دوحہ فورم میں ابھرتا نیا عالمی مؤقف
انسانی
حقوق کی لرزہ خیز پامالی پر دنیا کی خاموشی
غزہ
اور غربِ اردن میں جاری سانحہ اب اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں عالمی برادری کی
خاموشی، بے بسی اور بے حسی سب ایک ساتھ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ جس روز صدر ٹرمپ نے
امن معاہدے کے دوسرے مرحلے یعنی Phase 2کی جانب قدم بڑھانے
کی نوید سنائی اسی دن اسرائیل کی ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ فلسطینی
قیدیوں کو بھوکا رکھنے، زنجیروں میں جکڑنے اور بدسلوکی
جیسے طریقے معمول بن چکے ہیں۔
اسرائیلی حراستی مراکز—ایک سرکاری ادارے کی لرزہ خیز
گواہی
اسرائیلی
وزارتِ انصاف کے ماتحت پبلک ڈیفنڈر آفس نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اسے پڑھ کر دل دہل
جاتا ہے۔فلسطینی قیدیوں کیلئے انتہائی کم خوراک والا مینو نافذ کیا گیا ہے۔ کئی
قیدیوں کا دن چند چمچے نیم پکے چاولوں پر گزرتا ہے۔ وزن میں تیزی سے کمی، بے ہوشی
اور پانی کی شدید قلت عام ہے۔پبلک ڈیفنڈر ٹیموں کے مطابق قیدیوں پر تشدد کسی واقعے
کے ردعمل میں نہیں بلکہ پالیسی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ عدالت لے جانے، سیل کی
تلاشی یا منتقلی کے دوران مارپیٹ معمول ہے۔اکتوبر 2023 کے بعد بڑے پیمانے پر
گرفتاریوں سے جیلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔جس جیل کی گنجائش 14500 ہے وہاں 23ہزار
قیدی ٹھونس دیے گئے ہیں۔صابن، تولیہ، بیت الخلا کا کاغذ سب کمیاب۔ خارش کی وبا کئی
مقامات پر پھیل چکی ہے۔ قیدیوں کو قرآن کے سوا کوئی ذاتی سامان رکھنے کی اجازت
نہیں۔اکتوبر 2023 سے کم از کم 100 فلسطینی قیدی
حراست میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مگر اسرائیلی ادارے ان اموات کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں
اور پراسرار موت کے ایک بھی واقعہ پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔یہ رپورٹ انسانی
حقوق کی کسی تنظیم نے جاری نہیں کی بلکہ یہ مشاہدہ خود اسرائیلی وزارتِ انصاف کے ذیلی
ادارے کا ہے۔ اگر سرکاری مشاہدہ یہ ہے تو اصل صورتحال کااندازہ کرنا مشکل نہیں۔
وحشت کا رقص۔ بے اماں لاشوں سے کتوں کی
ضیافت
اسرائیل کے قریب سمجھے جانے
والے بین الاقوامی نشریاتی ادارے CNN نے شمالی غزہ کے زیکیم، المعروف Erez West کراسنگ پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ایک نہایت سنگین
انکشاف کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امداد
کے انتظار میں کھڑے شہریوں پر فائرنگ کی گئی اور لاشوں کو بُل ڈوزروں سے گھسیٹا
گیا۔ بعض جگہ بھوکے آوارہ کتے بکھری لاشوں کے گرد منڈلاتے دیکھے گئے۔ سیٹلائٹ
تصاویر اور سابق فوجیوں کے بیانات سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ بار بار
دہرایا جانے والا عمل ہے۔
پوپ کا امن مؤقف اور غزہ کا بے نام دکھ
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ لیو چہار دہم نے مشرقی
یروشلم، غرب اردن اور غزہ پر مشتمل فلسطینی ریاست کو امن کا واحد حل قرار دیا ہے۔
مگر انہوں نے غزہ کے قتل عام کو نسل کشی کہنے سے گریز کیا۔ جب انسانیت قتل ہو رہی
ہو تو صرف ’’توازن‘‘ کافی نہیں، سچائی لازم
