Friday, July 25, 2025

 

شام پر اسرائیلی پنجہ: بفر زون کی آڑ میں توسیع پسندی کی نئی قسط
السویدا سے دمشق تک غیر فوجی پٹی کا اعلان

دروزوں کے تحفظ کی آڑ میں جنوبی شام پر قبضہ

سات دسمبر 2024 کو شام میں حالیہ پیش رفت سے ایک روز قبل، اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ (Yoav Gallant) کی زیر صدارت عسکری مشیروں کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس کے بعد تل ابیب نے اپنے تحفظات واشنگٹن، مصر اور خلیجی 'دوستوں' تک پہنچا دیے۔ اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل کیلئے اب شام کی صورتحال "نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن" والی بن چکی ہے، کیونکہ شام میں ایرانی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد کوئی نئی اسلامی قوت سر اٹھا سکتی ہے۔

الاسد حکومت کے زوال کے فوری بعد اسرائیل نے شام پر شدید فضائی اور بحری حملے شروع کر دیے۔ اسرائیلی اعلامیے کے مطابق  48 گھنٹوں کے اندر 450 حملوں میں شامی فوج کے 80 فیصد اثاثے تباہ کر دیے گئے، جن میں درعا کا مرکزی اسلحہ ڈپو، المِزۃ ائیربیس، السویدا میں الخلخلہ فوجی اڈہ اور ترک سرحد کے قریب قامشیلی ایئرپورٹ شامل ہیں۔ شامی بحریہ کی تنصیبات بھی مٹی کا ڈھیر بنادی گئیں۔ اسرائیلی فوج نے جبل حرمون (جبل الشیخ) پر بھی قبضہ کرلیا جو شام و لبنان کی سرحد پر واقع ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے قبضے کو جائز قرار دینے کیلئے ایران نواز لبنانی گروہوں کی آمد روکنے کا بہانہ بنایا اور دمشق کے جنوب میں 25 کلومیٹر دور مورچے لگا لیے۔

مئی میں صدر ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی میزبانی میں ٹرمپ کی شام کے نئے صدر احمد الشرع سے ملاقات ہوئی۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ترک صدر ایردوان بھی ویڈیو لنک پر شریک تھے۔ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے احمد الشرع کو "nice guy" قرار دیا اور جلد ہی شام پر سےامریکی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نئی شامی حکومت کے "مثبت" طرزِ عمل کی تعریف کی۔لیکن اسرائیلی جارحیت کم نہ ہوئی۔ اسرائیل دریائے لطانی تک لبنانی سرحد پر بفر زون قائم کرچکا ہے، اب وہ دروز اقلیت کے تحفظ کو جواز بناکر دمشق کے جنوب میں ایسا ہی غیر عسکری بفر زون بنانا چاہتا ہے۔

اپریل کے اختتام پر السویدہ میں دروزوں نے اپنے حقوق کیلئے مظاہرے کئے جس پر اسرائیلیوں کے مطابق مسلح بدووں نے حملہ کیا، جس میں دونوں جانب شدید جانی نقصان ہوا۔ ردِعمل میں اسرائیل نے یکم مئی کو دمشق کے صدارتی محل اور ملحقہ فوجی اڈے پر بمباری کی۔ اس کے بعد دروزوں کے روحانی پیشوا شیخ موقف طریف نے نیتن یاہو سے ملاقات کرکے شکریہ ادا کیا۔ شامی حکومت کی کوششوں سے امن بحال ہوا، لیکن جولائی میں تصادم پھر بھڑک اٹھا۔ شامی حکام کے مطابق یہ کشیدگی اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی سازش ہے۔

بارہ اور تیرہ  مئی کو شدید جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ امن قائم کرنے کیلئے شامی فوج نے علاقے میں مداخلت کی مگر اسرائیلی فضائیہ نے شامی ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور راکٹ لانچرز کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا کہ یہ حملے سیاسی قیادت کی ہدایت پر کیے گئے تاکہ دروز برادری کا تحفظ اور جنوبی شام کی غیر فوجی حیثیت برقرار رکھی جا سکے۔

اس کے بعد اسرائیل نے پورے شام میں فضائی حملے کیے جن میں شامی فوج کا GHQ اور صدارتی محل بھی شامل تھا۔ صدر ٹرمپ نے روایتی بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کی اور دمشق نے السویدا سے فوجی انخلا کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد بدو قبائل پر ظلم کا آغاز ہوا۔ ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی۔ 80 ہزار بدو بے گھر ہوکر دمشق کی سمت دھکیل دیے گئے، اور شام میں غربِ اردن جیسے مناظر دکھائی دینے لگے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ دمشق کے جنوب میں گولان ہائٹس سے جبل دروز تک کا علاقہ غیر فوجی ہوگا۔ ان کے مطابق:

