Friday, May 23, 2025

 

 غزہ نسل کشی کے 600 دن

لشکرِ جدعون یا Gideon's Chariot آپریشن کا آغاز۔ اسرائیل کا نیا مذہبی ٹچ

امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباو نہیں ڈالے گا۔ اسٹیو وٹکاف

امریکہ غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل  کرنا چاہتا ہے، صدر ٹرمپ

غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estateنہیں۔ مزاحمت کاروں کا صدر ٹرمپ کو جواب

اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے ۔ہسپانوی وزیراعظم

اطالوی ارکانِ پارلیمان کا غزہ نسل کشی کیخلاف بابِ رفح پر مظاہرہ

آزاد فلسطین کے حق میں حریدی فرقے کا جلوس، انتہا پسند وزیرکی بیوی کوطمانچے لگ گئے

امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک جاری

جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اسکے چار دن بعد یعنی 27 مئی کو غزہ نسل کشی کے 600 دن مکمل ہوجائینگے اور اس وحشت کے ختم ہونے کا بظاہر کوئی انکار بھی نہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو اور انکے جنونی اتحادی غزہ کے ایک ایک شہری کے قتل یا انخلا سے پہلے بمباری بند کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف  اسرائیلی نسل پرستوں کی غیر مشروط پشت پناہی کیلئے امریکہ کا عزم بہت واضح اور غیر مبہم ہے۔ گزشتہ ہفتے جب اسرائیلی وزیراعظم نے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP)سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ غزہ پر حملے کسی صورت نہیں روکے جائینگے۔ اگر مزاحمت کار قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوئے تو وقتی طور پر فائربندی ہوگی اور قیدیوں کی بازیابی کے بعد حملے دوبارہ شروع کردئے جائینگے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطین کیلئے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے صاف صاف کہا کہ امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباو نہیں ڈالے گا۔ اگر مزاحمت فلسطینیوں سے مخلص ہیں تو ہتھیار رکھ کر غزہ چھوڑ دیں کہ اسکے سوا اسرائیلی حملے روکنے کا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔

دوسروں سے کیا شکوہ کہ خود عرب دنیا کی جانب سے اس معاملے پرکوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات اس کا کسی اہم نشست میں کہیں ذکر بھی سنائی نہیں دیتا۔ چند روز پہلے عرب شیوخ و سلاطین نے صدرٹرمپ کی ایک مسکراہٹ پر اربوں ڈالر نچھاور کردئے اور کسی کو ان مظلومو ں کے حق میں ایک لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ ہر جگہ ٹرمپ صاحب غزہ کے مزاحمت کاروں پر غُراتے رہے اور انتہائی رعونت سے بولے اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو طوفان الاقصیٰ کا واقعہ پیش نہ آتا۔ساری دنیا کو انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کی مذمت کرنی چاہئے۔ غزہ کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ غزہ موت کی وادی ہے، ایک عمارت بھی سلامت نہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ غزہ کو کنٹرول میں لے کر اسے کوچہ آزادی میں تبدیل کردے۔ ان ارشادات گرامی پر عرب رہنما انتہائی سعادت مندی سے سرجھکائے رہے لیکن اہل غزہ نے ترنت ایک بیا داغا کہ  غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estate نہیں۔یہ فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہے۔ قتل عام اور نسل کشی کے باوجود ہم تھکے نہیں اور مزید قربانیوں کیلئے تیار و کمر بستہ ہیں۔غزہ انخلا کے حوالے سے امریکہ کے NBCٹیلی ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ دس لاکھ اہل غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کے امریکی منصوبے کو آخری شکل دی جارہی ہے۔

اسوقت غزہ میں اسرائیلی کا ہدف مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار ہیں۔ انکے قتل کیلئے سارے غزہ پر 30 ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر کم گرائے جارہے ہیں ۔جمعرات 22 مئی کو فجر سے شروع ہونے والی بمباری کا سلسلہ آج چوتھے دن بھی جاری ہے۔ حملے کے پہلے دن فجر سے ظہر کے درمیان 94 افراد جاں بحق ہوئے اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تعداد اس سے تین گنا ہے۔ اب تک محمد سنوار کے قتل کی کوئی مستند خبر نہیں آئی۔

یوم سبت پر 17 مئی کو لشکرِ جدعون (Gideon's Chariot) کے نام سے نیا آپریشن شروع کیا گیا ہے جسکے لئے  محفوظ دستوں کے پانچ تازہ دم ڈویژن اور ٹینکوں کا نیا دستہ غزہ پہنچا دیا گیا۔ عبرانی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی ایک اہلیہ حضرت قطورہ کی اولاد خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہوگئی اور یہ علاقہ مدین کہلایا۔ کچھ عرصے بعد مدین لٹیروں اور ڈاکووں کا مسکن بن گیا۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے کی شیطانی روائت کا آغاز بھی مدین سے ہوا تھا۔توریت کی سورہ Judges کے مطابق ایک خداترس جنگجو،  جدعون 300 سپاہیوں کا مختصر لشکر لے کر یہاں آیا اور اس نے ان بے ایمانوں کو شکست دیکر مدین پر دوبارہ فلسفہ ابراہیمی کے تحت منصفانہ حکومت قائم کردی۔نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کے قتل عام کو خدا ترس مجاہدین سے منسوب کرتے ان وحشیوں کو ذرا شرم نہ آئی۔

عالمی رہنما غزہ نسل کشی پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہی لیکن امریکہ کے خوف سے اسرائیل پر دباو ڈالنے کیلئے پابندیوں اور دوسری تادیبی کاروائیوں کی کسی میں ہمت نہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے غزہ پر مکمل قبضے کی مہم کو انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیتے ہوئےایک بیان میں کہا کہ فوجی دباؤ ڈال کر شہری آبادی کو مصری سرحد کی طرف دھکیلنا غزہ کو ایک خاص نسل یعنی فلسطینیوں سے خالی کرانے کی منظم مہم ہے ، جسے غیر قانونی نسلی تطہیر کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔جناب ترک نے کہا کہ نسلی تطہیر بین الاقوامی قوانین کے تحت انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے

سب سے مضحکہ خیز بیان فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا ہے۔البانیہ کے دارالحکومت ترانہ کی یورپی سربراہ کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ غزہ بدترین انسانی المئے کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے پر امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے بات کرینگے۔اگر یہ بات انھوں نے ازراہ تفنن کی ہے تو یہ بھونڈا مذاق اور سنجیدگی کی صورت میں ہمیں انکی دماغی حالت پر شک ہورہا ہے۔غزہ کے قتل عام میں امریکی اسلحہ اور اسرائیلیوں کے بازو استعمال ہورہے ہیں اور قصاب سے بکرے پر رحم کی درخواست کو خللِ دماغ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟؟؟

غزہ نسل کشی کے خلاف ہسپانیہ کا موقف کسی حد تک جاندار لگ رہا ہے۔ بغداد میں عرب لیگ سربراہی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران وزیراعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل نے انتہاکردی ہے۔ ہسپانیہ،  اقوام متحدہ میں ایک قرارداد کے ذریعے عالمی عدالت انصاف (ICC)سے جنگ بندی کا حکم جاری کرنے کو کہے گا کہ یہ فلسطین اسرائیل تنازعہ نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔ اس سے ایک دن پہلےوزیراعظم سانچیز نے اپنی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے اور میڈرڈ ایسے ملک سے کاروبار نہیں کرسکتا۔وزہراعظم سانچیز نے اسرائیل کو یورویژن (Eurovision)موسیقی میلے سے نکالنےکا مطالبہ بھی کیا۔نغمات کا سالانہ عالمی مقابلہ آجکل سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہورہا ہے۔ ہسپانوی وزیراعظم نے میلے کے منتظمین سے مطالبہ کیا کہ غزہ نسل کشی کی بناپر اسرائیل کو اس قسم کے مقابلوں میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ انھوں نے یاد دلایا کہ یوکرین جارحیت کے بعد روس پر یورویژن کے دروازے بند کئے جاچکے ہیں۔

پارلیمان میں ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اطالوی وزیراعظم محترمہ جارجیا میلونی نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کے دوران بین الاقوامی قانون کا احترام کرنا چاہیے. انسانی امداد پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ اٹھارہ مئی کو اطالوی ارکانِ پارلیمان نے مصر غزہ سرحد یعنی باب ر فح پر معصوم بچوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے نمائندے شامل تھے۔شائد اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے اہل غزہ کیلئے امدادی سامان پر پابندی اٹھالی ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی انکے انتہاپسند اتحادیوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور عظمت یہودی جماعت نے کہا ہے کہ اگر امدادی سامان کی بحالی برقرار رہی تو وہ حکومت سے الک ہوجائینگے۔جماعت کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے کہا کہ دنیا جو چاہے کرلے ہم شیطانی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونگے۔ دلچسپ بات کہ موصوف کے انتہا پسند موقف کی خود اسرائیل میں مزاحمت شروع ہوچکی ہے۔یروشلم کے مضافاتی علاقے بیت الشمس (Beit Shemesh)میں انکا حریدی فرقے کی طرف سے صیہونیت مردہ باد، فری فری فلسطین کے نعروں سے استقبال ہوااور انکی اہلیہ کو یاروں نے طمانچے جڑدئے۔

جس دن نیتن یاہو نے لشکرِ جدعون کا اعلان کیا اسی روزہزاروں اسرائیلیوں نے  غزہ میں زندہ دفن کردئے جانیوالے بچوں کی تصویریں لیکر زبردست مظاہرہ کیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے بچوں کا قتل عام موسیٰؑ کی تعلیمات کے خلاف ہے کہ نعرے لگائے۔

گزشتہ ہفتے جب  اسرائیلی وزیرخارجہ جدون سعر جاپان کے دورے پر آئے تو ٹوکیو پریس کلب کے سامنے مقامی صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔ اپنی تقریروں میں پریس کلب کے رہنماوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کو آزاد صحافت کا قبرستان بنادیا ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ خونزیری کی علامت کے طور پر مظاہرین نے سرخ لباس پہن رکھے تھے۔ خواتین نے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ شرکت کی۔

اس حوالے ے بڑی موثر پیشرفت غزہ نسل کشی کے خلاف برطانیہ، کینیڈا اور فرانس کی مذمت اور پابندیاں لگانے کی دھمکی ہے۔ ان تینوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا 'اسرائیلی حکومت کا شہری آبادی کے لیے بنیادی انسانی امداد کا انکار ناقابل قبول ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔ہم مغربی کنارے پر بستیوں کی توسیع کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں'

پابندیوں اور ملک بدری کے باوجود امریکی جامعات بھی سینہ سپر ہیں۔گزشتہ ہفتے جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University)، کیلی فورنیا کے طلبہ اور اساتذہ نے غزہ سے ہم آہنگی کیلئے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ کیمپ میں موجود اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال اور احتجاج کیساتھ اہل غزہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ ہمیں پیٹ بھر کے کھانا کھاتے شرم آتی ہے۔

طلبہ کا خلاف ٹرمپ اتتظامیہ کی انتقامی کاروائیوں پر عدالتوں سے داد رسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون کے طالب علم ڈاکٹر بدر خان سوری کو وفاقی جج نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ہندوستان نژاد ڈاکٹر سوری مبینہ طور پر مزاحمت کاوں کے ایک سابق رہنما کے داماد ہیں۔انھیں 17 مارچ کو ایمگریشن پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے غزہ نسل کشی کی مذمت کے الزام میں گرفتار ہونے والے محسن مہدوی اور پی ایچ ڈی کی ترک نژاد طالبہ Rümeysa Öztürkکو بھی ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوے: اٹھارہ مئی کو صحافی عزیزالحجار، عبدالرحمان اور خاتون صحافی نور قندیل اسرائیلی بمباری میں اپنی جانوں سے گئے۔حملے میں عزیزالحجار کی اہلیہ اور نور قندیل کے شوہر خالدابوسیف بھی جاں بحق ہوئے۔غزہ میں جان سے گزرنے والے صحافیوں کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کرچکی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 مئی 2025

روزنامہ امت کراچی 24 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 مئی 2025


Thursday, May 22, 2025

 

صدر ٹرمپ کا دورہ خلیج

امریکی اسلحے کی خریداری اور سرمایہ کاری پر کھربوں خرچ ہونگے

قطر نے ماضی میں دہشت گردوں کی مالی اعانت کی ہے۔ صدر ٹرمپ

ٹرمپ کارپوریشن کی Crypto Currencyمیں امارات کی بھاری سرمایہ کاری

شام پر عائد امریکی پابندیاں ختم کردی گئیں

صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطیٰ کا دور کرنے کی روائت برقرار رکھی۔ اس سے پہلے جنوری 2017 میں حلف اٹھانے کے بعد وہ 20 مئی کو سعودی عرب پہنچے تھے اور اس بار بھی وہ جنوری 2025 میں باگ ڈور سنبھالنے کے بعد 13 مئی کو سعودی عرب پہنچے۔فرق یہ تھا کہ جناب ٹرمپ اس بار اسرائیل نہیں گئے بلکہ انھوں نے قطر، اور متحدہ عرب امارات کو شرف میزبانی بخشا۔ تاہم کاروباری معاہدوں اور سلامتی و عالمی امور پر تزویراتی گفتگو کے اعتبار سے 2017 اور حالیہ دوروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ صدر ٹرمپ کے دورے کا بنیادی مقصد امریکہ میں سرمایہ کاری، امریکی اداروں کیلئے کاروبار کے مواقع ڈھونڈھنا، اسرائیل سے عرب ومسلم ممالک کے تعقات، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا، ایران کےجوہری پروگرام کے خلاف عرب دنیا کو آگاہی اور اسی کیساتھ ٹرمپ کارپوریشن کے مفادات کو آگے بڑھانا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اس بات پر بڑا ناز ہے وہ امریکی تاریخ کے پہلے بزنس مین صدر ہیں اور انھیں مول تول میں مہارت حاصل ہے۔ وہ فخر سے خود کو deal makerکہتے ہیں۔

سب سے پہلے وہ سعوددی عرب پہنچے جہاں آوبھگت کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ صدر ٹرمپ کی ارغوانی ٹائی کی مناسبت سے جامنی قالین بچھائے گئے۔ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں دونوں رہنماوں نے مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU)پر دستخط کئے جسکے تحت سعودی عرب، امریکی اسلحہ ساز ادراوں سے 142 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔ امریکہ سے اسلحے کی خریداری بڑا گنجلک معاملہ ہے کہ سودا خریدار اور اسلحہ ساز اداروں لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، جرنل ڈائنامکس وغیرہ سے ہوتا ہے لیکن امریکی کانگریس اسلحے کی روانگی پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی ہے۔

پاکستان اس عذاب سے گزر چکا ہے۔ ضیاالحق انتظامیہ نے ایف 16 کی خریداری کیلئے طیارہ ساز ادارے لاک ھیڈ مارٹنMartin  Lockheedسے معاہدہ کیا اورپرچیز آرڈر کے ساتھ پیشکی ادائیگی بھی کردی گئی، لیکن امریکی کانگریس نے پاکستان کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگادی۔لاک  ہیڈ نے رقم کی واپسی سے انکار کردیا۔ انکا موقف تھا کہ جہازوں کی کھیپ تیار ہوچکی ہے لہٰذا رقم واپس نہیں ہوسکتی اور چونکہ پابندی حکومت نے لگائی ہے، اسلئے لاک ہیڈ اسکی ذمہ دار نہیں۔ دس بارہ سال بعد جب لاک ہیڈ کو ان طیاروں کا ایک دوسرا خریدار مل گیا تو یہ رقم اس تکلف سے واپس ہوئی کہ اسکا ایک حصہ لاک ہیڈ نے گودام کے کرائے اور سروس چارج کے نام پر رکھ لیا، کچھ رقم گندم اور سویابین کی شکل میں واپس ہوئی اور ایک حقیر ساحصہ نقد عطا ہوا۔

اسلحے کی خریداری کے علاوہ سعودی عرب نے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری دراصل شہزدہ محمد بن سلمان کے وژن 2030کا حصہ ہے جسکے تحت سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم کیا جارہا ہے۔ولی عہد کی ہدائت پر  مملکت، سیاحت، صنعت، بینکنگ اور تجارت کےمیدان میں بھاری سرمایہ کاری کررہی۔ تیل کے معاملے میں بھی اب خام تیل کی فروخت کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات اور اس سے متعلقہ خدمات سعودیوں کی ترجیحات ہیں۔اسی وجہ سے سعودی ارامکو نے 2 ارب 65 کروڑ ڈالر دیکر گاڑیوں میں Oil Changeاور فلٹر کی سہولت فراہم کرنے والے امریکی ادارے Valvoline کی ملکیت حاصل کی ہے۔ اگلے دس سال کے دوران سعودی ارامکو، امریکہ میں LNG، تیل صاف کرنے کے کارخانے اور تیل و گیس کے دوسرے وسائل کے حصول و ترقی پر 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگی۔

سعودی عرب میں قیام کے دوران صدر ٹرمپ نے خلیج تعاونی کونسل GCCکے سربراہی اجلاس میں  شرکت کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ہمراہ شام کے صدر احمد الشرح سے خصوصی ملاقات کی جس میں  ترکیہ کے صدر طیب رجب ایردوان فون پر موجود تھے۔ بات چیت کے درران صدر ٹرمپ نے شامی صدر کی بصیرت، ذہانت اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے انھیں شام سے فلسطینیی مزاحمت کاروں کونکالنے اور داعش کو کچلنے کی تلقین کی، ساتھ ہی شام کو دعوت دی گئی کہ وہ معاہدہ ابراہیمؑ کا حصہ بن جائے۔ اس موقع پر انھوں نے شام پر سے تمام پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا۔ اسی کیساتھ قطر اور سعودی عرب نے شام پر واجب الادا عالمی بینک کا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرضہ اداکردیا۔

سعودی عرب سے امریکی صدر قطر پہنچے اور ائرپورٹ سے شاہی محل تک بلند وبالا، عالیشان و خوبصورت عمارات اور انکے حسنِ تعمیر سے جناب ٹرمپ بہت متاثر ہوئے۔ مہمان کے استقبال میں مقامی روایات کا بھی خیال رکھاگیا کہ صدارتی قافلے کی راستے میں اونٹوں کی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شاہی محل پہنچنے پر صدر ٹرمپ تلواروں کی رقص سے لطف اندوز ہوئے۔ اس موقع پر قطر نے امریکہ کے طیارہ ساز ادارے بوئنگ سے 160 طیارے خریدنے کا اعلان کیا جسکی مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ اس دوران باہمی سرمایہ کاری کے جو وعدے وعید ہوئے اسکا مجموعی حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔مہرومحبت کے ان گرم جوش اشاروں کے باوجود صدر ٹرمپ نے صاف صاف کہدیاکہ ماضی میں قطر دہشت گردوں کی بھاری مالی اعانت کرتا رہا ہے۔ امریکیوں کے خیال میں قطر کا الجزیرہ ٹیلی ویژن، دہشت گردوں کا ترجمان ہے اور اشاروں کنایوں میں امریکی قائدین کئی بار اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

قطر کی جانب سے قیمتی تحفے کی بازگشت اب امریکی کانگریس میں سنائی دے رہی ہے۔ امیر قطر ، صدر ٹرمپ کو ایک 747جمبو جیٹ تحفے میں دینا چاہتے ہیں۔ چالیس کروڑ ڈالر کا پُرتعیش سہولیات سے مزین یہ جہاز عملاً ایک اڑتا ہوا محل ہے جسے جناب ٹرمپ، صدارتی طیارے یا Air Force oneکے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں اس غیر معمولی قیمت کے حامل تحفے پر ماہرین اخلاقیات اور علمائے قانون رائے زنی فرمارہے ہیں وہیں کچھ تیکنیکی معاملات پر بھی بحث ہورہی ہے۔امریکی ماہرین کو ڈر ہے کہ قطریوں نے جہاز پر جاسوسی کے انتہائی حساس آلات نصب کردئے ہی، چنانچہ خفیہ کیمروں اور ریکارڈرز کی تلاش میں سارے جہاز کو ادھیڑنا پڑیگا۔اسکے علاوہ جہاز پر خصوصی ریڈار اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں کی تنصیب پر بھی خطیر رقم خرچ ہوگی یعنی 40 کروڑ کے جہاز پر 75 کروڑ ڈالر اضافی خرچ کرنے ہونگے۔ تادم تحریر صدر ٹرمپ نے تحفہ قبول نہیں کیا اور 18 مئی کو قائد حزب اختلاف چک شومر نے Presidential Airlift Security Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کردیا۔ بل کے مطابق غیر ملکی ملکیت میں رہنے والا کوئی طیارہ ائرفورس ون نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر قانون منظور ہوگیا تو یہ قطر کیلئے شرمندگی کا سبب بنے گا کہ اسکا 40 کروڑ ڈالر کا قیمتی تحفہ امریکہ نے مسترد کردیا۔

صدر ٹرمپ کا آخری پڑاو متحدہ عرب امارات تھا جہاں ایک نئے انداز میں انکا استقبال کیا گیا۔قدیم زمانے میں  دیدہ و دل فرش راہ کے عملی مظاہے کیلئے کنیزیں اپنے بال زمین پر بچھا دیتی تھیں اور مہمان اس پر چلتا ہوا محل پہنچتاتھا۔ ابوظہبی پہنچنے پرنازنینوں نے بال تو فرشِ راہ نہیں کئے لیکن محل کی رہداری میں میں لڑکیاں دونوں طرف اپنی سیاہ زلفیں لہرارہی تھیں۔متحدہ عرب امارات نے مصنوعی ذہانت یا AI کیلئے جدید پرتیں (Chips)بنانے والے اداروں اور امریکہ میں توانائی اور صنعتی منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔اسکے علاوہ اماراتی اسٹیٹ بینک، ٹرمپ کارپوریشن کے Crypto Currency کاروبار میں 2 ارب ڈالر لگائے گا۔ ٹرمپ کارپویشن جدہ اور دوحہ میں ٹرمپ ٹاور تعمیر کررہی ہے۔شامی صدر نے دمشق میں ٹرمپ ٹاور کیلئے سرکاری زمین پرکشش شرائط پر فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ یعنی اس دورے میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کے ساتھ اپنے ذاتی کاروبار کیلئے بھی سرمایہ اکھٹا کیا۔

صدر ٹرمپ کے دورہ امارات میں 'مذہبی رنگ' نمایاں تھا۔انھوں نے ابوظہبی کی جامع مسجد شیخ زاید کی زیارت کی اور دوسرے دن وہ یہودی معبد (Synagogue) گئے۔ صدر ٹرمپ نے معبد کو ابراہیمی مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کا استعارہ قراردیا۔ زائرین کی کتاب میں صدر ترمپ نے لکھا کہ 'یہ معبد انسانیت کیلئے امید کی کرن ہے یعنی علاقے کے انسانوں نے تصادم پر تعاون، دشمنی پر دوستی، غربت پر خوشحالی اور مایوسی پر امید کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا ہے'۔ بلاشبہ الفاظ بہت شاندار ہیں لیکن بقائے باہمی کا یہ بھاشن اس شخصیت کی طرف سے دیا گیا جسکی فراہم کی ہوئی گولیوں ، گولوں، ڈرون و بم اور توپ خانے نے غزہ کو قبرستان بنادیااور اس پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ایک دن پہلے انھوں نے بہت رعونت سے کہاکہ غزہ رہنے کے قابل نہیں، شہری وہاں سے نکل جائیں۔ امریکہ اس پر قبضہ کرکے غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل کردیگا۔ کاش کوئی انکو بتاتا کہ آزادی کی ضرورت انسان کو ہے، قبرستان کو نہیں۔ انکی یہ تحریر اس لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہے کہ غزہ کو کوچہ آزادی بنانے کے خواہشمند صدر ٹرمپ نے اپنے ملک کو غریب ہسپانویوں کیلئے قید خانہ بنادیا ہے۔

اگر صدر کے اس دورے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے لگتا ہے کہ خلیجی رہنما نے آوبھگت میں حد سے تجاوز تو کیا لیکن صدر ٹرمپ سے روابط بڑھانے کا یہی سب سے موثر طریقہ ہے۔ صدر ٹرمپ تعریف کے خوگر اناپرست انسان ہیں۔ اپنی ٹقریروں میں انھوں نے ہر جگہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن پر سخت تنقید کی اور امریکہ بلکہ عالم تمام کی ہر خرابی کا ذمہ دار Sleepy Joeکو ٹہرایا۔ سرمایہ کاری اور تجارت کے باب میں خلیجیوں نے صدر ٹرمپ کی جھولی بھردی اور موصوف Billion and Billions  کے نعرے لگاتے واپس چلے گئے۔عرب رہنماوں کو معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ کو بڑے اعدادوشمار پسند ہیں چنانچہ انھوں نے منہہ مانگا وعدہ کرلیا۔مثال کے طور پر قطر نے  بوئنگ سے جو 160 طیارے خریدنے کا وعدہ کیا ہے، ان میں 130 کے پرچیز آرڈر کئی سال پہلے جاری ہوچکے ہیں اور اب مزید 30 جہاز اگلے 15 سالوں میں خریدے جائینگے یعنی پرانی بوتل میں نئی شراب انڈیل کر قطریوں نے صدر ٹرمپ کیلئے خوشی کا سامان کردیا۔ سعودی عرب، امریکہ سے جو اسلحہ خردینا چاہتا ہے ان کیلئے کانگریس کی توثیق درکار ہے اور اسرائیل نے ابھی سے ان پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ اسلحے کی خریداری کیلئے جس MOUپر دستخط ہوئے ہیں اس میں سعودی جوہری پروگرام میں تعاون بھی شامل ہے۔ متن میں بہت صراحت کیساتھ Civil Nuclear Capabilitiesلکھا گیا ہے تاکہ کوئی ابہام نہ ہو۔ لیکن اس بےضرر پروگرام پر بھی اسرائیل کو تشویش ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف یائر لیپڈ نے کہا کہ سعودی عرب کو شہری جوہری صلاحیتوں کی ترقی کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی ہوگی اور اس سے مشرق وسطیٰ میں جوہری دوڑ کانیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اصل کامیابی خلیجی ممالک کی جانب سے ٹرمپ کارپوریشن کی پزیرائی ہے، خیال ہے کہ خلیجی ریاستیں ٹرمپ کارپویشن میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگی۔

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اپریل 2025

ہفت روزہ  دعوت دہلی 23 اپریل 2025



Thursday, May 15, 2025

 

سارے غزہ پر مکمل قبضے کا اسرائیلی منصوبہ

اہل غزہ کو ہجرت پر مجبور کرنے کیلئے اسرائیلی فوج جان کر رہائشی عمارتیں مسمار کررہی ہے

صیہونی ریاست اور ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف ہے، حفظِ توریت مدارس کا موقف

مزاحمت کاروں نے امریکی شہری کو رہا کردیا

اسرائیل کیلئے امریکی امداد کی بندش؟؟؟

مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنا آسان نہیں۔ ٹرمپ انتطامیہ کا تجزیہ

ریاض میں، امریکہ، مقتدرہ فلسطین، لبنان، سعودی عرب، قطر اور UAE کا سربراہ اجلاس

غزہ نسل کشی کے خلاف میگزین میں مضمون لکھنے والی ترک طالبہ کو عدالت نے رہا کردیا

جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، غزہ پر مکمل قبضے کیلئے محفوظ (Reserve)دستوں کے 75ہزار سے زیادہ سپاہی طلب کرلئے گئے ہیں۔منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے وزیرتزویراتی امور ران ڈرمر نے کہا کہ مکمل قبضے کا مطلب ہے کہ کاروائی کے اختتام پر واپسی کی موجودہ حکمت عملی کے بجائے اب مزاحمت کاروں کو ٹھکانے لگانے کے بعد ان سے بازیاب کرائے گئے علاقوں پر مکمل قبضہ کرکے  علاقے کا  انتظام و انصرام عسکری انتظامیہ کے حوالے کردیا جائیگا۔ علاقے کے بنیادی ڈھانچے یعنی سرکاری دفاتر، اسکول، بجلی گھر، آبنوشی کے وسائل اور اہم تنصیبات کاکنٹرول عسکری انتظامیہ سنبھال لے گی۔اس منصوبے کا سب سے اہم نکتہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا ہے۔ شدید فوجی دباو کے ذریعے غزہ کی کُل آبادی کو جنوب میں رفح کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کردیا جائیگا تاکہ دوسرے مرحلے میں انھیں صحرائے سینائی کی طرف دھکیلا جاسکے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق نیتن یاہو نے پالیمان کی مجلس قائمہ برائے خارجہ اور دفاع کے خصوصی اجلاس کو بتایا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں رہائشی عمارتوں کو جان کر مسمار کررہی ہے تاکہ اہل غزہ کیلیے یہاں سے ہجرت کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے۔ اس پر ایک رکن پارلیمان لائمن سن نے تجویز پیش کی کہ امریکہ سےیہودیوں کو غزہ آباد ہونے کی دعوت دیجائے۔

اسرائیلی فوج کو غزہ قبضہ منصوبے پر شدید تحفظات ہیں۔ عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ اسکے لئے جتنی بڑی تعداد میں سپاہی درکار ہیں وہ فوج کے پاس میسر نہیں۔حریدی فرقے اور مدارس کے طلبہ کی جانب سے لازمی فوجی بھرتی کی مزاحمت میں شدت کیساتھ انکا لہجہ بہت سخت ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مدارس (Yeshiva) کے طلبہ اور انکے اساتذہ نے فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ ان طلبہ کے بینر پر لکھا تھا 'صیہونی ریاست اور اسکی ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف ہے'

اسرائیلی جرنیلوں کے مطابق،  فوج 20 ماہ سے حالت جنگ میں ہے اور تھکن کے آثار بہت واضح ہیں۔اس تناظر میں چھاپہ مار جنگ کا سامنا اتنا آسان نہیں۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دفاع کو بتایا کہ قبضہ آپریشن کے نتیجے میں ہمارے قیدیوں کی جانیں خطرےمیں پڑسکتی ہیں۔ جنرل ضمیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ فلسطینیوں کو جنوب کی طرف دھکیلنے کے عمل میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔بحث کے دوران کئی حکومت مخالف ارکان نے اس منصوبے کو گزشتہ 19 ماہ سے جاری کاروائی کا تسلسل قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوج غزہ پر قبضے کی کوشش کررہی ہے اور نئے منصوبے میں اضافی فوجی دستوں کے سوا اور کچھ نیا نہیں، یعنی حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے نئے منصوبے کے نام پراضافی افرادی قوت غزہ کے دلدل میں اتارنا چاہتی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کے سینیر مصالحت کار میجر جنرل (ر) نزان ایلن پہلے  ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ عسکری کاروائی میں شدت قیدیوں کے لئے خطرات میں اضافہ کردیگی۔

غزہ قبضہ منصوبے پر اسرائیل کے اقتصادی ماہرین بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔اس وقت غزہ آپریش کا یومیہ خرچ 8 کروڑ ڈالر ہے جسکا بڑا حصہ چچا سام کی گرانٹ سے پورا ہورہا ہے لیکن صدر ٹرمپ حکومتی اخراجات کے معاملے میں بے حد حساس و محتاط ہیں۔واشنگٹن میں خبر گرم ہے کہ صدر ٹرمپ جہاں سماجی بہبود کے پروگراموں، جامعات، USAID، وائس آف امریکہ، سرکاری ریڈیو NPRاور بچوں کے پروگرام Sesame Street بنانے والے PBSوغیرہ کی گرانٹ ختم کررہے ہیں وہیں اب انکی نظریں مختلف ممالک کی امداد پر ہیں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی زیادہ تر تجاویز قدامت پسند مرکزِ دانش Heritage Foundationکی ترتیب کردہ ہیں جو صدر ٹرمپ کے پروجیکٹ 2025 کا حصہ ہے۔یروشلم پوسٹ کے مطابق، فاونڈیشن نے جن ممالک کی مدد پر آرا چلانے کی سفارش کی ہے، ان میں اسرائیل اور مصر سر فہرست ہیں۔ صدر اوباما نے 2016 میں اسرائیل کیلئے دس سال دورانئے کی 38 ارب ڈالر مدد منظور کی تھی۔ مفاہمت کی یادداشت (MOU)کے مطابق اسرائیل کو ہرسال تین ارب تیس کروڑ ڈالر فوجی سازوسامان اور 50 کروڑ میزائیل پروگرام کیلئے دئے جائینگے۔اس دس سالہ MOU کی مدت اگلے برس ختم ہورہی ہے۔ یروشلم ٹائمز کے مطابق Heritage Foundationنے مدت مکمل ہونے پر MOUکی تجدید نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔

صدر ٹرمپ بھی اب مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو ناقابل عمل سمجھنے لگے ہیں۔ لندن سے شایع ہونے والے اخبار العربی الجدید نے حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا کہ امریکہ نے غزہ امن کیلئے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی شرط واپس لے لی ہے۔اخبار نے اعلیٰ سطحی مصری افسر کے حوالے سے لکھا کہ امریکی سراغرساں اداروں کے خیال میں مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں بزور قوت غزہ سے بیدخل کرنا ممکن نہیں۔ رپورٹ کے مطابق واشنگٹن، غزہ میں مزید فوجی بھیجنے کے منصوبے کا بھی مخالف ہے کہ اس سے انسانی جانوں کےزیاں میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مزاحمت کاروں کے ٹھکانے سارے غزہ میں  ہیں اور انکی صفوں میں داخل ہونے والے نوخیز فلسطینیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکام سے رابطہ کرنے والے مزاحمت کاروں نے یقین دلایا ہے کہ پائیدار جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غیر مشروط انخلا کی صورت میں قیدیوں کو رہا کردیا جائیگا۔ حالیہ دورہ امریکہ میں غزہ قبضہ منصوبے کے خالق ران ڈرمر کو بھی یہ باور کرادیاگیا ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے ۔اسرائیل 582 دن کی مسلسل سرماری کے بعد ایک بھی قیدی رہا نہیں کراسکا اور جو قیدی آزاد ہوئے وہ سب کے سب فائربندی اور مذکرات کے نتیجے میں اپنے پیاروں تک بحفاظت واپس پہنچے ہیں۔اس سے پہلے صدر کےخصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف بھی کہہ چکے ہیں کہ طاقت نہیں سفارت مسئلے کا حل ہے۔ مزاحمت کاروں سے امریکہ کے براہ راست مذاکرات ے نتیجے میں 12 مئی کو مزاحمت کاروں نے امریکی شہریت کے حامل عیدن الیکزنڈر کو رہا کردیا۔ امریکی ریاست نیوجرسی میں جنم لینے والا 21 سالہ عیدن اسرائیل کا سپاہی ہے جسے طوفان الاقصیٰ کے دوران جنگی قیدی بنایاگیا۔ عیڈن کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسٹیو وٹکاف نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ اسرائیل جنگ کو غیر ضروری طور پر طول دے رہا ہے حالانکہ قیدیوں کی رہائی صرف امن اور سفارتکاری سے ممکن ہے۔ عیدن الیگزنڈر کی رہائی سے نئی امید پیدا ہوئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اسرائیل اور تمام ثالث اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔

آجکل صدر ڈانلڈٹرمپ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ لندن سے شایع ہونے والے القدس العربی نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس، شام کے صدر احمد الشرع اورانکے لبنانی ہم منصب جوزف عون، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہ 13 مئی کو کو ریاض میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کرینگے۔ اس چوٹی کانفرنس میں غزہ کے معاملے پر بات ہوگی۔ اس حوالے سے ایک معنی خیز بات یہ بھی کہ اپنے اس اہم دورہ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر اسرائیل نہیں جائینگے اور نہ ہی کسی اسرائیلی رہنما سے کوئی ملاقات متوقع ہے۔

نیتن یاہو کی جانب سے جنگی جنون کی حوصلہ افزائی کے علی الرغم سلیم الفطرت اسرائیلی اب اپنی آواز بلند لگے ہیں۔ آٹھ تا نو مئی ، یروشلم کنونشن سینڑ میں عالمی امن کانفرنس ہوئی جس میں سابق اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ، بائیں بازو کی جماعت ہدث طعل کے سربراہ ایمن عودہ کے علاوہ فرانس کے صدر ایمیونل میکراں اور مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔

اس بیٹھک کے محرک اسرائیل کے معوذ عنن (Maoz Inon) اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عزیز ابوسارہ تھے۔ معوض عنن کے والدین 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ میں مارے گئے جبکہ عزیز ابوسارہ کے بھائی کو دوران حراست اسرائیلیوں نے تشدد کرکے قتل کردیا۔اپنی ابتدائی گفتگو میں معوذ عینن نے کہا کہ مجھے اپنے والدین کی موت کا غم ہے لیکن میں نے اپنے دکھ کو انتقام میں تبدیل کرنے بجائے اسے امن کی جدوجہد کا عنوان بنادیا ہےتاکہ جس کرب سے میں گزررہا ہوں، میرے بچے اس سے محفوظ رہیں۔فرانسیسی صدر میکراں نے اس بیٹھک کو درد کے زخموں پر امید کا مرہم قراردیا۔ جناب میکراں نے کہا کہ آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست اسرائیل کی سلامتی و تحفظ اور پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ جون میں سعودی عرب کیساتھ مل کر وہ اس حوالے سے ایک جامع منصوبے کا اعلان کرینگے۔انکا کہنا تھا کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مزاحمت کار، قیدی رہا کرکے خود ہی غیر مسلح ہوجائیں۔سابق اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ نے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے لہذا وہاں اسرائیلی فوج کا کوئی کام نہیں۔ انھوں نے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرکے مقتدرہ فلسطین کی قیادت میں عبوری فوج تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جو اس پٹی کی تعمیر نو کی نگرانی کرے۔

امن اور فوجی انخلا کی حد تک تو کانفرنس کی سفارشات خوش آئند ہیں لیکن مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے والی بات اہل غزہ کبھی قبول نہیں کرینگے۔ فلسطینی ریاست کی بات بھی وضاحت طلب ہے کہ اب مطالبہ tow stateسے آگے بڑھ کر Forty Eightتک جاچکا ہے۔

غزہ کیساتھ غرب اردن کے فلسطینی بھی نسل کشی اور بیدخلی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ شمالی غرب اردن میں طولکرم کے قریب نورشمس خٰمہ بستی کے تقریباً سارے کچے اور نیم پختہ مکانات گرا کر مکینوں کو اردنی سرحد کی طرف ہنگا دیا گیا ہے۔خالی کئے گئے علاقے میں اسرائیلی بستی تعمیر کی جائیگی۔ عین سبت کے دوران 10 مئی کو اسرائیلی قبضہ گردوں (Settlers) نے رام اللہ کے گاوں ابو فلاح میں فلسطینیوں کے ایک فارم ہاوس کو آگ لگادی۔توسیع پسندی کے اس شیطانی مظاہرے میں سنگترے کے باغات پھونک دئے گئے۔اس دہشت گردانہ کاروائی کو اسرائیلی فوج نے مکمل تحفظ فراہم کیا جسکے دوران ہزاروں مرغیاں اور مویشی زندہ جل گئے۔

تاہم اہل غزہ کے حق میں عسکری اور سیاسی و سفارتی حمائت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اسرائیل کی خوفناک بمباری اور دارالحکومت صنعا کے ائرپورٹ اور ملک کی تمام بندرگاہوں کو پیوند خاک کردینے کے باوجود، حوثیوں نےاسرائیلی پر میزائیل حملے جاری رکھے۔ جمعہ 9 مئی کی دوپہر تل ابیب کے ساحل پر منجنیقی (Ballistic)میزائیل اس وقت داغے گئے جب سخت گرمی میں ہزاروں افراد غسل آبی و آفتابی سے طف اندوز ہورہے تھے۔ سائرن بجنے پر یہ لوگ پناہ گاہوں کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور افراتفری کے دوران بہت سے ضعیف العمر افراد اور بچے زخمی ہوگئے۔

اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر غیر اعلانیہ پابندی کے باوجود نیویارک میں 6 مئی کو غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔اسی دن جامعہ واشنگٹن سیاٹل (Seattle)میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 25 طلبہ گرفتار کرلئے گئےجسکے خلاف دوسرے دن جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلیس میں غزہ نسل کشی کے خلاف طلبہ نے دھرنا دیا۔وپاں بھی پولیس نے زبردست تشدد کرکے طلبہ کا احتجاج ختم کرادیا۔ جامعہ سے اخراج، اسناد کی معطلی، ویزوں کی منسوخٰ، امریکہ بدری، گرفتاری اور انسانیت سوز تشدد کے باوجود جامعہ کولمبیا کے طلبہ کا غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج جاری ہے اور 7مئی کو طلبہ نے جامعہ کے ایک کتب خانے پر قبضہ کرلیا۔جامعہ انتظامیہ کیساتھ ریاستی گورنر اور رئیس شہر نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرانے کیلئے پولیس بھیج دی اور سو سے زیادہ طلبہ گرفتار کرلئے گئے۔صدر ٹرمپ کے انتقامی اقدامات کی وجہ سے جامعہ کولمبیا سخت مشکل میں ہے اور وفاقی گرانٹ کی بندش سے پیدا ہونے والے مالی بحران کی بنا پر جامعہ نے 180 اساتذہ، محققین اور غیر تدریسی عملے کو فارغ کردیا۔

طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر عدلیہ کو بھی تشویش ہے اور جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محسن مہدوی کے بعد وفاقی عدالت کے حکم پر ترک طالبہ رمیسہ اوزترک Rümeysa Öztürk کو ضمانت پر رہا کردیا گا۔وفاقی جج ولیم کے سیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ میگزین میں مضمون لکھنا کسی شخص کی گرفتاری کی معقول وجہ نہیں ہے۔ رمیسہ کے خلاف کسی پُرتشدد کاروائی میں شرکت یا ایسی کسی سرگرمی کی حمائت کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا اور نہ اسکے ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز موجود ہے۔امریکی ریاست میسیچیوسٹس کی جامعہ ٹفٹس (Tufts)میں پی ایچ ڈی کی طالبہ، غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کے میگزین میں ایک مضمون لکھنے کے الزام میں 25 مارچ سے زیرحراست تھی۔ وزارت خارجہ نے اسی الزام میں اسکا ویزہ بھی منسوخ کردیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 مئی 2025

روزنامہ امت کراچی 16 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 مئی 2025


Wednesday, May 14, 2025

 

سیندور آپریشن اور اسرائیل ہند تعاون

پاکستان کے خلاف حالیہ سیندور آپریشن کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان جامع تزویراتی تعاون بہت واضح تھا۔ قیام اسرائیل کے وقت سے بھارت و اسرائیل قریبی اتحادی ہیں۔ صیہونی ریاست قائم ہونے کے فوراً بعد ہندوستان سے بڑی تعداد میں قادیانی، خلیج عقبہ کے ساحلی شہر ایلات جاکر آباد ہوے جہاں 1949 میں اسرائیلی بحریہ نے بہت بڑا اڈہ قائم کیا۔خلیج عقبہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہاں سعودی عرب، مصر، اردن اور اسرائیل کی آبی سرحدیں ملتی ہیں۔بحری اڈہ کھلنے سے یہاں آباد قادیانیوں کو اسرائیلی بحریہ میں ملازمتوں کے مواقع میسر آئے اور اِسوقت اسرائیلی بحریہ میں افسران سمیت ہندوستانی قادیانیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

اسرائیل اپنی تحفظ کے بارے میں حد درجہ محتاط و حساس ہے اور ریاست کے وجود کو لاحق کوئی مبہم و برائے نام خطرہ بھی اسکے لئے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں لیکن اسرائیل کو اس پر بھی سخت تشویش ہے اور اسے ہندوستان کی شکل میں 'دشمن کا دشمن' دوست  میسر آگیا ہے۔

اسرائیل اور امریکہ کی اصل طاقت انکی فضائیہ اور ٖفضائی دفاعی نظام ہے۔ گزشتہ دس بارہ سالوں کے دوران اسرائیل نے ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت مہارت حاصل کی ہے۔ انکا سب سے مہلک خودکش ڈرون، Harop ہے۔ ہاروپ 16 کلو گرام بارود لیکر ایک ہزار کلومیٹر دور چھ گھنٹے تک پرواز کرسکتا ہے۔ اسکے کمیونکیشن نظام کی حد200کلومیٹر ہے یعنی اڈے پر تعینات آپریٹر 200 کلومیٹر دور تک اسے حکم جاری کرسکتے ہیں۔ یہ ڈرون جاسوسی، نگرانی، ہدف کے چناو اور جائزے کیلے حساس ٹیکنالوجی ISR سے لیس ہیں۔ ہندوستان نے  2009 میں دس کروڑ ڈالر کے عوض 10 ہاروپ ڈرون خریدے تھے، دس سال میں یعنی 2019 تک ہندوستان میں ہاروپ ڈرونوں کی تعداد 110 ہوگئی۔ پہلگام واقعہ کے بعد اسرائیل نے مزید 50 ہاروپ ہندوستان بھیجے۔ 

اسلحے کے علاوہ سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل نے ہندوستان کی بھرپور مدد کی۔ بہاولپور و مریدکے پر حملے کے بعد آپریشن سیندور کی مکمل حمائت  کرتے ہوئے ہندوستان میں اسرائیل کے سفیر رووین آزار نے ٹویٹر (X)پر لکھا

’’اسرائیل، ہندوستان کے  حقِ دفاع کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کے پاس معصوم لوگوں کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم سے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘


Thursday, May 8, 2025

 

غزہ پر تازہ حملوں کیلئے اضافی محفوظ (Reserve)دستے  طلب کرلئے گئے

مزاحمت کاروں کو فنا کرنا قیدیوں کی بازیابی سے اہم ہدف قرار

اہل غزہ کو بھوکا مارکر مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں

یروشلم کے قریب خوفناک آگ، چھ ہزار ایکڑ پر لگے عرقد کے درخت جل کر خاک

تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پر حوثیوں کا میزائیل حملہ

عالمی فوجداری عدالت کا خوف، اسرائیلی سپاہیوں کیلے بے نامی اعزاز

ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے طیارے پر اپنی فضائی حدود بند کردی

اپنی سیاست کیلئے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو، پانچ سو یہودی علما کا صدر ٹرمپ کو خط

غزہ جانیوالی امدادی کشتی پر اسرائیل کا ڈرون حملہ

اسرائیل کی ہنگامی کابینہ نے غزہ میں عسکری کاروائیوں کا دائرہ مزید بڑھانے اور حملوں میں شدت لانے کیلئے اضافی محفوظ (Reserve)دستوں کو طلب کرلیا ہے۔غزہ میں مارے جانیوالے اسرائیلی سپاہیوں کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ قیدیوں کو بحفاظت واپس لانا بہت ضروری لیکن ہمارا ارفع ترین ہدف (Supreme Goal)، فتح مبیں اور مزاحمت کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ اسی نشست میں گفتگو کرتے ہوئےخاتون اول سارہ نیتن یاہو نے انکشاف کیا کہ غزہ میں اب صرف 24 قیدی زندہ بچے ہیں۔ محترمہ نے اپنی معلومات کا ماخد نہیں بتایا اسلئے کہ اسرائیلی شعبہ سراغرسانی، شاباک (Shin Bet)کے مطابق 59 قیدی مزاحمت کاروں کی تحویل میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے غرب اردن میں قبضہ کی جگہ پر بنائے مدرسے میں طلبہ اور ربائیوں (ائمہ) سےاپنے جذباتی خطاب میں وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ نےکہا 'خدا کی مدد اور اپنے جوانوں کی قربانیوں کے صدقے ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گےجب تک غزہ  فلسطینیوں سے پاک، شام تحلیل، لبنانی مزاحمت کارفنا اور ایران کاجوہری پروگرام ملیامیٹ نہیں ہوجاتا' (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)۔ یعنی معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ یہ مہم جوئی گریٹر اسرائیل کا حصہ نظر آرہی ہے۔ سفارتی سرگرمیوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ عرب و مسلم ممالک بھی اہل غزہ  کی شکست کے منتظر ہیں۔ اسرائیلی وزیرِتزویراتی امور ران ڈرمر نے کابینہ اجلاس میں انکشاف کیا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند کئی ممالک غزہ میں اسرائیل کی فتح کا انتظار کررہے ہیں۔ ڈرمر صاحب پُراعتماد ہیں کہ اسرائیل اگلے بارہ ماہ میں یہ ہدف حاصل کرلے گا۔

اسرائیلیوں کا خوش فہمی کی حد تک اعتماد اپنی جگہ لیکن اہل غزہ کی مزاحمت میں تادم تحریر کوئی کمی یا کمزوری نظر نہیں آئی جسکی غیر جانب دار سفارتی ماہرین بھی تصدیق کررہے ہیں۔ اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پرامن بات چیت میں شریک ایک اعلی سطحی مصری افسر نے 2 مئی کو لبنانی جریدے الاخبار سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر اسرائیل اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل غزہ کو بھوکا مارکر وہ مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو یہ انکی بھول ہے۔ جنگ کا فوری خاتمہ اور غزہ سے فوجی انخلا باقی ماندہ قیدیوں کو بحفاظت بازیاب کرنے کا واحد راستہ ہے۔

اتوار (4 مئی) کی شام تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر حوٹیوں کے میزائیل حملے کے بعد سارے اسرائیل پر سراسیمگی طاری ہے۔ اس روز یمن سے پانچ منجنیقی (ballistic)میزائیل داغے گئے۔تل ابیب، یروشلم، بحیرہ مردار کے ساحل ، حتی کہ شمال میں وادی اردن تک سائرن گونجتے رہے اور لاکھوں اسرائیلیوں نے  چھٹی کا دن زیر زمین تہہ خانوں میں گزارا۔اسرائیلی فضائیہ نے بن گوریان ائرپورٹ کی طرف آنے والے میزائیل کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ میزائیل ائرپورٹ کے بہت قریب سڑک پر گرا جس سے چھ اسرائیلی شدید زخمی ہوگئے۔

غزہ مزاحمت کاروں کے خلاف مقتدرہ فلسطین (PA)کی مہم بھی زور شور سے جاری ہے۔ اسرائیلی موقف کی حمائت کرتے ہوئے مقتدرہ کے سربراہ محمود عباس نے غزہ میں غذائی قلت کا الزام مزاحمت کاروں پر لگایا کہ انکے مسلح جتھے امدادی سامان لوٹ رہے ہیں۔ خود اسرائیلی ذرایع کے مطابق گزشتہ 60دنوں سےایک بھی امدادی ٹرک غزہ نہیں پہنچا تو معلوم نہں مزاحمت کار کیا لوٹ رہے ہیں۔

اس ہفتے یروشلم کی جھاڑیوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے اسرائیل کے شہری دفاعی نظام کی قلعی کھل گئی۔ آگ چند گھنٹوں میں مرکزی شاہرہ تک آگئی۔ اتفاق سے یہ تباہ کن آگ 29 مئی کو بھڑکی جب فوج سے ہم آہنگی کیلئے میموریل ڈے منایا جارہا تھا اور آگ کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اسکے شعلے یروشلم کے مضافات میں پریڈ گراونڈ تک پہنچ گئے اور وہاں موجود کچھ ٹینک بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگئے جن پر سوار سپاہیوں کو بہت مشکل سے نکالا گیا۔سارے ملک سے فائر انجن جمع کرلینے کے بعد بھی آگ پر قابو نہ پایا جاسکا تو یونان، کروشیا، اٹلی، یونانی قبرص، بلغاریہ، برطانیہ، فرانس، چیک ریپبلک، سویڈن، ارجنٹینا، ہسپانیہ اور آذربائیجان سے ماہرین اور کیمیکل طلب کئے  گئے۔ یعنی غزہ، بیروت، شام، یمن اور غربِ اردن کو جلا کر خاک کردینے والے اسرائیل کے پاس اپنے گھروندوں میں لگی آگ بجھانے کے وسائل نہیں

یکم مئی کو درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار کم ہونے کی بناپر آگ پھیلنے کی رفتار آہستہ ہوئی اور اس پر قابو پالیا گیا۔ یہودی روایات کے مطابق نزول مسییحؑ کے وقت عرقد (Nitraria Schoberi) کے درخت انھیں تحفظ فراہم کرینگے چنانچہ یروشلم کے قریب جنگلات میں عرقد کے 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جو اس آگ سے بری طرح متاثر ہوئے اور خوفناک آگ نے عرقد جنگلات کے 6000ایکڑ رقبے کو جلاکر خاک کردیا۔درجنوں گاڑیاں اور قیمتی املاک کے علاوہ  دورجن سے زیادہ لوگ جھلس کر شدید زخمی ہوئے۔

حکومت نے آتشزنی کا الزام فلسطینیوں پر تھوپ دیا اور یروشلم کے ام طوبیٰ محلے کے ایک پچاس سالہ شخص کے قبضے سے برآمد ہونے والے لائٹر اور ٹشوپیپر کو بطورِ ثبوت پیش کرکے اسکے خلاف دہشت گردی اور مجرمانہ آتشزنی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ دلچسپ بات کہ فرزند اول یائر نیتن یاہو نے ٹویٹر (X)پر لکھا کہ 'آگ بائیں بازو کے انتہاپسندوں نے بھڑکائی ہے تاکہ یوم آزادی نہ منایا جاسکے'

عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے نیتن یاہو، سابق وزیردفاع اور فوج کے سابق سرابرہ کے خلاف جو پروانہ گرفتاری جاری کئے ہیں، انکی وجہ سے عام اسرائیلی سپاہی سخت خوفزدہ ہیں۔ غزہ میں 'شجاعت و بہادری' کا مظاہرہ کرنے والے 120 سپاہیوں کو تمغات سے نوازا گیا لیکن ICCکے خوف سے یہ تقریب خفیہ رکھی گئی اور میڈل بھی نام کے بجائے سپاہیوں کے بیج نمبر کو عطا کئے گئے۔تقریب ِتقسیمِ اعزاز میں صدر اور فوج کے چیف آف اسٹاف سمیت کسی کو اپنا موبائل فون وہاں لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہند رجب فاونڈیشن نے تمغے لینے والے ان سپاہیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔

آئی سی سی کے پروانہ گرفتاری کو بنیاد بناکر، ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے خصوصی طیارے کو اپنی فضائی حدود میں پرواز کرنے سے روک دیا۔ نیتن یاہوتین 4مئی کو سرکاری دورے پر باکوجارہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم متبادل راستے یعنی بحیرہ روم سے شمال کی جانب خلیج یونان اور پھر بلغاریہ وبحیرہ اسود عبور کرکے جارجیا کے اوپر سے ہوتے ہوئے آذر بائیجان جاسکتے تھے لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں بلغاریہ اور جارجیا آئی سی سی کے وارنٹ پر عملدرآمد کیلئے انکے جہاز کو اترنے پر مجبور نہ کردیں، چنانچہ دورہ آذربائیجان منسوخ کردیا گیا۔

دنیا بھر میں نسل کشی کرنے والوں کا تعاقب جاری ہے۔ دو مئی کو لندن میں جب اسرائیلی اداکارہ غال غدوت (Gal Gadot)کی زیر تکمیل فلم The Runnerکی  شوٹنگ شروع ہوئی تو فلسطین پر بمباری بند کرو اور آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے مظاہرین سیٹ تک آگئے اور منتظمیں شوٹنگ رکواکر اداکارہ کو عقبی دروازے نکال کر لے گئے۔ غال غدوت صاحبہ سابق اسرائیلی فوجی ہیں۔

امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک چلانے والے طلبہ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی انتقامی کاروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ یکم مئی کو صدر ٹرمپ نے جامعہ ہارورڈ کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔یعنی اب جامعہ کو دئے جانیوالے عطیات پر معاونین کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملے گی۔ صدر ٹرمپ کو شکائت ہے کہ جامعہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں کو کچلنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے جامعہ ییل (Yale University)نے Yelies4Palestine کے بعد مرکزی تنظیم Students for Justice in Palestine (SJP) پر بھی پابندی لگادی۔

لیکن طلبہ کی مزاحمت جاری ہے۔امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون (Georgetown University)کے ریفرنڈم میں طلبہ نے اسرائیلی فوج سے وابستہ کسی ادارے میں جامعہ کے وقف فنڈ سے سر مایہ کاری نہ کرنے کی منظوری دیدی۔تجویز کے حق میں 67.7 اور مخالفت میں 32.1 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد تھا۔ ریفرنڈم کے فیصلے پر علمدرآمد کیلئے ووٹ ڈالنے کا کم سے کم تناسب 25 فیصد ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کی سفارشات اب جامعہ کے بورڈ آر گورنرز میں پیش کی جائینگی۔

تیس اپریل کو امریکی عدالت نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طالب علم محسن مہدوی کو رہا کردیا۔ چونتیس سالہ مہدوی کو ایمیگریشن اور وزارت اندرونی سلامتی (DHS)کے ایجنٹوں نے اسوقت گرفتار کرلیا تھاجب وہ امریکی شہریت کیلئے انٹرویو دے رہا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے محسن مہدوی کے ملک بدری کا احکامات جاری کئے ہیں۔رہائی پر سینکڑوں نوجوان مہدوی کے استقبال کیلئے ورمونٹ (Vermont)کے ایمگریشن حراستی مرکز کے سامنے جمع ہوگئے۔اپنے مداحوں سے خطاب کرتے ہوئے محسن مہدوی نے کہا 'میں صدر ٹرمپ اور انکی کابینہ سے صاف اور دوٹوک کہدینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ سے خوفزدہ نہیں'۔غربِ اردن کے فرعا مہاجر کیمپ میں جنم لینے والے مہدوی نے اہل فلسطین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہماری آزادی کے لمحات بہت قریب آچکے ہیں۔

طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی پر یہودیوں کو بھی تشویش ہے۔ صاحبانِ بصیرت کو معلوم ہے کہ ماورائے قانون اقدامات کو نہ روکا گیا تو مسلمانوں پر برسنے والا یہ کوڑا کل کسی اور برادری کی پیٹھ لہو لہان کر سکتا ہے۔ ساڑھے پانچ سو یہودی ائمہ (Rabbis)نے ٹرمپ انتظامیہ کے نام خط میں کہا ہے کہ اپنی سیاست کیلئے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو۔ سام دشمنی (Antisemitism) کے نام پر مسلم طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے یہودی علما نے اسے مذہبی آہنگی اور خود یہودیوں کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ علما نے اپنے خط میں لکھاکہ'جامعات کی فنڈنگ ختم کرنا، طلبہ مظاہرین کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دینا اور یہودیوں کو آمرانہ ہتھکنڈوں کے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہمیں محفوظ نہیں بناتا بلکہ اس سے امریکی یہودیوں کے خلاف خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم یہودی طالب علموں کے تحفظ کے بہانے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ان گھناؤنے حملوں کو مسترد کرتے ہیں جو ہماری تعلیمی اور ثقافتی زندگی کے ناقابل تسخیر قلعے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں فاقہ کشی کا شکارلوگوں کی مدد کیلئے پاکستان، ترکیہ اور انڈرونیشیا کی بحریہ سے درخواست کی تھی کہ ایک مشترکہ بحری قافلے یا Flotilla کے ذریعہ غزہ کے لوگوں کیلئے امدادی سامان بھیجا جائے۔حافظ صاحب کی تجویز پر تو کسی نے کان نہ دھرا لیکن ترک، یورپ و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے ایک جہاز پر خوراک اور ادویات غزہ بھیجنے کا اہمتام کیاجسکی نگرانی FCCکی رہنما گریتا تھنبرگ (Greta Thunberg) کررہی تھیں۔گریٹا کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے۔اس مشن کو الضمیر یا Conscienceکا نام دیا گیا۔ الضمیر پر عملے کے 12 افراد کے ساتھ انسانی حقوق کے 4کارکن بھی سوار تھے۔کشتی پر دومئی کی صبح اسرائیل نے مالٹا کے قریب ڈرون حملہ کیا جس سےکوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کشتی کے آگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اسکے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مالٹا کے حکام نے تمام افراد کو بحفاظت کشتی سے نکال لیا۔ الضمیر کو اسوقت نشانہ بنایا گیا جب یہ بین الاقوامی پانیوں میں تھی۔اس اعتبار سے یہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں جہازرانی کے حقوق جتانے کیلئے امریکی بحریہ کے جہاز بحر جنوبی چین میں چینی ساحل کے قریب سفر کرتے ہیں۔ اسی دلیل پر چچا سام نے یمن کو کھنڈر بنادیا کہ حوثیوں کے حملوں سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے بین الاقوامی پانیوں میں آزاد جہاز رانی متاثر ہورہی ہے۔

پندرہ برس پہلے 31مئی 2010 کو غزہ فریڈم فلوٹیلا کے عنوان سے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara)امداسی سامان کیساتھ غزہ روانہ کی گئی تھی۔ چھ کشتیوں کے اس قافلے کا اہتمام Free Gaza Movement اور ترک تنظیم iHHنے کیا تھا۔ جب فلوٹیلا غزہ سے 190 کلومیٹر دور تھا تو ہیلی کاپٹروں می مدد سے اسرائیلی کمانڈو ان کشتیوں پر اترآئے، انکی اندھا دھند فائرنگ سے 10 ترک کارکن جاں بحق ہوئے۔ اس قافلے کی ایک کشتی پرمعروف صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے جنھوں نے بحفاطت نکلنے کیلئے اسرائیلی چھاپہ ماروں کی پیشکش مسترد کردی اور آخر تک کشتی پر رہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 مئی 2025

روزنامہ امت کراچی 9 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 مئی 2025