معاہدۂ ابراہیمؑ کی
تدفین — ضامنوں کی بے حسی اور فلسطینیوں کی استقامت
عالمی سفارت کاری کی
ساری خاموشی اور پردہ پوشی ایک جھٹکے میں اس وقت بے نقاب ہوگئی جب اسرائیلی
وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے دوٹوک و غیر مبہم لہجے میں اعلان کردیا کہ وہ کسی
بھی قیمت پر فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چاہے اس کے
نتیجے میں سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تعلقاتِ معمول کی امید ہی کیوں نہ دم توڑ جائے۔
ان کے نزدیک فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ اعلان بھی
اسی روز سامنے آیا جب مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا جانے والا مبیّنہ “Ultimate
Solution” بہت
جوش و خروش سے پیش کیا جارہا تھا۔اب ٹرمپ کا "حل" فرسودہ اور سعودی
اسرائیل تعلقات کا خواب بکھرچکا ہے۔تل ابیب کی جانب سے دوریاستی حل مسترد کردئے
جانے کے بعد فلسطینیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ تنازعے کا تصفیہ 1948 کی
بنیاد پر ہونا چاہئے۔
یورپی ممالک کی خاموشی
نیتن یاہو کے اس اعلان پر
وہ یورپی ممالک جنھوں نے بڑے طمطراق سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا وہ بالکل خاموش
ہیں۔ یہ خاموشی ضامنوں اور عالمی برادری کی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کرتی ہے۔
پاکستان کا مبہم سفارتی رویّہ
غزہ کیلئے عبوری انتظامیہ اور انٹرنیشنل
اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) کی راہ ہموار کرنے
والی امریکی قرارداد کی منظوری کے وقت اجلاس کی صدارت پاکستانی مستقل مندوب عاصم
افتخار احمد کررہےتھے۔جنھوں نے تحریک کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے امریکہ کا شکریہ ادا
کیا، لیکن اسی سانس میں یہ بھی فرمایا کہ وہ حتمی متن سے “مکمل طور پر مطمئن نہیں”
اور پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی بعض اہم تجاویز شامل نہیں کی گئیں۔یہ طرزِ عمل نیانہیں۔ ٹرمپ منصوبے پر کئی مسلم ممالک کے ساتھ توثیقی
دستخط کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ اسلام
آباد کو معاہدے کے بعض حصوں پر تحفظات ہیں۔
سلامتی کونسل میں صدارت کی ذمہ داری کے
باوجود اسی طرح کا غیر فیصلہ کن ردِعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سفارت کاری
ابہام کا شکار ہے۔ ایسے اہم مواقع پر مبہم پالیسی نہ صرف پاکستان کی مؤثر نمائندگی
کو کمزور کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسلام آباد کی سنجیدگی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔
غزہ پر تازہ درندگی — جنگ بندی روند دی گئی
پورا ہفتہ غزہ اور
لبنان پر طیارے و ڈرون بم، ٹینک زمین اور اسرائیلی جہاز بحرِ روم سے گولے
برساتے رہے۔ مکان پہلے ہی مسمار ہوچکے ہیں اب اس درندگی کا نشانہ خیمے ہیں۔ ہفتے
(22 نومبر) کے روز معصوم بچوں سمیت 64 افراد اپنی جانوں سے سے گئے اور جھلسے ہوئے کئی سو افراد زخمی ہیں۔واضح رہے کہ سبت
(ہفتہ) میں چھری سےسبزی کاٹنا بھی سخت گناہ ہے۔دس
اکتوبرکو جنگ بندی کے بعد سے گزشتہ 44 دنوں میں اسرائیل نے فائربندی کی 497 خلاف
ورزیاں کیں جن میں342 نہتے
شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
حزب
اللہ کے رہنما جاں بحق
پہلے
جنوبی لبنان اسرائیلی حملوں کا ہدف تھالیکن اس ہفتے بیروت شہر کا نشانہ بنایا گیا،
23 نومبر کو جنوبی بیروت کے علاقے حارۃ حریک پر زبردست بمباری سے کئی بلندوبالا
عمارتیں مسمارہوگئیں۔حملے میں حرب اللہ کے
عسکری سربراہ ہیثم علی طباطبائی المعروف ابوعلی سمیت 28 افراد جاں بحق ہوگئے۔
زمینی پیشقدمی
امن معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج پیلی لائن تک
ہٹالی گئی تھیں لیکن 20 نومبر کو شمال میں اسرائیل فوج نے اس لکیر سے 300 میٹر آگے
بڑھ کر پوزیشن سنبھال لی اور یہ کمزور امن سمجھوتہ
عملاً کالعدم ہوگیا۔ دوسری طرف مزاحمت کاروں
نے بھی خبردار کردیا ہے کہ “جنگ بندی” سے مزید مذاق برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بچوں کی لاشیں… عالمی یومِ اطفال کا تلخ تحفہ
نام نہاد
امن معاہدے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 بچے جان سے جاچکے ہیں۔ اسکی
تصدیق کرتے ہوئے اقوام متحدہ چلڈرن فنڈ یا UNICEFکے
ترجمان Ricardo Piresنے کہا۔یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہربچہ
خواب و امنگ سے مالا مال گھرانے کا فرد تھا جسکی زندگی عرصے سے جاری وحشیانہ تشدد
نے یکایک چھین لی۔ جمعرات 20 نومبر، عالمی یومِ
اطفال تھاجس دن غزہ کے بچوں کو اسرائیل،
اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی طرف سے سات جنازوں کا تحفہ ملا۔ننھے جنازے باپ کے کندھوں پر بڑے بھاری ہوتے ہیں، اوراہل غزہ کے کندھے اپنے مہہ رخوں اور مہہ
پاروں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے ٹوٹ چکے ہیں۔
بارش، سردی اور خیموں کا شہر — اذیت میں اضافہ
موسم سرما کی پہلی بارش
نے اہل غزہ کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا
کردیا ہے۔ خیمے ٹپکنے سے بچے کھچے گرم کپڑے اور دوسرا سامان گیلا ہوگیا اور معصوم
بچے شدید سردی میں ٹھٹھررہے ہیں۔ بارش نے خیمہ بستیوں کی بے بسی اور بڑھا دی ہے
اسرائیلی جیلوں میں تشدد سے درجنوں فلسطینی جاں بحق
اسرائیلی ڈاکٹروں کی تنظیم Physicians
for Human Rights-Israel کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق غزہ
خونریزی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی جیلوں میں 98 قیدی 'پراسرار موت' کاشکار ہوئے
ہیں۔ جنکے جسموں پر تشدد اور بھوک کی علامات ہیں۔ سرکش قیدیوں کا کھانا پینا بند
کرکے انکی المناک موت کو دوسرے قیدیوں کی عبرت کیلئے استعمال کیا جاریا ہے
قطر کی مذمت — ثالثی کے ٹوٹتے ہوئے دھاگے
تازہ اسرائیلی حملوں کے
بعد قطر وہ واحد ضامن ملک ہے جس نے کھل کر اسرائیل کی “سفاک کارروائیوں” کی مذمت
کی ہے۔ قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ صریح اشتعال انگیزی جنگ بندی سبوتاز کر سکتی
ہے۔ بیان میں ریاست اسرائیل کے بجائے Israeli Occupationکا لفظ استعمال کیا گیا۔ جس سے
تاثر قائم ہواکہ قطر بھی دوریاست کے بجائے نہر یا بحر فلسطین کا حامی ہے۔
غرب اردن — قبضہ، چاکنگ، توڑ پھوڑ، نسل کشی
گزشتہ سات دن مغربی
کنارے پر بھی آگ اور خون کا ہفتہ ثابت ہوئے۔ نابلوس، بیت فوریک، حوارہ، الخلیل اور
سوسہ پر حملے گئے گئے۔ ایک 80 سالہ بزرگ کو نماز کیلئے جاتے ہوئے انکے گدھے سمیت زخمی کر دیا گیا۔ گھروں،
گاڑیوں، باغات کو آگ لگا دی گئی۔ بدنام زمانہ قوم پرست گروہ Tag Mehir دیواروں پر 'قیمت چکاؤ' جیسے نعرے لکھ کر دہشت دہشت پھیلاتا رہا۔
جانوروں کی نسل کشی
المُغَیَّر میں فلسطینی
کسانوں کی بھیڑوں کو زہر دے دیا گیا۔ جب ظلم بے قابو ہو جائے تو فصلوں، گھروں اور
عبادت گاہوں کے بعد جانور بھی محفوظ نہیں رہتے۔
آثارِ قدیمہ کے نام پر بیدخلی کا نیا حربہ
اسرائیلی وزارت دفاع کے ماتحت ادارے Coordinator for
Government Affairs in the Territories (COGAT)نے اعلان کیا ہے کہ
اس نے غربِ اردن میں نابلوس کے علاقے سبسطیہ کی 1,800 دونم (تقریباً 445 ایکڑ)
اراضی کو ’’ایک قدیم آثارِ قدیمہ کے مقام کے تحفظ اور ترقی‘‘ کے نام پر ضبط کرنے
کا عمل شروع کر دیا ہے۔زمین پر قبضے کا تازہ فیصلہ محض ’’آثارِ قدیمہ کی حفاظت‘‘
کا منصوبہ نہیں، بلکہ فلسطینی آبادی کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کی ایک
نئی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔
دنیا کا بدلتا رویّہ — سنگاپور کی پابندیاں
سنگاپور نے فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد
اقدامات پر چار اسرائیلیوں
کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔وزارتِ خارجہ نے ان چاروں پر مقبوضہ
مغربی کنارے میں غیر قانونی اقدامات انجام دینے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو
نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔ان افراد پر اس سے پہلے یورپی یونین، برطانیہ،
آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔اس سے پہلے سنگاپور
کے وزیرِ خارجہ ویوین بالا کرشنن نے پارلیمان میں کہا تھا کہ سنگاپور مناسب وقت پر
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے اُن اسرائیلی
سیاستدانوں پر بھی تنقید کی جو مغربی کنارے اور غزہ کے حصوں کو ضم کرنے کی بات
کرتے ہیں۔ سنگاپور کا فیصلہ اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف آبادکار
تشدد اب محض ایک “داخلی معاملہ” نہیں رہا، بلکہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف
ورزی سمجھا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جو اسرائیل کے روایتی اتحادی سمجھے
جاتے ہیں، اب اس پالیسی پر خاموشی ترک کررہے ہیں۔
امریکی سفارت کاری اور اسرائیلی بیانیہ
دوسری طرف اسرائیل میں امریکہ
کے سفیر مائیک ہکابی اسرائیلی طاقت کو مذہبی تفسیر کے ذریعے درست ثابت کرنے میں
مصروف اور ہر انسانی المیے کو "خدا
کی منشا" قرار دیتے ہیں۔انھوں نے حالیہ حملوں کو "دہشت گردی" کہا
لیکن اسے چند نوجوانوں کی شرارت قرار دے کر اصل حقیقت کو کم کر دیا۔ ان کا غرب اردن
کو "جودیا و سامریہ" کہنا اسرائیل کے سیاسی بیانیے کو تسلیم کرنے کے
مترادف ہے۔
اہلِ غزہ کا آہنی عزم — ملبے پر فٹبال ٹورنامنٹ
درندگی سے ایک لاکھ کے
قریب لوگ شہید، ہزاروں معذور، مسلسل بمباری، اشیائے ضرورت و کھانے کی قلت، پانی
نایاب لیکن نئی زندگی کا عزم سلامت ہے۔دیر
بلاح میں معذور نوجوانوں کے درمیان فٹبال میچ ہوا۔
مقابلہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ جسمانی نقصان کے باوجود جوانانِ غزہ مستقبل سے مایوسی نہیں۔
ایک بچی — امید کی علامت
نو سالہ
الہام ابوحجاج اوراسکے چھوٹے بھائی
کے سوا سارا خاندان اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگیا۔ خود الہام کا سارا جسم جل گیا
تھا لیکن اللہ نے اسے سلامت رکھا اور زخم بھرگئے۔ الجزیرہ سے باتیں کرتے ہوئے
الہام نے کہا ہر حال میں اللہ کا شکر، “جو
ہوجائے، میں غزہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاونگی۔رب ساتھ ہے تو غم کیسا؟”وہ اپنے بھائی کے ساتھ انہی
پتھروں پر اپنا گھر دوبارہ بنا رہی ہے۔
نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی،
یورپ کی خاموشی، ضامنوں کی بے حسی، سفارتی ابہام اور اسرائیلی درندگی
دیکھ کر مایوسی چھانے لگتی ہے لیکن اہلِ غزہ کے کھیلوں میں جھلکتا عزم، معذور نوجوانوں کی
مسکراہٹ، اور الہام جیسی بچیوں کو گھر تعمیر کرتے دیکھ کر یقین آجاتا یے کہ زندگی
ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فلسطینی عوام شکست قبول نہیں کریں گے۔ ظلم کے سائے گہرے ہیں،
مگر امید کا چراغ بجھنے والا نہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 نومبر 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 27 نومبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 نومبر 2025