غزہ جانے والے امدادی کارواں (Flotilla)کو اشدود پہنچادیا گیا
غزہ کی
طرف جانیوالے تیسرا امدادی کارواں المعروف Freedom Flotillaبھی منزل مقصود پر
پہنچنے میں ناکام رہا۔سوئٹزرلینڈ کی 22 سالہ گریٹا تھورنبرگ (Greta Thornburg) کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی Madleenانامی
یہ کشتی اٹلی کی سسلین بندرگاہ Cataniaسے یکم جون کو غزہ کیلئے روانہ ہوئی جسکا اہتمام
یورپی و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے کیا تھا۔ گریتا تھورنببرگ صاحبہ کے ساتھ
امریکی فنکار لیام کننگھم(Liam
Cummingham) اور انسانی
حقوق کے برازیلی رہنما Thiago Avilaسمیت انسانی حقوق کے 12 کارکن سوارتھے۔آٹھ جون کو جب اس
کشتی نے مصری بندرگاہ سے غزہ کا رخ کیا تو کشتی کے ملاح کو وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز کا پیغام موصول ہوا جس
میں بہت صراحت سے کہا گیا کہ 'یہود دشمن (Antisemitic)،حماس کی ترجمان گریٹا اور انکے ساتھیوں کو غزہ نہیں آنے دیا
جائیگا'۔ اسرائیلی وزیردفاع نے پیشکش کی کہ امدادی سامان غزہ کے شمال میں اشدود کی
بندرگاہ پر اتار دیا جائے۔وزیردفاع کے نام اپنے جوابی پیغام میں گریٹا نے کہا کہ
ہمارا مشن مظلوموں کی مدد کیساتھ غزہ کی انسانیت کش ناکہ بندی کو توڑنا ہے لہٰذا
ہم ہر قیمت پر غزہ جائینگے۔ تھوڑی دیر بعد کشتی کے GPSکو جام کردیاگیا، لیکن حوصلہ مند لوگوں نے روائتی قطب نما کی
مدد سے سفر جاری رکھا۔جب مید لین، غزہ سے
100 کلومیٹر دور تھی تو اسرائیلی بحریہ کی جنگی کشتیوں نے اسکا کا راستہ روکا اورمسلح
چھاپہ مار ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کشتی پر اتر گئے۔ تمام کارکنوں کو کشتی کے چیمبر
میں دھکیل دیا گیا اور اسرائیلی بحریہ کی Tugboatsنے میدلین کو کھینچ کر
اشدود پہنچادیا۔
اس کاروائی کے دوران گریٹا نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامی (SOS) بیان جاری کیا کہ ' اسرائیلی فوج نے
میدلین پر سوار تمام کارکنوں کو اغوا کرلیا ہے۔ ہماری رہائی اور حفاظت کیلئے انصاف
پسند عالمی برادری اسرائیل پر دباو ڈالے۔ اسی نوعیت کا ایک بصری پیغام انسانی حقوق کے برازیلی کارکن Thiago Avila کی طرف سے نشر ہوا۔دوسری جانب اسرائیلی وزیردفاع نے تصدیق
کرتے ہوئے کہا کہ 'ہماری بحریہ کے بہادر سپاہیوں نے مادر وطن کا کامیابی سے دفاع
کرتے ہوئے درانداز کشتی کو اشدود پہنچا دیا۔ کشتی پر لدا امدادی سامان غزہ بھیجا
جارہا ہے۔ وزیرباتدبیر نے طنز کے تیر برساتے ہوئے اس کشتی کو Selfie Yachtکا نام دیا۔اسرائیلی وزیردفاع نے مزید کہاکہ
کہ کشتی پر سوار تمام لوگوں کو 7 مئی 2023 کے طوفان الاقصیٰ کی 43 منٹ دورانئے کی
دستاویزی فلم دکھائی جائیگی تاکہ انسانی حقوق کے ان کارکنوں کو پتہ چلے کہ وہ کن وحشیوں
کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ فلم اسرائیلی فوج نے بنائی ہے۔ یہاں اسرائیل کو ایک اور
شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب ان کارکنوں کو فلم دکھانے ہال لے جایا گیا تو
یورپی رکن پارلیمان ریما حسن نے مطالبہ کیاکہ فلم دکھانے کے بجائے ہمیں غزہ جانے
دیا جائے تاکہ ہم حقیقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں، ریما صاحبہ کی یہ تجویز
مسترد کردی گئی اور جب فلم کا آغاز ہوا تو وفد کی قائد گریٹا چلا کر بولیں'تمام
ساتھی آنکھیں بند کرکے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں کہ جھوٹ کا مشاہدہ اور سماعت
دراصل ظلم کی حمائت ہے'۔اس پر وزیردفاع نے جھلا کر بیان جاری کیا کہ یہود مخالف(Antisemitic) عناصر میں سچ دیکھنے اور سننے کا حوصلہ بھی نہیں۔منگل 10 جون کو
اسرائیلی حکومت نے تمام زیرحراست کارکنوں کو پیرس بھیجنے کا اعلان کیا لیکن یہاں
بھی مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات آن پڑی۔ فلوٹیلا کی قائد گریٹا تھورنبرگ سمیت
انسانی حقوق کے چار دوسرے کارکنوں کو اسرائیلی ائرلائز (El Al) کی پرواز کے ذریعے پیرس پہنچا دیا گیا لیکن ریما حسن سمیت انسانی
حقوق کے دوسرے آٹھ کارکنوں نے ملک بدری حکمنامے (Deportation Order)کی تعمیل سے انکار کردیا۔ انکے خیال میں اس دستاویز پر دستخط کا
مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ واپسی کیلئے ہم اسرائیلی
ائرلائن پر نہیں بیٹھیں گے۔یہ لوگ 11 جون کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونگے۔ اسرائیل، ریماحسن کودہشت گردوں کی سہولت کار
قرار دیتا ہے اسلئے انکے خلاف انتقامی کاروائی خارج امکان نہیں۔
ابھی اسرائیلی میدلین سے نمٹ
ہی رہے تھے کہ تیونس سے ڈاکٹروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مشتمل ایک کارواں
غزہ کیلئےروانہ ہوگیا۔ صمود نامی یہ قافلہ لیبیا اور مصر کے راستے غزہ جانے کا عزم
رکھتا ہے۔ مہم کی قائد جواہر ثنا نے بتایا کہ سینکڑوں افراد پر مشتمل 9 بسوں کا یہ
قافلہ جمعہ تک صحرائے سینائی میں غزہ کو کھلنے والے ر فح پھاٹک پہنچے گا۔ بس پر
کوئی امدادی سامان نہیں اورہمارا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی توڑ کر اہل غزہ کو گلے
لگانا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی الجزائر سے بھی بسوں کا ایک
بڑا کارواں روانہ ہوگیا جو لیبیامیں قافلہ صمود سے مل جائیگا۔
دوسری طرف برطانیہ،
آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے نیتن یاہو کے قریبی رفقا، وزیرخزانہ
بیزلل اسموترچ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر پر تادیبی پابندیاں عائد
کردیں ہیں۔ ان مجرموں پر غربِ اردن میں غنڈہ کردی، فلسطینیوں کی جائیداد جلانے،
مقامی لوگوں کو انکے گھروں سے بیدخل کرنے کے علاوہ، دوریاستی حل کی عملی مخالفت کا
الزام ہے۔انتہاپسندوزرا کے سفر اور تجارت پر پابندیوں کے علاوہ ان پانچ ملکوں میں
ان دونوں کے بینک اکاونٹ منجمد کئے جارہے ہیں۔
امدادی قافلے کی روداد کے
بعدعیدالاضحیٰ کا ذکر۔کربلا کی وادیِ اخدود، المعروف غزہ میں دورمضان اور دوعیدالفطر
کے بعد دوسری عید الاضحیٰ بھی آسمان سے
آتش و آہن کی نہ رکنے والی موسلا دھار
بارش میں منائی گئی، 'کلمہ پڑھتے ہیں ہم
چھاوں میں بمباروں کی' ۔عید سے دوددن پہلے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور امداد کی
بحالی کی قرارداد ویٹو کرکے صدر ٹرمپ نے اہل غزہ کو عید کا تحفہ بھی عطا کردیا۔
انسانیت کے ویٹو کے ساتھ، چچا
سام نے اسرائیل کے دفاع میں بین لاقوامی قوانین کو بھی پیروں تلے روند دیا۔پانچ
جون کو امریکہ نے اسرائیلی وزیراعظم، سابق وزیردفاع اور فوج کے سابق سربراہ کے
خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے والی عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی چار ججوں پر تادیبی پابندیاں عائد کردیں۔امریکی وزیرخارجہ مارکو
روبیو نے یوگنڈا کی جسٹس Solomy Balungi Bossa، پیرو کی جسٹس Luz del Carmen Ibáñez
Carranza، بینن کی جسٹس Reine Adelaide Sophie
Alapini Gansou اور سلوانیہ کی جسٹس Beti Hohler کے خلاف کاروائی کا اعلان
کرتے ہوئے کہاکہ 'ججوں کی حیثیت سے ان
چار افراد نے امریکہ اور ہمارے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے کی ناجائز اور
بے بنیاد کاروائیوں میں حصہ لیا۔آئی سی سی سیاسی ہوگئی ہے۔ ہم انکے اس دعوے کو
تسلیم نہیں کرتے کہ انکے پاس امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کے خلاف تحقیقات، الزامات
عائد کرنے، اور فیصلہ دینے کے غیر محدود اختیارات ہیں۔
عالمی سطح پر اس قانون شکنی
سے اسرائیلی حکومت کو حوصلہ ملا اوراب اسرائیل نے غزہ کے جرائم پیشہ افراد اور
دہشت گردوں کو مزاحمت کاروں کے مقابلے کیلئے تربیت دے کر مسلح کرنا شروع کردیاہے۔اسکا
انکشاف سابق وزیردفاع اور اسرائیل مادر وطن پارٹی Yisrael Beiteinu کے سربراہ، ایوگڈر لائیبرمین (Avigdor Liberman) نے Kanٹیلی ویژن پر کیا۔ لائیبرمین کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوٹ مار اور
ڈکیتی کیلئے مطلوب یاسر ابوشہاب کو اس گینگ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو ماضی میں
ISISسے وابستہ تھا۔
اسرائیل کی جارحانہ سرگرمیوں
میں حالیہ اضافے کی ایک بڑی وجہ حکومتی اتحادمیں پڑنے والی دراڑ کے نتیجے میں نیتن
یاہو حکومت کا عدم استحکام ہے۔لازمی فوجی تربیت سے حریدی فرقے کے استثنیٰ پر
وزیراعظم اور انکے حریدی اتحادیوں میں چپقلش کافی عرصے سے جاری ہے۔حریدیوں کے یہاں
ہر لڑکے پر مدارس (Yeshiva)میں
جاکر تلاوت و حفظ توریت لازمی ہے۔دوسری طرف لازمی فوجی خدمت قانون کے تحت ہر
نوجوان کیلئے دوسال کی فوجی تربیت ضروری ہے۔ حریدی نوجوان فوجی تربیت میں نہیں
شریک ہوتے کہ اس سے انکی دینی تعلیم متاثر ہوگی۔ اب تک فوج اس معاملے کو نظر انداز
کرتی چلی آئی ہے اور حریدیوں کو فوجی بھرتی سے غیر اعلانیہ استثنیٰ ملا ہوا ہے
لیکن غزہ میں فوجیوں کی غیر معمولی ہلاکتوں اور معذوری کی وجہ سے فوج میں افرادی
قوت کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ جسکی وجہ سے اب حریدیوں کی بھرتی پر اصرار ہورہا ہے۔گزشتہ
ہفتے حریدیوں نے وزیراعظم سے صاف صاف کہدیا کہ اگر ہمارے استثنیٰ کو قانونی تحفظ
نہ دیا گیا تو دونوں حریدی جماعتیں یعنی پاسبانِ توریت جماعت (Shas) اور توریت پارٹی (UTJ)حکومتی اتحاد سے الگ
ہوجائینگی۔
کشیدگی
اتنی بڑھی کہ ایک ہفتہ قبل شیخِ علومِ توریت (Degel HaTorah) اور حریدیوں کے روحانی پیشوا
ربائی موسیٰ ہرش، ربائی ڈوو لینڈو اور توریت کونسل نے اپنی سیاسی جماعت UTJکو کنیسہ (پارلیمان) تحلیل کرنے کی
قرارداد پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ اسی دوران 7 جون کو یوم سبت پر یروشلم میں حریدیوں
کے مرکزی معبد (Synagogue)میں
پراسرار آگ بھڑک اٹھی۔شاس کے روحانی سرپرست اور رئیس کلیہ علوم توریت (Rosh Yeshiva) ربائی اسحق یوسف یہیں امامت
کرتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں آتشزدگی اسی کشیدگی کا شاخسانہ ہے۔ اس واقعہ
کے بعد شاس نے بھی پارلیمان تحلیل کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان
کردیا۔ایک سو بیس رکنی کنیسہ میں اس وقت نیتن یاہو کو 67ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
ان دونوں جماعتوں کا ساتھ چھوڑ دینے کے بعد حکومت کے حامیوں کی تعداد 50 رہ جائیگی۔
قرارداد پر فوری رائے شماری کی راہ ہموار کرنے کیلئے حزب اختلاف نے نجی بل،
استحقاق کے نوٹس اور نکتہ اعتراض کی تمام تحریکیں واپس لے لیں۔خیال ہے کہ بدھ کو
قرارداد پر بحث کا آغاز ہوگا۔ تاہم امریکہ اس محاذ سے غافل نہیں اور اسرائیل میں
امریکہ کے سفیر مائک ہکابی حریدی رہنماوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ اپنے ایک بیان
میں سفیر معظم نے کہا کہ یک ایسے وقت جب ملک کو بدترین دہشتگردی کا سامنا ہے سیاسی
عدم استحکام سے ملک کو سخت نقصان پہنچے گا۔حزب اختلاف اسرائیلی سفیر کی ان
سرگرمیوں کو بیرونی مداخلت قرار دے رہی ہے جبکہ حکومتی عدم استحکام سے جھنجھلائے
نیتن یاہو کے اشتعال کی قیمت مظلوم اہل غزہ ادا کررہے ہیں۔
امریکہ کی غیر مشروط حمائت
کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔امریکی مرکزِ دانش Pew Researchنے 6 جون کو 24 ممالک میں رائے عامہ کا جو جائزہ شایع
کیا ہے اسکے مطابق اسرائیل مخالفت میں 93 فیصد کے ساتھ ترکیہ پہلے نمبر پر ہے۔انڈونیشیا
میں 80 فیصد، جاپان 79 فیصد، ہالینڈ میں 78 فیصد، اسپین اور سوئیڈن میں 75 فیصد
اور جنوبی افریقہ کے 54 فیصد لوگ اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔
اسرائیل، نائیجیریا اور کینیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے جہاں بالترتیب 59 اور 50
فیصد لوگ اسرائیل کے حامی ہیں۔امریکہ میں 53 فیصد لوگ اسرائیل کے مخالف جبکہ
ہندوستان میں 34 فیصد لوگ اسرائیل کے حامی ہیں۔ اگر ان 24 ممالک کا اوسط لیا جائے تو
مجموعی طور پر 62 فیصد لوگ اسرائیل کے مخالف ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس
اور جنوبی افریقہ میں نوجوان طبقہ اسرائیل کا سخت مخالف ہے۔
غزہ کے معاملے پر کچھ
رہنماوں کے دبنگ روئے نے اسرائیل کے حامیوں کو آزمائش میں ڈالدیا ہے۔برازیل کے
صٖدر Luiz Inacio Lula da Silva نے اپنے فرانسیی ہم منصب کے
ہمراہ پیرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صاف صاف کہدیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو
رہا ہے وہ جنگ نہیں بلکہ ایک طاقتور مسلح فوج کی جانب سے عورتوں اور بچوں کاقتل
عام بلکہ ایک انتہاپسند حکومت کی جانب سے سوچی سمجھی نسل کشی ہے۔جواب میں صدر
میکراں، احتیاط و مصلحت کا نقاب اوڑھتے ہوئے ممیائے 'سیاسی رہنما (نسل کشی کی)
اصطلاح استعمال کررہے ہیں لیکن وقت آنے پر یہ فیصلہ مورخین کرینگے'۔
اس حوالے سے ہسپانیہ کا رویہ
بہت حوصلہ افزا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسپین نے اسرائیلی کمپنی سے ٹینک شکن میزائیل
خریدنے کا معاہدہ منسوخ کردیا۔ سودے کی مالیت 32کروڑ 50لاکھ ڈالر تھی۔ یہ اسلحہ ایک
ہسپانوی کمپنی Pap Tacnosبناتی ہے جو اسرائیل کی Rafael Advanced Defense Systemکا
ذیلی ادارہ ہے۔ ہسپانوی وزیردفاع مارگریٹا روبیلز نے کہا کہ غزہ نسل کشی کے بعد
ہسپانیہ نے اسرائیلی فوج اور اسکے دفاعی اداروں سے کسی قسم کا تعاون یا مالیاتی
لین دین نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خواہ یہ مصنوعات ساختہ اسپین ہی کیوں نہ ہوںْ
نسل کشی کے مرتکبین کا تعاقب
بھی جاری ہے۔ایک فرانسیسی خاتون جیکولین ریواولٹ Jacqueline Rivaultنے پیرس کی عدالت کو دہائی دی ہے کہ 24 اکتوبر 2024 کو خان یونس
میں اسکی بیٹی کے گھر پر اسرائیل نے میزائیل حملہ کیا جس میں اسکی چھ سالہ نواسی
جینا اور جینا کا نوسالہ بھائی عبدالرحیم جاں بحق ہوئے۔ یہ دونوں بچے فرانسیسی
شہری تھے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ امریکی ساختہ F-16 طیارے سے دو گائیڈڈ میزائیل اسکی بیٹی کے گھر پر داغے گئے۔ گائیڈڈ
میزائیل پہلے سے طئے شدہ ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ یعنی اسرائیلی طیاروں نے رہائشی
عمارت کو جان کر نشانہ بنایا اور شہریوں کو جان بوجھ کر ہلاک کرنا بین الاقوامی
قانون کے تحت نسل کشی اور جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔ مزید دلیل دیتے ہوئے درخواست
میں کہا گیا ہے شہری آبادی پر بمباری کا مقصد فلسطینی آبادی کو ختم کرنا اور پوری
پٹی پر انسانی زندگی کو مشکل بنانا ہے جو نسل کشی کی ایک شکل ہے۔ حوالہ: AFP
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 جون
2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 13 جون 2025
روزنامہ امت کراچی 13 جون 2025
ہفت روزہ سرینگر 15 جون 2025
No comments:
Post a Comment