  • گولان ہائٹس: 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام سے اسرائیل نے قبضہ کیا۔ ٹرمپ دور میں امریکہ نے اس الحاق کو تسلیم کرلیا۔
  • UNDOF زون: 1974 میں اقوام متحدہ نے شام-اسرائیل سرحد پر United Nations Disengagement Observer Force کے تحت غیر فوجی زون قائم کیا۔ یہ 80 کلومیٹر طویل اور 0.5 سے 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔
  • جبل دروز (السویدا): جنوبی شام کا دروز اکثریتی علاقہ جسے جبل العرب بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل اسے محفوظ زون میں شامل کرنا چاہتا ہے۔

اٹھارہ فروری کو انقرہ میں امریکی سفیر ٹام براک نے اعلان کیا کہ امریکہ کی کوششوں سے اسرائیل اور شام السویدا میں جنگ بندی پر متفق ہوچکے ہیں اور اسرائیل کو وہاں شامی فوج کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں۔ بظاہرالسویدہ میں حالات پرسکون اور شامی فوج کے قابو میں نظر آرہےہیں لیکن غزہ نسل کشی، غربِ اردن و گولان پر غاصبانہ قبضے، لبنان میں اشتعال انگیزی، اور اب شام میں مداخلت جیسے واقعات کے تناظر میں خطے کا امن ہمیشہ کی طرح اب بھی مخدوش لگ رہا ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 جولائی 2025


Thursday, July 17, 2025

 

غزہ: فاقہ کشی اور گولی کے بیچ موت کی منڈی

پسپانوی شہر فالنسیا کے موسیقی میلے میں 'فری فلسطین' کی دھُن  پر شائقین کا دھمال

غربِ اردن میں CNNکے نمائندے پر دہشت گردوں کا حملہ

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنا دورہ امریکہ مکمل کرکے وطن واپس جا چکے۔ ان کی آمد سے پہلے صدر ٹرمپ کے سخت بیانات سے یہ تاثر مل ریا تھا کہ گویا وہ اسرائیلی وزیراعظم پر دباؤ ڈال کر انھیں معقولیت پر مجبور کریں گے، مگر نتیجہ امریکی سیاست کے ماہرین کی توقعات کے عین مطابق نکلا۔ امریکی سیاستدانوں کے لیے اسرائیل کی مخالفت ان کی سیاسی عاقبت کے لیے مہلک ہے۔ پہلے ہی اعلان کر دیا گیا تھا کہ ملاقات کے بعد نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ ہوگا نہ پریس کانفرنس، جس سے واضح تھا کہ نیتن یاہو اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے امریکی صدر سے تعاون اور غیرمشروط مدد کی ضمانت لینے آئے ہیں۔

جہاں تک جنگ بندی یا امن معاہدے کا تعلق ہے، مزاحمت کار مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا پر زور دے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے 60 دن بعد دوبارہ جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کاروں اور مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ یعنی عارضی جنگ بندی کا مقصد صرف قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر بھی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اور وقت ہمارے حق میں ہیں، قیدی ہمارے پاس ہیں، لہٰذا معاہدہ 'معقولیت' کی بنیاد پر ہوگا۔

قیدیوں کے لواحقین کے سخت دباؤ کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں لیکن یہ بھی محض وقت گزاری محسوس ہوتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران 10 جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اسے Map of Partial Redeployment (MOPR) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع رفح اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے محور موراغ (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی۔ نئے MOPR میں غزہ کی تمام جانب 3 سے 4 کلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا اور بیت حانون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرارة سمیت 60 فیصد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انھیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جائے۔

ر فح کے ملبے پر فلسطینیوں کیلئے فلاحی جنت

اس حوالے سے اسرائیلی وزیر دفاع، کاٹز رفح کے ملبے پر Humanitarian City کے نام سے ایک "فلاحی جنت" تعمیر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جہاں پہلے تو ان سات لاکھ بے گھروں کو 'آباد' کیا جائے گا جو ساحلی علاقے المَواسی میں خیمے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس "انسانی شہر" میں نہ بجلی و گیس ہوگی، نہ واپسی کی اجازت۔ آب نوشی کے لیے رفاحی ادارے سبیلیں سجا دیں گے اور رفتہ رفتہ غزہ کے 25 لاکھ نفوس اس ملبے پر کھڑے امریکی و اسرائیلی طرز تعمیر کے حسین شاہکار کی زینت بن جائیں گے۔

اس بستی کے بارے میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم یہوداالمرٹ کا کہنا ہے کہ "غزہ میں فلاحی شہر نہیں، اذیتی کیمپ (Concertation Camp)بن رہاہے۔اگر فلسطینیوں کو اس نئے نام نہاد فلاحی شہر میں دھکیلا گیا تو یہ نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) ہوگی۔ یہ تاثر نہیں بلکہ منصوبے کی لازمی تعبیر ہے۔" حوالہ گارجین لندن

