Thursday, December 18, 2025

 

غزہ و غربِ اردن سے سڈنی تک۔  نفرت کا بیانیہ

وحشت کے آٹھ سو دن

سڈنی (آسٹریلیا) کے فیشن ایبل ساحل بونڈائی (Bondi) پر یہودی تہوارحنوکا (Hanukkah)منانے والوں کے خلاف دہشت گردی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ عبادت میں مصروف لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ سے 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ فلسطینیوں سمیت ساری دنیا نےاس وحشیانہ کارروائی کی مذمت کی لیکن اس انسانیت کش واقعے کو بھی جنگجو اسرائیلی قیادت غزہ اور غربِ اردن میں اپنے مجرمانہ اقدامات کے دفاع کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

مبینہ طور پر اس حملے کے ذمہ دارہندنژاد باپ بیٹے بتائے جا رہے ہیں، تاہم اسی سانحے کی ایک اور حقیقت کو دانستہ نظرانداز کیا جا رہا ہے یعنی ایک مسلمان، احمد الاحمد، نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر حملہ آور سے رائفل چھینی اور ممکنہ طور پر مزید جانی نقصان کو روکا۔ مارے جانے والوں میں Chabad فرقے کے ربائی ایلی شیلینجر بھی شامل ہیں، جو غزہ کے محاذ پر اسرائیلی فوج کی کھلے عام حوصلہ افزائی کرتے رہے تھے۔ آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے واقعے کی دوٹوک مذمت کرتے ہوئے یہودی برادری سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا، جو ایک ذمہ دار ریاستی رویہ ہے۔ مگر انکے اسرائیلی ہم منصب نے  اس سانحے کی وجہ آسٹریلیا میں غزہ نسل کشی کے خلاف ہونے والے مظاہرے قرار دے کر اس انسانی المیے کو سیاسی اشتعال انگیزی میں بدلنے کی کوشش کی۔حنوکا کی تقریب پر حملہ جتنا قابلِ نفرت ہے، اتنے ہی قابلِ مذمت غزہ اور غربِ اردن میں مساجد، مدارس اور پناہ گاہوں پر ہونے والے حملے بھی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کس کا خون بہا، مسئلہ یہ ہے کہ کون سا خون سیاسی بیانیے کے لیے استعمال ہوا اور کسے بے آواز دفن کر دیا گیا۔

وحشت کے آتھ سو دن۔۔۔۔

غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار برسات کو آٹھ سو دن مکمل ہو چکے ہیں، مگر نام نہاد جنگ بندی کے بعد بھی اس محصور پٹی کے باسیوں کو ایک لمحے کی راحت نصیب نہیں ہوئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طاقتور دنیا نے غزہ نسل کشی کو new normal قرار دیتے ہوئے اس انسانی المیے کو ایک قابلِ قبول ضمنی نقصان (collateral damage) کے درجے میں دھکیل دیا ہے۔

سرد ہوا کا طوفان ۔۔ اہل غزہ  کی  نئی آزمائش

بمباری، بھوک اور بیماری کے بعد اب موسم بھی اہلِ غزہ کے خلاف صف آرا ہے۔جمعرات 11 دسمبر کی صبح آنے والے Byron نامی شدید طوفان اور موسلا دھار بارش نے تین لاکھ خیموں پر مشتمل اس بستی کو تہس نہس کر ڈالا۔ پندرہ لاکھ سے زائد انسان،جن میں بچوں اور خواتین کا تناسب چالیس فیصد سے زیادہ ہے، بے یارومددگار اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔تیز سرد ہواؤں سے خیمے اکھڑ گئے اور ہر طرف کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔ ساحلی علاقوں میں بحیرۂ روم کی لہروں نے تباہی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF کے ڈائریکٹر جوناتھن کرِکس (Jonathan Crickx) نے دیر البلح سے بتایا  کہ 'ننھے بچے سرد ہواؤں میں کھلے آسمان تلے گیلے کپڑوں میں ہیں۔ بستر، کمبل، سب کچھ بھیگا ہوا اور ایک خوفناک المیہ بچوں کو نگلنے والا ہے'۔ سردی سے ٹھٹھر کر آٹھ ماہ کی رہف ابو جزر اپنی ماں کے سینے سے لپٹی ہوئی دم توڑ گئی۔ اب تک کم از کم گیارہ افراد سردی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔

سخت سردی اور ظلم کا گرم بازار

اس آفت کے باوجود اسرائیلی فوج کا رویہ تبدیل نہ ہوا۔ رفح میں امدادی ٹرک سے کمبل لینے والے دو نوجوانوں کو گولی مار دی گئی۔ خان یونس کے علاقے بنی سہیلہ میں خیمہ اسکول پر ٹینکوں کی گولہ باری سے ایک خاتون استاد جاں بحق ہوئیں، جبالیہ میں ایک خاتون کو ٹینک تلے کچل دیا گیا۔ مواصی کے ساحلی علاقے میں فائرنگ سے تین سالہ عہد البیوک جان سے گئی، جبکہ غزہ کے ساحل پر گن بوٹ سے فائرنگ میں پانچ سالہ جنان ابو عمرہ شدید زخمی ہوگئی۔

بد ترین حالات میں بھی غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے

بین الاقوامی امدادی ادارے Norwegian Refugee Council (NRC) کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل نے صرف 15600 خیمے غزہ بھیجنے کی اجازت دی ہے جس میں بری طرح ٹھنس کر 88 ہزار افراد سماسکتے ہیں۔ یہاں ٹھکانوں کے متلاشیوں کی تعداد 13 لاکھ کے قریب ہے۔ انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم B’Tselem کا کہنا ہے کہ گرم کپڑے، کمبل اور نزلہ و زکام کی دواوں سے لدے ساڑھے چھ ہزار ٹرک غزہ جانے کیلئے تیار ہیں لیکن انھیں اسرائیلی فوج نے روک رکھا ہے۔سخت سردی اور تیز ہواوں سے بچنے کیلئے ہزاروں لوگ کھنڈر بنی خطرناک عمارتوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جو تیز بارش اور طوفانی ہواوں میں کسی بھی وقت گرسکتی ہیں۔ برطانیہ کی سماجی تنظیم، آکسفام (Oxfam)کا کہنا ہے کہ  طوفان سے تقریبا تمام خیمہ تباہ ہوچکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں لیکن اسرائیلی فوج نئے خیموں، گرم کپڑوں اور دواوں کی غزہ آمد کا راستہ روکے ہوئے ہے۔

دہشت گردی کا لیبل ۔۔۔  پالیسی یا ہتھیار

اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ، اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA پر دہشت گردی کے الزام میں پابندیوں پر غور کر رہی ہے، حالانکہ یہی ادارہ غزہ میں انسانی امداد کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکساس اور فلوریڈا میں CAIR پر پابندیاں، اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے “خلافت” کے نام پر مزید قدغنوں کی باتیں، اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دہشت گردی کا الزام اب محض سیکیورٹی اصطلاح نہیں رہا بلکہ خارجہ اور داخلی سیاست کا ہتھیار بن چکا ہے۔ سیاسی اختلافات، نظریاتی کشمکش یا مخالف بیانیے کو دبانے کے لیے "دہشت گردی" کا لیبل لگانے سے اصل نقصان اُس مشترکہ عالمی اتفاق کو ہوگاجس کی بنیاد پر حقیقی دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی ممکن ہے۔یہ طرزِ عمل نہ صرف غزہ کے انسانی بحران کو شدید تر کردیگا بلکہ اس سے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف اتفاقِ رائے کو بھی نقصان پہنچےگا۔

اسلاموفوبیا ۔۔ امریکہ کے اندر ایک اور محاذ

اسرائیلی جبر کی طرح امریکہ میں بھی اسلاموفوبیا مہم تیز ہورہی ہے۔ریاست فلورڈا سے ریپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس رینڈی فائن (Randy Fine)نے ایک سماعت کے دوران کہا 'امن قائم کرنے کے لیے اُن لوگوں کو ختم کرنا ضروری ہے جو آپ کے خاتمے کے خواہاں ہوں'۔ فائن صاحب نے یہ بات کسی شدت پسند گروہ کیلئے نہیں بلکہ عام مسلمانوں یا “mainstream Muslims” کے بارے میں کہی۔صدر ٹرمپ بھی مسلم اقلیتوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے اور صومالی نژاد برادری کے لیے ناگوار الفاظ استعمال کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔

امریکہ کا آئین مذہبی آزادی، مساوات اور شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس تناظر میں ایسے بیانات کے خلاف مؤثر ردعمل ضروری ہے تاکہ دیوار سے لگی مسلم اقلیت میں اعتماد بحال ہو۔ ورنہ امریکی مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ سب ریاستی مقتدرہ کی خاموش رضا سے ہورہا ہے۔

زیتون دشمنی ۔۔۔ درختوں کے خلاف جنگ

زیتون ارضِ فلسطین کی شناخت اور مقامی کسانوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔ اسرائیلی حکومت ایک منظم منصوبے کے تحت زیتوں کی فصل اجاڑ رہی ہے۔ پہلے یہ کام انتہا پسند گروہ فوجی تحفظ میں کرتے تھے، مگر اب یہ ذمہ داری فوج نے براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔گزشتہ ہفتے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل ایوی بلُتھ (Avi Bluth) نے نابلوس کے قریب گاؤں قریوت میں 80 دونم (20 ایکڑ) رقبے پر زیتون کے درخت اکھاڑنے کا تحریری حکم جاری کیا۔ لیکن جب مسلح سپاہی اور بلڈوزر موقع پر پہنچے تو پورے علاقے کو بند کرکے کارروائی 150 دونم (37 ایکڑ) تک پھیل گئی اور سرسبز کھیت کو چٹیل میدان بنا دیا گیا۔ 'سیکیورٹی' کے نام پر یہ کاروائیاں درحقیقت فلسطینی معاش، ثقافت اور حقِ ملکیت مٹانے کی مہم ہے۔

یورپی فنکاروں کی بغاوت

غزہ نسل کشی اور غربِ اردن میں فلسطینیوں سے بدسلوکی پر شیوخانِ حرم، اصحابِ جبہ و دستار اور مغرب کے جمہوریت نواز تو مصلحتاً خاموش ہیں، لیکن وہ لوگ جنھیں حرفِ عام میں گوئیے، اداکار اور رقاص کہا جاتا ہے، اس ظلم عظیم پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں ۔

یوروویژن 2025 کے سوئستانی فاتح نیمو میٹلر (Nemo Mettler) نے اپنا Grand Prix اعزاز واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔نیمو نے انسٹاگرام پر لکھا 'اسرائیل کی 2026 کے مقابلے میں شمولیت نے یوروویژن کی بنیادی قدروں کو شدید مجروح کیا ہے۔اسی لیے میں اپنی ٹرافی واپس کررہا ہوں'۔ اس سے پہلے اسپین، ہالینڈ، آئرلینڈ، سلووینیا اور آئس لینڈ کے قومی نشریاتی ادارے،  مقابلے میں اسرائیل کی شمولیت برقرار رکھنے کے فیصلے پر یوروویژن 2026 سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔

بھوک یا بارود۔۔۔ اسرائیل میں بڑھتا ہوا سماجی و معاشی بحران

اسرائیلی انتہا پسندوں کے شوقِ کشور کُشائی نے جہاں اہلِ فلسطین سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں قیامت برپا کر رکھی ہے، وہیں اس جارحانہ اور توسیع پسندانہ طرزِ عمل کی قیمت اب عام اسرائیلی شہری بھی چکا رہے ہیں۔ انسانی بہبود کے لیے کام کرنے والی اسرائیل کی معتبر تنظیم Latet کی  سالانہ رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی اسرائیلی خاندان غذائی عدم تحفظ کا شکار اور بارہ لاکھ بچے مناسب خوراک سے محروم ہیں۔

تم انکے شکستہ تیر گنو!!!

نسل کشی کی اس وحشیانہ مہم میں شہریوں کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کو بھی گہرے جسمانی و نفسیاتی زخم سہنے پڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کی ایک تازہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں زخمی اور مستقل نگہداشت کے محتاج فوجیوں کی تعداد 82ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صرف جسمانی زخموں کا مجموعہ نہیں بلکہ 31ہزار فوجی ذہنی و اعصابی صدمات (Mental Health Injuries) کی وجہ سے طویل علاج کے مراحل میں ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ جنگ صرف محاذ تک محدود نہیں رہتی ۔اس کے شعلے معاشرتی فلاح، نفسیاتی صحت، معاشی استحکام اور عام شہریوں کی روزمرہ زندگی تک پھیل جاتے ہیں۔

آخر میں… ایک ننھی “دہشت گرد کا ذکر

چھ سالہ سندس شادی کی تقریب میں کھیل رہی تھی کہ اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ جواز یہ دیا گیا کہ “چھت پر دوڑ دیکھ کر حملے کا خدشہ ہوا”۔ ڈرون پر نصب مصنوعی ذہانت (AI)سے مزین کیمرے تو ایک ایک فرد کی مکمل شناخت کرلیتے ہیں۔ کیا یہ جدید ڈرون پانچ سے سات سال کے بچوں کی شناخت نہیں کرسکے؟؟؟ ۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 دسمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 19 دسمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 دسمبر 2025


 

بحرِ روم کی گیس، فلسطین کا ثمر اور یورپ کی سرد خاموشی

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین  نیتن یاہو نے 17 دسمبر کو گیس برآمد کے ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کے تحت لیویاتھن (Leviathan) گیس میدان سے 2040 تک 34 ارب 70 کروڑ ڈالر کے عوض  130 ارب مکعب میٹر 130bcm)گیس مصر کو فراہم کی جائیگی جو اسے LNGمیں تبدیل کرکے  یورپ کو فروخت کریگا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا گیس معاہدہ ہے۔

امریکی کمپنی Chevron اور اسرائیلی ادارہ NewMed Energy سمیت تمام شراکت دار اس معاہدے کے دستخط شدہ فریق ہیں، اور Chevron کی شمولیت گیس کی برآمد کو ممکن بنائے گی

جسے اسرائیلی وزیرِاعظم “تاریخی لمحہ” قرار دے رہے ہیں، وہ درحقیقت عہدِ حاضر میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کی ایک نہایت منظم اور مکروہ مثال ہے۔

جن تین گیس میدانوں، کارِش (Karish)، لیویاتھن (Leviathan) اور ثمر (Tamar) سے اسرائیل گیس حاصل کر رہا ہے، ان میں سے لیویاتھن اور ثمر غزہ کے ساحلوں سے متصل سمندری حدود میں واقع ہیں، جبکہ کارِش لبنان کے متنازع پانیوں میں آتا ہے۔ اہلِ غزہ اور لبنان کا یہ دعویٰ محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین (UNCLOS) کی روح کے عین مطابق ہے۔ مگر توانائی کی عالمی منڈی میں “حق” کا تعین اب نقشوں سے نہیں، طاقت سے ہوتا ہے۔

ثمر: فلسطین کا درخت، اسرائیل کی فصل

یہ وہی ثمر ہے جسے 2012 میں مصر کے منتخب صدر محمد مورسی نے فلسطین اور لبنان کی مشترکہ ملکیت قرار دیا تھا۔ مرسی معزول ہوئے، قید میں مارے گئے، اور آج وہی ثمر اسرائیل کی توانائی خودکفالت اور یورپ کی گیس فراہمی کا مرکزی ستون بن چکا ہے۔

یورپ کی دوغلی اخلاقیات

روس یوکرین جنگ کے بعد یورپ کو فوری طور پر متبادل گیس درکار تھی، اور اس ضرورت نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ قاہرہ میں دستخط ہونے والی مفاہمت کی یادداشت میں نہ غزہ کا ذکر ہے نہ فلسطین و لبنان کا، مگر انہی ساحلوں سے نکالی گئی گیس یورپی شہروں کو روشن اور گرم کرے گی۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور قومی خودمختاری سب کچھ “انرجی سکیورٹی” کے نام پر قربان کر دیا جاتا ہے۔

اماراتی انٹری: خاموش مگر فیصلہ کن

تین سال قبل متحدہ عرب امارات کی مبادلہ پیٹرولیم نے ثمر فیلڈ میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت اسے محض ایک کاروباری فیصلہ سمجھا گیا، مگر آج واضح ہو چکا ہے کہ یہ بحیرۂ روم میں جغرافیائی جڑیں مضبوط کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی۔سونے کی خاطر سوڈانیوں کا خون بہانے والے محمد بن زید کو اب خلیج کے ساتھ ساتھ بحیرۂ روم میں بھی ایک مستقل “ٹھکانہ” مل چکا ہے، جبکہ فلسطینی ایک بار پھر نقشے سے غائب ہیں۔

قانون یا قوت؟

کارِش اور ثمر گیس فیلڈز پر لبنان کا دعویٰ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، اور امریکہ نے اس تنازع پر ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔ عالمی قوانین کے مطابق لیویاتھن فلسطینیوں کی ملکیت ہے، مگر عالمی سیاست میں سوال یہ نہیں کہ دعویٰ کس کا درست ہے، سوال یہ ہے کہ بحری بیڑا کس کے پاس ہے؟ نسل کشی کا شکار اہل غزہ اپنی فریاد لے کر کہاں جائیں جب  اپنا بھائی  ان سے چوری کئے مال کو اخلاقی تحفظ دے رہاہو

ہم نے 15 جون 2022 کو اپنے ایک کالم میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، آج ان کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فلسطین کی زمین ہو یا اس کا سمندر، دونوں کی لوٹ مار عالمی منڈی کی رضا مندی سے جاری ہے۔ بحرِ روم کی گیس یورپ کے گھروں کو گرم کرے گی، مگر غزہ کے ساحلوں پر سرد سناٹا ہی رہے گا۔


 

غزہ، واشنگٹن  اور 2024 کے انتخابات

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے چھ اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ 2024 کے دوسرے نصف میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو بعض حساس خفیہ معلومات کی فراہمی عارضی طور پر معطل کر دی تھی۔ ان معلومات میں غزہ پر اڑنے والے امریکی ڈرونز سے حاصل شدہ براہِ راست بصری مشاہدہ (Direct Video Feed) بھی شامل تھا، جسے اسرائیلی حکومت فلسطینی قیدیوں اور جنگجوؤں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔

ذرائع کے مطابق امریکہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ اسرائیل ان معلومات کو اہم فوجی اہداف (High-Value Targets) کے تعاقب میں کس حد تک اور کن ضابطوں کے تحت استعمال کر رہا ہے، تاہم یہ پابندیاں صرف چند دن برقرار رہ سکیں۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکی انٹیلی جنس حلقے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات پر بھی سنگین تحفظات لاحق تھے کہ اسرائیل کا داخلی سلامتی ادارہ شاباک (Shin Bet) فلسطینی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق اسرائیل، امریکی مطالبے کے باوجود، اس بات کی واضح اور تحریری یقین دہانی فراہم کرنے میں ناکام رہا کہ وہ امریکہ سے حاصل کردہ معلومات کو بین الاقوامی قوانینِ جنگ کے مطابق استعمال کرے گا، حالانکہ امریکی قانون کے تحت ایسی یقین دہانی لازمی تصور کی جاتی ہے۔

اس سب کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے مجموعی طور پر اسرائیل کو انٹیلی جنس اور اسلحے کی فراہمی جاری رکھی۔حساس معلومات کی عارضی معطلی بظاہر اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش تھی تاکہ وہ امریکی فراہم کردہ معلومات کو قوانینِ جنگ کے دائرے میں استعمال کرے۔ واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کو بعض ہنگامی معاملات میں وائٹ ہاؤس کے براہِ راست حکم کے بغیر فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پابندی صدر بائیڈن کی براہِ راست ہدایت کے بغیر عائد کی گئی ہو۔ جب سابق صدر بائیڈن کے ترجمان سے اس معاملے پر تبصرے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اسرائیل کو حساس معلومات کی فراہمی معطل کرنے کی خبر بظاہر ایک جرات مندانہ قدم محسوس ہوتی ہے، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پابندی محض چند دنوں تک محدود رہی۔ سوال یہ نہیں کہ پابندی کیوں لگائی گئی، بلکہ یہ ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں اور قوانینِ جنگ کی ممکنہ خلاف ورزیوں پر امریکی انٹیلی جنس اداروں کے اندر واقعی سنجیدہ تشویش موجود تھی تو یہ اقدام مستقل کیوں نہ ہو سکا؟

یہاں اخلاقیات اور قانون پر سیاست غالب دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پالیسی ساز حلقے انسانی جانوں کے بجائے سیاسی نتائج کے اندیشوں میں زیادہ گھرے رہے۔ یہی امریکی سیاست کا وہ پہلو ہے جس کاعلانیہ اعتراف کرنے کی ہمت اعلیٰ ترین حکام میں بھی شاذ ہی نظر آتی ہے۔

اسی تناظر میں سابق نائب صدر کملا دیوی ہیرس کا حالیہ اعتراف غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بائیڈن انتظامیہ غزہ جنگ کے دوران “معصوم فلسطینیوں کے معاملے میں” اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی، دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکی قیادت سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی فیصلہ کن قدم نہ اٹھا سکی۔

کملا ہیرس کے اس اعتراف اور رائٹرز کی رپورٹ سے 2024 کے صدارتی انتخابات کا ایک اور حساس باب بھی کھلتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن سے کچھ پہلے صدر بائیڈن کی ذہنی صحت کے بارے میں ایسی منظم اور شدید مہم شروع ہوئی کہ پرائمری انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود انہیں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا۔ طب کے شعبے میں اپنی کم مائیگی کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیڈن کی عمر اور ذہنی صحت واقعی فیصلہ کن مسئلہ بن چکی تھی، مگر اس بیانیے کی اچانک شدت اور سمت بہرحال معنی خیز دکھائی دیتی ہے۔

جو بائیڈن کے میدان سے ہٹتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں غیر معمولی تیزی آ گئی۔ بعض مسلم حلقوں میں یہ مبہم امید بھی پیدا ہوئی یاکردی گئی کہ شاید ٹرمپ غزہ کی جنگ رکوا دیں گے، حالانکہ وہ ہر انتخابی جلسے میں یہ اعلان کرتے رہے کہ اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندیاں لگائی جائیں گی اور جامعات کو “سبق” سکھایا جائے گا۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اگر مشیگن، وسکونسن، پینسلوانیہ، ایریزونا، نیواڈا اور دیگر فیصلہ کن ریاستوں میں مسلم ووٹرز منظم اور بھرپور انداز میں متحرک ہوتے تو وہ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے تھے۔ تاہم غزہ کے معاملے پر ڈیموکریٹک قیادت کی مبہم، محتاط اور غیر مؤثر پالیسی نے اس طبقے میں بددلی، مایوسی اور انتخابی لاتعلقی کو جنم دیا۔

یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ ڈیموکریٹس کی شکست کی واحد وجہ یہی تھی، مگر یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا اسرائیل کے معاملے پر غیر مشروط وابستگی، اخلاقی کمزوری اور کنفیوز پالیسی کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک نمایاں سیاسی قیمت ادا کی؟

اس پورے منظرنامے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ واقعی “نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم” والا معاملہ پیش آیا۔ اسرائیلی جارحیت سے فاصلہ پیدا کرنے کے نیم دل اور علامتی اقدامات نے امریکی مقتدرہ پر اثرانداز طاقتور حلقوں کے کان کھڑے کر دیے۔ نتیجتاً بائیڈن کی صحت اور یادداشت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے انہیں میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

دوسری جانب انہی حلقوں نے بعض مسلم ووٹروں میں یہ فہم بھی پروان چڑھایا کہ کمزور بائیڈن کے مقابلے میں “طاقتور” ٹرمپ بہتر انتخاب ہو سکتے ہیں، حالانکہ ٹرمپ نے اپنے مسلم مخالف بیانیے کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ انتخابی جلسوں میں وہ کھلے عام غزہ کے مزاحمت کاروں کو تباہی کی دھمکیاں دیتے رہے، “ابراہیم معاہدے” کو آگے بڑھانے اور ایران کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز نہ کرنے کا اعلان کرتے رہے۔

گزشتہ صدارتی انتخابات نے جہاں امریکی مسلم قیادت کی سیاسی بصیرت اور اجتماعی حکمتِ عملی کو بے نقاب کیا، وہیں یہ حقیقت بھی پوری طرح آشکار ہو گئی کہ امریکی سیاست میں اسرائیل سے اختلاف  چاہے وہ محض چند دن کی علامتی پابندی ہی کیوں نہ ہو، سیاسی عاقبت کے لیے کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 دسمبر 2025


Thursday, December 11, 2025

 

دوحہ فورم میں ابھرتا نیا عالمی مؤقف

انسانی حقوق کی لرزہ خیز پامالی پر دنیا کی خاموشی

غزہ اور غربِ اردن میں جاری سانحہ اب اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں عالمی برادری کی خاموشی، بے بسی اور بے حسی سب ایک ساتھ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ جس روز صدر ٹرمپ نے امن معاہدے کے دوسرے مرحلے یعنی Phase 2کی  جانب قدم بڑھانے کی نوید سنائی اسی دن اسرائیل کی ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ فلسطینی قیدیوں کو بھوکا رکھنے، زنجیروں میں جکڑنے اور بدسلوکی جیسے طریقے معمول بن چکے ہیں۔

اسرائیلی حراستی مراکز—ایک سرکاری ادارے کی لرزہ خیز گواہی

اسرائیلی وزارتِ انصاف کے ماتحت پبلک ڈیفنڈر آفس نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اسے پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔فلسطینی قیدیوں کیلئے انتہائی کم خوراک والا مینو نافذ کیا گیا ہے۔ کئی قیدیوں کا دن چند چمچے نیم پکے چاولوں پر گزرتا ہے۔ وزن میں تیزی سے کمی، بے ہوشی اور پانی کی شدید قلت عام ہے۔پبلک ڈیفنڈر ٹیموں کے مطابق قیدیوں پر تشدد کسی واقعے کے ردعمل میں نہیں بلکہ پالیسی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ عدالت لے جانے، سیل کی تلاشی یا منتقلی کے دوران مارپیٹ معمول ہے۔اکتوبر 2023 کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے جیلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔جس جیل کی گنجائش 14500 ہے وہاں 23ہزار قیدی ٹھونس دیے گئے ہیں۔صابن، تولیہ، بیت الخلا کا کاغذ سب کمیاب۔ خارش کی وبا کئی مقامات پر پھیل چکی ہے۔ قیدیوں کو قرآن کے سوا کوئی ذاتی سامان رکھنے کی اجازت نہیں۔اکتوبر 2023 سے کم از کم 100 فلسطینی قیدی حراست میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مگر اسرائیلی ادارے ان اموات کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں اور پراسرار موت کے ایک بھی واقعہ پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔یہ رپورٹ انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے جاری نہیں کی بلکہ یہ مشاہدہ خود اسرائیلی وزارتِ انصاف کے ذیلی ادارے کا ہے۔ اگر سرکاری مشاہدہ یہ ہے تو اصل صورتحال کااندازہ کرنا مشکل نہیں۔

وحشت کا رقص۔ بے اماں لاشوں سے کتوں کی ضیافت

اسرائیل کے قریب سمجھے جانے والے بین الاقوامی نشریاتی ادارے CNN نے شمالی غزہ کے زیکیم، المعروف Erez West کراسنگ پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ایک نہایت سنگین انکشاف کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امداد کے انتظار میں کھڑے شہریوں پر فائرنگ کی گئی اور لاشوں کو بُل ڈوزروں سے گھسیٹا گیا۔ بعض جگہ بھوکے آوارہ کتے بکھری لاشوں کے گرد منڈلاتے دیکھے گئے۔ سیٹلائٹ تصاویر اور سابق فوجیوں کے بیانات سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ بار بار دہرایا جانے والا عمل ہے۔

پوپ کا امن مؤقف اور غزہ کا بے نام دکھ

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ لیو چہار دہم نے مشرقی یروشلم، غرب اردن اور غزہ پر مشتمل فلسطینی ریاست کو امن کا واحد حل قرار دیا ہے۔ مگر انہوں نے غزہ کے قتل عام کو نسل کشی کہنے سے گریز کیا۔ جب انسانیت قتل ہو رہی ہو تو صرف ’’توازن‘‘ کافی نہیں، سچائی لازم  ہے۔

یوروویژن 2026!!! اسرائیل کے حق میں جمہوریت پسندوں کی دھاندلی

یورپ کا سب سے بڑا مقابلہِ موسیقی Eurovision ہرسال منعقد ہوتا ہے۔ ثقافتی تنوع کیساتھ اس مقابلے کی سب سے اہم بات کہ یہاں فیصلہ ماہرین کے پینل کے بجائے عوامی ووٹ سے ہوتا ہے۔غزہ نسل کشی کی وجہ سے یورویژن سے اسرائیل کو باہر رکھنے ی تحریک چل رہی تھی۔ گزشتہ ہفتے یورپین براڈکاسٹنگ یونین (EBU) نے اسرائیل کی یوروویژن 2026 میں شرکت برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ کردیا تاہم براہ راست ریفرنڈم کے بجائے ملکی مندوبین سے رائے لی گئی۔اس غیر شفاف طریق کار پر اسپین، نیدرلینڈ، آئرلینڈ اور سلووینیا نے مقابلے سے دستبرداری اختیار کرلی۔چار ملکوں کی یہ غیر معمولی مزاحمت،  یورپی معاشرے میں اخلاقی تقسیم کی علامت ہے۔

آئرلینڈ کی  تاریخی حساسیت

آئرلینڈ کے دارالحکومت، ڈبلن (Dublin)کی بلدیہ نے اپنے مرکزی پارک کو سابق اسرائیلی صدر شیم ہرزوگ کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔ اس معاملے پر اسرائیلی وزیرِ خارجہ اور اور آئرلینڈ کی سفیر سونیا مک گنیس (Sonya McGuinness) کے درمیان تلخ مکالمہ ہوا، جس نے واضح کر دیا کہ یورپ میں اخلاقی دباؤ ہر گزرتے دن بڑھ رہا ہے۔آئرش عوام فلسطین کے بارے میں اس لیے بھی زیادہ حساس ہیں کہ وہ خود برطانوی استعمار اور قبضہ گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کا تاریخی تجربہ رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف گالوے کی اعزازی ڈگریاں مسترد

آئرلینڈ کی ممتاز فنکارہ Olwen Fouéré، فلم ساز Margo Harkin اور محقق Dr. Kirby Miller نے جامعہ گالوے (University of Galway) کی اعزازی سند یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ ایسی جامعہ کا اعزاز قبول نہیں کرسکتے جو اسرائیلی عسکری پالیسیوں سے منسلک کسی تحقیقاتی ادارے کی شراکت دار ہو۔یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ مدت پوری ہونے پر Israel Institute of Technologyسے تعاون ختم کر دیا جائے گا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یورپ کے باشعور طبقات ظلم اور جبر کے خلاف اپنی اخلاقی پوزیشن کو مزید مضبوط کررہے ہیں۔

خطے میں بدلتا سفارتی منظرنامہ — دوحہ فورم کے اہم اشارے

غزہ کے انسانی المیے اور جاری بے بسی کے پس منظر میں دوحہ فورم نے خطے کی بدلتی ہوئی سفارتکاری کو ایک نئی جہت دی ہے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے صاف صاف کہا کہ موجودہ صورتحال کو "جنگ بندی" کہنا حقیقت کے منافی ہے۔ ان کے مطابق حقیقی جنگ بندی اُس وقت ممکن ہے جب اسرائیلی افواج مکمل طور پر غزہ سے نکل جائیں، شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت بحال ہو، اور علاقہ دوبارہ معمول پر آجائے ۔

ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فدان نے بھی اس مؤقف کی تائید کی کہ غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب وہاں  توپیں خاموش اور مکمل فوجی انخلا ہو۔

اسی فورم میں سعودی وزیر محترمہ مناہل رضوان نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا کہ خطے میں دیرپا امن کیلئے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کو اپنے رویّے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ایک نہایت واضح مؤقف اختیار کیا کہ رفح پھاٹک صرف یکطرفہ نقل و حرکت کیلئے نہیں کھولی جا سکتی۔ ان کے مطابق اہلِ غزہ کا مصر میں داخلہ اور امدادی سامان کا غزہ جانا مکمل طور پر آزاد اور متوازن ہونا چاہیے۔ مصر کا یہ مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب کسی ایسے انتظام کا حصہ نہیں بننا چاہتا جو زمینی حقائق کو یکطرفہ بنائے یا انسانی بحران کو مزید گمبھیر کرے۔

یہ تمام بیانات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب و مسلم ممالک جو ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان کے وقت نسبتاً نرم اور محتاط تھے ، اب زیادہ واضح، جرات مند اور زمینی حقائق پر مبنی انداز اختیار کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ایک بڑا محرک سوشل میڈیا ہے، جس نے غزہ و غربِ اردن میں ہونے والے واقعات کو پوری دنیا تک پہنچایا، اور مغربی میڈیا کی ’رضاکارانہ سینسرشپ‘ کے باوجود حقائق زیادہ دیر دب نہ سکے۔آج یورپ ہو یا امریکہ،  عوامی رائے میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوحہ فورم کے  بیانات اسی وسیع تر تبدیلی کی علامت ہیں، جو آئندہ امن عمل پر گہرا اور دیرپا اثر ڈال سکتی ہے۔

سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آدابِ فرزندی

غزہ میں جہاں ظلم و جبر کی ایسی ایسی ہولناک وارداتیں ہو رہی ہیں کہ جنھیں بیان کرنا مشکل ہے، وہیں یہ سرزمین عزم و صبر کا استعارہ بھی بن چکی ہے۔ گزشتہ نشت میں ہم نے نو سالہ بچی الہام ابو حجاج کا ذکر کیا تھا۔آج عزم و حوصلے کی ایسی ہی ایک اور داستاں۔

شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ کی 13 سالہ رَہَف یوسف، اپنے چار کمسن بھائی بہنوں کی شرارتی اپّی اور والدین کی لاڈلی تھی۔ اسرائیلی بمباری نے اس کا گھر تباہ کر دیا تو یہ لوگ خالی ہاتھ جنوب کی طرف نکل آئے اور ایک خیمہ ان کا ٹھکانہ بن گیا۔یہاں پہنچتے ہی رہف کی ماں کو سرطان کا موذی مرض نگل گیا اور چند ہفتوں بعد اس کے والد بھی ایک ڈرون حملے میں شہید کر دیے گئے۔ اب رہف ہی اپنے چار چھوٹے بہن بھائیوں کی ماں، باپ اور بڑی بہن ہے۔ بوسیدہ خیمے کی مرمت ہو یا بچوں کے لیے رزق کی تلاش، کھانا پکانا ہو یا ان کی پڑھائی، یا پھر بمباروں کی گھن گرج سے سہمی ہوئی روحوں کو سینے سے لگا کر دلاسہ دینا , یہ ساری ذمہ داریاں 13 سالہ رہف کے ناتواں مگر پُرعزم کندھوں پر ہیں۔ الہام ابو حجاج کی طرح رہف یوسف بھی پُرعزم ہے کہ وہ اپنے بھائی بہنوں کی پرورش کرے گی اور جب موقع ملا تو بیت لاہیہ واپس جا کر ملبے بنے اپنےگھر کو دوبارہ بسائے گی۔

قلم تلوار سے تیز ہے؟؟

مقامی فوٹو جرنلسٹ حسن اصلیح کی شہادت کے بعد ان کے بھائی فتاح اصلیح نے رپورٹنگ جاری رکھی، مگر گزشتہ ہفتے وہ بھی ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوگئے اور ان کے ساتھی محمد وادی جاں بحق۔غزہ کے صحافی اپنے لہو سے ثابت کر رہے ہیں کہ قلم کبھی ہمت نہیں ہارتا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 دسمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 12دسمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 دسمبر 2025

Friday, December 5, 2025

 

