Wednesday, July 2, 2025

 

 نیویارک کے رئیس شہر کا انتخاب

ٹرمپ سے نیتن یاہو تک سب کی امیدوں پر پانی پھرگیا

جوانسال زہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ جیتنے میں کامیاب

رئیسِ شہر نیویارک (Mayor)کے پرائمری انتخابات میں 33 سالہ ہندوستان نژاد زہران ممدانی نے کامیابی حاصل کر لی۔ امریکہ میں انتخابات کے لیے جماعتی ٹکٹ پارٹیوں کے قائدین یا پارلیمانی بورڈ جاری نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے جسے پرائمری انتخاب کہا جاتا ہے۔ یعنی ابھی زہران ممدانی نے رئیس شہر کے انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ اصل مقابلہ 5 نومبر کو ہوگا۔

نیویارک کے انتخابات کی گونج امریکہ سے اسرائیل تک سنائی دے رہی ہے، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے نتائج کے اعلان کے بعد جناب ممدانی پر 'کمیونسٹ' کی پھبتی کسی۔ اسرائیلی اخبارات میں زہران ممدانی کی شخصیت اور سیاسی نظریات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے زہران ممدانی کے خاندانی و نظریاتی پہلوؤں پر چند سطور:

زہران ممدانی کے والد ڈاکٹر محمود ممدانی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے اور بہت ہی کم عمری میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا چلے گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دارالسلام، تنزانیہ میں ہوئی اور اسکول سے فارغ ہوتے ہی وہ اسکالرشپ پر ریاست پینسلوینیا کی جامعہ پیٹسبرگ (University of Pittsburgh) آ گئے، جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں بی اے کیا۔ محمود ممدانی دورانِ طالب علمی نسلی مساوات اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہے اور جیل بھی کاٹی ،یعنی زہران ممدانی کو مزاحمتی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ جامعہ ہارورڈ میں PhD کے لیے محمود ممدانی ان کا مقالہ بھی یوگنڈا کی طبقاتی سیاست پر تھا۔ انھوں نے 1991 میں اڑیسہ کے پنجابی ہندو خاندان سے تعلق رکھنے  والی فلم ساز میرا نیر سے شادی کر لی جو عمر میں ان سے 12 سال چھوٹی ہیں۔زہران ممدانی نے کمپالا میں جنم لیا۔ ان کے والد شیعہ مسلمان اور والدہ ہندو ہیں، جبکہ زہران خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، یعنی شیعہ سنی کا لیبل انھیں پسند نہیں۔

جب زہران پانچ سال کے تھے تو ان کے والد جامعہ کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے وابستہ ہو گئے، لیکن صرف دو سال بعد ان کا خاندان نیویارک آ گیا، جہاں زہران نے ابتدائی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد بوڈین کالج، مین (Bowdoin College, Maine) سے بی اے کی سند حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی وہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رہے اور کالج میں Students for Justice in Palestine کا حلقہ قائم کیا۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد زہران ممدانی کرایے کی ادائیگی میں مستحق لوگوں کی مدد اور گھر بدری نوٹس ملنے پر قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ والدہ کی وجہ سے زہران کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور انھوں نے میرا نیر کی فلموں کے لیے دھنیں تیار کیں۔

عملی سیاست میں زہران ممدانی کا داخلہ مختلف رہنماؤں کی انتخابی مہمات سے ہوا، جن میں بائیں بازو کے رہنما قادر الیتیم، Ross Barkan اور Tiffany Cabán شامل ہیں۔ زہران نے خود کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند دھڑے Democratic Socialists of America سے وابستہ کر لیا اور 2020 میں نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ انھوں نے یہ نشست 2022 اور 2024 میں برقرار رکھی۔ صوبائی اسمبلی میں وہ سرگرم ترین رکن سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے 20 مسودۂ قانون پیش کیے اور 230 سے زیادہ بلوں کا حصہ بنے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران وہ ایک بار بھی اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر نہیں رہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں زہران ممدانی نے رئیسِ شہر کے لیے قسمت آزمائی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی نیویارک میں ہے، اس لیے یہاں سے جیتنے کے لیے یہودی آشیر واد ضروری ہے۔ زہران کسی بھی مذہب یا عقیدے سے وابستہ کے لوگوں کے مخالف نہیں، لیکن فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کا موقف و عزم بہت واضح ہے اور وہ اس کے اظہار میں کوئی مداہنت نہیں برتتے۔ وہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئے تو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ کہ ان کی والدہ بھی فلسطینیوں کے حقوق کی ایسی ہی پُرجوش حامی ہیں۔ جولائی 2013 میں انھیں دعوت دی گئی کہ وہ حیفہ (اسرائیل) فلم میلے کے دوران اپنی فلم پیش کریں۔ آہنی عزم کی حامل اس خاتون نے دعوت نامے کے جواب میں لکھا:

میں اسرائیل تب جاؤں گی جب

  • (اسرائیلی و فلسطینی آبادیوں کے بیچ کھڑی) دیواریں گرا دی جائیں گی
  • (فلسطین سے) قبضہ ختم ہوگا
  • وہاں ایک مذہب کو دوسرے پر امتیازی برتری حاصل نہ ہوگی
  • وہاں نسل پرستی (Apartheid) کا خاتمہ ہوگا

خط کے اختتام پر زہران کی والدہ نے لکھا:

"میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے علمی و ثقافتی بائیکاٹ (PACBI) کی حامی ہوں۔"

اس ذاتی و خاندانی پس منظر کے ساتھ نیویارک کے رئیس شہر کے لیے میدان میں اترنا زہران ممدانی جیسے مضبوط اعصاب والے شخص کا ہی کام ہے۔ انھوں نے غریب طبقے کے مفادات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا، جن میں کام پر آنے جانے کے لیے مفت بس سواری، مکانوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں اور مالک مکان کی من مانیوں پر نظر، اور شہریوں کو مناسب قیمت پر اشیائے خورد و نوش فراہم کرنے کے لیے سرکاری گروسری اسٹور کا قیام شامل ہے۔