مزاحمت کاروں نے MOPR مسترد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اہل غزہ کو یہ ضمانت بھی مطلوب ہے کہ عارضی جنگ بندی کا مقصد قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی ہو۔ اسی بنا پر مزاحمت کار چاہتے ہیں کہ 18 مارچ 2025 کو دوبارہ شروع کی گئی اسرائیلی جنگ سے پہلے جو پوزیشنیں تھیں، اسرائیلی فوج ان تک واپس چلی جائے۔

جہاں تک اسرائیلی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کی درست تعداد صرف مزاحمت کاروں کو معلوم ہے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اسرائیلی تخمینوں کے مطابق 20 زندہ قیدی اور 30 اسرائیلی لاشیں اہل غزہ کے قبضے میں ہیں جن کا تبادلہ اسرائیلی جیلوں میں بند 10,800 فلسطینیوں سے ہونا ہے۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں نیتن یاہو کو شرمندگی اٹھانی پڑی جب واشنگٹن میں قیدیوں کے لواحقین نے ان سے پوچھا کہ اگر معاہدہ ہو گیا تو پہلے کون رہا ہوگا؟ اس پر نیتن یاہو نے اعتراف کیا کہ مزاحمت کار رہائی پانے والوں کی فہرست مرتب کرتے ہیں، ہمارے پاس کوئی فہرست نہیں ہے۔

امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ترجمان روینا شم داسانی کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک تقریباً 800 فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر قتل امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF)" کے امدادی مراکز کے آس پاس ہوئے۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام مراکز پر بھی شکار جاری رہا اور 183 فلسطینی ان امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ فلسطینی راستوں کی پابندی نہ کرنے اور عسکری علاقوں میں داخل ہونے کی بنا پر 'حادثات' کا شکار ہو رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی "نو-گو زون" میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فوراً گولی مار دی جائے۔ فوجی کے مطابق اس کو کہا گیا کہ "جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو۔" اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ہآریٹز (Haaretz) کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دئیے ہیں۔

اس قسم کے واقعات پر اب سلیم الفطرت اسرائیلی بھی ردعمل دے رہے ہیں۔ پانچ اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی صحافی Israel Frey نے ٹویٹ کیا کہ "دنیا آج ان پانچ نوجوانوں کے بغیر بہتر جگہ ہے جنہوں نے انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں حصہ لیا۔ (یہ بہتر ہے) غزہ کے اس بچے کے لیے جس کا بغیر بے ہوشی کے آپریشن ہو رہا ہے، اس بچی کے لیے جو بھوک سے مر رہی ہے، اور اس خاندان کے لیے جو بمباری کے دوران خیمے میں چھپا بیٹھا ہے۔ اسرائیلی ماؤ! اپنے بیٹوں کو جنگی مجرم کی حیثیت سے تابوت میں وصول مت کرو، ظلم کی سہولت کاری سے انکار کر دو!" اسرائیل فرے کو اس جرات رندانہ پر گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری جانب غرب اردن سے سینئر فلسطینی صحافی، ناصر اللحام کو الدوحہ، بیت لحم کے قریب ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ناصر پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ پر امریکہ کی تادیبی پابندیاں

نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے چچا سام بدستور پرعزم ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو "نسل کشی" کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھہرانے کے 'جرم' میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ (Special Rapporteur) محترمہ فرانچیسکا البانیز (Francesca Albanese) پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'اسرائیل اور امریکا، دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔' البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے پہلے جب غزہ نسل کشی تحقیقات کے نتیجے میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی قیادت کے خلاف وارنٹ جاری کیے، تو انصاف کی راہ میں معاونت کے بجائے ٹرمپ انتظامیہ نے ICC کی چار خواتین ججوں اور چیف پراسیکیوٹر پر تادیبی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

البانیز صاحبہ کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گوگل کے شریک بانی، سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو "کھلی اور فاش سام دشمنی" (Transparently Antisemitic) قرار دے کر سخت تنقید کی۔ رویوں اور طرز عمل کی اصلاح کے بجائے نسل کشی کی مذمت کو سام دشمنی قرار دینا شرمناک ہے۔

ہسپانیہ کے موسیقی میلے میں 'فری فلسطین' کی دھُن  پر شائقین کا دھمال

دوسری طرف نسل کشی کےخلاف عوامی جذبات میں بھی شدت آرہی ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں ہونے والا انگلستان کاGlastonbury  رقص و موسیقی میلہ، اسرائیلی فوج مردہ بعد کے نعروں سے گونج اٹھا تھا توگزشتہ ہفتے ہسپانوی شہر فالنسیا (Valencia)کے موسیقی میلے میں اسوقت ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی جب لاطینی گلوکار اور ریپ آرٹسٹ ریزیڈینتے (Residente) فسلطین کا پرچم تھامےاسٹیج پر آئے۔ انکے ہزاروں شایقین نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے فری فری فلسطین! کی دھن پر ناچنا شروع یا یوں کہئے کہ سازوں کی لئے حق کی صدا میں تبدیل ہوگئی۔

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

دنیا کے انصاف پسند لوگ اہل غزہ کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں اور 13 جولائی کو اٹلی کے شہر سیراکوس (Syracuse, Sicily) کی بندرگاہ سے انسانی امداد سے لدی ایک اور کشتی غزہ کے لیے روانہ ہوگئی۔ اس مشن کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا ہے۔حنظلہ‘ (Handala) نامی یہ کشتی، ماضی میں روانہ کی جانے والی ’فریڈم فلوٹیلا‘ جیسی عالمی کاوشوں کی طرز پر نکالی گئی ہے، جسکا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کی طرف مبذول کروانا اور اسرائیلی پابندیوں کو توڑنا ہے۔اس کشتتی پر فرانس کی ایک سیاسی جماعت کی سربراہ، فرانسیسی رکن پارلیمان،مہاجرین کے حقوق کی جرمن کارکن یاسمین اکَر ،امریکہ کے مزدور رہنما، اداکار جیکب برگر اور انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ وکیل فرینک رومانو (Frank Romano)  سمیت مختلف ممالک کے سول سوسائٹی کارکن، انسانی حقوق کے علمبردار اور امدادی تنظیموں کے 15 نمائندے شریک ہیں۔

سفر کے آغاز پر ارکان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے غزہ پہنچیں گے، چاہے اسرائیل طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرے۔اسرائیل 2007ء سے غزہ کی مکمل بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کیے ہوئے ہے۔ اس سے قبل کئی امدادی قافلے غزہ کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے معروف 2010ء میں ترکیہ سے روانہ ہونے والی ’مرمرہ کشتی‘ ہے، جو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنی تھی اور اس میں دس ترک رضاکار شہید ہو گئے تھے۔مرمرہ پر پاکستان کے معروف صحافی سید طلعت حسین بھی سوار تھے۔حال ہی میں غزہ کی طرف جانے والی ’میدلین‘ نامی کشتی کو بھی اسرائیلی بحریہ نے راستے میں روک کر اغوا کر لیا تھا اور اسے اشدود کی بندرگاہ پر لے جایا گیا۔

غربِ اردن لہو لہو

غرب اردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی بہیمانہ کارروائی جاری ہے۔ 11 جولائی کو رام اللہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل 23 سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کر دیا۔ فلسطینی شہری غرب اردن میں خربت التل کی طرف پرامن احتجاج کے لیے جا رہے تھے جہاں ایک نئی غیرقانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں دہشت گردوں نے انہیں روک کر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کم از کم 10 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے ایک کو گاڑی سے کچلا گیا۔ دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ واقعے سے آگاہ ہیں اور فوج کو روانہ کیا گیا ہے، لیکن حسب معمول کسی آبادکار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ جب اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے CNNکے سینئیر صحافی جیرمی ڈائمنڈ وہاں پہنچے تو قبضہ گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔انکی گاڑی کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ خوش قسمتی سے موصوف محفوظ ہے۔اسرائیل کے پرجوش حامی ڈائمنڈ صاحب نے بلبلاتے ہوئے فرمایا "یہ صرف ایک جھلک ہے اس حقیقت کی،یعنی قبضہ گردوں کی جارحیت  جس کا سامنا مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو ہر روز کرنا پڑتا ہے۔"

غرب اردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوح مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ دہشت گردوں نے اسی دن یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگادی۔پانچویں صدی کا یہ کلیسہ ایک تاریخی اثاثہ ہے اور اس قبرستان میں حضرت مسیح کے خلفا اور بہت سے بزرگ آرام فررہے ہیں۔

آخر میں UNRWA کے سربراہ فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ:

 "غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکتِ جرم ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ ہمارے اصول، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمل کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریک ہوں گے۔"

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 جولائی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 جولائی 2025

روزنامہ امت کراچی 18 جولائی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 جولائی 2025


Thursday, July 10, 2025

 

واشنگٹن میں چوٹی ملاقات اور غزہ کا غیر یقینی منظرنامہ

جنگ بندی یا نئی چال؟

غزہ سے شہریوں کے انخلا پر نیتن یاہو اور ٹرمپ میں اتفاق

غذاکی کمی یا malnutrition سے غزہ کا ہر بچہ متاثر ہے

فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے چار ہفتوں میں 613فلسطینی جاں بحق

اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند اورتجارتی تعلقات منقطع کر دئے جائیں۔ اقوام متحدہ

ایک طبی ماہر اور ایک صحافی کا قتل

اسرائیلی وزیراعظم آجکل امریکہ میں ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کا حکم دینے کیلئے صدر ٹرمپ نے انھیں یہاں طلب کیا ہے ۔ یکم جولائی کو واشنگٹن سے فلوریڈا جاتے ہوئے انھوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے دورۂ واشنگٹن پر آنے والے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے غزہ میں جنگ کے خاتمے پر "بہت سخت مؤقف" اختیار کریں گے۔ اس سے ایک دن پہلے امریکی صدر نے پیشکش کی تھی کہ اگر مزاحمت کار اگلے 60 دنوں میں 10 قیدی اور 18 لاشیں اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائیں، تو وہ مستقل امن کے لیے ذاتی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔یکم جولائی کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر لکھا:"دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران ہم تمام فریقین کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے پر کام کریں گے۔"اپنے مخصوص انداز میں اس خوشخبری کو دھمکی میں ملفوف کرتے ہوئے مزید کہا:"میری امید ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں مزاحمت کار اس معاہدے کو قبول کرلیں، کیونکہ اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا، بلکہ حالات مزید بگڑیں گے۔"

صدر ٹرمپ کی خوشخبریوں کا کھوکھلاپن اس بات سے عیاں تھا کہ انھوں نے اشارتاً بھی یہ نہیں بتایا کہ معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟۔ درحقیقت، یہ تجویز کئی ماہ سے جاری مذاکرات کا ایک تسلسل ہے۔ بات چیت کا بنیادی تنازعہ یہ ہے کہ مزاحمت کار مستقل جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے 60 دن بعد دوبارہ جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے آج تک کسی امن معاہدے کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔

امن کیلئے اسرائیل کی دلچسپی کا اظہار اسی وقت ہوگیا جب پانچ جولائی کو وزیراعظم کےدفتر (PMO)نے ایک بیان میں کہا کہ قطری تجویز پر مزاحمت کاروں کی جانب سے پیش کردہ یہ تین ترامیم اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہیں:

  1. عارضی جنگ بندی کے دوران مستقل امن کے لیے مذاکرات جاری رہیں اور حتمی معاہدے تک جنگ دوبارہ نہ چھیڑی جائے۔
  2. انسانی امداد کی بلا رکاوٹ آمد کی ضمانت دی جائے، اور امداد کی تقسیم اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور غزہ ہلالِ احمر کے ذریعے ہو، نہ کہ متنازعہ تنظیم GHF کے تحت۔
  3. اسرائیلی فوج ان پوزیشنوں پر واپس چلی جائے جن پر مارچ میں دونوں فریق رضامند ہوئے تھے۔

مزاحمت کاروں نے اس بیان کا باضابطہ جواب نہیں دیا، تاہم القدس نیوز کے مطابق ان کے عسکری ترجمان نے کہا:"جنگ اس وقت ختم ہوگی جب مستقل امن معاہدہ ہماری شرائط پر ہوگا۔ دوسری صورت میں ہمارے لیے آزادی یا موت ہی راستہ ہے۔"اتوار کو واشنگٹن روانگی سے قبل تل ابیب ایئرپورٹ پر نیتن یاہو نے اپنا یہ عزم پھر دہرایا کہ "مزاحمت کاروں  کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ، بلکہ انکا غزہ سے انخلا، ہمارا ہدف ہے۔"

اسرائیلی وزیراعظم کے امریکہ پہچتے ہی کہدیا گیا کہ نیتن یاہو، ٹرمپ ملاقات سے پہلے اور بعد میں فوٹوسیشن ہوگا نہ پریس کانفرنس اور نہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہوگا۔عشائیہ بھی نجی نوعیت کا تھا جس میں دونوں رہنما اپنی بیگمات کےساتھ شریک ہوئے۔اس راز داری کی بنا پر اس ملاقات کی کوئی تفصیل وہائٹ ہاوس یا تل ابیب نے جاری نہیں کی۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم کیساتھ امریکہ جانیوالے ایک اہلکار نے بتایا کہ 'دونوں رہنماوں کے درمیان غزہ انخلا پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے اور صرف عملدرآمد کا طریقہ کار (Operational Coordination) طئے کرنا باقی ہے۔ملاقات کے دوران ان ممالک کی فہرست کو آخری شکل دی گئی جو اہل غزہ کو قبول کرلیں۔حوالہ:ٹائمز آف اسرائیل

