Thursday, December 11, 2025

 

دوحہ فورم میں ابھرتا نیا عالمی مؤقف

انسانی حقوق کی لرزہ خیز پامالی پر دنیا کی خاموشی

غزہ اور غربِ اردن میں جاری سانحہ اب اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں عالمی برادری کی خاموشی، بے بسی اور بے حسی سب ایک ساتھ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ جس روز صدر ٹرمپ نے امن معاہدے کے دوسرے مرحلے یعنی Phase 2کی  جانب قدم بڑھانے کی نوید سنائی اسی دن اسرائیل کی ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ فلسطینی قیدیوں کو بھوکا رکھنے، زنجیروں میں جکڑنے اور بدسلوکی جیسے طریقے معمول بن چکے ہیں۔

اسرائیلی حراستی مراکز—ایک سرکاری ادارے کی لرزہ خیز گواہی

اسرائیلی وزارتِ انصاف کے ماتحت پبلک ڈیفنڈر آفس نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اسے پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔فلسطینی قیدیوں کیلئے انتہائی کم خوراک والا مینو نافذ کیا گیا ہے۔ کئی قیدیوں کا دن چند چمچے نیم پکے چاولوں پر گزرتا ہے۔ وزن میں تیزی سے کمی، بے ہوشی اور پانی کی شدید قلت عام ہے۔پبلک ڈیفنڈر ٹیموں کے مطابق قیدیوں پر تشدد کسی واقعے کے ردعمل میں نہیں بلکہ پالیسی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ عدالت لے جانے، سیل کی تلاشی یا منتقلی کے دوران مارپیٹ معمول ہے۔اکتوبر 2023 کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے جیلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔جس جیل کی گنجائش 14500 ہے وہاں 23ہزار قیدی ٹھونس دیے گئے ہیں۔صابن، تولیہ، بیت الخلا کا کاغذ سب کمیاب۔ خارش کی وبا کئی مقامات پر پھیل چکی ہے۔ قیدیوں کو قرآن کے سوا کوئی ذاتی سامان رکھنے کی اجازت نہیں۔اکتوبر 2023 سے کم از کم 100 فلسطینی قیدی حراست میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مگر اسرائیلی ادارے ان اموات کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں اور پراسرار موت کے ایک بھی واقعہ پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔یہ رپورٹ انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے جاری نہیں کی بلکہ یہ مشاہدہ خود اسرائیلی وزارتِ انصاف کے ذیلی ادارے کا ہے۔ اگر سرکاری مشاہدہ یہ ہے تو اصل صورتحال کااندازہ کرنا مشکل نہیں۔

وحشت کا رقص۔ بے اماں لاشوں سے کتوں کی ضیافت

اسرائیل کے قریب سمجھے جانے والے بین الاقوامی نشریاتی ادارے CNN نے شمالی غزہ کے زیکیم، المعروف Erez West کراسنگ پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ایک نہایت سنگین انکشاف کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امداد کے انتظار میں کھڑے شہریوں پر فائرنگ کی گئی اور لاشوں کو بُل ڈوزروں سے گھسیٹا گیا۔ بعض جگہ بھوکے آوارہ کتے بکھری لاشوں کے گرد منڈلاتے دیکھے گئے۔ سیٹلائٹ تصاویر اور سابق فوجیوں کے بیانات سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ بار بار دہرایا جانے والا عمل ہے۔

پوپ کا امن مؤقف اور غزہ کا بے نام دکھ

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ لیو چہار دہم نے مشرقی یروشلم، غرب اردن اور غزہ پر مشتمل فلسطینی ریاست کو امن کا واحد حل قرار دیا ہے۔ مگر انہوں نے غزہ کے قتل عام کو نسل کشی کہنے سے گریز کیا۔ جب انسانیت قتل ہو رہی ہو تو صرف ’’توازن‘‘ کافی نہیں، سچائی لازم  ہے۔

یوروویژن 2026!!! اسرائیل کے حق میں جمہوریت پسندوں کی دھاندلی

یورپ کا سب سے بڑا مقابلہِ موسیقی Eurovision ہرسال منعقد ہوتا ہے۔ ثقافتی تنوع کیساتھ اس مقابلے کی سب سے اہم بات کہ یہاں فیصلہ ماہرین کے پینل کے بجائے عوامی ووٹ سے ہوتا ہے۔غزہ نسل کشی کی وجہ سے یورویژن سے اسرائیل کو باہر رکھنے ی تحریک چل رہی تھی۔ گزشتہ ہفتے یورپین براڈکاسٹنگ یونین (EBU) نے اسرائیل کی یوروویژن 2026 میں شرکت برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ کردیا تاہم براہ راست ریفرنڈم کے بجائے ملکی مندوبین سے رائے لی گئی۔اس غیر شفاف طریق کار پر اسپین، نیدرلینڈ، آئرلینڈ اور سلووینیا نے مقابلے سے دستبرداری اختیار کرلی۔چار ملکوں کی یہ غیر معمولی مزاحمت،  یورپی معاشرے میں اخلاقی تقسیم کی علامت ہے۔

آئرلینڈ کی  تاریخی حساسیت

آئرلینڈ کے دارالحکومت، ڈبلن (Dublin)کی بلدیہ نے اپنے مرکزی پارک کو سابق اسرائیلی صدر شیم ہرزوگ کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔ اس معاملے پر اسرائیلی وزیرِ خارجہ اور اور آئرلینڈ کی سفیر سونیا مک گنیس (Sonya McGuinness) کے درمیان تلخ مکالمہ ہوا، جس نے واضح کر دیا کہ یورپ میں اخلاقی دباؤ ہر گزرتے دن بڑھ رہا ہے۔آئرش عوام فلسطین کے بارے میں اس لیے بھی زیادہ حساس ہیں کہ وہ خود برطانوی استعمار اور قبضہ گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کا تاریخی تجربہ رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف گالوے کی اعزازی ڈگریاں مسترد

