پانچ سال کی جنگ بندی
اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا۔ مصر و قطر کا نیاامن فارمولا
نیتن یاہو کو ملک کے اندر شدید مزاحمت کا
سامنا
حکومتی "عزائم" کی تکمیل کے
لئے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں۔ اسرائیلی جرنیل
خفیہ ایجنسیاں Deep Stateکی نجی
ملیشیا میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ نیتن یاہو کا شکوہ
اپنا
شہری رہا کرانے کیلئے امریکہ کے مزاحمت کاروں سے براہ راست مذاکرات؟؟؟
فرانسیسی و برطانوی ارکان پارلیمان کے
اسرائیلی ویزے منسوخ
امریکہ یمن میں
30ہزار پونڈ کے Massive Ordnance Penetrator بم استعمال کررہا ہے
غزہ میں ایک اور خاتون صحافی اسرائیل کے
ہاتھوں قتل
غزہ اور غرب اردن میں ڈیڑھ
سال سے جاری وحشت کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسکی بنیادی وجہ
اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی مشکلات ہیں۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ غزہ سے
اسرائیلی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی نیتن یاہو کو ایوان وزیراعظم خالی کرنا ہوگا۔
انکے خلاف بے ایمانی، مالی بدعنوانی اور اختیارکے غیر قانونی استعمال کے اتنے پرچے
کٹ چکے ہیں کہ کوئے یار سے انھیں سیدھا سو ئے دار (جیل) جانا ہوگا۔ متکبر نیتن یاہو، غزہ،
غربِ اردن، جنوبی لبنان، شام اور یمن کو برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن پورس
کے اس بدمست ہاتھی سے اب اسرائیل بھی محفوظ نہیں۔اسرائیل کی قوت کا راز اسکا
سراغرسانی کا کامیاب نظام ہے اور اس شعبے کے تینوں اداروں یعنی موساد، شاباک (Shin Bet)اور
یونٹ 8200سے وزیراعظم کی ٹھنی ہوئی ہے۔
اکتوبر 2023 میں غزہ پر حملے
کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو غزہ میں جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ حکومت کے
ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کیلئے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ جانی و مالی نقصان
میں اضافے کیساتھ انگشت نمائی و الزام تراشی کا آغاز ہوا اور ایوان وزیراعظم
محلاتی سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ عالمی فوجداری عدالت سے وزیراعظم، وزیردفاع اور
عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری کے بعد 'یہ سب تمہاری غلطی ہے' قائدین کا تکیہ
کلام بن گیا۔ اسکے ننیجے میں وزیردفاع گیلینٹ اور فوج کے سربراہ سمیت صف اول کے
جرنیلوں کا مستعفی ہونا پڑا۔ وزیراعظم نیتن یاہو کی بے ایمانی و بددیانتی کی
کہانیاں پہلے ہی زباں رد عام تھیں، قطر گیٹ اسیکنڈل کی شکل میں رشوت ستانی کے نئے
قصے مشہور ہوئے اور پتہ چلا کہ ٹبر کیساتھ مشیروں کا سارا طائفہ لوٹ مار میں شریک
ہے۔
نیتن یاہو سمجھتے ہیں شاباک
کی شکل میں گھر بلکہ جڑ میں بیٹھا بھیدی لنکا ڈھارہا ہے، چنانچہ انھوں نے خفیہ
ادارے کے سربراہ رونن بار کو پروانہ برطرفی تھمادیا لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر
عدالت نے برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرکے معاملے کو معلق کردیا۔ اٹارنی جنرل
غالی بہاروو میعارا صاحبہ کی جانب سے شاباک کی پشت پناہی حکمرانوں کیلئے نیا دردسر
ہے۔ دوسری طرف فوج کیلئے غزہ کی دلدل گہری ہوتی چلی گئی۔جرنیلوں نے نجی مجالس میں
وزیراعظم سے اپنی تشویش کاذکر کیا لیکن 'فتح مبیں' کے گنبد میں بند نیتن کچھ سننے
کو تیار نہ ہوئے جس پر فوجی افسران اور سراغرساں اداروں نے کھلے خط کی شکل میں
اپنے خدشات اور تحفظات عوام کے سامنے رکھ دئے۔ اب وزیراعظم کے ساتھ انکے حکمراں لیکڈ
اتحاد نے بھی خفیہ اداروں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔پندرہ اپریل کو لیکڈ نے سوشل میڈیا پر صاف صاف کہدیا کہ
شاباک کے سربراہ رونن بار
اور اٹارنی جنرل بہارو میعارا نے سکیورٹی سروس کو'گہری ریاست (Deep State)کی نجی ملیشیا' میں تبدیل کر دیا ہے جو قانون کی حکمرانی اور
جمہوریت کی بنیادوں کو کمزورکررہی ہے۔ شین بیت تحفظِ اسرائیل کے بنیادی کام کے
بجائے اب صحافیوں کو پکڑ دھکڑ اور اور ان سے پوچھ تاچھ میں مصروف ہے۔ پولیس افسران
اور حکومتی اہلکاروں کی بلیک میلنگ کیساتھ وزرا اور ارکان پارلیمان کے خلاف
تحقیقات کے کھاتے کھول دئے گئے ہیں۔ لیکوڈ اتحاد کا کہنا ہے کہ شین بیت کے ریاست
کے اندر ریاست بن جانے کی وجہ سے غزہ کی جیتی ہوئی جنگ شرمناک شکست کی طرف بڑھ رہی
ہے۔
اندرونی چپقلش اس مقام تک
پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کو فوج کے سربراہ
جنرل ایال ضمیر نے بریفنگ دی۔حساسیت کی بناپر اس اجتماع کا TOP
SECRETقرار دیا گیا یعنی وہاں موجود شرکا کو نوٹس
لینے کی بھی اجازت نہ تھی۔ لیکن نشست ختم ہوتے ہی عبرانی خبر رساں ایجنسی Ynet Newsپر اجلاس کی خبر کچھ اسطرح شایع ہوئی 'سیاسی قائدین کے ایک خصوصی اجتماع کو فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل
ایال ضمیر نے بتایا کہ ان کے پاس غزہ کی پٹی میں حکومت کے "عزائم" کو
عملی جامہ پہنانے کے لئے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں۔اسرائیلی فوج نے اس خبر
نما انکشاف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'چیف آف اسٹاف نے سیاسی حلقوں کے سامنے 'بند
آپریشنل بحث' میں جو کچھ عرض کیا، اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور یہ حقائق کی
عکاسی نہیں کرتا'۔ اس پر معروف دفاعی تجزیہ
نگار یوف زیٹن (Yaov Ziton) نے
خبر اور وضاحت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک درمیانی رائے کا اظہار کچھ اسطرح کیا کہ
'(جنرل) ضمیر سیاسی قیادت سے کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ زمینی حقائق کے تناظر میں
اپنے کچھ خواب و تصورات ترک کرلیں۔
غزہ نسل کشی کے طول پکڑ جانے
سے فوج میں جو بیچینی ہے اسکا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اس ہفتے شہری
ہوابازی کے 300پائیلٹوں نے وزیراعظم کے نام اپنے کھلے خط میں کہا کہ خونریزی جاری
رہنے سے قیدیوں کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔مکتوب پر سرکاری اسرائیل
ایئرلائن El Al کے
علاوہ نجی جہاز راں کمپنیوں سے وابستہ پائلٹوں کے دستخط ہیں جنکی مجموعی تعداد
اسرائیل کے دوتہائی ہوابازوں سے زیادہ ہے۔
اب جبکہ 'جن پہ تکیہ تھا وہی
پتے ہوا دینےلگے' والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے تو موصوف خود کو دبنگ ثابت کرنے
کیلئے بہت ہی مکروہ انداز میں غرارہے ہیں۔ ہفتہ 19
اپریل کو قوم کے نام اپنے جذباتی خطاب میں انھوں نے کہا مزاحمت کاروں کے مکمل
خاتمے سے پہلے غزہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ غزہ میں مزاحمت کاروں کا اقتدار بحال رہنا
اسرائیل کی شکست ہے۔
واشنگٹن میں یہ خبر گردش
کررہی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے نےغزہ کے
بارے میں اپنی تشویش سے صدر ٹرمپ کو مطلع کردیا ہے۔سی آئی اے کے خیال میں غزہ
اسرائیلی فوج کا دلدل بن چکا ہے۔ وحشیانہ بمباری سے عسکری اہداف کا حصول ممکن نہیں
جبکہ زمینی دستوں کو ہر جگہ شدید مزاحمت کا سامناہے۔صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا گیا ہے
کہ وہ اہل غزہ سے براہ راست بات چیت کرکے امریکی قیدی عیدن الیکزنڈر اور چار
امریکی لاشیں بازیاب کرالیں۔ عیدن کی زندگی کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ پندرہ
اپریل کو شدید بمباری کے بعد سوشل میڈیا چبوترے Telegramپر مزاحمت کاروں کے ترجمان نے کہا 'بمباری
کے بعد ہمارا اُس مرکز سے رابطہ ختم ہوگیا ہے جہاں کچھ دوسرے قیدیوں کیساتھ عیدن الیگزنڈر کو رکھا گیا
تھا، قیدیوں کی نگرانی پر مامور محافظین سے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔متحدہ عرب
امارات کی خبر رساں ایجنسی Erem کے مطابق صدر ٹرمپ نے مزاحمت کاروں سے براہ راست مذاکرات کیلئے اپنے خصوصی
ایلچی آدم بوہلر کو قطر جانے کی ہدائت کی ہے۔
اسی کیساتھ 21 اپریل کو قطر
اور مصر نے پانچ سے سات سال کی جنگ بندی کانیا امن فارمولا تجویز کردیا۔بی بی سی
پر جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس دوران اسرائیل غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لے
گا اور غزہ میں نظر بند تمام قیدی رہا کردئے جائینگے، جسکے عوض اسرائیل کو اپنے
عقوبت کدوں سے سارے فلسطینیوں کو رہائی دینی ہوگی، جن میں غزہ سے گرفتار کئے
جانیوالے بچے بھی شامل ہیں۔
ملک کے اندر بیچینی کیساتھ
اپنے مغربی اتحادیوں کے سنگین تحفظات سے نیتن یاہو بوکھلائے سے لگ رہے ہیں۔ اتوار
20 اپریل کو اسرائیلی حکومت نے فرانسیسی پارلیمان کے 27ارکان کو ملک آنے سے روک
دیا۔ ان قانون سازوں کا تعلق ماحول دوست (Ecologist) اور کمیونسٹ پارٹیوں سے ہے۔ چند روز پہلے برطانیہ کی برسراقتدار
لیبر پارٹی کے دوارکان کے اسرائیلی ویزے منسوخ کئے جاچکے ہیں۔وضاحت کرتے ہوئے
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا 'ان افراد کی سرگرمیاں اسرائیل کے قومی مفادات
اور سلامتی کیلئے نقصان دہ ہیں' حوالہ: ٹائمز آف اسرائیلی
قیدیوں کے حراست کدوں پر
بمباری کی خبر سے اسرائیل بھر میں مظاہروں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ یروشلم میں مظاہرے
کے دوران حال ہی میں رہا ہونے والے عفر کلدڑن نے کہا کہ نیتن یاہو نے ہماری روح کو
یرغمال بنایا ہوا ہے۔اس ہفتے عوامی سطح
پر 'جنگ ختم کرو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو' کے عنوان سے اسرائیل میں دسخطی مہم کا آغاز ہوا اور پہلے ہی
دن سابق وزیر اعظم یہودبراک، فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈین ہالُٹز، موساد کے سابق
سربراہوں، اور غزہ قتل عام میں مصروف فوجیوں سمیت ڈیڑھ لاکھ افراد نے اس پر دستخط
کردئے۔اسرائیلی ٹیلی ویژن 12 کے ایک جائزے میں 70 فیصد اسرائیلیوں نے جنگ ختم کرکے
قیدی آزاد کرانے کی حمائت کی ہے۔
دوسری طرف امن مذاکرات کے
ثالث، قطر نے لگی لپٹی بغیرجنگ بندی کے
حوالے سے اسرائیل کی بدنیتی کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ماسکو میں روسی صدر ولادیمر پیوتن
سے ملاقات کے بعد میزبان کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیرِ
قطر شیخ ثمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ 'ہم کئی ماہ پہلے ایک امن معاہدے پر متفق
ہوچکے تھے لیکن بد قسمتی سے اسرائیل نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی'۔
غزہ اور غرب اردن پر اسرائیل
کی وحشت کیساتھ امریکہ بہادر یمن پر قیامت ڈھائے ہوئے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع
(پینٹاگون) کے مطابق یمن کے خلاف اب انسانی تاریخ کا خوفناک ترین GBU-57A/B MOP (Massive Ordnance
Penetrator)المعروف بنکر بسڑ بم استعمال کیا جارہا
ہے۔ بوئنگ کا تیارکردہ 30 ہزار پونڈ کا یہ بم اپنے ہدف کو چیرتا ہوا زمین کے اندر
200 فٹ گھس کر پھٹتا ہے اور چٹانیں اور فولادی چادریں دھواں بن کر فضا میں اڑ جاتی
ہیں۔ بیس فٹ لمبا اور 30 انچ قطر کا یہ بم اتنا بھاری ہے کہ روائتی بمباروں کیلئے
انھیں اٹھانا ممکن نہیں چنانچہ قیامت گرانے کیلیے دیوپیکر B-2 Spiritبمبار استعمال کئے جارہے ہیں۔ امریکہ نے پانچ غیر مرئی (Stealth)بی 2 بمبار بحر یند کے ڈیکو
کارشیا (Diego Garcia)اڈے
پر پہنچادئے ہیں۔گزشتہ ہفتے بحیرہ احمر کی یمنی بندرگاہ راٗس عیسیٰ کو ان بموں سے اسوقت نشانہ بنایا جب وہاں جہازوں سے غلہ اتارا
جارہا تھا۔ بمباری سے 75 کارکن جان بحق ہوئے اور قحط زدہ یمنیوں کا ٹنوں غلہ راکھ
بن گیا۔اسی روز الحدیدہ بندرگاہ کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ تاہم یمنی میزائیلوں کا
اسرائیل کی طرف سفر بھی جاری ہے۔اٹھارہ اپریل کو یمن سے منجنیقی (Ballistic)میزائیل داغے گئے، جسے اسرائیلی
دفاعی نظام نے غیر مؤثر کردیا لیکن اسکا ملبہ گرنے سے کوہ یروشلم پر تاریخی ساریک
غار کے قریب آگ بھڑک اٹھی۔ حفاظتی الارم کے سائرن بجنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد اس
غار میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ میزائیل کے کچھ ٹکڑے بیت اللحم کے قریب گرے
ایک اور
آئینہ چکناچور:
اس ہفتے 25
سالہ فری لانس فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسسونہ بمباری سے اپنے ماں باپ
کیساتھ شہید ہوگئی۔فاطمہ کو کعبہ و مدینہ کی زیارت کا بہت
شوق تھا اور اس مبارک سفر کیلئے اس نے زاد راہ بھی جمع کرلیا لیکن فاطمہ کا خیال
تھا کہ اسوقت عمرے سے زیادہ اہم دنیا کو اسرائیلی مظالم کی تفصیل بتانا ہے، لہٰذا
اس نے نیت کرلی کہ جنگ ختم ہونے پر وہ اپنے والدین کیساتھ عمرہ کریگی لیکن 16
اپریل کی صبح اسرائیلی طیاروں نے اسکے گھر کو نشانہ بنایا جس سے وہاں موجود تمام
لوگ جاں بحق ہوگئے اور فاطمہ، کعبہ کے
بجائے رب کعبہ کے حضور پیش ہوگئی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
فوٹو جرنلزم کے حوالے سے غزہ
کے نوسالہ بچے محمود عجور کی تصویرکشی پر نیویارک ٹائمز کے فوٹو گرافر کو WORLD PRESS PHOTOکا ایوارڈ دیا گیا ہے۔اسرائیلی بمباری سے اس بچے کے دونوں بازو اڑ
گئے ہیں۔ درندگی و وحشت کے اس استعارے پر انعام دینے والوں کو اس ظلمِ عظیم کی
مذمت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔سچ ہے کہ غزہ کے لہو نے مغربی تہذیب کا میک اپ دھوکر
اسکا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ
سفاکی کا نیا سنگ میل عبور کرلیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف قیادت کرنے والے زیرحراست طالب
علم رہنما محمود خلیل کی پرامید بیوی نور عبداللہ گھر پر بالکل اکیلی ہے۔ محمود کے
وکلا نے ایمیگریشن حکام سے درخواست کی تھی کہ محمود خلیل کو Furlough (عارضی) پر چند روز کیلئے رہا کردیا جائے تاکہ ان مشکل لمحات میں
اپنی بیوی کے ساتھ رہے۔لیکن ایمیگریشن حکام نے یہ درخواست مسترد کردی۔، 21 اپریل
کو کی بیوی نور عبداللہ نے چاند سے ایک
بیٹے کو جنم دیا جو نور اور محمود کی پہلی اولاد ہے۔ولادت کیلئے ہسپتال جاتے ہوئے
جب نور کو بتایا گیا کہ اسکے شوہر کی furloughدرخواست مسترد ہوگئی ہے تو اس حوصلہ مند لڑکی
نے کہا 'کیا ہوا جو میرامحمود میرے ساتھ نہیں، ربِ محمود میرے ساتھ ہے'
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اپریل 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 25 اپریل 2025
روزنامہ امت کراچی 25 اپریل 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 اپریل 2025