سرخ بچھیا (Heifer)
اور سرخ لکیر
دنیا بھر کے سلیم الفطرت
افراد غزہ خونریزی پر مضطرب ہیں۔صحرائے سینائی سے لگی بحیر ہ روم کی اس تنک پٹی کے
ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے بھی قیامت بپا ہے۔ بمباری، ڈرون حملے، فائرنگ کے
ساتھ گرفتاری و اغوا نے یہاں آباد بلکہ ٹھنسے 32لاکھ نفوس کی زندگی جہنم بنادی ہے۔
اسی کیساتھ ایک 'مشکوک '
سرگرمی بھی امریکی میڈیا پر بے نقاب ہورہی جسے دنیا کے دوارب فرزندان توحید کیلئے
ٹائم بم کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے تاریخِ بنی اسرائیل کے ایک
گوشے پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
سورہ البقرہ کی آیات ساٹھ سے
67 تک وہ قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں اللہ نے قومِ موسٰیؑ کو ایک گائے قربان کرنے
کا حکم دیا تھا۔ لوگوں کے سوال و جواب پر جانور کی جو نشانی بیان کی گئی اسکے
مطابق وہ اوسط عمر والی شوخ زرد رنگ کی گائے تھی جس سے کوئی مشقت نہیں لی جاتی۔
عبرانی مورخین کہتے ہیں کہ یہ سرخ رنگ کی بچھیا تھی جسکی کھال پر کوئی سفید یا
سیاہ بال نہ تھا ۔
یہودی تاریخ کے مطابق انکی
پہلی عبادت گاہ 957 قبل مسیح میں عبادت گاہِ سلیمان (ہیکل مقدس یا ہیکل سلیمانیؑ)
کے نام سے قائم ہوئی جسے 587 قبل مسیح بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II)نے ڈھادیا۔ ہیرووِ
اعظم نے 516 قبل
مسیح میں یہ عبادت گاہ اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کروائی جسے دوسری عبادت گاہ یا
بیت المقدس ثانی کہا گیا لیکن اسکا مشہو ر نام عبادت گاہِ ہیرود ہے۔ رومی بادشاہ
ٹیٹس (Titus)نے
70 قبل مسیح اس عبادت گاہ کو آگ لگوادی۔ جس دن یہ المیہ پیش آیا وہ یہودی کیلنڈر
کے آوو(AV)مہنیے
کی نویں تاریخ تھی۔ اسی بناپر یہودی اس دن کو Tish
B’Avیا 'نوکا نوحہ' کہتے ہیں۔ اس ماتمی تہوار پر24 گھنٹےکا روزہ
اوراجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتاہے
تاریخ کے بعد عقیدہ۔ توریت
یا عہد نامہ قدیم (Old Testament) المعروف
عبرانی انجیل کے باب گنتی (Number)کے مطابق ' خدواند نے ایک ایسی سرخ بچھیا قربان کرنے کا حکم دیا
تھا جس سے کبھی کوئی مشقت نہیں لی گئی ہو اور جس میں نہ کوئی نقص یا داغ ہو'
یہودی ربائیوں کا کہنا ہے کہ
اس حکم کی روگردانی کی وجہ سے اللہ نے یہودیوں کو مرکزی عبادت گاہ سے بطور سزا
محروم کردیا ہے اور قربانی کے بعد ہی یہ عبادت گاہ دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔
ایک عرصے سے سرخ گائے تلاش کی
جارہی تھی لیکن ایسی بے داغ بچھیا کہ جسکی کھال پر کسی دوسرے رنگ کا ایک بال بھی نہ
ہو کہیں نہ ملی ۔ یروشلم کے ربائی اسحاق مامو (Yizshak Mamo)نے کچھ عرصہ قبل اس بچھیا کی تلاش کا بیڑاہ اٹھایا۔ دنیا بھر کے
یہودی فارم چھان لینے کے بعد بھی انھیں سرخ گائے نہ ملی ۔ آخر کار ٹیکسس Texasکے ایک فارم پرانھیں انکا گوہرِ نایاب
نظرآ گیا لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکہ سے
مویشی درآمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربائی صاحب 'مذہبی حیلے' کا سہارا لیکر گائے کی پانچ نومولود بچھیوں کو بطور پا
لتو جانور (Pet) اسرائیل
لے آئے۔ یہ پانچوں گائیں غرب اردن میں قبضہ کی گئی زمین پر بنائے فارم میں پالی
جارہی ہیں۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے
کہ ربائی اسحاق مامو قربانی کی قدیم سنت کی تجدید چاہتے ہیں۔فکر مندی کی بات اس
عبادت گاہ کی جگہ پر ہے۔ قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیرِ نو اس
جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبد خضرا واقع ہیں ۔ عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے سرگرم
گروہ کی ایک رہنما محترمہ ملیسا جین کرون فیلڈ(Melissa Jane
Kronfeld) نے امریکی ٹیلی ویژن CBSکے نمائندے سے صاف صاف کہا کہ عبادت گاہِ اسی مقام پر بنی تھی لہذا
نئی عبادت گاہ یہیں پر تعمیر ہوگی۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھیننا چاہتے نہ
انکی مسجد مسمار کرنا مطلوب ہے ۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی
عبادت گاہ بن جائے۔ تاہم گنبدِ صخرا کو یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ہمیں سنہری گنبداور
عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔
جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسکے نتیجے میں خونریز جنگ ہوسکتی ہے جس سے
مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہوگا تو موصوفہ نے فرمایا مشرق وسطیٰ ایک عرصے سے
عدم استحکام کا شکار ہے اور اسوقت بھی یہاں (غزہ) جنگ ہورہی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جانوروں
کے غیر سرخ بال اور دوسرے نقص سے پاک ہونے کا جائزہ لیا جارہاہے اور اگر گائیں یہ
امتحان سے کامیاب گزرگئیں تو کسی بھی دن انھیں قربان کرکے ہیکل کی تعمیر نو کا کام
شرو ع ہوسکتا ہے
غزہ حملے کے 100 دن مکمل
ہونے پر مستضعفین نے کہا تھا کہ سرخ گائیں ہماری مقدس سرزمین تک آچکی ہیں۔گویا 7
اکتوبر کی کاروائی اس خطرے سے نبٹنے کی ایک کوشش ہے
اب تک گنبدصخرا ا ور مسجد
اقصیٰ کے قریب تعمیراتی مشنری آنے کی کوئی اطلاع نہیں لیکن حکومت کے انتہاپسند
وزرا وہ ضوابط تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں جسکے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں
کا داخلہ منع ہے
حوالہ: CBS نیوز
No comments:
Post a Comment