اسرائیلی وفد میں شامل ایک اور افسر نے مستقبل کے غزہ کا نقشہ کچھ اسطرح پیش کیا 'مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر غزہ سے چلے جائینگے، کوئی اورقوت (محمود عباس کی مقتدرہ فلسطین) نظم و نسق سنبھالے گی تاہم غزہ اسرائیلی 'حفاظت' میں رہے گا۔ یہ "حفاظت" نہیں بلکہ مکمل "نظامِ حکومت" ہوگا'۔حوالہ: یروشلم ٹائمز

عین اسی وقت تل ابیب میں وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ر فح کے ملبے پر نئی "فلاحی جنت" کی تعمیر کا اعلان کیا۔اسکی تفصیل بیان کرتے ہوئے جناب کاٹز نے کہا  کہ ر فح کی تباہ شدہ جگہ پر 6 لاکھ فلسطینیوں کے لیے ایک  Humanitarian City  تعمیر ہوگا۔ ابتدا میں یہاں ان لوگوں کو بسایا جائیگا جو بمباری کے باعث بے گھر ہوکر ساحلی علاقے المَواسی میں پناہ گزین ہیں۔فلسطینیوں کو اس زون سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ فلسطینی "رضاکارانہ طور پر" غزہ خود ہی چھوڑ دیں تو انکے لئے زیادہ بہتر ہوگا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو غزہ کی پوری آبادی کو اسی زون میں منتقل کردیا جائیگا۔

یعنی 25 لاکھ اہل غزہ کی ملک بدری، مزاحمت کے مکمل خاتمے اور غزہ پر اسرائیل کے غیر مشروط کنٹرول کی تجویز صدر ٹرمپ کیلئے قابل قبول ہے ۔ قیدیوں کی باحفاظت رہائی کیلئے عبوری جنگ بندی کی جائیگی جس پر جاری گفتگو کو آگے بڑھانے کیلئے صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف ایک دوروز میں قطر جارہے ہیں۔ مزاحمت کاروں کی جانب سے واشنگٹن مذاکرات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اگر اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا پر آنے والی خبروں کو درست مان لیا جائے تو مزاحمت کاروں کا جواب سب کو معلوم ہے۔

جنگ بندی کی بات شروع ہوتے ہی اسرائیلی مظالم میں شدت آگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے مطابق، گزشتہ چار ہفتوں میں اسرائیلی فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت  613 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔اسرائیل اب پناہ گزین خیموں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

غذائی بحران اور اسپتالوں کی تباہی

امریکی ڈاکٹر فیروزسدھونے غزہ سے واپسی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ، اسرائیلی فوج نے غزہ کے ہسپتالوں کو تباہ کردیا ہے، اور اب پورے غزہ میں کوئی اسپتال، کلینک یا ڈسپنسری پوری طرح کام نہیں کر رہی۔ وہاں ر بچہ غذائی قلت یا malnutrition کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کی سخت رپورٹ

اقوام متحدہ کی نمائندہ (Rapporteur)، فرانسسکا البانیز نے جنیوا میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ:"اسرائیل غزہ میں منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ 60 سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں اس جرم میں ملوث ہیں۔"، انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ:"اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند اور اس سے تجارتی و مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔"

اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس رپورٹ کو "قانونی لحاظ سے بے بنیاد، توہین آمیز اور منصب کا غلط استعمال" قرار دیا۔

عوامی دباؤ اور اندرونی حملے

ادھر اسرائیل میں قیدیوں کے لواحقین اور عام شہریوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 5 جولائی کو غزہ کی سرحد اور کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے جنگ کے خلاف مظاہرے کیے۔

اسی دوران اسرائیلی فوج کو اپنے ہی مسلح کیے گئے قبضہ گردوں کی جانب سے حملوں کا سامنا ہے۔ 30 جون کو ایک فوجی اڈے پر حملہ کر کے کئی تنصیبات اکھاڑ دی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیرِ داخلہ ایتامار بن گوئر ان گروپوں کو نجی ملیشیا کی شکل دے رہے ہیں۔عرب کہاوت ہے: "کتے کو اتنا مت کھلاؤ کہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے"۔

بین الاقوامی ردعمل

میلبورن، آسٹریلیا میں چار جولائی کو میلبورن ، آسٹریلیا میں انتہا پسند اسرائیلی رہنما شاہار سیگل (Shahar Segal) کے مزرنون (Miznon) ریستوران پر نوجونوان نے مظاہرہ کیا اور اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے لگائے۔ سیگل صاحب غزہ میں امداد تقسیم کرنے کے امریکی واسرائیلی مشترکہ ادارے GHF، المعروف 'قتل کا جال' کے ترجمان ہیں۔ مظاہرے کے دوران دھکم پیل سے ریستوران کے برتن ٹوٹ گئے اور میزیں الٹ گئیں۔ اسی دن غروب آفتاب کے وقت ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا۔ یہودی عبادتگاہ (Synagogue) کو اسوقت آگ لگانے کی کوشش کی گئی جب وہاں سبت کی عبادت ہورہی تھی۔اس واقعہ میں کوئی جانی نقصاں نہیں ہوا اور ربائی (امام) سمیت وہاں موجود تمام لوگ بحفاظت وہاں سے نکال لیے گئے۔کسی بھی عبادتگاہ پر حملے کا کوئی جواز نہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ فلسطینیوں اور مسلمانوں سمیت تمام لوگوں نے اسکی مذمت کی۔

