Friday, April 25, 2025

 

پانچ سال کی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا۔ مصر و قطر کا نیاامن فارمولا

نیتن یاہو کو ملک کے اندر شدید مزاحمت کا سامنا

حکومتی "عزائم" کی تکمیل کے لئے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں۔ اسرائیلی جرنیل

خفیہ ایجنسیاں Deep Stateکی نجی ملیشیا میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ نیتن یاہو کا شکوہ

 اپنا شہری رہا کرانے کیلئے امریکہ کے مزاحمت کاروں سے براہ راست مذاکرات؟؟؟

فرانسیسی و برطانوی ارکان پارلیمان کے اسرائیلی ویزے منسوخ

 امریکہ یمن میں  30ہزار پونڈ کے Massive Ordnance Penetrator بم استعمال کررہا ہے

غزہ میں ایک اور خاتون صحافی اسرائیل کے ہاتھوں قتل

غزہ اور غرب اردن میں ڈیڑھ سال سے جاری وحشت کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسکی بنیادی وجہ اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی مشکلات ہیں۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی نیتن یاہو کو ایوان وزیراعظم خالی کرنا ہوگا۔ انکے خلاف بے ایمانی، مالی بدعنوانی اور اختیارکے غیر قانونی استعمال کے اتنے پرچے کٹ چکے ہیں کہ کوئے یار سے انھیں سیدھا سو ئے دار (جیل) جانا ہوگا۔ متکبر نیتن یاہو، غزہ، غربِ اردن، جنوبی لبنان، شام اور یمن کو برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن پورس کے اس بدمست ہاتھی سے اب اسرائیل بھی محفوظ نہیں۔اسرائیل کی قوت کا راز اسکا سراغرسانی کا کامیاب نظام ہے اور اس شعبے کے تینوں اداروں یعنی موساد، شاباک (Shin Bet)اور یونٹ 8200سے وزیراعظم کی ٹھنی ہوئی ہے۔

اکتوبر 2023 میں غزہ پر حملے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو غزہ میں جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ حکومت کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کیلئے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ جانی و مالی نقصان میں اضافے کیساتھ انگشت نمائی و الزام تراشی کا آغاز ہوا اور ایوان وزیراعظم محلاتی سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ عالمی فوجداری عدالت سے وزیراعظم، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری کے بعد 'یہ سب تمہاری غلطی ہے' قائدین کا تکیہ کلام بن گیا۔ اسکے ننیجے میں وزیردفاع گیلینٹ اور فوج کے سربراہ سمیت صف اول کے جرنیلوں کا مستعفی ہونا پڑا۔ وزیراعظم نیتن یاہو کی بے ایمانی و بددیانتی کی کہانیاں پہلے ہی زباں رد عام تھیں، قطر گیٹ اسیکنڈل کی شکل میں رشوت ستانی کے نئے قصے مشہور ہوئے اور پتہ چلا کہ ٹبر کیساتھ مشیروں کا سارا طائفہ لوٹ مار میں شریک ہے۔

نیتن یاہو سمجھتے ہیں شاباک کی شکل میں گھر بلکہ جڑ میں بیٹھا بھیدی لنکا ڈھارہا ہے، چنانچہ انھوں نے خفیہ ادارے کے سربراہ رونن بار کو پروانہ برطرفی تھمادیا لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر عدالت نے برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرکے معاملے کو معلق کردیا۔ اٹارنی جنرل غالی بہاروو میعارا صاحبہ کی جانب سے شاباک کی پشت پناہی حکمرانوں کیلئے نیا دردسر ہے۔ دوسری طرف فوج کیلئے غزہ کی دلدل گہری ہوتی چلی گئی۔جرنیلوں نے نجی مجالس میں وزیراعظم سے اپنی تشویش کاذکر کیا لیکن 'فتح مبیں' کے گنبد میں بند نیتن کچھ سننے کو تیار نہ ہوئے جس پر فوجی افسران اور سراغرساں اداروں نے کھلے خط کی شکل میں اپنے خدشات اور تحفظات عوام کے سامنے رکھ دئے۔ اب وزیراعظم کے ساتھ انکے حکمراں لیکڈ اتحاد نے بھی خفیہ اداروں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔پندرہ اپریل کو لیکڈ  نے سوشل میڈیا پر صاف صاف کہدیا کہ

شاباک کے سربراہ رونن بار اور اٹارنی جنرل بہارو میعارا نے سکیورٹی سروس کو'گہری ریاست (Deep State)کی نجی ملیشیا' میں تبدیل کر دیا ہے جو قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بنیادوں کو کمزورکررہی ہے۔ شین بیت تحفظِ اسرائیل کے بنیادی کام کے بجائے اب صحافیوں کو پکڑ دھکڑ اور اور ان سے پوچھ تاچھ میں مصروف ہے۔ پولیس افسران اور حکومتی اہلکاروں کی بلیک میلنگ کیساتھ وزرا اور ارکان پارلیمان کے خلاف تحقیقات کے کھاتے کھول دئے گئے ہیں۔ لیکوڈ اتحاد کا کہنا ہے کہ شین بیت کے ریاست کے اندر ریاست بن جانے کی وجہ سے غزہ کی جیتی ہوئی جنگ شرمناک شکست کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اندرونی چپقلش اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کو فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے بریفنگ دی۔حساسیت کی بناپر اس اجتماع کا TOP SECRETقرار دیا گیا یعنی وہاں موجود شرکا کو نوٹس لینے کی بھی اجازت نہ تھی۔ لیکن نشست ختم ہوتے ہی عبرانی خبر رساں ایجنسی Ynet Newsپر اجلاس کی خبر کچھ اسطرح شایع ہوئی 'سیاسی قائدین کے ایک خصوصی اجتماع کو فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے بتایا کہ ان کے پاس غزہ کی پٹی میں حکومت کے "عزائم" کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں۔اسرائیلی فوج نے اس خبر نما انکشاف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'چیف آف اسٹاف نے سیاسی حلقوں کے سامنے 'بند آپریشنل بحث' میں جو کچھ عرض کیا، اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور یہ حقائق کی عکاسی نہیں کرتا'۔ اس پر معروف دفاعی تجزیہ نگار یوف زیٹن (Yaov Ziton) نے خبر اور وضاحت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک درمیانی رائے کا اظہار کچھ اسطرح کیا کہ '(جنرل) ضمیر سیاسی قیادت سے کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ زمینی حقائق کے تناظر میں اپنے کچھ خواب و تصورات ترک کرلیں۔

غزہ نسل کشی کے طول پکڑ جانے سے فوج میں جو بیچینی ہے اسکا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اس ہفتے شہری ہوابازی کے 300پائیلٹوں نے وزیراعظم کے نام اپنے کھلے خط میں کہا کہ خونریزی جاری رہنے سے قیدیوں کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔مکتوب پر سرکاری اسرائیل ایئرلائن El Al کے علاوہ نجی جہاز راں کمپنیوں سے وابستہ پائلٹوں کے دستخط ہیں جنکی مجموعی تعداد اسرائیل کے دوتہائی ہوابازوں سے زیادہ ہے۔

اب جبکہ 'جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینےلگے' والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے تو موصوف خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے بہت ہی  مکروہ انداز میں غرارہے ہیں۔ ہفتہ 19 اپریل کو قوم کے نام اپنے جذباتی خطاب میں انھوں نے کہا مزاحمت کاروں کے مکمل خاتمے سے پہلے غزہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ غزہ میں مزاحمت کاروں کا اقتدار بحال رہنا اسرائیل کی شکست ہے۔

