Thursday, March 28, 2024

بی بی کیلئے فیصلے کی گھڑی ۔۔۔ مدارس کا استثنا ختم ہو ا تو کہیں حکومت ہی نہ ختم ہوجائے

 

بی بی کیلئے فیصلے کی گھڑی ۔۔۔ مدارس کا استثنا ختم ہو ا تو کہیں حکومت ہی نہ ختم ہوجائے

متکبرین آجکل ایک نئی مصیبت میں ہیں۔ غزہ میں فوجی ہلاکتیں تو اتنی زیادہ نہیں لیکن ہر روز درجنوں زخمی ہسپتال لائے جارہے ہیں جنکی اکثریت معذور ہوگئی ہے۔ مستضعفین کی غول رائفل کسی کی آنکھیں چاٹ گئی تو کوئی جوان رعنا اپنی ٹانگ اور ہاتھ غزہ چھوڑ آیا ۔ ایک اندازے کے مطابق 22 ہزار فوجی معذور ہوگئے ہیں۔ جہاں محفوظ (Reserve)دستے ملاکر فوج کی کل تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کم ہو وہاں 20 ہزار جوانوں کا بستر سے لگ جانا معمولی بات نہیں

جنگ فوری طور پر بند ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں جسکی وجہ سے فوج شدید دباو میں ہے اور کئی ارب کےصرفے سے ہنگامی فوجی بھرتی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔

اسرائیل میں لازمی فوجی خدمت کا قانون نافذ ہے یعنی ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال آٹھ ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانوں کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کیلئے واپس بلاسکتی ہے۔ آجکل تقریباً سارے ہی reserve محاذ جنگ پر ہیں ۔

لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی، عبرانی تلفظ شریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ ہیں۔ احریدی خود کو توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور انکے یہاں ہر مرد کیلئے توریت و تلمود کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کیلئے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔

اسی بنا پر حریدی نوجو انوں کا لازمی فوجی بھرتی سے استثنیٰ حاصل ہے کہ Yeshivaسے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی اور 'حفظ ' متاثر ہوگا ۔مدارس کے طلبہ کو خصوصی وظیفہ بھی ملتا ہے۔ اسرائیل کی یہودی آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔یہ لوگ حد درجہ مذہبی ہیں اور

عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے ۔۔۔ جلوہ ِکثرت اولاد دکھاجاتی ہے۔

چنانچہ آبادی میں حریدیوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔

لبرل عناصر یہ استثنیٰ ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی طرح اسرائیلی مولوی کمزور نہیں بلکہ 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان )میں انکی 18 نشستیں ہیں ۔ نیتھن یاہو کی اپنی نشستیں صرف 32 ہیں جنھوں نے پاسبان توریت (Shas) پارٹی ، یونائیٹد توریت (UTJ)اور دینِ صیہونیت جماعت سے مل کر حکومت بنائی ہے۔

لبرل عناصر کا دباو کم کرنے کیلئےگزشتہ سال جون میں حکمراں اتحاد نے ایک قرارداد منظور کرالی جسکے تحت فوج کو حکم دیا گیا کہ 31 مارچ 2024 تک حریدی بچوں کو فوجی تربیت کیلئے نہ طلب کیا جائے۔ مولویوں کا خیال تھا کہ وقت آنے پر قرارداد کے ذریعے استثنیٰ میں توسیع کرلی جائیگی لیکن بی بی اور انکے مذہبی اتحادیوں نے غزہ بربریت کو جواز فراہم کرنے کیلئے جس طرح جنگی جنون اور سب سے پہلے اسرائیل کو ہوادی ہے اس نے خود انھیں کیلئے مشکلات کھڑی کردیں۔ عام اسرائیلی کہہ رہے کہ جب ہمارے بچے قتل گاہ بھیجے جارہے تو حریدی نوجوانوں کو استثنیٰ کیوں؟

چنانچہ کچھ منچلے عدالت پہنچ گئے اور درخواست دائر کردی کہ کنیسہ کی عائد کردہ مہلت ختم ہوے پر 31 مارچ سے فوجی تربیت کیلئے حریدی جوانوںکوبھی طلب کرلیا جائے۔ آج (27 مارچ) اٹارنی جنرل صاحبہ نے عدالت کے روبرو اس بات کی تصدیق کردی کہ 31 مارچ سے استثنیٰ ختم ہورہا ہے اور فوج یکم اپریل سے حریدیو ں کو تربیتی مراکز پر حاضری کا نوٹس جاری کرسکتی ہے۔ یہ خبر آتے ہی حریدی قائدین مشتعل ہوگئے اور عدالت کے سامنے مظاہرے میں حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی دیدی۔

سٹپٹائے وزیراعظم نے U Turn لیتے ہوئےعدالت کو دہائی دی کہ اٹارنی جنرل کی چٹھی میں ترمیم کی اجازت دیجائے۔ عدالت نے حتمی جواب کیلئے جمعرات دوپہر تک کی مہلت دی ہے۔ شاس اور یہودی توریت جماعت (UTJ) نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی تربیت سے استثنیٰ ہماری 'سرخ لکیر' ہے۔



No comments:

Post a Comment