Wednesday, July 2, 2025

 

 نیویارک کے رئیس شہر کا انتخاب

ٹرمپ سے نیتن یاہو تک سب کی امیدوں پر پانی پھرگیا

جوانسال زہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ جیتنے میں کامیاب

رئیسِ شہر نیویارک (Mayor)کے پرائمری انتخابات میں 33 سالہ ہندوستان نژاد زہران ممدانی نے کامیابی حاصل کر لی۔ امریکہ میں انتخابات کے لیے جماعتی ٹکٹ پارٹیوں کے قائدین یا پارلیمانی بورڈ جاری نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے جسے پرائمری انتخاب کہا جاتا ہے۔ یعنی ابھی زہران ممدانی نے رئیس شہر کے انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ اصل مقابلہ 5 نومبر کو ہوگا۔

نیویارک کے انتخابات کی گونج امریکہ سے اسرائیل تک سنائی دے رہی ہے، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے نتائج کے اعلان کے بعد جناب ممدانی پر 'کمیونسٹ' کی پھبتی کسی۔ اسرائیلی اخبارات میں زہران ممدانی کی شخصیت اور سیاسی نظریات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے زہران ممدانی کے خاندانی و نظریاتی پہلوؤں پر چند سطور:

زہران ممدانی کے والد ڈاکٹر محمود ممدانی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے اور بہت ہی کم عمری میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا چلے گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دارالسلام، تنزانیہ میں ہوئی اور اسکول سے فارغ ہوتے ہی وہ اسکالرشپ پر ریاست پینسلوینیا کی جامعہ پیٹسبرگ (University of Pittsburgh) آ گئے، جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں بی اے کیا۔ محمود ممدانی دورانِ طالب علمی نسلی مساوات اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہے اور جیل بھی کاٹی ،یعنی زہران ممدانی کو مزاحمتی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ جامعہ ہارورڈ میں PhD کے لیے محمود ممدانی ان کا مقالہ بھی یوگنڈا کی طبقاتی سیاست پر تھا۔ انھوں نے 1991 میں اڑیسہ کے پنجابی ہندو خاندان سے تعلق رکھنے  والی فلم ساز میرا نیر سے شادی کر لی جو عمر میں ان سے 12 سال چھوٹی ہیں۔زہران ممدانی نے کمپالا میں جنم لیا۔ ان کے والد شیعہ مسلمان اور والدہ ہندو ہیں، جبکہ زہران خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، یعنی شیعہ سنی کا لیبل انھیں پسند نہیں۔

جب زہران پانچ سال کے تھے تو ان کے والد جامعہ کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے وابستہ ہو گئے، لیکن صرف دو سال بعد ان کا خاندان نیویارک آ گیا، جہاں زہران نے ابتدائی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد بوڈین کالج، مین (Bowdoin College, Maine) سے بی اے کی سند حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی وہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رہے اور کالج میں Students for Justice in Palestine کا حلقہ قائم کیا۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد زہران ممدانی کرایے کی ادائیگی میں مستحق لوگوں کی مدد اور گھر بدری نوٹس ملنے پر قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ والدہ کی وجہ سے زہران کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور انھوں نے میرا نیر کی فلموں کے لیے دھنیں تیار کیں۔

عملی سیاست میں زہران ممدانی کا داخلہ مختلف رہنماؤں کی انتخابی مہمات سے ہوا، جن میں بائیں بازو کے رہنما قادر الیتیم، Ross Barkan اور Tiffany Cabán شامل ہیں۔ زہران نے خود کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند دھڑے Democratic Socialists of America سے وابستہ کر لیا اور 2020 میں نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ انھوں نے یہ نشست 2022 اور 2024 میں برقرار رکھی۔ صوبائی اسمبلی میں وہ سرگرم ترین رکن سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے 20 مسودۂ قانون پیش کیے اور 230 سے زیادہ بلوں کا حصہ بنے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران وہ ایک بار بھی اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر نہیں رہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں زہران ممدانی نے رئیسِ شہر کے لیے قسمت آزمائی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی نیویارک میں ہے، اس لیے یہاں سے جیتنے کے لیے یہودی آشیر واد ضروری ہے۔ زہران کسی بھی مذہب یا عقیدے سے وابستہ کے لوگوں کے مخالف نہیں، لیکن فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کا موقف و عزم بہت واضح ہے اور وہ اس کے اظہار میں کوئی مداہنت نہیں برتتے۔ وہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئے تو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ کہ ان کی والدہ بھی فلسطینیوں کے حقوق کی ایسی ہی پُرجوش حامی ہیں۔ جولائی 2013 میں انھیں دعوت دی گئی کہ وہ حیفہ (اسرائیل) فلم میلے کے دوران اپنی فلم پیش کریں۔ آہنی عزم کی حامل اس خاتون نے دعوت نامے کے جواب میں لکھا:

میں اسرائیل تب جاؤں گی جب

  • (اسرائیلی و فلسطینی آبادیوں کے بیچ کھڑی) دیواریں گرا دی جائیں گی
  • (فلسطین سے) قبضہ ختم ہوگا
  • وہاں ایک مذہب کو دوسرے پر امتیازی برتری حاصل نہ ہوگی
  • وہاں نسل پرستی (Apartheid) کا خاتمہ ہوگا

خط کے اختتام پر زہران کی والدہ نے لکھا:

"میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے علمی و ثقافتی بائیکاٹ (PACBI) کی حامی ہوں۔"

اس ذاتی و خاندانی پس منظر کے ساتھ نیویارک کے رئیس شہر کے لیے میدان میں اترنا زہران ممدانی جیسے مضبوط اعصاب والے شخص کا ہی کام ہے۔ انھوں نے غریب طبقے کے مفادات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا، جن میں کام پر آنے جانے کے لیے مفت بس سواری، مکانوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں اور مالک مکان کی من مانیوں پر نظر، اور شہریوں کو مناسب قیمت پر اشیائے خورد و نوش فراہم کرنے کے لیے سرکاری گروسری اسٹور کا قیام شامل ہے۔

ابتدا میں سو سے زیادہ امیدوار میدان میں اترے جن کی اکثریت نوشتۂ دیوار پڑھ کر دوڑ سے علیحدہ ہو گئی، اور آخر میں صرف 12 امیدوار رہ گئے۔ اصل مقابلہ نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو اور زہران ممدانی میں تھا۔ اینڈریو کومو کے والد آنجہانی ماریو کومو بھی گورنر رہ چکے ہیں۔ ماسوائے Jewish Voice for Peace کے، تمام یہودی اور قدامت پسند تنظیموں و گروہوں نے کومو کی حمایت کی۔ یہاں پر بھی اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا۔ بطور گورنر اینڈریو کومو بددیانتی، بھتہ خوری اور جنسی زیادتیوں کے اسکینڈل میں لت پت رہے اور موصوف نے گورنری سے استعفیٰ دے کر جان چھڑائی، لیکن محض ممدانی کو ہرانے کے لیے شائستہ و منصفانہ سیاست کے دعویداروں نے اینڈریو کومو کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔

دوسری طرف سینیٹر برنی سینڈرز اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند رہنماؤں نے زہران ممدانی کا کھل کر ساتھ دیا۔ پاکستان، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خواتین نے زبردست مہم چلائی۔ ہر ایک کو فون اور ہر گھر پر دستک دے کر رائے عامہ کو ہموار کیا۔ نتائج کے مطابق زہران ممدانی 43.51 فیصد ووٹ لے کر معرکہ جیت گئے، جبکہ اینڈریو کومو نے 36.42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اینڈریو کومو نے شکست کے بعد دستبردار ہونے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک کے حالیہ میئر ایرک ایڈمز بھی آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جبکہ ریپبلکن پارٹی 71 سالہ کرٹس سلوا (Curtis Sliwa) کو میدان میں اتار رہی ہے۔ ابھی انتخابات میں پانچ ماہ باقی ہیں، اس لئے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیلی حکومت سے لے کر امریکہ کے تمام متعصب انتہا پسند، زہران ممدانی کو ہرانے کے لیے یکسو ہیں، چنانچہ سخت مقابلے کی توقع ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے



 

 غزہ امدادی آپریشن  ۔۔۔ فلسطینیوں کیلئے موت کا جال

نیتن یاہو پر انتہاپسند اتحادیوں کا دباو۔۔ امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں کا راستہ بند

ابوشہاب دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں شدت

اگلے ہفتے تک غزہ میں جنگ بند ہوجائیگی۔۔ صدرٹرمپ

اسرائیل کیلئے 51 کروڑ ڈالر مالیت کی Bomb Guidance Kits

غرب اردن میں قبضہ گرد دہشت گردوں نے فلسطینیوں کو زندہ جلادیا

کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی گلوخلاصی۔۔ صدر ٹرمپ کی ترجیح اول

اٹلی کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ نے اپنی دوکانوں سے اسرائیلی مصنوعات ہٹادیں۔

انگلستان کا رقص و موسیقی میلہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں تبدیل ہوگیا

غزہ میں امدادی کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ہفتے ان وارداتوں میں تقریباً 500 افراد جاں بحق اور کئی ہزار شدید زخمی ہو گئے۔ہر فائرنگ کے بعد اسرائیلی فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ متاثرین پہلے سے نشان زدہ عسکری علاقے میں داخل ہوئے تھے اور فوج نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی۔

امدادی پروگرام کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ "ہم اہلِ غزہ کی مدد کے لیے کھانے پینے پر بڑی رقم خرچ کر رہے ہیں"۔ لیکن اسی وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گتریس (António Guterres) نے دوٹوک الفاظ میں کہدیا کہ امریکہ کا غزہ آپریشن "موت کا جال" ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے گتریس کے بیان پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ غزہ میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ لیکن اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے جناب گتریس کے الزام کی تصدیق کردی۔ ستائیس جون کوشایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 'اسرائیلی فوج کے افسران نے انکے نمائندے کو بتایا کہ انھیں غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مقامات کے قریب غیر مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہاں کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد فوجی استغاثہ نے ممکنہ جنگی جرائم کے جائزے کا مطالبہ کیا ہے۔

25 جون سے امدادی ٹرکوں کی غزہ آمد جزوی طور پر معطل ہے۔ وزیر خزانہ اور "ریلیجئیس صیہونسٹ پارٹی" کے سربراہ بیزلیل اسموترچ نے الزام لگایا تھا کہ امداد مزاحمت کاروں تک پہنچ رہی ہے، لہٰذا ترسیل و تقسیم کے نظام کے شفاف ہونے تک اسے روکدیا جائے اور اگر یہ مطالبہ نہ ماناگیا تو انکی جماعت حکومت سے الگ ہوجائیگی۔ پارلیمان میں انکی  7 نشستیں ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت 64 ارکان پر کھڑی ہے۔ اگر اسموترچ ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت اکثریت کھو دے گی۔ چنانچہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شفافیت یقینی ہونے تک غزہ میں  امدادی ٹرکوں کی آمد معطل رہے گی۔

فوج کی فائرنگ اور بمباری کے ساتھ ابو شہاب مافیا کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئی ہیں، اور کچھ ہسپتالوں کا انتظام  بھی مبینہ طور پر انہی کو دے دیا گیا ہے۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ابو شہاب کے دہشت گرد امدادی سامان چھین رہے ہیں اور یہ غنڈے خواتین سے بدسلوکی کے واقعات میں بھی ملوث ہیں۔

ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ غزہ میں امن کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قصر مرمریں میں 27 جون کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے تک جنگ بندی ہو جائے گی۔اس معاملے پر بات چیت کیلئے 7 جولائی کو نیتن یاہو واشنگٹن آرہے ہیں۔مجوزہ امن معاہدے کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اسکے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کوغیر مشروط رہا کرکے مزاحمت کاروں کو غزہ خالی کرناہوگا۔اسکے بعد فلسطینی مقتدرہ (PA) غزہ کا انتظام سنبھالے گی جسے مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی افواج سہارا دیں گی۔ سادہ الفاظ میں یہ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی تجویز ہےجسے مزاحمت کار کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔

کہا جارہا ہےکہ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر غیر مشروط جنگ بندی کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ 'صدر ٹرمپ کی ایک ڈانٹ نیتن یاہو کو معقولیت اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی ہے'۔ لیکن کیا امریکی صدر میں یہ ہمت ہے اور کیا ایسا کرنے کے بعد وہ اپنی صدارت برقرار رکھ سکیں گے؟؟؟ ہمارے خیال میں ایسا کرنا صدر صاحب کی سیاسی عاقبت کیئے سخت نقصان دہ ہوگا۔ان پھرتیوں اور چلت پھرت کے عوامل پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہمیں اہل غزہ کیلئے راحت کا فی الحال کوئی سامان نظر نہیں آتا۔

صدر ٹرمپ کے ’اخلاص برائے امن‘ کا عملی مظاہرہ 30 جون کوامریکہ کی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی (DSCA) اس اعلان میں دکھائی دیا جس کے مطابق اسرائیل کو 51 کروڑ ڈالر مالیت کی Bomb Guidance Kits فراہم کی جارہی ے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جو روایتی (غیر رہنمائی شدہ) بموں کو ’سمارٹ بم‘ میں تبدیل کر دیتا ہے تاکہ وہ مخصوص اہداف کو درستگی سے نشانہ بنا سکیں۔غزہ میں اس وقت اسکول، مدارس، اسپتال اور شفا خانے اسرائیلی حملوں کا نشانہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں امداد لینے والوں کی قطاریں اور بے گھر افراد کے خیمے بھی نشانہ بنے ہیں۔اس نظام کی فراہمی کا جواز پیش کرتے ہوئے DSCA نے کہا "امریکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے پُرعزم ہے، اور اسرائیل کو ایک مضبوط اور ہمہ وقت مستعد دفاعی صلاحیت فراہم کرنا امریکی قومی مفاد کا حصہ ہے۔ مجوزہ فروخت سے اسرائیل کی موجودہ اور آئندہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ اس سے سرحدوں، اہم تنصیبات اور آبادی والے علاقوں کے دفاع کی استعداد میں بہتری آئے گی۔"گویا یہ سب کچھ 'غریب و مظلوم' اسرائیل کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے..خرد کانام جنوں رکھدیاجنوں کا خرد

غزہ کیساتھ غرب اردن میں بھی فلسطینیوں پرمظالم میں اضافہ ہوگیا ہے،  25 جون کو رام اللہ کے قریب کفر مالک گاؤں پر حملہ کیا گیا، جہاں دہشت گردوں نے کئی گھروں کو آگ لگا دی، تین افراد زندہ جل گئے اور دیگر زخمی ہوئے۔ فوج نے نہ صرف ان حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ جلتے گھروں سے باہر آنے والوں پر فائرنگ بھی کی۔بعد میں کچھ دہشت گرد گرفتار کئے گئے لیکن وزیر داخلہ بن گوئر کے حکم پر انھیں اسی دن رہا کر دیا گیا۔

کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی بریّت اس وقت صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر مالی بددیانتی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے، جن پر خود درجنوں الزامات ہیں، نیتن یاہو کے دفاع میں فرمایا کہ اسرائیلی وزیراعظم پر الزامات "سیاسی انتقام" کی بدترین شکل ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو بچایا اور اب نیتن یاہو کو بھی بچائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، نیتن یاہو کو جانے دو، اس کے پاس کرنے کے بہت کام ہیں۔اپنےتازہ پیغام میں امریکی صدر نے مقدمات ختم نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کی مدد روکنے کی مبہم سی دھمکی بھی دیدی۔

ادھر برطانوی حکومت نے "Palestine Action" تنظیم پر پابندی لگا دی ہے، جس نے غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کیے تھے۔

عوامی دباؤ کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اٹلی کے سب سے بڑی سپر مارکیٹ چین "Coop Alleanza 3.0" نے اسرائیلی مصنوعات ہٹا دی ہیں اور فلسطینی معاون تنظیموں کی مصنوعات کو نمایاں جگہ دی ہے۔

اس بار یورپ کا موسیقی میلہ فلسطین سے یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔
انگلستان کے شہر سمرسیٹ کے گاؤں پیلٹن میں "افتادگی" (Fallow) کے خاتمے پر Glastonbury کا مشہور رقص و موسیقی میلہ منعقد ہوتا ہے۔ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں کو کچھ عرصے کے لیے افتادہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عموماً اس کا دورانیہ پانچ سال ہوتا ہے، چنانچہ گلاسٹنبری میلہ بھی اوسطاً ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔اس بار یہ میلہ 25 سے 29 جون 2025 تک جاری رہا، جس میں موسیقی کے شائق 30 ہزار سے زائد افراد فلسطینی پرچموں کے ساتھ شریک ہوئے۔سب سے پہلے  rapموسیقی کے فنکار Bob Vylan نے اسٹیج پر آکر شائقین سے "اسرائیلی فوج مردہ باد" کے نعرے لگوائے۔ اس کے بعد انہوں نے پرعزم انداز میں کہا: "یقیناً دریا سے سمندر تک فلسطین ہی فلسطین ہے"، جس پر مجمع نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے "آزاد فلسطین" کے نعرے بلند کیے۔

آئرلینڈ کے فلسطین نواز موسیقی طائفے "Kneecap" نے میلہ لوٹ لیا۔ جب گروپ کے رکن Liam Óg Ó hAnnaidh المعروف Mo Chara اسٹیج پر آئے تو مجمع نے "فری فری فلسطین" کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں کالعدم تنظیموں کے پرچم لہرانے کے باعث ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اسٹیج پر آکر کہا 'برطانوی وزیرِاعظم نہیں چاہتے تھے کہ ہم یہاں آئیں، لیکن دیکھو اسٹارمر! ہم یہاں موجود ہیں'۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی حکام نے اس تقریب کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ میلے میں کوئی خلافِ قانون سرگرمی تو نہیں ہوئی۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے