یک نہ شُد، دو شُد
فن لینڈ اور سوئیڈن نیٹو کے امیدوار رکنیت بن گئے
یوکرین کی نیٹو NATOسے وابستگی کی خواہش پر دنیا کیلئےغذائی قلت اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کاعذاب کیاکم تھا کہ روس کے پڑوسی فن لینڈ Finland اور سوئیڈن نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے ان دونوں ملکوں میں نیٹو کے معاملے پر بحث شروع ہوچکی تھی۔ اسی نوعیت کی گفتگو ناروے میں بھی جاری ہے۔
فن لینڈ نے 1917 میں آزادی کے بعد سے آزاد حیثیت کا تعین کیا تھا۔ جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے دوران بھی فن لینڈ نے خود کو دائیں اور بائیں کی چپقلش سے دور رکھا۔ یورپی یونین کا حصہ ہونے کی بناپر سوئیڈن اور فن لینڈ نیٹو کے بہت قریب تو تھے لیکن روس سے قریبی تعلقات فن لینڈ کی خارجہ پالیسی کا کلیدی حصہ رہا ہے۔تاہم گزشتہ چندماہ کے دوران نارڈک (شمالی یورپ) اقوام کے نقطہ نظر میں ڈرامائی تبدیلی آچکی ہے۔
علاقے کی تیزی سے بدلتی صورتحال پر گفتگوسے پہلے یورپ کی نظریاتی صف بندی اور اسکے تاریخی پس منظر پر چند سطور۔
چار مارچ 1947کو شمالی فرانس کے شہر ڈینکیخ (Dunkirk) میں فرانس اور برطانیہ نے ممکنہ جرمن یا روسی حملے کے خلاف اتحاد برائے باہمی تعاون قائم کرلیا۔یہ وہ وقت تھا جب طویل جنگ کے نتیجے میں کھنڈر بنے یورپ کے رہنما تعمیر نو کی منصوبہ بندی کیساتھ مستقبل کے خطرات سے نبٹنے کیلئے باہمی اتحادوتعاون کے راستے تلاش و تراش رہے تھے۔ ایک سال بعد بیلجیم، نیدرلینڈ (ڈچ یا ولندیز) اور لکشمبرگ کو اس اتحاد میں شامل کرلیا گیا جسے معاہدہِ برسلز (BTO) کہاگیا۔ چار اپریل 1949 کوامریکہ، کینیڈا، پرتگال، اٹلی، ناروےاور آئس لینڈ کی شمولیت کے بعد اس اتحاد کو معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO) کانام دیدیا گیا۔دلچسپ بات کہ اس کا فرانسیسی مخفف اسکا بالکل الٹ یعنیOTANہے۔ قیام کے تین سال بعد 1952 میں ترکی اور یونان جبکہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی نیٹو کی چھتری تلے آگئے۔ اسپین کی درخواستِ رکنیت 1982 میں منظور ہوئی۔
نیٹو مشترکہ تحفظ کا معاہدہ ہے جسکے دفعہ 5 کے تحت کسی ایک رکن پر حملہ نیٹو پر حملہ تصور ہوگا اور تمام ارکان اس جارحیت کا مل کر مقابلہ کرنے کے پابند ہیں۔ اسی شق کے تحت 11 ستمبر 2001 کی نائن الیون کے نام سے مشہور ہونے والی دہشت گرد مہم نیٹو کے خلاف کاروائی قرارپائی جسکے بعد امریکہ کے ساتھ ترکی سمیت تمام کے تمام نیٹو ممالک نے افغانستان پر حملے میں حصہ لیا۔ نیٹو رکن ممالک کو 2024 تک اپنی قومی پیداوار (GDP)کا کم ازکم 2 فیصد حصہ دفاعی اخراجات کیلئے مختص کرنے کا ہدف گیا ہے۔ اسوقت نیٹو ممالک کامجموعی دفاعی خرچ، دنیا کے کُل عسکری اخراجات کے 57فیصد سے زیادہ ہے۔
دوسری طرف نیٹو سے مقابلے کیلئے روس کے یورپی اتحادی مئی 1955 میں معاہدہ وارسا یا WTOکے تحت منظم ہوگئے اور دیوارِ برلن کی تعمیر نے مشرق و مغربی یورپ کے عملاً بھی ایک دوسرے سے دور کردیا۔ کنکریٹ کی یہ 155 کلومیٹر طویل دیوار 1961 میں اٹھائی گئی تھی۔
