Thursday, January 30, 2025

 

غزہ امن معاہدے کا پہلا ہفتہ مکمل

اسرائیل کیلئے 2000 پاونڈ کے بموں سمیت مہلک ہتھیاروں کی فراہمی بحال

اہل غزہ کو وطن بدر کرنے کا منصوبہ

قیدیوں کا سراغ لگانے کیلئے غزہ پر امریکی اور برطانوی ڈرونوں کی 60 ہزار پروازیں

بے گھر اہل غزہ اور جنوبی لبنان کے لوگوں کے اپنے گھروں کی طرف جلوس

پولینڈ میں اسرائیلی وزیرتعلیم پر نسل کشی کے الزام میں مقدمہ

ایک تہائی سے زیادہ امریکی نوجوان غزہ مزاحمت کاروں کے حامی

غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا ایک ہفتہ مکمل ہونے پر  25 جنوری کو اسرائیل کی چار خاتون فوجی رہا کردی گئیں۔معاہدے کے تحت ہر زندہ خاتون فوجی کے عوض 50 فلسطینی رہا ہونے ہیں،  چنانچہ اس ہفتے رہا کی جانیوالی خواتین فوجیوں کے بدلے 200 فلسطینیوں کو آزادی مل گئی۔ 'سنگین جرائم' میں ملوث سزایافتہ افراد کو اسرائیل بدر کردیا گیا۔ باقی 130 افراد غرب اردن، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ توقع ہے کہ اگلے ہفتے مزید قیدیوں کا تبادلہ ہوگا

ابتدا میں معاہدہ امن کے ضامن کے حیثیت سے امریکہ مخلص نظر آرہا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد  اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ پہلے مرحلے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پائیدار امن کیلئے کوششیں تیز کردی جائیں۔لیکن اب واشنگٹن کی نیت مشکوک لگ رہی ہے۔جمعرات 23 جنوری کو امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے فون پر اسرائیلی وزیراعظم سے گفتگو کی۔ جس میں انھوں نے نیتھن یاہو کو یقین دلایا کہ اسرائیل کی مستقل حمائت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔امریکی وزارت خارجہ کے مطابق جناب روبیو نے حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابیوں پر نیتن یاہو کو مبارکباد دی اور غزہ میں قید باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے انتھک محنت کرنے کا عہد کیا۔اسی کیساتھ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کیلئے 2000 پاونڈ کے بموں پر سے پابندی ہٹالی۔ غزہ میں شہری نقصانات کے پیش نظر سابق صدر بائیڈن نے اسرائیل کیلئے ان ہلاکت خیز بموں پر پابندی عائد کردی تھی۔امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ 1800 کے قریب MK-84بم اگلے چندروز میں اسرائیل روانہ کردئے جاینگے۔

دوسری جانب غزہ کے مستقبل کے بارے میں سفارتی و سیاسی سطح پر جس قسم کی گفتگوہورہی ہے اس سے فلسطینی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ بائیس جنوری کو نشریاتی ادارے NBCنے خبر دی کہ امریکہ اہلِ غزہ کی ایک بڑی تعداد کو انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کے دوران انتقال آبادی ضروری ہے اور تعمیر مکمل ہونے پر ان لوگوں کو غزہ واپس بلالیا جائیگا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں. اس حکمت عملی کے اصل محرکات غزہ کے ساحل کو دنیا کا سب سے بڑا Beachfrontاور مشرقی حصے میں میکانیکی زراعت کے ذریعے زیتون و کھجور کا مرکز بنانے کے منصوبے ہیں۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ خالی ہوجانے کے بعد اس پٹی پر قبضہ بستیاں تعمیر کرکے اسرائیل کا قبضہ مکمل کرلیاجائیگا۔

اس 'انکشاف' کے دوسرے دن امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے اپنے انڈونیشی ہم منصب جناب سوجیونو (Sugiono)سے فون پر گفتگو کی اور انڈونیشیا کے مشرق وسطیٰ امن بات چیت کا 'حصہ' بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔دودن بعد 'انخلا بلکہ تطہیر غزہ' منصوبے کا اظہار امریکی صدر ٹرمپ نے خود کیا جب 25جنوری کو لاس ویگاس سے میامی واپس آتے ہوئے اپنے صدارتی طیارے میں انھوں نے اس معاملے پر صحافیوں سے گفتگو کی۔ جناب ٹرمپ نے انڈونیشیا کے بجائے عرب ممالک کو اس 'کارخیر' میں حصہ لینے کی دعوت دی۔جناب ٹرمپ نے کہا 'وہ چاہتے ہیں کہ اردن، مصر اور دوسرے  عرب ممالک زیادہ سے زیادہ اہل غزہ کو اپنے یہاں محفوظ و آرام دہ جگہ فراہم کریں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقے کو 'صاف' کیا جاسکے'، امریکی صدر کے اس بیان پر قطر سے مزاحمت کار قیادت کا شدید ردعمل سامنے آیا ۔ انکے ایک رہنما نے کہا 'فلسطینی اپنی مقدس سرزمین سے بیدخلی کی کئی سازشوں کو ماضی میں ناکام بناچکے ہیں اور نسل کشی و نسلی تطہیر کی اس مہم کو کچل دینے کیلئے بھی اہل غزہ پرعزم ہیں۔

قیدی خواتین کی رہائی کے مناظر اسرائیل میں بہت دلچسپی اور شوق سے دیکھے گئے۔ہزاروں کے مجمع میں ان جنگی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیاگیا، جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھیں۔ قیدیوں کی 'میزبان'خواتین نے سفر کیلئے انکے کپڑے دھوکر استری کئے اورانھیں خوشبویات فراہم کی گئیں۔خاتون سپاہیوں کو نئی فوجی وردی اور خوبصورتی سے فریم کی گئی 'سندِ حراست' عطا کی گئیں۔ہر سپاہی کو فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا شناختی کارڈ پہنایا گیا۔ دوران حراست لی گئی انکی تصاویراور مقام گرفتاری کی تمام معلومات کو ایک گفٹ بیگ میں رکھ کر انھیں پیش کیاگیا۔آزادی فلسطین کی جدوجہد کے بارے میں بصری رپورٹ اور قرآن کریم کا عبرانی نسخۃ بھی تحفے کیساتھ رکھا گیاتھا۔اسکے مقابلے میں اسرائیلی جیلوں سے جو قیدی رہا ہوئے، ان میں اکثر کی حالت خراب تھی۔ انکے چہروں سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دوران حراست انھیں مناسب غذا نہیں فراہم کی گئی۔ لباس بوسیدہ، بال بکھرے اور بہت سے قیدی نقاہت کے باعث لاٹھیوں کے سہارے یا ایکدوسرےکا ہاتھ تھام کر چل رہے  تھے۔