آئرلینڈ کی ممتاز فنکارہ Olwen Fouéré، فلم ساز Margo Harkin اور محقق Dr. Kirby Miller نے جامعہ گالوے (University of Galway) کی اعزازی سند یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ ایسی جامعہ کا اعزاز قبول نہیں کرسکتے جو اسرائیلی عسکری پالیسیوں سے منسلک کسی تحقیقاتی ادارے کی شراکت دار ہو۔یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ مدت پوری ہونے پر Israel Institute of Technologyسے تعاون ختم کر دیا جائے گا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یورپ کے باشعور طبقات ظلم اور جبر کے خلاف اپنی اخلاقی پوزیشن کو مزید مضبوط کررہے ہیں۔

خطے میں بدلتا سفارتی منظرنامہ — دوحہ فورم کے اہم اشارے

غزہ کے انسانی المیے اور جاری بے بسی کے پس منظر میں دوحہ فورم نے خطے کی بدلتی ہوئی سفارتکاری کو ایک نئی جہت دی ہے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے صاف صاف کہا کہ موجودہ صورتحال کو "جنگ بندی" کہنا حقیقت کے منافی ہے۔ ان کے مطابق حقیقی جنگ بندی اُس وقت ممکن ہے جب اسرائیلی افواج مکمل طور پر غزہ سے نکل جائیں، شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت بحال ہو، اور علاقہ دوبارہ معمول پر آجائے ۔

ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فدان نے بھی اس مؤقف کی تائید کی کہ غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب وہاں  توپیں خاموش اور مکمل فوجی انخلا ہو۔

اسی فورم میں سعودی وزیر محترمہ مناہل رضوان نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا کہ خطے میں دیرپا امن کیلئے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کو اپنے رویّے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ایک نہایت واضح مؤقف اختیار کیا کہ رفح پھاٹک صرف یکطرفہ نقل و حرکت کیلئے نہیں کھولی جا سکتی۔ ان کے مطابق اہلِ غزہ کا مصر میں داخلہ اور امدادی سامان کا غزہ جانا مکمل طور پر آزاد اور متوازن ہونا چاہیے۔ مصر کا یہ مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب کسی ایسے انتظام کا حصہ نہیں بننا چاہتا جو زمینی حقائق کو یکطرفہ بنائے یا انسانی بحران کو مزید گمبھیر کرے۔

یہ تمام بیانات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب و مسلم ممالک جو ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان کے وقت نسبتاً نرم اور محتاط تھے ، اب زیادہ واضح، جرات مند اور زمینی حقائق پر مبنی انداز اختیار کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ایک بڑا محرک سوشل میڈیا ہے، جس نے غزہ و غربِ اردن میں ہونے والے واقعات کو پوری دنیا تک پہنچایا، اور مغربی میڈیا کی ’رضاکارانہ سینسرشپ‘ کے باوجود حقائق زیادہ دیر دب نہ سکے۔آج یورپ ہو یا امریکہ،  عوامی رائے میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوحہ فورم کے  بیانات اسی وسیع تر تبدیلی کی علامت ہیں، جو آئندہ امن عمل پر گہرا اور دیرپا اثر ڈال سکتی ہے۔

سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آدابِ فرزندی

غزہ میں جہاں ظلم و جبر کی ایسی ایسی ہولناک وارداتیں ہو رہی ہیں کہ جنھیں بیان کرنا مشکل ہے، وہیں یہ سرزمین عزم و صبر کا استعارہ بھی بن چکی ہے۔ گزشتہ نشت میں ہم نے نو سالہ بچی الہام ابو حجاج کا ذکر کیا تھا۔آج عزم و حوصلے کی ایسی ہی ایک اور داستاں۔

شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ کی 13 سالہ رَہَف یوسف، اپنے چار کمسن بھائی بہنوں کی شرارتی اپّی اور والدین کی لاڈلی تھی۔ اسرائیلی بمباری نے اس کا گھر تباہ کر دیا تو یہ لوگ خالی ہاتھ جنوب کی طرف نکل آئے اور ایک خیمہ ان کا ٹھکانہ بن گیا۔یہاں پہنچتے ہی رہف کی ماں کو سرطان کا موذی مرض نگل گیا اور چند ہفتوں بعد اس کے والد بھی ایک ڈرون حملے میں شہید کر دیے گئے۔ اب رہف ہی اپنے چار چھوٹے بہن بھائیوں کی ماں، باپ اور بڑی بہن ہے۔ بوسیدہ خیمے کی مرمت ہو یا بچوں کے لیے رزق کی تلاش، کھانا پکانا ہو یا ان کی پڑھائی، یا پھر بمباروں کی گھن گرج سے سہمی ہوئی روحوں کو سینے سے لگا کر دلاسہ دینا , یہ ساری ذمہ داریاں 13 سالہ رہف کے ناتواں مگر پُرعزم کندھوں پر ہیں۔ الہام ابو حجاج کی طرح رہف یوسف بھی پُرعزم ہے کہ وہ اپنے بھائی بہنوں کی پرورش کرے گی اور جب موقع ملا تو بیت لاہیہ واپس جا کر ملبے بنے اپنےگھر کو دوبارہ بسائے گی۔

قلم تلوار سے تیز ہے؟؟

مقامی فوٹو جرنلسٹ حسن اصلیح کی شہادت کے بعد ان کے بھائی فتاح اصلیح نے رپورٹنگ جاری رکھی، مگر گزشتہ ہفتے وہ بھی ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوگئے اور ان کے ساتھی محمد وادی جاں بحق۔غزہ کے صحافی اپنے لہو سے ثابت کر رہے ہیں کہ قلم کبھی ہمت نہیں ہارتا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 دسمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 12دسمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 دسمبر 2025

Friday, December 5, 2025

 