ہے۔
یوروویژن 2026!!! اسرائیل کے حق میں جمہوریت
پسندوں کی دھاندلی
یورپ کا سب سے بڑا مقابلہِ
موسیقی Eurovision ہرسال
منعقد ہوتا ہے۔ ثقافتی تنوع کیساتھ اس مقابلے کی سب سے اہم بات کہ یہاں فیصلہ ماہرین
کے پینل کے بجائے عوامی ووٹ سے ہوتا ہے۔غزہ نسل کشی کی وجہ سے یورویژن سے اسرائیل
کو باہر رکھنے ی تحریک چل رہی تھی۔ گزشتہ ہفتے یورپین براڈکاسٹنگ یونین (EBU) نے اسرائیل کی یوروویژن 2026
میں شرکت برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ کردیا تاہم براہ راست ریفرنڈم کے بجائے ملکی
مندوبین سے رائے لی گئی۔اس
غیر شفاف طریق کار پر اسپین، نیدرلینڈ، آئرلینڈ اور سلووینیا نے مقابلے سے
دستبرداری اختیار کرلی۔چار ملکوں کی یہ غیر معمولی مزاحمت، یورپی معاشرے میں اخلاقی تقسیم کی علامت ہے۔
آئرلینڈ کی تاریخی حساسیت
آئرلینڈ
کے دارالحکومت، ڈبلن (Dublin)کی بلدیہ نے اپنے
مرکزی پارک کو سابق اسرائیلی صدر شیم ہرزوگ کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ معطل کر
دیا ہے۔ اس معاملے پر اسرائیلی وزیرِ خارجہ اور اور آئرلینڈ
کی سفیر سونیا مک گنیس (Sonya McGuinness)
کے درمیان تلخ مکالمہ ہوا، جس نے واضح کر دیا کہ یورپ میں اخلاقی دباؤ ہر گزرتے دن
بڑھ رہا ہے۔آئرش عوام فلسطین کے بارے میں اس لیے بھی
زیادہ حساس ہیں کہ وہ خود برطانوی استعمار اور قبضہ گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد
کا تاریخی تجربہ رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف گالوے کی اعزازی ڈگریاں مسترد
آئرلینڈ
کی ممتاز فنکارہ Olwen Fouéré،
فلم ساز Margo Harkin اور محقق Dr.
Kirby Miller نے جامعہ گالوے (University of Galway) کی اعزازی سند یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ ایسی
جامعہ کا اعزاز قبول نہیں کرسکتے جو اسرائیلی عسکری پالیسیوں سے منسلک کسی
تحقیقاتی ادارے کی شراکت دار ہو۔یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ مدت پوری
ہونے پر Israel
Institute of Technologyسے
تعاون ختم کر دیا جائے گا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا
واضح ثبوت ہیں کہ یورپ کے باشعور طبقات ظلم اور جبر کے خلاف اپنی اخلاقی پوزیشن کو
مزید مضبوط کررہے ہیں۔
خطے میں بدلتا سفارتی منظرنامہ — دوحہ فورم کے اہم
اشارے
غزہ کے
انسانی المیے اور جاری بے بسی کے پس منظر میں دوحہ فورم نے خطے کی بدلتی ہوئی
سفارتکاری کو ایک نئی جہت دی ہے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی
نے صاف صاف کہا کہ موجودہ صورتحال کو "جنگ بندی" کہنا حقیقت کے منافی
ہے۔ ان کے مطابق حقیقی جنگ بندی اُس وقت ممکن ہے جب اسرائیلی افواج مکمل طور پر
غزہ سے نکل جائیں، شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت بحال ہو، اور علاقہ دوبارہ معمول
پر آجائے ۔
ترکیہ
کے وزیر خارجہ ہاکان فدان نے بھی اس مؤقف کی تائید کی کہ غزہ امن معاہدے کے دوسرے
مرحلے کی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب وہاں توپیں خاموش اور مکمل فوجی انخلا ہو۔
اسی
فورم میں سعودی وزیر محترمہ مناہل رضوان نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا کہ خطے میں
دیرپا امن کیلئے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کو اپنے رویّے میں تبدیلی لانے کی
ضرورت ہے۔
مصری
صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ایک نہایت واضح مؤقف اختیار کیا کہ رفح پھاٹک صرف
یکطرفہ نقل و حرکت کیلئے نہیں کھولی جا سکتی۔ ان کے مطابق اہلِ غزہ کا مصر میں
داخلہ اور امدادی سامان کا غزہ جانا مکمل طور پر آزاد اور متوازن ہونا چاہیے۔ مصر
کا یہ مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب کسی ایسے انتظام کا حصہ نہیں بننا چاہتا جو
زمینی حقائق کو یکطرفہ بنائے یا انسانی بحران کو مزید گمبھیر کرے۔
یہ
تمام بیانات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب و مسلم ممالک جو ٹرمپ کے امن
منصوبے کے اعلان کے وقت نسبتاً نرم اور محتاط تھے ، اب زیادہ واضح، جرات مند اور
زمینی حقائق پر مبنی انداز اختیار کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ایک بڑا محرک سوشل
میڈیا ہے، جس نے غزہ و غربِ اردن میں ہونے والے واقعات کو پوری دنیا تک پہنچایا،
اور مغربی میڈیا کی ’رضاکارانہ سینسرشپ‘ کے باوجود حقائق زیادہ دیر دب نہ سکے۔آج
یورپ ہو یا امریکہ، عوامی رائے میں نمایاں
تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوحہ فورم کے
بیانات اسی وسیع تر تبدیلی کی علامت ہیں، جو آئندہ امن عمل پر گہرا اور
دیرپا اثر ڈال سکتی ہے۔
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آدابِ فرزندی
غزہ میں جہاں ظلم و جبر کی
ایسی ایسی ہولناک وارداتیں ہو رہی ہیں کہ جنھیں بیان کرنا مشکل ہے، وہیں یہ سرزمین
عزم و صبر کا استعارہ بھی بن چکی ہے۔ گزشتہ نشت میں ہم نے نو سالہ بچی الہام ابو
حجاج کا ذکر کیا تھا۔آج عزم و حوصلے کی ایسی ہی ایک اور داستاں۔
شمالی غزہ کے علاقے بیت
لاہیہ کی 13 سالہ رَہَف یوسف، اپنے چار کمسن بھائی بہنوں کی شرارتی اپّی اور
والدین کی لاڈلی تھی۔ اسرائیلی بمباری نے اس کا گھر تباہ کر دیا تو یہ لوگ خالی
ہاتھ جنوب کی طرف نکل آئے اور ایک خیمہ ان کا ٹھکانہ بن گیا۔یہاں پہنچتے ہی رہف کی
ماں کو سرطان کا موذی مرض نگل گیا اور چند ہفتوں بعد اس کے والد بھی ایک ڈرون حملے
میں شہید کر دیے گئے۔ اب رہف ہی
اپنے چار چھوٹے بہن بھائیوں کی ماں، باپ اور بڑی بہن ہے۔ بوسیدہ
خیمے کی مرمت ہو یا بچوں کے لیے رزق کی تلاش، کھانا پکانا ہو یا ان کی پڑھائی، یا
پھر بمباروں کی گھن گرج سے سہمی ہوئی روحوں کو سینے سے لگا کر دلاسہ دینا , یہ
ساری ذمہ داریاں 13 سالہ رہف کے ناتواں مگر پُرعزم کندھوں پر ہیں۔ الہام ابو حجاج
کی طرح رہف یوسف بھی پُرعزم ہے کہ وہ اپنے بھائی بہنوں کی پرورش کرے گی اور جب
موقع ملا تو بیت لاہیہ واپس جا کر ملبے بنے اپنےگھر کو دوبارہ بسائے گی۔
قلم تلوار سے تیز ہے؟؟
مقامی
فوٹو جرنلسٹ حسن
اصلیح کی شہادت کے بعد ان کے بھائی فتاح اصلیح نے رپورٹنگ جاری رکھی، مگر گزشتہ
ہفتے وہ بھی ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوگئے اور ان کے ساتھی محمد وادی جاں بحق۔غزہ
کے صحافی اپنے لہو سے ثابت کر رہے ہیں کہ قلم کبھی ہمت نہیں ہارتا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 دسمبر 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 12دسمبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 دسمبر 2025

