ایران کا قطر کے امریکی ڈے پر
حملہ
ایران اور اسرائیل جنگ بندی مشکوک نظر آرہی ہے
23 جون کو ایران نے قطر میں
قائم امریکی فوجی اڈے "العدید" پر میزائل داغ دیے۔ ایرانی فوج کے سربراہ
میجر جنرل امیر حاتمی کے مطابق یہ حملہ امریکی بمباری کے جواب میں کیا گیا۔ ان کا
کہنا تھا: "ہم نے اتنے ہی میزائل داغے جتنے بم امریکہ نے ہم پر برسائے
تھے۔" جنرل حاتمی نے مزید وضاحت کی کہ یہ کارروائی امریکہ کے خلاف تھی، قطر
کے عوام سے ہمارے برادرانہ تعلقات قائم ہیں، اسی لیے حملے سے قبل قطر کو پیشگی
اطلاع دے دی گئی تھی۔
ابتدائی
طور پر قطر کا ردِعمل خاصا سخت تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الناصری نے کہا کہ
ایران کی کارروائی قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے اور ہم اس کا جواب دینے کا حق
محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں جب قطری افواج نے اعلان کیا کہ ان کا دفاعی نظام
تمام میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں
ہوا، تو وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ فریقین بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرلیں
گے۔ عسکری ماہرین اس حملے کو علامتی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ایران اور قطر قریبی
اتحادی ہیں، اور تہران کی جانب سے ایسی کارروائی کی توقع نہیں کی جا سکتی جس سے
قطری عوام کو نقصان پہنچے۔
اسی
روز عراق میں امریکی فوجی اڈے "کیمپ کوک" پر بھی ڈرون حملہ ہوا۔ بغداد
سے شمال میں واقع اس اڈے پر امریکی حکام کے مطابق کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حملے کے
دوران سعودی عرب، عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنی فضائی حدود بند کر دی
تھیں تاکہ کسی ممکنہ حملے سے بچا جا سکے۔
ماہرین
کے مطابق ایران کا یہ حملہ زیادہ تر علامتی اور بے ضرر تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی
ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 8 فیصد کمی دیکھی گئی۔ اگر خطرہ حقیقی
ہوتا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ متوقع تھا۔ اسی طرح امریکی اسٹاک مارکیٹ کا ڈاؤ
جونز انڈیکس 375 پوائنٹس اوپر گیا اور ایشیائی منڈیوں میں بھی مثبت رجحان دیکھا
گیا۔
صدر
ٹرمپ نے بھی حملے پر ایک نسبتاً متوازن بیان دیا: "ایران نے متوقع طور پر
جوہری تنصیبات کی تباہی کے جواب میں ایک کمزور ردعمل دیا، جس کا مؤثر طریقے سے
جواب دیا گیا۔ 14 میزائل داغے گئے، جن میں سے 13 مار گرائے گئے، اور ایک میزائل کو
جانے دیا گیا کیونکہ وہ کسی خطرناک مقام کی طرف نہیں جا رہا تھا۔ خوشی ہے کہ کوئی
جانی نقصان نہیں ہوا۔"
انہوں
نے مزید کہا: "ایران نے پیشگی اطلاع دے کر ایک مثبت قدم اٹھایا، جس سے نقصان
کا اندیشہ ٹل گیا۔ شاید ایران اب خطے میں امن و ہم آہنگی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے،
اور میں اسرائیل کو بھی یہی مشورہ دوں گا۔"
اس
بیان کے کچھ ہی دیر بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور پیغام میں اعلان کیا کہ ایران اور
اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے، جو تقریباً چھ گھنٹے بعد
شروع ہو جائے گی اور ابتدائی طور پر 12 گھنٹے جاری رہے گی۔ اس کے بعد اس جنگ کو
باضابطہ طور پر ختم سمجھا جائے گا۔
صدر
ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ان کی استقامت، حوصلے اور فہم پر مبارکباد پیش کی۔ تاہم
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیل سے جنگ بندی کا کوئی باضابطہ
معاہدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق: "اگر اسرائیل اپنی جارحیت روک دے تو ایران بھی
جوابی کارروائی بند کر دے گا۔"
23
جون کی صبح ایران نے میزائلوں کے چھ
شدید حملے کیے، جس کے بعد عراقچی نے ایک بار پھر جنگ بندی کی آمادگی ظاہر کی۔ اسی
دوران صدر ٹرمپ نے اعلان کیا: "جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، براہ کرم اس کی خلاف
ورزی نہ کی جائے۔"
منگل 24 جون کی دوپہر اسرائیل نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی
۔وزیراعظم آفس (PMO) سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'ابھرتے شیر' آپریشن نے
ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی اور میزایل پروگرام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا
ہدف حاصل کرلیا ہے۔ اعلامئے میں متنبہ کیا گیا کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی
کا تباہ کن جواب دیا جائیگا۔
صدر ٹرمپ امن و شانتی کے منترپڑھتے ہوئےایران
کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں لیکن انکی تلون مزاجی اور دروغ گوئی
کی بنا پرایرانیوں اور فلسطینی کیلئے اعتماد مشکل ہے۔اگرچہ کہ اسرائیل اور ایران
کی حالیہ لڑائی کی وجہ تہران کا جوہری پروگرام ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان
کشیدگی کی ایک بڑی وجہ غزہ خونریزی ہے۔ ایران کھل کر غزہ مزاحمت کاروں کی پشت
پناہی کررہا ہے جس نے ایران کے خلاف اسرائیل کی نفرت کو مزید بھڑکادیا۔ صدر ٹرمپ
جوہری پروگرام اور غزہ نسل کشی دونوں معاملے میں اسرائیل کے حامی ہیں۔ اہل غزہ کو
قتل و برباد کرنے کیلئے استعمال ہونے والا ایک ایک بم، میزائیل، گولے اور گولیاں
امریکہ کی فراہم کردہ ہیں۔اہل غزہ کی بربادی سے صدر ٹرمپ کا تجارتی مفاد وابستہ ہے
وہ غزہ کو پرتعیش Riviera
میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جسکے لئے اہل غزہ کی نسل کشی ضروری ہے۔
اسرائیل اور امریکہ و مغرب کو ایران کا نظام
حکومت پسند نہیں اور وہ اپنا طریقہ زندگی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت
ضروری ہے کہ مغرب اسلامی ممالک میں مغربی ثقافت تو چاہتا ہے لیکن اسے ان ملکوں میں
جمہوریت پسند نہیں کہ اسکے نتیجے میں ڈاکٹرمورسی، ڈاکٹر مصدق، فلسطین میں اسماعیل
ہانیہ، راشدالغنوشی اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ حکومت میں آسکتے ہیں۔اسرائیل نے
ایران پر حملے کا ایک ہدف Regime Changeقراردیا
تھا اور صدر ٹرمپ نے بھی دودن پہلے اپنے MAGAکے وزن پر ایران
کیلئے Make Iran Great Againیا MIGA
تجویز کیا ہے۔ ان تمام بیانات اور اقدامات کو دیکھتے
ہوئے موجودہ جنگ بندی شکوک و شبہات سے خالی نہیں۔
نوٹ:
کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا
گیا ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2025
No comments:
Post a Comment