انتہائی پرشکوہ انداز میں جنگی قیدیوں کی حوالگی سے جہاں اہل غزہ نے اپنی اخلاقی برتری ثابت کردی وہیں پندرہ ماہ تک ان قیدیوں کا سراغ لگانے میں ناکامی پر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادارے خود اپنے حلقوں میں تنقید کا شانہ بنے ہوئے ہیں۔ سراغ رساں اداروں کے مطابق غزہ کے چپے چپے پروحشیانہ اسرائیلی بمباری کیساتھ  برطانوی اور امریکی فضائیہ کے جدید ترین ڈرون اور دوسرے  حساس ترین جاسوس طیاروں نے اوسطاً ہر روز ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی مشن داغے۔ امریکی وزارت دفاع المعروف PENTGONکے ترجمان بریگیڈئر جنرل پیٹرک رائیڈر نے نومبر 2023 میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جدید ترین M-9 Reaperڈرون سارے غزہ میں قیدیوں کا سراغ لگانے کیلئے مسلسل پرواز کررہے ہیں۔ خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سراٖغرساں صحافتی ادراے Declassified UKکا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے قبرص کے برطانوی اڈے اکروتیری (Akrotiri)پر ایک خصوصی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا گیاتھا۔اعدادوشمار کے مطابق برطانوی اور امریکی ڈرونوں نے مجموعی طور پر بالترتیب 16000اور 40000 پروزوں کے ذریعےغزہ کا ایک ایک مربع گز چھانا، کھنگالا بلکہ سونگھا۔اس مقصد کیلئے طلائی گولیاں بھی بہت مہارت سے استعمال کی گئیں۔ ایک ایک قیدی کی نشاندی کیلئے کروڑوں ڈالر 'انعام' تجویز ہوا لیکن فضائی ٹیکنالوجی، جاسوسی کتے، تشدد کے کوڑے ، اشرفیوں کے توڑے ،مصنوعی ذہانت اور شیطانی فطانت سب ہی ناکام رہے۔

وزیراعظم نیتھن یاہو اور انکے انتہا پسند ساتھی ابھی تک 'فلسطینیوں کو کچل دو 'کے نعرے الاپ رہے ہیں لیکن عسکری سطح پر بے چینی بہت واضح ہے۔ ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حیلوی نے استعفے دیدیااور دوسرے روز جنوبی کمان کے سربراہ جنرل ہارون فننکلمین ( Yaron Finkelman) بھی مستعفی ہوگئے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوے حزب اختلاف نے سوال اٹھا دیا کہ وزیراعظم کب استعفی دینگے؟

دوسری جانب اہل غزہ ، غرب اردن اور جنوبی لبنان کے لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ شدید بمباری سے بیدخل ہونے والے شمالی غزہ کے لوگوں نے اپنے گھروں کو واپسی کا سفر شروع کردیا۔ہزاروں لوگوں کا یہ قافلہ ساحلی شاہراہ پر شمال کی جانب رواں دواں ہے ۔ گود میں بچے اٹھائے خواتین اس مارچ کی قیادت کررہی ہیں۔ جب کسی صحافی نے نعرہ زن ایک خاتون نے پوچھا 'بی بی تمہارے گھر تو مٹی کے ڈھیر ہوگئے واپس کہاں جارہی ہو؟ تو اس نے بےدھڑک کہا ہمیں اپنے گھروں کے ملبے پر ہی رہنا ہے۔ اتوار 26 جنوری کو جنوبی لبنان میں اپنے گھروں کو لوٹنے والے بےگھر لوگوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی جس سے 15 افراد جاں بحق اور  سینکڑوں زخمی ہوگئے لیکن قافلہ واپس جانے کو تیار نہیں۔ غرب اردن میں جنین ایک ماہ سے اسرائیلی فوج کے نرغے میں ہے۔ جمعہ کو فائرنگ سے سے ایک دوسالہ بچی لیلیٰ الخطیب اسرائیلی فوجی میں جان بحق ہوگئی۔ قریبی فاصلے سے لیلیٰ کے سرکو نشانہ بنایا گیا۔ ان وحشیانہ کاروائیوں کی نہتے مزاحمت بھی کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جنصافوط اور الفندق کے مکین مقابلے پر کھڑے ہوگئے اور غلیل کے ڈھیلوں سے کئی سورما زخمی  ہوئے۔ طمون کے قریب اسرائیلی فوج کی ایک بکتر بند گاڑی اڑادی گئی جس میں 31 سالہ سپاہی ایویاتر بن یہوداہ ہلاک دو فوجی جھلس کرشدید زخمی ہوگئے۔

نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ پولینڈ کے فلسطینیوں نے ملک کے دورے پر آئے اسرائیل کے وزیر تعلیم یعقوب کِش Yoav Kisch کی گرفتاری کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔ درخواست میں کہاگیا ہے کہ جناب کِش اسرائیلی reserveفوجی دستے کے رکن اور غزہ میں جنگی جرائم کے شرکت داروسہولت کار ہیں۔

پروپیگنڈے اور امریکی حکومت کی اسرائیلی کیلئے غیر مشروط حمائت کے باوجود غزہ کے مزاحمت کار امریکہ میں مقبول ہورہے ہیں۔ہارورڈ ہیرس (Harvard/Harris) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ کے 25 فیصد ڈیموکریٹس، 19 فیصد ریپبلکن اور 20 فیصد آزاد ووٹر مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔جائزے کا دلچسپ پہلو یہ ہےکہ پچیس سے 34 سال کے امریکیوں میں مزاحمت کاروں کی مقبولیت 34 فیصد جبکہ 65 سال اور اس سے معمر صرف 10 فیصد امریکی مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 31 جنوری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 جنوری 2025

روزنامہ امت کراچی 31 جنوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 فروری 2025


 

Thursday, January 23, 2025

غزہ میں امن معاہدے پر تین گھنٹہ تاخیر سے عملدرآمد شروع سابق اور موجودہ امریکی صدور کے درمیان 'کریڈٹ' کی جنگ دنیا کی نصف آبادی اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے اٹلی آئے اسرائیلی جنرل پر نسل کشی کے الزام میں مقدمہ سابق امریکی وزیرخارجہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار

 

غزہ میں امن معاہدے پر تین گھنٹہ تاخیر سے عملدرآمد شروع

سابق اور موجودہ امریکی صدور کے درمیان 'کریڈٹ' کی جنگ

دنیا کی نصف آبادی اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے

اٹلی آئے اسرائیلی جنرل پر نسل کشی کے الزام میں مقدمہ

سابق امریکی وزیرخارجہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار

چار سواکہتر (471) دن بعد غزہ پر برستی موسلا دھار بمباری میں وقفہ آگیا۔جنگ بندی اسرائیل  حماس معاہدہ ِامن کا پہلا مرحلہ ہے۔ طویل مذکرات کے بعد گزشتہ ہفتے یہ معاہدہ قطر میں طئے پایا۔ اس حوالے سے ہم گزشتہ نشست میں حماس کے جاری کردہ مسودے کی تفصیل دے چکے ہیں۔ بدھ 15 جنوری کو صدر بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور اپنے وزیرخارجہ کے ہمراہ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں قیام امن تین مرحلوں میں ہوگا

  • پہلا مرحلہ: چھ ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں عارضی فائربندی ہوگی اور خواتین، بیمار و ضعیف قیدیوں کا تبادلہ کیا جائیگا۔ اس دوران غزہ کو امدادی سامان پر عائد تمام پابندیاں اٹھالی جائینگی۔
  • دوسرا مرحلہ: پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر پائیدار امن کیلئے مذاکرات ہونگے۔ صدر بائیڈن نے یقین دلایا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران جنگ بند رہیگی۔ تاہم ہفتے کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم نیتھن یاہو نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ اگر پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر پائیدان امن پر معاہدہ نہ ہوسکا تو اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرسکتا ہے اور ہمارے اس موقف سے صدر بائیڈن اور نومنتخب امریکی صدر پوری طرح اتفاق کرتے ہیں۔
  • تیسرا مرحلہ: لاشوں اور باقی قیدیوں کے تبادلے کیسساتھ اسرائیلی فوج غزہ سے واپس چلی جائیگی جسکے بعد غزہ کی تعمیر نو کا کام شروع ہوگا۔

جمعہ 17 جنوری کو اسرائیلی کابینہ نے 8 کے مقابلے میں 24ووٹوں سے معاہدہ امن کی توثیق کردی۔ عظمتِ یہود (Otzma Yehudit)اور دین صیہون (Religious Zionism)کے  ساتھ وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی کے دووزرا نے مخالفت میں ہاتھ بلند کئے اور وزیراطلاعات سلام کرہی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ حکومت کے مذہبی اتحادیوں پاسبان توریت(Shas) اور یونائیٹیڈ توریت پارٹی نے معاہدے کی حمائت کی۔قرارداد منظور ہوتے ہی وعدے کے مطابق وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے استعفیٰ دیکراپنی جماعت عظمت یہود کو حکمراں اتحاد سے الگ کرلیا۔ایک سو بیس رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں عظمت یہود کے پاس چھ نشستیں ہیں جنکی علیحدگی کے بعد بھی نیتھں یاہو کو 62 ارکان کی حمائت حاصل رہیگی۔وزیر خزانہ کی دین صیہون جماعت نے معاہدے کی شدید مخالفت کے باوجود حکومتی اتحاد نہیں چھوڑا۔جماعت کے ایک سینئر رکنِ کنیسہ وی سکّت (Zvi Sukkot)نے  جماعتی فیصلے سے بغاوت کردی۔ اپنے بیان میں سکّت صاحب نے کہا کہ نیتن یاہو کو امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خوفناک معاہدے پر مجبور کیا اور میں وطن فروشی کے معاہدے کا حصہ نہیں رہ سکتا۔اسرائیلی پارلیمانی ضابطے کے تحت انکی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی

معاہدے کی رو سے 19 جنوری کو مقامی وقت کے مطابق  صبح ساڑھے آٹھ بجے(پاکستان ساڑھے گیارہ اور ہندوستان 12) جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہونا تھا لیکن اس روز رہا ہونے والی تین خواتین کے نام نہ ملنے پر اسرائیل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور وزیر اعظم نیتھن یاہو نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے اپنے فوجی سربراہ کو پیغام بھیج دیا کہ جنگ بند کرنے کی جو ہدائت دی گئی ہے اس معطل سمجھا جائے۔ ہدائت موصول ہوتے ہی  اسرائیلی فضائیہ نے سارے غزہ پر بمباری شروع کردی۔ اہل غزہ نے وضاحتی پیغام قطر بھیجا کہ فہرست کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ مسلسل بمباری ہے۔ آتش و آہن کی بارش بند ہو تب ہی رہائی کیلئے قیدیوں کو کسی جگہ جمع کیا جاسکتا ہے۔ پونے تین گھنٹے کی تاخیر سے جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہوا اور تین اسرائیلی خواتین اقوام متحدہ کے حوالے کردی گئیں۔ اسی کیساتھ اسرائیلی عقوبت کدوں سے 69 خواتین، ایک بچی اور 12 کمسن لڑکوں سمیت  90 فلسطینی رپا کر دئے گئے۔ پہلے مرحلے میں اسرائیل کے 33 قیدیوں کے عوض 1094فلسطینی رہا کئے کئے جائینگے۔رہا ہونے والے متوقع فلسطینیوں میں عمر قید کے کئی“مجرم” بھی شامل ہیں۔

امن بات چیت کے دوران اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ امریکی قائدین نے بدترین تکبر کا مظاہرہ کیا۔ معاہدے کے بعد اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے بہت ہی فخر سے کہا کہ امریکی مدد سے اسرائیل نے حماس کے ساتھ لبنانی حزب اللہ اور انکے سرپرست ایران کو کمزور کردیا ہے، انکے قائدین مارے  گئے اور اب یہ ہماری شرائط پر امن معاہدہ کررہے ہیں۔

ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنے سماجی چبوترے TRUTHپر پیغام داغا کہ 'میری قومی سلامتی کی ٹیم مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی قیادت میں اسرائیل اور  اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ کبھی بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے پائے۔انکے نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے اپنی توثیق کیلئے سینیٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ امریکہ میں حماس کے حامیوں کے ویزے منسوخ کردینے چاہئیں۔ جناب ٹرمپ کے نامزد کردہ مشیر سلامتی، مائک والٹز  CBSپر گفتگو کرتے ہوئے متکبر لہجے میں بولے 'مزاحمت کار غزہ پر اب کبھی حکومت نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارے لئے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں'

اسکے ساتھ کامیابی کا سہرا اپنے سرباندھے کی کوشش جاری رہی۔ سابق صدر بائیڈن نے کہا کہ جو معاہدہ ہوا ہے اسکا مسودہ ہماری انتظامیہ نے گزشتی برس مئی میں ترتیب دیا تھا۔ جس پر ڈانلڈ ٹرمپ نے گرہ لگائی کہ اگر میں امریکی منتخب نہ ہوتا یہ ممکن ہی نہ تھا۔اپنی حلف برداری سے پہلے اتوار کو دارالحکومت میں بڑے جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب ٹرمپ  نے یہ دعویٰ دہرایا کہ 'اگر میں انتخاب نہ جیتتا تو غزہ میں جنگ بند نہ ہوتی'

کریڈٹ کی اس امریکی جنگ میں اسرائیلی وزیراعظم دباومیں رہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے پر عملدرآمد اتوار سے شروع ہونا تھا، جبکہ امریکہ میں ٹرمپ پیر کو حلف اٹھارہے تھے۔اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12کے مطابق، آخری مرحلے پر نیتھن یاہو نے بہانہ کیا کہ وہ سبت کی وجہ سے جمعہ کی شب کابینہ کا اجلاس طلب نہیں کرسکتے لہذا معاہدے پر عملدرآمد کی تاریخ 20کردی جائے ۔ بائیڈن اپنی پکائی ہانڈی ٹرمپ کے پاس کیسے لے جانے دیتے؟؟فوراپاسبان توریت پارٹی کے قائد، ربائی آریہ مخلوف درعی سے فتویٰ لے لیا گیا کہ ہنگامی صورتحال میں سبت کی کچھ پابندیاں معطل کی جاسکتی ہیں۔یونائیٹیڈ توریت پارٹی کے قائد ربائی اسحاق گولڈنوف نے جناب درعی کے فتوے کی توثیق کردی اور بائیڈن کے دباؤ پر جمعہ کی شب کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا۔

امن معاہدے پر اسرائیل کے انتہا پسند سخت مشتعل ہیں۔جمعہ کو مظاہرین نے تل ابیب میں دھرنا دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے ایک سپاہی کے بھائی نے جذباتی انداز میں کہا  'وزیراعظم صاحب! آپ فرماتے تھے کہ یہ نور کے بیٹوں اور تاریکی کی اولاد کا مقابلہ ہے۔ کیا صورتحال اب تبدیل ہوگئی ہے کہ نور کے علمبردار تاریکی کے پچاریوں سے مذاکرات کررہے ہیں؟؟مزاحمت کاروں سے معاہدہ، ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اسرائیلی جیل سے آزاد ہونے والے دہشت گرد کل ہمارے بچوں کے گلے کاٹیں گے۔ کچھ مظاہرین نے اپنے چہرے فلسطینی کفیہ سے چھپائے ہوئے تھے یعنی معاہدے کے نتیجے میں کفیہ والے تل ابیب آرہے ہیں۔

بدترین پروپیگنڈے کے باوجود عالمی رائے عامہ اسرائیل کے بارے میں منفی ہوتی جارہی ہے۔ عالمی صیہونی تنظیم Anti-Defamation Leagueیا ADLکے ایک عالمی جائزے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے نصف کے قریب لوگ یہودی مخالف یا Antisemiticجذبات رکھتے ہیں۔ جائزے کے دوران  103 ممالک کے 58000 افراد سے رائے لی گئی اور نتیجے کے مطابق کرہ ارض کے چھیالیس فیصد لوگ اسرائیل کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غزہ مزاحمت کاروں کی حمائت 59 فیصد اور 75 فیصد لوگ سام مخالف ہیں جبکہ فلسطین میں یہ تناسب 97 فیصد ہے۔ ایران میں سام مخالف جذبات نسبتاً کم ہیں اور صرف 49 فیصد خود کو Antisemitic سمجھتے ہیں۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

دنیا بھر میں نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اٹلی کے دورے پر آئے اسرائیلی میجر جنرل غسان ایلین Ghassan Alianکی گرفتاری کیلئے عدالت کو درخواست دیدی گئی۔حوالہ:Ynet۔ گزشتہ ہفتے جب سابق امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن واشنگٹن کے مرکزِ دانش اٹلانٹک کونسل میں تقریر کرنے آئے تو وہاں موجود لوگوں نے غزہ نسل کشی بند کرو کے نعرے لگائے۔ پولیس نے ان لوگوں کا ہال سے باہر نکال دیا۔دوسرے دن موصوف کی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران کئی نامہ نگاروں نے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام پر آواز اٹھائی۔جب وزیرباتدبیر نے جان چھڑانے کیلئے کہا کہ امریکہ آزادی اظہار پر یقین رکھتا ہے اور صحافیوں سے بد سلوکی کی ہر سطح پر مذمت کی جاچکی ہے تو ایک صحافی صائم حسینی نے چیخ کر کہا 'تم جھوٹے ہو، غزہ میں صحافیوں کو قتل کرنے کیلئے ایک ایک گولی، گولہ، ڈرون، بم اور بمبار حتیٰ کہ قاتلوں کے ڈائپر بھی امریکہ نے فراہم کئے ہیں'۔اس پر سوال اٹھانے والے صحافی کو اٹھالیا گیا۔

احتجاج صرف فلسطینی صحافیوں تک محدود نہیں  بلکہ اسرائیلی قلمکار بھی جناب بلینکن کے جھوٹ کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ ہفتہ 18 جنوری کو سابق امریکی وزیرخارجہ نے  CNN سے باتیں کرتے ہوئے کہا:'غزہ جنگ پر وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو 70، 80 بلکہ 90 فیصد عوام کی حمائت حاصل ہے'، اسکے بعد امریکی جریدے نیویارکر کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:ہم نے 7 اکتوبر سے اسرائیل میں جو کچھ دیکھا ہے وہ وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کے انفرادی ارکان کی عکاسی نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں اسرائیلی معاشرے کے 70، 75 فیصد اور 80 فیصد کی عکاسی کرتا ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائمز آف اسرائیل کے سینیر تجزیہ نگار یعقوب میگڈ (Jacob Magid)نے ایک تفصیلی کالم تحریر کیا جسکا سرنامہ کلام کچھ اسطرح ہے۔ 'غزہ جنگ پر نیتھن یاہو کو عوامی حمائت کے حوالے سے ٹونی بلینکن کا جھوٹا دعویٰ'۔ فاضل کالم نگار نے اسرائیلی ٹیلی ویژن 12 اور چینل 13 کے لئے گئے جائزہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا

چینل 13 کے مطابق صرف 22 فیصد اسرائیلیوں نے حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ چینل 12 کے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ 64 فیصد عوام کو یقین نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت ملک کو کیسے چلا رہی ہے؟

حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 جنوری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 جنوری 2025

روزنامہ امت کراچی 24 جنوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 جنوری 2025


Wednesday, January 22, 2025

ٹرمپ کی تقریب حلف برداری ایک قوم، ایک خدا ، دو جنس (مرد اور عورت) خلیج میکسیکو کا نام تبدیل، نہر پاناما پر قبضے کا عزم امریکہ کی جنوبی سرحد پر ہنگامی حالت کا اعلان، تارکین وطن کو روکنے کیلئے فوج تعینات

 

ٹرمپ کی تقریب حلف برداری

ایک قوم، ایک خدا ، دو جنس (مرد اور عورت)

خلیج میکسیکو کا نام تبدیل، نہر پاناما پر قبضے کا عزم

امریکہ کی جنوبی سرحد پر ہنگامی حالت کا اعلان، تارکین وطن کو روکنے کیلئے فوج تعینات

ڈانلڈ جے ٹرمپ نے امریکہ کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ یہ لمحہ کئی اعتبار سے تاریخی قراردیا جاسکتا ہے

  • ڈانلڈ ٹرمپ 1892 کے بعد پہلی مدت کے بعد ہارکر دوبارہ جیتنے والے پہلے صدر ہیں، جناب کلیولینڈ 1884میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرادیا۔ 1892 کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔
  • ڈانلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنھیں دوبار مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور 47 ویں امریکی صدر عدالت سے 32 الزامات میں 'مجرم' ثابت ہوچکے ہیں۔
  • ڈانلڈ ٹرمپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے انھوں نے دو بارخواتین کو شکست دی اور مرد سے ہارگئے
  • جناب ٹرمپ امریکی صدر کا حلف اٹھانے والے معمرو امیر ترین صدر ہیں۔انکی کابینہ میں ارپ پتی وزرا کی تعداد 13 ہوگی
  • حلف اٹھانے کے فوراً انھوں نے  200 سے زیادہ صدارتی احکامات یا Executive Orders جاری کئے جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے
  • چالیس سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر کی تقریب حلف برداری Indoor ہوئی۔ خراب موسم کی وجہ سے 20 جنوری 1985 کو انجہانی رانلڈ ریگن نے بھی گنبدِ کانگریس (Capitol Rotunda) میں حلف اٹھایا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمائت حاصل ہے جسکی وجہ سے  انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف انکے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔

موجودہ انتخابی مہم کے دوران 2016 کے مقابلے صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں براہ راست کوئی منفی بات نہیں کی بلکہ کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کی حمائت کا فخریہ اعتراف کیا۔تاہم انھیں نے انتظامیہ کیلئے جن افراد کا انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب مسلمانوں اور فلسطینیوں کے بارے میں نہ صرف منفی رویہ رکھتے بلکہ اسکا اظہار کرتے ہوئے انکے لہجے میں ذرابھی ہچکچاہٹ نہیں۔

 مارک روبیو انکے وزیرخارجہ، پیٹ ہیگسیتھ (Pete Hegseth)وزیردفاع، کاش پٹیل کو FBIکے سربراہ اور جان ریٹکلف (John Ratcliffe) سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہونگے۔ محترمہ تلسی گیببورڈ کو نیشنل انٹیلیجنس کی سربراہی سونپی گئی ہے۔ اسی کیساتھ  محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ اور مائک ہکابی کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا ہے۔

بلا استثنیٰ یہ سب کے سب انتہائی متعصب، اسرائیل کے پرجوش حامی اور مسلم مخالف ہیں۔ مائک ہکابی صاحب نے اسرائیل پہنچتے ہی کہا کہ فلسطینی کوئی لسانی و معاشرتی اکائی نہیں۔اسرائیل چارہزار سال سے بنی اسرائیل کا وطن ہے۔ عربوں کے بہت سارے ممالک ہیں، پائیدار امن کیلئے سب سے مناسب بات یہ کہ خود کو فلسطینی کہنے والے  اردن، شام، لبنان اور مصر چلے جائیں۔کچھ ایسے ہی خیالات اسٹفانک صاحبہ کے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ میں اسرائیل مخالف مظاہروں کی کوئی جگہ نہیں۔ جن لوگوں کو فلسطینی حقوق کا خیال ہے وہ مشرق وسطیٰ جاسکتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں،صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل نہیں اور وہ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدر کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے 200 صدارتی احکامات (ایگزیکیوٹیو آرڈر) جاری کرکے  نئے امریکہ کی نظریاتی سمت متعین کردی۔ غیر ملکی تارکین وطن کا راستہ روکنے کے اقدامات کے ساتھ انھوں نے انسداد دہشت گردی کے عنوان سے جو حکم جاری کیا اسکے مطابق اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے غیر ملکیوں کے امریکی ویزے منسوخ کئے جاسکیں گے۔ حکم کے تحت سفارتخانوں اور ویزہ مراکز کو اس بات کا پابند بنایا جارہاہے وہ  درخواست کنندگان کے نظریاتی تجزئے اور تفصیلی چھان بین کے بعد ویزے جاری کرینگے۔ ایک اور صدارتی حکم کے تحت صدر ٹرمپ نے غرب اردن میں فلسطینیوں پر دہشت گرد حملوں میں ملوث اسرائیلی قبضہ گردوں پر امریکی پابندی کالعدم کردی۔ یہ پابندیاں سابق صدر بائیڈن نے عائد کی تھیں۔ اس قسم کے مزید احکامات بہت جلد جاری ہونے کی توقع ہے۔

ٹرمپ کا امریکہ کیسا ہوگا، اسکے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، تاہم ٹرمپ سرکار مسلمانوں کیلئے اچھی نظر نہیں آرہی۔ مشرق وسطیٰ کےحوالے سے اسرائیل کو عرب و اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا انکی ترجیح اول ہے اور وہ اس معاملے میں جبر کا ہر ہتھکنڈا استعمال کرینگے۔ حلف اٹھاتے کے بعد جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کب تک متوقع ہیں تو وہ بے دھڑک بولے 'اب یہ دن نہیں تو مہنیوں کی بات ہے، زیادہ سے زیادہ اس سال کے آخر تک۔ نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے توثیق کیلئے سینیٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ اسرائیل سے اسلامی دنیا کے تعلقات مشرق وسطیٰ امن اور علاقے کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔ خیال ہے کہ اس معاملے میں سعودی عرب، پاکستان اور انڈونیشیا پر شدید دباو ڈالا جائیگا۔

گفتگو کے اختتام پر حلف برداری کے بعد صدر ٹرمپ کے افتتاحی خطاب سے اہم اقتباسات، جس سے قارئیں اندازہ لگا سکیں کہ اگلے چار برس چچا سام کی ترجیحات کیا ہونگی

  • سب سے پہلے امریکہ، ہم دنیا کی حفاطت کیلئے ٹیکس دہندگان کی رقم اڑارہے ہیں جبکہ ہماری اپنی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ ملک  کو کرپشن کا سامنا ہے۔ ہمارے اساتذہ بچوں کو ملک سے نفرت سکھا رہے ہیں
  • میرے حلف اٹھاتے ہی اسی امریکہ کے انحطاط کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ راستہ روکنے کیلئے میری زندگی ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میرے خدا نے مجھے زندہ رکھا تاکہ میں امریکہ کو عظیم تر بناوں۔ امریکی عوام کیلئے 20 جنوری 2025 اصلی یوم آزادی ہے۔ ہم جنگ لڑنے کے بجائے دنیا سے جنگ ختم کرنے کو ترجیح دینگے۔
  • جنوبی سرحد پر ہنگامی حالت کا اعلان کرتا ہوں۔ہم جنوبی سرحد پر فوج بھیجیں گے تاکہ غیر قانونی تارکین وطن کا راستہ روکا جائیگا
  • توانائی میں خود کفالت کیلئے Drill Baby Drillہماری حکمت عملی ہے۔ ہم ساری دنیا کو تیل اور گیس برآمد کرینگے
  • سینسر شپ کے مکمل خاتمے کیساتھ آزادی اظہار کو یقینی بنایا جائیگا
  • خلیج میکسیکو کا نام اب خلیج امریکہ ہوگا۔ ہم نہر پانامہ واپس لیں گے۔ مریخ پر امریکی جھنڈا لہرایا جائیگا
  • ہم اپنے خدا کو کبھی نہیں بھولیں گے،امریکی ایک خاندان، ایک قوم، ایک ملک اورایک رب کے ماننے والے ہیں۔ آج سے امریکہ میں بس دو جنس ہیں مرد اور عورت

ہفتت روزہ دعوت دہلی 22 جنوری 2025

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 24 جنوری 2025

روزنامہ امت 24 جنوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 جنوری 2025




Thursday, January 16, 2025

غزہ میں امن کی امیدِ موہوم قیدی چھڑانے کیلئے ڈانلڈ ٹرمپ کا شدید دباو مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ؟؟؟ سلطنت اسرائیل و یہودہ کے قبل از مسیح نقشے کی اشاعت امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کا بل منظور کرلیا فوجیوں کے والدین کا نیتھں یاہو کے نام کھلا خط، ہمارے بچوں کو جنگ کا ایندھن مت بناو ہمارے وزیراعظم امن مذاکرات سبوتاژ کررہے ہیں۔ ٹرمپ سے ماں کی التجا میکسیکو میوزیم میں نیتھن یاہو کا مجسمہ توڑ دیا گیا جامعہ کولمبیا کی سینئر پروفیسر استعفیٰ پر مجبور

 

غزہ میں امن کی امیدِ موہوم

قیدی چھڑانے کیلئے ڈانلڈ ٹرمپ کا شدید دباو

مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ؟؟؟

سلطنت اسرائیل و یہودہ کے قبل از مسیح نقشے کی اشاعت

امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کا بل منظور کرلیا

فوجیوں کے والدین کا نیتھں یاہو کے نام کھلا خط، ہمارے بچوں کو جنگ کا ایندھن مت بناو

ہمارے وزیراعظم امن مذاکرات سبوتاژ کررہے ہیں۔ ٹرمپ سے  ماں کی التجا

میکسیکو میوزیم میں نیتھن یاہو کا مجسمہ توڑ دیا گیا

جامعہ کولمبیا کی سینئر پروفیسر استعفیٰ پر مجبور

غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے مزاحمت کاروں پر ڈانلڈ ٹرمپ کا دباو شدید ہوگیا ہے، وہ اپنی حلف برداری (20جنوری) سے پہلے قیدیوں کی رہائی پر بضد ہیں۔ صدر بائیڈن بھی جاتے جاتے یہ تمغہ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا'یرغمالیوں کے مذاکرات میں 'حقیقی پیش رفت' ہو رہی ہے، لیکن اہل غزہ معاہدے کی راہ میں 'رکاوٹ ہیں۔اس پر ہمیں معروف مزاح نگار کرنل محمد خان یاد آگئے جنھوں نے اپنے ایک دل پھینک دوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ 'موصوف ہر کچھ عرصہ بعد ایک نئے عشق کی کامیابی پر ہم دوستوں کو مٹھائی کھلانے کے بعد جذباتی لہجے میں روداد قلبی کچھ اسطرح بیان کرتے ' یار میرا عشق 50 فیصد کامیاب ہوچکا، میں تو بالکل یکسو ہوں بس وہ راضی ہوجائے تو سہرا سجالوں' بھولے بائیڈن تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ورنہ انھیں بھی معلوم ہے  کہ معاہدہ فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے، جب مزاحمت کار آمادہ نہیں تو پھر کیسی پیش رفت؟؟۔ اہل غزہ کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔بائیڈن اور ڈانلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ ترجیح قیدیوں کی رہائی جبکہ مزاحمت کار قیدیوں کے تبادلے سے پہلے جنگ بندی چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیووٹکاف (Steve Witkoff)دوحہ میں قطری و مصری حکام سے بات چیت کرکے 11 جنوری کو اسرائیل پہنچے جہاں انھوں نے وزیراعظم نیتھن یاہو سے گفتگو کی جسکے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد مزاحمت کاروں سے ملاقات کیلئے قطر بھیج دیا گیا۔ وفد میں اندرون ملک سراغراساں ادارے شاباک (Shin Bet)کے ڈائریکٹر ران بار بھی شامل ہیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق، اسٹیو وٹکاف نے قطر، مصر اسرائیل کی قیادت کو یہ بتادیا ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر 20 جنوری سے پہلے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف صدر بائیڈن کے خصوصی ایلچی برٹ مک گرک (Brett McGurk)اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس بھی دوحہ سے 12 جنوری کو اسرائیل پہنچ گئے۔

اسرائیل اور امریکہ سے جاری ہونے والی خبروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ ہیں اور اگر 'چند' زیر بحث نکات پر مفاہمت ہوگئی تو امن معاہدہ بس دنوں کی بات ہے۔ اس سے پہلے مستضعفین غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر اصرار کررہے تھے جس پر اسرائیل بظاہر تیار نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مزاحمت کار اس نکتے پر اسرائیل کو مراعات دینے کو تیار ہوگئے ہیں یا اسرائیل کے موقف میں نرمی کے اثار ہیں۔اس معاملے کو جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی ناک کا مسئلہ بنالیا ہے اور وہ مزاحمت کاروں، قطر، مصر اور اسرائیل سب پر دباو ڈال رہے ہیں۔ اہل غزہ کو براہ راست دھمکی دینا تو نومنتخب امریکی صدر کیلئے ممکن نہیں لیکن وہ مصر اور خلیجی حکمرانوں سے کہہ رہے کہ کس بھی طرح مستضعفین کو قیدیوں کی رہائی پر آماد کرو ورنہ یہ خود تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا۔

مذاکرات کی کامیابی اور قیدیوں کی رہائی سے قطع نظر فلسطیینوں کیلئے راحت کا ہمیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ امن معاہدے کے بعد بھی اسرائیل لبنان کی طرح مختلف حیلوں اور بہانوں سے غزہ پر حملے جاری رکھے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیردفاع اسرائیل کٹز کی صدارت میں فوجی سربراہوں کا اجلاس ہوا جس میں غزہ پر ایک نئے حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جنوبی لبنان، یمن، غزہ اور غرب اردن کے مختلف مقامات پر بمباری میں اس ہفتے شدت محسوس ہوئی۔ اسی کیساتھ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی کھل کر تشہیر کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹویٹر پر 928 قبل مسیح میں بنا سلطنت اسرائیل و یہودا کا نقشہ  شایع ہوا جس میں اردن، غرب اردن، شام اور لبنان کے بڑے حصے کو اسرائیلی سلطنت کا حصہ قراردیا گیا ہے۔ نقشے کی عربی میں اشاعت معنی خیز ہے۔

غزہ کے ساتھ غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکانات کے انہدام کا سلسلہ جاری ہے۔ خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)نے ان کاروائیوں پر شدید مزاحمت کا خدشہ ظاہر کیا تھا، چنانچہ اسرائیلی فوج کی تین تازہ دم بٹالین جنین کی طرف روانہ کردی گئیں ہیں۔ قبضہ گرد انتہا پسندوں نے غرب اردن میں جگہ جگہ بل بورڈ لگا دئے ہیں جن پر عربی میں لکھا کہ فلسطین کا کوئی مستقبل نہیں۔

اسرائیل کی حمائت میں امریکہ کا عزم غیر متزلزل لگ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے پر امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت ICCپر پابندیوں کا بل 155کے مقابلے میں 243ووٹوں سے منظور کرلیا، ڈیموکریٹس کی اکثریت نے بل کی مخالفت کی۔ یہ بل گزشتہ برس بھی منظور ہوا تھا لیکن سینٹ سے منظور نہ ہونے کی بناپر یہ مسودہ قانون غیر موثر ہوگیا۔ تاہم اب جبکہ سینیٹ پر ریپبلکن کو واضح برتری حاصل ہے اس بل کی ایوان بالا سے منظوری کا امکان بہت روشن ہے۔ دوسری طرف،  واشنگٹن، غزہ بربریت کو نسل کشی نہ قرار دینے کے موقف پر ثابت قدم ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ 'غزہ میں مارے جانیوالے شہریوں کی تعداد ناقابل قبول ہے لیکن اسرائیلی آپریشن کو نسل کشی نہیں کہا جاسکتا'