غزہ و غرب اردن ۔۔ جنگ بندی یا سکستی زندگی؟؟

غزہ کی تباہ حال سرزمین پر اگرچہ جنگ کی آوازیں کچھ مدھم ہو گئی ہیں، مگر زندگی اب بھی معمول سے بہت دور ہے۔ ملبے کے ڈھیر، بکھرے وجود اور اجڑی بستیاں اس "خاموش جنگ" کی گواہی دے رہی ہیں جو وقفے وقفے سے نہیں بلکہ ہر لمحہ جاری ہے۔ ایک طرف جنگ بندی اور امن کے نعرے ہیں، دوسری طرف ماؤں کی گود، بچوں کے چہرے، زیتون کے باغات اور شہروں کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔ بڑے عالمی ادارے بھی اب اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ کسی معمول کی واپسی نہیں، بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں موت کی رفتار کم ضرور ہوئی ہے، ختم نہیں۔

غزہ میں لہو کی گنتی: اعداد نہیں، اجسام اور کہانیاں

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جاں بحق افراد کی تعداد 71 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ایک لاکھ 72 ہزار کے قریب شہری زخمی ہیں، جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے۔ اس میں دو معصوم بھائی، گیارہ سالہ سلالہ جمعہ اور آٹھ سالہ فادی بھی شامل ہیں، جنہیں اسرائیلی فوج نے "جنگ بندی کی پیلی لائن عبور کرنے والے دہشت گرد" قرار دے کر نشانہ بنایا۔ غزہ میں جاری درندگی بچوں کی ہنسی کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

جنگ بندی: کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہوگیا؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنیس کالامارڈ (Agnes Callamard) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کو ’’معمول کی واپسی‘‘ نہ سمجھا جائے۔ان کے مطابق حملوں میں کمی ضرور آئی ہے اور کچھ امداد بھی پہنچ رہی ہے، لیکن عوام کی زندگی اب بھی غیر محفوظ، غیر یقینی اور شدید انسانی بحران کے سائے میں ہے۔یہاں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ صرف انداز بدلا ہے۔ فوری موت کے بجائے ایک سسکتی زندگی، جس میں ہر لمحہ ایک نئی اذیت چھپی ہے۔

جہالت نواز غارتگرد

چنگیز اور ہلاکو نے مفتوحہ علاقوں کے مدارس اور کتب خانے جلائے تھے۔آج غزہ میں یہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔جامعہ الاقصیٰ کا صرف مرکزی دروازہ باقی ہے؛ باقی علم کا پورا شہر راکھ بن چکا۔

غربِ اردن میں نئی لہر: جنگی جرائم، اجتماعی سزا اور دنیا کا ہومیو پیتھک ررعمل

غربِ اردن میں بھی درندگی کی نئی لہر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم HRW کے مطابق اسرائیلی فوج نے وہاں وحشت، اجتماعی سزا اور نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) کے اقدامات کیے ہیں جن پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

گرفتاری surrender کے باوجود قتل اور قاتلوں کو معقولیت کی تلقین

غربِ اردن کے محصور شہر جنین میں دو نہتے شہریوں نے گرفتاری کے وقت ہاتھ بلند کئے، لیکن چند فٹ کے فاصلے سے گولی مار کر ان کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔جرمنی، اٹلی، فرانس اور برطانیہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کو عالمی قوانین پر عملدرآمد کی 'تلقین' کی ہے۔ شکستہ بے حسی کی ایک مکروہ مثال۔

اسکول تباہ، اساتذہ و غیر تدریسی عملہ قتل

اسی علاقے میں دورانِ کلاس طلبہ کو باہر نکال کر کر انکے سامنے اسکول مسمار اور بچوں کا تعلیمی مستقبل راکھ کر دیا گیا۔مزاحمت پر اسکول کے چوکیدار کو گولی ماردی گئی۔

خلائل اللّوز—باداموں کا شہر جلادیا گیا

بیت اللحم کے گاوں خلائل اللّوز میں باغات جلائے گئے، گاڑیاں نذرِ آتش ہوئیں اور قبضہ گردوں نے فوج کی نگرانی و سرپرستی  میں دس سے زائد افراد کو لاٹھیوں اور سریوں کے وار سے لہو لہان کردیا۔جیسا کہ نام سےظاہر ہے یہ گاوں 'باغاتِ بادام' کہلاتاہے۔

طوباس پر بلڈوزر پھیردئے گئے

مقبوضہ وادی اردن کے شہر طوباس میں اسرائیلی فوج نے بہت سے مکانات مسمار کردئے ۔ گھر گھر چھاپوں کے دوران 100 افراد گرفتار۔ جب صورتحال کا جائزہ لینے صحافی وہاں پہنچے تو مسلح سپاہیوں نے راستہ روک کر انکی مشکیں کس دیں۔

گھروں سے بیدخلی ۔۔ گھر کی گواہی

اسرائیلی تنظیم B'Tselem (عبرانی בְּצֶלֶם) نے HRWکی اُس رپورٹ کی تصدیق کی ہے جسکے مطابق اس سال جنین، نورشمس اور طولکرم کے 32ہزار فلسطینیوں کو انکے گھروں سے بیدخل کرکے اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیااورمشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے 500 گھر مسمار ہوئے ۔(حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

اسرائیلی بیانیہ ۔۔۔ ظلم کی نئی توجیہات، مذہبی موشگافیاں

غرب اردن میں نسلی تطہیر کی عالمی و اسرائیلی تنظیموں سے تصدیق کے باوجود اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتس (Israel Katz)نے کنیسہ (پارلیمان) کی ایک بند کمرہ بریفنگ میں کہا کہ قبضہ گردوں کے فلسطینیوں پر حملے “دہشت گردی نہیں بلکہ صرف عوامی نظم میں خلل ہیں“۔یہ جملہ ظلم کو معمول کا رنگ دئے جانے والے تاریخ کے سیاہ ترین بیانات میں شامل ہوچکا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اب تک غربِ اردن میں ایک ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے،  وہ لوگ جو نہ کسی فوج کا حصہ تھے اور نہ اسلحہ لئےکسی جنگی محاذ پر کھڑے۔

جب اسرائیلی وزیرخارجہ کنیسہ میں مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے اسوقت عمارت کے باہر 'غربِ اردن ہمارا ہے کہ نعرہ لگاتے ہجوم کی قیادت کرنے والے انتہا پسند ربائیوں (مذہبی پیشوا) نے موقف اختیار کیا کہ عبرانی انجیل (عہد نامہ قدیم یا Old Testament)کے مطابق یہودا السامریہ (غرب اردن کا قدیم نام) یہودیوں کا ہے۔جن یورپی ممالک نے حال ہی میں فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے، وہ اس جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان پر خاموش ہیں۔اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا واقعی اصولی مؤقف تھا، تو پھر اس مؤقف کی عملی گونج کہاں ہے؟کیا ہزار جانوں کا خراج بھی “نظم و ضبط کا مسئلہ” ہے؟

سعودی ولی عہد کا ٹرمپ کو دوٹوک جواب: عرب عوام کے بدلتے مزاج کی گواہی

ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں سعودی ولی عہد سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ کیا، مگر جواب ان کی توقع کے خلاف تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے دوٹوک کہدیا کہ غزہ میں جاری خونریزی نے عرب عوام کے دلوں میں شدید غصہ بھڑکا دیا ہے، اور ایسے ماحول میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔یہ سفارتی مکالمہ پورے خطے کے عوامی مزاج کا اعلان ہے۔ وہ مزاج جس نے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی محتاط کر دیا ہے۔

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

غزہ میں امریکی امدادی ادارے Global Hunger Foundationیا GHF نے پٹی سے اپنا آپریش ختم کردیا۔ بظاہر اتنا خوبصورت نام لیکن غیر جانبدارا مبصرین کے خیال میں GHFکرائے کے قاتلوں کو ٹولہ تھا جس نے  ”سیاسی کنٹرول“ کے ذریعے غزہ میں خوراک کی قلت پیدا کی، اور بعض علاقوں کو جان بوجھ کر امداد سے محروم رکھا، جس کے نتیجے میں تین ہزار افراد بھوک سے مر گئے۔جن میں بچوں کا تناسب 80 فیصد سے زیادہ تھا۔ امید ہے کہ اب UNRWA، WFP اور مقامی فلسطینی ادارے مل کر امداد کا منصفانہ اور شفاف نظام قائم کر سکیں گے۔

لبنان، شام اور خطے میں بڑھتی کشیدگی

اسرائیلی چھاپہ مار دستوں کی شامی شہر بیت جن میں کارروائیاں، جنوبی لبنان کے شہروں پر بمباری، اور امریکی ترجمان کا اسرائیل کی حمائت میں دیا گیا بیان بتاتا ہے کہ خطہ ایک وسیع تر محاذ کے کنارے کھڑا ہے۔ اس سب کے باوجود فلسطینی مزاحمت کمزور نہیں پڑی۔

دنیا کے کھیل میدانوں میں مزاحمت کی گونج

اٹلی کے شہر بولونیا (Bologna) میں باسکٹ بال میچ کے دوران ہزاروں افراد نے اسرائیلی ٹیم کے خلاف احتجاج کیا اور شہر کے مشہور چوک Piazza Maggiore کا نام تبدیل کر کے Piazza Gaza رکھ دیا۔ دورِ جدید میں اسٹیڈیم، کورٹ اور ارینا صرف تفریح کی جگہ نہیں رہے بلکہ عالمی ضمیر کے آئینہ خانے بن چکے ہیں۔ہر ٹورنامنٹ، ہر میدان، ہر ملک میں نسل کُشوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی سماج کے اندر خوف: غزہ کا نام بھی برداشت سے باہر

اسرائیلی تنظیم Standing Together کی تقریب پر پولیس کا دھاوا اور ”غزہ سے نکل جاؤ“ کے بینر کو زبردستی ہٹوانا، اس خوف کی علامت ہے جو غزہ میں جاری وحشت سے خود اسرائیلی معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ یہاں تک کہ جامعہ تل ابیب کی لیکچرر یولاندہ یاور (Yolanda Yavor) کوصرف ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کرلیا گیا۔

غزہ کی مائیں: صبر اور عظمت کی چلتی ہوئی تاریخ

ہدیٰ جرار جیسی مائیں وہ روشن مثالیں ہیں جن کے بیٹوں نے پُرعزم مسکراہٹ کے ساتھ موت کا سامنا کیا۔ ہدیٰ اپنے بیٹے ابراہیم نابلسی کے جنازے میں وقار اور مضبوطی کی علامت بن کر کھڑی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے نے آخری پیغام میں وصیت کی تھی کہ امی، غم نہ کریں، مجھے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے رخصت کیجئے گا۔

تیرہ سالہ لبنانی بچی اصیل: انصاف کے حصول کیلئے پرعزم

اصیل اپنے پورے خاندان کی تباہی کے بعد بچ جانے والی دو زندہ آوازوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنے جھلسے ہوئے چہرے کی تصویر دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گی۔یہ نسل در نسل چلنے والی مزاحمت کی وہ تازہ آواز ہے جو ظلم و ستم کے باوجود ماند پڑتی نظر نہیں آتی۔

تباہی کے درمیان زندگی: غزہ کے ساحل پر ریت کا فن

غزہ کے ساحل پر نوجوان فنکار یزید ابو جراد ریت پر خطاطی کرتے ہیں۔ جب وہ "غزہ" لکھتے ہیں تو لوگوں کے کملائے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ فن محض شوق نہیں بلکہ اعلان ہے کہ بم، میزائل اور بھوک فلسطینیوں کو ہلاک نہیں کر سکتے۔ یہاں زندگی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔

غزہ اور غربِ اردن کی یہ داستان ظلم کی روداد کیساتھ انسانی حوصلے اور ثابت قدمی کی روشن شہادت ہے۔ فلسطین محض مقبوضہ خطہ نہیں، یہ ایک ابدی صدائے احتجاج ہے، وہ صدا جسے صرف زندہ ضمیر ہی سن سکتے ہیں۔ بے حس دنیا نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ماؤں کی آنکھیں، بچوں کے چہرے، اور اصیل کی کانپتی  آواز ایک نہ ایک دن پوری دنیا کو گواہی دینے پر مجبور کر دے گی۔ یہی آوازیں تاریخ کا فیصلہ لکھیں گی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 دسمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 5 دسمبر 2025

ہفت روزہ رہبرسرینگر 7 دسمبر 2025