رمضان المبارک میں اسلاموفوبیا کی نئی لہر
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی رمضان المبارک دنیا بھر کی مسلم اقلیتوں کیلئے آزمائشوں کا پیغام لایا ہے۔گزشتہ کئی ہفتوں سے القدس شریف میں اسرائیلی سپاہی دندناتے پھر رہے ہیں۔ آفرین ہے فلسطینیوں پر جنھوں نے بدترین تشدد اور پکڑ دھکڑ کے باوجود قبلہ اول کو پوری آب و تاب کیساتھ شادو آباد رکھا ہوا ہے، پانچوں وقت نماز کے ساتھ تراویح کی مجالس بھی جاری ہیں۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گولوں کے دھماکوں میں خوش الحان قاری اللہ کا کلام سنارہے ہیں۔ بیت المقدس میں درندگی کیساتھ اہل غزہ پر آتش و آہن کی برسات بھی جاری ہے۔
ادھر بھارتی مسلمان بھی نئی آزمائش سے دوچار ہیں جہاں ہندو دیوتا ہنومان جی کے یوم ولادت یعنی ہنومان جیناتی سے دلی کے مضافاتی علاقے جہانگیر پوری میں شروع ہونے والے مسلم مخالف فسادات تو بظاہر ختم ہو گئے لیکن کشیدگی برقرار ہے۔
اسی کیساتھ سوئیڈن میں قرآن پاک کی بیحرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردیدیا۔
مسلمانوں کے صدمہ پہنچانے کیلئے قرآن پاک کی بیحرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ توہین قرآن کو ابوغریب جیل ، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہ بہت ہی موثر انداز یں استعمال کیا گیاہے یعنی جب روائتی تشدد سے بات نہ بنے تو لب کشائی کیلئے توہین قرآن کا حربہ استعمال کیا گیا۔ 'ملزم' سے کہا جاتاتھا کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اسکے پیروں پر ڈالدئے جائینگے یا اسکے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائیگا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتیں خندہ پیشانی سے سہہ رہا تھا فوراًہی اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔انسانیت سے عاری اس نوعیت کے شرمناک ہتھکنڈوں کی پتھروں کے دور میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مغرب میں توہینِ قرآن کا منظم آغاز 2010میں ہوا جب امریکی ریاست فلورڈا کے شہر گینزول کے ایک متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک المعروف نائن الیون کے متاثرین سے یکجہتی کے اظہارکیلئے گیارہ ستمبر کو قران جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اھل ایمان" کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت دی جسکے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھیی لیکن شہری دفاع کے مقامی محکمے نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کئےجائینگے۔ چنانچہ ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
چند ماہ بعد شیطان صفت انسان پر یہ خبط پھر سوار ہوا ۔اور بیس مارچ 2011کو انھوں نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کاروائی کے بعد ٹیری جونز نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
شمالی یورپ کے علاقے Scandinavia میں توہین قران کی مہم 2017 سے جاری ہے۔ناورے، ڈنمارک اور سوئیڈن Scandinavianممالک کہلاتے ہیں۔ یہاں اسلاموفوبیا مہم کے سرغنہ ڈنمارک کے ایک ناکام سیاستدان راسمس پالڈن Rasmus Plaudanہیں۔ راسمس مسلمانوں کو وحشی و اجڈ اور اسلام کو پتھروں کے دور کا مذہب سمجھتے ہیں۔ انکے خیال میں مسلم دنیا کی اس وحشت کا منبع نعوذباللہ قرآن اور نبی مہربان کی تعلیمات ہیں۔ جہاد کے نام پر قرآن دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلم دنیا سے یورپ آنے والے مسلمان جہاد یعنی دہشت گردی کے ذریعے ہماری تہذیب کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
راسمن پالڈن نے ڈنمارک میں اپنے اسلام دشمن موقف کے فروغ کیلئے 2017میں Stram Kursکے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی جسکاانگریزی نام Hard Lineپارٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہارڈ لائن پارٹی کو 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے چنانچہ انکی ڈنمارک پارلیمان میں نمائندگی صفر ہے۔راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہیں اور نفرت انگیر و توہین آمیز تقاریر کی بنا پر عدالت انھیں 5 سال زباں بندی کی سزاسناچکی ہے۔پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے تیبور (Vyborg)شہر میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم ﷺ کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری بھی مشتعل ہوگئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو 'مسلمانوں کا کتا' کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک شامی نوجوان کو پہلے دو ماہ کیلئے جیل بھیجا گیااورسزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
راسمس، ناروے کے اسلام مخالفین کے بھی مربّی ہیں۔ انکی کوششوں سے یہاں ایک تنظیم STOP ISLAMIZATION IN NORWAYیا SIAN قائم کی گی جسکے ارکان کی تعداد 13000 سے زیادہ ہے۔ اب Stop Islamization in Europeکے نام سے اس تنظیم کا دائرہ سارے یورپ تک پھیلادیا گیا ہے۔
سیان نے توہین قرآن کیلئے ملک گیر مہم شرو ع کی جسکا آغاز ناروے کے ایک قدیم شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand)سے ہوا جہاں راسمس کے شاگرد اور سیان کے قائد آن تومر (Arne Tumyr) نے اعلان کیا کہ ہم کرسچین سینڈ شہر کے چوک میں دہشت گردی کے منشور یعنی قران کو جلائیں گے۔جلسے میں آن اور اسکے ساتھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے۔ اس دوران نبی مہربان ﷺ کے بارے میں جو زبان استعمال ہوئی اسےسوچ کر ہی ابکائی آتی ہے۔ تاہم مسلمانوں نے وعدے کے مطابق سب کچھ بہت تحمل سے برداشت کیااور نعروں اور درود کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔اس دوران آتشزدگی کیلئے قرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل پر رکھا تھا جسے پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ لیکن سیان کے دوسرے رہنما لارس تھورسن (Lars Thorsen)نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخے کو نکال کر ٓآگ لگادی۔
پولیس نے لارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک شامی نوجوان قرآن کو بچانے کیلئے دوڑا تووہی پولیس جو قرآن جلتا دیکھ کر خاموش تھی برقی رفتار سے جھپٹی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرکے قرآن جلانے والے کو بچالیا۔اس شامی پناہ گزین کا نام الیاس عمر دھابہ ہے جو بطور باروچی (شیف) کام کرتا ہے۔اس واقعے کی ویڈیو سارے یورپ میں پھیلاکر شامی، عراقی اور صومالی مہاجرین کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جارہاہے۔ انتہاپسندوں کی جانب سے واقعے کی تصویروں پر جو عنوانات ٹانکے گئے ہیں اسکا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ 'خونخوار کتوں کواپنا پٰیٹ کاٹ کر کھلاو تاکہ یہ خود تمہیں ہی پھاڑ کھائیں' ۔
اب واپس آتے ہیں سوئیڈن کی طرف۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرضں کیا، شمالی یورپ میں توہین قران مہم کا بیڑا ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان راسمس پلوڈن نے اٹھایا ہے۔اس شخص کے ذاتی کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ موصوف سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں بلکہ بچوں سے نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں سے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوان مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔اپنے ایک ساتھی کو ڈرانے دھمکانے کے الزام میں بھی یہ صاحب جیل کی ہوا کھاچکے ہیں۔
پلوڈن نے تیبور Viborg واقعے کے ایک سال بعد اگست 2020 میں سوئیڈن کے جنوبی مغربی شہر مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنایا لیکن حکام نے گرفتار کرکے انھیں ملک بدر کردیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور قران کا ایک نسخہ نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگئے۔ انکے والد سوئیڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر انھیں بھی شہریت مل گئی۔
ادھر کچھ عرصے سے شیطان صفت پلوڈن ڈنمارک اور سوئیڈن کے مختلف شہروں میں ایک بار پھر قران سوزی کی واردات کرتے پھر رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی یہ لہر ڈنمارک کے عام انتخابات کیلئے انکی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات ستمبر میں ہونے ہیں۔مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے پلوڈن ان شہروں میں قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی تقریب منعقد کررہے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔اس مذموم مہم کیلئے جان کر رمضان کا انتخاب کیا گیا ہے جب مساجد میں روزانہ رات کو قرآن پڑھا جارہا ہے۔
جمعہ 15 اپریل کو اوریبروُ Orebroشہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی گئی۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائی ہر وز جاری ہے۔
سوئیڈن پولیس کے سربراہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔
مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کیا جارہاہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی کہ انتظامیہ نے ایک طرف اس وحشی کھلی چھٹی دے رکھی ہے تو دوسری جانب پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بیدخل کیا جارہا ہے۔
مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلم عقائد، متبرکات اور اقدار و روایات کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحٖفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ انسداد توہین مذہب کی راہ ٓیں رکاوٹ ہے۔ یورپ وامریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلاف قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابل سزا جرم ہے۔ خود سوئیڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف (Carl XVI Gustaf پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29اپریل 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 29 اپریل 2022
روزنامہ امت کراچی 29 اپریل 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم مئی 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment