Thursday, September 4, 2025

 

غزہ: 700 دنوں کی وحشت، مزاحمت، اور عالمی ضمیر کا امتحان

یا صاحب الارض اعتصم ۔۔ فالارض، عرض المتقین

غزہ پر مسلط جنگ کو سات سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ ان 23 مہینوں میں آسمان سے آتش و آہن کی موسلا دھار بارش ایک دن کے لیے بھی نہیں تھمی۔ وزارتِ صحت غزہ کے مطابق، اب تک 62,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ عسکری انٹیلیجنس کے مطابق، ان ہلاکتوں میں نہتے شہریوں کا تناسب 83 فیصد اور بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

جنگ بندی یا نسل کشی؟

غزہ شہر پر قبضے کے لیے فوجی آپریشن کا اعلان ہو چکا ہے، مگر مطلوبہ نفری کی کمی کے باعث زمینی کارروائی مؤخر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 27 اگست کو وائٹ ہاؤس میں ایک "بڑے اجلاس" کی صدارت کی، جس میں برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلئیر سمیت کئی عالمی شخصیات شریک ہوئیں۔ صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف (Steve Witkoff) نے اعلان کیا کہ جنگ سال کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے۔ یعنی جاں بلب اہل غزہ کو فاقوں اور قتل عام کا عذاب مزید 120 دن سہنا ہے ۔اسی دوران ٹائمز آف اسرائیل نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیادت کو "کارروائی تیز کرنے" کی ہدایت کی ہے۔اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم  Truth Social پر صدر نے لکھا:"یرغمالی صرف اس وقت آزاد ہوں گے جب مزاحمتی تنظیم مکمل طور پر ختم ہو جائے۔"یہ موقف اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے عزائم سے ہم آہنگ ہے، جو غزہ کو فلسطینیوں سے "پاک" کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کی "مستقل نقل مکانی" کے حوالے سے صدر ٹرمپ اپنا موقف ویڈیو کلپ "Trump Gaza" کی شکل میں کافی پہلے ظاہر کرچکے ہیں۔

بین الاقوامی ماہرینِ نسل کشی کا فتویٰ: اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے

دنیا کے ممتاز ماہرینِ نسل کشی کی عالمی تنظیم International Association of Genocide Scholars (IAGS) کی منظور کردہ ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جاری پالیسیاں اور اقدامات نسل کشی کی قانونی تعریف پر پورا اترنے کیساتھ انسانیت کُش جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔تنظیم کی صدر محترمہ Melani O’Brien نے یکم ستمبر کو اس کا اعلان  کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد 1948 کے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسدادِ نسل کشی کی دفعات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے جسکی تنظیم  کے 500 ارکان میں سے 86 فیصد نے حمایت کی۔

آئی اے جی ایس ایک غیر جانب دار، عالمی اور بین الشعبہ تنظیم ہے جو نسل کشی کے اسباب، اثرات اور روک تھام پر تحقیق، تعلیم اور پالیسی سازی کو فروغ دیتی ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 1994 میں رکھی گئی تھی اور اس کے 500 اراکین میں محققین، صحافی، قانون دان، فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ تنظیم کا تحقیقی جریدہ Genocide Studies and Prevention عالمی سطح پر شائع ہوتا ہے

فلسطینیوں کی قبروں پر ایک نیا دبئی؟؟

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ “GREAT Trust” کے نام سے ایک منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت غزہ کو دس سال کے لیے امریکی کنٹرول میں دے کر سرمایہ کاروں کے ذریعے تعمیر نو کی جائے گی۔لاکھوں فلسطینیوں کو نقد رقوم اور دوسری مراعات دے کر غزہ سے باہر جانے پر آمادہ یا مجبور کیا جائیگا۔غزہ کے مستقبل کی یہ صورت گری، 38 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز میں بیان کی گئی ہے جو Boston Consulting Group نے تیار کی۔ اس منصوبے پر مشاورت میں صدرٹرمپ، دامادِاول جیرڈ کشنر، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو جیسے اہم لوگ شریک رہے۔ منصوبے کے تحت غزہ کو پرتعیش “Riviera of the Middle East” بنایا جائیگا جسکے لئے ٹونی بلئیر نے 'نیو دبئی' کا نام تجویز کیا ہے۔سرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ وہ 100 ارب ڈالر لگا کر دس سال میں چار گنا منافع کما سکتے ہیں۔یہ سب کچھ "فلسطینی قیادت کی اصلاح" اور "انتہا پسندی سے پاک معاشرہ" بنانے کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں ایک ایسا ڈھانچہ کھڑا ہو جو اسرائیل کے ساتھ ابراہام معاہدوں میں شامل ہو سکے۔سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے عوام اپنی سرزمین بیچ کر کسی اور کے "نئے دبئی" کے خواب کو حقیقت بننے دیں گے؟؟

غربِ اردن کے اسرائیل سے الحاق کا آغاز

غزہ ہڑپنے کے ساتھ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے خاموشی سے ایک نئی پالیسی نافذ کر دی ہے جس کے تحت مقتدرہ فلسطین (PA) کے پاسپورٹ ہولڈرز کی ویزا درخواستیں روک دی گئی ہیں۔تاہم وہ فلسطینی جن کے پاس دوسرے پاسپورٹ (اسرائیل، شام، اردن وغیرہ) ہیں، وہ  ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے 18 اگست کو اپنے تمام سفارتی مشنز کو ہدایت بھیج دی تھی کہ سیکشن 221(g) کے تحت فلسطینی پاسپورٹ پر ویزا درخواستیں مسترد کر دی جائیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پالیسی غربِ اردن کے باضابطہ اسرائیلی الحاق (Annexation) کی راہ ہموار کرنے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کے بعد مقتدرہ فلسطین محض ایک کاغذی ڈھانچہ رہ جائے گی جبکہ عملی و سیاسی کنٹرول مکمل طور پر اسرائیل کے پاس ہوگا۔

اسرائیل کی فوجی قیادت بمقابلہ صدر ٹرمپ کا خواب

اسرائیل کے دفاعی سربراہان ، یعنی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر، موساد کےڈائریکٹر ڈیوڈ برنیع (David Bernea)اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہانگبی (Tzachi Hanegbi) زور دے رہے ہیں کہ غزہ پر یلغار کے بجائے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو قبول کیا جائے۔عسکری قائدین کو ڈر ہے کہ غزہ شہر پر حملہ اسرائیلی قیدیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ اس معاملے پر 31 اگست کو جاری رہنے والا ہنگامی کابینہ کا ہیجان خیز اجلاس ساری رات جاری رہا۔ فوج کے قریبی حلقوں کے مطابق بحث و مباحثے کے دوران جرنیلوں نے صاف صاف کہدیاکہ غزہ شہر میں داخلہ شیروں کی کچھار میں قدم رکھنا ہے اور اس مہم جوئی کی فوج کو بھاری قیمت اداکرنی پڑسکتی۔مگر وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس مجوزہ امن معاہدے پر رائے شماری سے انکار کر دیا۔ وجہ؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "جزوی امن" کو مسترد کرنے کا مشورہ دیاہے (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

عالمی دباؤ اور یورپ کا دوہرا معیار

اسرائیل میں تو نیتن یاہو ملکی سلامتی کی چلمن کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں لیکن دنیا بھر میں انکا تعاقب جاری ہے۔ ارجنٹینا (Argentina) میں انسانی حقوق کے وکلا نے وفاقی عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ نیتن یاہو کو انکی آمد پر گرفتار کرلیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی وہاں ستمبر میں آمد متوقع ہے۔ عدالت کے نام استدعا کی گئی ہے کہ نیتن یاہو ، نہتے شہریوں کے قتل عام اور معصوم بچوں کو بھوکا مارنے کے مجرم ہیں۔درخواست میں 23 مارچ کے واقعے کی مثال دی گئی ہے جب اسرائیل نے ہدف بناکر 15 امدادی کارکنوں کو ہلاک کردیا تھا۔مقامی اخبار Clarinکے مطابق نیتن یاہو اب ارجنٹینا آنے کے بجائے نیویارک میں صدر ہاوئر ملی (Javier Millie) سے ملاقات کرینگے۔

برطانیہ نےمشہور زمانہ Defense and Security Equipment International یا DSEIمیں اسرائیلی حکومت کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ نمائش اگلے ماہ لندن میں شروع ہوگی۔ اسرائیلی دفاعی کمپنیاں شریک ہوسکتی ہیں لیکن میلے میں اسرائیل کا کوئی سرکاری پویلین نہیں ہوگا۔ فرانس، جرمنی، اور یورپی یونین کی جانب سے اسلحہ، تجارت، اور سفارتی تعلقات پر دباؤ بڑھ رہا ہے، مگر یہ اقدامات نیم دل، تاخیر زدہ، اور محدود ہیں۔سویڈن اور نیدرلینڈز نے یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس کو خط لکھا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

  • اسرائیل اور غزہ کی سیاسی قیادت پر تادیبی پابندیاں عائد کی جائیں
  • مغربی کنارے کے پرتشدد آبادکاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے وزراء کو نشانہ بنایا جائے
  • یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدے معطل کیے جائیں

ستم ظریفی کہ جارح اور مدافع قوتوں کو ایک ہی سطح پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔

اسرائیل کو خوب اندازہ ہے کہ یورپی حکومتیں ضمیر کی خلش مٹانے کیلئے کاروائیاں ڈال رہی ہیں اور کسی ٹھوس پابندی کا کوئی خطرہ نہیں اسلئے وہ بھی عالمی سطح پر سفارتی جارحیت سے باز نہیں آرہا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کے ادارے Integrated Food Security Phase Classification (IPC) کی غزہ میں قحط سے متعلق تازہ ترین بین الاقوامی رپورٹ کو فوری طور پر واپس لینے اور اس کا ازسرِنو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئےدھمکی دی ہے کہ اگر رپورٹ واپس نہ لی گئی تو اسرائیل  معاون ممالک پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ IPC کی فنڈنگ بند کر دیں۔ یورپی یونین، امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا کا IPCکے بڑے معاونین میں شمار ہوتا ہے

امریکہ میں اسرائیلی لابی کمزور ہورہی ہے؟؟؟

صدر ٹرمپ نے ایک تازہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی لابی، جو کبھی امریکی کانگریس پر مکمل قابض سمجھی جاتی تھی، اب اپنی طاقت کھو رہی ہے۔قدامت پسند ڈیلی کالر (Caller)سے باتیں کرتے ہوئے جناب ٹرمپ نے کہا "پندرہ بیس سال پہلے امریکی کانگریس اسرائیل کے کنٹرول میں تھی، اور سیاستدان اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں رہااور اسرائیلی لابی کمزور پڑ گئی ہے۔"

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!!

ہسپانوی بندرگاہ بارسیلونا سے  درجنوں کشتیوں پر مشتمل ایک اور قافلہ (Flotilla)غزہ روانہ ہوگیا۔ صمود یا قافلہ استقامت پر 44 ممالک کے افراد سوار ہیں جنکی قیادت سویڈن کی گریٹا تھورنبرگ اور پرتگال کی سیاستدان Mariana Mortagua کررہی ہیں.۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان تیونس سے اس قافلے کا حصہ بنیں گے۔ اس سے پہلے 2010 میں ترکیہ سے روانہ ہونے والے قافلے کیساتھ ممتاز صحافی سید طعت حسین غزہ جاچکے ہیں جس پر اسرائیلی فوج کے حملے میں 10 ترک کارکن جاں بحق ہوگئے تھے

صحافت کی قربانی: ویلری زنک کا استعفیٰ

رائٹرز کی فوٹو جرنلسٹ ویلری زنک (Valerie Zink) نے غزہ میں صحافیوں کے قتل پر استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنا پریس بیج دو ٹکڑے کر کے کہا:"رائٹرز کی خاموشی سے لگتا ہے جیسے یہ ادارہ 245 صحافیوں کے قتل میں شریکِ جرم ہے۔"

نوشتہ دیوار: زمین سے وابستگی کا جرات مندانہ عزم

اور آخر میں سوشل میڈیا پر وائرل ایک نوشتہ دیوار۔ کسی جرات مند فلسطینی نے دیوار پر لکھدیا کہ

"یا صاحب الارض اعتصم ۔۔ فالارض، عرض المتقین "(اے زمین کے مالک! ڈٹے رہو، بے شک زمین مومنوں کی عزت و غیرت ہے) یہ صدا ان لوگوں کی ہے جو ملبے، بربادی اور قتل عام کے دوران بھی اپنی زمین سے وابستہ ہیں۔ اہلِ غزہ  نے اپنی غیرت کو خیموں میں نہیں، دلوں میں بسایا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 ستمبر 2025

ہفت روزی دعوت دہلی 5 ستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 5 ستمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 ستمبر 2025


Thursday, August 21, 2025

 

 نئی امن تجویز اور  نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی۔۔ امریکی سرپرستی  کا خمار؟؟؟

پیر (18اگست) کے دن غزہ مزاحمت کاروں نے اُس معاہدے کو مبینہ طور پر قبول کر لیا جو ایک روزپہلے مصر اور قطر کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ منصوبے کے تحت، 10 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 150 فلسطینی رہا ہوں گے۔ مرنے والے قیدیوں کی لاشیں بھی واپس کی جائینگی جبکہ مزید قیدیوں اور مستقل جنگ بندی پر بات چیت دوسرے مرحلے میں ہوگی۔ عارضی جنگ بندی کا دورانیہ 60 دن ہوگا۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی بعض شرائط نرم کر دی ہیں، مثلاً سرحدی بفر زون کے معاملے پر وہ اب 800 میٹر تا ایک کلومیٹر کا دائرہ ماننے پر آمادہ ہیں، جبکہ اسرائیل 1 تا 1.2 کلومیٹر چاہتا ہے۔ یہ تجویز بڑی حد تک اسی منصوبے سے ملتی جلتی ہے جو چند ماہ قبل امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیش کیا تھا، جس پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسری طرف نیتن یاہو نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں جزوی معاہدے میں دلچسپی نہیں، اور جنگ صرف اس وقت رکے گی جب تمام قیدی ایک ساتھ رہا کیے جائیں اور اسرائیلی شرائط پوری ہوں، یعنی مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں۔ اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمائت ہے جنھوں نےنیتن یاہو کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کسی ڈیل سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا، کیونکہ اب تک جو قیدی رہا ہوئے ہیں، ان کی پشت پر فوجی دباؤ ہی کارفرما تھا۔ لگتا ہے کہ چچاسام کی نیت اور اسرائیل کی ضد قیامِ امن کا یہ نیاموقع بھی ضائع کر دے گی۔

غزہ شہر پر حملہ اور غرب اردن میں قبضہ گردوں کی غارت گری

اس سے تین دن پہلے اسرائیلی فوج غزہ شہر کے مضافاتی علاقے پر شدید گولہ باری سے بڑے حملے کا آغاز کرچکی ہے۔اسرائیلی حزبِ اختلاف، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس کارروائی کو ایک نئے قتل عام کا نقطہ آغاز قرار دیا، لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کے خیال میں غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، اس نئی فوجی مہم جوئی کا ہدف پورے غزہ پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کی بے دخلی ہے، تاکہ صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront منصوبے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

غزہ پر مکمل قبضے کے لئے بھرپور فوجی آپریشن کے ساتھ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ فوجی پہرے میں قبضہ گردوں نے فلسطینی آبادیوں میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہزاروں فلسطینی آبائی زمینوں سے بے دخل ہو کر اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیے گئے۔

نئی اسرائیلی بستی کا منصوبہ یا  فلسطینی ریاست کی تدفین؟

اسی ہفتے اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے قریب E1 سیٹلمنٹ پروجیکٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اگر مکمل ہوا تو فلسطینی ریاست کا تسلسل جغرافیائی طور پر ٹوٹ جائے گا۔ یروشلم اور غیر قانونی اسرائیلی بستی "معالیہ ادومیم" (Ma’ale Adumim) کے درمیان واقع E1 میں تعمیرات کا منصوبہ تین دہائیوں سے عالمی دباؤ کے تحت رکا ہوا تھا۔بدھ 13 اگست کو معالیہ ادومیم کی پہاڑیوں پر ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسموترچ نے بتایا کہ E1 منصوبے کے پہلے مرحلے میں 3401 نئے گھروں اور متعلقہ سہولتوں کی تعمیر کے لیے رقم مختص کر دی گئی ہے۔ انھوں نے تکبر سے چور لہجے میں کہا کہ E1 منصوبے سے فلسطینی ریاست کا تصور دفن ہو جائے گا۔

یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں، کیونکہ اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی، مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور رام اللہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردے گی۔ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد  فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر "گہری تشویش" کا اظہار کیا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے زمینی حقائق اور نقشہ تبدیل کرنے کے ٹھوس عملی اقدامات، قراردادوں اور بیانات سے غیر مؤثر نہیں کیے جا سکتے۔ ای ون  منصوبہ محض زمین پر قبضہ نہیں بلکہ تاریخ، امید، اور انصاف پر حملہ ہے۔

گریٹر اسرائیل: تعویذ، توسیع، اور عرب ردعمل

دنیا غزہ و غرب اردن پر تشویش کا اظہار کر رہی تھی کہ 14 اگست کو وزیراعظم نیتن یاہو نے'اسرائیلِ کبریٰ یا Greater Isreal  منصوبے کی رونمائی کر دی۔ مقامی i24News کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے تصور سے گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔یہ تصور 1967 کی جنگ کے بعد زیادہ مقبول ہوا، جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیاں ہتھیالیں۔

انٹرویو کے دوران میزبان شیرون گال (Sharon Gal) نے نیتن یاہو کو "ارضِ موعود" کا ایک نقشہ نما تعویذ دیا، جس میں گریٹر اسرائیل کا ایک توسیع شدہ نقشہ دکھایا گیا تھا۔ عبرانی انجیل کی عام تعبیرات میں اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک سمجھی جاتی ہیں،  یعنی موجودہ اسرائیل کے ساتھ اردن، لبنان، شام، عراق، مصر کے کچھ حصے اور شمالی سعودی عرب۔ البتہ مکہ اور مدینہ ان علاقوں سے کافی دور ہیں جو "گریٹر اسرائیل" کے زیادہ تر نقشوں میں دکھائے جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، گریٹر اسرائیل کا تصور صرف آزاد فلسطین کے لیے موت کا پیغام نہیں بلکہ عرب دنیا پر قبضے کی شیطانی خواہش ہے۔ اس انٹرویو پر عرب لیگ، اردن، مصر، قطر، سعودی عرب اور مقتدرہ فلسطین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

مغربی دنیا: مذمت، مگر عمل ندارد

جرمنی کی جانب سے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کے سوا مغرب کی طرف سے کوئی عملی قدم اٹھتا نظر نہیں آتا۔ زبانی مذمت، تشویش، اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اظہارِ عزم جاری ہے۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لَکسن (Christopher Luxon) نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو نے ہوش کھو دیے ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری بے دخلی، فوجی قبضہ، اور پناہ گزینوں پر حملے ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ جناب لکسن نے کہا کہ انکا ملک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہا ہے۔

اطالوی وزیر خارجہ گوڈو کروسیٹو نے غزہ اور یوکرین کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نیتن یاہو کو "اسرائیل کا پیوٹن" قرار دیا۔ روزنامہ La Stampa سے ایک انٹرویو میں انھوں نے سوال کیا: کیا یورپ اب بھی اسرائیل کو روکنے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھائے گا؟

دوہرا معیار: یوکرین ہیرو، غزہ ناگزیر نقصان؟

اطالوی وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغرب پر دوہرے معیار کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا غزہ میں مرنے والوں کو "ناگزیر نقصان" یا Collateral Damage اور یوکرین میں مرنے والوں کو "ہیرو" کہتی ہے۔ شاید تعریف کے یہ معیار بھی نیٹو کے نقشے کے ساتھ بدلتے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، لاکھوں بے گناہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، جبکہ عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے۔

مذہبی حوالوں کی سیاست: خدا کی استعانت یا سیاسی ڈھال؟

امریکہ میں اسرائیل کے حامی سیاستدان تنقید سے بچنے کے لیے خودساختہ مذہبی حوالے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیکساس (Texas)سے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ "انجیل مقدس کے مطابق اسرائیل پر لعنت کرنے والے پر خدا کی لعنت اور اس کی استعانت کرنے پر برکت ہوگی"۔جب میزبان ٹکر کارلسن (Tucker Carlson) نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: "کیا واقعی آپ انجیل کا اقتباس بیان کر رہے ہیں؟" تو سینیٹر صاحب نے اس کی تصدیق کی۔ تاہم کینیڈا کے مسیحی اخبار Christian Courier نے حالیہ اشاعت میں ٹیڈ کروز کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انجیل میں ایسی کوئی بات درج نہیں۔

اسی انداز میں امریکی سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے سربراہ لنزی گراہم (Lindsey Graham)نے 13 اگست کو ایک تقریر میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کو خبردار کیا کہ اگر امریکی حکومت نے اسرائیل کی مدد بند کی تو "خدا ہم پر سے ہاتھ کھینچ لے گا"۔ یہ بیان بظاہر پارٹی کی رکن مارجری ٹیلر گرین کے اس الزام کا جواب تھا، جس میں انہوں نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔

فنکاروں کی بغاوت: میڈونا اور جورا کی صدائیں

جہاں سیاستدان اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی میں مصروف  ہیں، وہیں فنکار و اداکار اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کی مشہور پاپ گلوکارہ میڈونا (Madonna)نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا، اعلیٰ حضرت پوپ لیو چہار دہم سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ غزہ کا دورہ کریں اور وہاں کے معصوم بچوں کے لیے انسانیت کے دروازے کھولیں۔

سوشل میڈیا پر میڈونا نے لکھا:"اے محترم باپ، براہِ کرم غزہ جائیں اور اپنی روشنی ان بچوں تک پہنچائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ سب کے بچے ہیں، مجھ سے ان کی اذیت دیکھی نہیں جاتی۔ آپ واحد شخصیت ہیں جنہیں غزہ میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بابا! پلیز کہہ دیجیے کہ آپ (غزہ) جا رہے ہیں۔"

یہ اپیل اس لیے بھی غیر معمولی تھی کہ میڈونا کا تل ابیب میں گھر ہے، اور وہ اسرائیل کی پرجوش حامی سمجھی جاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ مسیحی ہونے کا باوجود میڈونا سبت کے احترام میں ہفتے کے روز موسیقی کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتیں اور وہ یہودی تہوار بھی مناتی ہیں دوسری طرف  سر پر Kippah (یہودی ٹوپی) جمائے دیوارِ گریہ سے لپٹے روتے دھوتے نیتن یاہو سبت کے دن بھی غزہ کے بچوں پر آگ برساتے ہیں۔

اسی ہفتے کوپن ہیگن فیشن ویک کے دوران، Marimekko کے بہار/گرمی 2026 شو میں ماڈل اور موسیقار Jura نے کیٹ واک پر فلسطینی پرچم کی نمائش کی، جس پر انگریزی میں لکھا تھا:“Act now against genocide”

انسٹاگرام پر محترمہ نے پیغام دیا:"فلسطین کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بھوک سے ہلاکت آج برداشت کر لی، تو پھر دنیا کے امیر ترین لوگ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آئندہ کس اقلیت کو نشانہ بنایا جائے۔"

فوجی ضمیر کی بیداری: پائلٹوں کا احتجاج

غزہ پر مکمل قبضے کے بارے میں اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ فضائیہ کے ایک سو سے زیادہ ریٹائرڈ ہوا بازوں اور سابق اعلیٰ افسران نے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پریس کو جاری کردہ کھلے خط میں ان افسران نے لکھا کہ قیدیوں کی واپسی کو سیاسی مفادات کے تحت مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنگ بند کی جائے اور قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔خط کے اختتام پر ان پائلٹوں نے جذباتی انداز میں لکھا:

"ہم نے اپنی زندگیوں میں کئی بار خطرات مول لیے ہیں، لیکن آج ہم خاموش رہ کر سب سے بڑا خطرہ مول لیں گے، اپنی انسانیت کھو دینے کا۔"

ملک گیر ہڑتال: قیدیوں کی واپسی یا سیاسی قربانی؟

اتوار 17 اگست کو قیدیوں کی بازیابی اور غزہ جنگ بندی کے لیے ملک گیر ہڑتال ہوئی، جس سے پورا اسرائیل مفلوج ہو کر رہ گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ اس دوران نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے صدر دفتر، وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، وزیرِ تزویراتی امور ران ڈرمر اور دیگر وزرا کے گھروں کے سامنے دھرنے دیے گئے۔پولیس سے تصادم میں کئی مظاہرین زخمی ہوئے اور 38 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

اسرائیل کے انتہا پسند و نسل پرست حکمران اتحاد نے ہڑتال کی مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مزاحمت کاروں کے خاتمے اور غزہ پر قبضے سے پہلے قیدیوں کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دشمنوں کو فنا کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا، جبکہ وزیرِ داخلہ اتامر بن گوئر نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال ناکام ہو گئی۔

دوسری جانب قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لیپڈ نے کہا کہ حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قیدیوں کی قربانی دینے کا کوئی حق نہیں، اور احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قیدیوں کی واپسی کے لیے ایک جامع معاہدہ نہیں ہو جاتا۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے:

گیارہ اگست کو غزہ کے حق پرست صحافی انس الشریف کی تدفین ہوئی، اور دوسرے ہی دن ان کے جواں سال بھتیجے مصعب الشریف نے قلم سنبھال لیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 اگست 2025

روزنامہ امت کراچی 22 اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 اگست 2025


Thursday, August 14, 2025

 غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ

آپریشن، اسرائیلی فوج کیلئے مہلک ہوسکتا ہے۔ فوج کی تنبیہ

اسرائیل کے سابق دفاعی حکام کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل

ہرقیمت پر آزادی و خودمختاری کو دفاع کیا جائیگا ۔ مزاحمت کاروں کا عزم

جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کردی

مصر، غزہ کی گیس، اسرائیل سے خریدے گا، 35 ارب ڈالر کا معاہدہ

شفا ہسپتال کے باہر صحافیوں کے خیمے پر حملہ، چارقلمکار اورڈرائیور جاں بحق

فوج کی شدید مخالفت کے باوجود اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ  منظور کرلیا۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے فوج کو پانچ ماہ کی مہلت دی ہے۔ آپریشن پلان کے مطابق پانچ ڈویژن فوج وسط شہر پر چڑھائی کریگی۔بھارتی نیوز چینل CNN-News 18سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے  کہا کہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم وہ اس پر براہ راست حکومت نہیں کرے گا۔ انکا کہنا تھا کہ 'ہماری منزل غزہ کو فتح کرنا نہیں، بلکہ مزاحمت کاروں کا خاتمہ اور قیدیوں کی بازیابی ہے۔ اس کے بعد غزہ کو ایک عارضی عرب حکومت کے سپرد کیا جائے گا'۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بہت صراحت سے کہا کہ قبضے کے بعد غزہ، مقتدرہ فلسطین (PA) کو دیا جائے گا اور نہ اسے مزاحمت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ پٹی کی سیکیورٹی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔انٹرویو کے سرسری تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہونے کی صورت میں غزہ نیا غربِ اردن بنے گا۔اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ساحلی پٹی کی حتمی صورت گری صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront کی شکل میں ہونی ہے۔

فوجی مخالفت اور حزبِ اختلاف کی تنقید

تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ کابینہ میں اس  معاملے پر بحث کے دوران فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر نےکھل کر کہا کہ یہ مہم جوئی، فوج کے بھاری جانی نقصان کے ساتھ غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی دوران قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لاپید نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات ظاہر کیے۔ انہوں نے عبرانی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'غزہ پر قبضہ ایک بہت ہی برا خیال ہے۔ اس طرح کی مہم جوئی اُس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک قوم کی اکثریت آپ کے ساتھ نہ ہو ۔اگلے روز ایک بیان میں جناب لاپید نے دوبارہ کہا کہ 'یہ منصوبہ ایک اور جنگ کو دعوت دے رہا ہے جس کا نتیجہ قیدیوں کی ہلاکت، مزید فوجیوں کی شہادت اور قوم کے اربوں شیکال (اسرائیلی کرنسی) کا ضیاع ہوگا، جو چند انتہاپسند وزرا کے واہموں پر قربان کیا جا رہا ہے۔'

چند روز پہلے عبرانی میڈیا نے انکشاف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے تقریباً 80 ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں، جن کی اکثر دوبارہ محاذ پر جانے کے قابل نہیں۔اسرائیلی فوج کی کل تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 70ہزار ہے جسے چار لاکھ 65 ہزار ریزرو سپاہیوں کی مدد حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی اعلیٰ فوجی افسران غزہ میں جاری جنگ کو کسی امن معاہدے کے ذریعے جلد از جلد ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔

سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا ویڈیو پیغام

اسی ہفتے اسرائیل کے 19 سابق اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں نے ایک مشترکہ ویڈیو پیغام میں غزہ میں جنگ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس جنگ میں فتوحات سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، اور یہ جنگ اب کسی فوجی ضرورت کی بجائے سیاسی مقاصد کے تحت جاری رکھی جا رہی ہے۔ اسرائیلی  ISI ،شاباک (Shin Bet)کے سابق سربراہ نداف آراگامان کا کہنا تھا: "اب ہم محض اپنے نقصانات کی تلافی میں لگے ہیں"۔ موساد کے سابق ڈائریکٹر تمیر پاردو نے بہت واشگاف لہجے میں کہا:"ہم شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں۔"اس ویڈیو کانفرنس میں اسرائیلی فوج، موساد اور شاباک کے کئی سابق سربراہان شامل تھے۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کاعزم

نیتن یاہو کے اس منصوبے پر فلسطینی مزاحمت کاروں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مدد سے دشمن کا یہ خواب کسی قیمت پر پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔اس بیان میں کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا گیا کہ عرب یا غیر عرب جو قوت بھی غزہ کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کریگی اسے قبضہ گرد سمجھا جائیگا اور قبضہ گردوں سے ہمارے سلوک کے بارے دنیا کسی ابہام میں نہ رہے۔

عالمی ردعمل

جنگ میں توسیع کے اس منصوبے کی برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ، سعودی عرب، اردن اور پاکستان سمیت تقریباً تمام دنیا نے شدید مخالفت کی ہے۔اسرائیلی منصوبے کی خبر جاری ہوتے ہی جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا کہ غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی ساز و سامان کی اسرائیل کو ترسیل فوری طور پر روکدی گئی ہے۔ دوسری طرف وسطی یورپ کے ملک سلووانیہ (Slovenia) نے غرب اردن کے قبضہ گرد علاقوں میں بننے والی مصنوعات کی اپنے ملک میں درآمد پر پابندی لگادی۔ایک سرکاری بیان میں حکومت نے کہا کہ ہمارا ملک ایسی کسی لین دین یا تجارت کا حصہ نہیں بن سکتا جن سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، زمینوں پر قبضے، اور فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔سلوانیہ اس پہلے نیتن کابینہ کے دوانتہاپسند وزرا اتامر بن گوئر اور بیزلیل اسموترچ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر انکا اپنے ملک میں داخلہ ممنوع قرار دے چکا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے حمائت  اور انسانیت سوز تاریخی حوالہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فرمایا کہ "غزہ میں کسی ڈیل (deal)سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا"۔نوبل انعام کے خواہشمند صدر ٹرمپ کا یہ بیان دراصل جنگ کو طول دینے، بچوں کے ذبح کرنےاور بھوک و قحط کو ہتھیار بنانے کی حمائت ہے۔

امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائک ہکابی برطانوی وزیراعظم کی مخالفت پر سخت مشتعل ہیں۔ انھوں نے شعلہ فشاں ٹویٹ میں وزیراعظم اسٹارمر سے سوال کیا کہ برطانیہ نے ڈریسڈن میں کیا کیا تھا؟۔ فروری 1945 میں، برطانیہ اور امریکہ نے جرمن شہر ڈریسڈن (Dresden)پر 3,900 ٹن بم برسائے، جس سے 25,000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے اور دریائے ایبے (Elbe)کے کنارے واقع یہ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔یہ حملہ آج بھی جنگی جرائم کے مباحث میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ہکابی صاحب کا طنز کہ "اگر اسٹارمر اُس وقت وزیراعظم ہوتے تو آج برطانیہ جرمنی زبان  بول رہا ہوتا"، صرف تاریخی لاعلمی نہیں بلکہ انسانیت کی توہین ہے۔

اسرائیلی فضائیہ کا اعترافِ جرم

منظم و مربوط عالمی تعاقب سے خوفزدہ اسرائیلی جرنیل، صفائیاں پیش کرتے نظر آرہےہیں۔ایک اعلیٰ فوجی اجلاس میں فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل تومر بار (Tomer Bar) نے غزہ میں شہری ہلاکتوں کے سنگین اضافے کا ذمہ دار جنوبی کمان کو قراردے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کمان نے جنگ کے مقاصد کے حصول میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ناقص حکمتِ عملی اپنائی، جس کے باعث شہری جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔حوالہ Haaretz  ۔قانون کےباب میں ہمارا علم صفر سے بھی کم ہے لیکن کیا جنرل تومر کا یہ بیان اعترافِ جرم نہیں جسے بنیاد بناکر مہذب دنیا، اسرائیل اور اسکے سہولت کاروں کوقتل عام  کی سزا دے اور انھیں تاوان کی ادائیگی پر مجبور کرے؟

عوامی احتجاج

غزہ جنگی جرائم پر اسرائیلی فوج کےخلاف مختلف ممالک میں مقدمات اور انکے خلاف عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے۔ گرشتہ ہفتے امریکی ریاست مزوری کے شہر سینٹ لوئس (St Louis) میں ایک امریکی شہری، جب اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے کر اپنے گھر پہنچا تو محلے کی دیواروں پر "Death to the IDF"لکھ کر اسکا استقبال کیا گیا اور مشتعل افراد نے تین گاڑیوں کو آگ لگادی۔پیرس میں اسرائیل کی سرکاری ایرلائن El-Alکے دفتر پر لوگوں نے سرخ رنگ چھڑک کر Genocide Airlineلکھدیا۔ غزہ نسل کشی کے خلاف نیویارک میں امریکی یہودیوں نے شہر کے محاسب مالیات  (Comptroller)بریڈ لینڈر نے قیادت میں مظاہرہ کیا جس میں غزہ کی نسلی تطہیر بند کرو، قحط ختم کرو اور ہولوکاسٹ کے حوالے سے never again کے نعرے لگائے گئے۔

غزہ کی دولت پر اسرائیل اور مصر کا مشترکہ ڈاکہ

ایک طرف آسٹریلیا۔ یورپ اور خود امریکہ میں اہل غزہ سے یکجہتی کے مظاہرے ہورہے ہیں تو دوسری جانب مصر بحیرہ روم میں غزہ کے پانیوں سے نکالی جانے والی قدرتی گیس اسرائیل سے خریدنے جارہا ہے۔ لیویاتھن (Leviathan) کے نام سے مشہور یہ گیس فیلڈ جغرافیائی طور پر "Offshore Gaza" ہے۔معاہدے کے تحت مصر 2040تک 130 ارب مکعب میٹر (130 bcm) گیس خریدے گا، جس کی کل مالیت تقریباً 35 ارب ڈالر ہوگی۔فلسطینی وسائل کی چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، دوسال پہلے متحدہ عرب امارات کی سرکاری کمپنی مبادلہ پیٹرولیم نے  ثمر (Tamar)گیس فیلڈ میں 1 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی . ثمر کو بھی اہل غزہ اپنا ثمر قرار دیتے ہیں۔ ثمر کا کچھ حصہ لبنانی پانیوں میں ہونے کی وجہ سے لبنان نے اسکی ملکیت کیلئے اقوام متحدہ میں استغاثہ دائر کررکھا ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اتوار،  10 اگست کو  غزہ میں اسرائیلی حملے نے ایک میڈیا خیمہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، جس میں الجزیرہ کے انس الشریف، محمد قریقع، ابراہیم زاہر، محمد نفّال اور ایک ڈرائیور جان سے گئے ۔یہ حملہ شفا اسپتال کے قریب اُس وقت ہوا جب وہاں ایمرجنسی کی خبریں رپورٹ کی جا رہی تھیں۔صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل کی ایک واضح جنگی حکمت عملی ہے، تاکہ اس کے مظالم دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 232 سے زیادہ صحافی اپنا مقدس فرض ادا کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں ایک اسرائیلی نامہ نگار بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے مغربی دنیا کے بیشتر میڈیا ادارے سیاسی و معاشی مفادات کے باعث اسرائیلی درندگی پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ غزہ کے صحافی محض واقعات کے گواہ نہیں رہے، بلکہ خود اس وحشیانہ مہم کا براہِ راست ہدف بن چکے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 اگست 2025