غزہ و غرب اردن ۔۔ جنگ بندی یا سکستی زندگی؟؟

غزہ کی تباہ حال سرزمین پر اگرچہ جنگ کی آوازیں کچھ مدھم ہو گئی ہیں، مگر زندگی اب بھی معمول سے بہت دور ہے۔ ملبے کے ڈھیر، بکھرے وجود اور اجڑی بستیاں اس "خاموش جنگ" کی گواہی دے رہی ہیں جو وقفے وقفے سے نہیں بلکہ ہر لمحہ جاری ہے۔ ایک طرف جنگ بندی اور امن کے نعرے ہیں، دوسری طرف ماؤں کی گود، بچوں کے چہرے، زیتون کے باغات اور شہروں کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔ بڑے عالمی ادارے بھی اب اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ کسی معمول کی واپسی نہیں، بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں موت کی رفتار کم ضرور ہوئی ہے، ختم نہیں۔

غزہ میں لہو کی گنتی: اعداد نہیں، اجسام اور کہانیاں

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جاں بحق افراد کی تعداد 71 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ایک لاکھ 72 ہزار کے قریب شہری زخمی ہیں، جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے۔ اس میں دو معصوم بھائی، گیارہ سالہ سلالہ جمعہ اور آٹھ سالہ فادی بھی شامل ہیں، جنہیں اسرائیلی فوج نے "جنگ بندی کی پیلی لائن عبور کرنے والے دہشت گرد" قرار دے کر نشانہ بنایا۔ غزہ میں جاری درندگی بچوں کی ہنسی کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

جنگ بندی: کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہوگیا؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنیس کالامارڈ (Agnes Callamard) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کو ’’معمول کی واپسی‘‘ نہ سمجھا جائے۔ان کے مطابق حملوں میں کمی ضرور آئی ہے اور کچھ امداد بھی پہنچ رہی ہے، لیکن عوام کی زندگی اب بھی غیر محفوظ، غیر یقینی اور شدید انسانی بحران کے سائے میں ہے۔یہاں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ صرف انداز بدلا ہے۔ فوری موت کے بجائے ایک سسکتی زندگی، جس میں ہر لمحہ ایک نئی اذیت چھپی ہے۔

جہالت نواز غارتگرد

چنگیز اور ہلاکو نے مفتوحہ علاقوں کے مدارس اور کتب خانے جلائے تھے۔آج غزہ میں یہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔جامعہ الاقصیٰ کا صرف مرکزی دروازہ باقی ہے؛ باقی علم کا پورا شہر راکھ بن چکا۔

غربِ اردن میں نئی لہر: جنگی جرائم، اجتماعی سزا اور دنیا کا ہومیو پیتھک ررعمل

غربِ اردن میں بھی درندگی کی نئی لہر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم HRW کے مطابق اسرائیلی فوج نے وہاں وحشت، اجتماعی سزا اور نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) کے اقدامات کیے ہیں جن پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

گرفتاری surrender کے باوجود قتل اور قاتلوں کو معقولیت کی تلقین

غربِ اردن کے محصور شہر جنین میں دو نہتے شہریوں نے گرفتاری کے وقت ہاتھ بلند کئے، لیکن چند فٹ کے فاصلے سے گولی مار کر ان کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔جرمنی، اٹلی، فرانس اور برطانیہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کو عالمی قوانین پر عملدرآمد کی 'تلقین' کی ہے۔ شکستہ بے حسی کی ایک مکروہ مثال۔

اسکول تباہ، اساتذہ و غیر تدریسی عملہ قتل

اسی علاقے میں دورانِ کلاس طلبہ کو باہر نکال کر کر انکے سامنے اسکول مسمار اور بچوں کا تعلیمی مستقبل راکھ کر دیا گیا۔مزاحمت پر اسکول کے چوکیدار کو گولی ماردی گئی۔

خلائل اللّوز—باداموں کا شہر جلادیا گیا

بیت اللحم کے گاوں خلائل اللّوز میں باغات جلائے گئے، گاڑیاں نذرِ آتش ہوئیں اور قبضہ گردوں نے فوج کی نگرانی و سرپرستی  میں دس سے زائد افراد کو لاٹھیوں اور سریوں کے وار سے لہو لہان کردیا۔جیسا کہ نام سےظاہر ہے یہ گاوں 'باغاتِ بادام' کہلاتاہے۔

طوباس پر بلڈوزر پھیردئے گئے

مقبوضہ وادی اردن کے شہر طوباس میں اسرائیلی فوج نے بہت سے مکانات مسمار کردئے ۔ گھر گھر چھاپوں کے دوران 100 افراد گرفتار۔ جب صورتحال کا جائزہ لینے صحافی وہاں پہنچے تو مسلح سپاہیوں نے راستہ روک کر انکی مشکیں کس دیں۔

گھروں سے بیدخلی ۔۔ گھر کی گواہی

اسرائیلی تنظیم B'Tselem (عبرانی בְּצֶלֶם) نے HRWکی اُس رپورٹ کی تصدیق کی ہے جسکے مطابق اس سال جنین، نورشمس اور طولکرم کے 32ہزار فلسطینیوں کو انکے گھروں سے بیدخل کرکے اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیااورمشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے 500 گھر مسمار ہوئے ۔(حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

اسرائیلی بیانیہ ۔۔۔ ظلم کی نئی توجیہات، مذہبی موشگافیاں

غرب اردن میں نسلی تطہیر کی عالمی و اسرائیلی تنظیموں سے تصدیق کے باوجود اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتس (Israel Katz)نے کنیسہ (پارلیمان) کی ایک بند کمرہ بریفنگ میں کہا کہ قبضہ گردوں کے فلسطینیوں پر حملے “دہشت گردی نہیں بلکہ صرف عوامی نظم میں خلل ہیں“۔یہ جملہ ظلم کو معمول کا رنگ دئے جانے والے تاریخ کے سیاہ ترین بیانات میں شامل ہوچکا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اب تک غربِ اردن میں ایک ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے،  وہ لوگ جو نہ کسی فوج کا حصہ تھے اور نہ اسلحہ لئےکسی جنگی محاذ پر کھڑے۔

جب اسرائیلی وزیرخارجہ کنیسہ میں مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے اسوقت عمارت کے باہر 'غربِ اردن ہمارا ہے کہ نعرہ لگاتے ہجوم کی قیادت کرنے والے انتہا پسند ربائیوں (مذہبی پیشوا) نے موقف اختیار کیا کہ عبرانی انجیل (عہد نامہ قدیم یا Old Testament)کے مطابق یہودا السامریہ (غرب اردن کا قدیم نام) یہودیوں کا ہے۔جن یورپی ممالک نے حال ہی میں فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے، وہ اس جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان پر خاموش ہیں۔اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا واقعی اصولی مؤقف تھا، تو پھر اس مؤقف کی عملی گونج کہاں ہے؟کیا ہزار جانوں کا خراج بھی “نظم و ضبط کا مسئلہ” ہے؟

سعودی ولی عہد کا ٹرمپ کو دوٹوک جواب: عرب عوام کے بدلتے مزاج کی گواہی

ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں سعودی ولی عہد سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ کیا، مگر جواب ان کی توقع کے خلاف تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے دوٹوک کہدیا کہ غزہ میں جاری خونریزی نے عرب عوام کے دلوں میں شدید غصہ بھڑکا دیا ہے، اور ایسے ماحول میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔یہ سفارتی مکالمہ پورے خطے کے عوامی مزاج کا اعلان ہے۔ وہ مزاج جس نے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی محتاط کر دیا ہے۔

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

غزہ میں امریکی امدادی ادارے Global Hunger Foundationیا GHF نے پٹی سے اپنا آپریش ختم کردیا۔ بظاہر اتنا خوبصورت نام لیکن غیر جانبدارا مبصرین کے خیال میں GHFکرائے کے قاتلوں کو ٹولہ تھا جس نے  ”سیاسی کنٹرول“ کے ذریعے غزہ میں خوراک کی قلت پیدا کی، اور بعض علاقوں کو جان بوجھ کر امداد سے محروم رکھا، جس کے نتیجے میں تین ہزار افراد بھوک سے مر گئے۔جن میں بچوں کا تناسب 80 فیصد سے زیادہ تھا۔ امید ہے کہ اب UNRWA، WFP اور مقامی فلسطینی ادارے مل کر امداد کا منصفانہ اور شفاف نظام قائم کر سکیں گے۔

لبنان، شام اور خطے میں بڑھتی کشیدگی

اسرائیلی چھاپہ مار دستوں کی شامی شہر بیت جن میں کارروائیاں، جنوبی لبنان کے شہروں پر بمباری، اور امریکی ترجمان کا اسرائیل کی حمائت میں دیا گیا بیان بتاتا ہے کہ خطہ ایک وسیع تر محاذ کے کنارے کھڑا ہے۔ اس سب کے باوجود فلسطینی مزاحمت کمزور نہیں پڑی۔

دنیا کے کھیل میدانوں میں مزاحمت کی گونج

اٹلی کے شہر بولونیا (Bologna) میں باسکٹ بال میچ کے دوران ہزاروں افراد نے اسرائیلی ٹیم کے خلاف احتجاج کیا اور شہر کے مشہور چوک Piazza Maggiore کا نام تبدیل کر کے Piazza Gaza رکھ دیا۔ دورِ جدید میں اسٹیڈیم، کورٹ اور ارینا صرف تفریح کی جگہ نہیں رہے بلکہ عالمی ضمیر کے آئینہ خانے بن چکے ہیں۔ہر ٹورنامنٹ، ہر میدان، ہر ملک میں نسل کُشوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی سماج کے اندر خوف: غزہ کا نام بھی برداشت سے باہر

اسرائیلی تنظیم Standing Together کی تقریب پر پولیس کا دھاوا اور ”غزہ سے نکل جاؤ“ کے بینر کو زبردستی ہٹوانا، اس خوف کی علامت ہے جو غزہ میں جاری وحشت سے خود اسرائیلی معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ یہاں تک کہ جامعہ تل ابیب کی لیکچرر یولاندہ یاور (Yolanda Yavor) کوصرف ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کرلیا گیا۔

غزہ کی مائیں: صبر اور عظمت کی چلتی ہوئی تاریخ

ہدیٰ جرار جیسی مائیں وہ روشن مثالیں ہیں جن کے بیٹوں نے پُرعزم مسکراہٹ کے ساتھ موت کا سامنا کیا۔ ہدیٰ اپنے بیٹے ابراہیم نابلسی کے جنازے میں وقار اور مضبوطی کی علامت بن کر کھڑی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے نے آخری پیغام میں وصیت کی تھی کہ امی، غم نہ کریں، مجھے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے رخصت کیجئے گا۔

تیرہ سالہ لبنانی بچی اصیل: انصاف کے حصول کیلئے پرعزم

اصیل اپنے پورے خاندان کی تباہی کے بعد بچ جانے والی دو زندہ آوازوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنے جھلسے ہوئے چہرے کی تصویر دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گی۔یہ نسل در نسل چلنے والی مزاحمت کی وہ تازہ آواز ہے جو ظلم و ستم کے باوجود ماند پڑتی نظر نہیں آتی۔

تباہی کے درمیان زندگی: غزہ کے ساحل پر ریت کا فن

غزہ کے ساحل پر نوجوان فنکار یزید ابو جراد ریت پر خطاطی کرتے ہیں۔ جب وہ "غزہ" لکھتے ہیں تو لوگوں کے کملائے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ فن محض شوق نہیں بلکہ اعلان ہے کہ بم، میزائل اور بھوک فلسطینیوں کو ہلاک نہیں کر سکتے۔ یہاں زندگی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔

غزہ اور غربِ اردن کی یہ داستان ظلم کی روداد کیساتھ انسانی حوصلے اور ثابت قدمی کی روشن شہادت ہے۔ فلسطین محض مقبوضہ خطہ نہیں، یہ ایک ابدی صدائے احتجاج ہے، وہ صدا جسے صرف زندہ ضمیر ہی سن سکتے ہیں۔ بے حس دنیا نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ماؤں کی آنکھیں، بچوں کے چہرے، اور اصیل کی کانپتی  آواز ایک نہ ایک دن پوری دنیا کو گواہی دینے پر مجبور کر دے گی۔ یہی آوازیں تاریخ کا فیصلہ لکھیں گی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 دسمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 5 دسمبر 2025

ہفت روزہ رہبرسرینگر 7 دسمبر 2025


Wednesday, December 3, 2025

 

امریکی دارالحکومت میں فائرنگ  ۔۔ نسل پرست سیاست اور امیگریشن

شکرگزاری (Thanksgiving) کے تہوار سے ایک دن پہلے امریکی دارالحکومت میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے نے امریکی سیاست میں غیر معمولی ہلچل پیدا کردی ہے۔ صدر ٹرمپ کا ردِعمل اتنا شدید تھاکہ انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر تیسری دنیا کے شہریوں کے امریکہ آنے پر نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا۔

یہ واقعہ 26 نومبر کو دوپہر کے سوادو بجے قصرِ ابیض سے ڈیڑھ کلومیٹر دور فریگٹ چوک (Farragut Square) پر پیش آیا، جب ایک شخص نے وہاں تعینات ورجینیا نیشنل گارڈ کے سپاہیوں پر فائرنگ کر دی۔ اس واقعے میں دو سپاہی شدید زخمی ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جوابی کارروائی میں مبینہ حملہ آور زمین پر گر پڑا اور فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ زخمی ہونے والی 20 سالہ سارہ بیک اسٹروم (Sarah Backstrom) زخموں کی تاب نہ لا کر اگلے دن دم توڑ گئی۔ تحقیقات جاری ہیں، مگر اب تک حملے کے محرکات کے بارے میں کوئی حتمی اعلان سامنے نہیں آیا۔ گرفتار شخص کی شناخت 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے طور پر ہوئی ہے، جو 2021 میں امریکی Resettlement Program کے تحت امریکہ منتقل ہوا تھا۔

فائرنگ کے فوراً بعد، حتیٰ کہ ملزم کی شناخت سے پہلے ہی، صدر ٹرمپ نے کہا “یقین ہے کہ زیرِ حراست شخص افغانستان سے آیا جو عملاً  ‘جہنمِ ارضی’ ہے۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ شخص صدر بائیڈن کے دور میں امریکہ لایا گیا اور اس کے ویزے میں توسیع بھی بائیڈن انتظامیہ نے کی۔ صدر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے وزیراندرونی سلامتی (HSS)محترمہ کرسٹی نوم نے کہا کہ رحمان اللہ ان افغانوں میں شامل تھا جو جانچ پڑتال کے بغیر Operations Allies Welcomeپروگرام کے تحت لائے گئے۔

تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ امریکی ٹیلیویژن CBS کے مطابق رحمان اللہ افغانستان میں نہ صرف امریکی فوج سے وابستہ تھا بلکہ اس نے امریکی و برطانوی خصوصی چھاپہ مار دستے کی قیادت بھی کی تھی۔ فوجی ذرائع کے مطابق رحمان اللہ  2011 سے امریکی فوج کے ساتھ کام کر رہا تھا، جب اس کی عمر صرف 16 سال تھی۔ بعد میں وہ CIA سے منسلک ہوا اور 2021 تک اس سے وابستہ رہا۔ سی آئی اے میں بھرتی کے لیے سخت سیکیورٹی جانچ ہوتی ہے، جس کے تمام مراحل وہ مکمل کر چکا تھا۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت بہترین کارکردگی کے باعث وہ اُن افراد میں شامل تھا جنہیں “وفادار افغان” قرار دے کر ترجیحی بنیادوں پر نکالا گیااور قطرمیں اٖضافی جانچ پڑتال  کے بعد اسے امریکہ داخلے کی اجازت دی گئی۔صدر ٹرمپ بضد ہیں کہ یہ شخص بائیڈن کے دور میں داخل ہوا، مگر حقیقت یہ ہے کہ لکنوال کو مستقل پناہ گزینی کی سند (Permanent Asylum Status) خود ٹرمپ انتظامیہ نے اس سال اپریل میں جاری کی۔

واقعے کے بعد صدر ٹرمپ نے افغان ری سیٹلمنٹ پروگرام کے تمام درخواست گزاروں کے مستقل ویزے روک دیے۔ اگلے دن انہوں نے امریکی شعبۂ شہریت و امیگریشن (USCIS) کو ہدایت دی کہ بائیڈن دور میں گرین کارڈ حاصل کرنے والے 19 ممالک کے شہریوں کی ازسرِنو جانچ پڑتال کی جائے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth پر اعلان کیا کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک سے امریکہ امیگریشن کو مستقل طور پر روک دیں گے۔

امریکہ میں بلااشتعال فائرنگ کوئی انوکھی بات نہیں۔ مذہبی مقامات، بازار، چوراہے حتیٰ کہ پرائمری اسکول بھی اس سے محفوظ نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران خود صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ دو ماہ پہلے ان کے پرجوش حامی اور MAGA تحریک کے رہنما چارلی کرک ایک جلسے میں ہلاک کر دیے گئے، لیکن ان واقعات میں صدر نے حملہ آوروں کی قومیت پر سوال نہیں اٹھایا۔

موجودہ واقعے پر ان کے غیر معمولی ردِعمل کو نظریاتی و سیاسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔غیر ملکی تارکینِ وطن، خصوصاً مسلمان ممالک سے آنے والوں کے بارے میں صدر ٹرمپ کا موقف بہت سخت رہا ہے۔پہلی مدت کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے متعدد ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگادی تھی، اور اب یہ رویہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

فائرنگ کا یہ سانحہ یقیناً ایک مجرمانہ عمل ہے جس کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ مگر اس ایک واقعے کی آڑ میں پوری دنیا کے شہریوں پر نئی قدغنیں لگانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اسے امریکی سیاست میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور انتخابی بیانئے کا حصہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ اس دردناک واقعے کو اپنے سخت گیر امیگریشن ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ایک ایسا ایجنڈا جو امریکہ کی اصل روح، کثرتیت (Pluralism)، تنوع (Diversity) اور انصاف کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 دسمبر 2025


