مارچ 2011کو
اردنی سرحد سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام)
اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ
نوشتہ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی
ور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا
نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے
انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ 18مارچ کو جمعے کی نماذ کے بعد ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل
آئے اور طلبہ کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد
جابحق ہوئے۔ اس تشدد کے باوجود درعا شہر میں مظاہرے جاری رہے اور25 مارچ تک یہ
تحریک سارے شام تک پھیل گئی۔
اس
مرحلے پر فرقہ واریت کا پتہ پھینکا گیا۔ ایران خوفزدہ تھا کہ اگر
بشارالاسد کا اقتدار ختم ہوا تو شام پر وہابی غالب آجائینگے، چنانچہ ایران شامی آمر کی پشت پر آکھڑا ہوا اور اسکے زیراثر حزب
اللہ نےبھی بشارالاسد کے حق میں ہتھیار اٹھالئے۔ دوسری
طرف 2012 میں روس کا صدر منتخب ہوتے ہی ولادیمر پوٹن نے بشارالاسد کی
مکمل حمائت کا اعلان کیا اور اپنے وزیردفاع جنرل سرجی شوئیگو Sergey Shoygu کو
حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے شام بھیجا۔ زمینی صورتحال کے حقیقت پسندانہ تجزئے کے
بعد روس کی فوجی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کیلئے
وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو روسیوں نے گروزنی کو چیچن حریت پسندوں کے قبضے
سے چھڑانے کیلئے کی تھی یعنی پہلے شہر کی مکمل ناکہ بندی کرکے شہریوں کو ادھ موا اوراسکے
بعد کارپٹ بمباری سے شہر کو زمیں بوس کردیا جائے۔ مزاحمت ختم ہوجائے کے بعد شہر کو
بہت آسانی سے 'فتح' کیا جاسکے گا۔
خلیجی ممالک کو ڈر تھا کہ کہیں اخوان کے لوگ قیادت نہ
سنبھال لیں چنانچہ انھوں نے سیکیولر باغیوں کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی۔ بشارالاسد
اور روس نے داعش کا ہوا دکھاکر مغرب کو خوفزدہ کیا اور ISISکی آڑ لیکر 'گروزنی حکمت عملی' کے تحت حلب پر بمباری شروع
کردی۔ مسلمان اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے بابرکت عوامی
تحریک فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ شیعہ حضرات کیلئےبعثی لٹیرے نجات دہندہ ہیں جبکہ سنیوں کے خیال
میں شیعہ انھیں ذبح کر رہے ہیں۔ روس یہ
کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک گیاکہ انکے شامی اتحادیوں نے داعش کی کمر
توڑ دی ہے۔ حتیٰ صدر پوٹن نے شیخی بگھار ی کہ ہم نے افغانستان میں اپنی شکست کا
بدلہ لے لیاہے۔
اس صورتحال اسرائیل نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایرانی
عناصر کے خاتمے کے نام پر سارے شام میں فضائی کاروائی شروع کردی۔ مصر اور اردن سے
معاہدے کے بعد اسرائیل کو اصل خطرہ فلسطینیوں سے ہے جہاں جدوجہد آزادی ایک قومی
تحریک ہے۔ دہائیوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود فلسطینی اپنی جدوجہدِ خودمختاری کیلئے
یکسو ہیں۔ لبنان کی ایران نواز حزب اللہ جدوجہد آزادی میں فلسطینیوں کی اتحادی تھی
لیکن شیعہ سنی جھگڑے میں حزب اللہ اب بشار الاسد کی پشت پر ہے اور شام کی خانہ جنگی میں غیر جانبداری کی بنا
پر حزب اللہ نے فلسطینیوں کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے،
خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اسرائیل نے شام کو نشانے پر رکھ
لیا ہے۔ داعش اور ایران نواز حزب اللہ کو کچلنے کے بہانے اسرائیلی فضائیہ شام میں
سینکڑوں تباہ کن حملے کرچکی ہے جس میں شامی فوج ، عسکری تنصیبات اور بنیادی ڈھانچے