تاہم بھاری جانی نقصان سے خود اسرائیل کے اندر جنگ بندی کیلئے مطالبہ زور پکڑگیا ہے۔ غزہ تعینات 800 فوجیوں کے والدین نے وزیراعظم نیتھن یاہو کے نام ایک کھلے خط میں لکھا 'ہمارے بچے آپکی ہوس اقتدار کا ایندھن بن رہے ہیں۔یہ بے مقصد جنگ صرف آپ کی اپنے مفاد میں ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ایک غیر ضروری جنگ میں جھونکے جارہے ہیں جو آپ کے اقدامات سے ہم پر آئی ہے۔ ہمارے بچوں نے بہت سے دوستوں کو کھو دیا اور ذہنی اور جسمانی طور پر مررہے ہیں اور زخمی ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے پاس غزہ میں رہنے کا کوئی جواز سوائے وہاں آباد ہونے کی مسیحائی خواہشات کے' حوالہ: ٹائمر آف اسرائیلِ یروشلم پوسٹ، Ynetnews

غزہ میں قید ایک اسرائیلی فوجی نمرود کوہن کی والدہ وکی کوہن نے  ڈانلڈ ٹرمپ کو ایک کھلا خط لکھا کہ 'ہمارے وزیر اعظم معاہدے کو سبوتاژ اور جنگ کو روکنے سے انکار کر رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے پر ہی ہمارا بیٹا واپس آ سکتا ہے۔ہمیں بس آپ سے ہی امید ہے اسلئے کہ (آپ ہی ) نیتن یاہو کو جنگ کے خاتمے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی فوج میں بیچینی بھی بڑھتی جارہی ہے اور سینکڑوں فوجی غزہ جانے پر تیار نہیں۔ ایک ریزرو سپاہی، 28 سالہ یوتم ولک نے کہا کہ '7 اکتوبر کے حملے کے بعد میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار غزہ گیا کہ میرے ملک کی بقا کا معاملہ تھا لیکن اب اسلحہ نہیں سفاتکاری کی ضرورت ہے۔ آخر ہم کتنے فلسطینیوں کو قتل اور اپنے کتنے مہہ پاروں کو قربان کرینگے۔میں جیل کو غزہ کی دلدل پر ترجیح دونگا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق  130 سے زیادہ سپاہیوں نے غزہ جانے سے انکار کردیا۔ ایک کھلے اجتماع میں ان جوانوں نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ 'ہمارا ضمیر نہتوں پر گولیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتا'

دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کیخلاف نفرت کے اظہار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آٹھ جنوری کو میکسیکو کے میوزیم میں ایک نوجوان نے وہاں نصب اسرائیلی وزیراعظم نیتھن یاہو کے مومی مجسمے کے قریب سرخ رنگ کا چھڑکاو کیا، ہتھوڑے سے مجسمے کے چہرے کو توڑا اور پھر 'فلسطین زندہ باد'، سوڈان زندہ باد' اور پورتوریکو زندہ باد 'کا نعرہ لگاتے ہوئے اسے زمیں بوس کردیا۔ یہ ساری کاروائی دن دیہاڑے درجنوں لوگوں سے سامنے ہوئی اور تماشائیوں نے تالیاں بجائیں۔ 

باضمیر دانشوروں کی آزمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ میں جامعہ کولمبیا کے کلیہ قانون کی سینئر پروفیسر ڈاکٹر کیتھرین فرینکKatherine Franke کو انتظامیہ اور ریپبلکن پارٹی کے ارکان کانگریس کی طرف سے شدید دباو کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ڈاکٹر صاحبہ انسانی حقوق خاص طور سے صنفی مساوات اور صنفی تعصب سے متعلق امور کی ماہر ہیں۔ غزہ نسل کشی پر انکا موقف بڑا دوٹوک تھا۔ جب کولمبیا کے طلبہ احتجاجاً خیمہ زن ہوئے تو ڈاکٹر صاحبہ نے طلبہ کے حقِ احتجاج و اجتماع کا قانونی دفاع کیا۔ انھوں نے جامعہ کے ڈیڑھ سو اساتذہ کی دستخطوں سے انتظامیہ کو خط لکھا جس میں کہا گہا تھا کہ طلبہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فلسطین پر 75 سالہ قبضے کے سیاق و سباق میں غزہ تنازعہ کو پیش کریں۔اس خط کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحبہ تنقید کا نشانہ بنیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کہ وہ کلاس میں اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں منفی تبصرے کرتی ہیں۔ چنانچہ انکے خلاف ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے فیصلہ سنایا کہ اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں ڈاکٹر کیتھرین کے تبصرے امتیازی تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحبہ مستعفی ہوگئیں۔ اپنے استفیٰ میں ڈاکٹر کیتھرین فرینک نے لکھا کہ 'انھیں عملاً برطرف کر دیا گیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈےاسپیشل کراچی17جنوری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 17جنوری 2025

روزنامہ امت کراچی 17 جنوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 جنوری 2025


ربنا وقنا عذااب النار لاس اینجلس کا ساحلی علاقہ شعلے کی نظر نو مقامات پر چھوٹی اور بڑی آگ بھڑک اٹھی 37 ہزار ایکڑ رقبہ خاکستر، 150 ارب ڈالر کا نقصان ہالی ووڈ کے اسٹوڈیو، ساحل پر بنے پرتعیش مکانات، عبادت گاہیں جل کر خاک

 

ربنا وقنا عذااب النار

لاس اینجلس کا ساحلی علاقہ شعلے کی نظر

نو مقامات پر چھوٹی اور بڑی آگ بھڑک اٹھی

37 ہزار ایکڑ رقبہ خاکستر، 150 ارب ڈالر کا نقصان

ہالی ووڈ کے اسٹوڈیو، ساحل پر بنے پرتعیش مکانات، عبادت گاہیں جل کر خاک

ابھی امریکی نیواورلینز (New Orleans)اور لاس ویگاس میں ہونے والی دہشت گرد کاروائی کے ہیجان سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ کیلی فورنیا کی قیامت خیز آگ نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ اتفاق سے انھیں دنوں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی آخری رسومات بھی جاری تھیں۔

خشک موسم میں کیلی فورنیا کے پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات بہت عام ہیں لیکن پہلی بار شہری آبادی اور خاص طور سے لاس اینجلس کا متمول ساحلی علاقہ، اچانک بھڑک اٹھنے والی آگ کا نشانہ بناہے۔ شدید خشک موسم میں درختوں کی ٹہنیاں آگ کیلئے بہترین خوراک ہیں اور جہنم دہکادینے کیلئے ہلکی سی چنگاری کافی ہے۔ شرپسندی کے علاوہ کسی سگریٹ نوش کی معمولی سی لاپرواہی کے علاوہ  تیز ہوا سے بعض اوقات کراری ٹہنیوں کی رگڑ چقماق کی طرح چنگاری اگلنے لگتی ہے اور ٹنڈ مند درخت بھڑک اٹھتے ہیں۔ کیلی فورنیا اور جنگلات سے ڈھکے دوسرے علاقوں میں آگ کا اچانک بھڑک اٹھنا غیر معمولی نہیں۔

