Saturday, June 7, 2025

 

کربلا میں عیدِ قرباں

حکیم الامت نے اسلامی تاریخ کا احاطہ  اپنے ایک مصرعے میں کچھ اس طرح کیا ہے

نہائت اسکی حسین (ر) ابتدا ہے اسماعیلؑ

آج غزہ اور غربِ اردن وہی منظر پیش کررہے ہیں۔ آتش و آہن کی ایک لمحے نہ رکنے والی موسلا دھار بارش کو 600 دن سے زیادہ ہوگئے اور عید سے دوددن پہلے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور امداد کی بحالی کی قرارداد ویٹو کرکے صدر ٹرمپ نے اہل غزہ کو عید کا تحفہ پیش کردیا۔

سچ تو یہ ہے کہ غزہ 2006 سے کربلا بناہوا ہے جہاں پانی کا ایک قطرہ، غذہ کا ایک دانہ اور توانائی ایک شرارہ اسرائیل کی اجازت کے بغیر وہاں نہیں پہنچ سکتا۔ بحیرہ روم کے کنارے 41 کلومیٹر لمبی اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی کو جولائی 2012 سے مئی 2013 تک سکون کا سانس نصیب ہوا جب مصر کے صدر ڈاکٹر محمد مورسی سے صحرائےسینائی میں کھلنے والے بابِ ر فح کو چوپٹ کھول دیا یا یوں کہئے کہ دنیا میں کھلی چھت کی اس سب سے بڑے جیل خانے کی ایک دیوار گرادی گئی۔اس جسارت کی جناب ڈاکٹر مورسی اور اخوانیوں نے بھاری قیمت ادا کی۔ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں کارکن شہید ہوئے اور ڈاکٹر صاحب اپنی پوری قیادت کے ساتھ پھانسی گھاٹ بھیج دئے گئے۔بدترین تشدد کا شکار جناب مورسی 17 جون 2019کو پیشی کے دوران اپنے موبائل پنجرے میں دم توڑ گئے جبکہ ہزاروں کارکن قاہرہ کی بدنام زمانہ بچھو جیل میں انسانیت سوز عقوبت سہہ رہے ہیں۔   

اہل غزہ کے موجودہ دورابتلا کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا جب بانکوں نے طوفان الاقصیٰ برپا کیا۔ جو دراصل 25 لاکھ قیدیوں کی طرف سے جیل توڑنے کی ایک کوشش تھی۔ اس وقت سے غزہ، کربلا بلکہ وادی اخدود بن چکا ہے، یعنی ایک ایسا تندور جہاں جیتے جاگتے انسان دھکائے جارہے ہیں اور جیے اصحاب الاخدود، آگ کے گڑھوں میں گرنے والے ایل ایمان کی چیخوں اور انکی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز سے لطف اندوز ہورہے تھے، ویسا ہی تماشہ آج غزہ میں برپا پے۔کسی اور سے کیا شکوہ کہ غزہ سے دنیا کے امیر ترین مسلم ممالک کا فاصلہ 1000 کلومیٹر سے بھی کم ہے لیکن امراو ملوک اور شیوخان حرم کے کان معصوموں کی چیخوں کیلئے بہرے ہوچکے ہیں۔

بمباری و گولہ باری کے ساتھ اب غذائی سامان کی تقسیم کے نام پر موت کے نئے جال بُن دئے گئے ہیں جہاں امداد  کیلئے آنے والے بچے کفن میں لپٹے واپس لوٹتے ہیں۔ مرجانے والے اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ مصیبت سے نجات پاگئے ورنہ زخمی سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں جنکے جھلسے جسموں کو مرہم کی راحت تو دور کی بات خشک لبوں کو تر کرنے کیلئے چند قطرےپانی بھی میسر نہیں۔ اہل غزہ اسی حالت میں دورمضان، دوعیدالفطر، عاشورہ و عید الاضحٰی گزار چکے ہیں اور آج کربلا کی وادیِ اخدود میں دوسری عیدالاضحیٰ  منائی جارہی ہے۔

جب اللہ کے خلیلؑ نے اپنے فرزند کو اپنا خواب سنایا تو بیٹے نے بے دھڑک کہدیا 'ابا جان آپ کرگزرئے جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے یعنی آپکا بیٹا آپ کے رب کے حکم پر ذبح ہونے کو تیارہے اور اللہ سے یہی امید ہے کہ وہ مجھے صابر و ثابت قدم رکھے گا۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر اہل غزہ،  فرزند ابراہیمؑ اور نواسہ رسول کی پاک سنت کی ایک ساتھ تجدید کررہے ہیں۔ گھر برباد ہوگئے، ایک ایک کرکے سارے بچے رب کے پاس پہنچ  گئے۔ بھوک و پیاس سے ساری آبادی موت کی دہلیز پر لیکن ہر زبان اللہ کی حمد اور اسکے شکر کے  ترانے۔

غزہ، شہدائے اخدود کے ایمان، شعب ابی طالب کے فاقے ، کربلا میں نواسہ و خانوادہ رسول کی بے بسی اور ذبیح اللہ ؑ کے ٹبات و قرار کا شاندار امتزاج ہے۔آج جہاں ساری دنیا میں جانور قربان کرکے إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کے وعدے کی تجدید کی جارہی ہے وہیں بھوکے پیاسے فلسطینی اپنا لہو بہاکر ٖفلسفہ قربانی کو حقیقت کا روپ دے رہے ہیں۔

ہفت روزہ سنڈے میگزین، کراچی 8 جون 2025


No comments:

Post a Comment