ابتدا میں سو سے زیادہ امیدوار میدان میں اترے جن کی اکثریت نوشتۂ دیوار پڑھ کر دوڑ سے علیحدہ ہو گئی، اور آخر میں صرف 12 امیدوار رہ گئے۔ اصل مقابلہ نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو اور زہران ممدانی میں تھا۔ اینڈریو کومو کے والد آنجہانی ماریو کومو بھی گورنر رہ چکے ہیں۔ ماسوائے Jewish Voice for Peace کے، تمام یہودی اور قدامت پسند تنظیموں و گروہوں نے کومو کی حمایت کی۔ یہاں پر بھی اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا۔ بطور گورنر اینڈریو کومو بددیانتی، بھتہ خوری اور جنسی زیادتیوں کے اسکینڈل میں لت پت رہے اور موصوف نے گورنری سے استعفیٰ دے کر جان چھڑائی، لیکن محض ممدانی کو ہرانے کے لیے شائستہ و منصفانہ سیاست کے دعویداروں نے اینڈریو کومو کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔

دوسری طرف سینیٹر برنی سینڈرز اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند رہنماؤں نے زہران ممدانی کا کھل کر ساتھ دیا۔ پاکستان، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خواتین نے زبردست مہم چلائی۔ ہر ایک کو فون اور ہر گھر پر دستک دے کر رائے عامہ کو ہموار کیا۔ نتائج کے مطابق زہران ممدانی 43.51 فیصد ووٹ لے کر معرکہ جیت گئے، جبکہ اینڈریو کومو نے 36.42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اینڈریو کومو نے شکست کے بعد دستبردار ہونے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک کے حالیہ میئر ایرک ایڈمز بھی آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جبکہ ریپبلکن پارٹی 71 سالہ کرٹس سلوا (Curtis Sliwa) کو میدان میں اتار رہی ہے۔ ابھی انتخابات میں پانچ ماہ باقی ہیں، اس لئے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیلی حکومت سے لے کر امریکہ کے تمام متعصب انتہا پسند، زہران ممدانی کو ہرانے کے لیے یکسو ہیں، چنانچہ سخت مقابلے کی توقع ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے



 

 غزہ امدادی آپریشن  ۔۔۔ فلسطینیوں کیلئے موت کا جال

نیتن یاہو پر انتہاپسند اتحادیوں کا دباو۔۔ امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں کا راستہ بند

ابوشہاب دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں شدت

اگلے ہفتے تک غزہ میں جنگ بند ہوجائیگی۔۔ صدرٹرمپ

اسرائیل کیلئے 51 کروڑ ڈالر مالیت کی Bomb Guidance Kits

غرب اردن میں قبضہ گرد دہشت گردوں نے فلسطینیوں کو زندہ جلادیا

کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی گلوخلاصی۔۔ صدر ٹرمپ کی ترجیح اول

اٹلی کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ نے اپنی دوکانوں سے اسرائیلی مصنوعات ہٹادیں۔

انگلستان کا رقص و موسیقی میلہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں تبدیل ہوگیا

غزہ میں امدادی کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ہفتے ان وارداتوں میں تقریباً 500 افراد جاں بحق اور کئی ہزار شدید زخمی ہو گئے۔ہر فائرنگ کے بعد اسرائیلی فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ متاثرین پہلے سے نشان زدہ عسکری علاقے میں داخل ہوئے تھے اور فوج نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی۔

امدادی پروگرام کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ "ہم اہلِ غزہ کی مدد کے لیے کھانے پینے پر بڑی رقم خرچ کر رہے ہیں"۔ لیکن اسی وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گتریس (António Guterres) نے دوٹوک الفاظ میں کہدیا کہ امریکہ کا غزہ آپریشن "موت کا جال" ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے گتریس کے بیان پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ غزہ میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ لیکن اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے جناب گتریس کے الزام کی تصدیق کردی۔ ستائیس جون کوشایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 'اسرائیلی فوج کے افسران نے انکے نمائندے کو بتایا کہ انھیں غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مقامات کے قریب غیر مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہاں کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد فوجی استغاثہ نے ممکنہ جنگی جرائم کے جائزے کا مطالبہ کیا ہے۔

25 جون سے امدادی ٹرکوں کی غزہ آمد جزوی طور پر معطل ہے۔ وزیر خزانہ اور "ریلیجئیس صیہونسٹ پارٹی" کے سربراہ بیزلیل اسموترچ نے الزام لگایا تھا کہ امداد مزاحمت کاروں تک پہنچ رہی ہے، لہٰذا ترسیل و تقسیم کے نظام کے شفاف ہونے تک اسے روکدیا جائے اور اگر یہ مطالبہ نہ ماناگیا تو انکی جماعت حکومت سے الگ ہوجائیگی۔ پارلیمان میں انکی  7 نشستیں ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت 64 ارکان پر کھڑی ہے۔ اگر اسموترچ ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت اکثریت کھو دے گی۔ چنانچہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شفافیت یقینی ہونے تک غزہ میں  امدادی ٹرکوں کی آمد معطل رہے گی۔

فوج کی فائرنگ اور بمباری کے ساتھ ابو شہاب مافیا کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئی ہیں، اور کچھ ہسپتالوں کا انتظام  بھی مبینہ طور پر انہی کو دے دیا گیا ہے۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ابو شہاب کے دہشت گرد امدادی سامان چھین رہے ہیں اور یہ غنڈے خواتین سے بدسلوکی کے واقعات میں بھی ملوث ہیں۔

ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ غزہ میں امن کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قصر مرمریں میں 27 جون کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے تک جنگ بندی ہو جائے گی۔اس معاملے پر بات چیت کیلئے 7 جولائی کو نیتن یاہو واشنگٹن آرہے ہیں۔مجوزہ امن معاہدے کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اسکے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کوغیر مشروط رہا کرکے مزاحمت کاروں کو غزہ خالی کرناہوگا۔اسکے بعد فلسطینی مقتدرہ (PA) غزہ کا انتظام سنبھالے گی جسے مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی افواج سہارا دیں گی۔ سادہ الفاظ میں یہ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی تجویز ہےجسے مزاحمت کار کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔

کہا جارہا ہےکہ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر غیر مشروط جنگ بندی کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ 'صدر ٹرمپ کی ایک ڈانٹ نیتن یاہو کو معقولیت اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی ہے'۔ لیکن کیا امریکی صدر میں یہ ہمت ہے اور کیا ایسا کرنے کے بعد وہ اپنی صدارت برقرار رکھ سکیں گے؟؟؟ ہمارے خیال میں ایسا کرنا صدر صاحب کی سیاسی عاقبت کیئے سخت نقصان دہ ہوگا۔ان پھرتیوں اور چلت پھرت کے عوامل پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہمیں اہل غزہ کیلئے راحت کا فی الحال کوئی سامان نظر نہیں آتا۔

صدر ٹرمپ کے ’اخلاص برائے امن‘ کا عملی مظاہرہ 30 جون کوامریکہ کی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی (DSCA) اس اعلان میں دکھائی دیا جس کے مطابق اسرائیل کو 51 کروڑ ڈالر مالیت کی Bomb Guidance Kits فراہم کی جارہی ے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جو روایتی (غیر رہنمائی شدہ) بموں کو ’سمارٹ بم‘ میں تبدیل کر دیتا ہے تاکہ وہ مخصوص اہداف کو درستگی سے نشانہ بنا سکیں۔غزہ میں اس وقت اسکول، مدارس، اسپتال اور شفا خانے اسرائیلی حملوں کا نشانہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں امداد لینے والوں کی قطاریں اور بے گھر افراد کے خیمے بھی نشانہ بنے ہیں۔اس نظام کی فراہمی کا جواز پیش کرتے ہوئے DSCA نے کہا "امریکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے پُرعزم ہے، اور اسرائیل کو ایک مضبوط اور ہمہ وقت مستعد دفاعی صلاحیت فراہم کرنا امریکی قومی مفاد کا حصہ ہے۔ مجوزہ فروخت سے اسرائیل کی موجودہ اور آئندہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ اس سے سرحدوں، اہم تنصیبات اور آبادی والے علاقوں کے دفاع کی استعداد میں بہتری آئے گی۔"گویا یہ سب کچھ 'غریب و مظلوم' اسرائیل کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے..خرد کانام جنوں رکھدیاجنوں کا خرد

غزہ کیساتھ غرب اردن میں بھی فلسطینیوں پرمظالم میں اضافہ ہوگیا ہے،  25 جون کو رام اللہ کے قریب کفر مالک گاؤں پر حملہ کیا گیا، جہاں دہشت گردوں نے کئی گھروں کو آگ لگا دی، تین افراد زندہ جل گئے اور دیگر زخمی ہوئے۔ فوج نے نہ صرف ان حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ جلتے گھروں سے باہر آنے والوں پر فائرنگ بھی کی۔بعد میں کچھ دہشت گرد گرفتار کئے گئے لیکن وزیر داخلہ بن گوئر کے حکم پر انھیں اسی دن رہا کر دیا گیا۔

کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی بریّت اس وقت صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر مالی بددیانتی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے، جن پر خود درجنوں الزامات ہیں، نیتن یاہو کے دفاع میں فرمایا کہ اسرائیلی وزیراعظم پر الزامات "سیاسی انتقام" کی بدترین شکل ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو بچایا اور اب نیتن یاہو کو بھی بچائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، نیتن یاہو کو جانے دو، اس کے پاس کرنے کے بہت کام ہیں۔اپنےتازہ پیغام میں امریکی صدر نے مقدمات ختم نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کی مدد روکنے کی مبہم سی دھمکی بھی دیدی۔

ادھر برطانوی حکومت نے "Palestine Action" تنظیم پر پابندی لگا دی ہے، جس نے غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کیے تھے۔

عوامی دباؤ کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اٹلی کے سب سے بڑی سپر مارکیٹ چین "Coop Alleanza 3.0" نے اسرائیلی مصنوعات ہٹا دی ہیں اور فلسطینی معاون تنظیموں کی مصنوعات کو نمایاں جگہ دی ہے۔

اس بار یورپ کا موسیقی میلہ فلسطین سے یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔
انگلستان کے شہر سمرسیٹ کے گاؤں پیلٹن میں "افتادگی" (Fallow) کے خاتمے پر Glastonbury کا مشہور رقص و موسیقی میلہ منعقد ہوتا ہے۔ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں کو کچھ عرصے کے لیے افتادہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عموماً اس کا دورانیہ پانچ سال ہوتا ہے، چنانچہ گلاسٹنبری میلہ بھی اوسطاً ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔اس بار یہ میلہ 25 سے 29 جون 2025 تک جاری رہا، جس میں موسیقی کے شائق 30 ہزار سے زائد افراد فلسطینی پرچموں کے ساتھ شریک ہوئے۔سب سے پہلے  rapموسیقی کے فنکار Bob Vylan نے اسٹیج پر آکر شائقین سے "اسرائیلی فوج مردہ باد" کے نعرے لگوائے۔ اس کے بعد انہوں نے پرعزم انداز میں کہا: "یقیناً دریا سے سمندر تک فلسطین ہی فلسطین ہے"، جس پر مجمع نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے "آزاد فلسطین" کے نعرے بلند کیے۔

