Friday, May 31, 2024

عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں سلمان رشدی بھی فلسطینی ریاست کے مخالف

 

عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

سلمان رشدی بھی فلسطینی ریاست کے مخالف

عالمی عدالت انصاف (ICJ)نے ر فح  میں فوری جنگ بندی کا حکم دیدیا۔دو ہفتہ پہلے جنوبی افریقہ نے عدالت کو دہائی دی تھی کہ اسرائیلی حملے سے وہاں پناہ لئے ہوئے 12 لاکھ شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے لہٰذا فوری طور پر عبوری حکم جاری کیا جائے۔ جمعہ 24 مئی کو جسٹس نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کو حکم دیا کہ  وہ رفح میں فوجی آپریشن فوراً بند کردے۔ تل ابیب کو عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔فاضل عدالت نے کہا کہ رفح میں اسرائیلی اقدامات سے حیاتِ انسانی کے لئے درکار بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے  اور فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔فوجی کاروائی جاری رہنے سے ایک خوفناک انسانی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔فیصلے میں بہت صراحت اور غیر مبہم انداز میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کو غزہ جانے کیلئے سہولت فراہم کرے۔عبوری حکم میں 28مارچ کو جاری ہونے والے حکم کا اعادہ کرتے ہوئے  پٹی پرامداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کی ہدائت کی گئی ہے۔یہ فیصلہ پندرہ رکنی بینچ کے 13 ججوں  کی حمائت سے جاری ہوا لیکن درحقیقت صرف یوگنیڈا کی جسٹس Julia Sebutindeنے مخالفت کی اسلئے کہ مخالفت کرنے والے دوسرے جج کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ آئی سی جے مدعی اور مدعا علیہ کے ایک ایک جج کو عدالت کی معاونت کیلئے رکھتی ہے۔

اسرائیل اور اسکے اتحادی، جو عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے مستغیث (Prosecutor)کریم خان کی جانب سے وزیراعظم نیتھن یاہو، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست پر پہلے ہی حاصے مشتعل تھے ،اس حکم پر پھٹ پڑے۔فیصلے کو یہود دشمن (Antisemitic) قرار دیتے ہوئے قدامت پسند حکمران اتحاد کے ترجمان اتامر بن گوئر نے تبصرے کے طور پر اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان کا یہ قول نقل کیا کہ 'ہمارا مستقبل اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ Gentiles(غیر یہودی) کیا کہیں گے بلکہ اصل بات یہ  ہے کہ یہودی کیا کریں گے'۔

غزہ کی پٹی کو دنیا سے ملانے والے راستے معبر ر فح (Rafah Crossing)پر اسرائیلی قبضے کی وجہ سے غذا اور دوا کی فراہمی منقطع ہے۔ہسپتال اندھیروں میں ڈوبےاور بچھی کھچی ایمبیولینس ناکارہ ہوچکی ہیں۔اسرائیل کے 'دباو' پر جنرل السیسی نے پاکستان کی الخدمت سمیت مسلم دنیا سے غزہ کیلئے مصر آنے والی مدد اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے، یعنی افریقہ و ایشیا کے غریب مسلمانوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو امدادی سامان بھیجا ہے وہ اب سرائیل میں تقسیم ہوگا۔جنرل صاحب کی'فراخدلانہ'پیشکش پر مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس نہال ہیں اور صدر بائیڈن نے مصر کا پرجوش شکریہ ادا کیا ہے۔

امریکہ میں طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی جاری ہے۔ جامعہ ہارورڈ نے مظاہرہ کرنے والے 13 طلبہ کو اسناد کا اجرا ایک سال کیلئے موخر کردیاہے جن میں زیادہ تر پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں جو چھ سات سال محنت کرکے سند کے حقدار ٹہرے تھے۔سزاپانے والوں میں Rhodes scholar پاکستانی طالب علم اسمر اسرار صفی اور ہندوستان کی شردھا جوشی بھی شامل ہیں۔اس فیصلے کے خلاف اساتذہ کی منظور شدہ قرارداد جامعہ کے گورننگ بورڈ نے  مسترد کردی۔ اسرائیلی نواز عناصر، طلبہ کیساتھ ہارورڈ کے اساتذہ پر بھی Antisemiticہونے کا الزام لگارہے کہ احتجاجی مظاہرہے میں Harvard Out of Occupied Palestine کے نعرے لگائے گئے، یعنی اسرائیل کو'مقبوضہ فلسطین' کہا جارہا ہے۔

جبرو تشدد  کے ذریعے امریکی جامعات میں طلبہ کے احتجاجی کیمپ اکھاڑدئے گئے لیکن اب اسرائیل کے پارکوں اور سڑک کنارے خیمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔غزہ سے متصل علاقوں کے 2 لاکھ افراد کو اسرائیل فوج نے وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔ کچھ عرصہ انھیں ہوٹلوں میں رکھا گیا لیکن اب انکا خرچ بند ہے چنانچہ یہ لوگ امریکی طلبہ کی طرح بطور احتجاج خیمہ زن ہوگئے۔

امریکی اہل دانش کی طرح اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی بیچینی کے آثار ہیں۔ کزشتہ ہفتہ اسرائیلی جامعات کے 1400 سے زیادہ اساتذہ نے وزیراعظم کے نام ایک کھلے خط میں لکھاکہ 'ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کو بلا تاخیر ختم کرے اور یرغمالیوں کی فوری واپسی کو یقینی بنائے کہ فوری جنگ بندی اخلاقی تقاضہ اور اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق ہے'۔

حکومتی حلقے بھی عسکری حکمت پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اسرائیلی سلامتی کونسل کے سینئر رکن Dr. Yoram Hemo نے مایوس ہوکر اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیا، وزیراعظم کے نام خط میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا'موجودہ طریقہ کار جاری رکھ کر مزاحمت کاروں کو شکست دینا ممکن نہیں بلکہ مجھے یہ ناممکن لگتا ہے۔اصل ہدف کے علاوہ متبادل کامیابیاں حاصل کی جاسکتی تھیں لیکن اسکے امکانات بھی اب ختم ہوگئے۔ حکومت آپریشن جاری رکھنا چاہتی ہے, خاکم بدہن انجام تصور سے بھی بدتر ہوسکتا ہے'

سفارتی محاذ پر فلسطینیوں کو گزشتہ ہفتہ بڑی کامیابی نصیب ہوئی جب ہسپانیہ، ناروے اور آئرلینڈ کے وزرائے اعظم نے مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ یہ ممالک 28 مئی سے فلسطین کو خود مختار ریاست تسلیم کرلینگے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن نہیں قائم ہوسکتا اورجتنے زیادہ ممالک جتنا جلدفلسطین کو تسلیم کرینگے اسی تیزی سے علاقے میں امن بحال ہوگا۔ دوسرے دن اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے آئرلینڈ کے وزیرخارجہ مائیکل مارٹن نے کہا کہ انکا ملک ریاست فلسطین کو1967 کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کررہاہے، یعنی غزہ، مغربی کنارہ اور دو یروشلم۔ انکا کہنا تھا کہ مغربی یروشلم (دیوارِ گریہ) اسرائیل کا اور مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) فلسطین کا دارالحکومت ہے۔