افغانستان میں روس کی شکست کے بعد جہاں سوویت یونین کی تحلیل کا آغاز ہوا وہیں وارسا اتحاد ممالک میں بھی عوامی بیداری کی لہر اٹھی۔ اکتوبر 1990میں مشرقی و مغربی جرمنی کا ادغام ہوا اور 1994 میں دیوار برلن منہدم کردی گئی۔ اس سے تین سال پہلے معاہدہ وارسا تحلیل ہوچکا تھا۔ اسی دوران بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی شرمناک مہم چلی لیکن اپنے رب پر ایمانِ راسخ نے ان سخت جانوں کو ناقابل شکست بنادیا۔اہل بوسنیاکے آہنی عزم کے آگے جہاں ظلم کا ہر ہتھکنڈا ناکام ہوا وہیں یوگوسلاویہ کے حصے بخرے ہوگئے۔ چیکوسلاواکیہ بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
مشرقی یورپ یا معاہدہ وارسا کے ارکان کی نیٹو میں شمولیت کا آغاز 1999میں ہواجب چیک ریپبلک، ہنگری اور پولینڈ نیٹو سے وابستہ ہوگئے اور اب 12 تاسیسی ارکان کو ملا کر نیٹو ممالک کی تعداد 30 ہے۔ ان میں سے 27 ممالک براعظم یورپ اور دو شمالی امریکہ (امریکہ اور کینیڈا) میں واقع ہیں جبکہ ترکی ایک بین البراعظمی ملک ہے کہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور باقی ایشیا میں ہے۔ نیٹو ارکان میں صرف ترکی اور البانیہ مسلم اکثریت کے ممالک ہیں۔ ایک اور مسلم ملک بوسنیا 2008 سے امیدوارِ رکنیت ہے۔
نیٹو کا نصابِ رکنیت بہت سخت، غیر لچکدار اور کسی حد تک گنجلک ہے، اسلئے درخواستِ رکنیت سے منظوری تک کا عرصہ خاصہ طویل ہوتا ہے۔ نیٹو کا اخری نیا رکن میسیڈونیاMacedonia ہے جس نے جولائی 2018 میں رکنیت کی درخواست دی اور مئی 2020میں اسے رکنیت سے سرفراز کیا گی۔ یوکرینی صدر نے اس سال کے آغاز پر نیٹو کی حفاطتی چھتری کے نیچے آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔نیٹو قیادت کے خیال میں 2025 سے پہلے یوکرینی رکنیت کی منظوری ناممکن تھی، لیکن فن لینڈ اور سوئیڈن کو نیٹو کی رکنیت طشتری میں رکھ کر پیش کی جاری ہے۔
چند ہفتہ پہلے نیٹو کے معتمدِ عام جینز اسٹولٹن نے برسلز کے نیٹو ہیڈکوارٹرز میں فن لینڈ، سوئیڈن اور ناروے کو اتحاد میں شمولیت کی دعوت تھی۔ اس تقریب میں یورپی کمیشن کی سربراہ محترمہ ارسلا ونڈرلین اور ان دونوں ممالک کے سفیر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر جناب اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ''ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمام اتحادی نیٹو کی توسیع پرمتفق ہیں ۔ ہم جان گئے ہیں کہ سلامتی کو لاحق خطرات کے مقابلے کیلئےہمیں ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے''۔
دلچسپ بات کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے لئے جانیوالے ایک جائزے کے مطابق فن لینڈ کے صرف 20 فیصد افراد نیٹو سے وابستگی کے حامی تھے۔ روس یوکرین جنگ کے آغاز پر یہ حمائت مزید سُکڑ کر صرف 9 فیصد رہ گئی اور اکثریت کا خیال تھا کہ نیٹو سے پینگیں بڑھاکر اپنے پڑوسی کی ناراضگی مول لینا کوئی اچھی بات نہیں۔
لیکن یوکرین پر روس کی وحشیانہ بمباری اور اسکے نتیجے میں ایک ہنستے بستے ملک کو کھنڈر بنتے دیکھ کر اہل فن لینڈ میں خوف کی لہڑ دوڑ گئی۔ ابلاغ عامہ پر بحث کے دوران یہ گفتگو عام ہوئی کہ اگر یوکرین نیٹو کا رکن ہوتا تو مضبوط امریکی فضائیہ کی موجودگی میں روسی بمبار اس بے خوفی سے آتش و آہن کی بارش نہ کرسکتے۔ نیٹو مخالفین کا جواب تھا کہ اگر صدر ولادیمر زیلنسکی، نیٹو میں شمولیت کی تمنا نہ کرتے تو یوکرین کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نیٹو مخالفین کی اس دلیل کو زیادہ پزیرائی نہ مل سکی کہ روس اس سے پہلے جنوبی یوکرین کے علاقے کریمیا اور مشرقی یوکرین کے کئی قصبات پر قبضہ کرچکا ہے۔
جیسے جیسے یوکرین کی تباہی کے مناظر سامنے آتے گئے، فن لینڈ میں نیٹو سے وابستگی کا مطالبہ زور پکڑتاگیا حتیٰ کہ اتحاد کی جانب سے باقاعدہ دعوت کے بعد 76 فیصد فِنش عوام نے نیٹو میں شمولیت کا مطالبہ کیااور وزیراعظم محترمہ ثنا مار لن صاحبہ (Sana Marlin)نے معاملے کو ملکی پارلیمان میں پیش کردیا جہاں نیٹو میں شمولیت کی قراردار 8 کے مقابلے میں 188 ووٹوں سے منظور ہوگئی۔نارڈک عوام عالمی قوتوں کی آویزش میں غیر جانبدار اور سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر پون صدی تک بہت مستقل مزاجی سے یکسو رہے لیکن روس کے یوکرین پر حملے اور اپنے کمزور پڑوسی کیخلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال نے شمالی یورپ کے ممالک کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیا۔ یہ خوف وہراس روس کے پڑوسی فن لینڈ میں بہت زیادہ ہے۔
پارلیمان سے قراراداد کی منظوری کے بعد صدر ساولی نینستو (Sauli Niinisto)اور وزیراعظم محترمہ ثنا مار لن (Sana Marlin)نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہفتوں کے مشورے کے بعد فن لینڈ نے نیٹو رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فنش رہنماؤں نے کہا نیٹو کی رکنیت سے جہاں فن لینڈ کا دفاع مستحکم ہوگا وہیں اتحاد میں ہماری شمولیت سے اتحاد کی شمالی سرحد کو تقویت ملے گی۔ عین اسی وقت سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں پرہجوم اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میڈلینا اینڈرسن نے نیٹو کے حق میں اپنی حکومت کے فیصلے کا اعلان کیا۔
ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم سے جاری ہونے والے اعلانات کے دوسرے دن جناب جینز اسٹولٹن نے برسلز ہیڈکوارٹرز میں گوشوارہ رکنیت کی نمائش کرتے ہوئے سوئیڈن اور فن لینڈ کو امیدوارانِ رکنیت کا درجہ دینے کی تصدیق کردی۔ نیٹو کے معتمدِ عام نے توقع ظاہر کی کہ اتحاد کے 30 اراکین ان درخواستوں کی چھان بین جلد مکمل کرلینگے۔ کچھ ایسی ہی خواہش کا اظہار صدر بائیڈن نے فن لینڈ کے صدر اور سوئیڈن کی وزیراعظم کا واشنگٹن میں استقبال کرتے ہوئےکیا۔
ضابطے کے مطابق پہلے مرحلے میں نیٹو کی توسیع پر رائے شماری ہوگی اور اس قرارداد کی متفقہ منظوری کے بعد فن لینڈ اور سوئیڈن کے گوشوارہ رکنیت کی جانچ پڑتال کی جائیگی۔ ترکی کو فن لینڈ اور سوئیڈن کیلئے نیٹو کی رکنیت پر کچھ تحفظات ہیں اور انقرہ کو رام کئے بغیر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کے رکن نہیں بن سکتے۔ ترک صدر طیب اردوان نے 20 مئی کو سوئیڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتے ہوئے ویٹو کے استعمال کا عندیہ دیا تھا۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے سے پہلے ان دونوں ملکوں کو دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرنی ہوگی۔ انقرہ کو شکائت ہے کہ نورڈک ممالک، شام ترک سرحد پر سرگرم کُرد دہشت گردوں اورلیبیا کے حفتر چھاپہ ماروں کے علاوہ آذربائیجان کے علاقے نگورنو کاراباخ میں آرمینیائی علیحدگی پسندوں کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔
ترکی کے ان اعتراضات پر برلن میں ہونے والے نیٹووزرائے خارجہ کے اجلاس میں غور کیا گیا اور سکریٹری جنرل نے توقع ظاہر کی کہ سوئیڈن اور فن لینڈ کی رکنیت پر ترکی کے تحفظات جلد دور کرلئے جائینگے۔ اس موقع پر سوئیڈن اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے اپنے ترک ہم منصب چاؤش اوغلو سے خصوصی ملاقات بھی کی۔ جناب اوغلو کے مطابق یہ گفتگو حوصلہ افزا رہی جس میں سوئیڈن اور فن لینڈ کے وزرا نے ترکی کو تحریری یقین دہانیاں فراہم کی ہیں۔ ادھر امریکی صدربھی جناب ایردوان سے رابطے میں ہیں اور واشنگٹن نے دہشت گردی کی ہر شکل اور قِسم کی غیر مشروط مذمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس ضمن میں امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ جس گروہ کو ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے اس تنظیم پر امریکہ اور یورپی یونین پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
فن لینڈ کے نیٹو میں آجانے کے بعد شمال سے مشرق تک روس کی سرحد پر نیٹو کے سپاہی تعینات ہونگے بلکہ یوں کہئے کہ اب بلارُس کے ننھے سے 'جزیرے' کو چھوڑ کر روس کی شمال اور مغربی سرحد پر نیٹو کا پرچم لہرانے کو ہے۔فروری کے اختتام پر جب روس فوج اپنی تمام تر قوتِ قاہرہ کیساتھ یوکرین پر چڑھ دوڑی تو جنگ یا حملےکے بجائے صدر پیوٹن نے اسے 'خصو صی مہم' قراردیا تھا۔ روسی رہنماکہنا تھاکہ 'اسپیشل آپریشن' کا مقصد نیٹو کے نہ ختم ہونے والی توسیع کو لگام دیناہےلیکن اپنے پروں کو نارڈک ممالک تک پھیلا کر نیٹو روس کو لگام ڈالنے کی طرف مائل نظر آرہا ہے۔ روس کی بدنصیبی کہ یوکرین بھی ان کیلئے دلدل بن چکا ہے۔جس مہم کے بارے میں صدرپیوٹن کا خیال تھا کہ اسےچار دن میں مکمل کرلیا جائیگا، اس بے نتیجہ جنگ کو آج 91 دن ہوچکے ۔روس نے جوہری ہتھیار کے سوا آواز سے تیز رفتار میزائیل سمیت اپنے ترکش کے سارے تیر استعمال کرلئے جسکے نتیجے میں یوکرین ملبے کا ڈھیر تو بنالیکن روسی اپنے عسکری اہداف حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہا۔ برطانیہ کے عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس مہم جوئی میں ایک تہائی روسی فوج ہلاک و مجروح ہوکر میدان سے جاچکی ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ یوکرینی فوج کی کارکردگی اوراستعداد بہتر ہوتی جارہی ہے۔
ستم ظریفی کہ صدر پیوٹن یوکرین کا رونا ررہے تھے اور اب ان کی فن لینڈ سے ملنے والی ساڑھے تیرہ سو کلومیٹرطویل سرحد بھی مخدوش ہوگئی بلکہ فن لینڈ کے ساتھ سوئیڈن کے نیٹو کا حصہ بن جانے کے بعد بحیرہ بیرنٹس (Barents Sea)پر بھی روس کی بالادستی ختم ہونے کو ہے۔ معاملہ صرف بحیرہ بیرنٹس یا بحر (منجمد) شمالی (Arctic)تک محدود نہیں بلکہ بحیرہ بلقان میں بھی روسی بحریہ کی آزادانہ نقل و حرکت کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ روس کا اہم ترین شہر سینٹ پیٹرزبرگ بحیرہ بلقان میں فن لینڈ اور استھونیہ کے درمیان خلیجِ فن لینڈ کے دھانے پرہے۔ روس کو سب سے زیادہ پریشانی جنوب مشرقی بحیرہ بلقان کے علاقے کالنگراڈ (Kaliningrad)کے بارے میں ہے جہاں روسی بحریہ نے اپنی تنصیبات قائم کررکھی ہیں۔ یہ قطع ارض روسی سرزمین سے الگ تھلگ لتھوانیہ اور پولینڈ کے درمیان ہے۔ کسی غیر ملک کے گھرے علاقے کو جغرافیہ کی اصطلاح میں محصور یا(exclave) کہتے ہیں۔بحرِ اسود پر نیٹو کی گرفت پہلے ہی خاصی مضبوط ہے۔
نیٹو میں شمولیت کے فیصلے پر روس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فن لینڈ کی بجلی منقطع کرنے کا اعلان کردیا، ماسکو کا خیال تھا کہ اسکے نتیجے میں شمال مشرقی فن لینڈ کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب جائیگا لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا کہ فن لینڈ کے ماہرین متوقع رد عمل کی پیش بندی میں متبادل انتظام کرچکے تھے۔
روس یوکرین کی دلدل میں اس بری طرح پھنسا ہوا ہے کہ ماسکو کیلئے فن لینڈ یا سوئیڈن کے خلاف روائتی فوج کشی ممکن نہیں۔ لیکن نیٹو کے بعض ممالک میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ فن لینڈ اور سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کے بعد روس بلقان کے خطے میں اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے کیلنگراڈ ایکسکلیو میں جوہری ہتھیار یا آواز سے سے تیر رفتار ہائپر سونک میزائل کے ذخیرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔
روس کے گرد نیٹو کی گرفت مضبوط ہونے سے دنیا کی سیاست پر کیا نتائج مرتب ہونگے اسکے بارے میں ابھی کچھ کہناقبل ازوقت ہے لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ اسکے نتیجے میں دنیا پر امریکہ کی ظالمانہ و خون آشام چودھراہٹ اور مضبوط ہوجائیگی۔ تاہم یہ امید بھی ہےکہ شائد اسکے نتیجے میں بدسلوکی کا شکار روسی تاتاروں اور شیشانوں (چیچنیا) کوکچھ راحت نصیب ہوجائے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27مئی 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی27مئی 2022
روزنامہ امت کراچی 27 مئی 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 مئی 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment