کوئلے کی خونی کانیں
کوئٹہ
کے قریب ہرنائی میں کوئلے کی ایک کان میں گیس
بھرجانے اور دھماکے سے7 کانکن جاں بحق ہوگئے، تین
محنت کش اب تک ایک ہزار فٹ نیچے
پھنسے ہوے ہیں۔ حادثے کے وقت 10 کارکن کان
سے کوئلہ نکال رہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔ پھنسے ہوئے محنت کشوں کو نکالنے کیلئے 8
افراد کان میں اترے لیکن مناسبت حفاطتی آلات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اند پھنس
گئے۔ آخری خبریں آنے تک ان اٹھارہ میں سے 8 کارکن زندہ اوپر آگئے اور 7
لاشیں بھی نکال لی گئیں جبکہ 3 لاپتہ ہیں۔
اللہ نے بلوچستان کو
قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اسکے کوئٹہ،
لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی اضلاع
میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جبکہ پیداوار کا تخمینہ 90 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ ان ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے ڈھائی ہزار سے زائد کانیں کھودی گئی ہیں جہاں ہر روز 20 ہزار محنت کش گہرائیوں میں اتر کر معدنیات سمیٹتے
ہیں۔ یہ خطرناک کام ان غریبوں کیلئے حصول رزق حلال کا ذریعہ ہے۔ لیکن جیالے
ہنرمندوں کے خون پسینے سے کروڑ پتی بننے والے سیٹھوں کیلئے ان غریبوں کی جان کی
کوئی حیثیت نہیں۔ نہ تو کانوں پر میتھین، H2Sاور
دوسری خطرناک گیس ناپنے کے آلات رکھے گئے ہیں اور نہ ہی تربیت سمیت حفاظتی اقدامات
کا کوئی اہتمام ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی وزارت معدنیات، Mining Managementاور
پیشہ وارانہ صحت و حفاظت Occupational Health and
Safetyکےادارے
اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔کوئلے کی کانوں پر 'چھوٹے موٹے'جان لیوا حادثات عام
طور سے منظر عام پر بھی نہیں آتے۔
تین سال قبل عدالت عظمیٰ
نے جناب اسامہ خاور صاحب کی دائر کردہ
درخواست پر کوئلے کی کانوں میں حادثات کا نوٹس لیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عدالتی کاروائی کہاں
تک پہنچی لیکن آج ایک اور المناک حادثے کی خبر سن کرزخم پھر تازہ ہوگئے۔ دکھ صرف
قیمتی جانوں کے زیاں کا نہیں بلکہ اصل ماتم کارواں کے دل سے احساسِ زیاں کے چلے
جانے کا ہے۔
تیل و گیس کے کنووں اور
کوئلے کی کانوں میں حادثات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں چنانچہ ان مقامات پر
کارکنوں کی تربیت سمیت حفاظت کے خصوصی اقدامات ضروری ہیں۔ کوئلے کی کانوں کو دو بڑے خطرات کا
سامنا ہوتا ہے۔
1. کوئلے
سے میتھین Methaneگیس
کے علاوہ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں
خارج ہوتی ہیں۔ میتھین گیس وہی ہے جو سوئی گیس کی شکل میں آپکے چولہے جلاتی ہےا ور
گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ سریع الاشتعال گیس چشم
زدن میں انسانی جانوں سمیت سارا مال و متاع پھونک بھی سکتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں
اگر اخراج کا مناسب انتظام نہ ہو تو بڑی مقدار میں جمع ہوجانے والی گیس خوفناک دھماکے اور کان کے انہدام کا سبب بن سکتی ہے۔
2. کوئلے کی تہوں کے ساتھ کئی جکہوں پر پانی بھی موجزن
ہوتا ہے اور اگر کھدائی کے دوران پانی کی تہہ پر ضرب لگ جائے تو کانیں پانی سے
بھرجاتی ہیں۔ اسکے علاوہ کوئلے کی تہوں سے پانی کا غیر معمولی رساو بھی کانوں میں
محدود سیلاب لاسکتا ہے۔
پاکستان میں کانکنی اور معدنیات کے ماہرین کی کوئی کمی نہیں۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) میں ماپرین ارضیات و ڈرلنگ انجینرز کے ساتھ صحت، حٖفاظت و احتیاط کے ماہرین بھی ہیں۔ وزارت پیٹرولیم میں معدنیات کا ایک مکمل ڈائریکٹوریٹ ہے جہاں انتہائی قابل افسران موجود ہیں جو پالیسی سازی اور قوانین وضع کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ OGDCایسے ماہرین سے بھری پڑی ہے جو اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کی قابلیت و تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر بلوچستان کی صوبائی وزارت معدنیات کی دستاویزات کو کھنگالاجائے تو ان بوسیدہ اوراق میں بھی حفاظتی اقدامات سے متعلق ہدایات اور ضابطوں کی تفصیل موجود ہوگی۔ ضرورت ان قوانین کے نفاذ اور موثر نظامَ احتساب کی ہے جہاں فرض سے کوتاہی برتنے والے افراد کا بروقت مواخذہ کرکے قرارواقعی سزا کو یقنی بنایا جائے۔ یہ کام آخر کب شروع ہوگا؟؟؟
No comments:
Post a Comment