غزہ امدادی
آپریشن ۔۔۔ فلسطینیوں کیلئے موت کا جال
نیتن یاہو پر انتہاپسند اتحادیوں کا
دباو۔۔ امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں کا راستہ بند
ابوشہاب دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں شدت
اگلے ہفتے تک غزہ میں جنگ بند ہوجائیگی۔۔
صدرٹرمپ
اسرائیل کیلئے 51 کروڑ
ڈالر مالیت کی Bomb Guidance Kits
غرب اردن میں قبضہ گرد دہشت گردوں نے
فلسطینیوں کو زندہ جلادیا
کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی گلوخلاصی۔۔ صدر ٹرمپ کی ترجیح
اول
اٹلی کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ نے اپنی دوکانوں سے اسرائیلی مصنوعات
ہٹادیں۔
انگلستان کا رقص و موسیقی میلہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں تبدیل
ہوگیا
غزہ میں امدادی کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی
فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ہفتے ان وارداتوں میں تقریباً 500 افراد جاں بحق اور
کئی ہزار شدید زخمی ہو گئے۔ہر فائرنگ کے بعد اسرائیلی فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ
متاثرین پہلے سے نشان زدہ عسکری علاقے میں داخل ہوئے تھے اور فوج نے اپنے تحفظ میں
گولی چلائی۔
امدادی پروگرام کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے
دعویٰ کیا کہ "ہم اہلِ غزہ کی مدد کے لیے کھانے پینے پر
بڑی رقم خرچ کر رہے ہیں"۔ لیکن اسی
وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گتریس
(António Guterres) نے دوٹوک الفاظ میں کہدیا کہ امریکہ کا غزہ
آپریشن "موت
کا جال"
ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے گتریس کے بیان پر برہمی ظاہر
کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ غزہ میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
لیکن اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے جناب
گتریس کے الزام کی تصدیق کردی۔ ستائیس جون کوشایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 'اسرائیلی
فوج کے افسران نے انکے نمائندے کو بتایا کہ انھیں غزہ میں خوراک کی تقسیم کے
مقامات کے قریب غیر مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہاں کوئی خطرہ
موجود نہ ہو۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد فوجی استغاثہ نے ممکنہ جنگی جرائم کے جائزے
کا مطالبہ کیا ہے۔
25 جون
سے امدادی ٹرکوں کی غزہ آمد جزوی طور پر معطل ہے۔ وزیر خزانہ اور "ریلیجئیس
صیہونسٹ پارٹی"
کے سربراہ بیزلیل
اسموترچ نے الزام لگایا تھا کہ امداد مزاحمت کاروں تک پہنچ رہی ہے، لہٰذا ترسیل و
تقسیم کے نظام کے شفاف ہونے تک اسے روکدیا جائے اور اگر یہ مطالبہ نہ ماناگیا تو
انکی جماعت حکومت سے الگ ہوجائیگی۔ پارلیمان میں انکی 7 نشستیں ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت 64 ارکان
پر کھڑی ہے۔ اگر اسموترچ ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت اکثریت کھو دے گی۔ چنانچہ ایک
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شفافیت یقینی ہونے تک غزہ میں امدادی ٹرکوں کی آمد معطل رہے گی۔
فوج کی فائرنگ اور
بمباری کے ساتھ ابو شہاب مافیا کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئی ہیں، اور کچھ
ہسپتالوں کا انتظام بھی مبینہ طور پر انہی کو دے دیا گیا ہے۔
شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ابو شہاب کے دہشت گرد امدادی سامان چھین رہے ہیں اور یہ
غنڈے خواتین سے بدسلوکی کے واقعات میں بھی ملوث ہیں۔
ایران-اسرائیل جنگ
بندی کے بعد صدر ٹرمپ غزہ میں امن کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قصر مرمریں میں 27 جون کو
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے تک جنگ بندی ہو جائے
گی۔اس معاملے پر بات چیت کیلئے 7 جولائی کو نیتن یاہو واشنگٹن آرہے ہیں۔مجوزہ امن
معاہدے کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اسکے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کوغیر مشروط رہا
کرکے مزاحمت کاروں کو غزہ خالی کرناہوگا۔اسکے بعد فلسطینی مقتدرہ (PA) غزہ
کا انتظام سنبھالے گی جسے مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی افواج
سہارا دیں گی۔ سادہ الفاظ میں یہ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی تجویز ہےجسے مزاحمت کار
کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔
کہا جارہا ہےکہ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر غیر مشروط جنگ بندی
کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے
کہا کہ 'صدر ٹرمپ کی ایک ڈانٹ نیتن یاہو کو معقولیت اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی
ہے'۔ لیکن کیا امریکی صدر میں یہ ہمت ہے اور کیا ایسا کرنے کے بعد وہ اپنی صدارت
برقرار رکھ سکیں گے؟؟؟ ہمارے خیال میں ایسا کرنا صدر صاحب کی سیاسی عاقبت کیئے سخت
نقصان دہ ہوگا۔ان پھرتیوں اور چلت پھرت کے عوامل پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہمیں
اہل غزہ کیلئے راحت کا فی الحال کوئی سامان نظر نہیں آتا۔
صدر ٹرمپ کے ’اخلاص برائے امن‘ کا عملی
مظاہرہ 30 جون کوامریکہ کی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی (DSCA) اس
اعلان میں دکھائی دیا جس کے مطابق اسرائیل کو 51 کروڑ ڈالر مالیت کی Bomb Guidance
Kits فراہم کی
جارہی ے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جو روایتی (غیر رہنمائی شدہ) بموں کو ’سمارٹ بم‘ میں
تبدیل کر دیتا ہے تاکہ وہ مخصوص اہداف کو درستگی سے نشانہ بنا سکیں۔غزہ میں اس وقت
اسکول، مدارس، اسپتال اور شفا خانے اسرائیلی حملوں کا نشانہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں
امداد لینے والوں کی قطاریں اور بے گھر افراد کے خیمے بھی نشانہ بنے ہیں۔اس نظام
کی فراہمی کا جواز پیش کرتے ہوئے DSCA نے کہا "امریکہ اسرائیل کی
سلامتی کے لیے پُرعزم ہے، اور اسرائیل کو ایک مضبوط اور ہمہ وقت مستعد دفاعی
صلاحیت فراہم کرنا امریکی قومی مفاد کا حصہ ہے۔ مجوزہ فروخت سے اسرائیل کی موجودہ
اور آئندہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ اس سے سرحدوں، اہم
تنصیبات اور آبادی والے علاقوں کے دفاع کی استعداد میں بہتری آئے گی۔"گویا یہ سب کچھ 'غریب
و مظلوم' اسرائیل کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے..خرد کانام جنوں رکھدیاجنوں کا خرد
غزہ کیساتھ غرب
اردن میں بھی فلسطینیوں پرمظالم میں اضافہ ہوگیا ہے، 25 جون کو رام اللہ کے قریب کفر مالک گاؤں پر
حملہ کیا گیا، جہاں دہشت گردوں نے کئی گھروں کو آگ لگا دی، تین افراد زندہ جل گئے
اور دیگر زخمی ہوئے۔ فوج نے نہ صرف ان حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ جلتے
گھروں سے باہر آنے والوں پر فائرنگ بھی کی۔بعد میں کچھ دہشت گرد گرفتار کئے گئے
لیکن وزیر داخلہ بن گوئر کے حکم پر انھیں اسی دن رہا کر دیا گیا۔
کرپشن کے الزامات
سے نیتن یاہو کی بریّت اس وقت صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی
اہلیہ پر مالی بددیانتی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے، جن پر خود درجنوں
الزامات ہیں، نیتن یاہو کے دفاع میں فرمایا کہ اسرائیلی وزیراعظم پر الزامات "سیاسی
انتقام" کی بدترین شکل ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ
امریکہ نے اسرائیل کو بچایا اور اب نیتن یاہو کو بھی بچائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ
بدعنوانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، نیتن یاہو کو جانے دو، اس کے پاس کرنے کے بہت
کام ہیں۔اپنےتازہ پیغام میں امریکی صدر نے مقدمات ختم نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل
کی مدد روکنے کی مبہم سی دھمکی بھی دیدی۔
ادھر برطانوی
حکومت نے "Palestine Action" تنظیم پر پابندی لگا دی ہے، جس نے غزہ نسل
کشی کے خلاف احتجاج کیے تھے۔
عوامی دباؤ کے
اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اٹلی کے سب سے بڑی سپر مارکیٹ چین "Coop Alleanza 3.0" نے اسرائیلی مصنوعات ہٹا دی ہیں اور
فلسطینی معاون تنظیموں کی مصنوعات کو نمایاں جگہ دی ہے۔
اس بار یورپ کا موسیقی میلہ فلسطین سے
یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔
انگلستان کے شہر سمرسیٹ کے گاؤں پیلٹن میں "افتادگی"
(Fallow) کے خاتمے پر Glastonbury
کا مشہور رقص و موسیقی میلہ منعقد ہوتا ہے۔ زمین کی
زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں کو کچھ عرصے کے لیے افتادہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عموماً اس کا دورانیہ پانچ سال ہوتا ہے، چنانچہ گلاسٹنبری میلہ بھی اوسطاً ہر پانچ
سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔اس بار یہ میلہ 25 سے 29 جون 2025 تک جاری رہا، جس میں
موسیقی کے شائق 30 ہزار سے زائد افراد فلسطینی پرچموں کے ساتھ شریک ہوئے۔سب سے
پہلے rapموسیقی
کے فنکار
Bob Vylan نے اسٹیج پر آکر شائقین سے "اسرائیلی
فوج مردہ باد" کے
نعرے لگوائے۔ اس کے بعد انہوں نے پرعزم انداز میں کہا:
"یقیناً دریا سے سمندر تک فلسطین ہی فلسطین ہے"،
جس پر مجمع نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے "آزاد
فلسطین"
کے نعرے بلند کیے۔
آئرلینڈ کے فلسطین نواز موسیقی طائفے "Kneecap"
نے میلہ لوٹ لیا۔ جب گروپ کے رکن
Liam Óg Ó hAnnaidh المعروف
Mo Chara اسٹیج پر آئے تو مجمع نے "فری
فری فلسطین"
کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف
مظاہرے میں کالعدم تنظیموں کے پرچم لہرانے کے باعث ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات
قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اسٹیج پر آکر کہا 'برطانوی وزیرِاعظم نہیں چاہتے تھے کہ
ہم یہاں آئیں، لیکن دیکھو اسٹارمر! ہم یہاں موجود ہیں'۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی
حکام نے اس تقریب کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ
میلے میں کوئی خلافِ قانون سرگرمی تو نہیں ہوئی۔
نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے
No comments:
Post a Comment