اس فیصلے پر اسرائیل میں سخت اشتعال ہے۔ وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی قراردیتے ہوئے تینوں ممالک سے سفیروں کو مشورے کیلئے واپس بلالیا۔ ہسپانیہ کی وزیر محنت و معاشیات اور نائب وزیراعظم دوم محترمہ جولاندا دیز(Yolanda Díaz)نےایک جلسے میں From the river to the sea, Palestine will be Freeکا نعرہ لگاکر غصے کی آگ پر تیل چھڑک دیا۔جب کسی صحافی نے اس 'آمد کی شانِ نزول' پوچھی تو موصوفہ نے کندھے اچکاتے ہوئے شانِ بےنیازی سے فرمایا' اجکل ہر شخص یہی کہہ رہا ہے' یعنی ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ معاملہ یہاں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا، اسی شام تل ابیب کے ہسپانوی سفارتخانے کے باہر سلیم الفطرت اسرائیلیوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے غدر کی ابتدا کردی۔ سفارتی و سیاسی تنہائی اپنی جگہ، اسرائیل کے نظریاتی حامی اب بھی پرجوش ہیں۔ ایک عرصے سےگوشہ تنہائی میں رہنے والے دانشور سلمان رشدی نے جرمن رسالے Bildکو ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے 'متوقع قیام' پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ ہندوستان نژاد سلمان رشدی کا خیال ہے کہ 'اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہ تنگ نظر طالبانی ریاست سے مختلف نہیں ہوگی اور جو لوگ آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہے ہیں وہ آزاد ریاست نہیں انتہاپسند جنونی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں'

اپنے تین اتحادیوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے پرصدر بائیڈن نے بہت محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔قصرمرمریں کے ترجمان نے کہا کہ 'صدر بائیڈن ہمیشہ سے دو ریاستی حل کے پرجوش حامی رہے ہیں، لیکن انکا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، مختلف ممالک کی کیجانب سے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مسئلے کا حل نہیں'۔ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں  صدر بائیڈن تیزی سے غیر مقبول ہورہے ہیں یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، امریکہ کی اُن چھ ریاستوں میں جہاں اس بار گھمسان کا معرکہ درپیش ہے، ڈانلڈ ٹرمپ آگے لگ رہے ہیں۔ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیوادا، وسکونسن اور پنسلوانیہ کی ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ریاستیں جیت کر جناب بائیڈن نے 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلئے تھے۔ اگر اس بار ان میں سے دو تین ریاست بھی وہ ہارگئے تو صدر صاحب کو  قصرِ مرمریں سے بوریا بستر لپیٹنا ہوگا یعنی بے گناہوں کے لہو سے جنم لینے والے تالاب میں بائیڈن سیاست غرق ہوجائیگی۔ 

غزہ خونریزی کا دباو ڈانلڈ ٹرمپ بھی محسوس کررہے ہیں۔ جمعہ 24 مئی کو جب سابق صدر نیویارک کے علاقے برونکس میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کررہے تھے تو وہاں موجود اسرائیل نواز افراد نے Bring them home کے نعرے لگائے۔کئی بار جناب ٹرمپ نے نظرانداز کرتے ہوئے پُر اعتماد لہجے میں sureکہا لیکن بار بار کی مداخلت سے جنجھلا کر اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔"میرا خیال ہے جن کا آپ اور ہر کوئی انتظار کر رہا ہے، ان میں سے بہت سے مر چکے ہیں،کچھ شائد زندہ ہوں لیکن اکثر مر چکے ہیں'

غزہ کو ملیا میٹ کردینے کے ساتھ آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دینے کی کاروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ الجزیرہ پر پابندی کے بعد گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کے دفتر پر چڑھ دوڑی اور نشریات بند کرکے کیمرے، کمپیوٹر اور دوسرے آلات چھین لئے۔اسرائیلی وزیراطلاعات سلام کرہی کا کہنا ہے کہ اے پی میدان جنگ کی روداد براہ راست دکھا کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہا تھا۔دوسری طرف اسرائیل کے فوجی شرمناک تصاویر اور بصری تراشے خود جاری کررہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے ایک تصویر شایع کی ہے جس میں جامعہ غزہ پر قبضے کےبعد لائبریری کی کتابوں کو دیاسلائی دکھاکر ایک دلاور کتاب ُپڑھتا نظر آرہا ہے۔صدیوں قبل بغداد پر قبضے کے بعد سب سے پہلے وہاں کا مرکزی کتب خانہ جلایا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ نے جب کتابیں پڑھنے کی ہمت کرلی تو یہ وحشی، انسانیت کا فخر اور تہذیب و اخلاق کے استاد بن گئے۔

صحافت کا گلا گھونٹنے اور جھوٹے پروپیگنڈے کی ایک عبرتناک مثال پر گفتگو کا اختتام۔ سات اکتوبر کی کاروائی میں اسرائیلی فوج کے دوسرے افسر وں کےساتھ غزہ بریگیڈ کے کمانڈر کرنل آصف حمامی (Assaf Hamami)کو مزاحمت کاروں نے جنگی قیدی بنالیا۔لیکن اسرائیلی فوج نے انکے اہل خانہ کو مطلع کیا کہ کرنل صاحب داد شجاعت دیتے ہوئے “شہید “ ہوگئے۔ انکے لئےشجاعت کے اعلیٰ اعزاز کی سفارش ہوئی اور دسمبر میں موصوف کی تدفین بھی پورے عسکری تزک و احتشام سے کردی گئی۔ گزشتہ ہفتےامریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مزاحمت کاروں کے حوالے سے بتایا کہ کرنل صاحب نے پہلے ہی ہلے میں ہتھیار ڈال کر خود کو مزاحمت کاروں کے حوالے کردیا تھا اور موصوف غزہ میں قید ہیں۔ دعوے کے ثبوت میں  مستضعفین نے بصری تراشہ بھی جاری کردیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 31 مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 31 مئی 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 جون 2024


Thursday, May 23, 2024

شکست یا کھائی ۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

 

شکست یا کھائی ۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

گزشتہ ہفتے مقبوضہ فلسطین میں تین تہوار منائے گئے۔قیام اسرائیل کی 76 ویں سالگرہ جو فلسطینیوں کیلئے ایک بھاری آفت کی برسی تھی۔غزہ پر حالیہ حملے کے فوراً بعد شایع ہونے والے کالم میں ہم نے قبضے کی واردات کا تفصیلی ذکر کیا تھا جب برطانوی فوج کی مدد سے 12لاکھ فلسطینیوں کو کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں ٹھونس دیا گیا جسے دنیا غزہ کے نام سے جانتی ہے۔قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں کی 2 کروڑ مربع میٹر اراضی پتھیا لی گئی۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے یہ مظلوم یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ اسی کیساتھ یہودی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ'اسرائیل کوئی ریاست نہیں بلکہ فلسطینیوں کے قلب میں گھونپا گیا سامراجی خنجر ہے'

قیام اسرائیل اور یوم النکبہ سے تین دن پہلے 12 مئی کو فلسطین پر قبضے کے دوران مارے جانیوالے جارح سپاہیوں کی یاد میں یوم ذکر(Yum HaZikaron) یا میموریل ڈے منایاگیا۔اس موقع پر وزیراعظم نیتھن یاہو کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جیسے ہی فوجی قبرستان میں داخل ہوئے  'اسرائیلی بچوں کا قاتل مردہ باد' ،ہمارے قیدی واپس لاو'کے فلگ شگاف نعروں سے انکا اسقبال ہوا۔ مظاہرین نے اسرائیلی پرچموں  پر 7:10لکھا ہوا تھا یعنی 'بی بی بقراطی چھوڑو اور 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرو'

اس ہفتے جنوب میں ر فح اور شمال میں جبالیہ اسرائیلی بمباروں کا خاص ہدف رہا۔ یہ دونوں مقامات کھنڈروں پر بسی خیمہ بستیاں ہیں یعنی برباد و خراب حالوں کو پامال کرکے دادِ دلاوری وصول کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق روزانہ 74 مقامات پر بمباری کی جارہی ہے۔ ڈرون کے ذریعے میزائیل اور راکٹ حملے اسکے علاوہ ہیں۔ بمباری کا دائرہ غرب اردن تک بڑھادیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے شمالی غربِ  اردن کے علاقے جنین پر بمباری کی گئی۔ جنین بھی ایک خیمہ بستی ے جہاں 37 مربع کلومیٹر رقبے میں 50 ہزار نفوس آباد ہیں یعنی 13سو افراد فی مربع کلومیٹر۔اس گنجان آبادی پر وحشیانہ بمباری سے جو تباہی آئی اسکی تفصیل یہاں لکھنے کی ہم میں ہمت نہیں۔

ر فح کے حوالے سے صدر بائیڈن مسلسل بے نقاب ہورہے ہیں۔اسرائیلی حملے کے ساتھ ہی امریکی صدر نے اعلان کیا کہ اسرائیل کو مہلک بموں کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے بائیڈن صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ اگر اس پابندی کو معطل کرنے کیلئے کانگریس نے کوئی بل منظور کیا تو وہ اسے ویٹو کردینگے۔ لیکن ابھی اس گھن گرج کی بازگشت باقی ہی تھی کہ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر جیک لیو نے غبارے میں سوئی چبھودی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بہت صراحت سے وضاحت فرمائی کہ 'امریکہ اسرائیل تعلقات اور عسکری تعاون میں کوئی تبدیلی نہیں آیا، بس High Payloadبموں کی ترسیل 'موخر' کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی جنابِ بائیڈن نے ایک ارب ڈالر مالیت کا اضافی اسلحہ فوری طور پر اسرائیل بھیجنے کیلئے کانگرییس سے منظوری طلب کرلی۔ اس کھیپ میں ٹینک کے گولے، بلڈوزر و بکتر بند گاڑیاں اور توپ کے گولے شامل ہیں۔جب کسی صحافی نے صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون سے پوچھا کہ ر فح میں اسوقت آباد تمام کے تمام 12 لاکھ شہری خیموں میں مقیم ہیں اور ان بے آسرا و ے اماں نہتوں پر بمباری کو نسل کشی کے سوا اور کیا کہا  جاسکتا ہے تو موصوف نے بہت ڈھٹائی سے کہا غزہ میں انسانی جانوں کازیاں افسوسناک ہے ۔اسرائیل کو احتیاط کرنی چاہئے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا۔یہی موقف عالمی عدالت انصاف (ICJ)میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل جیلاد نوم نے اختیار کیا۔جنوبی افریقہ کے دلائل کے بعد جب انھیں طلب کیا گیا تو فاضل وکیل نے کہا 'غزہ میں “افسوسناک” جنگ ہورہی ہے، انسانی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا۔

دوسری جانب بھرپور تشدد کے باوجود امریکہ اور یورپ کی طلبہ تحریک میں مزید شدت آرہی ہے اور طلبہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ جامعہ ہیوسٹن میں مک ڈونالڈ نے اپنے ریستوران بند کردئے جبکہ اسٹار بکس  کافی کی دکان بھی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ یہ امریکہ میں جلسہ ہائے تقسیم اسناد کا موسم ہے۔ تقریباً ہر جگہ طلبہ نے اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہرائے اور فلسطین کفیہ گلے میں ڈال کر اپنی اسناد وصول کیں۔ امریکی دارالحکومت کے قریب جامعہ ورجنیا دولت مشترکہ (VCU) میں طلبہ کے اعتراض کے باوجود ریاستی گورنر کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔گورنر صاحب کی نگاپوں کو راحت پہنچانے کیلئے احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑدئے گئے لیکن نوجوانوں نے کچھ اور پی سوچ رکھا تھا۔جیسے ہی گورنر صاحب تقریر کیلئے کھڑے ہوئے طلبہ آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے ہال سے باہرچلے گئے۔ ٹیکس کے گورنر ایبٹ اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ انکے حکم پر ریاست کی تمام سرکاری جامعات میں مظاہروں کو کچلنے کیلئے نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ ان ساری کوششوں کے باوجود دارالحکومت کی جامعہ آسٹن میں جلسہ تقسیم اسناد کے دوران اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔

خود صدر بائیڈن کو اس وقت مشتعل طلبہ کا سامنا کرنا پڑا جب 19 مئی کو وہ تقسیمِ اسناد کیلئے ریاست جارجیا کے معروف مورہاوس کالج پہنچے۔امریکی صدر جیسے ہی تقریر کیلے چبوترے (پوڈیم) پر آئے فضا نہرتا بحر فلسطین، Genocide Joeاور غزہ خونریزی بند کرو کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس دوران صدر بائیدن متانت سے  مسکراتے  رہے۔ انھوں نے نعرہ زن طلبہ کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ حق اظہار رائے کی حمائت کرتے ہیں۔ آپکی بات سنی جارہی ہے ۔ امریکی صدر نے زور دیکر کہا کہ غزہ میں مکمل اور فوری جنگ بندی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔

جامعات میں مظاہروں اور اظہار رائے پر پابندیوں سے خود امریکہ کے سنجیدہ عناصر کو بھی تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست اوہایو کی Franciscan University of Steubenville کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عدالت عظمیٰ کے قدامت پسند جج جسٹس سموئیل الیٹو نے کہا کہ امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔انکا کہنا تھا کہ 'خوبصورت کیمپس کے باہر امڈ آنے والے بحران نے ہمارے بنیادی اصولوں کو گہنادیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے، خاص طور سے ان مقامات پر جہاں اسے وسیع تر قبولیت ملنی چاہئے۔ جسٹس الیٹو، نو رکنی بینچ کے پانچ قدامت پسند ججوں میں سےایک ہیں۔ انھیں 2006 میں صدر بش نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا

طلبہ تحریک کو سب سے بڑی کامیابی بیلیجیم میں نصیب ہوئی جہاں جامعہ بیلجئم (UGent) نے اسرائیل کے تین تحقیقاتی اداروں Holon Institute of Technology ، MIGAL Galilee Research Institute اور Volcani Center  سے تعاون ختم کردیا۔ ن تینوں مراکز کا زرعی تحقیق کے حوالے سے اعلیٰ مقام ہے۔جامعہ کے ریکٹر،  رک وان ڈی وال (Dr Rik Van de Walle) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ادارے انسانی حقوق کے باب میں جامعہ بیلجئم کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔(حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)

سیاسی وسفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کو دباو کا سامنا ہے۔ سوئیڈن کے دوسرے بڑے شہر گٹن برگ (Gothenburg)کے رئیس شہر (مئیر) نے کونسل میں ایک تجویز پیش کی ہے جسکے تحت اسرائیل سمیت جبری قبضے پر قائم ریاستوں کی مصنوعات گٹن برک میں فروخت نہیں ہوسکیں گی۔ بلدیاتی کونسلروں کے نام خط میں مئیر ڈینئیل برنمر (Daniel Bernmar)نے کہا کہ گٹن برگ کے شہری، قبضہ گردوں کو تجارت کے مواقع دینے کو تیار نہیں۔ (حوالہ: الجزیرہ)

اسپین کے وزیرخارجہ مینول الباریز نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کیلئے اسلحہ لے کر جانے والے جہاز ایندھن یا کسی دوسری سہولت کیلئے اسپین کی کسی بندرگاہ پر نہیں رک سکتے ۔

غزہ تشدد کیخلاف کھیل کے میدانوں سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بینکاک (Bangkok)میں ایشین فٹبال کنفیڈریش کے حالیہ  اجلاس کے دوران فیفا FIFAسے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنےکی سفارش کی گئی ہے۔ خیال ہے کہ فیفا کے آئندہ اجلاس میں اس تجویز پر رایے شماری ہوگی۔

ر فح حملے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے سربراہ امورِ خارجہ جوف بوریل نے کہاکہ اسرائیل ر فح آپریشن فورا ختم کردے۔ اگر کاروائی جاری رہی تو یورپی یونین کے اسرائیل سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ کچھہ ایسی ہی تشویش کا اظہار نیٹو، G-7 اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے کیا جب اپنے اسرائیلی ہم منصب کے نام ایک مشترکہ خط میں  برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، جنوبی کوریا، ڈنمارک، سوئیڈن، جاپان اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے ر فح کاروائی روک کر انسانی امداد کیلئے مصر کاراستہ کھولنے  کا مطالبہ کیا۔ تاہم یہ خط وصول ہونے پہلے ہی اسرائیلی وزیرخارجہ صاف صاف کہہ چکے تھےکہ  ' دنیا جو چاہے کہتی پھرے، دہشت گردوں کے مکمل استیصال سے پہلے اسرائیل جنگ بند کرنے والا نہیں'

اب قیامِ امن آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 18 مئی کو اہل غزہ سے یکجہتی کیلئے یروشلم میں اسرائیلی کنیسہ(پارلیمان ) کے باہر زبردست مظاہرہ ہوا۔ لوگ بینر لئے کھڑے تھے جن پر عبرانی میں لکھا تھا 'بچوں کو بھوکا مارنا سنگین جنگی جرم ہے'۔ عین اسی وقت اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں سابق فوجیوں نے مظاہرہ کیا۔اس موقع پر جنگ بند کرو، ہمارے قیدی واپس لاو، نئے انتخابات کراکر (کرپشن کے الزام میں) جیل کی ہوا کھاؤ کے نعرے لگائے گئے۔

اعتدال پسند قوم پرست رہنمااور اسرائیلی مادر وطن پارٹی کے سربراہ ایوگدرلائیبرمین (Avigdor Lieberman) نے وزیراعظم نیتھن یاہو، وزیردفاع یوف گیلینٹ اور فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی کو غزہ مسئلہ کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے، تینوں Losersسے فوری استعفی کا مطالبہ کیاے۔

امریکہ اور یورپ کیساتھ اسرائیل سے اٹھنے والی آوازیں بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہی ہیں کہ یہ وزیراعظم نیتھن یاہو کی سیاسی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔اس جنگ نے اسرائیلی وزیراعظم کو انتہائی غیر مقبول بنادیاہے  اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ بند ہوتے ہی نئے انتخابات کرانے ہونگے جس میں جناب نیتھن یاہو اور انکے اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ بی بی اور انکی بی بی کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات زیرسماعت ہیں جن سے بچاو کیلے موصوف نے بربنائے عہدہ حکم التوا (Stay order)لے رکھا ہے۔ وزیراعظم کی بددیانتی کے ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ بی بی  ایوان وزیراعظم چھوڑتے ہی زینتِ زنداں ہوجائینگے۔ لبنان کے منارہ ٹیلی ویژن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'بی بی کیلئے  defeat or abyss(شکست اور کھائی) والی صورتحال ہے۔ یعنی اگر جنگ بندی قبول کرتے ہیں تو یہ انکی کھلی شکست جبکہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں کھائی انکا مقدر ہے'

متکبر و مجرم پیشہ ٹولے کے عبرتناک انجام کی نوید کانوں کو بھلی تولگی لیکن قطرے سے گُہر بننے کے سفر میں اہل غزہ اور فلسطینیوں پر جو گزر رہی ہے اسے دیکھنے اور پڑھنے کی تاب نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 24مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 24 مئی 2024

ہفت روزہ روزنامہ رہبر 26 مئی 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


مفاہمانہ، شیریں اور بردبار سفارتکاری کا 'رئیسانہ دور' تمام ہوا؟؟؟

 

مفاہمانہ، شیریں اور بردبار سفارتکاری کا 'رئیسانہ دور' تمام ہوا؟؟؟

ایران کے صٖدر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ امیر حسین امیرعبداللهیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر ملک رحمتی اور تبریز شہر کےخطیبِ جمعہ  محمد علی الہاشم  ہیلی کاپٹر کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔

تریسٹھ سالہ رئیسی ایک عالم و فقیہہ تھے۔ وہ کئی شہروں میں ایرانی حکومت کے مستغیث (Prosecutor)، خطیبِ جمعہ،اٹارنی جنرل  اور دو سال عدالت عظمیٰ ایران کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) رہے۔ رئیسی صاحب، امام رضا کے روضہ مقدس المعروف آستانہِ قدس رضوی کے خادم بھی تھے جو شیعوں کے یہاں حد درجہ عزت و افتخار کا حامل منصب ہے۔ جناب رئیسی کی اہلیہ  محترمہ جمیلہ بھی اعلیٰ پائے کی عالمہ اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ جمیلہ صاحبہ کے والد حجت الاسلام احمد علم الہدیٰ بہت بڑے عالم اور حکومتی معاملات پر نظر رکھنے والی مجلس خبرگانِ رہبری کے رکن ہیں۔