کو شدید نقصان پہنچا ہے۔خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کُرد دہشت گرد بھی شامی
حکومت کے اتحادی بن گئے ہیں۔ کرد علیحدگئ پسند
جماعتPKKاور انکے عسکری دستے YPG شامی فوج کی
سرپرستی میں ترک فوج پر حملے کررہی ہے۔اس چومکھی جنگ نے شام کو کئی حصوں میں تقسیم
کردیا ہے جسکا اصل فائدہ اسرائیل کو ہے کہ اب اسکی ہرکاروائی کو کسی نہ کسی گروہ
یا طبقے کی حمائت حاصل ہوجاتی ہے۔
دمشق ایرپورٹ پر جمعہ کی صبح ہونے والا حملہ اب تک کا سب سے
کاری وار ہے۔ اسرائیل عام طور سے شام پر حملوں کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا لیکن اس بار اسرائیلی
وزارت دفاع سے وابستہ سیٹلائٹ کمپنی Image Satانٹر نیشنل نے فضائی حملے کی ذمہ داری
قبول کرتے ہوئے ٹویٹر پر سیٹیلائٹ سے کھینچی
گئی تصاویر بھی شایع کی ہیں جس میں رن وے پر پڑے گڑھے دکھائی دے رہے ہیں۔ اعلامئے
میں کہا گیا ہے کہ ایرپورٹ پر فلسطینی اور حزب اللہ 'دہشت گردوں' کیلئے بھیجے گئے
اسلحے کو نشانہ بنایا گیا جو وہاں زیرزمین خندقوں میں ذخیرہ کئے گئے تھے۔
شامی وزارت دفاع نے اسرائیل کے ان
الزامات کومسترد کرے ہوئے کہا کہ اگر ایرپورٹ
پر گولہ بارور ذخیرہ ہوتا تو وہاں آگ بھڑک اٹھتی جبکہ میزائیل لگنے کے فوراًبعد کی جو تصاویر
جاری ہوئی ہیں ان میں شعلہ تو کیا چنگاری
بھی نظر نہیں آرہی۔ اپریل اور مئی کے دوران دو حملوں میں رن وے کو جزوی نقصان
پہنچا تھا جن سے پروازیں متاثر تو ہوئیں لیکن کام چلتا رہا۔ اب یہ ایر پورٹ عملا
تباہ ہوچکا ہے اور خیال ہے اسکی مرمت میں کئی ماہ لگیں گے۔ملک گیر خانہ جنگی کی
وجہ صرف حلب اور دمشق کے ہوائی اڈے قابل استعمال رہ گئے تھے۔ حلب ایرپورٹ بہت چھوٹا ہے جہاں صرف ایک رن وے سے بڑے جہاز اُتر اور اڑان
بھرسکتے ہیں۔ دمشق ائرپورٹ کی تباہی کے بعد شام کی شہری ہوابازی کی سہولیات تقریبا
ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔پروازیں منسوخ ہونے سے ہزاروں غیر ملکی زائرین اور سیاح وہاں
پھنس گئےہیں جن میں ڈیڑھ سو پاکستانی بھی
شامل ہیں۔
اس بہیمانہ جارحیت کو 'مہذب دنیا' حملہ
ماننے کو تیار نہیں اور روس و ایران کے سوا کسی ملک نے اس جارحیت کی زبانی مذمت بھی نہیں کی ۔ روسی
وزارت خارجہ نے ماسکو میں اسرائیل کے سفیر کو طلب کرکے اسے ایک آزاد ملک پر جارحانہ حملہ قراردیا۔ اقوام متحدہ
کے سکریٹری جنرل نے 'کشیدگی' پر تشوہیش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل اور شام دونوں
سے تحمل و برداشت کی توقع ظاہر کی ہے۔ شام کی او آئی سی کی رکنیت معطل ہے اسلئے
کسی مسلمان ملک نے اسرائیلی حملے پر تشویش
کا اظہار نہیں کیا حالا نکہ متحدہ عرب امارات اسوقت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن
ہے۔سلامتی کونسل میں شام کے قریبی دوست
ہندوستان نے بھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
صدر بشار الاسد نے روس کی حمائت سے شامی قوم کو غلام بنارکھا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کی قتل و غارت
میں انھیں ایران کی سرپرستی بھی حاصل ہے لیکن ایسا اختیار ، تکبر اور اقتدار کس
کام کا کہ دشمن انکی فضا میں بلاخوف و خطر دندناتھا پھر رہا ہے۔روم کا نیرو NEROتو جلتے روم کے کنارے بانسری بجانے میں مصروف تھا، جبکہ شامی مردِآہن اپنے ہموطنوں
کے لہو سے ہولی کھیل کر اہم تنصیبات اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا غم غلط کررہے
ہیں۔ ہائے کن ہاتھوں میں تقدیرِ حنا ٹہری ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 جون 2002
ہفت روزہ دعوت دہلی 17 جون 2022
روزنامہ امت کراچی 17 جون 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جون 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment