امریکہ نے نیتن یاہو کی
کشتیِ اقتدار ڈوبنے سے بچالی
غزہ میں تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ
اور بمباری
ابو شہاب مافیا اور مزاحمت کاروں میں
تصادم
اسرائیلی فوج کو افرادی قلت کا
سامنا، عرب و دروز دہشت گرد میدان میں
اتار دئے گئے
امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں
اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے
قافلہ صمود کی آڑ میں اخوانی مصر پر
چڑھائی کررہے ہیں۔ جنرل السیسی کا واویلہ
غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر کا ذکر اور
گرٹیا تھورنبرگ کا امریکی صدر سے مکالمہ
امریکہ کی کوششوں بلکہ دباو سے نیتن یاہو اپنی کرسی بچانے میں
کامیاب ہوگئے۔ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائک ہکابی نے حریدی رہنماوں سے مسلسل
گفتگو کرکے انھیں حکومتی اتحاد کا حصہ بنا رہنے پر آمادہ کرلیا۔ اور رائے شماری کے
دوران کنیسہ (پارلیمان)تحلیل کرنے کی قرارداد 53 کے مقابلے میں 61 ووٹوں سے مستردکردی
گئی۔ مزے کی بات کہ رائے شماری سے ایک دن پہلے حزب اختلاف کے ہمراہ صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے متحدہ توریتِ یہود (UTJ) اور پاسبان توریت یا Shasنے
قرارداد برائے تحلیلِ پارلیمان کی حمائت کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ بہادر نیتن یاہو
کی حکومت تو بچا گئے لیکن وعدہ خلافی کی وجہ سے حریدی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہوگیا۔اتحاد سے وابستہ جماعت، اسرائیل یونین (Agudath Yisrael)کے سربراہ اور وزیرہاوسنگ اسحاق گولڈنوف کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔
تحریک کی ناکامی کے دوسرے ہی دن اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ اسرائیلی علمائے
سیاست کا خیال ہے کہ اگر پارلیمان تحلیل ہوجاتی تب بھی نگران وزیراعظم تو نیتن
یاہو ہی رہتے لیکن سیاسی اعتبار سے سے لاچار وزیراعظم خونریزی کا نیا کھیل شروع نہ
کرسکتے تھے۔
غزہ میں امدادی سامان کے کیمپوں پر موت کی تقسیم کا مکروہ عمل جاری
رہا اور قطار بنائے لوگوں پر فائرنگ سے سینکڑوں نوجوان اپنی جانوں سے گئے۔ ہفتہ 14
جون کو خان یونس سے امداد لیکر جانیوالے لوگوں پر بمباری بھی کی گئی جس سے 40
افراد جاں بحق اور سینکڑون زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے اس وحشیانہ قدم کا
دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جس راستے سے واپس جارہے تھے وہ پہلے سے اعلان شدہ
جنگی علاقہ ہے۔ بمباری سے غزہ کے تمام ہسپتال زمیں بوس ہوچکے اور اب غیر ملکی
غیرسرکاری تنظیموں یا NGOsکے مراکز اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ بارہ
جون کو دیرالبلاح
میں فرانسیسی تنظیم Doctors Without
Borders پر میزائیل حملہ کیا گیا جس میں چار بچوں سمیت، آٹھ افراد جاں بحق
ہوگئے۔تنطیم کا کہنا ہے کہ اس عمارت پر واضح نشانات موجود تھے اور اسرائیلی فوج کو
بھی مطلع کیا جاچکا تھا کہ یہاں صرف زخمی بچے اور انکے لواحقین کو آنے کی اجازت
ہے۔
اسرائیل نے جرائم پیشہ ابو شہاب کی قیادت میں غنڈوں کا جو جتھہ
بنایا ہے، اسکی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مزاحمت کاروں کو گھات لگاکر نشانہ
بنانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج
کےدروز چھاپہ مار ابوشہاب مافیا کیساتھ مل کر مزاحمت کاروں پر حملے کررہے ہیں بلکہ
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)نے بھی اپنے جنگجو اس کام کیلئے غزہ بھیج دئے
ہیں۔ گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں کی کاروائی میں ابوشہاب جتھے کہ 12 دہشت گرد مارے
گئے۔
غزہ میں خانہ جنگی اور مزاحمت کاروں کی پشت میں چھرا گھونپنے کیلئے
دہشت گرد تنظیم منظم کرنے کی ایک بڑی وجہ فوج میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ ٹائمز آف
اسرائیل کے مطابق اسرائیل کو فوری طور پر 7000 نئے لڑاکا سپاہیوں کی ضرورت ہے لیکن
انکے بھرتی مراکز پر الو بول رہے ہیں۔ حریدی قیادت نے اپنے 'لڑکوں' کو بھرتی دفاتر
کے قریب بھی جانے سے منع کردیا ہے اور غیر حریدی کہہ رہے ہیں اگر مدارس کے طلبہ کو
غیر اعلانیہ استثنیٰ ملا ہوا ہے تو ہماری جان بھی فالتو نہیں۔غزہ سے آنے والے
بیساکھیوں پر گھسٹتے اور رہنما کتے یا سفید چھڑی لئے راستے ٹٹولتے جوانانِ رعنا کو
دیکھ عام لڑکے خوفزدہ ہوگئے ہیں لہٰذا فوج کیلئے کرائے کے دہشت گرد بھرتی کرنے کے
سوا کوئی چارہ نہیں۔
بحری راستے سے غزہ پہنچنے میں ناکامی کے بعد تیونس سے روانہ ہونے
والے قافلہ صمود میں شمولیت کیلئے دنیا بھر سے لوگ قاہرہ کیلئے عازم سفر ہیں لیکن
مصری حکومت اسکی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ سرکاری ذرایع ابلاغ قافلہ صمود کو شمالی
افریقہ کے اخوانیوں کا مصر پر دھاوا قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ مراکش سے سینکڑوں
افراد پرواز کے ذریعے قاہرہ پہنچے جنھیں فوراً واپس مراکش بھیج دیا گیا۔ فرانس،
ہالینڈ اور میکسیکو سے بھی انسانی حقوق کے کارکن قاہرہ پہنچے ہیں۔ اب تک انھیں
صحرائے سینائی کو غزہ سے ملانے والے ر فح پھاٹک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
قاہرہ کی خواہش ہے کہ یہیں ائرپورٹ کے باہر غزہ سے یکجہتی کا علامتی مظاہرہ کرکے
یہ لوگ اپنے ملک واپس چلے جائیں۔
گزشتہ نشست میں ہم نے امریکی مرکزِ دانش Pew Researchکی جانب سے دنیا کے 24 ملکوں
کے ایک جائزے کا ذکر کیا تھا جسکے مطابق دنیا میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ اب
12 جون کو شایع ہونے والی امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے بارے میں ایک رپورٹ جو جامعہ
کونی پیّاک (Quinnipiac)نے جاری کی ہے۔ 1929 میں
قائم ہونے والی ریاست کینٹی کٹ کی یہ نجی دانشگاہ جو پہلے کنیٹی کٹ کالج کہلاتی
تھی، رائے عامہ کا جائزہ لینے میں مہارت رکھتی ہے۔ جامعہ کے حالیہ جائزے کے مطابق
ریپبلکن پارٹی کے 64 فیصد حامی اسرائیل کے طرفدار ہیں اور سات فیصد فلسطینیوں کے
ہمدرد۔ ایک برس پہلے 78 فیصد ریپبلکن، اسرائیل کے حامی تھے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹک
پارٹی کے 12 فیصد ووٹر اسرائیل اور 60 فیصد فلسطینیوں کے حامی ہیں۔ مئی 2024 میں
30 فیصد ڈیموکریٹس، اسرائیل کے حامی تھے۔
امریکی جامعات کیساتھ عدالتی سطح پر غزہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت
جاری ہے۔ کئی ماہ سے قید جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کی درخواست
ضمانت ایک بار پھر مسترد کردی گئی۔ وفاقی جج Michael Farbiarzنے محمود کی درخواست ضمانت
پر اپنے فیصلے میں لکھا کہ 'خلیل کے وکلا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انکے موکل
کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ مسٹر محمود ایمیگریشن جج کی عدالت میں درخواست ضمانت
دائر کریں'۔ انھیں جج صاحب نے سماعت کے دوران تبصرہ کیا تھا کہ 'بادی النظر میں
محمود خلیل کی گرفتاری نامناسب لگتی ہے'۔ دلچسپ بات کہ محمود خلیل اور دوسرے بہت
سے طالب علموں پر بنیادی الزام کیمپس پر خیمہ زنی ہے۔ امریکی جامعات سے تو احتجاجی
کیمپ اکھڑوادئے گئے لیکن اب پیرس میں کئی جگہ خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔
اور آخر میں غزہ کی ایک حوصلہ مند خاتون کا ذکرکہ جنکا نام فریڈم Flotilla کے حوالے سے ثابت قدمی اور
مستقل مزاجی کا استعارہ بن گیا۔ غزہ کی طرف جانے والی کشتی کو مدلین کا نام دیا
گیاتھا۔اکتیس سالہ مدلين کُلاب غزہ کی پہلی مچھیرنی (fisherwoman)ہیں۔ غزہ کے ساحل پر ماہی
گیری آسان نہیں کہ وہاں اسرائیلی بحریہ کی کشتیاں عاملینِ بحر کو ہراساں کرتی رہتی
ہیں۔ کئی بار تلاشی کے نام پر ماہی گیروں سے بدتمیزی اور تشدد عام ہے۔ یہ لٹیرے دن
بھر پکڑی جانیوالی مچھلیاں بھی چھین لیتے ہیں۔
مدلین نے پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کیساتھ ماہی گیری شروع کی۔
جب میدلین 13 سال کی تھیں تو انکے والد شدید بیمار بلکہ معذود ہوگئے۔ چنانچہ مدلین
نے ماہی گیری کی ذمہ داری سنبھال لی۔ میدلین کی جرات غزہ کے مچھیروں میں مثال بنی
ہوئی ہے۔ وہ اسرائیلی بحریہ کی مداخلت کا 'مرادنہ وار' مقابلہ کرتی ہیں۔غزہ پر
بمباری کے دوران میدلین کی کشتیاں تباہ ہوگئیں، جال جل گئے لیکن انھیں اسکا کوئی
غم نہیں۔ 'کہتی ہیں میرا صرف اثاثہ تلف ہوا، میری بہنوں کے تو سہاگ اجڑ گئے اور
گود ویران ہوگئی۔ آزادی بڑی قیمتی شئے ہے جسکی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی اور ہم
اسکے لئے تیار ہیں'۔میدلین چار بچوں کی ماں ہیں جبکہ ایک نئے مہمان کی آمد آمد ہے۔
میدلین کی جرات سے متاثر ہوکر غزہ جانے والی کشتی کا نام میدلین رکھا گیا۔
اسی حوالے سے ایک اور فولادی لڑکی کا صدر ٹرمپ سے الیکٹرانک مکالمہ
بھی قارئین کو دلچسپ محسوس ہوگا۔ قافلہ آزادی یا Flotilla کی قائد پر طنز کرتے ہوئے
صدر ٹرمپ نے کہا “ گریٹا تھورنبرگ جیسی "عجیب و غرب" اور مغلوب الغضب' لڑکی کو Anger management کے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے'۔ جواب میں گریٹا نے
امریکی صدر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا' ہاں میں شدید غصے میں تھی اور ہوں، لیکن مجھے
علاج کی نہیں بلکہ دنیا کو (غزہ نسل کشی پر) مجھ جیسی مزید غصہ کرنے والی لڑکیوں
کی ضرورت ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 جون 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جون 2025
روزنامہ امت کراچی 20 جون 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جون 2025
No comments:
Post a Comment