طبی ماہر اور صحافی کا قتل

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر مروان سلطان، ڈائریکٹر انڈونیشین ہسپتال، اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے۔ پچاس دن میں اسرائیل نے 70 طبی اہلکاروں کو قتل کیا ہے۔

اسی دوران ایک ساحلی ریستوران پر حملے میں 32 سالہ صحافی اسماعیل ابو حطب سمیت 95 افراد جاں بحق ہوئے۔ غزہ میں اب تک 228صحافی دنیا کو سچ دکھانے کا مقدس فریضہ انجام دینے ہوئے اپنی جان قربان کرچکے ہیں۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 جولائی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 جولائی 2025

روزنامہ امت کراچی 11 جولائی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 جولائی 2025


Wednesday, July 2, 2025

 

 نیویارک کے رئیس شہر کا انتخاب

ٹرمپ سے نیتن یاہو تک سب کی امیدوں پر پانی پھرگیا

جوانسال زہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ جیتنے میں کامیاب

رئیسِ شہر نیویارک (Mayor)کے پرائمری انتخابات میں 33 سالہ ہندوستان نژاد زہران ممدانی نے کامیابی حاصل کر لی۔ امریکہ میں انتخابات کے لیے جماعتی ٹکٹ پارٹیوں کے قائدین یا پارلیمانی بورڈ جاری نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے جسے پرائمری انتخاب کہا جاتا ہے۔ یعنی ابھی زہران ممدانی نے رئیس شہر کے انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ اصل مقابلہ 5 نومبر کو ہوگا۔

نیویارک کے انتخابات کی گونج امریکہ سے اسرائیل تک سنائی دے رہی ہے، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے نتائج کے اعلان کے بعد جناب ممدانی پر 'کمیونسٹ' کی پھبتی کسی۔ اسرائیلی اخبارات میں زہران ممدانی کی شخصیت اور سیاسی نظریات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے زہران ممدانی کے خاندانی و نظریاتی پہلوؤں پر چند سطور:

زہران ممدانی کے والد ڈاکٹر محمود ممدانی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے اور بہت ہی کم عمری میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا چلے گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دارالسلام، تنزانیہ میں ہوئی اور اسکول سے فارغ ہوتے ہی وہ اسکالرشپ پر ریاست پینسلوینیا کی جامعہ پیٹسبرگ (University of Pittsburgh) آ گئے، جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں بی اے کیا۔ محمود ممدانی دورانِ طالب علمی نسلی مساوات اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہے اور جیل بھی کاٹی ،یعنی زہران ممدانی کو مزاحمتی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ جامعہ ہارورڈ میں PhD کے لیے محمود ممدانی ان کا مقالہ بھی یوگنڈا کی طبقاتی سیاست پر تھا۔ انھوں نے 1991 میں اڑیسہ کے پنجابی ہندو خاندان سے تعلق رکھنے  والی فلم ساز میرا نیر سے شادی کر لی جو عمر میں ان سے 12 سال چھوٹی ہیں۔زہران ممدانی نے کمپالا میں جنم لیا۔ ان کے والد شیعہ مسلمان اور والدہ ہندو ہیں، جبکہ زہران خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، یعنی شیعہ سنی کا لیبل انھیں پسند نہیں۔

جب زہران پانچ سال کے تھے تو ان کے والد جامعہ کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے وابستہ ہو گئے، لیکن صرف دو سال بعد ان کا خاندان نیویارک آ گیا، جہاں زہران نے ابتدائی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد بوڈین کالج، مین (Bowdoin College, Maine) سے بی اے کی سند حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی وہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رہے اور کالج میں Students for Justice in Palestine کا حلقہ قائم کیا۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد زہران ممدانی کرایے کی ادائیگی میں مستحق لوگوں کی مدد اور گھر بدری نوٹس ملنے پر قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ والدہ کی وجہ سے زہران کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور انھوں نے میرا نیر کی فلموں کے لیے دھنیں تیار کیں۔