اس بار بھی آتشزدگی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا،  بلکہ 2 جنوری کو مرکز موسمیات نے  جب ساحلی علاقوں میں 130 کلومیٹر فی گھنٹہ آندھی کی پیشن گوئی کی اسی وقت آگ کے خطرے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ پہاڑیوں پر گزشتہ برس معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جسکی وجہ ہر جگہ جنگلی گھانس اگ آئی تھی اور ماہرین متنبہ کررہے تھے کہ یہ گھاس خزاں میں خشک ہوکر آگ کیلئے بھیانک ایندھن کا کام کرسکتی ہے۔

سات جنوری کو جب ہوا کی رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، نو مقامات پر آگ بھڑک اٹھی، جن میں سے چھ پر جلد قابو پالیا گیا تاہم شعلے ٹھنڈے ہونے سے پہلے 9 ایکڑ اراضی خاکستر ہوچکی تھی۔ لاس اینجلس کے فیشن ایبل علاقے میں بھڑک اٹھنے والی پیلی سیڈس (Palisades) ، ایٹن (Eaton)اور ہرسٹ (Hurst)آگ قابو سے باہر ہوگئی۔ دوسرے دن نو مزید مقامات بھڑک اٹھے، تیسرے دن تین اور اور دس جنوری کو ایک نئی آگ نے جنم لیا۔ تادم تحریر چھ بڑی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔آگ میں تپےخشک تنوں کے ٹکڑے دہکتے ہوئے کوئلے (embers)کی شکل میں برس رہے ہیں۔

سب سے تباہ کن پلیسیڈ آگ ہے جس نے لاس اینجلس کے فیشن ایبل ساحلی علاقے کو لپیٹ میں لیا ہواہے۔ سترہ  ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر محیط یہ آگ اب تک 5000بازاروں، قیمتی مکانات، دفاتر، اسکول، عبادت گاہوں کو چاٹ چکی ہے۔حکام کے تخمینے کے مطابق پلییسڈ آگ ایک منٹ میں تین فٹبال میدانوں کے برابر رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ایٹن آگ اب تک 11 ہزار ایکڑ رقبے کو پھونک چکی ہے جبکہ ہرسٹ آگ کے شکار کا حجم 855 ایکڑ ہے۔

مجموعی طور پر 23 ہزار ایکڑ اراضی جل کر خاک، 10 ہزار عمارات تباہ اور 24 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مسجد التقویٰ جل کر منہدم ہوگئی۔ بہت سے اداکاروں اور شوبزنس سے وابستہ لوگوں کے قیمتی مکانات راکھ ہوگئے۔ آگ کی تباہ کاریاں ابھی جاری ہیں، 12 جنوری تک آگ پر قابو کا تخمینہ 11 فیصد اورانشورنس کمپنیوں کے مطابق آگ سے اثاثہ جات کو پہنچنے والے نقصانات کا حجم  150 ارب ڈالر ہے (حوالہ: رائٹرز)۔

لاس اینجلس میں اسوقت ہر طرف آگ، راکھ اور دھواں نظر آرہا ہے۔ فضا، عمارتی و گھریلو سامان ، کپڑے، پلاسٹک اور دوسرے اجزا کی آمیزش سے سانس لینا دشوار ہے۔اس حوالے سے تیز ہوا غنیمت ہے کہ آلودہ ہوا خود کسی حد تک خود بخود صاف بھی ہورہی ہے۔

لٹیروں اور اٹھائی گیروں نے اس آفت کو اضافی کمائی کا موقع بنالیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے جتھے، پناہ لئے لوگوں کو لوٹنے کیساتھ راکھ اور ملبے سے قیمتی چیزیں تلاش کررہے ہیں۔لاس اینجلس پولیس کے سربراہ (شیرف) نے دکھ بھرے لہجے میں کہا 'اسوقت جب ہماری توجہ لوگوں کی جان بچانے پر ہے، ہمیں بہت سے اہلکار شہریوں کا مال بچانے کیلئے تعینات کرنے پڑ رہے ہیں۔ انسان واقعی پتھر دل واقع ہواہے۔

جرائم پیشہ افراد کے ساتھ بیمہ کمپنیاں بھی حیلہ گری میں مصروف ہیں۔عام طور سے بیمہ پالیسی کی تجدید سال کے آغاز میں ہوتی ہے جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے، پرییمم کی تاخیر سے وصولی یا آن لائن ادائیگی میں تیکنیکی مسشکلات کے نام پر پالیسیاں منسوخ کی جارہی ہیں۔ ماہرین بہت سی انشورنس کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ کیلی فورنیا کی آگ نے امریکی بازار حصص پر جھاڑو پھیر دیا۔ جمعہ 10 جنوری کو ڈاوجونز صنعتی اشاریہ 725پوائنٹ یا 1.66 فیصد نیچے آگیا جبکہ بٹ کوائن (Bit Coin) کی قدر 3.44فیصد بڑھ گئی۔ اسی کیساتھ خام تیل 3.5فیصد مہنگا ہوگیا۔ماہرین اسے  سنسنی یا Headline effect کا شاخسانہ قراردے ہی اور بازار حصص کے پنڈت پراعتماد ہیں کہ اگلے ہفتے تک بازار مستحکم ہوجائیگا۔

نومنتخب صدر ٹرمپ تباہی کا الزام کیلی فورنیا کے ڈیموکریٹک گورنر پر لگارہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ نااہل ریاستی انتظامیہ نے محمکہ موسمیات کے انتباہ کے باوجود مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کئے۔ فائر انجنوں کیلئے مناسب مقدار میں پانی میسر نہ تھا اور حالیہ مالی سال کے دوران آگ بجھانے کے اخراجات میں بھاری کٹوتی کی گئی تھی۔

ایک عبرتناک نکتے پرگفتگوکا اختتام

لاس ایجنلس کی آگ میں ایمی ایوارد یافتہ جیمز ووڈز (James Woods)کا گھر بھی خاکستر ہوگیا۔اس تباہی پر CNNسے باتیں کرتے ہوئے جیمز صاحب روپڑے۔ کسی کو مشکل میں دیکھ کر خوش ہونا کوئی اچھی بات بات نہیں لیکن غزہ حملے کے بعد موصوف نے اسرائیل کے حق میں کئی زہریلے ٹویٹ کئے جس میں دو کچھ اسطرح تھے

جنگ بند نہیں ہوگی، معاہدہ نہیں ہوگا، ،معافی نہیں ملے گئ

اپنی ٹویٹ پر انھوں نے hash tag نصب کیا 'ایک ایک کو قتل کردو'

دوسرے پیغام میں بولے 'خدا کا شکر ہے کہ اسرائیل نے کٹھ پتلی بائیڈن کی بات نہیں سنی۔ واہ واہ شاباش'

اہل غزہ کی بربادی کی خواہش کرنے والےکا اپنا گھر آج شعلوں کی نذر ہوگیا۔ تاہم ہمیں یقین ہے کہ بیمہ کمپنی انکا گھر دوبارہ تعمیر کرادیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 جنوری 2025

ہفت روزیہ دعوت دہلی 17 جنوری 2025

روزنامہ امت کراچی

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 جنوری 2025