آئرلینڈ کے فلسطین نواز موسیقی طائفے "Kneecap" نے میلہ لوٹ لیا۔ جب گروپ کے رکن Liam Óg Ó hAnnaidh المعروف Mo Chara اسٹیج پر آئے تو مجمع نے "فری فری فلسطین" کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں کالعدم تنظیموں کے پرچم لہرانے کے باعث ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اسٹیج پر آکر کہا 'برطانوی وزیرِاعظم نہیں چاہتے تھے کہ ہم یہاں آئیں، لیکن دیکھو اسٹارمر! ہم یہاں موجود ہیں'۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی حکام نے اس تقریب کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ میلے میں کوئی خلافِ قانون سرگرمی تو نہیں ہوئی۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے



 

Friday, June 27, 2025

 

 تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ، بمباری اور حملوں کا سلسلہ جاری

اسرائیل غزہ میں انسانی حقو ق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہے۔ یورپی یونین کی رپورٹ

مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر قیدی رہا کردیں۔ نیتن یاہو کا اصرار

مسجد اقصی مقفل کردی گئی۔ انتہا پسندوں کی جانب سے اسکی شہادت کا خدشہ

جامعہ کولمبیا نیویارک کے طالب علم رہنما محمود خلیل رہا

میں غزہ دوبارہ جاونگا، فریڈمFlotilla کے ولندیزی ملاح کا عزم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی وجہ سے غزہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا، لیکن اسرائیل نے خونریزی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس ہفتے بھی امدادی مراکز پر راشن کے نام پر موت کی تقسیم جاری رہی اور اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے درجنوں نوجوان جاں بحق ہوئے۔ ابوشہاب کے دہشت گردوں کی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں، لیکن مزاحمت کار ان غنڈوں کی سرکوبی میں کامیاب نظر آ رہے ہیں اور ان کے درجنوں چھاپہ مار فلسطینیوں سے تصادم میں مارے گئے۔ اس دوران پورے غزہ پر بمباری کا سلسلہ بھی جاری رہا اور کئی اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے۔

غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا کا ردعمل سست ہے، لیکن سوشل میڈیا کی برکت سے یورپ میں اب چوکوں اور چوراہوں پر یہ موضوعِ سخن بن چکا ہے۔ عوامی دباؤ پر یورپی یونین کی سفارتی سروس نے غزہ کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وزارت خارجہ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیلی اقدامات یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدے میں موجود انسانی حقوق کی دفعات کی خلاف ورزی کا اشارہ دیتے ہیں۔"

رپورٹ میں مزید وضاحت کی گئی کہ "اسرائیل یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی، شہری علاقوں پر بمباری، ہسپتالوں پر حملے اور اب امدادی مراکز پر فائرنگ ان خلاف ورزیوں کی چند مثالیں ہیں۔ ان اقدامات کو حادثاتی یا Collateral damage کہ کر نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی۔"

اسرائیلی وزیر خارجہ گدون ساعر نے رپورٹ کو متعصبانہ اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے یورپی یونین کو لکھے گئے خط میں کہا کہ "اخلاقیات تقاضا کرتی ہیں کہ رپورٹ کی خامیوں پر توجہ دی جائے اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔" (حوالہ: یورونیوز)

ایرانی میزائل حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے، جس کی وجہ سے قیدیوں کی واپسی اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے مظاہرے بھی معطل ہیں، مگر لواحقین کی سوشل میڈیا مہم زوروں پر ہے۔ اتوار 22 جون کو وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی زیرزمین پناہ گاہ سے پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اہل غزہ کو شاندار مستقبل دینا چاہتے ہیں، بشرطیکہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر قیدیوں کو رہا کریں، تبھی جنگ ختم ہوگی۔

یہ ایک پرانی تجویز ہے جو اسرائیلی اور امریکی رہنما ایک سال سے دہرا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت کار کسی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر ان کا موقف غیر متزلزل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے اس بیان کے دوران میزائل حملے کے الارم بج اٹھے، اور تمام صحافی زیرزمین پناہ گاہ کی طرف دوڑ گئے۔ CNN کے سینئر میزبان اینڈرسن کوپر بھی اسی دن تل ابیب پہنچے تھے۔

ایران پر حملے کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو تالہ لگا دیا ہے۔ جمعہ 13 جون کو نماز فجر کے فوراً بعد نمازیوں کو مسجد سے نکال دیا گیا۔ فوج دروازوں پر پہرہ دے رہی ہے اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی اقدامات کا حصہ ہے کیونکہ ملک بھر میں اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

وقف بورڈ کے ڈائریکٹر عون بن باز نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پابندی عوامی حفاظت کے لیے لگائی گئی ہے لیکن ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ خدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اس بہانے مسجد کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔"

انہوں نے سوال کیا کہ "اگر ایران-اسرائیل جنگ جلد ختم نہیں ہوتی تو کیا مسجد اقصیٰ غیر معینہ مدت تک بند رہے گی؟" مغربی یروشلم میں دیوار گریہ پر پابندی نہیں ہے، اور 22 جون کو وزیراعظم وہاں عبادت کر کے اخبارات کی سرخیاں بنے۔ ایک تشویشناک افواہ یہ بھی ہے کہ انتہا پسند مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اسے ایرانی میزائل حملے کا شاخسانہ قرار دیا جا سکے۔

گذشتہ ہفتے امریکہ کے وفاقی جج مائیکل فاربیئرز نے جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ محمود خلیل پر غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کا الزام تھا، اور وزیر خارجہ کے حکم پر امیگریشن حکام نے ان کا گرین کارڈ منسوخ کر کے 8 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔

محمود خلیل کو لوئیزیانا کے حراستی مرکز میں رکھا گیا جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ جج نے کہا کہ ان کے فرار ہونے کا کوئی امکان نہیں اور ان کے آزاد رہنے سے امن عامہ کو کوئی خطرہ نہیں، لہٰذا انہیں رہا کیا جائے۔

رہا ہوتے ہی محمود خلیل دوبارہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہوگئے۔ 22 مارچ کو نیویارک کی سینٹ جان کیتھیڈرل کے باہر بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایران پر امریکہ کے حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ امریکی عوام کی مرضی کے خلاف ہے۔

گذشتہ ہفتے ہم نے غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر میڈیلین کا ذکر کیا تھا، جن کے نام پر غزہ جانے والے فریڈم فلوٹیلا کی کشتی موسوم ہے۔ آج چند الفاظ اس کشتی کے ولندیزی ملاح وین رینس کے بارے میں۔ وین رینس نے اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد وطن ہالینڈ پہنچ کر استقبالیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ دوبارہ جانے کے لیے پرعزم ہیں اور جب تک فلسطینیوں پر ظلم و ستم جاری رہے گا، فلوٹیلا کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

ایرانی میزائل حملوں سے اسرائیل میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے، لیکن غرب اردن میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ایرانی میزائل حملے کے ایک ٹکڑے نے 14 جون کو الخلیل میں گرا، جسے نوجوانوں نے فاتحانہ گشت کے لیے ایک پک اپ پر لاد کر پورے علاقے میں ایران و فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ برباد و تباہ حال، لیکن زندہ دل لوگ ہر معاملے میں جشن کا پہلو نکال لیتے ہیں۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 27 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 جون 2025


 

 ایران کا قطر کے امریکی ڈے پر حملہ

ایران اور اسرائیل جنگ بندی مشکوک نظر آرہی ہے

23 جون کو ایران نے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے "العدید" پر میزائل داغ دیے۔ ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل امیر حاتمی کے مطابق یہ حملہ امریکی بمباری کے جواب میں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا: "ہم نے اتنے ہی میزائل داغے جتنے بم امریکہ نے ہم پر برسائے تھے۔" جنرل حاتمی نے مزید وضاحت کی کہ یہ کارروائی امریکہ کے خلاف تھی، قطر کے عوام سے ہمارے برادرانہ تعلقات قائم ہیں، اسی لیے حملے سے قبل قطر کو پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔

ابتدائی طور پر قطر کا ردِعمل خاصا سخت تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الناصری نے کہا کہ ایران کی کارروائی قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے اور ہم اس کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں جب قطری افواج نے اعلان کیا کہ ان کا دفاعی نظام تمام میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، تو وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ فریقین بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرلیں گے۔ عسکری ماہرین اس حملے کو علامتی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ایران اور قطر قریبی اتحادی ہیں، اور تہران کی جانب سے ایسی کارروائی کی توقع نہیں کی جا سکتی جس سے قطری عوام کو نقصان پہنچے۔

اسی روز عراق میں امریکی فوجی اڈے "کیمپ کوک" پر بھی ڈرون حملہ ہوا۔ بغداد سے شمال میں واقع اس اڈے پر امریکی حکام کے مطابق کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حملے کے دوران سعودی عرب، عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں تاکہ کسی ممکنہ حملے سے بچا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق ایران کا یہ حملہ زیادہ تر علامتی اور بے ضرر تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 8 فیصد کمی دیکھی گئی۔ اگر خطرہ حقیقی ہوتا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ متوقع تھا۔ اسی طرح امریکی اسٹاک مارکیٹ کا ڈاؤ جونز انڈیکس 375 پوائنٹس اوپر گیا اور ایشیائی منڈیوں میں بھی مثبت رجحان دیکھا گیا۔

صدر ٹرمپ نے بھی حملے پر ایک نسبتاً متوازن بیان دیا: "ایران نے متوقع طور پر جوہری تنصیبات کی تباہی کے جواب میں ایک کمزور ردعمل دیا، جس کا مؤثر طریقے سے جواب دیا گیا۔ 14 میزائل داغے گئے، جن میں سے 13 مار گرائے گئے، اور ایک میزائل کو جانے دیا گیا کیونکہ وہ کسی خطرناک مقام کی طرف نہیں جا رہا تھا۔ خوشی ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔"

انہوں نے مزید کہا: "ایران نے پیشگی اطلاع دے کر ایک مثبت قدم اٹھایا، جس سے نقصان کا اندیشہ ٹل گیا۔ شاید ایران اب خطے میں امن و ہم آہنگی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، اور میں اسرائیل کو بھی یہی مشورہ دوں گا۔"

اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور پیغام میں اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے، جو تقریباً چھ گھنٹے بعد شروع ہو جائے گی اور ابتدائی طور پر 12 گھنٹے جاری رہے گی۔ اس کے بعد اس جنگ کو باضابطہ طور پر ختم سمجھا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ان کی استقامت، حوصلے اور فہم پر مبارکباد پیش کی۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیل سے جنگ بندی کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق: "اگر اسرائیل اپنی جارحیت روک دے تو ایران بھی جوابی کارروائی بند کر دے گا۔"

23 جون کی صبح ایران نے میزائلوں کے چھ شدید حملے کیے، جس کے بعد عراقچی نے ایک بار پھر جنگ بندی کی آمادگی ظاہر کی۔ اسی دوران صدر ٹرمپ نے اعلان کیا: "جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، براہ کرم اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔"

منگل 24 جون کی دوپہر اسرائیل نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی ۔وزیراعظم آفس (PMO) سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'ابھرتے شیر' آپریشن نے ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی اور میزایل پروگرام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ اعلامئے میں متنبہ کیا گیا کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کا تباہ کن جواب دیا جائیگا۔

صدر ٹرمپ امن و شانتی کے منترپڑھتے ہوئےایران کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں لیکن انکی تلون مزاجی اور دروغ گوئی کی بنا پرایرانیوں اور فلسطینی کیلئے اعتماد مشکل ہے۔اگرچہ کہ اسرائیل اور ایران کی حالیہ لڑائی کی وجہ تہران کا جوہری پروگرام ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ غزہ خونریزی ہے۔ ایران کھل کر غزہ مزاحمت کاروں کی پشت پناہی کررہا ہے جس نے ایران کے خلاف اسرائیل کی نفرت کو مزید بھڑکادیا۔ صدر ٹرمپ جوہری پروگرام اور غزہ نسل کشی دونوں معاملے میں اسرائیل کے حامی ہیں۔ اہل غزہ کو قتل و برباد کرنے کیلئے استعمال ہونے والا ایک ایک بم، میزائیل، گولے اور گولیاں امریکہ کی فراہم کردہ ہیں۔اہل غزہ کی بربادی سے صدر ٹرمپ کا تجارتی مفاد وابستہ ہے وہ غزہ کو پرتعیش Riviera میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جسکے لئے اہل غزہ کی نسل کشی ضروری ہے۔

اسرائیل اور امریکہ و مغرب کو ایران کا نظام حکومت پسند نہیں اور وہ اپنا طریقہ زندگی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب اسلامی ممالک میں مغربی ثقافت تو چاہتا ہے لیکن اسے ان ملکوں میں جمہوریت پسند نہیں کہ اسکے نتیجے میں ڈاکٹرمورسی، ڈاکٹر مصدق، فلسطین میں اسماعیل ہانیہ، راشدالغنوشی اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ حکومت میں آسکتے ہیں۔اسرائیل نے ایران پر حملے کا ایک ہدف Regime Changeقراردیا تھا اور صدر ٹرمپ نے بھی دودن پہلے اپنے MAGAکے وزن پر ایران کیلئے Make Iran Great Againیا MIGA تجویز کیا ہے۔ ان تمام بیانات اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے موجودہ جنگ بندی شکوک و شبہات سے خالی نہیں۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2025


Thursday, June 26, 2025

 

 ایران پر امریکہ  کا حملہ

 قم کے قریب فردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا گیا

صدر ٹرمپ نے الٹی میٹم ختم ہونے سے پہلے ہی شب خون ماردیا

امن قائم کرو یا سانحہ سہنے کو تیار ہوجاو۔ ایران کو صدر ٹرمپ کی دھمکی

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں میری انٹیلیجنیس ڈائریکٹر کا تجزیہ غلط ہے۔ صدر ٹرمپ

عراق کے WMDسے ایران کے ایٹم بم تک ۔۔ امریکی جھوٹ کا تسلسل

اسرائیل میں خبروں پر سخت سینسر اور شہریوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی

صدر ٹرمپ نے اپنے ناقابلِ اعتبار ہونے کا ایک اور ثبوت دے دیا۔ جمعرات، 19 جون کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قصر مرمریں کی ترجمان محترمہ کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے خیال میں بات چیت کے ذریعے ایرانی جوہری تنازعے کا حل ممکن ہے، اس لیے صدر نے ایران میں فوجی مداخلت کے فوری امکان کو مسترد کر دیا ہے اور اس سلسلے میں فیصلہ دو ہفتے بعد کیا جائے گا۔

لیکن صرف دو دن بعد قم کے قریب فردو یورینیم افزودگی پلانٹ، نطنز کے افزودگی کمپلیکس اور اصفہان میں جوہری تحقیقاتی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کی تیاری ایک ہفتے سے جاری تھی۔ ایرانی اور اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ قم کے مضافاتی علاقے فردو کا یورینیم افزودگی پلانٹ پہاڑی چٹانوں کے نیچے کئی سو فٹ گہرائی میں ہے اور اس گہرائی تک صرف 30 ہزار پاؤنڈ کے دیوہیکل GBU-57 بنکر بسٹر بم ہی پہنچ سکتے ہیں۔

اپنے پہلے دور اقتدار میں صدر ٹرمپ اس بم سے ملتا جلتا GBU-43/B ننگر ہار، افغانستان پر گرا چکے ہیں، جسے بموں کی ماں یا MOAB کہا جاتا ہے۔ اکیس ہزار 700 پاؤنڈ وزنی اس بم میں 1800 پاؤنڈ بارود بھرا تھا، جبکہ GBU-57 کی دھماکہ خیز قوت 5300 پاؤنڈ ہے۔ یہ بم 200 فٹ موٹی چٹانوں کو چیر کر نیچے پھٹتا ہے۔ ان بھاری بموں کو صرف B2 بمبار ہی لے جا سکتے ہیں۔

حملے سے ایک دن پہلے فاکس نیوز نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے خبر دی تھی کہ B2 بمبار امریکی ریاست میزوری کے وہائٹ مین اڈے سے بحرالکاہل میں امریکی کالونی گوام پہنچا دیے گئے ہیں۔ اس سے دو دن پہلے خبر آئی تھی کہ دورانِ پرواز ایندھن بھرنے والے تیس KC-135 ایئر ٹینکر امریکی سے مشرق وسطی بھیجے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایران کے ممکنہ جوابی حملے کی پیش بندی کے طور پر قطر کے امریکی اڈے پر موجود تمام طیارے، بحری بیڑوں پر کھڑے کر دیے گئے۔

حملے کی ابتدائی تفصیلات کے مطابق فردو کی یورینیم افزودگی تنصیبات کو چھ GBU-57 بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا، جبکہ نطنز اور اصفہان پر 30 ٹاماہاک میزائل سے حملہ ہوا جو امریکی بحری جہازوں سے داغے گئے تھے۔

