Thursday, November 14, 2024

 

ٹرمپ کی کامیابی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل

ایران!!! نئی امریکی حکومت کا بنیادی ہدف؟؟؟

اسرائیل کو فیصلہ کن فتح کے ساتھ جلداز جلد جنگ ختم کرنے کی تلقین

انتطامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں ٹرمپ کے زیراثر

امریکی انتخابات مکمل ہوگئے جن میں ڈانلڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ تمام کی تمام سات فیصلہ کن ریاستوں میں جیت گئے اور  2020 کے مقابلے میں انکے ووٹوں میں سترہ  لاکھ کا اضاٖفہ ہوا۔دوسری طرف چار سال پہلے کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے  ووٹ 83لاکھ کم ہوگئے۔ سینیٹ یا راجیہ سبھا کی چار نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے چھین کر صدر ٹرمپ کی جماعت نے 100 رکنی ایوان میں اپنا حجم 53 کرلیا، 47 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) میں ریپبلکن پارٹی نے  218نستیں جیت کر 435 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرلی ہے، 209 نشستوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئےجبکہ 8 پر گنتی جاری ہے۔

اگر عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو 9 رکنی عدالت عظمیٰ میں جناب ٹرمپ کے نظریاتی اتحادیوں کی تعداد 6 ہے جن میں سے 3 کا تقرر نو منتخب صدر کے گزشتہ دورِ صدارت میں ہوا تھا۔ اسکا مطلب ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمائت حاصل ہوگی۔ انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف انکے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔ نئے صدر،  کابینہ کا انتخاب، سفرا کا تقرر اور وفاقی ججوں کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرسکیں گے۔ اسلئے کہ امریکہ میں تمام اہم تقریوں کی سینیٹ سے تو ثیق ضروری ہے۔

نئی ٹرمپ انتظامیہ کیسی ہوگی تو اس معاملے میں کوئی ابہام ہے  نہ صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں وہ ترجیحات کا اعلان کرچکے ہیں یعنی

  • صدارتی حکم کے ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدرری اور میکسیکو کی سرحد پر فوج کی تعیناتی۔
  • کارپویشنوں کے ٹیکس میں کٹوتی
  • درآمدات پر بالعموم اور چینی مصنوعات پر بالخصوص بھاری درامدی محصولات کا نفاذ۔ انتخاب سے ایک دن پہلے  انھوں نے کہا کہ چینی درآمدات پر 70 فیصد محصول بھی خارج از امکان نہیں۔
  • تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کھدائی پر تمام پابندیاں ختم کردی جائینگی اور وہ چاہتے ہیں ملکی برآمدات میں تیل اور LNGکا تناسب کم ازکم پانچ فیصد ہو
  • امریکی فوج میں تبدیلیِ جنس کے آپریشن پر فوری پابندی

جہاں تک بین الاقوامی امور اور عالمی امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ سرکار مسلمانوں کے لئے اچھی نظر نہیں آرہی۔ ہم اپنی آج کی گفتگو کو ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انھوں نے مسلمانوں اور عربوں کا ذکر عزت و احترام اور 'اپنائیت' سے کیا۔ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی انکی ترجیج ہوگی۔کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کی حمائت کا فخریہ اعتراف کیا۔ لیکن غزہ جنگ بندی کے حوالے سے انکی تجویز فلسطینیوں کیلئے انتہائی تشویشناک  ہے۔نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی کی ترجمان محترمہ ایلزبیتھ پیپکو نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا 'ڈانلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کو جلد ختم کردے '۔ ڈانلڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خاتمے کو اسرائیل کی فیصلہ کن فتح سے مشروط کرچکے ہیں۔

ایرانی امور کیلئے سابق امریکی سفارتکار برائن ہوک (Brian Hook)، ٹرمپ عبوری بندوبست (Transition) کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔برائن ہوک، ایران کے معاملے اپنے سخت گیر روئے کیلئے مشہور ہیں۔آٹھ نومبر کو سی این این سے باتیں کرتے ہوئے برائن ہوک نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور عدم استتحکام پھیلارہا ہے اور صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کسی نئی امن پیشرفت سے پہلے ایران کو تنہا اور مالی پابندیوں کے ذریعے اسکی معیشت کی نمو کو کم سے کم کردیا جائے تاکہ تہران دہشت گردوں کی مالی اعانت، حوصلہ افزائی اور سہولت کاری نہ کرسکے۔ برائن ہوک کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران میں regime change کی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ایران کو معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے اسے دیوار سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ کے اس الزم کے بعدکہ ایران ڈنلڈ ٹرمپ کو قتل کرانا چاہتا ہے، ٹرمپ صاحب مزید مشتعل ہوگئے ہیں۔

اپنے گزشتہ دوراقتدار میں جناب ٹرمپ نے  Deal of the Centuryکے عنوان سے جو 'معاہدہ ابراہیم ؑ'متعارف کرایا تھا وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ابراہیمؑ معاہدہ ِامن کے خالق انکے داماد جیررڈ کشنر تھے، جنکی معاونت کیلئے اب نومنتخب صدر کے دوسرے داماد مسعود (مائیکل) بولوس بھی میدان میں ہیں۔ دوسال پہلے جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی چھوٹی صاحبزادی ٹیفنی ٹرمپ نے لبنانی کروڑپتی مائیکل بولوس سے شادی کی ہے۔ دلہا میاں کا اصل نام مسعود ہے جسکے تلفظ میں مشکل کی وجہ سے وہ خود کو مائیکل کہتے ہیں۔ جناب بولوس نے اپنے سسر کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسے خرچ کئے۔سات نومبر کو لبنانی میڈیا الجدید سے باتیں کرتے ہوئے مائیکل بولوس نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں وہ لبنانی امور کے ذمہ دار ہونگے۔ جیرڈ یہودی اور مسعود بولوس راسخ العقیدی قبطی مسیحی ہیں۔

معاہدہ ابراہیم ؑ کے مطابق مشرقی بیت المقدس سمیت تمام قبضہ بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائیگا۔باقی ماندہ علاقوں کو نیم خودمختاری دیکر ریاست فلسطیں قائم ہوگی۔فلسطینی ریاست کو فوج اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس معاہدے کو مزاحمت کار یکسر مسترد کرچکے ہیں۔

معاہدے کی 'روح' بیان کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے اسے  فلسطینیوں کیلئے مواقع اور امکانات کی دستاویز قراردیا ہے۔ انکاکہنا ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کے ساتھ ہی غرب اردن اور غزہ میں جدید ترین صنعتی منصوے شروع کئے جائینگے۔زراعت و مویشی بانی کیلئے تمام سہولتوں سے مزین فارم قائم ہونگے۔ٹیکنالوجی سینٹر کے قیام سے فلسطینی نوجوان کرہ ارض پر راج کرینگے۔چمکتی ریت سے  آراستہ غزہ کا شفاف ساحل دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ بنے گا اور  صرف چند سال میں فلسطینیوں کا یہ علاقہ قرآن کے الفاظ میں سونا اگلتی برکتوں والی سرزمین میں تبدیل ہوجائیگا۔

جناب ٹرمپ نے غزہ جنگ کے آغاز پر اسے ایرانی کاروائی قراردیا تھا۔انکاخیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد معاہدہ ابراہیم ؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔گزشتہ ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمائت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ایران ہے اور ایرانی اثرورسوخ ختم کئے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ انظامیہ کیلئے جو نام سامنے آرہے  وہ لوگ بھی ایران کو 'فلسطینی تنازعے' کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفاتکار جان بولٹن، سینیٹر ٹام کاٹن، سینٹر مارک روبیو، انکی بہو لاراٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز اور اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کواسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے ملتی ہے۔ انکے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و موثر مہم چلا رہے ہیں۔

دس نومبر کو ٹرمپ عبوری ٹیم نے نیویارک سے رکن کانگریس اور ریپبلکن پارلیمانی پارٹی کی نائب قائد محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ کا منصب پیش کیا ہے۔ چالیس سالہ اسٹیفانک نے امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو یہود دشمن یعنی Antisemiticقرار دیتے ہوئےجامعہ ہاروڈ، ایم آئی ٹی اور جامعہ پینسلوانیہ (Upen)کی صدور کو کانگریس کمیٹی کے روبرو طلب کیااور سماعت کےدوران امریکہ کی اِن موقر ترین جامعات کی سربراہان کے خلاف دھمکی آمیززبان استعمال کی۔ اس روئے سے پریشان ہوکر ٗUpen کی سربراہ ڈاکٹر لز میگل (Liz Magill)مستعفی ہوگئیں، جس پر اسٹیفانی نے ہانک لگائی کہ 'ایک گئی، دو باقی ہیں' ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے (Claudine Gay)  کومظاہرین سے تعاون کے الزام میں مقدمات کی دھمکی دی گئی۔ڈاکٹر صاحبہ پھر بھی نہ مانیں تو انکے خلاف ادبی سرقے یا plagiarism کا اسکینڈل اچھال کر ڈاکٹر گے کو استعفے پر مجبور کردیا گیا۔

اس پس منظر میں جلداز جلد فیصلہ کن فتح کے اصرار سے غزہ کی جو صورتحال ابھرتی نظر آرہی اس پر سنگاپور میں مقیم ماہر تعلیم جناب اعظم علی صاحب کا تجزیہ بڑا صائب محسوس ہوتا ہے۔ اعظم علی صاحب اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں رقمطراز ہیں 'جنگ ختم کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں ظالم کا ہاتھ روکنا یا مظلوم اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنا۔ یہاں دوسراحل زیادہ قرین از قیاس نظر آتا ہے '

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جنوری 2024


 

 

Thursday, November 7, 2024

 

ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کا عندیہ

ایک سال کے دوران غزہ پر 80 ہزار ٹن بارود برسایا گیا

حساس راز افشا کرنے کے الزام میں وزیراعظم کے ترجمان گرفتار

اردنی سرحد پر فوج کا نیا ڈویژن تعینات کرنے کا منصوبہ لیکن سپاہی ندارد

جبالیہ کیلئے اضافی بریگیڈ کو کوچ کا حکم

اسرائیل کیلئے بارود مصری بندرگاہ اور تیل ترک بندرگاہ سے آرہا ہے

غزہ وحشت و بربریت کو اب چارسو دن ہوگئے۔ چند دن پہلے اقوام متحدہ نے اس بدنصیب قطع ارضی کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جسکے مطابق 21کلومیٹر طویل اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر شاید ایک مربع کلومیٹر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں بم نہ گرے ہوں۔ سات اکتوبر کو اسرائیلی حملے کا ایک سال مکمل ہونے تک اس ننھے سے رقبے پر 80ہزارٹن بارودبرسایا گیا۔ لیکن آتش و آہن کی ایک سال سے جاری موسلادھار بارش کے دوران ہی اہل غزہ نے  خان یونس میں تمام ممکنہ سہولتوں سے آراستہ اسکول تعمیر کرلیا۔یہ اسکول تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر قائم کیا گیا ہے۔پرنسپل صاحبہ کا کہناہے کہ ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا لیکن ہم اپنے بچوں کا مستقبل نہیں برباد ہونے دینگے۔ جب ایک صحافی نے کہا 'اگر اسرائیل نے اسے بھی تباہ کردیا تو؟ 'اس پر پرنسپل صاحبہ قرآنی آئت کا حوالہ دیتے ہوئے بولیں 'تخلیقِ اول مشکل ہوتی ہے، دوبارہ بنانا کیا مشکل؟'

وزیراعظم نیتھن یاہو اب بھی شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہیں لیکن سارے اسرائیل میں شہری زندگی افراتفری کا شکار ہے۔ لبنان سے متصل علاقے میں ہر گھنٹہ سائرن اور اسکے بعد زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ نے عام شہریوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ چھوٹے بچوں والے خاندان رات مستقل بنیادوں پر تہہ خانوں میں گزار ریے ہیں جسکی وجہ سے صحت وصفائی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔

اسرائیلی فوج مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی راکٹ، میزائیل اور ڈرون بنانے والی فیکٹریاں تباہ اور داغنے والے لانچر برباد کردئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ وزیر دفاع نے بہت فخر سے کہا کہ  دشمن کی راکٹ بازی کی صلاحیت صفر کی جاچکی ہے۔ سوئے اتفاق کہ جس وقت وزیردفاع تل ابیب میں یہ لاف زنی فرمارہے تھے، عین اسی وقت سرحد سے متصل مطلعہ (Metula)پر راکٹوں کی بارش نے  ہندوستان کے چار شہریوں سمیت پانچ افراد کی جان لے لی، یہ ہندوستانی وہاں کھیتوں پر کام کرنے آئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مطلعہ کے شمال میں کریات عطا کی عسکری کالونی نشانہ بنی اور دومزید اسرائیلی مارے گئے۔دوسرے دن لبنانی ڈرون نے نہریہ میں ریل کو نشانہ بنایا جس سے ایک پل کو نقصان پہنچا اور ایک کھڑی ریل کے دو ڈبے تباہ ہوگئے۔ اس سے اگلے روز یعنی تیس اکتوبر کولبنانی مزاحمت کاروں نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے نیتنیا (Netnaya) کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل سے نشانہ بنایا۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔لبنانیوں نے تل ابیب پر حملے کیلئے پہلی بار Surface to Surface میزائیل استعمال کئے۔

خوف و ہراس صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں،کچل ڈالنے اور مٹادینے کی شیخی کے ساتھ خوف کا یہ عالم کہ وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک محفوظ تہہ خانے  منتقل ہوگئے ہیں اور اب کابینہ کا اجلاس ایک خفیہ زمین دوز بنکر میں ہورہا ہے۔ مزیداحتیاط کیلئے اجلاس کا مقام ہر بار تبدیل کردیا جاتا ہے۔فوجی قیادت بھی اب GHQکے بجائے زیرزمیں خفیہ پناہ گاہوں میں مجلسیں سجاتی ہے۔ شمالی غزہ کو بدترین فاقے میں مبتلا کرنے کے باوجود وہاں مزاحمت میں کمی کے آثار نہیں۔دو نومبر کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں تیسرا پیادہ بریگیڈ تعینات کردیا گیا۔ وہاں 162nd ڈویژن کے گیواتی اور 401st بریگٰیڈ پہلے ہی مصروف جنگ ہیں۔

دوسری طرف ایران نے 26 اکتوبر کے اسرائیلی حملے کا امریکی انتخابات (5 نومبر) سےپہلے جواب دینے کی دھمکی دی ہے، سی این این (CNN)کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ  'طوفان دیگری در راہ است' یعنی  ایک اور طوفان اب راستے میں ہے۔اس عزم کے اظہارِجلی کیلئے یہ تحریر عبرانی ترجمے کے ساتھ تہران کے ایک چوک میں ثبت کردی گئی ہے۔

یکم نومبر کو رہبر معظم حضرت علی خامنہ ای کے مشیر امورخارجہ اور مجلسِ تشخیصِ مصلحت نظام کے رکن کمال خرازی نے لبنانی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر مملکت کی بقا خطرے میں نظر آئی تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوہری نظریے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔جناب خرازی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم رہبرِ معظم کا فتویٰ جوہری ہتھیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حضرت خامنہ ای نے2019 میں فتویٰ دیا تھا کہ جوہری بم بنانا اور ذخیرہ کرنا غلط اور اس کا استعمال حرام ہے۔

اپنے سائے سے بھی خوفزدہ نیتھن یاہو کو آجکل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں۔دوہفتہ پہلے ایران کیلئے جاسوسی کے الزام میں چند اسرائیل شہری گرفتار کئے گئے اور خفیہ پولیس شا باک(Shin Bet) نے31اکتوبر کو لِد شہر سے 32 سالہ رفائل گولیو(Rafael Guliyev)اور انکی اہلیہ لالہ کو گرفتار کرلیاجن پر ایران کیلئے جاسوسی کا الزام ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص عشر بن یامین کو گرفتار کیا گیا جو اسرائیلی جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوا تھا۔

دو دن سے خبر گرم تھی کہ غزہ نسل کشی اور وہاں نظربند اسرائیلی قیدیوں کے متعلق انتہائی حساس معلومات اڑا لی گئیں جن میں سے کچھ نکات جرمن اخبار Bildاور برطانوی Jewish Chronicleمیں شایع بھی ہوچکے ہیں۔اس خبر کی تصدیق یکم نومبر کو ہوگئی جب جج میناخم مزراحی Menachem Mizrahiنے بتایا کہ سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے چندملزمان کو انکی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے زیرحراست ملزمان کی تعداد اور نام بتائے بغیر کہا کہ 'راز افشا ہونے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچا ہے'۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعظم آفس نے وضاحت کی کہ گرفتار ہونے والوں میں وزیراعظم کا کوئی مشیر یا عملے کا کوئی شخص شامل نہیں۔ تاہم چینل 12 نے گرفتار ہونے والے ایک فرد کے حوالے سے بتایا کہ وہ تنخواہ دار تو نہیں لیکن وزیراعظم کا قریبی مشیر تھا۔اپنے مقربین کی گرفتاری پر جناب نیتھن یاہو نے حساسیت” کی دُہائی دیکر عدالت سے معلومات پر پابندی کا حکم المعروف Gag orderجاری کرالیا۔ تین نومبر کو جج مجسٹریٹ مناخم مزراہی نے ایک ملزم کے Gag order منسوخ کئے تو پتہ چلا یہ صاحب وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین (Eli Feldstein) ہیں،  جنھوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ایک مجوزہ خفیہ آپریشن کی تفصیلات یورپین میڈیا کو دی تھیں اور خبر ملتے ہی مزاحمت کاروں نے قیدیوں کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ تین دوسرے زیرحراست ملزمان جن کے نام عدالت کے حکم پر خفیہ رکھے گئے ہیں انکے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ تینوں وزیراعظم کے گہرے دوست ہیں۔اس خبر پر قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے جو تبصرہ کیا اسکا شاعرانہ زبان میں ترجمہ کچھ اسطرح ہے۔ ہوئے تم دوست جسکے دشمن آسکا آسماں کیوں ہو

اسرائیل کو داخلی محاذ پر جاسوسی تو سرحدوں پر فوجی قلت کا سامنا ہے۔ فوج کے جاسوسی یونٹ 8200نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارت دفاع کو مطلع کیا ہے کہ اسوقت جورڈن ویلی بریگیڈ بحیرہ مردار (بحیرہ لوط) سے شمال میں گولان تک کی نگرانی کرتی ہے جبکہ جنوب میں ایلات (خلیج عقبہ) تک یووو ریجنل بریگیڈ تعینات ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 17 کلومیٹر طویل مشرقی سرحد کی موثر نگرانی دو بریگیڈ کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ ملتے ہی وزارت دفاع نے اردن سے متصل مشرقی سرحد کی نگرانی کیلئے فوج کی ایک نئی ڈویژن بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔سوال یہ ہے کہ اس نئے ڈویژن کیلئے افرادی قوت کہاں سے آئیگی کہ غزہ سے معذوروں کی شکل میں آنے والی زندہ لاشیں دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کا فوج میں جانے کا ارمان خوف میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاندار تنخواہ اور پرکشش مراعات کی پیشکش کے باوجود بھرتی مراکز پر سناٹا ہے۔

حریدی فرقے کے علما،  مدارس (Yeshiva)کے طلبہ کافوجی بھرتی سے استثنیٰ ختم کرنے کے مجوزہ قانون کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔استثنیٰ ختم ہونے کی صورت میں حریدی فرقے کی جماعتوں پاسبان توریت (Shas)پارٹی اور یونائیٹیڈ توریت پارٹی نے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ بیساکھیاں ہٹتے ہی جناب نیتھن یاہو کی حکومت زمیں بوس ہوجائیگی۔مدارس کے استثنیٰ کو بنیاد بناکر عام نوجوان بھی بھرتی مراکز کا رخ نہیں کررہے۔

گزشتہ ہفتے وزیردفاع نے حریدی ارکانِ کنیسہ (پارلیمان) کو خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا 'معزز علما، پاسبان و پاسدارانِ توریت! یہ مذہبی یا سیاسی نہیں، مملکت کے بقا کا معاملہ ہے۔ ہم کئی سمت اور کئی افق سے جارحیت کا ہدف ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے فوجی زخمی اور معذور ہیں، لاتعدادکڑیل جوان مادر وطن پر قربان ہوگئے، ملک کو مزید فوجیوں کی ضرورت ہے۔ اسستثنٰی ختم کئے بغیر ہم غیر حریدیوں کو فوج میں بھرتی پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ اسرائیل رہیگا تو مدارس بھی قائم رہینگے۔ ملک بچائیں یا توریت پڑھائیں ؟ عوام فیصلہ کرلیں۔ اسرائیل کے دفاع میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا' اس خطاب پر لبرل و سیکیولر عناصر نے تو تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے لیکن علما ٹس سے مس نہ ہوئے اور دوسرے روز تل ابیب کے بھرتی مرکز پر داڑھی، شیروانی اور ٹوپی والوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس سے مارکھائی۔

دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے اور آگاہی کی جو زبردست مہم چل رہی ہے وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باعث اب تک غیر موثر ہے لیکن کہیں کہیں انسانی ضمیر میں حرکت محسوس ہورہی ہے۔ کمپیوٹر کے ملائم سہارے (Software) تیار کرنے والا امریکی ادارہ پلانٹِر (Palantir), اسرائیلی محکمہ دفاع کو مصنوعی ذہانت (AI)کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسرائیلی فوج سے تعاون کو غزہ نسل کشی میں سہولت کاری قراردیتے ہوئے ناروے کے تجارتی ادارے اسٹور برانڈ (Store brand)نے پلانٹِر میں سرمایہ کاری معطل کردینے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹور برانڈ کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 109ارب ڈالر ہے تاہم اس کے پاس اس وقت پلانٹر کے صرف 2 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کے حصص ہیں۔ یہ رقم بہت بڑی تو نہیں لیکن انسانی حقوق کے بارے میں نارویجین کمپنی کی فکر مندی قابل تحسین ہے۔

اسکے مقابلے میں مصر کا رویہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خبر ملتے ہی کہ جرمنی سے 150ٹن بارود اسرائیل بھیجا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے وکلا نے اس پر پابندی کیلئے برلن (جرمنی) کی عدالت میں ایک درخواست دائر کردی۔سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اہل غزہ کے قتل عام کیلئے یہ تباہ کن سامان جرمن مال بردار جہازMV Kathrin کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے جو 28 اکتوبر سے اسکندریہ (مصر) کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے۔ مصری حکومت نے اسکی تردید کی ہے لیکن وکلا نے سمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ MV Kathrin اسکندریہ  سے یکم نومبر کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود روانہ ہوگیا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ آذربائیجان، قازقستان اور ترکیہ کا ہے۔ اسرائیل اپنی ضرورت کا تیل آذربائیجان اور قازقستان سے خریدتا ہے۔ یومیہ دولاکھ 20 ہزار بیرل تیل، 1768 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے بحر روم میں ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan)پہنچتا ہے۔ جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے جایا جاتا ہے۔ آجکل راکٹ حملوں کی وجہ سے حیفہ پورٹ مخدوش ہوگئی ہے تو غزہ کے شمال میں اشدود کی بندرگاہ استعمال ہورہی ہے۔قازقستان اور آذربائیجان سے شکوہ نہیں کہ وہ کوئی دعوی نہیں کرتے لیکن اپنی ہر تقریر میں اسرائیل کی مذمت کرنے والے محترم طیب ایردوان،  جیحان کی پائپ لائن بند کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ اسرائیل کا خوف ہے یا پائپ لائن محصولات کی لالچ؟؟؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 نومبر 2024


Saturday, November 2, 2024

 

امریکی انتخابات

 ہسپانیوں کے خلاف جلسہ عام میں توہین آمیز تبصرہ

غزہ میں جنگ بند کرانے کا وعدہ

بیلٹ بکسوں کا نذرِ آتش کرنے کے تین واقعات

ٹرمپ کی جانب سے اتحادیوں کی دفاعی امداد میں کفائت شعاری کا عندیہ

انتخابی مہم کا خرچ ۔۔ 16 ارب ڈالر

اب صرف دو دن بعد امریکی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔انتخابات کیلئے قبل ازوقت یا earlyووٹنگ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے یعنی 29 اکتوبر تک چار کروڑ 80 لاکھ امریکی رائے دہندگان اپنے ووٹ ڈال چکے ہیں جو چار سال پہلے ڈالے جانے والے کل ووٹ کا 30 فیصد ہے۔ خیال ہے کہ روزِ انتخاب یعنی 5 نومبر سے پہلے ایک تہائی ووٹ بھگتائے جاچکے ہونگے۔ اس بار قبل از وقت ووٹ ڈالنے کا تناسب 2020 کے مقابلے میں ذرا کم ہے جب کوووڈ 19 وبا کی بنا پر رائے دہندگان کی بڑی تعداد نے ڈاک اور قبل از ووٹنگ کے دوران اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔

قبل از ووٹنگ کے دوران جو جائزے شایع ہورہے ہیں اسکے مطابق ڈانلڈٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مقابلہ بہت سخت اور  گھمسان کی جنگ والی ساتوں ریاستوں میں کسی بھی امیدوار کو ڈیڑھ فیصد سے زیادہ کی برتری نہیں۔ شمالی کیرولینا، جارجیا اور ایریزونا میں ڈانلد ٹرمپ آگے ہیں، مشیگن میں کملا ہیرس کی کاردگی بہتر ہے جبکہ وسکونس، پینسلوانیہ اور نواڈامیں دونوں بالکل برابر ہیں۔

عرب اور مسلمان ووٹروں میں اس بار گرین پارٹی کی ڈاکٹر جل اسٹائن زیادہ مقبول ہیں اور ٹرمپ صاحب کی کارکردگی کملا جی سے بہتر ہے۔ چھیبس اکتوبر کو مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ میں جلسے کے دوران جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آگر غزہ اور لبنان میں جنگ بند کرائینگے۔ انکی دعوت پر چند عرب رہنماوں اور ائمہ مساجد نے اسٹیج پر آکر ڈانلڈ ٹرمپ کی حمائت کا اعلان کیا۔ جناب ٹرمپ نے حمائت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تحفظِ جنین یعنی اسقاط حمل کی مخالفت اور ہم جنس پرستی کی یلغار کے  خلاف مسلمان انکے موقف کے حامی ہیں اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے وہ مسلمانوں کیساتھ مل کر کام کرینگے۔اگلے چند دنوں میں اگر ڈانلڈ ٹرمپ مزید مسلمان ووٹروں کو اپنی طرف ملانے میں کامیاب ہوگئے تو مشیگن اور وسکونسن میں انکی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔تاہم عرب امریکن سیاسی مجلس عمل (AAPAC)نے ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں کو عربوں کیلئے ناموزوں قراردیا ہے

پیر 28 اکتوبر کو نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اتحادیوں کے لیے دفاعی امداد کے معاملے میں بہت 'کنجوس' ہیں اور انکی انتظامیہ کا اصول 'امریکا فرسٹ' ہوگا۔ ہمارے دوست سن لیں وقت آگیا ہےکہ ہم سب اپنا اپنا خیال رکھیں یعنی کھلا کھاتہ نہیں چلے گا۔ہم مشرق وسطیٰ میں خونریزی، کشیدگی اور افراتفری کو ختم کرینگے تاکہ تیسری عالمی جنگ نہ ہو۔جناب ٹرمپ ادھر کچھ دنوں سے عوامی خطاب کے دوران اسرائیل کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔ اس جلسے میں مزاحیہ اداکار ٹونی ہنچکلف (Tony Hinchliffe) نے ہسپانویوں کے بارے میں انتہائی حقارت آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے امریکی غرب الہند میں بحیرہ کریبین (Caribbean) کے جزیرے پر قائم خودمختار امریکی کالونی  پورتوریکو (Puerto Rico)کو 'سمندر کے وسط میں کچرے کا تیرتا ہوا جزیرہ' قراردیا۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے ترجمان نے اداکار کے تبصرے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اسکی مذمت نہیں کی۔

دوسری طرف عرب اور مسلمانوں کے شدید دباو کے باوجودکملا ہیرس، اسرائیل کی غیر مشروط حمائت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ گزشتہ ہفتے پینسلوانیہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انکے شوہر ڈگ ایمہاف نے کہا کہ اگر کملا ہیرس امریکہ کی صدر منتخب ہوگئیں تو قصر مرمریں کے مرکزی دروازے پر عبرانی نشانِ در(Doorpost) نصب کیا جائیگاجسے Mezuzahکہتے ہیں۔ مردِ شریف دوم (2nd Gentleman)نے فخر سے کہا کہ کملا کے نائب صدر منتخب ہوتے ہی ہم نے نائب صدر کی رہائش گاہ پر میزوزا نصب کیا تھا۔ میزوزہ دراصل جانور (بکرا، گائے کا بچھڑا یا بھیڑ) کی کھال پر اللہ کے عبرانی اسمائے مبارکہ  سے ایک نام اور عہد نامہ قدیم یعنی توریت کی چھٹی سورت (Deuteronomy) کی چوتھی آئت لکھ کر اسے تختی کے دونوں طرف ثبت کردیا جاتا ہے۔ تختی کا اللہ کے نام والا حصہ سامنے رہتا ہے۔ چوتھی آیت کا ترجمہ کچھ اسطرح ہے 'بنی اسرائیل سنو!! ہمارا مالک ، ہمارا رب ہمارا الہ ایک ہے'۔ میزوزہ دراصل دروازے پر لٹکائی جانیوالی حفاظتی تعویز ہے۔

انتخابات کے دن قریب آنے کیساتھ نظریاتی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ٹرمپ اور انکے انتہا پسند حامیوں نے اب تک 2020 کے نتائج کا تسلیم نہیں کیا اور انکا خیال ہے کہ  ڈیموکریٹک پارٹی کی کاسہ لیس مقتدرہ اس بار بھی جناب ٹرمپ کے حق نمائندگی یا مینڈیٹ پر شب خون ماریگی۔

قبل از ووٹنگ کے آغاز سے اب تک بیلٹ بکسوں کو آگ لگانے کے تین واقعات ہوچکے ہیں۔ یہاں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کی سہولت کیلئے بڑے شہروں میں مخصوص مقامات پر بیلٹ بکس نصب کئے جاتے ہیں۔

اس ماہ کی 8 تاریخ کو ریاست واشنگٹن کے شہر وینکوور میں بیلٹ بکس کو آگ لگادی گئی۔بیس دن بعد اکتوبر کی صبح ساڑھے تین بجے ریاست اوریگن (Oregon)کے سب سے بڑے شہر پورٹ لینڈ میں سڑک کے کنارے رکھا گیا بیلٹ بکس بھڑک اٹھااور اسکے آدھے گھنٹے بعد ریاست واشنگٹن کے شہر ونکوور میں ایک بار پھر بیلٹ بکس کو آتشکیر مادہ چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ تینوں واردات میں ضبط بعید (ریموٹ کنٹرول) تیکنیک استعمال نہیں ہوئی بلکہ کسی شخص یا افراد نے جائے وارادت پر پہنچ کر پرچہ انتخاب کے صندوقوں کو آگ لگائی۔

آخر میں صدارتی مہم کے اخراجات پر ایک نظر

کملا ہیرس صاحبہ کے مداحوں نے اب تک انھیں ایک ارب 27 کروڑ ڈالر چندہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو 94 کروڑ ڈالر عطیات موصول ہوئے جنکہ ٹویٹر اور ٹیسلا کے مالک ایلون مسک ٹرمپ مہم کیلئے اپنی جیب سے چار کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ حوالہ جرمن خبررساں ایجنسی DW

سی این این (CNN)کے مطابق صدارتی اور پارلیمانی (کانگریس) انتخابی مہم کا مجموعی خرچ پندرہ ارب 90 کروڑ ڈالر ہے۔

روزنامہ جسارت، سنڈے میگزین  کراچی 3 نومبر 2024


Thursday, October 31, 2024

 

ایران پر اسرائیل کا حملہ

نقصانات کے بارے میں متضاد خبریں

اسرائیلی کاروائی کا غیر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، رہبرِ معظم،  ایران کا حکم

غزہ کا آخری اسپتال بھی منہدم

 ایک سال کے دوران 17ہزار سے زیادہ بچے قتل کردیے گئے

اپنے پیاروں کی واپسی کیلئے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہونگی، اسرائیلی وزیردفاع

کئی ہفتوں کی دھمکیوں کے بعد 26 اکتوبر کو صبح سویرے اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کردیا۔ یہ دراصل اس ماہ کی پہلی تاریخ کو اسرائیل پر ایران کے میزائیل، راکٹ اور ڈرون حملے کے جواب تھا۔ایرانی کاروائی پر مشتعل ہوکر وزیراعظم نیتھن یاہو نے کہا تھاکہ ایران نے حملہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے  اور اسکی تہران کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور فوجی ذرایع تاثر دے رہے تھے کہ ایران کی تیل و گیس تنصیبات اور جوہری اثاثوں کیساتھ حضرت علی خامنہ ای سمیت اعلیٰ ترین ایرانی قیادت کو ہدف بنایا جائیگا۔

ایران پر حملے سے پہلے، پیش بندی کے طور پر امریکہ نے جدید ترین فضائی دفاعی نظام،  Terminal High Altitude Area Defense یا THAADاسرائیل میں نصب کردیا تھا۔عجلت میں بھیجے جانے والے ٹھاڈ نظام کیساتھ اسے چلانے کیلئے  100 امریکی فوجی بھی اسرائیل آئے ہیں کہ تربیت کا وقت نہیں۔

حملے سے دودن پہلے اسرائیلی وزیردفاع یوف گیلینٹ، بئیر سبع (Beersheba) میں ہتزرم Hatzerim اڈے پہنچے۔صحرائے نقب  (Negev Desert) میں واقع اس فضائی اڈے پر خصوصی مہمات کیلئے ہوابازوں کو تزویرانی (strategic)تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں  فضائیہ کے سربراہ تومر بار کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'اسرائیل پر ایرانی حملہ جارحانہ لیکن احمقانہ اور غلط تھا۔ اس کے برعکس، ہمارا حملہ مہلک، درست اور حیران کن ہوگا -ایرانی یہ جان بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہوا یا یہ سب کچھ کیسے ہوگیا. وہ صرف نتائج دیکھیں گے۔ ایران کے خلاف کاروائی کے بعد دنیا کو اندازہ ہوگا کہ ہم نے اسکے لئے کیسی تربیت اور تیاری کی تھی۔

ہفتہ 26 اکتوبر کو ایرانی وقت کے مطابق صبح ڈھائی بجے F-151 Ra’amاور F161 Sufaطیاروں کی ٹکریوں نے  تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں کے مخلتف مقامات پر ریڈار اور دوسرے فضائی دفاعی نظام کو جدید ترین سپر سونک میزائیلوں سے نشانہ بنایا۔ تہران میں موجود AFPکے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایرانی اس حملے کیلئے تیار تھے اسلئے زمین پر بم دھماکے سے پہلے آسمان حملہ آور میزائیلوں اور ان کا شکار کرنے والے مزاحمتی گولوں یا Interceptor کی روشنی سے منور تھا۔ڈیڑھ گھنٹے بعد آسمان صاف ہوگیا جسکے تھوڑی دیر بعد F-35 بمبار نمودار ہوئے اور انھوں نے فوجی ٹھکانوں کونشانہ بنایا۔ اس دوران تہران کے امام خمینی اور مہرآباد ایرپورٹ سے پروازوں کا سلسلہ جاری رہا۔

حملہ ہوتے ہی اسرائیل سمیت دنیا بھر کے ابلاغ عامہ پر خبر آنا شروع ہوگئی لیکن ایران اور اسرائیل دونوں جانب حکومتی سطح پر مکمل خاموشی تھی۔اسی دوران امریکی ٹیلی ویژن NBCنے بتایا کہ نام افشا نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی اہلکار نے ایران پر حملے کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کا ایران کے جوہری اثاثوں اور تیل وگیس کی تنصیبات پر حملے کا ارادہ نہیں۔

ایرانی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے کاروائی کی تکمیل پر اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیر جنرل ڈینیل ہگاری نے ایک بصری پیغام میں کہا کہ ایرانی حکومت اور خطے میں اس کے آلہ کار سات اکتوبر سے اسرائیل پر مسلسل حملے کر رہے ہیں جن میں ایرانی سرزمین سے براہ راست حملے بھی شامل ہیں۔کئی ماہ سے جاری مسلسل حملوں کے جواب میں ایرانی فوجی اہداف پر "نپے تلے حملے" کیے گئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی ساختہ S-300فضائی دفاعی نظام، میزائیل، راکٹ اور ڈرون کارخانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان کے مطابق 'آپریشن ایامِ توبہ' (Days of Repentance)  کے دوران بمباروں، لڑاکا طیاروں، ایندھن فراہم کرنے والے جہازوں اور جاسوس طیاروں نے اسرائیل سے 1600 کلومیٹر دور ایک انتہائی دشوار اور پیچیدہ کاروائی میں حصہ لیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام اسرائیلی طیارے بخیریت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچ گئے۔ جب ان سے دشمن کے نقصان کا پوچھا گیا تو سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ہگاری نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہمارا آپریشن مکمل ہوچکااور توقع ہے کہ ایران جوابی کاروائی کے نام پر معاملے کو طول دینے سے باز رہے گا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ یہودی عقیدے کے مطابق یہ 'اعتراف و توبہ' اور 'تلاوتِ توریت' کے ایام ہیں، جسکی مناسبت سے  اسے آپریش توبہ کا نام دیا گیا۔

جس وقت جنرل ہگاری تل ابیب میں صحافیوں سے باتیں کررہے تقریباً عین اسی وقت تہران میں سرکاری ترجمان محترمہ فاطمہ مہاجرانی نے غیر ملکی صحافیوں کوبتایا کہ 'ایرانی فضائیہ کے دفاعی نظام نے 'کشور ایران' کا کامیابی سے دفاع کیا۔ تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں پر 100 اسرائیلی طیاروں کا حملہ ناکام بنادیا گیا۔ بہت معمولی سا نقصان ہوا۔ تمام ریفائنریز اور اہم اثاثے بالکل محفوظ ہیں۔ فضائی اور بحری ٹریفک معمول کے مطابق ہے۔ اسلامک ریپبلک جوابی کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے'۔

تھوڑی دیر بعد ایرانی جنرل اسٹاف (GHQ) نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات سے آگاہ کرتےہوئے کہا کہ اسلامی جہوریہ پر حملوں کے لیے اسرائیل نے عراق میں امریکہ کے زیر کنٹرول فضائی حدود کا استعمال کیا۔ اعلامئے میں بتایا گیاکہ حملے کے دوران اسرائیلی طیارے ایرانی سرحد سے 100 کلومیٹر دور رہے اور دشمن کے طیاروں کو ملک کی فضائی حدود میں نہیں داخل ہونے دیا گیا۔عراقی حددود میں پرواز کرتے ہوئے جنگی طیاروں نے میزائل داغے۔ ہمارے چوکس دفاعی نطام نے حملہ آور میزائیلوں کا بروقت سراغ لگاکر زیادہ تر کو فضا ہی میں غیر موثر کردیا۔ جنرل استاف نے نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایلام،خوزستان اور دارالحکومت تہران کے قریب ریڈار یونٹوں کو "معمولی اور غیر موثر" نقصان پہنچا ہے۔زیادہ تر یونٹوں کی مرمت کردی گئی ہے اور کچھ پر مرمتی کام جاری ہے۔ ترجمان نے حملوں میں چار ایرانی سپاہیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حوالہ: IRNA

اسرائیل کی جانب سے کاروائی کی خبر آتے ہی امریکی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان شان سیورٹ Sean Savett نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی کاروائی 'اپنے دفاع کی مشق اور یکم اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کا جواب ہے'۔سیکیورٹی کونسل کے موقف کی حمائت کرتے ہوئے صدر بائیڈن بولے کہ امریکہ اسرائیل کے حق دفاع کی حمائت کرتاہے۔ انھوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اسرائیل نے اپنی کاروائی عسکری اہداف تک محدود رکھی اور اس سے شہریوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ امریکی صدر نے تاثر دیا کہ گویا انکے اصرار بلکہ دباو نےاسرائیل کو جوہری اثاثوں اور تیل و گیس کی تنصیبات پر حملے سے باز رکھا لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر (PMO)نے یہ کہہ کر شیخی کے غبارے میں سوئی چبھودی کہ 'اسرائیل نے وقت سے پہلے اہداف کا انتخاب اپنے قومی مفادات کے مطابق کیا نہ کہ امریکی ہدایات پر'

اسرائیل نے اس حملے میں ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔اس حوالے سے ایران کا موقف ہم اوپر پیش کرچکے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر اسرائیلی فوجی ذرایع ان حملوں میں میزائیل بنانے کے کارخانوں اورمیزائیل شکن نظام کو تباہ کردینے کا دعوی کررہے ہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن Kan Public Broadcastingکے مطابق سیارچوں (Satellite) سے حاصل ہونے والی تصاویر سے دفاعی نظام کی مکمل بربادی ظاہر ہورہی ہے اور تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اسکی تعمیرِ نو میں خاصہ وقت لگے گا۔ کین براڈکاسٹنگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی جوہری اثاثوں سے تو براہ راست کوئی چھیڑ خانی نہیں کی لیکن تہران سے  30 کلومیٹر جنوب مشرق میں پارچین کے خفیہ اڈے کو  نشانہ بنایا جو ایک عرصے تک جوہری تحقیقی مرکز تھا اب  یہاں شاہد ڈرون اور راکٹ بنائے جاتے ہیں۔اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ دفاعی نظام کے تباہ ہوجانے سے ایران کیلئے اپنی تیل تنصیبات اور جوہری اثاثوں کی حفاظت ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے۔اسرائیل کے اس دعوے کی کسی آزاد ذرایع سے تصدیق نہیں ہوسکی لیکن ایرانی،  بظاہر پریشان نظر نہیں آرہے اور تہران میں موجود غیر ملکی صحافیوں نے کسی بڑی آتشزدگی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔اگر اسرائیلی حملے میں ڈرون ساز فیکٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو یہ روس کیلئے بھی تشویشناک خبر ہے کہ یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ شاہد ڈرون سب سے موثر ہتھیار ہے۔ دوسرے دن حضرت علی خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل نے ایران کے عزم کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ انھوں نے ایرانی حکومت سے کہا کہ نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے نہ کسی پہلو کو نظر انداز کیا جائے اور نہ ہی مبالغہ آرائی کی جانی چاہئے۔

رہبر معظم کے حکم پر ایرانی حکام نے نقصانات کا حقیقت پسندانہ جائزہ شروع کردیا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے یہ کہنا مشکل ہے کہ حملے کے نتیجے میں ایران کے دفاعی نظام اور میزائیل سازی کی صلاحیت  کو کتنا نقصان پہنچا ہے  لیکن اسرائیلی سیاستدان اس حملے کو وقت و وسائل کا زیاں اور بے مقصد مشق قرار دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے سوال اٹھادیاکہ جب  جوہری آثاثہ جات اور  تیل و گیس کی تنصیبات کو ہاتھ بھی نہیں لگانا تھا توسینکڑوں تجربہ کار ہوابازوں کو 1600 کلومیٹر دور بھیج کر خطرے میں ڈالنے اور کروڑوں کا ایندھن پھونکنے کی ضرورت کیا تھی؟ بائیں بازواتحاد کے قائد میجر جنرل (ر) یار گولان نے اپنے طنزیہ بیان میں کہا کہ 'اگر ایران کے ساتھ 'بدلہ' مکمل ہو چکا ہے تو حکومت کو اُس ذمہ داری کی طرف توجہ دینی چاہئے جس سے بی بی مسلسل پہلو تہی کررہے ہیں، یعنی غزہ میں یرغمالیوں کا معاہدہ'

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر قاہرہ میں گفتگو کاایک دور مکمل کرنے کے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی  27 اکتوبر سے قطر میں ہیں۔ مصری خفیہ ذرایع نے موساد کو مطلع کردیا ہے کہ یحییٰ سنوار کے قتل کے باوجود مزاحمت کار قیدیوں کی رہائی کیلئے غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر اصرار کررہے ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ڈیوڈ برنی نے اپنے مصری ہم منصب کے ذریعے مزاحمت کار قائدین کو سندیسہ بھجوایاکہ اگر وہ ہتھیار ڈال کر قیدی رہا کردیں تو انھیں بحفاظت غزہ سے نکلنے دیا جائیگا۔ پیغام  ملتے ہی جواب آیا کہ 'ہم اپنے وطن میں ہیں، جانا تو قبضہ گردوں کو ہے۔ دن و ہفتہ، ماہ وسال  نہیں،ہمیں لڑتے سات دہائیاں گزرچکی ہیں اور ہر آنے والا دن ہمارے عزم کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ فیصلہ قابضین کو کرنا ہے کہ وہ کب تک ہماری مزاحمت سہہ سکیں گے؟'دوسری جانب اسرائیلی وزیردفاع گیلنٹ نے حقیقت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قوت مسئلے کا حل نہیں، صرف طاقت سے تمام اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ قیدیوں کی رہائی ہماری اخلاقی و قومی ذمہ داری ہےاور اپنے پیاروں کی واپسی کیلئے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہونگی۔حوالہ: فرانس 24 ٹیلی ویژن

گفتگو کا اختتام اس اطلاع پرکہ غزہ میں طبی سہولتوں کا آخری مرکز،کمال عدوان اسپتال بھی تباہ کردیاگیا۔اسپتال منہدم کرنے سے  پہلے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو گرفتار کرنے کے لئے آنے والے اسرائیلی دستے نے اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کے 8 سالہ بچے ابراہیم کو گولی ماردی۔ لیکن 'بکمال مہربانی' ڈاکٹر صاحب کی مشکیں کسنے سے پہلے انھیں اپنے لخت جگر کا جنازہ پڑھانے کی مہلت دیدی گئی۔ غزہ میں ایک سال کے دوران 17029نونہال قتل کئے گئے، ان میں سے 171 بچے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنی ماؤں کے ساتھ انکے پیٹوں میں جان سے گئے۔ قتل ہونے والے سات سو سے زیادہ بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہیں دیکھی۔چنگیز و ہلاکو جیسے وحشی بھی خونریزی کے دوران مریضوں ، شفاخانوں اور بیمارستانوں کی حفاظت کرتے تھے لیکن غزہ میں انسان، انسانیت اور اخلاقیات سب کا جنازہ نکل گیا

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی یکم نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر 3 نومبر 2024


Saturday, October 26, 2024

 

امریکی انتخابات ۔۔ڈانلڈ ٹرمپ کا پلہ بھاری

سابق صدر نے میکڈانلڈ ریستوران میں آلو کے قتلے تلے

اسقاط حمل امریکی خواتین کا کلیدی نکتہ،  مسلمان گرین پارٹی کی طرف مائل

سارے امریکہ میں قبل از وقت یا earlyووٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس بارفیصلہ کن یا swingریاستوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان زیادہ نظر آرہا ہے۔ ریاست جارجیا میں پہلے دودن کے دوران 15 لاکھ رائے دہندگان نے اپے ووٹ بھگتالئے۔چار سال پہلے یہاں کُل  24لاکھ 74ہزار ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تقریباً ہر ریاست میں اس بار یہی حال ہے۔

سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اقتصادی خرابیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کا خوف دلاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ کو میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کی شکل میں جارحیت کا سامنا ہے۔ ساری دنیا سے جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروش امریکہ آرہے ہیں جسکی وجہ سے شہری سہولتیں دباوکا شکار ہیں۔ یہ تارکین وطن بازار سے بہت کم اجرت پر کام کو تیار ہیں اسلئے امریکیوں کو بیروزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔انکا کہنا ہے کہ گنوار تارکین وطن  امریکی شہریوں کے پالتو کتے اور بلیاں ذبح کرکے کھارہے ہیں۔روسائے شہر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے لیکن جناب ٹرمپ یہ الزام ہر جگہ دہرارہے ہیں۔

کملا ہیرس مہم کا بنیادی نکتہ اسقاط حمل ہے۔کچھ عرصہ پہلے صدر ٹرمپ کے تعینات کردہ سپریم کورٹ ججوں نے استقاط حمل کے معاملے ریاستوں کے حوالے کردیا جسکے بعد ریپبلکن گورنروں کی زیرانتظام ریاستوں میں اسقاط حمل غیر قانونی اور اسے قتل جیسی واردات کادرجہ دیدیا گیاہے۔خواتین کیلئے یہ پابندیاں قابل قبول نہیں۔ایک جائزے کے مطابق امریکہ کی 56 فیصد خواتین 'میرا جسم میری مرضی' کی قائل ہیں اور انکے خیال میں اسقاط پر پابندی خواتین کے  بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اسی بنا پر خواتین میں کملا ہیرس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جسکا اعتراف خود ڈانلڈ ٹرمپ بھی کررہے ہیں۔ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'امریکی خواتین مجھ سے پیار کرتی ہیں لیکن اسقاط کے معاملے پر انکے تحفظات مجھے نقصان پہنچاریے ہیں۔

کملا ہیرس، ڈانلڈ ٹرمپ سے ناراض ریپبلکن پارٹی کے حامیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ گزشتہ دنوں ریپبلکن پارٹی کی سینیر رہنما اور سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحبزادی لز چینی نے انکے لئے ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کا ایک اجتماع منعقد کیا جس میں چینی صاحبہ نے 'محب وطن' ریپبلکن ارکان پر زور دیا کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کو جماعت پر ترجیح دیں۔ جناب ٹرمپ نیٹو کے بارے میں بہت زیادہ پرجوش نہیں۔ اسکے علاوہ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ وہ روس اور شمالی کوریا کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جناب ٹرمپ  نے 2020 کے انتخابات کے نتائج کا تسلیم نہیں کیا اور نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں کے الزام میں ان پر مقدمات بھی قائم ہیں۔ محترمہ لز چینی اور انکے ہمخیال ریپبلکن ان معاملات پر ڈانلڈ ٹرمپ کے شدید مخالف ہیں۔

ہرگزرتے دن کیساتھ مقابلہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ تازہ ترین جائزے کے مطابق سات میں سے تین فیصلہ کن ریاستوں میں ڈانلڈ ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ تین میں کملا، ڈانلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں جبکہ نواڈا میں دونوں 49 فیصد کیساتھ بالکل برابر ہیں۔ جارجیا اور اریرزونا میں ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری دو فیصد ہے، باقی ریاستوں مں فرق اتنا کم ہے کہ نتیجے کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔تاہم سیاسی پنڈتوں نے ڈانلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی پیشنگوئی شروع کردی ہے۔

سرگرمیوں میں تیزی آنے کے ساتھ زبانی جنگ بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ ٹرمپ صاحب کی بے ساختگی اور بذلہ سنجی نے نوک جھونک کو دلچسپ بنا دیا ہے۔کسی جلسے میں کملا ہیرس نے بتایا کہ دوران طالب علمی وہ میکڈانلڈ میں آلو کے قتلے المعروف French Friesتلا کرتی تھیں۔ یہ سن کر جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے ہانک لگائی کہ یہ کام وہ اپنی حریف سے  اچھا کرسکتے ہیں۔اپنے دعوے کو درست  ثابت کرنے کیلئے سابق صدر نے پینسلوانیہ کے ایک میکڈانلڈ جاکر نہ صرف آلو کے قتلے تلے بلکہ Drive Thruکھڑکی پر آکر صارفین کو یہ کہہ کر دئے کہ 'دیکھو میں کملا ہیرس سے اچھی فرنچ فرائیز بناسکتا ہوں'۔ جب ایک کرمفرما نے پوچھا 'کیا آپ انتخاب جیت جائینگے تو جناب ٹرمپ بے دھڑک بولے 'ہاں اگر  شفاف ہوئے تو'

اسرائیل کی غیر مشروط حمائت کی بنا پر مسلمانوں کی ڈیموکریٹک پارٹی سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ مشیگن، وسکونسن، جارجیا،پینسلوانیہ اور ایریزونا میں کملا ہیرس کی مہم سخت دباو میں ہے۔ محترمہ مسلمانوں سے رابطے میں تو ہیں اور نجی نشستوں میں اہل غزہ  کی مشکلات پر تشویش کا اظہار بھی کردیتی لیکن سرکاری و عوامی سطح پر وہ اپنے موقف میں نرمی کو تیار نہیں

پیر 21 اکتوبر کو جب کملا ہیرس نے جامعہ واسکونسن، ملواکی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انکی حکومت اعلیٰ تعلیم کیلئے بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے تو فلسطینی کفیہ گلے میں ڈالے ایک نوجوان کھڑا ہوگیا اور بولا 'جی نہیں آپ نے نسل کشی کیلئے سرمایہ کاری کی ہے آپ کی حکومت نے بچوں کے قتل عام کیلئے اسرائیل کو اربوں ڈالر دئے ہیں'۔ کملا ہیرس نے تردید کرتے ہوئے کہا ہم غزہ میں فوری جنگ بندی کیلیے کام کررہے ہیں۔ پولیس نے اس لڑکے کو ہال سے نکال دیا۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بھی ٹھیک تھا۔ شام کو ایک بیان میں کملا ہیرس انتخابی مہم کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ہیرس صاحبہ طالب علم کے اس الزام سے متفق نہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کررہا ہے۔

دوسرے دن جامعہ منیسٹوٹا، منیاپولس (University of Minnesota, Minneapolis) میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے درجنوں طلبہ گرفتار کرلئے گئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار برائے نائب صدارت ٹم والز اس ریاست کے گورنر ہیں۔

روزنامہ جسارت کراچی 27 اکتوبر 2024