واشنگٹن میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے  نےغزہ کے بارے میں اپنی تشویش سے صدر ٹرمپ کو مطلع کردیا ہے۔سی آئی اے کے خیال میں غزہ اسرائیلی فوج کا دلدل بن چکا ہے۔ وحشیانہ بمباری سے عسکری اہداف کا حصول ممکن نہیں جبکہ زمینی دستوں کو ہر جگہ شدید مزاحمت کا سامناہے۔صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اہل غزہ سے براہ راست بات چیت کرکے امریکی قیدی عیدن الیکزنڈر اور چار امریکی لاشیں بازیاب کرالیں۔ عیدن کی زندگی کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ پندرہ اپریل کو شدید بمباری کے بعد سوشل میڈیا چبوترے Telegramپر مزاحمت کاروں کے ترجمان نے کہا  'بمباری کے بعد ہمارا اُس مرکز سے رابطہ ختم ہوگیا ہے جہاں کچھ  دوسرے قیدیوں کیساتھ عیدن الیگزنڈر کو رکھا گیا تھا، قیدیوں کی نگرانی پر مامور محافظین سے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔متحدہ عرب امارات کی خبر رساں ایجنسی Erem  کے مطابق صدر ٹرمپ نے مزاحمت کاروں سے براہ راست مذاکرات کیلئے اپنے خصوصی ایلچی آدم بوہلر کو قطر جانے کی ہدائت کی ہے۔

اسی کیساتھ 21 اپریل کو قطر اور مصر نے پانچ سے سات سال کی جنگ بندی کانیا امن فارمولا تجویز کردیا۔بی بی سی پر جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس دوران اسرائیل غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لے گا اور غزہ میں نظر بند تمام قیدی رہا کردئے جائینگے، جسکے عوض اسرائیل کو اپنے عقوبت کدوں سے سارے فلسطینیوں کو رہائی دینی ہوگی، جن میں غزہ سے گرفتار کئے جانیوالے بچے بھی شامل ہیں۔

ملک کے اندر بیچینی کیساتھ اپنے مغربی اتحادیوں کے سنگین تحفظات سے نیتن یاہو بوکھلائے سے لگ رہے ہیں۔ اتوار 20 اپریل کو اسرائیلی حکومت نے فرانسیسی پارلیمان کے 27ارکان کو ملک آنے سے روک دیا۔ ان قانون سازوں کا تعلق ماحول دوست (Ecologist) اور کمیونسٹ پارٹیوں سے ہے۔ چند روز پہلے برطانیہ کی برسراقتدار لیبر پارٹی کے دوارکان کے اسرائیلی ویزے منسوخ کئے جاچکے ہیں۔وضاحت کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا 'ان افراد کی سرگرمیاں اسرائیل کے قومی مفادات اور سلامتی کیلئے نقصان دہ ہیں' حوالہ: ٹائمز آف اسرائیلی

قیدیوں کے حراست کدوں پر بمباری کی خبر سے اسرائیل بھر میں مظاہروں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ یروشلم میں مظاہرے کے دوران حال ہی میں رہا ہونے والے عفر کلدڑن نے کہا کہ نیتن یاہو نے ہماری روح کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔اس ہفتے عوامی سطح پر 'جنگ ختم کرو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو' کے عنوان سے  اسرائیل میں دسخطی مہم کا آغاز ہوا اور پہلے ہی دن سابق وزیر اعظم یہودبراک، فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈین ہالُٹز، موساد کے سابق سربراہوں، اور غزہ قتل عام میں مصروف فوجیوں سمیت ڈیڑھ لاکھ افراد نے اس پر دستخط کردئے۔اسرائیلی ٹیلی ویژن 12 کے ایک جائزے میں 70 فیصد اسرائیلیوں نے جنگ ختم کرکے قیدی آزاد کرانے کی حمائت کی ہے۔

دوسری طرف امن مذاکرات کے ثالث،  قطر نے لگی لپٹی بغیرجنگ بندی کے حوالے سے اسرائیل کی بدنیتی کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ماسکو میں روسی صدر ولادیمر پیوتن سے ملاقات کے بعد میزبان کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیرِ قطر شیخ ثمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ 'ہم کئی ماہ پہلے ایک امن معاہدے پر متفق ہوچکے تھے لیکن بد قسمتی سے اسرائیل نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی'۔

غزہ اور غرب اردن پر اسرائیل کی وحشت کیساتھ امریکہ بہادر یمن پر قیامت ڈھائے ہوئے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے مطابق یمن کے خلاف اب انسانی تاریخ کا خوفناک ترین GBU-57A/B MOP (Massive Ordnance Penetrator)المعروف بنکر بسڑ بم استعمال کیا جارہا ہے۔ بوئنگ کا تیارکردہ 30 ہزار پونڈ کا یہ بم اپنے ہدف کو چیرتا ہوا زمین کے اندر 200 فٹ گھس کر پھٹتا ہے اور چٹانیں اور فولادی چادریں دھواں بن کر فضا میں اڑ جاتی ہیں۔ بیس فٹ لمبا اور 30 انچ قطر کا یہ بم اتنا بھاری ہے کہ روائتی بمباروں کیلئے انھیں اٹھانا ممکن نہیں چنانچہ قیامت گرانے کیلیے دیوپیکر B-2 Spiritبمبار استعمال کئے جارہے ہیں۔ امریکہ نے پانچ غیر مرئی (Stealth)بی 2 بمبار بحر یند کے ڈیکو کارشیا (Diego Garcia)اڈے پر پہنچادئے ہیں۔گزشتہ ہفتے بحیرہ احمر کی یمنی بندرگاہ راٗس عیسیٰ کو ان بموں سے اسوقت نشانہ بنایا جب وہاں جہازوں سے غلہ اتارا جارہا تھا۔ بمباری سے 75 کارکن جان بحق ہوئے اور قحط زدہ یمنیوں کا ٹنوں غلہ راکھ بن گیا۔اسی روز الحدیدہ بندرگاہ کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ تاہم یمنی میزائیلوں کا اسرائیل کی طرف سفر بھی جاری ہے۔اٹھارہ اپریل کو یمن سے منجنیقی (Ballistic)میزائیل داغے گئے، جسے اسرائیلی دفاعی نظام نے غیر مؤثر کردیا لیکن اسکا ملبہ گرنے سے کوہ یروشلم پر تاریخی ساریک غار کے قریب آگ بھڑک اٹھی۔ حفاظتی الارم کے سائرن بجنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد اس غار میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ میزائیل کے کچھ ٹکڑے بیت اللحم کے قریب گرے

ایک اور آئینہ چکناچور:

اس ہفتے 25 سالہ فری لانس فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسسونہ بمباری سے اپنے ماں باپ کیساتھ شہید ہوگئی۔فاطمہ کو کعبہ و مدینہ کی زیارت کا بہت شوق تھا اور اس مبارک سفر کیلئے اس نے زاد راہ بھی جمع کرلیا لیکن فاطمہ کا خیال تھا کہ اسوقت عمرے سے زیادہ اہم دنیا کو اسرائیلی مظالم کی تفصیل بتانا ہے، لہٰذا اس نے نیت کرلی کہ جنگ ختم ہونے پر وہ اپنے والدین کیساتھ عمرہ کریگی لیکن 16 اپریل کی صبح اسرائیلی طیاروں نے اسکے گھر کو نشانہ بنایا جس سے وہاں موجود تمام لوگ جاں بحق ہوگئے اور فاطمہ،  کعبہ کے بجائے رب کعبہ کے حضور پیش ہوگئی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

فوٹو جرنلزم کے حوالے سے غزہ کے نوسالہ بچے محمود عجور کی تصویرکشی پر نیویارک ٹائمز کے فوٹو گرافر کو  WORLD PRESS PHOTOکا ایوارڈ دیا گیا ہے۔اسرائیلی بمباری سے اس بچے کے دونوں بازو اڑ گئے ہیں۔ درندگی و وحشت کے اس استعارے پر انعام دینے والوں کو اس ظلمِ عظیم کی مذمت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔سچ ہے کہ غزہ کے لہو نے مغربی تہذیب کا میک اپ دھوکر اسکا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ سفاکی کا نیا سنگ میل عبور کرلیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف قیادت کرنے والے زیرحراست طالب علم رہنما محمود خلیل کی پرامید بیوی نور عبداللہ گھر پر بالکل اکیلی ہے۔ محمود کے وکلا نے ایمیگریشن حکام سے درخواست کی تھی کہ محمود خلیل کو Furlough (عارضی) پر چند روز کیلئے رہا کردیا جائے تاکہ ان مشکل لمحات میں اپنی بیوی کے ساتھ رہے۔لیکن ایمیگریشن حکام نے یہ درخواست مسترد کردی۔، 21 اپریل کو کی  بیوی نور عبداللہ نے چاند سے ایک بیٹے کو جنم دیا جو نور اور محمود کی پہلی اولاد ہے۔ولادت کیلئے ہسپتال جاتے ہوئے جب نور کو بتایا گیا کہ اسکے شوہر کی furloughدرخواست مسترد ہوگئی ہے تو اس حوصلہ مند لڑکی نے کہا 'کیا ہوا جو میرامحمود میرے ساتھ نہیں، ربِ محمود میرے ساتھ ہے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اپریل 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 اپریل 2025

روزنامہ امت کراچی 25 اپریل 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 اپریل 2025


Thursday, April 17, 2025

 

غزہ مزاحمت کار بہت گندے (Nasty)لوگ ہیں۔ صدر ٹرمپ

خودکو مزاحمت کاروں سے آزاد کرکے، ہمارے قیدی آزاد کردو۔ اسرائیل کی اہل غزہ کو دھمکی

دوسرے  مرحلے کے مذاکرات سے پہلے غیر مسلح ہونے کی تجویز مزاحمت کاروں نے مسترد کردی

دورانئے کے اعتبار سے غزہ خونریزی اسرائیل کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے

یہ سیاسی مفادات کی جنگ ہے۔اسرائیل کے ہزاروں فوجی اور خفیہ اداروں کے افسران کا بیان

کنیڈا کی انتخابی مہم میں غزہ نسل کشی کی بازگشت

امریکی جامعات میں حبس کی کیفیت۔ اربوں ڈالر کی وفاقی گرانٹ  معطل

ایمیگریشن جج نے طالب علم رہنما محمود خلیل کی ملک بدری کا فیصلہ درست قرار دے دیا

غزہ کے طول و عرض پر بمباری اور برو بحر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئےمصر کی ثالثی میں 'دہشت گردوں' سے براہ راست مذاکرات بھی کررہاہے۔ جمعہ 11 اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے  KAN نیوز ایجنسی کو بتایا کہ نیتن یاہو،  آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے پر تیارہیں۔اس دوران پائیدار امن مذاکرات کیلئے چالیس سے 70دن حملے بند رہیں گے۔ جبکہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور ر فح سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پرقائم ہیں۔ اس 'انکشاف' سے کچھ دیر قبل صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں کابینہ اجلاس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ 'ہم اسرائیل اور مزاحمت کاروں سے رابطے میں ہیں، قیدیوں کی رہائی بہت قریب ہے لیکن مزاحمت کار بہت گندے (Nasty) لوگ ہیں'۔

 ان مثبت اشاروں سے پھوٹنے والی امید کی کرن 14 اپریل کو اسوقت دم توڑ گئی جب مزاحمت کاروں کے ترجمان سمیع ابوظہری نے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیلی تجاویز کا متن انھیں موصول ہوچکا ہے جسکے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مزاحمت کاروں کو غیرمسلح ہونا ہوگا۔ ترجمان نے کہا یہ مطالبہ ہم کروڑوں بار مسترد کرتے ہیں۔اپنی جوابی تجویز میں مزاحمت کاروں نے کہا کہ اگر اسرائیل امن معاہدہ کرکے غزہ سے اپنی فوج واپس بلالے تو اسکے سارے کے سارے قیدی بیک وقت رہا کردئے جائینگے۔اسرائیل کے غیر جانبدار تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ اسلحہ رکھنے کی تجویز وزیرتزویراتی (Strategic)امور ران ڈرمر کے ذہن کی اختراع اور امن کی راہ میں بارودی سرنگ بچھانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی ہزاروں لوگوں نے تل ابیب میں ران ڈرمر کے گھر کے باہر دھرنا ڈال کر بیٹھ گئے۔

ہفتہ 12 اپریل کو جہاں امن مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا وہیں اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے آخری انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شایع ہواہے اسکے مطابق اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ ابھی اب اسرائیل فوج کا سیکیورٹی زون ہے۔ وزیردفاع نےاہل غزہ سے کہا 'کہ وہ خود کو مزاحمت کاروں سے آزاد کرکے ہمارے قیدیوں کو آزاد کردیں کہ یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے۔ اب مزاحمت کار خود ہی راہ فرار اختیار کررہے ہیں اور انکے لئے تمہاری حفاظت ممکن نہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچالو'۔یعنی بقول حضرت احمد فراز

تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو ۔۔ تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا ۔۔بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو

تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا فاضل وزیردفاع بیان کر رہے ہیں۔ اس طویل خونریزی نے جہاں غزہ اور اہل غزہ کو برباد کردیا وہیں سرائیلی فوج میں بھی تھکن بلکہ جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اس سے پہلے 1967 کی جنگ میں مصر، شام، اردن، عراق اور لبنان کے ساڑھے چار لاکھ سپاہی، 800 طیارے اور 2500 سے زیادہ ٹینک صرف چھ دن ثابت قدم رہ سکے۔چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے  کل 900 سپاہی ہلاک ہوئے۔چھ سال بعد 1973 کی جنگ رمضان (جنگ یوم کپر)  صرف 23 دن جاری رہی، اس جنگ میں مصر اور شام کو الجزائر، عراق، لیبیا اور تیونس کے علاوہ شمالی کوریا اور کیوبا کی مدد بھی حاصل تھی۔ جنگ رمضان میں اسرائیل کے 2800 فوجی مارے گئے۔ جبکہ حالیہ خونریزی 560 دنوں سے جاری ہے جس میں 40 ہزار مزاحمت کاروں کے مقابلہ پر اسرائیل نے محفوظ (Reserve)سپاہیوں سمیت اپنے لاکھوں فوجی جھونک رکھے ہیں۔جھڑپوں میں  اسرائیل کے 2000 کے قریب سپاہی ہلاک اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے جنکی نصف تعداد معذور ہوچکی ہے۔

دہشت گردی اور قومی سلامتی کا ہوا کھڑا کرکے نیتن یاہو اور انکے انتہا پسند اتحادی غزہ مزاحمت کاروں کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا راگ الاپ رہے ہیں اورامریکی صدر بھی انکی لئے میں لئے  ملائے ہوئے ہیں لیکن فوج میں جنم لینے والی بیچینی اب منظر عام پر آنا شروع ہوگئی ہے۔

نواپریل کو اسرائیل فضائیہ کے ایک ہزار سے زیادہ (Reserve)افسران نے چیف آف ائر اسٹاف میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھاجسکی نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہئے۔ اس خط پر نیتن یاہو سخت غصے میں آگئے اور وزیردفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ 'اس حرکت سے فوج میں بددلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا لہذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً برطرف کردیا جائے'۔قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا reserve دستے کا حصہ بنالیا جاتاہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دولاکھ Active سپاہ کے شانہ بشانہ تین لاکھ محفوظ سپاہی لڑائی میں شریک ہیں جوایک ماہ محاذ پر گزار کر 30 دن  آرام کرتے ہیں۔

ابھی ان باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے 150سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیردفاع کے نام ایسا  ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے غزہ خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ بے مقصد جنگ سے اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔خط میں ایک جملہ یہ بھی ٹانک دیا گیاکہ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیراعظم  نے 59اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈالدی ہے۔ شام کو میڈیکل کور کے سینکڑوں افسران نے اسی مضمون کا سندیسہ اپنی قیادت کو بھجوادیا۔ عبرانی چینل 12 کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے کہ "غزہ میں جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کیلئے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے لڑی جا رہی ہے"۔

جمعہ 11 اپریل کو فوج کے انتہائی اہم 8200انٹیلیجنیس یونٹ کے 250 ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانیوالے خط نے اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کردیا۔جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین 18 سے 21 سال کے 5000 نوخیز جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل ودماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان افسران نے کہا کہ لمبی و بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو  تھکادیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کیلئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کرکے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔یونٹ 8200 کے خط پر وزیراعظم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔

پیر 14 فروری کو موساد کے سابق سربراہوں  سمیت سینکڑوں سابق ایجنٹ بھی جنگ بندی تحریک میں شامل ہوگئے اور وزیراعظم کے نام کھلے خط میں انھوں نے قیدیوں کی رہائی کی خاطر فوری امن معاہدے کا مطالبہ کردیا۔خط میں کہا گیا ہے کہ لڑائی دوبارہ شروع کرکے نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالدی ہیں۔ اس خط پر موساد کے سابق سربراہ دانیال جاسم (Danny Yatom)، ابراہیم حلوی (Efraim Halevy اور تامر پاردو (Tamir Pardo) کے علاوہ250سابق افسران کے دستخط ہیں

غزہ نسل کشی کی بازگشت کینیڈا میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں 28 اپریل کو انتخابات ہونے ہیں۔ آٹھ اپریل کو جب کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی، کالگری (Calgary)کے ایک انتخابی جلسے میں تقریر کیلئے اسٹیج پر آئے تو بہت سے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہا 'جناب کارنی !!!غزہ میں نسل کشی کا بھیانک عمل جاری ہے، پہلے اس پر اظہار خیال کیجئے'۔ کنیڈین وزیراعظم نے جواب دیا۔ 'مجھے یہ بات معلوم ہے اسی لئے ہم نے (اسرائیل) کو اسلحے کی فراہمی بند کردی ہے'۔یہ خبر سن کر نیتن یاہو آپے سے باپر ہوگئے اور ٹویٹر (X)پر پیغام داغ دیا کہ 'ایک جمہوری ملک کی حمائت کے بجائے جو منصفانہ انداز میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے، جناب کارنی خونخوار دہشت گردوں کی حمائت کررہے ہیں'۔

جنگی جنون کو ہوا دینے کیلئے  عراق میں میزائیل کی تنصیب کا شوشہ بھی چھوڑ دیا گیاہے۔ پہلے ٹائمز آف لندن نے خبر شایع کی  کہ ایران نے اپنے عراقی جنگجو جتھے قوات الحشد الشعبی (PMF) کو قدس 351اورجمال 69منجنیقی (Ballistic)میزائل فراہم کردیے ہیں۔اخبار نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی شہادت یا ثبوت پیش نہ کیا۔ لیکن دودن بعد اسی کہانی کو رائٹرز نے بھی چھاپ دیا۔ دلچسپ بات کہ صرف چند دن پہلے تک امریکی حکام سینہ پھلا کر کہہ رہے کہ 'یمن کے حوثیوں کا حشر دیکھ ایران نے اپنی عراقی ملیشیا کو غیر مسلح کرنا شروع کردیا ہے'۔ عراق میں دورمار میزائیلوں کی تنصیب کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا لیکن اسرائیلی میڈیا اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔

امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ جمعہ 11 اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کولمبیا میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکہ بدری کا  فیصلہ سنادیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُرتشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم،  وزیرخارجہ مارکو روبیو کی دوصفحاتی یاد داشت (MEMO)پر مشتمل ہے جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیرخارجہ نےتحریر کیاکہ ' 7 مارچ کو انہیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں، جسکے مطالعے کے بعد انھیں یقین ہوگیا کہ خلیل کے امریکہ میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔یہود مخالف مظاہرے اور تخریبی سرگرمیاں، امریکہ میں یہودی طلبہ کے خلاف معاندانہ ماحول کے فروغ کا سبب بن سکتی ہیں۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز (Jamee Comans) نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا 'میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں'۔ فیصلہ سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کرکے کہا'یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے جو میرے خاندان سے ایک ہزار میل دور ہے۔ جواں سال محمود خلیل 8 مارچ سے نظر بند ہے۔پیر 14 دسمبر کو جامعہ کولمبیا کے ایک اور طالب علم محسن مہدوی کو ریاست ورمونٹ (Vermont) سے اسوقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ شہریت کیلئے انٹرویو دینے آیا تھا۔ دوسری طرف غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے جامعہ کورنیل کی ایک ارب اور Northwestern یونیورسٹی کیلئے 79کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل کردی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے سخت و غیر لچکدار موقف و روئے کے باوجود عرب ممالک کا تل ابیب سے تعاون  جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کیساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے بھی شرکت کی۔ خلیج یونان پر ہونے والی اس مشق میں امریکہ، ہندوستان، فرانس، اٹلی اور پولینڈ نے حصہ لیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 اپریل 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 اپریل 2025

روزنامہ امت کراچی 18 اپریل 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 اپریل 2025


Friday, April 11, 2025

 

اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ ہنگری و امریکہ

ہمارے بچوں کیلئے غزہ میں  جہنم دہکا کر نیتن یاہو سیرسپاٹے کررہے ہیں، لواحقین کا شکوہ

غزہ انخلا پر صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو میں اتفاق

جوہری پروگرام پر امریکہ سے براہ راست ملاقات کا ٹرمپ دعویٰ ایران نے مسترد کردیا

ملک بھر میں ہنگاموں، عدالتی کاروائیوں اور قطر گیٹ اسکینڈل کے شور میں اسرائیلی وزیراعظم پورا ہفتہ ملک سے باہر رہے۔ اس دوران وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے دفتر میں گھمسان کی لفظی جنگ ہوئی۔لواحقین کی ملاقات کے دوران ایک قیدی سارجنٹ نمرود کے والد یہودا کوہن نے وزیردفاع سے پوچھا کہ ملاقات میں وزیراعظم کیوں موجود نہیں تو مسٹر کاٹز نے بتایا کہ نیتن یاہو ہنگری اور امریکہ کے دورے پر ہیں۔ یہ سن کر یہودا کوہن نے کہا 'ہمارے بچوں کیلئے غزہ میں جہنم دہکا کر نیتن یاہو سیرسپاٹے کررہے ہیں'۔ تالیوں کی گونج میں یہودا نے کہا کہ 'غزہ جنگ کا محرک نیتن یاہو کا ذاتی و سیاسی مفاد ہے اور تم سب اسکے زرخرید غلام بنے ہوئے ہو'۔جب وزیردفاع نے کوہن سے کہا کہ تشریف رکھیں میں آپکے تحفظات کا جواب دیتا ہوں تو دلگرفتہ باپ چیخ کر بولا “تم نے جنگ صرف اسلئے دوبارہ شروع کی تاکہ عظمتِ یہود جماعت، حکومت میں واپس آجائے۔ ہمارے بچے واپس آئیں نہ آئیں، بن گوئر (عظمتِ یہود کے سربراہ) کی اتحاد میں واپسی تمہاری واحد ترجیح تھی'

نیتن یاہو ہنگری صرف یہ ثابت کرنے گئے تھے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری سے خوفزدہ نہیں۔ یورپی یونین میں ہنگری وہ واحد ملک ہے جس نے ICCکے پروانہ گرفتاری کو مسترد کردیا ہے بلکہ نیتن یاہو کی دارالحکومت بڈاپیسٹ آمد پر میزبان وزیراعظم وکٹر کوربن نے اپنے ملک کو ICCکی عملداری سے سرکاری طور پر علیحدہ کرلیا۔ نیتن یاہو سے بغلگیر ہوتے ہوئے وزیراعظم کوربن نے کہا میرے عظیم دوست کیلئے یہ ہنگری کا تحفہ ہے۔

ہنگری میں تین دن گزارنے کے بعد نیتن یاہو 7 اپریل کو صبح سویرے واشنگٹن پہنچے۔یروشلم سے جاری ہونے والے سرکاری اعلامئے میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم محصولات یا Tarif پر بات کرینگے لیکن مشرق وسطیٰ کے معاملے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے اسی وقت کہدیا کہ ملاقات میں غزہ انخلا اور 'ٹرمپ غزہ' کے نام سے پٹی پر پرتعیش تفریح گاہ بنانے کے منصوبے کو آخری شکل دی جائیگی اور ایران پر حملے کی تفصیلات طئے کی جائینگی۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے بھی اندازہ ہوا کہ محصولات پر بات تو محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کو کی گئی ہے ورنہ ملاقات کا اصل مقصد اور بنیادی ایجنڈا غزہ درندگی آخری فلسطینی کے قتل یا انخلا تک جاری رکھنے ، یمن قتل عام میں تیزی لانے اور ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمے کیلئے حکمت عملی وضع کرنا تھا۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ انخلا کے ٹرمپ منصوبے کی پھرپور حمائت کا اعادہ کیا۔ انکا کہنا تھاکہ اہل غزہ کو ہم نے قید نہیں کیا، وہ جہاں چاہے جاسکتے ہیں۔یوکرین اور شامی تنازعے کے دوران مقامی آبادی کی نقل مکانی ہوئی تو غزہ انخلا میں کیا مسئلہ ہے؟۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے ممالک اہل غزہ کی مہمان نوازی کو تیار ہیں اور ان سے ہماری بات چیت جاری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ محفوظ اور رہنے کے قابل نہیں رہا اور ہر اہل بصیرت غزہ کا انخلا تجویز کررہا ہے کہ یہ  ساحلی پٹی، موت کی وادی میں تبدیل ہوچکی ہے۔امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ  'کچھ عناصر' کے خیال میں یہ مناسب فارمولا نہیں۔

بقراطی جھارٹے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ 2005 میں غزہ سے اسرائیل کا انخلا ایک غلط فیصلہ تھا۔ صدر ٹرمپ کی اس بات پر اسرائیلی وزیراعظم خاموش رہے حالانکہ یہ انخلا رضاکارانہ یا برضا و رغبت نہیں تھا بلکہ پٹی پر پھنسی اسرائیلی سپاہ کو بچانے کیلئے اسرائیل نے غزہ خالی کیا تھا۔ یہ فیصلہ Disengagement Plan 2005 کے نام سے مشہور جسے سابق وزیراعظم ایریل شیرون کی کابینہ نے خود تجویز کیا جسکے بعد کنیسہ (پارلیمنٹ) نے45 کے مقابلے میں 67 ووٹوں سے فرار کی توثیق کی۔ اسوقت بھی برسراقدار لیکڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو تھے۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد 21 بستیوں کو اپنے ہاتھوں مسمار کرکے اسرائیلی فوج وہاں سے واپس ہوئی تھی بلکہ معاہدے کے تحت اسرائیلیوں نے غربِ اردن کی چار قبضہ بستیاں بھی خالی کی تھیں۔ اپنے گھروں کو مسمار کرتے ہوئے بہت سی اسرائیلی خواتین بین کررہی تھیں کہ “ہائے بنو قینقاع، ہائے بنی نضیر۔

بیضوی دفتر میں ہونے والی صحافیوں کی اسی نشست میں صدر ٹرمپ نے یہ چشم کشاانکشاف فرمایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 'بڑی سطح' کے براہ راست  مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت کہاں ہورہی ہے اور دونوں جانب سے کون کون سر جوڑے بیٹھا ہے، تام صدر ٹرمپ کا لہجہ پرامید وپراعتماد تھا۔انھوں نے کہا کہ گفتگو کا دوسرا دور 12 اپریل کو ہوگا۔

اپنے پہلو میں بیٹھے نیتن یاہو کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جوہری تنازعے کا سفارتی حل سب کے مفاد میں ہے۔امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہمارا مشترکہ مقصد ہے اور اگر یہ ہدف بات چیت سے حاصل کرلیا جائے تو اس سے بہتر کچھ نہیں۔ ایسے ہی پرامن انداز میں ہم لیبیا کے جوہری پروگرام کو ختم کرچکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا “ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل یا نہ تیار نہ کرسکے

امریکی صدر کے اس انکشاف پر سب کو حیرت ہوئی اور ایران پر نظر رکھنے والے صحافتی ماہرین نے اسی وقت کہدیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا امریکی صدر نے بیان کررہے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی اور چند گھنٹوں بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک اعلی افسر نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست بات نہیں ہورہی، تاہم عمان کی ثالثی میں ابتدائی گفتگو کا آغاز ہوا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 اپریل 2025




 

 

Thursday, April 10, 2025

 

ہنگامی و جبری نقل مکانی کا عذاب

وحشیانہ بمباری سے اسرائیلی قیدی ہلاک ہوسکتے ہیں

شہری آبادیوں پر بنکر بسٹر بموں کا استعمال، ننھے لاشے کئی سو فٹ فضا میں اچھل گئے

فلاڈیلفی کے متوازی ایک اور راہداری بناکر اسرائیل نے ر فح کو غزہ سے کاٹ دیا

دوتہائی غزہ no goایریا بن گیا

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسکے ذمہ دار  وہ مزاحمت کارہیں،  امریکی ترجمان

مظالم کے خلاف نعرہ لگانے پر مائیکروسوفٹ کی دو ملازم برطرف

غزہ نسل کشی میں سہولت کاری، بنگلہ دیشی طالبہ نے امریکی ایواڑد مسترد کردیا

غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری و گولہ باری کے باوجود دست قاتل میں  تھکن یا رحم کے آثار ہیں نہ مظلوم لیکن پرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقلال میں کوئی جنبش۔ یوں سمجھئے کہ ایک طرف تیر کی برسات ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تو دوسری جانب سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی تعطل بھی نظر نہیں آرہا۔پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردینے والے بموں کے مقابلے میں اہل غزہ صرف نہتے ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی ہیں۔ جبر اور صبر کا ایسا ٹکراو تاریخ نے اس سے پہلے شائد ہی کبھی دیکھا ہو۔زخموں سے چور اہل غزہ کی مزاحمت بھی جاری ہے۔ہنگری سے امریکہ کی طرف محو سفر اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ 'دہشت گردوں' کی کمر توڑ دی گئی ہے اور یہ لوگ بھیس بدل کر ایمبیولنسوں میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔اللہ کی شان کہ 6 اپریل کی صبح جب نیتن یاہو یہ شیخی بگھار رہے تھے، مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عثقلان عسکری کالونی کی طرف داغ دئے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا ہی میں غیر موثر کردیا لیکن حفاظتی نظام کو غچہ دے کر ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔

بمباری اور قتل عام کے ساتھ گزشتہ دس دنوں سے اہل غزہ کو نقل مکانی کے عذاب کا سامنا ہے۔ ہرروز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کاروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جاو۔بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچ کر خیمے گاڑہی رہے ہوتے ہیں کہ نئی نقل مکانی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اہل غزہ عید کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔اب تھکن کا یہ عالم کہ 6 اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہدیا کہ'صاحبو، اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے' (افتخار عارف)۔دوسری طرف مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کردیا کہ 'بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ  میں رکھے گئے ہیں جنکو یہاں سے نہیں ہٹایا جائیگا اور اگر بزور قوت قیدی چھڑانے کی کو شش کی گئی تو اسکے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے'۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتے اور یہ قیدی اسوقت اپنے پیاروں کے درمیان ہوتے۔ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا۔

مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگارہے تھے کہ 'بی بی تمہاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی'۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔سخت مشتعل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ فوج، جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کی بنا پر نیتن یاہو کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے پر پابندی کی قرارداد جس بری طرح مسترد کی اس نے اسرائیل کے جنگجو حکمرانوں کو مزید “دلیر” کردیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمائت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو 6 اپریل کو بنفس نفیس امریکہ پہنچے۔ بظاہر یہ ملاقات محصولات کے تناظر میں ہے لیکن درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں “ٹرمپ غزہ” منصوبے کو آخری شکل دی جائیگی۔اسی دوران اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر نے  ابوظہبی میں وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں نے غزہ امن پر بات کی لیکن آزاد صحافتی ذرایع بتارہے ہیں کہ اصل گفتگو ایران پرحملے کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کاروائی سے امارات کو محفوظ رکھنے کیلئے امریکی و اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ 'ٹرمپ غزہ' کی تعمیر میں امارات کے کردارپر ہوئی۔

اسرائیل تو اسرائیل، اسکی حمائت پر کمر بستہ ٹرمپ حکومت کی ہٹ دھرمی کا بھی عجیب عالم ہے۔تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ 23 مارچ کو غزہ میں 5 ایمبیولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں 15 وردی پوش امدادی کارکن جان بحق ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شایع کردی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے پہلے لی تھی جس میں ایمبیولنسیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔یکم اپریل کو جب پریس کانفرنس کے دوران کسی صحافی نے یہ معاملہ اٹھایا تو وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس (Tammy Bruce)نے کہا 'غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکے ذمہ درا مزاحمت کارہیں'

اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری سے ہرروز 100 بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہورہے ہیں اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو no go ایریابنادیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے بہت فخر سے کہا کہ  اسرائیلی فوج  نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر ر فح کے گرد گھیراو مکمل کرلیاہے اور اب مزاحمت کاروں کیلئے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ہتھیار ڈالنے کی اسرائیلی خواہش تو شائد پوری نہ ہو لیکن  لگتاہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہیگی۔ گزشتہ ہفتے ہلال احمر غزہ کے سربراہ نے اپنے جذباتی پیغام میں کہا کہ غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہوچکی، ہر طرف موت نظر آرہی ہے' اسی کیساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہواکہ 'غزہ آخری سانس لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا خدا حافظ'

اسرائیلی فوج بمباری کیلئے بنکر بسٹر بم استعمال کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے مورچوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور شہری علاقوں میں اسکی استعمال پر پابندی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکہ نے کنکریٹ کو چیر دینے والے یہ بم افغانستان میں بیدریغ استعمال کئے۔ روائتی بم کسی سخت سطح سے ٹکرانے ہی پھٹ جاتے ہیں جبکہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیرکر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں جسکی وجہ سے عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہوجاتے ہیں۔ مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری تراشے اسرائیلی فوج نے جاری کئے ہیں اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گردو غبار اور دھویں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اوپر فضامیں اچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔

غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غرب اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبات کو کھنڈر بنادیا۔ بمباری اور فائرنگ سے درجنوں افرادجاں بحق ہوئے، زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیاگیا۔چھ اپریل کو غربِ اردن کے شہر ترمسعيّا پر فوجی سرپرستی میں قابضین (Settlers)نے حملہ کیا۔گھر، دوکانیں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ اندھادھندفائرنگ سے امریکی شہریت کا حامل ایک 14سالہ بچہ عمر محمد ربیع جاں بحق ہوگیا۔ ٹرمپ انتطامیہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ غزہ کے قید میں اسرائیل شہری عیدن الیگزنڈر کی رہائی کیلئے ساری ٹرمپ انتطامیہ سرگرم ہے لیکن اس امریکی بچے کے ہییمانہ قتل پر کسی کو کچھ تشویش نہیں۔ حتیٰ کے CNN نے اس واقعے پر امریکی حکومت کے ردعمل کیلئے جب وزارت خارجہ اورقصرِ ابیض کو برقی خطوط بھیجے تو وہ ای میل unreadواپس آگئی یعنی مکتوب الیہ نے متن پڑھے بغیر ہی ای میل حذف کردی۔ 

غزہ نسل کشی کیخلاف احتجاج کرنے والوں کیخلاف انتقامی کاروائی میں شدت آگئی ہے۔امریکی وزیرتعلیم لنڈا مک ماہون (Linda McMahon) نے جامعات کے سربراہوں کو دھمکی دی ہے کہ وفاق کی مدد چاہئے تو غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک پر پابندی لگاو۔ تاہم دھمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ چار اپریل کو جامعہ ٹیکسس، آسٹن (UT Austin)میں اسرائیلی طلبہ کی Israel Block Partyکے باہر مظاہرہ کیا گیا جسکی وجہ سے منتظمین نے تقریب ختم کردی۔اس جسارت پر گورنر صاحب سخت برہم ہیں۔امریکہ کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔اسرائیل مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے چار غیر ملکی طلبہ کو گرفتار کرلیاگیا، خیال ہے کہ انھیں ملک بدر کردیا جائیگا۔

نسل کشی میں معاونت کرنے والے اداروں کے تعاقب میں بھی کمی نہیں آئی۔چار اپریل کو مائیکروسوفٹ نے مصنوعی ذہانت یا AIمیں کام کے آغاز کی 50 ویں سالگرہ منائی۔اس موقع پر ادارے کے صدر دفتر واقع ریاست واشنگٹن میں تقریب ہوئی جہاں ادارے کے بانی بل گیٹس اور سربراہ اسٹیو بالمر بھی موجود تھے۔ جیسے ہی شعبہ AIکے سربراہ مصطفے سلیمان تقریر کرنے کھڑے ہوئے، مراکشی نژاد لڑکی ابتہال ابواسد غزہ نسل کشی بند کرو کا نعرہ لگاتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھی۔ حفاظتی عملے نے اسے دبوچ لیا لیکن وہ چیخ چیخ کر کہتی رہی۔شرم کرو سلیمان! تمہاری AIکے مدد سے اسرائیلی فوج بچوں کا خون کررہی ہے۔ مائکروسوفٹ ، بمباری، ڈرون حملوں اور اہل غزہ میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اسرائیل کیلئے AI کے خصوصی پروگرام (Applications)ترتیب دے رہی ہے۔ تم اندھے ہو اسلئے فرزندِ شام ہونے کے باوجود تمہیں اپنے ہاتھوں پر عورتوں اور بچوں سمیت پچاس ہزار فلسطینیوں کا لہو نظر نہیں آرہا۔جب ابتہال کو محافظین نے ہال س نکال دیا توایک ہندوستانی لڑکی وانیا اگروال کھڑی ہوگئی اور غزہ نسل کشی کے خلاف نعرے لگائے، اسے بھی باہر نکال دیا گیا اوردوسرے دن ان دونوں ملازمین کو مائیکروسوٖفٹ کی طرف سے پروانہ برطرفی تھمادیا گیا۔

اس حوالے سے برصغیر کی خواتین کا جرات مندانہ کردار ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معروف ارکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ' اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی'۔یکم اپریل کو  بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکہ کے International Women of Courage (IWOC)انعام کو ٹھوکر ماردی۔ امامہ کو ایوارڈ وصول کرنے کیلئے امریکہ آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرخاجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے جواب میں امامہ نے لکھا 'خواتین کارکنوں کا اجتماعی اعتراف ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہے۔ تاہم اس ایوارڈ کو اکتوبر 2023 میں فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی براہ راست حمایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کے حملے کا جواز پیش کرکے ایوارڈ کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے میں اس ایوارڈ کو مسترد کر رہی ہوں'

قرطاس و قلم کے خلاف کاروائی بھرپور انداز میں جاری ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک صحافی حسام شبات کو ڈرون سے نشانہ بناکر قتل کیا گیا اور اس ہفتے سات اکتوبر کو خان یونس میں صحافیوں کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا گیا جس میں قلم کے چھ مزدور شدید زخمی ہوگئے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 اپریل 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 اپریل 2025

روزنامہ امت کراچی 11 اپریل 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13اپریل 2025



Thursday, April 3, 2025

 

خوفناک خونریزی کا ڈیڑھ سال

سیاسی بحران سے توجہ ہٹانے کیلئے جنگی جنون میں اضافہ

مزاحمت کار پچاس دن کی عبوری جنگ بندی پر آمادہ

ہتھیار رکھو، قیدی چھوڑو اور غزہ سے نکل جاو۔ نیتن یاہو کا جواب  

 شمالی بریگیڈ کے اسرائیلی کمانڈر مستعفی

ضمیر کی خلش!! میڈیکل کور کے اہلکاروں نے غزہ واپس جانے سے انکار کردیا

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک اور صحافی کا قتل

غزہ نسل کشی کا دورانیہ آنے والے پیر یعنی 7 اپریل کو ڈیڑھ سال ہوجائیگا۔عید سے دودن پہلے قطر نے امریکہ کی ایک نئی تجویز مزاحمت کاروں کے حوالے کی، جسکے مطابق اگر غزہ سے دہری شہریت کے حامل قیدی عیدن الیگزنڈر کو رہا کردیا جائے تو صدر ٹرمپ اسرائیلی حملے بند کرواکر مکمل و پائیدار امن کیلئے مذاکرات کا عمل شروع کرادینگے۔مزاحمت کاروں نے جواب بھجوایا کہ امن مذکرات  کے لئے حالات سازگار بنانے کی غرض سے وہ 50 دن کی عبوری جنگ بندی پر تیار ہیں۔اہل غزہ نے اسی کے ساتھ عیدن الیگزنڈر سمیت پانچ قیدیوں کو رہا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کردی۔ان قیدیوں کی رہائی غزہ کیلئےانسانی امداد پر پابندی کے خاتمے اور نظارم راہدرای سمیت شہری علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی سے مشروط ہے۔ اس پیشکش کے جواب میں عید کے دن نیتن یاہو نے کہا کہ مزاحمت کار اگر اسلحہ رکھ کر غزہ چھوڑنا چاہیں تو انھیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائیگا۔ دوسری صورت میں اسرائیل عسکری دباو برقرار رکھے گا۔

گویا اسرائیل نے عبوری فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے اہلِ غزہ کی پیشکش مسترد کردی اور غزہ میں عید الفطر اس شان سے آئی کہ شمالی و مشرقی علاقے بمباری سے لرزتے رہے، بحیرہ روم سے اسرائیلی جہازوں نے شعلے برسائے، وسطی غزہ کے لوگوں پر نظارم راہداری سے نشانہ بنایا گیا اور مصری سرحد پر فلاڈلفی راہداری سے ٹینک حملہ آور ہوئے۔اسکے باوجود ہر مسجد کے ملبے پر نمازعید اداہوئی اور انھیں عید گاہوں میں شام کو 50 سے زیادہ جنازے  بھی پڑھے گئے۔ محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنےکا۔

اسرائیلی جریدے الارض (Haaretz)کے مطابق 'نیتن یاہو عیدن الیگزنڈر کی رہائی نہیں چاہتے۔ انھیں ڈرہے امریکی قیدی چھوٹ جانے کے بعد اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی کم بلکہ شائد ختم ہوجائے گی'

حکومت کا تکبر اپنی جگہ لیکن لبنان، غزہ اور یمن سے ہونے والے راکٹ ومیزائیل حملوں پر اسرائیلی فوج شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔نیتن یاہو اور انکے وزیردفاع ، دعویٰ کررہے ہیں کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی کمر توڑدی گئی ہے۔ ایسا ہی دعوی غزہ کے بارے میں بھی کیا جارہا ہے کہ مزاحمت کاروں کی جارحانہ صلاحیت ختم کردی گئی ہے اور اب انکی بچی کھچی قیادت جان بچانے کیلئے سرنگوں میں چھپی بیٹھی ہے۔ وزیراعظم نے بجٹ اجلاس کے دوران 'تلواروں کے سائے میں مذاکرات' کی دھمکی دہراتے ہوئے کہا تھا کہ 'دہشت گردوں' کے پاس ہمارے قیدی رہا کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ہم انھیں ہر طرف سے گھیر چکے ہیں۔ انھوں نے تالیاں بجاتے اپنے اتحادیوں کے سامنے کہا 'جان کی امان چاہتے ہو تو ہتھیار رکھو، قیدی چھوڑو اور غزہ سے نکل جاو'

لیکن صحرائے نقب (Negev)، بحیرہ لوط، تل ابیب اور یروشلم سے شمال میں کریات شمعونہ تک سارے اسرائیل  میں ہوائی حملوں کے سائرن گونج رہے ہیں۔عدالتی اصلاحات، شاباک کے سربراہ کی برطرفی، غزہ جنگ کے لئے بڑے شہروں میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں اور سائرن سن کر جب یہ ہزاروں کا مجمع زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگاتا ہے تو افراتفری سے عوام میں مزید خوف و ہراس پیدا ہورہا ہے۔ کچھ منچلوں کا خیال ہے کہ حکومت دفاعی سائرن مجمع منشر کرنے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ راکٹوں  سے اب تک کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا لیکن بھگدڑ میں درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہورہاہے۔ حزب اختلاف کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری کے باوجود اسرائیلی فوج 'مٹھی بھر' دہشت گردوں کو ختم نہ کرسکی تو غزہ کی دلدل میں وسائل کو دھنسارکھنے کی ضروت کیا ہے؟۔

طویل جنگ سے اسرائیلی فوج کے اعصاب بھی متاثر نظر آرہے ہیں اور الزام تراشی و انگشت نمائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔شمالی بریگیڈ کے کمانڈر کرنل ہائم کوہن نے سات اکتوبر 2023کو اہل غزہ کا حملہ روکنے میں ناکامی پر استعفی دیدیا۔کرنل صاحب کا بریگیڈ مقابلہ کرنے کے بجائے کمانڈر سمیت موقع سے فرار ہوگیا تھاجسےکرنل کوہن نے تزویراتی یا Strategic پسپائی قرار دیا لیکن عسکری ماہرین اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوئے اور کرنل صاحب کو وردی اتارنی پڑی۔مزاحمت کاروں کو کچلنے میں ناکامی پر اس سے پہلے ، ملٹری انٹیلیجنس ڈایریکٹوریٹ کے شعبہ ریسرچ کے سربراہ بریگیڈیر جنرل امیت سعرAmit Saar، ملٹری انٹییلیجنس ڈایریکٹوریٹ کے سربراہ میجر جنرل ہارون ہالویہ، ,Aharon Halivaغزہ ڈویژن کے سربراہ بریگیڈیر جنرل اوی روزن فیلڈAvi Rosenfeld،بری فوج کے سربراہ تامر ےیارےTamir Yadaiاور اور فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی مستعفی ہوچکے ہیں

بزدلی و نا اہلی کے الزام میں جنوبی کمان کے سربراہ کرنل ابراہیم ایونی (Ephraim Avni) کی ترقی روک دی گئی۔ کرنل صاحب کو فوج کے سابق سربراہ نے پیراٹروپر بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا تھا اور وہ نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے جنوبی کمان کی قیادت بھی چھوڑ چکے تھے۔ جمعرات 26 مارچ کو وزیردفاع اسرائیل کاٹز سے ملاقات کے بعد جنرل ضمیر نے کرنل ابراہیم کا تقرر منسوخ کردیا۔تحقیقاتی اداروں کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو مزاحمت کاروں کے حملے کامقابلہ کرنے میں کرنل ابراہیم سے سنگین 'کمزوریاں' سرزد ہوئیں۔

غزہ میں ہونے والے مظالم پر خود اسرائیلی فوجیوں کا ضمیر بھی اب جاگ رہا ہے۔ اسرائیلی (Reserve)میڈیکل کور کے درجنوں اہلکاروں نے لڑائی کیلئے غزہ واپس جانے سےانکارکردیاہے۔اپنےایک خط میں ڈاکٹروں، پیرا میڈکس، مینٹل ہیلتھ افسران اور نرسوں سمیت مختلف عہدوں پر فائزافراد نے کہا ہے کہ اس جنگ میں نہ صرف دونوں اطراف کے معصوم شہری مارے جارہے ہیں بلکہ اس سے ہماری اخلاقی اقدار اور ملک کی طویل مدتی بقا کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ڈاکٹروں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ اہل غزہ کوجلاوطن کرکے وہاں اسرائیلیوں کی آبادکاری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ حوالہ KAN News

اسرائیل اور امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت (ICC)کی جانب سے جاری ہونے والے اسرائیلی وزیراعظم، سابق وزیردفاع اورفوج کے سابق سربراہ کے پروانہ گرفتاری کو مسترد کردیا ہے لیکن نیتن یاہو اس حوالے سے شدید خوف میں مبتلا ہیں جسکا انکشاف گزشتہ ہفتہ ہوا۔ معاملہ کچھ طرح ہے کہ فروری میں اسرائیلی وزیراعظم جب صدر ٹرمپ سے ملاقات کیلئے امریکہ آئے تو انکے خصوصی طیارے کو تل ابیب سے واشنگٹن پہنچنے میں ساڑھے تیرہ گھنٹے لگے جبکہ یہ 12 گھنٹے کا سفر ہے۔ لوگوں کو اس تاخیر پر حیرت تھی۔امریکہ میں اسرائیل کے سفیر یخیل لیٹر (Yechiel Leiter)  نے 26 مارچ کو اس راز سے پردہ اٹھادیا۔ اسرائیلی سفیر کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو غدودِ  مثانہ (Prostate)کی جراحی کے 6 ہفتے بعد ایک لمبا سفر کررہے تھے اور انکے معالجین کو ڈر تھا کہ سفر کے دوران انکے زخم دوبارہ کھِل سکتے ہیں لہذا حفظ ماتقدم کے طور پر  اصلاحی سرجری کیلئے ماہرین کی ایک ٹیم انکے ساتھ تھی۔ اسوقت سوال پیدا ہوا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو اس جہاز کو کہاں اتارا جائے؟۔ قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر جہاز کسی یورپی ملک میں اترا تو بی بی کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری پر تعمیل کا مرحلہ پیش آسکتا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم کا خصوصی طیارہ راستے میں آنے والے امریکی اڈووں کے اوپر اڑتا رہا تاکہ ہنگامی صوتحال میں اسےعام ایر پورٹ کے بجائے کسی امریکہ اڈے پر اتارا جائے۔ اسی بنا پر سفر ڈیڑھ گھنٹہ طویل ہوگیا۔منفی تاثر کے سد باب کیلئے اسرائیلی وزیراعظم اس ہفتے  ہنگری جارہےہیں۔ہنگری یورپی یونین کا واحد ملک ہے جس نے  ICCکے حالیہ فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ مجرموں کا تعاقب کرنے والی ہند رجب فاونڈیشن نے نیتن یاہو کی گرفتاری کیلئے ہنگری کی عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فاونڈیشن کے مطابق عالمی عدالت کے احکامات کی تعمیل وزیراعظم وکٹر اوربن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی ایک 'مفرور ملزم' کو سرکاری مہمان بنانے پر وزیراعظم اوربن کی مذمت کی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کیساتھ نین یاہو حکومت کو شدید بحران کا سامنا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے  قطر گیٹ اسکینڈل پر حکمِ  زباں بندی یا Gag Orderمنسوخ کردینے کے بعد سنسنی خیز و شرمناک انکشافات سے ذرایع ابلاغ بھرے پڑے ہیں۔حکومتی اتحادیوں کی باہمی لڑائی اب میڈیا پر ہورہی ہے۔ عظمتِ یہود جماعت کے سربراہ اتامر بن گوئر کے روئے سے جھلا کر جماعتِ صیہون کے سربراہ اسموترچ نے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)کے سربراہ رونن بار کو برطرف کردینے کے بعد وزیراعظم نے یہ منصب نائب امیر البحر (ر) ایلی شروت کو پیش کیا، اسکا اعلان بھی کردیا گیالیکن اتحادیوں کے شدید احتجاج پر نیتن یاہو نے نامزدگی واپس لے لی۔ رونن بار کی برطرفی کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لئے حکومت جنگی جنون میں اضافہ کررہی ہے۔یکم فروری کو اسرائیلی فوج نے    ر فح میں ٹینک کے بہت بڑے حملے کا اغاز کردیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رشوت ستانی اور بے ایمانی سے قوم کی توجہ ہٹانے کیلئے نیتن یاہو نے  غزہ، بیروت، غرب اردن اور شام پر “جہنم کے دروازے کھول دئے ہیں

دوسری طرف غزہ نسل کشی کی پشت پناہی کیلئے ٹرمپ انتظامیہ کا جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ جامعات میں نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طلبہ کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور اس معاملے میں عدالتی احکام نظر انداز ہورہے ہیں۔ منگل 25 مارچ کو جامعہ ٹف (Tufts University)میں پی ایچ ڈی کی ترک طالبہ رومیسا ازترک کو عین افطار کے وقت گرفتار کرلیا گیا۔رمیسہ کے خلاف کوئی الزام نہیں لیکن جامعہ کے سربراہ ڈاکٹر سنیل کمار کے مطابق وزارت خارجہ نے رمیسہ کا ویزا منسوخ کردیا ہے۔رمیسہ کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرخارجہ مارکو روبیو نے کہا 'جب بھی ایسا کوئی پاگل مجھے (امریکہ میں) نظر آتا ہے، میں اسکا ویزہ منسوخ کردیتا ہوں'۔ رمیسہ کی گرفتاری کے بعد اسکی درخواست پر وفاقی جج اندرا تلوانی نے تحریری حکم جاری کیا کہ عدالت سے اجازت کے بغیر رمیسا کو کہیں اور منتقل نہ کیا جائے  لیکن اسے لوزیانہ میں ایمیگریشن کی حوالات بھیج دیا گیا۔

صدر ٹرمپ کے نامزد سفیر برائے اسرائیل مائک ہکابی (Mike Huckabee)کی توثیق کیلئے امریکی سینیٹ میں سماعت کا آغاز ہوگیا۔ انہتر (69)سالہ ہکابی امریکی ریاست آرکنسا (Arkansas)کے گورنر رہ چکے ہیں۔ انکی نامزدگی پر کچھ ریپبلکن سینیٹرز کو بھی اعتراض ہے۔موصوف کے اقوال زریں ملاحظہ فرمائیں:

  • دنیا میں فلسطینی نام کی کوئی قوم یا چیز نہیں۔
  • کچھ الفاظ میں کبھی استعمال نہیں کرتا جیسے غربِ اردن یا West Bank۔یہ علاقہ Yehuda VeShomron یعنی يہودا والسامرة ہے
  • میں اس سارے علاقے کو یہودیوں کی سرزمین کہنا اپنی اخلاقی ذمہ داری اور دیانت داری کا تقاضہ سمجھتا ہوں
  • اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے 'مقدس ترین دنوں' میں قتل عام اور غارتگری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے

آخر میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قلم کے ایک مزدور کے بہیمانہ قتل کا ذکر: 25 مارچ کو اسرائیلی فوج نے الجزیرہ کے  23 سالہ صحافی حسام شبات کو مارڈالا۔اس کی کار کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا، حالانکہ گاڑی پر جلی حروف میں PRESS لکھا تھا۔حسام کو ایک عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ غزہ میں سات اکتوبر 2023 کے بعد سے  اب تک 170 صحافی حرمتِ قلم اورحقِ آزادیِ اظہار پر قربان ہوچکے ہیں، ان میں 2 اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد 59، لاپتہ2 اور 75 اسرائیل کی قید میں ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 4 اپریل 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی، 4 اپریل 2025

روزنامہ امت کراچی 4 اپریل 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 اپریل 2025