Thursday, November 27, 2025

 

معاہدۂ ابراہیمؑ کی تدفین — ضامنوں کی بے حسی اور  فلسطینیوں کی استقامت

عالمی سفارت کاری کی ساری خاموشی اور پردہ پوشی ایک جھٹکے میں اس وقت بے نقاب ہوگئی جب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے دوٹوک و غیر مبہم لہجے میں اعلان کردیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چاہے اس کے نتیجے میں سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تعلقاتِ معمول کی امید ہی کیوں نہ دم توڑ جائے۔ ان کے نزدیک فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ اعلان بھی اسی روز سامنے آیا جب مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا جانے والا مبیّنہ “Ultimate Solution” بہت جوش و خروش سے پیش کیا جارہا تھا۔اب ٹرمپ کا "حل" فرسودہ اور سعودی اسرائیل تعلقات کا خواب بکھرچکا ہے۔تل ابیب کی جانب سے دوریاستی حل مسترد کردئے جانے کے بعد فلسطینیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ تنازعے کا تصفیہ 1948 کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔

یورپی ممالک کی خاموشی

نیتن یاہو کے اس اعلان پر وہ یورپی ممالک جنھوں نے بڑے طمطراق سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا وہ بالکل خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ضامنوں اور عالمی برادری کی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کرتی ہے۔

پاکستان کا مبہم سفارتی رویّہ

غزہ کیلئے عبوری انتظامیہ اور انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) کی راہ ہموار کرنے والی امریکی قرارداد کی منظوری کے وقت اجلاس کی صدارت پاکستانی مستقل مندوب عاصم افتخار احمد کررہےتھے۔جنھوں نے تحریک کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے امریکہ کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی سانس میں یہ بھی فرمایا کہ وہ حتمی متن سے “مکمل طور پر مطمئن نہیں” اور پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی بعض اہم تجاویز شامل نہیں کی گئیں۔یہ طرزِ عمل نیانہیں۔ ٹرمپ منصوبے پر کئی مسلم ممالک کے ساتھ توثیقی دستخط کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ اسلام آباد کو معاہدے کے بعض حصوں پر تحفظات ہیں۔

سلامتی کونسل میں صدارت کی ذمہ داری کے باوجود اسی طرح کا غیر فیصلہ کن ردِعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سفارت کاری ابہام کا شکار ہے۔ ایسے اہم مواقع پر مبہم پالیسی نہ صرف پاکستان کی مؤثر نمائندگی کو کمزور کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسلام آباد کی  سنجیدگی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔

غزہ پر تازہ درندگی — جنگ بندی روند دی گئی

پورا ہفتہ غزہ اور لبنان پر طیارے و ڈرون بم، ٹینک  زمین اور اسرائیلی جہاز بحرِ روم سے گولے برساتے رہے۔ مکان پہلے ہی مسمار ہوچکے ہیں اب اس درندگی کا نشانہ خیمے ہیں۔ ہفتے (22 نومبر) کے روز معصوم بچوں سمیت 64 افراد اپنی جانوں سے سے گئے اور جھلسے ہوئے  کئی سو افراد زخمی ہیں۔واضح رہے کہ سبت (ہفتہ) میں چھری سےسبزی کاٹنا بھی سخت گناہ ہے۔دس اکتوبرکو جنگ بندی کے بعد سے گزشتہ 44 دنوں میں اسرائیل نے فائربندی کی 497 خلاف ورزیاں کیں جن میں342 نہتے شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

حزب اللہ کے رہنما جاں بحق

پہلے جنوبی لبنان اسرائیلی حملوں کا ہدف تھالیکن اس ہفتے بیروت شہر کا نشانہ بنایا گیا، 23 نومبر کو جنوبی بیروت کے علاقے حارۃ حریک پر زبردست بمباری سے کئی بلندوبالا عمارتیں مسمارہوگئیں۔حملے میں  حرب اللہ کے عسکری سربراہ ہیثم علی طباطبائی المعروف ابوعلی سمیت 28 افراد جاں بحق ہوگئے۔

زمینی پیشقدمی

امن معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج پیلی لائن تک ہٹالی گئی تھیں لیکن 20 نومبر کو شمال میں اسرائیل فوج نے اس لکیر سے 300 میٹر آگے بڑھ کر پوزیشن سنبھال لی اور یہ کمزور امن سمجھوتہ عملاً کالعدم ہوگیا۔ دوسری طرف مزاحمت کاروں نے بھی خبردار کردیا ہے کہ “جنگ بندی” سے مزید مذاق برداشت نہیں کیا جائے گا۔

بچوں کی لاشیں… عالمی یومِ اطفال کا تلخ تحفہ

نام نہاد امن معاہدے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 بچے جان سے جاچکے ہیں۔ اسکی تصدیق کرتے ہوئے اقوام متحدہ چلڈرن فنڈ یا UNICEFکے ترجمان Ricardo Piresنے کہا۔یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہربچہ خواب و امنگ سے مالا مال گھرانے کا فرد تھا جسکی زندگی عرصے سے جاری وحشیانہ تشدد نے یکایک چھین لی۔ جمعرات 20 نومبر،  عالمی یومِ اطفال تھاجس دن  غزہ کے بچوں کو اسرائیل، اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی طرف سے سات جنازوں کا تحفہ ملا۔ننھے جنازے باپ کے کندھوں پر بڑے بھاری ہوتے ہیں،  اوراہل غزہ کے کندھے اپنے مہہ رخوں اور مہہ پاروں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے ٹوٹ چکے ہیں۔

بارش، سردی اور خیموں کا شہر — اذیت میں اضافہ

موسم سرما کی پہلی بارش نے  اہل غزہ کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ خیمے ٹپکنے سے بچے کھچے گرم کپڑے اور دوسرا سامان گیلا ہوگیا اور معصوم بچے شدید سردی میں ٹھٹھررہے ہیں۔ بارش نے خیمہ بستیوں کی بے بسی اور بڑھا دی ہے

اسرائیلی جیلوں میں تشدد سے درجنوں فلسطینی جاں بحق

اسرائیلی ڈاکٹروں کی تنظیم Physicians for Human Rights-Israel کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق غزہ خونریزی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی جیلوں میں 98 قیدی 'پراسرار موت' کاشکار ہوئے ہیں۔ جنکے جسموں پر تشدد اور بھوک کی علامات ہیں۔ سرکش قیدیوں کا کھانا پینا بند کرکے انکی المناک موت کو دوسرے قیدیوں کی عبرت کیلئے استعمال کیا جاریا ہے

قطر کی مذمت — ثالثی کے ٹوٹتے ہوئے دھاگے

تازہ اسرائیلی حملوں کے بعد قطر وہ واحد ضامن ملک ہے جس نے کھل کر اسرائیل کی “سفاک کارروائیوں” کی مذمت کی ہے۔ قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ صریح اشتعال انگیزی جنگ بندی سبوتاز کر سکتی ہے۔ بیان میں ریاست اسرائیل کے بجائے Israeli Occupationکا لفظ استعمال کیا گیا۔ جس سے تاثر قائم ہواکہ قطر بھی دوریاست کے بجائے نہر یا بحر فلسطین کا حامی ہے۔

غرب اردن — قبضہ، چاکنگ، توڑ پھوڑ، نسل کشی

گزشتہ سات دن مغربی کنارے پر بھی آگ اور خون کا ہفتہ ثابت ہوئے۔ نابلوس، بیت فوریک، حوارہ، الخلیل اور سوسہ پر حملے گئے گئے۔ ایک 80 سالہ بزرگ کو نماز کیلئے جاتے ہوئے انکے گدھے سمیت زخمی کر دیا گیا۔ گھروں، گاڑیوں، باغات کو آگ لگا دی گئی۔ بدنام زمانہ قوم پرست گروہ Tag Mehir دیواروں پر 'قیمت چکاؤ' جیسے نعرے  لکھ کر دہشت دہشت پھیلاتا رہا۔

جانوروں کی نسل کشی

المُغَیَّر میں فلسطینی کسانوں کی بھیڑوں کو زہر دے دیا گیا۔ جب ظلم بے قابو ہو جائے تو فصلوں، گھروں اور عبادت گاہوں کے بعد جانور بھی محفوظ نہیں رہتے۔

آثارِ قدیمہ کے نام پر بیدخلی کا نیا حربہ

اسرائیلی وزارت دفاع کے ماتحت ادارے Coordinator for Government Affairs in the Territories (COGAT)نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غربِ اردن میں نابلوس کے علاقے سبسطیہ کی 1,800 دونم (تقریباً 445 ایکڑ) اراضی کو ’’ایک قدیم آثارِ قدیمہ کے مقام کے تحفظ اور ترقی‘‘ کے نام پر ضبط کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔زمین پر قبضے کا تازہ فیصلہ محض ’’آثارِ قدیمہ کی حفاظت‘‘ کا منصوبہ نہیں، بلکہ فلسطینی آبادی کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کی ایک نئی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔

دنیا کا بدلتا رویّہ — سنگاپور کی پابندیاں

سنگاپور نے فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد اقدامات  پر چار اسرائیلیوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔وزارتِ خارجہ نے ان چاروں پر مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اقدامات انجام دینے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔ان افراد پر اس سے پہلے یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔اس سے پہلے سنگاپور کے وزیرِ خارجہ ویوین بالا کرشنن نے پارلیمان میں کہا تھا کہ سنگاپور مناسب وقت پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے اُن اسرائیلی سیاستدانوں پر بھی تنقید کی جو مغربی کنارے اور غزہ کے حصوں کو ضم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سنگاپور کا فیصلہ اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف آبادکار تشدد اب محض ایک “داخلی معاملہ” نہیں رہا، بلکہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جو اسرائیل کے روایتی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، اب اس پالیسی پر خاموشی ترک کررہے ہیں۔

امریکی سفارت کاری اور اسرائیلی بیانیہ

دوسری طرف اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائیک ہکابی اسرائیلی طاقت کو مذہبی تفسیر کے ذریعے درست ثابت کرنے میں مصروف  اور ہر انسانی المیے کو "خدا کی منشا" قرار دیتے ہیں۔انھوں نے حالیہ حملوں کو "دہشت گردی" کہا لیکن اسے چند نوجوانوں کی شرارت قرار دے کر اصل حقیقت کو کم کر دیا۔ ان کا غرب اردن کو "جودیا و سامریہ" کہنا اسرائیل کے سیاسی بیانیے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

اہلِ غزہ کا آہنی عزم — ملبے پر فٹبال ٹورنامنٹ

درندگی سے ایک لاکھ کے قریب لوگ شہید، ہزاروں معذور، مسلسل بمباری، اشیائے ضرورت و کھانے کی قلت، پانی نایاب لیکن  نئی زندگی کا عزم سلامت ہے۔دیر بلاح میں معذور نوجوانوں کے درمیان فٹبال میچ ہوا۔
مقابلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جسمانی نقصان کے باوجود جوانانِ غزہ مستقبل سے مایوسی نہیں۔

ایک بچی — امید کی علامت

نو سالہ  الہام ابوحجاج اوراسکے  چھوٹے بھائی کے سوا سارا خاندان اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگیا۔ خود الہام کا سارا جسم جل گیا تھا لیکن اللہ نے اسے سلامت رکھا اور زخم بھرگئے۔ الجزیرہ سے باتیں کرتے ہوئے الہام نے کہا ہر حال میں اللہ کا شکر، جو ہوجائے، میں غزہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاونگی۔رب ساتھ ہے تو غم کیسا؟وہ اپنے بھائی کے ساتھ انہی پتھروں پر اپنا گھر دوبارہ بنا رہی ہے۔

نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، یورپ کی خاموشی، ضامنوں کی بے حسی، سفارتی ابہام اور اسرائیلی درندگی دیکھ کر مایوسی چھانے لگتی ہے لیکن اہلِ غزہ کے کھیلوں میں جھلکتا عزم، معذور نوجوانوں کی مسکراہٹ، اور الہام جیسی بچیوں کو گھر تعمیر کرتے دیکھ کر یقین آجاتا یے کہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فلسطینی عوام شکست قبول نہیں کریں گے۔ ظلم کے سائے گہرے ہیں، مگر امید کا چراغ بجھنے والا نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 نومبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 نومبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 نومبر 2025


Thursday, November 13, 2025

 

غزہ ! رونگٹے کھڑے دینے والے انکشافات

وحشت کے آغاز ہی سے غزہ کے بارے میں چونکا دینے والی خبریں سامنے آرہی رہی ہیں، مگر برطانوی چینل ITV پر نشر ہونے والی نئی دستاویزی فلم Breaking Ranks: Inside Israel’s War” اس سلسلے میں ایک نئی اور ہولناک جہت کا اضافہ کرتی ہے۔اس فلم میں موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکار پہلی بار کھلے انداز میں کیمرے کے سامنے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک گھنٹے کی اس فلم میں پہلے سے رپورٹ شدہ باتوں کے علاوہ کچھ ایسے مخصوص واقعات بھی پیش کیے گئے ہیں جو اس سے قبل منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔

یہ فلم ایرانی نژاد معروف فلم ساز بنجامن زینڈ (Ben Zand) نے ترتیب دی ہے، جو مشکل اور حساس موضوعات پر تحقیقی دستاویزی فلموں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ متعدد فوجیوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی، لیکن ان کے بیانات مل کر ایک ایسی عسکری مہم کی تصویر کھینچتے ہیں جسے کئی اہلکاروں نے ’’بے مہار‘‘ اور ’’اخلاقی طور پر گمراہ کن‘‘ قرار دیا۔

انکار کی دیوار میں پڑتی دراڑیں

فلم میں شامل کئی فوجیوں نے اعتراف کیا کہ غزہ میں کارروائی کے دوران عسکری ضوابط اتنے ڈھیلے کردئےگئے تھے کہ عام شہریوں کی زندگی یا موت ایک لمحاتی غلط فہمی پر منحصر رہ گئی۔ایک افسر کے مطابق، اُن کے سامنے ایسے واقعات ہوئے  کہ  چھت پر کپڑے سکھاتے لوگوں کو  مشتبہ قرار دے کر اُن پر فائر کھول دیا گیا۔

مچھر پروٹوکول،  انسانی ڈھال کے ذریعے سرنگوں کا نقشہ

فلم کا سب سے خوفناک انکشاف وہ طریقہ ہے جسے “Mosquito Protocol” کانام دیا گیا۔ٹینک کمانڈر ڈینیل (Daniel) نے بتایا کہ گرفتار فلسطینی شہریوں کی جیکٹ میں اسمارٹ فون نصب کرکے انھیں زیرِ زمین سرنگوں میں بھیجا جاتاتاکہ GPSکے ذریعے راستوں کا نقشہ اور خطرات سے آگہی حاصل کی جاسکے۔۔ڈینیل کے مطابق اسکے یونٹ نے سب سے پہلے یہ طریقہ آزمایا، اور ایک ہفتے کے اندر تقریباً ہر کمپنی اپنا ’مچھر‘ استعمال کر رہی تھی۔اکتوبر 2024 کی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی اس بات کا ذکر تھا کہ کاوائیوں کے دوران ڈرونزاور کتوں کے ساتھ گرفتار افراد کو بھی خطرناک مقامات پر استعمال کیا جاتا تھا۔

توہین آمیز شناخت

اس مقصد کیلئےاسرائیلی جیل سے لائے گئے  قیدیوں کو ’ بھِڑ یا واسپس‘‘ (Wasps) اور غزہ سے مقامی طور پکڑے گئے افراد کو ’’مچھر‘‘ (Mosquitoes) کہا جاتا تھا۔

کارروائیوں پر مذہبی رہنماؤں کا دباؤ

میجر نیٹا کیس پین (Neeta Caspin)نے ایک واقعہ بیان کیا جس میں بریگیڈ کے مذہبی رہنما ربی ابراہام زاربِو (Rabbi Avraham Zarbiv)نے انہیں کہا کہ  ہمیں بھی 7 اکتوبر جیسا جواب دینا چاہیے, چاہے سامنے شہری ہی کیوں نہ ہوں۔ کوئی امتیاز نہیں کرنا چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے۔ فلم میں رابائی زاربِو خود بولتے دکھائی دیتے ہیں کہ غزہ میں سب کچھ ایک بڑے عسکری ڈھانچے کا حصہ ہے۔ ہم اس جگہ کو تباہ کرنے پر لاکھوں شیکل (اسرائیلی کرنسی) خرچ کر رہے ہیں۔

زاربِو اس سے پہلے  بھ اسرائیلی میڈیا میں بھی اپنے خیالات ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے  مئی میں کہا تھا کہ غزہ کو ’’زمین بوس‘‘ کرنا ہی واحد حل ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بصری تراشہ وائرل ہوا جس میں ربائی صاحب  خان یونس میں ایک عمارت کو بُل ڈوزر سے گراتے دکھائے گے۔ پس منظر میں ایک سپاہی کی آواز آتی ہے:
“Rabbi Zarbiv is ‘Zarbiving’ a house in  Gaza.”

جب جوابدہی ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا ہے؟

فلمساز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ گواہیاں نہ صرف ان اقدامات اور فیصلوں پر روشنی ڈالتی ہیں جو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھے گئے بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے جب جوابدہی ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا ہے۔'

غزہ جنگ پر دنیا کی بحث اب کسی ایک ملک کے بیانیے تک محدود نہیں رہی۔جب خود کارروائی میں شامل اہلکار یہ کہیں کہ قوانین جنگ معطل کردئے گئے تھے  تو کیا یہ سب محض ’’غلطیاں‘‘ تھیں، یا نظم کے نام پر بے نظم طاقت کی ایک منظم حکمتِ عملی؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 نومبر 2025