عملی سیاست میں زہران ممدانی کا داخلہ مختلف رہنماؤں کی انتخابی مہمات سے ہوا، جن میں بائیں بازو کے رہنما قادر الیتیم، Ross Barkan اور Tiffany Cabán شامل ہیں۔ زہران نے خود کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند دھڑے Democratic Socialists of America سے وابستہ کر لیا اور 2020 میں نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ انھوں نے یہ نشست 2022 اور 2024 میں برقرار رکھی۔ صوبائی اسمبلی میں وہ سرگرم ترین رکن سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے 20 مسودۂ قانون پیش کیے اور 230 سے زیادہ بلوں کا حصہ بنے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران وہ ایک بار بھی اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر نہیں رہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں زہران ممدانی نے رئیسِ شہر کے لیے قسمت آزمائی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی نیویارک میں ہے، اس لیے یہاں سے جیتنے کے لیے یہودی آشیر واد ضروری ہے۔ زہران کسی بھی مذہب یا عقیدے سے وابستہ کے لوگوں کے مخالف نہیں، لیکن فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کا موقف و عزم بہت واضح ہے اور وہ اس کے اظہار میں کوئی مداہنت نہیں برتتے۔ وہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئے تو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ کہ ان کی والدہ بھی فلسطینیوں کے حقوق کی ایسی ہی پُرجوش حامی ہیں۔ جولائی 2013 میں انھیں دعوت دی گئی کہ وہ حیفہ (اسرائیل) فلم میلے کے دوران اپنی فلم پیش کریں۔ آہنی عزم کی حامل اس خاتون نے دعوت نامے کے جواب میں لکھا:

میں اسرائیل تب جاؤں گی جب

  • (اسرائیلی و فلسطینی آبادیوں کے بیچ کھڑی) دیواریں گرا دی جائیں گی
  • (فلسطین سے) قبضہ ختم ہوگا
  • وہاں ایک مذہب کو دوسرے پر امتیازی برتری حاصل نہ ہوگی
  • وہاں نسل پرستی (Apartheid) کا خاتمہ ہوگا

خط کے اختتام پر زہران کی والدہ نے لکھا:

"میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے علمی و ثقافتی بائیکاٹ (PACBI) کی حامی ہوں۔"

اس ذاتی و خاندانی پس منظر کے ساتھ نیویارک کے رئیس شہر کے لیے میدان میں اترنا زہران ممدانی جیسے مضبوط اعصاب والے شخص کا ہی کام ہے۔ انھوں نے غریب طبقے کے مفادات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا، جن میں کام پر آنے جانے کے لیے مفت بس سواری، مکانوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں اور مالک مکان کی من مانیوں پر نظر، اور شہریوں کو مناسب قیمت پر اشیائے خورد و نوش فراہم کرنے کے لیے سرکاری گروسری اسٹور کا قیام شامل ہے۔

ابتدا میں سو سے زیادہ امیدوار میدان میں اترے جن کی اکثریت نوشتۂ دیوار پڑھ کر دوڑ سے علیحدہ ہو گئی، اور آخر میں صرف 12 امیدوار رہ گئے۔ اصل مقابلہ نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو اور زہران ممدانی میں تھا۔ اینڈریو کومو کے والد آنجہانی ماریو کومو بھی گورنر رہ چکے ہیں۔ ماسوائے Jewish Voice for Peace کے، تمام یہودی اور قدامت پسند تنظیموں و گروہوں نے کومو کی حمایت کی۔ یہاں پر بھی اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا۔ بطور گورنر اینڈریو کومو بددیانتی، بھتہ خوری اور جنسی زیادتیوں کے اسکینڈل میں لت پت رہے اور موصوف نے گورنری سے استعفیٰ دے کر جان چھڑائی، لیکن محض ممدانی کو ہرانے کے لیے شائستہ و منصفانہ سیاست کے دعویداروں نے اینڈریو کومو کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔

دوسری طرف سینیٹر برنی سینڈرز اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند رہنماؤں نے زہران ممدانی کا کھل کر ساتھ دیا۔ پاکستان، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خواتین نے زبردست مہم چلائی۔ ہر ایک کو فون اور ہر گھر پر دستک دے کر رائے عامہ کو ہموار کیا۔ نتائج کے مطابق زہران ممدانی 43.51 فیصد ووٹ لے کر معرکہ جیت گئے، جبکہ اینڈریو کومو نے 36.42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اینڈریو کومو نے شکست کے بعد دستبردار ہونے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک کے حالیہ میئر ایرک ایڈمز بھی آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جبکہ ریپبلکن پارٹی 71 سالہ کرٹس سلوا (Curtis Sliwa) کو میدان میں اتار رہی ہے۔ ابھی انتخابات میں پانچ ماہ باقی ہیں، اس لئے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیلی حکومت سے لے کر امریکہ کے تمام متعصب انتہا پسند، زہران ممدانی کو ہرانے کے لیے یکسو ہیں، چنانچہ سخت مقابلے کی توقع ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے