غزہ
و غربِ اردن سے سڈنی تک۔ نفرت کا بیانیہ
وحشت کے آٹھ سو دن
سڈنی (آسٹریلیا) کے فیشن ایبل ساحل بونڈائی (Bondi) پر یہودی تہوارحنوکا (Hanukkah)منانے والوں کے خلاف دہشت
گردی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ عبادت میں مصروف لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ سے
12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ فلسطینیوں سمیت ساری دنیا نےاس وحشیانہ
کارروائی کی مذمت کی لیکن اس انسانیت کش واقعے کو بھی جنگجو اسرائیلی قیادت غزہ
اور غربِ اردن میں اپنے مجرمانہ اقدامات کے دفاع کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مبینہ طور پر اس حملے کے ذمہ دارہندنژاد
باپ بیٹے بتائے جا رہے ہیں، تاہم اسی سانحے کی ایک اور حقیقت کو دانستہ نظرانداز
کیا جا رہا ہے یعنی ایک مسلمان، احمد الاحمد، نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر حملہ
آور سے رائفل چھینی اور ممکنہ طور پر مزید جانی نقصان کو روکا۔ مارے جانے والوں
میں Chabad فرقے کے ربائی ایلی شیلینجر بھی شامل ہیں،
جو غزہ کے محاذ پر اسرائیلی فوج کی کھلے عام حوصلہ افزائی کرتے رہے تھے۔ آسٹریلوی
وزیرِ اعظم نے واقعے کی دوٹوک مذمت کرتے ہوئے یہودی برادری سے ہمدردی اور یکجہتی
کا اظہار کیا، جو ایک ذمہ دار ریاستی رویہ ہے۔ مگر انکے اسرائیلی ہم منصب نے اس سانحے کی وجہ آسٹریلیا میں غزہ نسل کشی کے
خلاف ہونے والے مظاہرے قرار دے کر اس انسانی المیے کو سیاسی اشتعال انگیزی میں
بدلنے کی کوشش کی۔حنوکا کی تقریب پر حملہ جتنا قابلِ نفرت ہے، اتنے ہی قابلِ مذمت
غزہ اور غربِ اردن میں مساجد، مدارس اور پناہ گاہوں پر ہونے والے حملے بھی ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ کس کا خون بہا، مسئلہ یہ ہے کہ کون سا خون سیاسی بیانیے کے لیے
استعمال ہوا اور کسے بے آواز دفن کر دیا گیا۔
وحشت کے آتھ سو دن۔۔۔۔
غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار برسات کو
آٹھ سو دن مکمل ہو چکے ہیں، مگر نام نہاد جنگ بندی کے بعد بھی اس محصور پٹی کے
باسیوں کو ایک لمحے کی راحت نصیب نہیں ہوئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طاقتور دنیا نے غزہ
نسل کشی کو new
normal قرار دیتے ہوئے اس
انسانی المیے کو ایک قابلِ قبول ضمنی نقصان (collateral damage) کے
درجے میں دھکیل دیا ہے۔
سرد
ہوا کا طوفان ۔۔ اہل غزہ کی نئی آزمائش
بمباری، بھوک اور بیماری کے بعد اب موسم
بھی اہلِ غزہ کے خلاف صف آرا ہے۔جمعرات 11 دسمبر کی صبح آنے والے Byron نامی شدید طوفان اور موسلا دھار بارش نے تین
لاکھ خیموں پر مشتمل اس بستی کو تہس نہس کر ڈالا۔ پندرہ لاکھ سے زائد انسان،جن میں
بچوں اور خواتین کا تناسب چالیس فیصد سے زیادہ ہے، بے یارومددگار اور زندگی کی
بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔تیز سرد ہواؤں سے خیمے اکھڑ گئے اور ہر طرف کئی کئی
فٹ پانی کھڑا ہے۔ ساحلی علاقوں میں بحیرۂ روم کی لہروں نے تباہی میں مزید اضافہ
کر دیا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے
UNICEF کے ڈائریکٹر جوناتھن
کرِکس (Jonathan Crickx) نے دیر البلح سے بتایا کہ 'ننھے بچے سرد ہواؤں میں کھلے آسمان تلے
گیلے کپڑوں میں ہیں۔ بستر، کمبل، سب کچھ بھیگا ہوا اور ایک خوفناک المیہ بچوں کو
نگلنے والا ہے'۔ سردی سے ٹھٹھر کر آٹھ ماہ کی رہف ابو جزر اپنی ماں کے سینے سے
لپٹی ہوئی دم توڑ گئی۔ اب تک کم از کم گیارہ افراد سردی کے باعث جاں بحق ہو چکے
ہیں۔
سخت سردی اور ظلم کا گرم بازار
اس آفت کے باوجود اسرائیلی فوج کا رویہ
تبدیل نہ ہوا۔ رفح میں امدادی ٹرک سے کمبل لینے والے دو نوجوانوں کو گولی مار دی
گئی۔ خان یونس کے علاقے بنی سہیلہ میں خیمہ اسکول پر ٹینکوں کی گولہ باری سے ایک
خاتون استاد جاں بحق ہوئیں، جبالیہ میں ایک خاتون کو ٹینک تلے کچل دیا گیا۔ مواصی
کے ساحلی علاقے میں فائرنگ سے تین سالہ عہد البیوک جان سے گئی، جبکہ غزہ کے ساحل
پر گن بوٹ سے فائرنگ میں پانچ سالہ جنان ابو عمرہ شدید زخمی ہوگئی۔
بد ترین حالات میں بھی غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے
بین الاقوامی امدادی ادارے Norwegian Refugee Council (NRC) کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے
اسرائیل نے صرف 15600 خیمے غزہ بھیجنے کی اجازت دی ہے جس میں بری طرح ٹھنس کر 88
ہزار افراد سماسکتے ہیں۔ یہاں ٹھکانوں کے متلاشیوں کی تعداد 13 لاکھ کے قریب ہے۔
انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم B’Tselem کا کہنا ہے کہ گرم کپڑے، کمبل اور نزلہ و زکام کی دواوں سے لدے
ساڑھے چھ ہزار ٹرک غزہ جانے کیلئے تیار ہیں لیکن انھیں اسرائیلی فوج نے روک رکھا
ہے۔سخت سردی اور تیز ہواوں سے بچنے کیلئے ہزاروں لوگ کھنڈر بنی خطرناک عمارتوں میں
پناہ لئے ہوئے ہیں جو تیز بارش اور طوفانی ہواوں میں کسی بھی وقت گرسکتی ہیں۔ برطانیہ
کی سماجی تنظیم، آکسفام (Oxfam)کا کہنا ہے کہ طوفان سے
تقریبا تمام خیمہ تباہ ہوچکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں لیکن
اسرائیلی فوج نئے خیموں، گرم کپڑوں اور دواوں کی غزہ آمد کا راستہ روکے ہوئے ہے۔
دہشت
گردی کا لیبل ۔۔۔ پالیسی یا ہتھیار
اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ، اقوامِ متحدہ کے
امدادی ادارے UNRWA پر
دہشت گردی کے الزام میں پابندیوں پر غور کر رہی ہے، حالانکہ یہی ادارہ غزہ میں
انسانی امداد کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکساس اور فلوریڈا میں
CAIR پر پابندیاں، اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے
“خلافت” کے نام پر مزید قدغنوں کی باتیں، اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دہشت گردی
کا الزام اب محض سیکیورٹی اصطلاح نہیں رہا بلکہ خارجہ اور داخلی سیاست کا ہتھیار
بن چکا ہے۔ سیاسی اختلافات، نظریاتی کشمکش یا مخالف بیانیے کو دبانے کے لیے
"دہشت گردی" کا لیبل لگانے سے اصل نقصان اُس مشترکہ عالمی اتفاق کو ہوگاجس
کی بنیاد پر حقیقی دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی ممکن ہے۔یہ
طرزِ عمل نہ صرف غزہ کے انسانی بحران کو شدید تر کردیگا بلکہ اس سے عالمی سطح پر
دہشت گردی کے خلاف اتفاقِ رائے کو بھی نقصان پہنچےگا۔
اسلاموفوبیا
۔۔ امریکہ کے اندر ایک اور محاذ
اسرائیلی جبر کی طرح امریکہ
میں بھی اسلاموفوبیا مہم تیز ہورہی ہے۔ریاست فلورڈا سے ریپبلکن پارٹی کے رکنِ
کانگریس رینڈی فائن (Randy Fine)نے ایک سماعت کے دوران کہا 'امن
قائم کرنے کے لیے اُن لوگوں کو ختم کرنا ضروری ہے جو آپ کے خاتمے کے خواہاں ہوں'۔ فائن صاحب نے یہ بات کسی شدت پسند گروہ کیلئے نہیں بلکہ عام
مسلمانوں یا “mainstream Muslims” کے بارے میں کہی۔صدر ٹرمپ بھی مسلم اقلیتوں کے بارے میں اچھی رائے
نہیں رکھتے اور صومالی نژاد برادری کے لیے ناگوار الفاظ استعمال کرنے کے حوالے سے
معروف ہیں۔
امریکہ کا آئین مذہبی آزادی، مساوات اور شہری حقوق کی ضمانت دیتا
ہے۔ اس تناظر میں ایسے بیانات کے خلاف مؤثر ردعمل ضروری ہے تاکہ دیوار سے لگی مسلم
اقلیت میں اعتماد بحال ہو۔ ورنہ امریکی مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ سب
ریاستی مقتدرہ کی خاموش رضا سے ہورہا ہے۔
زیتون
دشمنی ۔۔۔ درختوں کے خلاف جنگ
زیتون ارضِ فلسطین کی شناخت اور مقامی کسانوں کا سب سے بڑا ذریعہ
آمدنی ہے۔ اسرائیلی حکومت ایک منظم منصوبے کے تحت زیتوں کی فصل اجاڑ رہی ہے۔ پہلے
یہ کام انتہا پسند گروہ فوجی تحفظ میں کرتے تھے، مگر اب یہ ذمہ داری فوج نے براہ
راست اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔گزشتہ ہفتے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل ایوی
بلُتھ (Avi Bluth) نے نابلوس کے قریب گاؤں
قریوت میں 80 دونم (20 ایکڑ) رقبے پر زیتون کے درخت اکھاڑنے کا تحریری حکم جاری
کیا۔ لیکن جب مسلح سپاہی اور بلڈوزر موقع پر پہنچے تو پورے علاقے کو بند کرکے
کارروائی 150 دونم (37 ایکڑ) تک پھیل گئی اور سرسبز کھیت کو چٹیل میدان بنا دیا
گیا۔ 'سیکیورٹی' کے نام پر یہ کاروائیاں درحقیقت فلسطینی
معاش، ثقافت اور حقِ ملکیت مٹانے کی مہم ہے۔
یورپی
فنکاروں کی بغاوت
غزہ نسل کشی اور غربِ اردن میں فلسطینیوں سے بدسلوکی پر شیوخانِ
حرم، اصحابِ جبہ و دستار اور مغرب کے جمہوریت نواز تو مصلحتاً خاموش ہیں، لیکن وہ
لوگ جنھیں حرفِ عام میں گوئیے، اداکار اور رقاص کہا جاتا ہے، اس ظلم عظیم پر
بھرپور احتجاج کررہے ہیں ۔
یوروویژن 2025 کے سوئستانی فاتح نیمو میٹلر (Nemo Mettler) نے اپنا Grand Prix اعزاز واپس کرنے کا فیصلہ
کیا ہے۔نیمو نے انسٹاگرام پر لکھا 'اسرائیل کی 2026 کے مقابلے میں شمولیت نے
یوروویژن کی بنیادی قدروں کو شدید مجروح کیا ہے۔اسی لیے میں اپنی ٹرافی واپس کررہا ہوں'۔ اس سے پہلے اسپین،
ہالینڈ، آئرلینڈ، سلووینیا اور آئس لینڈ کے قومی نشریاتی ادارے، مقابلے میں اسرائیل کی شمولیت برقرار رکھنے کے
فیصلے پر یوروویژن 2026 سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔
بھوک یا بارود۔۔۔ اسرائیل میں بڑھتا ہوا سماجی و معاشی بحران
اسرائیلی انتہا پسندوں کے شوقِ کشور کُشائی نے جہاں اہلِ فلسطین
سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں قیامت برپا کر رکھی ہے، وہیں اس جارحانہ اور توسیع
پسندانہ طرزِ عمل کی قیمت اب عام اسرائیلی شہری بھی چکا رہے ہیں۔ انسانی بہبود کے
لیے کام کرنے والی اسرائیل کی معتبر تنظیم Latet کی سالانہ رپورٹ کے
مطابق ایک چوتھائی اسرائیلی خاندان غذائی عدم تحفظ کا شکار اور بارہ لاکھ بچے
مناسب خوراک سے محروم ہیں۔
تم انکے شکستہ تیر گنو!!!
نسل کشی کی اس وحشیانہ مہم میں شہریوں کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کو
بھی گہرے جسمانی و نفسیاتی زخم سہنے پڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کی ایک تازہ
رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں زخمی اور مستقل نگہداشت کے محتاج
فوجیوں کی تعداد 82ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صرف جسمانی زخموں کا مجموعہ نہیں
بلکہ 31ہزار فوجی ذہنی و اعصابی صدمات (Mental Health Injuries) کی وجہ سے طویل علاج کے
مراحل میں ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ جنگ صرف محاذ تک محدود نہیں رہتی
۔اس کے شعلے معاشرتی فلاح، نفسیاتی صحت، معاشی استحکام اور عام شہریوں کی روزمرہ
زندگی تک پھیل جاتے ہیں۔
آخر
میں… ایک ننھی “دہشت گرد” کا ذکر
چھ سالہ سندس شادی کی تقریب میں کھیل رہی
تھی کہ اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ جواز یہ دیا گیا کہ “چھت پر دوڑ دیکھ کر
حملے کا خدشہ ہوا”۔ ڈرون پر نصب مصنوعی ذہانت (AI)سے مزین کیمرے تو ایک ایک فرد کی مکمل شناخت کرلیتے ہیں۔ کیا یہ
جدید ڈرون پانچ سے سات سال کے بچوں کی شناخت نہیں کرسکے؟؟؟ ۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 دسمبر 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 19 دسمبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 دسمبر 2025
