Friday, May 20, 2022

ڈرتے ہیں بندوقوں والےایک نہتی لڑکی سے

ڈرتے ہیں  بندوقوں والےایک نہتی لڑکی سے

صحافت انتہائی اہم اور دیانت دارانہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ صحافی انسانی معاشرے کی آنکھ اور کان ہے۔  سماعت و مشاہدے کو  زاویہ نگاری اور ذاتی پسند و ناپسند سے آلودہ کئے بغیر  قارئین اور ناظرین تک من و عن پہنچادینا ایک ذمہ دار صحافی کا فرضِ منصبی ہے۔ آج ہم  ایسی ہی ایک دیانت دار صحافی خاتون کا ذکر کرینگے جسے اسرائیلی فوج نے انتہائی بے دردی سے سرِعام قتل کردیا۔

شیریں ابوعاقلہ نے بیت المقدس کے قریب بیت اللحم میں آباد ایک راسخ العقیدہ مسیحی گھرانے میں جنم لیا۔ یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ شہرکے انگریزی ہجے یعنی Bethlehemکی وجہ سے اسے بیت اللحم کہا جاتا ہے یعنی گوشت کا مکان یا دوکان اور کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہاں زمانہ قبل مسیح ایک بڑا مذبح خانہ ہواکرتا تھا۔ اسکا عبرانی تلفظ بیت لییم ہے یعنی روٹی کی دوکان یا تندور۔ اس علاقے کو اللہ نے بر کتیں عطا کی تھیں اور انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیؑ اور حضرت یحییٰؑ المعروف  John the Baptistکی ولادت با سعادت اسی علاقے میں ہوئی اسلئے یہ شہر  رزق یا برکت کاگھر (عبرانی بیت لییم) مشہور ہوگیا۔ کنعان کے مشرکین نے اس مقام کو افزائش نسل کے دیوتا لحمو کے نام سے موسوم کیاتھا۔حضرت عیسیٰؑ کے مقامِ پیدائش پر وہ تاریخی کلیسائے میلاد یا Church of Nativity بھی ہے جہاں ہرسال لاکھوں مسیحی زائرین حضرت عیسیٰؑ اور انکی پاکباز والدہ،  سیدہ مریم کو خراج عقیدت پیش  کرنے آتے ہیں۔

شیریں بہت کم عمری میں والدین کی شفقت سے محروم ہوگٗئیں اور ابتدا میں خالہ نے انکی پرورش کی جو امریکہ میں رہتی تھیں۔ اسی بنا پر شیریں کو امریکی شہریت مل گئی۔کچھ عرصے بعد وہ بیت المقدس واپس آگئیں۔ مشرقی بیت المقدس کے ثانوی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے اردن کی جامعہ علوم و ٹیکنولوجی (JUST)کے کلیہ مہندسین (انجنئرنگٌ) میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک سال بعد وہ جامعہ یرموک (اردن) کے  شعبہ صحافت میں آگئیں۔ انکا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز بننے کیلئے انھوں نے قلم سنبھالا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو فلسطین سے وابستہ ہوگئیں۔ ساتھ ہی انھوں نے فرانسیسی ریڈیو مانٹی کارلو پر بھی سیاسی تجزئے پیش کئے۔ شیریں کو عربی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی عبور تھا۔ اس دوران انھوں نے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں اور انسانی و جمہوری حقوق کی تنظیموں کیلئے بھی کام کیا۔جب 1996 میں الجزیرہ نے نشریات کا آغاز کیا تو  شیریں نے سمعی (ریڈیو) صحافت کے ساتھ  دوردرشن (ٹیلی ویژن ) کا محاذ بھی سنبھال لیا۔

شیریں ابوعاقلہ کو دفتر میں بیٹھ کر کالم لکھنے اور تجزئے بگھارنے کے بجائے میدان سے رپورٹنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا، چنانچہ وہ فلسطینیوں کے ہر مظاہرے کا انکھوں دیکھا حال براہ راست سناتیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانیوالے فلسطینٰیوں کے گھر جاکر سوگوار خاندان سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے انکے جذبات کا بامحاورہ انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرتیں۔ شیریں کا یہ انداز انکے ناظرین کو بہت پسند آیا۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے جامعہ یروشلم کے شعبہ عبرانیات میں داخلہ لیا تھا۔ انکا خیال  تھا نشرواشاعت کے اسرائیلی ادارے عبرانی بولنے والے قار ئین اور ناظرین کو فلسطینیوں کی  حالتِ زار سے آگاہ نہیں کرتے اسلئے فوجی مظالم کے بارے میں انھیں کچھ خبر نہیں اور اسرائیلیوں کی اکثریت فلسطینیوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔

شیریں عملی صحافت کیساتھ میدان صحافت میں قدم رکھنے والے نئے ساتھیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی بھی بہت خوشدلی سے کرتی تھیں اور وہ عملاً اپنے جونئر ساتھیوں کی مشفق 'باجی جان' تھیں۔ْ

اسوقت جبکہ امریکہ و مغرب اور عالمی میڈیا کی  توجہ روس یوکرین جنگ کی طرف ہے، تل ابیب نے  مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کا کام تیز کردیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ اگلے دوسال کے دوران 4000 نئے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ملکیت کی شرائط میں وضاحت سے درج ہے کہ ان گھروں میں صرف یہودی مذہب کے ماننے والے رہ سکیں گے اور  کسی غیر یہودی کو کرائے دار رکھنا بھی غیر قانونی ہوگا۔ اس مقصد کیلئے دریائے اردن  کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس  میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کئے جارہے ہیں۔ ٰیہاں آباد لوگوں کو شدید ترین گرمی میں انکے گھرو ں سے نکال کر اردن کی سرحد پر خیمہ بستیوں کی طرف ہانکا جارہا ہے۔

اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ عرب علاقوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ شمال مغربی کنارے  کے چالیس ہزار آبادی والے شہر، جنین سے خیمہ بستی کی طرف دھکیلے بلکہ  ٹھونسے جانیوالوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ مظاہرہ  کرنے والے نہتے شہریوں کو  کچلنے کیلئے بھاری فوجی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بدھ (11 مئی) کو علی الصبح جب بلڈوزر جنین پہنچے تو وہاں کے رہائشیوں نے زبردست مزاحمت کی اور  نعرہ زن ہجوم نے  فوج کی طرف پتھر پھینکے۔ پتھراو کے جواب میں اسرائیلی  فوج ربر کی گولیاں استعمال کررہی تھی اور وقتاًفوقتاً اصلی گولیاں بھی برسائی جارہی تھیں۔ اس دوران شیریں ابو عاقلہ وہاں پہنچ گئیں۔ روزنامہ القدس کے علی السمودی کے ساتھ جنین کی رہائشی، مقامی خاتون صحافی شازیہ ہنیشا پہلے سے وہاں موجو تھیں۔ شازیہ کا کہنا ہے کہ 'ہم تینوں ذرا بلندی پر کھڑے تھے۔ فلسطینی مظاہرین ہماری پشت پر اور اسرائیلی فوج ہمارے سامنے تھی۔ شیریں، علی اور میں نے شناخت کیلئے PRESSکی واسکٹ (vest)پہن رکھی تھی۔ فوج کے سپاہی ہمارے اتنا قریب تھے کہ انکے سینوں پر آویزاں بیج سے ہم انکے نام پڑھ سکتے تھے' ۔ شازیہ کے مطابق  فوج نے شست باندھ کر ہم تینوں کو نشانہ بنایا۔

ایک گولی شیریں کی پیشانی پر لگی اور انکی فولادی ٹوپی (ہیلمٹ) کو چیرتی ہوئی 51 سالہ  خاتون صحافی کے کاسہ سر کو پاش پاش کرگئی۔ ایک گولی نے علی السمودی کے پیٹ کو نشانہ بنایا جبکہ شازیہ ہنیشا کی طرف آنے والی گولی انکے بازو کو چھوتی ہوئی چلی گئی۔ شیریں تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں، علی شدید زخمی ہیں۔ خوش قسمتی سے جوانسال شازیہ کو مرہم پٹی کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔

چند گھنٹے بعد اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں رعم پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز (Benny Gants) نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج نے براہ راست شیریں کو نشانہ نہیں بنایا۔جائے واردات کے بصری تراشوں (Footage)میں فلسطینی دہشت گردوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا خیال ہے  کہ خاتون صحافی کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی ہے اور ایک قیمتی انسانی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے وزیردفاع کے تجزئے سے اتفاق کیا اور اسرائیلی فوج کو مکمل حمائت کا یقین دلایا۔ یعنی مزید تحقیقات کا دروازہ طاقت و تکبر کی کیل سےبندکردیا گیا۔ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ واقعہ صبح پانچ بجے پیش آیا اور فاضل وزیر دفاع نے کنیسہ میں وضاحتی بیان صبح ساڑھے آٹھ بجے جاری کیا۔ صرف ساڑھے تین گھنٹے یعنی لاش کے تشریح الجثہ (پوسٹ مارٹم) سے بھی پہلے تحقیقات مکمل کرلی گئیں۔

مقتدرہ فلسطین (PA)کی وزارت صحت نے اسرائیلی حکومت کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اسے خاتون صحافی کا بہیمانہ قتل قراردیا ہے۔ فلسطینی ذرایع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے روئیے سے خوفزدہ ہوکر  عالمی نشریاتی اداروں نے اپنے عملے کو فلسطینی علاقوں سے ہٹالیا ہے اور صرف الجزیرہ کے چند صحافی ٰیہاں موجود ہیں۔ سینئر صحافیوں شیریں ابو عاقلہ اور علی السمودی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہاں مو جود رہ جانے والے سخت جان صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔

 اسرائیلی فوج کی جانب سےصحافیوں کے خلاف دانستہ کاروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ سال اسرائیلی فوج غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری  کرچکی ہے۔ اس موقع پر الجزیرہ نے ان 45صحافیوں کی فہرست شائع کی ہے جو 2000سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔فلسطینی انجمن صحافیان کے مطابق یہ تعداد 55ہے۔

شیریں کے قتل کے بارے میں اسرائیلی وزیردفاع کی وضاحت کو امریکہ سمیت ساری دنیا نے مسترد کر دیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن IFJاور فلسطینی صحافیوں کی تنظیم PSJنے شیریں کے قتل کو آزادی صجافت پر براہ راست حملہ قراردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ایک شہری اور معروف صحافی کی موت پر شدید تشویش ہے اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے بھی اس قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ مقتدرہ،  شیریں کے قتل کا مقدمہ جرائم کی عالمی عدالت ICCمیں درج کرارہی ہے۔ فلسطینی رہنما کا یہ عزم ایک بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسلئے کہ اسرائیل ICCکو تسلیم ہی نہیں کرتا۔  

اسرائیلی فوج کے کلیجے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئےاور  اس مظلوم کے جلوسِ جنازہ کو  تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جنین کے مقامی گرجا گھر سے شیریں کا جنازہ اٹھتے ہی اسرائیلی فوج نے کئی جگہ اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ انکا جنازہ جب نابلوس اور رام اللہ سے ہوتا ہوا مشرقی بیت المقدس میں  بیت اللحم کے قریب جبل صیہون Mount Zionکے مسیحی قبرستان پہنچا تو پولیس نے سوگواران پر لاٹھی چارج کیا۔ تابوت کو کاندھا دینے والوں  کی  گھونسوں اور لاتوں سے تواضع کی گئی اور کئی بار تابوت گرتے گرتے بچا۔جنازے کی ایسی بیحرمتی کی تو شائد پتھر کے دور میں بھی کوئی مثال نہ ملے۔ آفرین ہے حریت پسند دلاوروں پر جنھوں نے لاٹھی اور لاتوں کی چوٹ صبر اور عزم کیساتھ برداشت کرکے تابوت کو نیچے نہ گرنے دیا اور بنتِ فلسطین  کو پورے احترام کیساتھ انکے والدین کے پہلو میں سپرد خاک کردیاگیا۔ غیر شادی شدہ شیریں نے ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ سوگوار چھوڑا ہے۔ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ انکا تعارف تھا۔ اسی  بناپر ساتھیوں میں وہ شیریں تبسم (مسکراہٹ)کہلاتی تھیں۔ درندوں نے اس لازوال مسکراہٹ کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا یا یوں کہئے کہ  خبر کی تلاش میں  نکلنے والی شیریں خود ہی خبر بن گئی۔

مکہ کے جنت المعلاۃ اور مدینہ کے البقیع کی طرح جبلِ صیہون کا قبرستان مسیحیوں کیلئے تقدیس و حرمت کا حامل ہے کہ عبرانی روایات کے مطابق یہاں بنی اسرائیل کے کئی انبیا اور حضرت مسیحؑ کے پاکبازو متقی حواریوں (اصحابِ مسیحؑ) کی قبریں ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف کی بیحرمتی تو روزمرہ کا معمول ہے، شیریں اور الجزیرہ  سے  نفرت میں اسرائیلی فوج نے جبل صیہون کا تقدس بھی پامال کردیا۔ شیریں کے جنازے پر اسرائیلی فوج کی درندگی کے مناظر دیکھتے ہوئے  حضرت نعیم صدیقی کا یہ کلام بے اختیار ہمارے لبوں پر آگیا۔

ہماری ہستی ہی کیا ہے آخر

بس ایک آوازہِ صداقت

بس ایک شمعِ فضائے ہستی

دبا سکو تو صدا دبادو

بجھا سکو تو دیا بجھا دو

صدا دبے گی تو حشر ہوگا

دیا بجھے گا تو صبح ہوگی

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کرچی 20 مئی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 مئی 2022

روزنامہ امت کرچی 20 مئی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 مئی


2022


 

No comments:

Post a Comment