لشکرِ جدعون یا Gideon's Chariot آپریشن
کا آغاز۔ اسرائیل کا نیا مذہبی ٹچ
امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر
دباو نہیں ڈالے گا۔ اسٹیو وٹکاف
امریکہ غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، صدر ٹرمپ
غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estateنہیں۔
مزاحمت کاروں کا صدر ٹرمپ کو جواب
اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے ۔ہسپانوی وزیراعظم
اطالوی ارکانِ پارلیمان کا غزہ نسل کشی
کیخلاف بابِ رفح پر مظاہرہ
آزاد فلسطین کے حق میں حریدی فرقے کا جلوس،
انتہا پسند وزیرکی بیوی کوطمانچے لگ گئے
امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک
جاری
جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اسکے چار دن بعد
یعنی 27 مئی کو غزہ نسل کشی کے 600 دن مکمل ہوجائینگے اور اس وحشت کے ختم ہونے کا
بظاہر کوئی انکار بھی نہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو اور انکے جنونی اتحادی غزہ کے ایک
ایک شہری کے قتل یا انخلا سے پہلے بمباری بند کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی نسل پرستوں کی غیر مشروط پشت پناہی
کیلئے امریکہ کا عزم بہت واضح اور غیر مبہم ہے۔ گزشتہ ہفتے جب اسرائیلی وزیراعظم
نے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP)سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ غزہ پر حملے کسی صورت نہیں
روکے جائینگے۔ اگر مزاحمت کار قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوئے تو وقتی طور پر
فائربندی ہوگی اور قیدیوں کی بازیابی کے بعد حملے دوبارہ شروع کردئے جائینگے۔اس پر
تبصرہ کرتے ہوئے فلسطین کیلئے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے صاف صاف کہا
کہ امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباو نہیں ڈالے گا۔ اگر مزاحمت
فلسطینیوں سے مخلص ہیں تو ہتھیار رکھ کر غزہ چھوڑ دیں کہ اسکے سوا اسرائیلی حملے
روکنے کا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔
دوسروں سے کیا شکوہ کہ خود عرب دنیا کی جانب سے اس معاملے پرکوئی
قدم اٹھانا تو دور کی بات اس کا کسی اہم نشست میں کہیں ذکر بھی سنائی نہیں دیتا۔
چند روز پہلے عرب شیوخ و سلاطین نے صدرٹرمپ کی ایک مسکراہٹ پر اربوں ڈالر نچھاور
کردئے اور کسی کو ان مظلومو ں کے حق میں ایک لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ ہر
جگہ ٹرمپ صاحب غزہ کے مزاحمت کاروں پر غُراتے رہے اور انتہائی رعونت سے بولے اگر
میں امریکہ کا صدر ہوتا تو طوفان الاقصیٰ کا واقعہ پیش نہ آتا۔ساری دنیا کو انسانیت
کے خلاف اس گھناونے جرم کی مذمت کرنی چاہئے۔ غزہ کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے
امریکی صدر نے کہا کہ غزہ موت کی وادی ہے، ایک عمارت بھی سلامت نہیں۔ہم چاہتے ہیں
کہ امریکہ غزہ کو کنٹرول میں لے کر اسے کوچہ آزادی میں تبدیل کردے۔ ان ارشادات
گرامی پر عرب رہنما انتہائی سعادت مندی سے سرجھکائے رہے لیکن اہل غزہ نے ترنت ایک
بیا داغا کہ غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل
فروخت Real Estate نہیں۔یہ فلسطینی ریاست کا
اٹوٹ انگ ہے۔ قتل عام اور نسل کشی کے باوجود ہم تھکے نہیں اور مزید قربانیوں کیلئے
تیار و کمر بستہ ہیں۔غزہ انخلا کے حوالے سے امریکہ کے NBCٹیلی
ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ دس لاکھ اہل غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کے امریکی منصوبے کو
آخری شکل دی جارہی ہے۔
اسوقت غزہ میں اسرائیلی کا ہدف مزاحمت کاروں
کے عسکری سربراہ اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار ہیں۔ انکے قتل کیلئے سارے
غزہ پر 30 ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر کم گرائے جارہے ہیں ۔جمعرات 22 مئی کو فجر سے
شروع ہونے والی بمباری کا سلسلہ آج چوتھے دن بھی جاری ہے۔ حملے کے پہلے دن فجر سے
ظہر کے درمیان 94 افراد جاں بحق ہوئے اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تعداد اس سے تین
گنا ہے۔ اب تک محمد سنوار کے قتل کی کوئی مستند خبر نہیں آئی۔
یوم سبت پر 17 مئی کو لشکرِ جدعون (Gideon's Chariot) کے نام سے نیا آپریشن شروع
کیا گیا ہے جسکے لئے محفوظ دستوں کے پانچ
تازہ دم ڈویژن اور ٹینکوں کا نیا دستہ غزہ پہنچا دیا گیا۔ عبرانی روایات بتاتی ہیں
کہ حضرت ابراہیم ؑ کی ایک اہلیہ حضرت قطورہ کی اولاد خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر
آباد ہوگئی اور یہ علاقہ مدین کہلایا۔ کچھ عرصے بعد مدین لٹیروں اور ڈاکووں کا
مسکن بن گیا۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے کی شیطانی روائت کا آغاز بھی مدین سے ہوا
تھا۔توریت کی سورہ Judges کے مطابق ایک خداترس جنگجو، جدعون 300 سپاہیوں کا مختصر لشکر لے کر یہاں آیا
اور اس نے ان بے ایمانوں کو شکست دیکر مدین پر دوبارہ فلسفہ ابراہیمی کے تحت
منصفانہ حکومت قائم کردی۔نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کے قتل عام کو خدا ترس
مجاہدین سے منسوب کرتے ان وحشیوں کو ذرا شرم نہ آئی۔
عالمی رہنما غزہ نسل کشی پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہی لیکن
امریکہ کے خوف سے اسرائیل پر دباو ڈالنے کیلئے پابندیوں اور دوسری تادیبی کاروائیوں
کی کسی میں ہمت نہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے
غزہ پر مکمل قبضے کی مہم کو انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی
قراردیتے ہوئےایک بیان میں کہا کہ فوجی دباؤ ڈال کر شہری آبادی کو مصری سرحد کی
طرف دھکیلنا غزہ کو ایک خاص نسل یعنی فلسطینیوں سے خالی کرانے کی منظم مہم ہے ،
جسے غیر قانونی نسلی تطہیر کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔جناب ترک نے کہا
کہ نسلی تطہیر بین الاقوامی قوانین کے تحت انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے
سب سے مضحکہ خیز بیان فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا ہے۔البانیہ
کے دارالحکومت ترانہ کی یورپی سربراہ کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ غزہ بدترین
انسانی المئے کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے پر امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے
بات کرینگے۔اگر یہ بات انھوں نے ازراہ تفنن کی ہے تو یہ بھونڈا مذاق اور سنجیدگی
کی صورت میں ہمیں انکی دماغی حالت پر شک ہورہا ہے۔غزہ کے قتل عام میں امریکی اسلحہ
اور اسرائیلیوں کے بازو استعمال ہورہے ہیں اور قصاب سے بکرے پر رحم کی درخواست کو
خللِ دماغ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟؟؟
غزہ نسل کشی کے خلاف ہسپانیہ کا موقف کسی حد تک جاندار لگ رہا ہے۔ بغداد
میں عرب لیگ سربراہی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران وزیراعظم پیدرو سانچیز نے
کہا کہ غزہ میں اسرائیل نے انتہاکردی ہے۔ ہسپانیہ، اقوام متحدہ میں ایک قرارداد کے ذریعے عالمی
عدالت انصاف (ICC)سے جنگ بندی کا حکم جاری کرنے کو کہے گا کہ یہ فلسطین اسرائیل
تنازعہ نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔ اس سے ایک دن پہلےوزیراعظم سانچیز نے اپنی
پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے اور میڈرڈ ایسے
ملک سے کاروبار نہیں کرسکتا۔وزہراعظم سانچیز نے اسرائیل کو یورویژن (Eurovision)موسیقی میلے سے نکالنےکا
مطالبہ بھی کیا۔نغمات کا سالانہ عالمی مقابلہ آجکل سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہورہا ہے۔ ہسپانوی
وزیراعظم نے میلے کے منتظمین سے مطالبہ کیا کہ غزہ نسل کشی کی بناپر اسرائیل کو اس
قسم کے مقابلوں میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ انھوں نے یاد دلایا کہ یوکرین جارحیت کے
بعد روس پر یورویژن کے دروازے بند کئے جاچکے ہیں۔
پارلیمان میں ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اطالوی وزیراعظم محترمہ
جارجیا میلونی نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کے دوران بین
الاقوامی قانون کا احترام کرنا چاہیے. انسانی امداد پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ اٹھارہ مئی کو اطالوی ارکانِ پارلیمان نے مصر غزہ سرحد یعنی
باب ر فح پر معصوم بچوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں حکومت
اور حزب اختلاف دونوں کے نمائندے شامل تھے۔شائد اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم
نیتن یاہو نے اہل غزہ کیلئے امدادی سامان پر پابندی اٹھالی ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی انکے
انتہاپسند اتحادیوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور عظمت یہودی جماعت نے کہا ہے کہ
اگر امدادی سامان کی بحالی برقرار رہی تو وہ حکومت سے الک ہوجائینگے۔جماعت کے
سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے کہا کہ دنیا جو چاہے کرلے ہم
شیطانی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونگے۔ دلچسپ بات کہ موصوف کے انتہا پسند موقف
کی خود اسرائیل میں مزاحمت شروع ہوچکی ہے۔یروشلم کے مضافاتی علاقے بیت الشمس (Beit Shemesh)میں انکا حریدی فرقے کی طرف
سے صیہونیت مردہ باد، فری فری فلسطین کے نعروں سے استقبال ہوااور انکی اہلیہ کو
یاروں نے طمانچے جڑدئے۔
جس دن نیتن یاہو نے لشکرِ جدعون کا اعلان کیا اسی روزہزاروں اسرائیلیوں
نے غزہ میں زندہ دفن کردئے جانیوالے بچوں
کی تصویریں لیکر زبردست مظاہرہ کیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے بچوں کا
قتل عام موسیٰؑ کی تعلیمات کے خلاف ہے کہ نعرے لگائے۔
گزشتہ ہفتے جب
اسرائیلی
وزیرخارجہ جدون سعر جاپان کے دورے پر آئے تو ٹوکیو پریس کلب کے سامنے مقامی
صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔ اپنی تقریروں میں پریس کلب کے رہنماوں نے کہا کہ اسرائیل
نے غزہ کو آزاد صحافت کا قبرستان بنادیا ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف ہالینڈ کے شہر
ہیگ میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ خونزیری کی علامت کے طور پر مظاہرین نے سرخ
لباس پہن رکھے تھے۔ خواتین نے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ شرکت کی۔
اس حوالے ے بڑی موثر پیشرفت غزہ نسل کشی کے خلاف برطانیہ، کینیڈا
اور فرانس کی مذمت اور پابندیاں لگانے کی دھمکی ہے۔ ان تینوں ممالک نے ایک مشترکہ
بیان میں کہا 'اسرائیلی حکومت کا شہری آبادی کے لیے بنیادی انسانی امداد کا انکار
ناقابل قبول ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کا خطرہ
ہے۔ہم مغربی کنارے پر بستیوں کی توسیع کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری
رہا تو اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں'
پابندیوں اور ملک بدری کے باوجود امریکی جامعات بھی سینہ سپر
ہیں۔گزشتہ ہفتے جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University)، کیلی فورنیا کے طلبہ اور اساتذہ نے غزہ سے
ہم آہنگی کیلئے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ کیمپ میں موجود اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ
ہڑتال اور احتجاج کیساتھ اہل غزہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں
کو دیکھ ہمیں پیٹ بھر کے کھانا کھاتے شرم آتی ہے۔
طلبہ کا خلاف ٹرمپ اتتظامیہ کی انتقامی کاروائیوں پر عدالتوں سے
داد رسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون کے طالب علم
ڈاکٹر بدر خان سوری کو وفاقی جج نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ہندوستان نژاد ڈاکٹر سوری مبینہ
طور پر مزاحمت کاوں کے ایک سابق رہنما کے داماد ہیں۔انھیں 17 مارچ کو ایمگریشن
پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے غزہ نسل کشی کی مذمت کے الزام میں گرفتار
ہونے والے محسن مہدوی اور پی ایچ ڈی کی ترک نژاد طالبہ Rümeysa Öztürkکو بھی ضمانت پر رہائی مل
چکی ہے۔
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوے: اٹھارہ مئی کو صحافی عزیزالحجار،
عبدالرحمان اور خاتون صحافی نور قندیل اسرائیلی بمباری میں اپنی جانوں سے گئے۔حملے
میں عزیزالحجار کی اہلیہ اور نور قندیل کے شوہر خالدابوسیف بھی جاں بحق ہوئے۔غزہ
میں جان سے گزرنے والے صحافیوں کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کرچکی ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 مئی 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 23 مئی 2025
روزنامہ امت کراچی 24 مئی 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 مئی 2025