ابراہیم رئیسی نے پہلی بار 2017 میں انقلابِ اسلامی فورس (فارسی مخفف جُمنا)کی حمائت سے صدارتی انتخاب لڑا لیکن انھیں حسن روحانی کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ چار سال بعد 2021 میں انھوں نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کی اور 72 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوگئے۔

صدر رئیسی ایران و آذربائیجان کی سرحد کے قریب قز قلعہ سی ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد ایراانی فضائیہ کے امریکی ساختہ Bell-212ہیلی کاپٹر پرواپس آرہے تھے کہ اڑان بھرتے ہی تیز آندھی اور گہری دھند کی وجہ سے پروازانتہائی ناہموار پوگئی۔ اتوار کی صبح اسکی اطلاع دیتے ہوئے وزیرداخلہ احمد توحیدی نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر مشرقی آذربائیجان کے شہر جلفا اتر نے (Hard Landing)میں کامیاب ہوگیا ہے اور مسافروں کی تلاش  کیلئے امدادی دستے روانہ کردئے گئے ہیں۔پیر کی صبح تک ہیلی کاپٹر پر سوار تمام افراد کی میتیں مل گئیں۔سرکاری اعلامئے میں  کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر مشرقی آذربائجان کے شہر بکرآباد کے مضافاتی علاقے وزرقان میں گرکرتباہ ہوا۔ یہ کوہستانی علاقہ آذربائیجان کی سرحد سے متصل ہے۔

قز قلعہ سی ڈیم آبنوشی و آبرسانی کا بڑا  منصوبہ ہے۔اس  ڈیم سے تبریز کا سوا ارب مکعب میٹر علاقہ سیراب ہوگا اور  40 میگا واٹ کم لاگت بجلی حاصل کی جائیگی۔یہ ڈیم دریائے ارس پر تعمیر کیا گیا ہے۔ کوہ قاف پر آذربائیجان میں صابر آباد سے شروع ہونے والا 1075 کلومیٹر طویل دریائے ارس ، ایران اور آرمینیا سے ہوتا ہوا ترکیہ تک جاتا ہے۔ ڈیم کی تعمیر پر آذربائیجان کو اعتراض تھا لیکن ایرانی ماہرین نے ڈیزائن میں ترمیم کرکے اسے اپنے شمالی پڑوسی کیلئے قابل قبول بنالیا۔اس لحاط سے قز قلعہ سی ڈیم زرعی و پن بجلی منصوبے کیساتھ مخلصانہ مشاورت کے ذریعے متنازعہ مسئلے کے متفقہ حل کی ایک درخشاں مثال بھی ہے۔ اسی بناپر آذربائیجان کے صدر الحان علیوف کو افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔

قارئین کوشائد ڈیم کا یہ تفصیلی تعارف غیر ضروری محسوس ہوا ہو لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران ایران نے سفارتی محاذ پر جو خوشگوار پیشرفت کی ہے، یہ ڈیم اسی مفاہمانہ سفارت کاری کا تسلسل ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے دہائیوں پرانے اختلافات ختم کرکے ایران نہ صرف سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات معمول پر لاچکا ہے بلکہ اسکے نتیجے میں خلیجی ممالک اور شام و لبنان کے درمیان کشیدگی بھی ماند پڑگئی ہے۔ چند ماہ پہلے پاکستان پر ایران کے میزائیل حملے اور اسلام آباد کے ترنت جواب سے صورتحال دھماکہ خیز ہوگئی تھی۔ اسوقت ایرانی وزیرخارجہ کی گرمجوش لیکن دل کو چھولینے والی سفارت کاری بہت کام آئی۔ رئیسی صاحب کے دور میں تہران اور واشنگٹن کے درمیاں کشیدگی ختم تو نہ ہوسکی لیکن براہ راست تصادم کی کوئی نوبت نہ آئی اور ایک عرصے سے کھٹائی میں پڑے قیدیوں کے تبادلوں پر خاصی پیشرفت دیکھی گئی۔

چند سال پہلے تک 'مخالفین' سے برتاو کے باب  میں ایران کارویہ سخت بلکہ جارحانہ نوعیت کا محسوس ہوتا تھا لیکن تہران کی پالیسیوں میں اب بردباری کا پہلو نمایاں ہے۔ دمشق کے ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا جچا تلا جواب دیا گیا جو تھا تو بہت سنجیدہ  لیکن اس میں لن ترانی اور بھڑک کا شائبہ تک نہ تھا۔

ایران کی کامیاب سفارتکاری کو امریکہ و یورپ کے علمائے سیاست و سفارت بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔صدر رئیسی اس شیریں سفارتکاری کے معمار سمجھے جاتے تھے جسےامریکہ کے صحافتی و سیاسی حلقے  Rasi  Doctrineکہہ رہے ہیں۔

کیا یہ حادثہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے تو اس بارے میں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ایرانیوں نے اب تک حادثے کی تحقیقات بھی شروع نہیں کیں۔ تاہم سازش کے الزام کو یکسر رد کردینا بھی ممکن نہیں، اسلئے کہ افہام و تفہیم کی 'رئیسانہ حکمت عملی' نے ایران کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔اصولوں پر قائم رہتے ہوئے تہران نے اپنے مخالفین سے کشیدگی کم کی ہے۔ تمام پڑوسیوں اور علاقے  کےممالک سے ایران کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ تہران کے حوثی اتحادیوں نے بحیرہ احمر کو اسرائیلی جہازوں کیلئے no go areaبنا دیا ہے اور اس کوشش میں سعودی عرب کو یورپ اور ایشیا سے ملانے والا بحری راستہ مخدوش اور سفر مہنگا ہوگیا ہے، لیکن نقصان کے باوجود ریاض اور تہران کے درمیان خٰیر سگالی کا خوشگوار سفر جاری ہے۔ رئیسی ڈاکٹرائن کی تدوین اور عملدرآمد میں وزیرخارجہ امیرعبداللهیان نے بہت اخلاص سے انکی نیابت کی۔ ایران کا یہ انداز اسکے حاسدوں خاص طور سے اسرائیل کو پسند نہیں اور دونوں کے ایک وقت مارے جانے سے سوال اتھنا ایک فطری بات ہے۔

سازش سے  قطع نظر ایران میں ہوائی سفر دنیا کے دوسرے علا       قوں کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔ ہوائی حادثات پر نطر رکھنے والے  عالمی ادارے Bureau of Aircraft Accident Archives (B3A).کے مطابق 1979 سے 2023 تک ایران میں چھوٹے بڑے 253 حادثات ہوئے جن میں 2335 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔سرکاری اہلکاروں کیلئے مختص  ایرانی ہوائی بیڑہ ستر سے اسی فیصد امریکی ساختہ ہے  اور 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی مرمت و دیکھ ممکن نہیں۔ تجویز کردہ اصل پرزوں کے بجائے چینی ساختہ یا مقامی مال استعال ہورہاہے۔ یہ بدنصیب ہیلی کاپٹر 1979 سے پہلے شاہ ایران کے دور میں خریدا گیاتھا۔

