عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
سلمان رشدی بھی فلسطینی ریاست کے مخالف
عالمی عدالت انصاف (ICJ)نے ر فح میں فوری جنگ بندی کا
حکم دیدیا۔دو ہفتہ پہلے جنوبی افریقہ نے عدالت کو دہائی دی تھی کہ اسرائیلی حملے
سے وہاں پناہ لئے ہوئے 12 لاکھ شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے لہٰذا فوری طور پر
عبوری حکم جاری کیا جائے۔ جمعہ 24 مئی کو جسٹس نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل
کو حکم دیا کہ وہ رفح میں فوجی آپریشن فوراً
بند کردے۔ تل ابیب کو عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کیلئے ایک ماہ کی
مہلت دی گئی ہے۔فاضل عدالت نے کہا کہ رفح میں اسرائیلی اقدامات سے حیاتِ انسانی کے
لئے درکار بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے اور فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔فوجی
کاروائی جاری رہنے سے ایک خوفناک انسانی سانحہ جنم
لے سکتا ہے۔فیصلے میں بہت صراحت اور غیر مبہم انداز میں اسرائیل سے کہا گیا
ہے کہ وہ بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کو غزہ جانے کیلئے سہولت فراہم کرے۔عبوری حکم میں 28مارچ کو جاری ہونے والے حکم کا اعادہ کرتے ہوئے پٹی پرامداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں
ختم کرنے کی ہدائت کی گئی ہے۔یہ فیصلہ پندرہ رکنی بینچ کے 13 ججوں کی حمائت سے جاری ہوا لیکن درحقیقت صرف یوگنیڈا
کی جسٹس Julia Sebutindeنے مخالفت کی اسلئے کہ مخالفت کرنے والے
دوسرے جج کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ آئی سی جے مدعی اور مدعا علیہ کے ایک ایک جج کو
عدالت کی معاونت کیلئے رکھتی ہے۔
اسرائیل اور اسکے اتحادی، جو عالمی
فوجداری عدالت (ICC)کے مستغیث (Prosecutor)کریم خان کی جانب سے
وزیراعظم نیتھن یاہو، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری جاری کرنے کی
درخواست پر پہلے ہی حاصے مشتعل تھے ،اس حکم پر پھٹ پڑے۔فیصلے کو یہود دشمن (Antisemitic) قرار دیتے ہوئے قدامت پسند حکمران اتحاد کے ترجمان اتامر بن گوئر نے تبصرے کے
طور پر اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان کا یہ قول نقل کیا کہ 'ہمارا مستقبل اس
بات پر منحصر نہیں ہے کہ Gentiles(غیر
یہودی) کیا کہیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ
یہودی کیا کریں گے'۔
غزہ کی پٹی کو دنیا سے ملانے والے راستے معبر
ر فح (Rafah Crossing)پر
اسرائیلی قبضے کی وجہ سے غذا اور دوا کی فراہمی منقطع ہے۔ہسپتال اندھیروں میں
ڈوبےاور بچھی کھچی ایمبیولینس ناکارہ ہوچکی ہیں۔اسرائیل کے 'دباو' پر جنرل السیسی نے
پاکستان کی الخدمت سمیت مسلم دنیا سے غزہ کیلئے مصر آنے والی مدد اسرائیل کے حوالے
کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے، یعنی افریقہ و ایشیا کے غریب مسلمانوں نے اپنا پیٹ
کاٹ کر جو امدادی سامان بھیجا ہے وہ اب سرائیل میں تقسیم ہوگا۔جنرل صاحب کی'فراخدلانہ'پیشکش
پر مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود
عباس نہال ہیں اور صدر بائیڈن نے مصر کا پرجوش شکریہ ادا کیا ہے۔
امریکہ میں طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی جاری ہے۔ جامعہ ہارورڈ نے
مظاہرہ کرنے والے 13 طلبہ کو اسناد کا
اجرا ایک سال کیلئے موخر کردیاہے جن میں زیادہ تر پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں جو چھ
سات سال محنت کرکے سند کے حقدار ٹہرے تھے۔سزاپانے والوں میں Rhodes scholar پاکستانی
طالب علم اسمر اسرار صفی اور ہندوستان کی شردھا جوشی بھی شامل ہیں۔اس فیصلے کے
خلاف اساتذہ کی منظور شدہ قرارداد جامعہ کے گورننگ بورڈ نے مسترد کردی۔ اسرائیلی نواز عناصر، طلبہ کیساتھ ہارورڈ کے اساتذہ پر بھی Antisemiticہونے کا الزام لگارہے کہ احتجاجی مظاہرہے میں Harvard Out of
Occupied Palestine کے نعرے لگائے گئے، یعنی اسرائیل کو'مقبوضہ
فلسطین' کہا جارہا ہے۔
جبرو تشدد کے ذریعے امریکی
جامعات میں طلبہ کے احتجاجی کیمپ اکھاڑدئے گئے لیکن اب اسرائیل کے پارکوں اور سڑک
کنارے خیمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔غزہ سے متصل علاقوں کے 2 لاکھ افراد کو اسرائیل
فوج نے وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔ کچھ عرصہ انھیں ہوٹلوں میں رکھا گیا لیکن اب
انکا خرچ بند ہے چنانچہ یہ لوگ امریکی طلبہ کی طرح بطور احتجاج خیمہ زن ہوگئے۔
امریکی اہل دانش کی طرح اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی بیچینی کے
آثار ہیں۔ کزشتہ ہفتہ اسرائیلی جامعات کے 1400 سے زیادہ اساتذہ نے وزیراعظم کے نام
ایک کھلے خط میں لکھاکہ 'ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ
کو بلا تاخیر ختم کرے اور یرغمالیوں کی فوری واپسی کو یقینی بنائے کہ فوری جنگ
بندی اخلاقی تقاضہ اور اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق ہے'۔
حکومتی حلقے بھی عسکری حکمت پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اسرائیلی
سلامتی کونسل کے سینئر رکن Dr. Yoram Hemo نے مایوس ہوکر اپنے
عہدے سے استعفٰی دیدیا، وزیراعظم کے نام خط میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا'موجودہ طریقہ
کار جاری رکھ کر مزاحمت کاروں کو شکست دینا ممکن نہیں بلکہ مجھے یہ ناممکن لگتا
ہے۔اصل ہدف کے علاوہ متبادل کامیابیاں حاصل کی جاسکتی تھیں لیکن اسکے امکانات بھی
اب ختم ہوگئے۔ حکومت آپریشن جاری رکھنا چاہتی ہے, خاکم بدہن انجام تصور سے بھی
بدتر ہوسکتا ہے'
سفارتی محاذ پر فلسطینیوں کو گزشتہ ہفتہ بڑی
کامیابی نصیب ہوئی جب ہسپانیہ، ناروے اور آئرلینڈ کے وزرائے اعظم نے مشترکہ بیان میں اعلان کیا
کہ یہ ممالک 28 مئی سے فلسطین کو خود مختار ریاست تسلیم کرلینگے۔بیان میں کہاگیا
ہے کہ فلسطین کو تسلیم کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن نہیں قائم ہوسکتا اورجتنے
زیادہ ممالک جتنا جلدفلسطین کو تسلیم کرینگے اسی تیزی سے علاقے میں امن بحال ہوگا۔
دوسرے دن اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے آئرلینڈ کے وزیرخارجہ مائیکل مارٹن نے کہا کہ
انکا ملک ریاست فلسطین کو1967 کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کررہاہے، یعنی غزہ، مغربی
کنارہ اور دو یروشلم۔ انکا کہنا تھا کہ مغربی یروشلم (دیوارِ گریہ) اسرائیل کا اور
مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
اس فیصلے پر اسرائیل میں سخت اشتعال ہے۔ وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے
اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی قراردیتے ہوئے تینوں ممالک سے سفیروں کو مشورے کیلئے
واپس بلالیا۔ ہسپانیہ کی وزیر محنت و معاشیات اور نائب وزیراعظم دوم محترمہ
جولاندا دیز(Yolanda Díaz)نےایک جلسے میں From the river to the sea, Palestine will be Freeکا نعرہ
لگاکر غصے کی آگ پر تیل چھڑک دیا۔جب کسی صحافی نے اس 'آمد کی شانِ نزول' پوچھی تو
موصوفہ نے کندھے اچکاتے ہوئے شانِ بےنیازی سے فرمایا' اجکل ہر شخص یہی کہہ رہا ہے'
یعنی ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ معاملہ یہاں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا، اسی شام تل ابیب کے ہسپانوی سفارتخانے کے باہر سلیم الفطرت
اسرائیلیوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے غدر کی ابتدا کردی۔ سفارتی و سیاسی تنہائی اپنی
جگہ، اسرائیل کے نظریاتی حامی اب بھی پرجوش ہیں۔ ایک عرصے سےگوشہ تنہائی میں رہنے
والے دانشور سلمان رشدی نے جرمن رسالے Bildکو ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے 'متوقع قیام' پر
سخت تشویش کا اظہار کیا۔ ہندوستان نژاد سلمان رشدی کا خیال ہے کہ 'اگر
فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہ تنگ نظر طالبانی ریاست سے مختلف نہیں ہوگی اور جو
لوگ آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہے ہیں وہ آزاد ریاست نہیں انتہاپسند جنونی حکومت
قائم کرنا چاہتے ہیں'
اپنے تین اتحادیوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم
کرنے کے فیصلے پرصدر بائیڈن نے بہت محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔قصرمرمریں کے
ترجمان نے کہا کہ 'صدر بائیڈن ہمیشہ سے دو ریاستی حل کے پرجوش حامی رہے ہیں، لیکن
انکا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے
ذریعے ہونا چاہیے، مختلف ممالک کی کیجانب سے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم
کرنا مسئلے کا حل نہیں'۔ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں صدر بائیڈن تیزی سے غیر مقبول ہورہے ہیں یعنی
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، امریکہ کی
اُن چھ ریاستوں میں جہاں اس بار گھمسان کا معرکہ درپیش ہے، ڈانلڈ ٹرمپ آگے لگ رہے
ہیں۔ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیوادا، وسکونسن اور پنسلوانیہ کی ریاستوں میں
مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ریاستیں جیت
کر جناب بائیڈن نے 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلئے تھے۔ اگر اس بار ان میں سے دو تین
ریاست بھی وہ ہارگئے تو صدر صاحب کو قصرِ
مرمریں سے بوریا بستر لپیٹنا ہوگا یعنی بے گناہوں کے لہو سے جنم لینے والے تالاب
میں بائیڈن سیاست غرق ہوجائیگی۔
غزہ خونریزی کا دباو ڈانلڈ ٹرمپ بھی محسوس کررہے ہیں۔ جمعہ 24 مئی
کو جب سابق صدر نیویارک کے علاقے برونکس میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کررہے تھے
تو وہاں موجود اسرائیل نواز افراد نے Bring them home کے نعرے لگائے۔کئی
بار جناب ٹرمپ نے نظرانداز کرتے ہوئے پُر اعتماد لہجے میں sureکہا لیکن
بار بار کی مداخلت سے جنجھلا کر اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔"میرا خیال
ہے جن کا آپ اور ہر کوئی انتظار کر رہا ہے، ان میں سے بہت سے مر چکے ہیں،کچھ شائد
زندہ ہوں لیکن اکثر مر چکے ہیں'
غزہ کو ملیا میٹ کردینے کے ساتھ آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دینے کی
کاروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ الجزیرہ پر پابندی کے بعد گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کے دفتر
پر چڑھ دوڑی اور نشریات بند کرکے کیمرے، کمپیوٹر اور دوسرے آلات چھین لئے۔اسرائیلی
وزیراطلاعات سلام کرہی کا کہنا ہے کہ اے پی میدان جنگ کی روداد براہ راست دکھا کر
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہا تھا۔دوسری طرف اسرائیل کے فوجی شرمناک تصاویر اور
بصری تراشے خود جاری کررہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے ایک تصویر شایع کی ہے جس میں جامعہ
غزہ پر قبضے کےبعد لائبریری کی کتابوں کو دیاسلائی دکھاکر ایک دلاور کتاب ُپڑھتا
نظر آرہا ہے۔صدیوں قبل بغداد پر قبضے کے بعد سب سے پہلے وہاں کا مرکزی کتب خانہ
جلایا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ نے جب کتابیں پڑھنے کی ہمت کرلی تو یہ وحشی،
انسانیت کا فخر اور تہذیب و اخلاق کے استاد بن گئے۔
صحافت کا گلا گھونٹنے اور جھوٹے پروپیگنڈے کی ایک عبرتناک مثال پر
گفتگو کا اختتام۔ سات اکتوبر کی کاروائی میں اسرائیلی فوج کے دوسرے افسر وں کےساتھ
غزہ بریگیڈ کے کمانڈر کرنل آصف حمامی (Assaf Hamami)کو مزاحمت کاروں نے
جنگی قیدی بنالیا۔لیکن اسرائیلی فوج نے انکے اہل خانہ کو مطلع کیا کہ کرنل صاحب
داد شجاعت دیتے ہوئے “شہید “ ہوگئے۔ انکے لئےشجاعت کے اعلیٰ اعزاز کی سفارش ہوئی
اور دسمبر میں موصوف کی تدفین بھی پورے عسکری تزک و احتشام سے کردی گئی۔ گزشتہ ہفتےامریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مزاحمت کاروں کے
حوالے سے بتایا کہ کرنل صاحب نے پہلے ہی ہلے میں ہتھیار ڈال کر خود کو مزاحمت
کاروں کے حوالے کردیا تھا اور موصوف غزہ میں قید ہیں۔ دعوے کے ثبوت میں مستضعفین نے بصری تراشہ بھی جاری کردیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 31 مئی 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 31 مئی 2024
روزنامہ امت کراچی 31 مئی 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 جون 2024