حملے کے بعد نائب صدر جے ڈی وانس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع ہیگ سیتھ کے ہمراہ قوم سے اپنے فاتحانہ خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ آج فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا اور یہ ایرانی تنصیبات ختم کر دی گئی ہیں۔ ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے، ورنہ ہمارے نئے حملے بہت شدید ہوں گے۔ ایران کو ردعمل کی صورت میں مزید مہلک حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب امن یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا، تاہم ایرانی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں صدر ٹرمپ نے 2016 سے ایران کے ایٹم بم کا ہوا کھڑا کر رکھا ہے اور وہ مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کسی بھی وقت جوہری بم بنا کر اسرائیل اور علاقے میں امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تاہم کسی آزاد ذریعے سے جناب ٹرمپ کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ صرف دو ماہ پہلے، 25 مارچ کو، ان کی ڈائریکٹر انٹیلیجنس شریمتی تلسی گیبارڈ نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے سراغرسانی (SSCI) کے روبرو امریکہ اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کو حائل خطرات پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ:"انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا، اور سپریم لیڈر خامنہ ای نے جوہری ہتھیاروں کے اس پروگرام کی دوبارہ اجازت نہیں دی ہے جسے انہوں نے 2003 میں معطل کر دیا تھا۔"

دوسرے دن موصوفہ نے لفظ بہ لفظ یہی بیان ایوان نمائندگان کی مجلس قائمہ برائے سراغرسانی (HPSCI) کے سامنے دہرایا۔

حملے سے دو روز پہلے جب صدر ٹرمپ کو ایک صحافی نے کہا کہ "انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری بم نہیں بنا رہا" تو امریکی صدر جھلا کر بولے:"انٹیلیجنس کمیونٹی غلط کہتی ہے۔ ایران کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ اسے بنا رہا ہو یا نہیں۔"پھر اسی صحافی سے پوچھا کہ انٹیلیجنس کمیونٹی میں کون یہ کہہ رہا ہے؟ جب انھیں بتایا گیا کہ آپ کی انٹیلیجنس ڈائریکٹر تلسی گیبارڈ! تو امریکی صدر فوراً بولے: "گیبارڈ غلط کہتی ہے۔"

شنید ہے کہ صدر ٹرمپ نے برہم ہو کر تلسی گیبارڈ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بلانا چھوڑ دیا ہے۔ تلسی صاحبہ بھی زمانہ و مردم شناس خاتون ہیں، چنانچہ وہ فوراً سجدہ سہو میں گر گئیں اور فرمایا کہ:
"
بددیانت میڈیا نے میرے بیان کو وسیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا ہے اور یہ کہ ایران ہفتوں یا (زیادہ سے زیادہ) مہینوں میں ایٹم بم بنا سکتا ہے۔"

جھوٹ کی بنیاد پر کسی ملک پر حملہ آور ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تین مارچ 2003 کو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ نے یہی کہہ کر عراق پر حملہ کیا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) بنا رکھے ہیں۔ اس موقع پر فرانس، جرمنی اور نیوزی لینڈ کی سراغرسان اداروں نے دلائل و شواہد کے ساتھ امریکیوں کے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا، اور اسی بنا پر یہ ملک حملے میں امریکہ کے ساتھ نہیں گئے۔

اس بات پر امریکی اتنے مشتعل ہوئے کہ کانگریس کیفے ٹیریا کے مینو پر فرنچ فرائی (French Fries) کو فریڈم فرائی سے تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ انتہا پسند ارکان کانگریس نے نیو یارک ہاربر پر فرانس کی جانب سے تحفے میں دیے گئے مجسمہ آزادی کو اکھاڑنے کا مطالبہ کیا۔

ٹائمز آف لندن نے 5 مارچ 2003 کو معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ کریکنل کا ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جو انہوں نے دوسرے ماہرین کے علاوہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ رابن کوک اور برطانوی سراغرساں ایجنسی M16 کے سابق ڈائریکٹر جان اسکارلیٹ سے تفصیلی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ عراق کے پاس WMD نہیں ہے۔

فاضل تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ حملے سے دو ہفتے قبل برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے بھی یہ تسلیم کر لیا کہ WMD کی اطلاع غلط ہے، لیکن انہوں نے مبینہ طور پر فرمایا:"حملے کی تیاریاں مکمل ہیں اور عین وقت پر کارروائی روک دینے سے کمزوری کا تاثر ابھرے گا۔"

اس بات کا ذکر خود صدر ٹرمپ نے 2016 کی انتخابی مہم کے دوران کیا۔ اس وقت صدر بش کے بھائی جیب بش ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے لیے جناب ٹرمپ کے حریف تھے۔ ایک مباحثے کے دوران جب جیب بش نے اپنے      بھائجان کی تعریف کی تو جواب آیا:"ہاں، وہی جس نے عراق میں WMD کا جھوٹا دعویٰ کرکے ایک ملک کو تباہ کر دیا۔"

چار سال بعد، 2020 کی مہم کے دوران جب سابق وزیر خارجہ انجہائی کولن پاول نے جناب ٹرمپ کو جھوٹا کہا تو موصوف تڑخ کر بولے:"واہ بھئی واہ، جس شخص نے عراقی WMD کے بارے میں سفید جھوٹ بولا وہ مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے۔"

امریکی حملے کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔ گزشتہ تین چار دنوں میں ایرانی میزائلوں کے نشانے درست اور مزید مہلک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران جو فرطِ صوتی یا hypersonic میزائل داغ رہا ہے وہ غیر مرئی (Stealth) ہیں۔

بیس جون کی صبح پھینکا جانے والا میزائل امریکہ کے آئرن ڈوم دفاعی نظام کو چکنا چور کر کے بیر سبع کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سے پہلے خیال تھا کہ ایران ایک ساتھ بڑی تعداد میں میزائل فائر کرتا ہے اور ان سب کو روکنا آئرن ڈوم کے لیے ممکن نہیں اور کچھ میزائل اس سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن اب اکیلا میزائل آئرن ڈوم کی حفاظتی دیوار روند گیا۔ ایران کے فضائی دفاعی نظام میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے ایرانیوں نے اسرائیل کا جدید ترین ہرمس Hermes 900 ڈرون اصفہان میں مار گرایا۔ عبرانی میں خوشاف یا ستارہ کہلانے والا یہ پرندہ 30 ہزار فٹ کی بلندی پر پ300 کلو گرام وزنی بارود اٹھا کر مسلسل 30 گھنٹے پرواز کرسکتا ہے۔

میزائل حملوں سے اسرائیل میں شدید ہیجان اور خوف و ہراس ہے۔ سائرن بجتے ہی پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے ہوئے گر کر اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سیڑھیوں سے گرنے اور پھسلنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ایرانی میزائلوں سے زیادہ اسرائیلی بدحواسی میں زخمی ہو رہے ہیں۔

اب کچھ پناہ گاہوں میں ضعیف و معذور افراد، پرامید خواتین اور بچوں کے لیے مستقل رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پناہ گاہوں میں صفائی کا بحران بھی ہے کہ بیت الخلا کثرت استعمال کی وجہ سے ابل رہے ہیں اور تعفن ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ فوجی حکام مسلسل ہدایات دے رہے ہیں کہ پناہ گاہوں کی طرف سکون اور اطمینان سے جائیں لیکن جب جان پر بنی ہو تو توازن و احتیاط ذرا مشکل ہے۔ اسی بنا پر 22 جون کو ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا۔

اسرائیلی فوج کی داخلی کمان (Home Command) نے جو احکامات جاری کیے ہیں، اس کے مطابق جلسے، اجتماعات، عوامی تقریبات پر پابندی ہوگی۔ تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور صرف ضروری دکانیں کھلی رہیں گی۔

ایرانی میزائل حملوں سے گھبرا کر متمول اسرائیلی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے شہریوں کے ملک سے باہر جانے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس وقت فضائی سفر محفوظ نہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی بحری راستے سے یونانی قبرص اور خلیج عقبہ سے مصر کے پر تعیش مقام شرم الشیخ "ہجرت" کر گئے ہیں۔ زمینی راستے سے بھی کچھ اسرائیلی مصر اور اردن جا رہے ہیں۔

بدھ 18 جون کو اسرائیلی کابینہ نے اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کر لی جس کے مطابق حکومت کی سربراہی میں قائم ہونے والی استثنائی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی شہری بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ سول سوسائٹی سے وابستہ تنظیم Movement for Quality Government نے کابینہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسرائیلی صحافی سنسرشپ اور نقل و حرکت پر پابندی سے بے حد پریشان ہیں۔ غزہ کے بعد اب سارا اسرائیل صحافیوں کے لیے no go area بن گیا ہے اور صحافیوں کو "مٹر گشتئ" کی اجازت نہیں۔ فوج کا محکمہ اطلاعات ہر چار گھنٹے بعد پریس نوٹ جاری کرتا ہے جو اب خبر کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران نے غیر ملکی صحافیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

سی این این کے نمائندے فریڈ پلیٹگن نے تہران میں قومی ٹیلی ویژن کی اس جلی ہوئی عمارت کے اندر سے رپورٹنگ کی جو اسرائیلی حملے میں تباہ ہو چکی ہے۔ جمعہ کو ایرانیوں کے مظاہرے کی روداد بھی امریکی صحافیوں نے براہ راست سنائی، جس میں ایک شخص نے مکا لہراتے ہوئے کہا:"امریکہ اور اسرائیل ہمیں موت سے ڈراتے ہیں۔ شہادت ہمارے لیے شہد سے میٹھی ہے۔"

حملے کے بعد ایرانی مجلس (پارلیمان) نے آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) بند کرنے کی قرارداد منظور کر لی۔ ملک کی قومی سلامتی کونسل سے توثیق کے بعد اسے حتمی منظوری کے لیے رہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای کو پیش کیا جائے گا۔

ایک سو ساٹھ کلومیٹر طویل آبنائے ہرمز خلیج فارس کو خلیج عمان سے ملاتی ہے یعنی یہ خلیج فارس کو کھلے سمندر سے ملانے کا واحد آبی راستہ ہے۔ کویت، بحرین اور قطر کی سمندر تک رسائی کا یہ واحد راستہ ہے۔ دنیا کا ایک تہائی تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب بحری آمد و رفت کے لیے بحیرہ احمر استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کے تیل و گیس کے تمام بڑے میدان خلیج یا اس کے ساحل پر ہیں، اس لیے تیل کی نقل و حمل آبنائے ہرمز سے ہی ہوتی ہے۔ سعودی عرب East West پائپ لائن کے ذریعے خلیج کے کنارے ابقیق سے خام تیل بحیرہ احمر کی بندرگاہ ینبوع کے راستے بھیج سکتا ہے لیکن اس راستے میں آبنائے باب المندب کا پلِ صراط حائل ہے جس پر حوثی نشانچی بیٹھے ہیں۔ امریکہ اس آبنائے پر ایران کی بالادستی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا۔آبنائے ہرمز کا جنوبی ساحل متحدہ عرب امارات اور عمانی علاقہ مسندم سے ملتا ہے جہاں عسکری حلقوں کے خیال میں امریکہ نے ایک فوجی اڈا قائم کر رکھا ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 جون 2


024

روزنامہ امت کراچی 27 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 جون 2027