اس سانحے پر جپاں ہر سلیم الفطرت شخص کو افسوس ہوا ہے وہیں امریکہ کے انتہاپسند عناصر بہت ہی بے شرمی سے مسرت کا اظہار کررہے ہیں۔ہیلی کاپٹر غائب ہوجانے کی خبر آتے ہی ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس اور مجالس قائمہ برائے امورِ خارجہ و دفاع کے رکن مائک والٹز سے سوشل میڈیا پر لکھا 'شکر ہے جان چھوٹی۔رئیسی پیشہ ور قاتل ہے۔ اس نے صدر بننے سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ایرانی حکومت اس (حادثے) کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر لگا رہی ہے تاکہ دہشت گردی کا جواز پیدا کیا جائے

اسکا دوسرا پہلو اسرائیل میں نظر آیا۔ جامعہ تل ابیب کی ایکزیکیٹیو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ایلی گلمین نے  واٹس ایپ (WhatsApp) پر اپنے احباب کو پیغام بھیجا 'افسوس کہ جس ہیلی کاپٹر پر ایرانی صدر سفر کررہے تھے اس پر ہمارے وزیراعظم (نیتھن یاہو) نہیں بیٹھے تھے' ۔پیغام “لیک” ہوتے ہی انتہاپسندوں نے ڈاکٹر گلمین کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیاجس پر معذرت کے بجائے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے گلمین صاحب بولے گزشتہ 27 سالوں میں ویراعظم نے ملک کو بھاری نقصان پہنچایا ہے اور انکے ضرر کی شرح مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ اس تناظر میں ان سے چھٹکارے کی دعاضروری ہے

جناب رئیسی کے انتقال کے بعد نائب صدر اول محمد مخبر نے قائم مقام صدر کی ذماداریاں سنبھال لی ہیں۔ اگلے ماہ کی 28 تاریخ کو نئے صدر کیلئے ووٹ ڈالے جائینگے۔ اڑسٹھ سالہ محمد مخبر، اپنے پیشرو کی طرح ایران اسلامی تحریک کے مخلص نظریاتی کارکن ہیں۔وہ نائب صدارت سنبھالنے سے پہلے 14  برس تک ستادِ اجرائیِ فرمانِ امام خمینی کے سربراہ رہ چکے ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ستاد کی ایک نکاتی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اسلامی جہوریہ ایران، امام خمینی کے عطاکردہ نصب العین اور امام کے طئے کئے اہداف و تزویرات سے سرِ مو انحراف نہ کرنے پائے۔ جناب مخبر روحانی پیشوا (سپریم لیڈر) سید علی خامنہ ای اور پاسداران انقلاب اسلامی IRGCکے بہت قریب ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 مئی 2024


Tuesday, May 21, 2024

قیمت پر قابوکیلئے محفوظ ذخیرے سے پیٹرول کی فروخت

 

قیمت پر قابوکیلئے محفوظ ذخیرے سے پیٹرول کی فروخت

آنے والی تعطیلات کے دوران پیٹرول کی مناسب داموں دستیابی کیلئے امریکی صدر نے شمال مشرقی ذخیرے Northeast Gasoline Supply Reserve (NGSR)سے 10 لاکھ بیرل (پندرہ کروڑ 90لاکھ لٹر) پیٹرول نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نومبر 2012 میں بحیر اوقیانوس سے اٹھنے والے طوفان Hurricane Sandyنے امریکہ کے شمال مشرقی حصے کو بری طرح متاثر کیاتھا۔ اس موقع پر پیٹرول کی قیمتوں پر قابو کی غرض سے وفاقی حکومت نے NGSRقائم کیا تاکہ اگر کسی بحران کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمتیں بے قابو ہوجائیں تو اس ذخیرے سے پیٹرول جاری کرکے رسد کو طلب کے برابر کردیا جائے۔

اس سلسلے میں نیویارک بندرگاہ کے قریب 9لاکھ بیرل (14کرؤر 31 لاکھ لٹر) اور ریاست مین کے ساحی شہر ساوتھ پورٹ لینڈ میں ایک لاکھ بیرل (ایک کروڑ 59 لاکھ لٹر) پیتروک ذخیرہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ خام تیل نہیں بلکہ (refined)پیٹرول کا ذخیرہ ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے فوراً بعد جب پیٹرول کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اسوقت بھی رسد بڑھانے کیلئے یہاں سے پیٹرول نیلام کیا گیا۔

آے والے پیر کو امریکہ میں میموریل ڈے کا تہواراور اسکے دوماہ بعد 4 جولائی کو یوم آزادی ہے۔اس دوران امریکی اپنے پیاروں سے ملنے کیلئے دوردراز کا سفر کرتے ہیں چانچہ اس عرصے میں پیٹرول کی طلب بڑھ جاتی ہے

پیترول کے آڑھتیوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی پیشکشیں جمع کرادیں جو 28 مئی کو 11 بجے صبح کھولی جائینگی۔ پیٹرول کا نیلام ایک کروڑ 50 لاکھ لتر پر مشتمل 10 کھیپوں میں ہوگا۔


Saturday, May 18, 2024

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔۔ ر فح لہو لہو ہمارے فراہم کردہ بموں سے شہری مارے گئے ۔۔ صدر بائیڈن کا 'انتخابی' اعتراف

 

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔۔ ر فح لہو لہو

ہمارے فراہم کردہ بموں سے شہری مارے گئے ۔۔ صدر بائیڈن کا 'انتخابی' اعتراف

قیامت خیز بمباری و گولہ باری کے بعد 8 مئی کی صبح اسرائیلی فوج ر فحہ میں داخل ہوگئی۔ نوحے سے پہلے ایک حوصلہ افزا خبر۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 مئی کو عرب ممالک کی جانب سے متحدہ عرب امارات کی پیشکردہ  قرارداد دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی جس میں سلامتی کونسل سے فلسطین کی مکمل رکنیت پر 'مثبت غور' کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تحریک  کے حق میں 153 ووٹ آئے، امریکہ، آسٹریا، چیک ریپبلک اوراسرائیل سمیت 10 ممالک نے مخالفت میں ہاتھ بلند کئے جنکہ 23 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جن میں برطانیہ، یوکرین اور اکثر یورپی ممالک شامل ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی ہی ایک قرارداد پر اکتوبر میں ہونے والی رائے شماری میں مسلم اکثریتی ملک البانیہ غیرجابندار رہا تھا لیکن اس بار البانیہ نے قرارداد کے حق میں وٹ دیا۔ امریکہ کے اتحادیوں آسٹریلیا، فرانس، بیلجیم، کینیڈا اور فرانس نے قرارداد کی حمائت کی۔

تحریک کے ذریعے اقوامِ عالم  کی غیر معمولی اکثریت نے آزاد و خود مختار فلسطین کی کھل کر حمائت کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی قوت نافذہ سےمحروم ہے اور جب تک سلامتی کونسل منظوری نہ دے، اسکی حیثیت کاغذ کے ایک ردی ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں اور سلامتی کونسل کے بارے میں حضرت انور مسعود نے کیا خوب کہا ہے 'تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے'

سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے امریکہ نے قرارداد کی شدید مخالفت کی اور برطانیہ غیر جانبدار رہا۔ لہذا کونسل  سےاسکی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔ تجویز کو چچا سام کیلئے قابل قبول بنانے کی غرض سے مسودے میں یہ تک درج کردیا گیا کہ رکنیت کے بعد بھی فلسطین کو قراردادوں پر رائے شماری کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا اور نہ فلسطین اقوام متحدہ کے مختلف اداروں جیسے سلامتی کونسل کے انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کرسکے گا۔ اسکے باجود کینہ پرور رقیب کا دل نہ پسیجہ۔ قرارداد کی منظوری پر مبارک سلامت اپنی جگہ لیکن یہ وہ بے فیض بارش ہے کہ جسکے بعد روئیدگی کا نام و نشان نہیں۔

جہاں تک ر فح  کا سوال ہے تو فضا سے بمباروں کیساتھ سرحد پر کھڑے درجنوں ٹینکوں نے گولہ باری کرکے پہلے سے کھنڈر بنی اس خیمہ بستی کو آگ کے مہیب گولے میں تبدیل کردیا ہے۔اس دوران بحیرہ روم سے برسنے والے میزائیلوں نے فلسطینی مچھیروں کی بستی مسمار کردی ۔حملے سے پہلے مصری حکومت کا اعتماد میں لیا جاچکا تھا بلکہ افواہ ہےکہ اسرائیل کے 'عرب دوست' بھی سیاسی اصطلاح میں onboardتھے۔ یہ کاروائی بھرپور تیاری کے بعد کی گئی اور امریکہ سے 17 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ ملنے کے بعد اسرائیلی کمانڈروں کو حملے کا حکم دیا گیا۔

ر فح میں انسانی ذبیحے پر صدر بائیڈن کو بہت 'تشویش' ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن CNNپر گفتگو کرتے ہوئے  جناب بائیڈن نے اعترف کیا کہ 'ہمارے فراہم کردہ بموں سے غزہ کے شہری ہلاک ہوئے ہیں'۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ امریکی صدر نے بہت صراحت کیساتھ کہا کہ اسرائیل کی حفاظت کیلئے انکے عزم میں کوئی کمی نہیں تاہم وہ  بی بی (اسرائیلی وزیراعظم) اور انکی جنگی کابینہ کو متنبہ کرچکے تھے کہ ر فح پر فوج کشی امریکہ کیلئے قابل قبول نہیں، چنانچہ اسرائیل کو رفح آپریشن اور امریکی اسلحے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا

اس سے پہلے ایک سرکاری اعلامئے میں کہا گیا تھا کہ' امریکہ نے اسرائیل کو اُن مخصوص ہتھیاروں کی منتقلی کا احتیاط سے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، جو رفح میں استعمال ہو سکتے ہیں'۔ اسرائیلی عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے 500 اور 2000پونڈ کے بموں کی نئی کھیپ روکدی ہے۔

اسلامی و عرب دنیا کا واشنگٹن نواز میڈیا،  پابندی کی خبر چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کیساتھ شایع کررہاہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 2 مئی تک روزانہ تین مال بردار جہاز آتشیں اسلحہ اسرائیل پہنچاتے رہے اور آلاتِ قتل کی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد فراہمی میں وقفہ لایا گیاہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسلحہ ذخیرہ کرنے کے اسرائیلی گوداموں پر اب جگہ باقی نہیں رہی اسلئے مزید فراہمی عارضی طور پر معطل کی گئی ہے۔

ر فح کاروائی پر تشویش کے اظہار کے ساتھ تل ابیب کو دلاسے اور یقین دہانی کا سلسلہ جاری ہے۔ جس روز صدر بائیڈن نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کرنے کا اعلان کیا اسی دن  امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا 'اسرائیلی ہم منصبوں نے ہمیں جو بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ر فح آپریشن محدود، اور اس کا مقصد حماس کی غزہ میں ہتھیاروں اور رقوم کی اسمگلنگ ختم کرنا پے

 '

خبروں پر سنسر بلکہ مکمل پابندی اسرائیلی حکمت عملی کا کلیدی جزو ہے اسلئے حملے کے چار روز مکمل ہوجانے کے باوجود ر فح میں شہری نقصانات کا کوئی اندازہ نہیں۔ خبروں کا واحد غیر جابندار ذریعہ الجزیرہ تھا جس پر پابندی لگاکر اسکے ٹرانسمیشن آلات پر اسرائیلی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ ستم ظریفی کہ مغربی دنیا تو ایک طرف مسلم صحافتی حلقوں کی جانب سے بھی اس پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔

غزہ کے معاملے پر عرب دنیا کے محتاط رویے کی بنیادی وجہ ان ممالک کی اپنی ترجیحات ہیں۔مئی کے آغاز میں یہ خبر گرم تھی کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیاں نیٹو طرز کا دفاعی معاہدہ ہونے والا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو آئرن ڈوم اور F-35جیسے حساس و جدید ترین اسلحے تک رسائی دیدی جائیگی۔ سعودی وزارت خارجہ کے ذرایع یہ تاثر دے رہے تھے کہ معاہدے پر دستخط چند دنوں کی بات ہے لیکن 5 مئی کی صبح امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان سولیون نے اپنے سعودی ہم منصب کو باور کرادیا کہ سعودی اسرائیل سفارتی تعلقات سے پہلے یہ معاہدہ ممکن نہیں جبکہ غزہ میں جاری خونریزی کے اختتام سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنا، شاہی خاندان کیلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔سعودی ولی عہد ہر قیمت پر امریکہ سے فوجی معاہدہ چاہتے ہیں۔ مملکت میں شراب خانے کھولنے کی اجازت اور لبرل ازم کی جانب پیشرفت سعودی معاشرے کو امریکہ کیلئے قابل قبول بنانے کی ایک کوشش ہے۔دفاعی معاہدہ کھٹائی میں پڑجانے کی وجہ سے ایک طرف مستضعفین پر امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کیلئے عرب دباو بڑھ گیا ہے تو دوسری جانب ر فح خونریزی پر عربوں کا رد عمل  پرجوش نہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے اسلحے پر پابندی کا 'مشکوک' اعلان سیاسی دباو کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے سینئر رکن جیسن کرو (Jason Crow) اور عسکری خدمات کمیٹی کے رکن کرس ڈولوزیو Chris Deluzioنے صدر بائیڈن کے نام خط میں امریکی صدر کو مطلع کیا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں امریکہ کی فراہم کردہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈل رہی پے۔ ان پابندیوں نے فلسطینی شہریوں کے لیے تباہی اور غزہ کے کچھ حصوں میں قحط کی صورتحال پیدا کردی ہے۔مکتوب میں امریکی صدر کو یاددلایاگیا ہے کہ غیر ملکی مدد کے باب میں امریکی قانون Foreign Assistance Act کے تحت امریکی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے والے ممالک امریکہ کی فوجی امداد کیلئے نااہل ہیں چنانچہ اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی حمایت Blank Check نہیں ہونی چاہیے اور ہم صدر بائیڈن سےتوقع کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے امریکی تعلقات پر نظر ثانی کریں گے۔خط پر دونوں مصنفین کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 86 ارکان نے دستخط کئے ہیں۔

دوسری طرف ریپبلکن پارٹی اور اسرائیل نواز عناصر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کر دینے پر سخت مشتعل ہیں۔ کانگریس کے اسپیکر مائک جانسن اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نے اس فیصلے کے خلاف قرارداد لانے کا اعلان کیاہے۔سابق صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ' Crooked (دغاباز) بائیڈن نے اسلحے کی فراہمی روک کر اسرائیل کی پشت میں چھرا گھونپ دیا ہے'

امریکی جامعات میں تشدد، گرفتاری اور اخراج کے باوجود اہلِ غزہ سے یکجہتی کی تحریک جاری ہے۔ اکثر اداروں میں احتجاجی خیمے اکھاڑدئے گئے ہیں اور کئی جگہ پولیس کی نگرانی میں اسرائیل نواز عناصر کی غنڈہ گردی کا سلسلہ شووع ہوگیاہے۔ موقر ترین ادارے MITمیں احتجاجی طلبہ کو منتشر کرنے کے بعد اسی مقام ہر اسرائیل کا بہت بڑا پرچم لہرادایا گیا۔ انتہائی شرمناک صورت جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)میں پیش آئی جہاں بیرونی عناصر نے  اساتذہ کے سامنے فحش گالیوں پر مشتمل پلے کارڈ لہرائے۔ یہ دیکھ کر جب چند پروفیسروں کی جبینیں شکن آلود ہوئیں تو انکے ساتھیوں نے سمجھایا کہ خاموش رہنا بہتر ہے ورنہ Antisemitism کے مرتکب قرار پاوگے۔ امریکی اہل دانش کتنے مجبور ہوگئے ہیں۔

جامعات کی سربراہان کی گوشمالی کے بعد امریکی کانگریس کی مجلس قائمہ برائے تعلیم نے ہائی اسکولوں کے حکام کو طلب کرنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے نیوریاک، برکلے (کیلی فورنیا) اور ریاست میری لینڈ کے منٹگمری اسکول بورڈ کے سربراہان کمیٹی کے سامنے طب کرلئے۔ اپنے ابتدائی بیان میں نیویارک پبلک اسکول بورڈ کے چانسلرڈیوڈ بینکس نے کہا کہ ہمارے استاتذہ نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ ہم کلاس میں کسی خاص مذہب کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن عالمی سطح پر ہونے والی کشکمش کی بازگشت کو روکنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں۔ گفتگو مکمل ہونے سے پہلے ہی فلورڈا سے رکن کانگریس ہارون بین (Aaron Bean)چلاے 'اسکا  مطلب ہوا کہ آپ کو نفرت کی اشاعت پر کوئی تشویش نہیں۔اس احمقانہ منطق کا چانسلر صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

جامعہ جارج واشنگٹن میں مظاہرے پر دارالحکومت کی رئیسِ شہر محترمہ موریل باوزر Muriel Bowser، کی شامت آگئی۔موصوفہ سے کانگریس کی کمیٹی برائے نگرانی و احتساب (Oversight & Accountability) نے سوال کیا ہے کہ اسرائیل کے مخالفین سے نرمی کیوں برتی گئی؟

جامعات کے گرد شکنجہ کسنے کے ساتھ امریکہ بھر میں سیاسی محاذ پر بھی اسلامو فوبیا عروج ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخاات میں کچھ مسلمانوں کے منتخب ہونے پر ریپبلکن پارٹی کی رکن کانگریس محترمہ لورین بوبرٹ نے ٹویٹر پر لکھا 'برطانیہ میں مسلم انتہا پسند سیاسی اقتدار سنبھال رہے ہیں۔ہم اسے یہاں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ امریکہ کیلئے خوفناک ہوگا، ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ یہاں بھی ایسا ہونے والا ہے۔(برطانیہ کے حالیہ بلدیاتی انتخاب میں) کونسلروں نے منتخب ہونے پر اپنی فتح کا جشن منانے کے لئے "اللہ اکبر" کے نعرے لگائے۔ اگر ہم اپنی سرحدوں کے بارے میں جلد سنجیدہ نہ ہوئے تو جو کچھ برطانیہ میں ہورہا ہے وہ بہت جلد یہاں ہوگا، ہمارے تصور سے  بھی بہت پہلے۔

اسی خدشے کا اظہار ٹیکسس سے رکن کانگریس جناب چِپ رائے Chip Roy نے ایوان میں تقریر فرماتے ہوئے کیا۔ موصوف خوفزدہ لہجے  میں بولے 'برطانیہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہماری آنکھوں کے سامنے نظر رہا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ شرعی قوانین نہ نافذ کردیں، کیا شریعت امریکی عوام پر بھی مسلط کی جائیگی؟ مجھے ان لوگوں کے بارے میں سخت خدشات ہیں جو اسرائیل کی تباہی چاہتے ہیں۔جو 7 اکتوبر پر خوش تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو برطانیہ میں منتخب ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ عناصر امریکہ میں بھی ہیں'

معاملہ امریکہ تک محدود نہیں بمبئی میں وڑھیاوار اسکول کی پرنسپل،  محترمہ پروین شیخ، سوشل میڈیا پر فلسطن کے حق میں ایک پوسٹ likeکرنے پر معطل کرد  ی گئیں۔پروین شیخ صاحبہ اس انتہائی موقر اسکول میں 12 سال سے پرنسپل تھیں۔ محترمہ نے خود کچھ نہیں لکھا،  بس 2 مئی کو اپنے ذاتی اکاونٹ سے ایک پوسٹ کو لائک کیا تھا جو مبینہ طور پر فلسطینیوں کے حق میں تھی۔اسکول انتظامیہ نے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ پروین شیخ کی سوشل میڈیا سرگرمیاں تعلیمی ادارے کی اقدار سے ہم آہنگ نہیں۔

ر فح کی صورتحال ہر گزرتےلمحے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔رفح گیٹ پر قبضے کے بعد ان بیکسوں کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ غزہ جانے والے امدادی کارکنوں اور طبی عملے کے نکلنے کا راستہ بھی مسدود ہے۔ جب تک رفح کا راستہ کھلا تھا، مصری فوج کو نذرانہ دیکر ہی سہی تھوڑی بہت غذا اور دوا پٹی تک پہنچ رہی تھی۔ اب سارے راستے بند ہیں اور بھوک کے ہتھیار کو اسرائیل بیرحمی سے استعمال کررہا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسیشل کراچی 17 مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 17 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 17 مئی 2024

ہفت روزہ رہبر 19 مئی2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو