غزہ: 700 دنوں کی
وحشت، مزاحمت، اور عالمی ضمیر کا امتحان
یا صاحب الارض اعتصم ۔۔ فالارض، عرض المتقین
غزہ پر مسلط جنگ کو سات
سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ ان 23 مہینوں میں آسمان سے آتش و آہن کی موسلا دھار بارش
ایک دن کے لیے بھی نہیں تھمی۔ وزارتِ صحت غزہ کے مطابق، اب تک 62,000 سے زائد
فلسطینی جاں بحق اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ عسکری انٹیلیجنس کے
مطابق، ان ہلاکتوں میں نہتے شہریوں کا تناسب 83 فیصد اور بھوک سے مرنے والے بچوں
کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔
جنگ بندی یا نسل کشی؟
غزہ شہر پر قبضے کے
لیے فوجی آپریشن کا اعلان ہو چکا ہے، مگر مطلوبہ نفری کی کمی کے باعث زمینی
کارروائی مؤخر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 27 اگست کو وائٹ ہاؤس میں ایک
"بڑے اجلاس" کی صدارت کی، جس میں برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلئیر
سمیت کئی عالمی شخصیات شریک ہوئیں۔ صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف (Steve
Witkoff) نے اعلان کیا کہ جنگ سال کے آخر تک جاری رہ
سکتی ہے۔ یعنی جاں بلب اہل غزہ کو فاقوں اور قتل عام کا عذاب مزید 120 دن
سہنا ہے ۔اسی دوران ٹائمز آف اسرائیل نے انکشاف
کیا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیادت کو "کارروائی تیز کرنے" کی ہدایت کی ہے۔اپنے سوشل
میڈیا پلیٹ فارم Truth
Social پر صدر نے لکھا:"یرغمالی صرف اس وقت آزاد ہوں گے جب مزاحمتی تنظیم مکمل طور پر ختم ہو
جائے۔"یہ
موقف اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے عزائم سے ہم آہنگ ہے، جو غزہ کو فلسطینیوں
سے "پاک" کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔غزہ پر کنٹرول اور
فلسطینیوں کی "مستقل نقل مکانی" کے حوالے سے صدر ٹرمپ اپنا موقف ویڈیو
کلپ "Trump Gaza" کی شکل میں کافی
پہلے ظاہر کرچکے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرینِ
نسل کشی کا فتویٰ: اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے
دنیا کے ممتاز ماہرینِ نسل کشی کی عالمی
تنظیم International Association of Genocide Scholars (IAGS) کی منظور کردہ ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جاری پالیسیاں
اور اقدامات نسل کشی کی قانونی تعریف پر پورا اترنے کیساتھ انسانیت کُش جنگی جرائم
شمار ہوتے ہیں۔تنظیم کی صدر محترمہ Melani O’Brien نے یکم ستمبر کو اس کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ یہ قرارداد 1948 کے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسدادِ نسل کشی کی
دفعات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے جسکی تنظیم کے 500 ارکان میں سے 86 فیصد نے حمایت کی۔
آئی اے جی ایس ایک غیر جانب دار، عالمی
اور بین الشعبہ تنظیم ہے جو نسل کشی کے اسباب، اثرات اور روک تھام پر تحقیق، تعلیم
اور پالیسی سازی کو فروغ دیتی ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 1994 میں رکھی گئی تھی اور اس
کے 500 اراکین میں محققین، صحافی، قانون دان، فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن شامل
ہیں۔ تنظیم کا تحقیقی جریدہ Genocide Studies and Prevention عالمی سطح پر شائع ہوتا ہے
فلسطینیوں کی قبروں پر ایک نیا دبئی؟؟
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق
ٹرمپ انتظامیہ
“GREAT Trust” کے
نام سے ایک منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت غزہ کو دس سال کے لیے امریکی کنٹرول
میں دے کر سرمایہ کاروں کے ذریعے تعمیر نو کی جائے گی۔لاکھوں فلسطینیوں کو نقد
رقوم اور دوسری مراعات دے کر غزہ سے باہر جانے پر آمادہ یا مجبور کیا جائیگا۔غزہ
کے مستقبل کی یہ صورت گری، 38 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز میں بیان کی گئی ہے جو Boston Consulting
Group نے
تیار کی۔ اس منصوبے پر مشاورت میں صدرٹرمپ، دامادِاول جیرڈ کشنر، سابق برطانوی
وزیراعظم ٹونی بلیئر اور امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو جیسے اہم لوگ شریک رہے۔ منصوبے کے تحت غزہ کو پرتعیش “Riviera of the Middle East” بنایا جائیگا جسکے لئے ٹونی بلئیر نے 'نیو دبئی' کا نام تجویز کیا ہے۔سرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ وہ 100 ارب ڈالر لگا کر دس
سال میں چار گنا منافع کما سکتے ہیں۔یہ سب کچھ "فلسطینی قیادت کی اصلاح"
اور "انتہا پسندی سے پاک معاشرہ" بنانے کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے
تاکہ مستقبل میں ایک ایسا ڈھانچہ کھڑا ہو جو اسرائیل کے ساتھ ابراہام معاہدوں میں
شامل ہو سکے۔سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے عوام اپنی سرزمین بیچ کر کسی اور کے
"نئے دبئی" کے خواب کو حقیقت بننے دیں گے؟؟
غربِ اردن کے اسرائیل سے الحاق کا آغاز
غزہ ہڑپنے کے ساتھ غرب اردن کے اسرائیل سے
الحاق کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے خاموشی سے
ایک نئی پالیسی نافذ کر دی ہے جس کے تحت مقتدرہ فلسطین (PA) کے
پاسپورٹ ہولڈرز کی ویزا درخواستیں روک دی گئی ہیں۔تاہم وہ
فلسطینی جن کے پاس دوسرے پاسپورٹ (اسرائیل، شام، اردن وغیرہ) ہیں، وہ ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے
18 اگست کو اپنے تمام سفارتی مشنز کو ہدایت بھیج دی تھی کہ سیکشن 221(g)
کے تحت فلسطینی پاسپورٹ پر ویزا درخواستیں مسترد کر دی جائیں۔ ماہرین
کے مطابق یہ پالیسی غربِ اردن کے باضابطہ اسرائیلی الحاق (Annexation) کی راہ
ہموار کرنے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کے بعد مقتدرہ فلسطین محض ایک کاغذی
ڈھانچہ رہ جائے گی جبکہ عملی و سیاسی کنٹرول مکمل طور پر اسرائیل کے پاس ہوگا۔
اسرائیل کی فوجی
قیادت بمقابلہ صدر ٹرمپ کا خواب
اسرائیل کے دفاعی
سربراہان ، یعنی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر، موساد کےڈائریکٹر ڈیوڈ برنیع (David Bernea)اور نیشنل سکیورٹی
ایڈوائزر ہانگبی (Tzachi Hanegbi) زور
دے رہے ہیں کہ غزہ پر یلغار کے بجائے جنگ بندی اور
یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو قبول کیا جائے۔عسکری قائدین کو ڈر ہے کہ غزہ شہر
پر حملہ اسرائیلی قیدیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ اس معاملے پر 31 اگست کو
جاری رہنے والا ہنگامی کابینہ کا ہیجان خیز اجلاس ساری رات جاری رہا۔ فوج کے قریبی
حلقوں کے مطابق بحث و مباحثے کے دوران جرنیلوں نے صاف صاف
کہدیاکہ غزہ شہر میں داخلہ شیروں کی کچھار میں قدم رکھنا ہے اور اس مہم جوئی کی
فوج کو بھاری قیمت اداکرنی پڑسکتی۔مگر وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس مجوزہ امن
معاہدے پر رائے شماری سے انکار کر دیا۔ وجہ؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "جزوی
امن" کو مسترد کرنے کا مشورہ دیاہے (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)
عالمی دباؤ اور یورپ
کا دوہرا معیار
اسرائیل میں تو نیتن
یاہو ملکی سلامتی کی چلمن کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں لیکن دنیا بھر میں انکا تعاقب
جاری ہے۔ ارجنٹینا (Argentina) میں انسانی حقوق کے
وکلا نے وفاقی عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ نیتن یاہو کو انکی آمد پر گرفتار
کرلیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی وہاں ستمبر میں آمد متوقع ہے۔ عدالت کے نام
استدعا کی گئی ہے کہ نیتن یاہو ، نہتے شہریوں کے قتل عام اور معصوم بچوں کو بھوکا
مارنے کے مجرم ہیں۔درخواست میں 23 مارچ کے واقعے کی
مثال دی گئی ہے جب اسرائیل نے ہدف بناکر 15 امدادی کارکنوں کو ہلاک کردیا
تھا۔مقامی اخبار Clarinکے مطابق نیتن یاہو اب ارجنٹینا آنے کے بجائے
نیویارک میں صدر ہاوئر ملی (Javier Millie) سے ملاقات کرینگے۔
برطانیہ
نےمشہور زمانہ Defense and Security Equipment International یا
DSEIمیں اسرائیلی حکومت کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ نمائش اگلے
ماہ لندن میں شروع ہوگی۔ اسرائیلی دفاعی کمپنیاں شریک ہوسکتی ہیں لیکن میلے میں
اسرائیل کا کوئی سرکاری پویلین نہیں ہوگا۔ فرانس، جرمنی، اور یورپی یونین کی
جانب سے اسلحہ، تجارت، اور سفارتی تعلقات پر دباؤ بڑھ رہا ہے، مگر یہ اقدامات نیم
دل، تاخیر زدہ، اور محدود ہیں۔سویڈن اور نیدرلینڈز نے یورپی یونین کی خارجہ امور
کی سربراہ کایا کالاس کو خط لکھا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:
- اسرائیل اور غزہ کی سیاسی قیادت پر تادیبی پابندیاں عائد کی
جائیں
- مغربی کنارے کے پرتشدد آبادکاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے
وزراء کو نشانہ بنایا جائے
- یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدے معطل کیے جائیں
ستم ظریفی کہ جارح اور مدافع قوتوں
کو ایک ہی سطح پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل کو خوب اندازہ ہے کہ یورپی حکومتیں
ضمیر کی خلش مٹانے کیلئے کاروائیاں ڈال رہی ہیں اور کسی ٹھوس پابندی کا کوئی خطرہ
نہیں اسلئے وہ بھی عالمی سطح پر سفارتی جارحیت سے باز نہیں آرہا۔ اسرائیلی وزارتِ
خارجہ نے اقوامِ متحدہ کے ادارے Integrated Food Security Phase
Classification (IPC) کی غزہ میں قحط سے متعلق تازہ ترین بین
الاقوامی رپورٹ کو فوری طور پر واپس لینے اور اس کا ازسرِنو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے
ہوئےدھمکی دی ہے کہ اگر رپورٹ واپس نہ لی گئی تو اسرائیل معاون ممالک پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ
IPC کی فنڈنگ بند کر دیں۔ یورپی یونین، امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا کا
IPCکے بڑے معاونین میں شمار ہوتا ہے
امریکہ میں اسرائیلی
لابی کمزور ہورہی ہے؟؟؟
صدر ٹرمپ نے ایک تازہ انٹرویو میں اعتراف کیا
ہے کہ اسرائیلی لابی، جو کبھی امریکی کانگریس پر مکمل قابض سمجھی جاتی تھی، اب
اپنی طاقت کھو رہی ہے۔قدامت پسند ڈیلی کالر (Caller)سے باتیں
کرتے ہوئے جناب ٹرمپ نے کہا "پندرہ بیس سال پہلے امریکی کانگریس اسرائیل کے
کنٹرول میں تھی، اور سیاستدان اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔
لیکن اب ایسا نہیں رہااور اسرائیلی لابی کمزور پڑ گئی ہے۔"
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!!
ہسپانوی بندرگاہ بارسیلونا سے درجنوں کشتیوں پر مشتمل ایک اور قافلہ
(Flotilla)غزہ روانہ ہوگیا۔ صمود یا قافلہ استقامت پر 44 ممالک کے افراد سوار
ہیں جنکی قیادت سویڈن کی گریٹا تھورنبرگ اور پرتگال کی سیاستدان
Mariana Mortagua کررہی ہیں.۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق سینیٹر
مشتاق احمد خان تیونس سے اس قافلے کا حصہ بنیں گے۔ اس سے پہلے 2010 میں ترکیہ سے
روانہ ہونے والے قافلے کیساتھ ممتاز صحافی سید طعت حسین غزہ جاچکے ہیں جس پر
اسرائیلی فوج کے حملے میں 10 ترک کارکن جاں بحق ہوگئے تھے
صحافت کی قربانی: ویلری زنک کا استعفیٰ
رائٹرز
کی فوٹو جرنلسٹ ویلری زنک (Valerie
Zink) نے غزہ میں صحافیوں کے قتل پر استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنا پریس بیج
دو ٹکڑے کر کے کہا:"رائٹرز کی خاموشی سے لگتا ہے جیسے یہ ادارہ 245 صحافیوں کے
قتل میں شریکِ جرم ہے۔"
نوشتہ دیوار: زمین سے وابستگی کا جرات مندانہ عزم
اور آخر میں سوشل
میڈیا پر وائرل ایک نوشتہ دیوار۔ کسی جرات مند فلسطینی نے دیوار پر لکھدیا کہ
"یا صاحب الارض اعتصم ۔۔ فالارض، عرض المتقین
"(اے زمین کے مالک! ڈٹے رہو، بے شک زمین
مومنوں کی عزت و غیرت ہے) یہ صدا ان لوگوں کی ہے جو ملبے، بربادی اور قتل عام کے
دوران بھی اپنی زمین سے وابستہ ہیں۔ اہلِ غزہ نے اپنی غیرت کو خیموں میں نہیں، دلوں میں بسایا
ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 ستمبر 2025
ہفت روزی دعوت دہلی 5
ستمبر 2025
روزنامہ امت کراچی 5 ستمبر
2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 ستمبر 2025