جمی کارٹر ۔۔ امریکی تاریخ کے پہلے غیر
صیہونی صدر
جمی کارٹر امریکی تاریخ کے
طویل ترین عرصے تک زندہ رہنے والے صدر تھے جنھوں نے 100 برس دوماہ اور 29 دن عمر پائی۔ دوسرے نمبر پر جارج
بش ہیں جو 94 برس 5 ماہ زندہ رہے اور 93 سال 5 ماہ کے ساتھ صدر فورڈ تیسرے نمبر پر
ہیں۔ خانگی اعتبار سے بھی جمی کارٹر کی زندگی مثالی رہی کہ 1946 میں نکاح کے بعد انھوں نے 2023 میں اپنی اہلیہ روزلین کے انتقال تک 77
برس انتہائی خوشگوار ازدواجی زندگی گزاری۔اپنی شادی کے بارے میں انھوں نے خود ہی
بتایا کہ 'روزلین انکی پڑوسی اور چھوٹی بہن روتھ کی سہیلی تھیں۔ایک دن جمی کارٹر
نے روزلین کو فلم دیکھنے کی دعوت دی اور سنیما سے واپس آتے ہوئے شادی کی پیشکش کردی،
جس پر روزلین نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے مشورہ کرکے جواب دینگی۔ گھر واپس آکر جمی
کارٹر نے اپنی والدہ اور روزلین نے اپنی ماں سے بات کی اور جلد ہی دونوں رشتہ
ازدواج میں بندھ گئے۔ایک اور دلچسپ بات کہ جمی کارٹر امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں
جنکی ولادت ایک ہسپتال میں ہوئی۔ اب تک برسراقتدار آنے والے تمام صدور نے اپنے
گھروں یا ننھیال و ددھیال میں آنکھ کھولی۔ کارٹر صاحب کی والدہ نرس تھیں اسلئے
انھیں یہ 'اعزاز' حاصل ہوا (حوالہ (Wikipedia)
جمی کارٹر ریاست جارجیا کے ایک
چھوٹے سے شہر پلینز (Palins)میں پیدا ہوئے۔انکے والد کاروبار کے ساتھ ایک
چھوٹے زمیندار تھے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی جمی کارٹر نے زرعی زمین خرید کر مونگ
پھلی کی کاشت شروع کردی اور مونگ پھلی ہی انکی شناخت بن گئی وہ بہت فخر سے اپنا
تعارف کراتے کہ I am Jimmy Carter, Peanut farmer from
Plains۔ جمی کارٹر نے
سات سال امریکی بحریہ میں خدمات
سرانجام دیں۔
کارٹر
صاحب نے سیاسی سفر کا آغاز ڈیموکریٹک پارٹی سے کیا اور وہ 1962 میں جارجیا کی
ریاستی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ سینیٹ کی مدت مکمل ہونے پر 1966 میں انھوں نے
گورنری کیلئے قسمت آزمائی کی جس میں وہ ناکام رہے، چار سال بعد وہ پھر میدان میں
اترے اور گورنر منتخب ہوگئے۔
گورنرہاوس
کے بعد انکی نظریں قصرِ ابیض کی طرف اٹھیں اور دسمبر 1974 میں انھوں نے واشنگٹں
میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا'میرا نام جمی کارٹر ہے اور میں امریکی صدر کا
انتخاب لڑرہاہوں' یہ بڑا غیر روائتی انداز تھا کہ سیاستدان عام طور سے اپنی جماعت
کے اجلاس میں امیدواری کا اعلان کرتے ہیں۔ جمی کارٹر قومی سطح پر انتہائی غیر
معروف تھے لہذا اس اعلان پر ایک صحافی نے پوچھا Jimmy who?
یعنی اپنا تعارف تو کرائیں۔اسکے بعد سے ایک عرصے تک جمی کارٹر کا نام ہی جمی ہو؟ ہوگیا۔ نومبر 1976 کے عام انتخابات میں
وہ صدر جیرالڈ فورڈ کو ہرا کر امریکہ کے 39 ویں صدر بن گئے۔ سیاہ فاموں نے انکے
انتخاب میں کلیدی کردار اداکیا۔ ہمارے لئے بھی 1976 کے انتخابات اس لحاظ سے ایک اہم
سنگ میل ہے کہ ہم نے مضمون نگاری کا آغاز امریکہ کی اسی انتخابی مہم سے کیا تھا۔
صدر
کارٹر نے حلف اٹھاتے ہی ویتنام لازمی فوجی بھرتی کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا
بھگتنے والوں کو عام معافی دیدی۔ دوسروں کے علاوہ مشہور باکسر محمد علی مرحوم کو
بھی اس صدارتی حکم کا فائدہ ہوا۔کارٹر حکومت کے آغاز پر شاہ ایران کے خلاف عوامی مہم
میں شدت آچکی تھی۔ کارٹر صاحب کو شاہ ایران بہت پسند تھے۔ صدر کارٹر نے رضا شاہ
پہلوی کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایران کو علاقے میں 'استحکام کا جزیرہ' قراردیا۔ شاہ کی غیر
مشروط حمائت کی وجہ سے ایران میں امریکی مخالف جذبات میں شدت آئی اور اسی کیساتھ
ایران کے سیاسی بحران نے تیل کی قیمتوں کو آگ لگادی اور مہنگائی کی لہر نے امریکہ
میں جمی کارٹر کو غیر مقبول کردیا۔ ستم ظریفی کہ جس امریکہ کے بل پر شاہ ایران
اپنے عوام کا غراتے اور گولیاں برساتے رہے اسی امریکہ نے معزولی کے بعد سرطان کے
علاج کیلئے انھیں اپنے ملک کا ویزہ نہ دیا۔ نومبر 1979 میں ایرانی طلبہ نے تہران
کے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرکے سفارتی عملے کو یرغمالی بنالیا۔اس دوران صدر
کارٹر پر ایران کے خلاف فوجی کاوائی کیلئے شدید دباو تھا لیکن نہ صرف انھوں نے عسکری
حل کو مسترد کردیا بلکہ جوابی اقدام کے طور پر امریکہ میں تعینات ایرانی سفارتی
عملے کو حراست میں لینے کے بجائے انھیں مکمل سفارتی آداب و احترام کیساتھ واپس
ایران بھیج دیا۔ انکے مخالفین نے بزدل کی پھبتی کسی لیکن صدر کارٹر کاموقف تھا کہ
سفارتی عملے کے بارے امریکہ اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
انھوں نے اپنے یرغمالیوں کو رہا کرانے کیلے چھاپہ مار کاروائی کی جو بری طرح ناکام
رہی۔ آپریشن کے دوران دو فوجی ہیلی کاپٹر تباہ اور امریکی چھاپہ مار دستے کے 8
اہلکار ہلاک ہوگئے۔عام انتخابات سے صرف سات ماہ پہلے ہونے والا یہ واقعہ انکی
انتخابی مہم کیلئے زہر قاتل ثابت ہوا۔
عالمی
سطح پر صدر کارٹر کی بڑی کامیابی مصر و اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ تھا جس پر
صدر انوارالسادات اور اسرائیلی وزیراعظم مینخم بیگن نے امریکی دارالحکومت کے
مضافاتی تفریحی مقام کیمپ ڈیوڈ میں دستخط کئے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے مطابق اسرائیل
نے مقبوضہ صحرائے سینائی خالی کردیا اور جواب میں مصر نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات
قائم کرلئے۔ اصولی طور پر اسرائیلی فوج کو غزہ بھی خالی کرنا چاہئے تھا جسے اس نے
1967 میں صحرائے سینائی کیساتھ ہتھیایا تھا لیکن تاریخ میں اپنا نام درج کرانے اور
نوبل انعام کے ہونکے میں صدر سادات چند کلیوں پر ہی قناعت کرگئے۔
صدر
کارٹر کے دور ہی میں 24 دسمبر 1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ قومی سلامتی
کیلئے صدر کے مشیر برزنسکی کا خیال تھا کہ روسی حملے کا مقابلہ ممکن نہیں اور اسکی
مزاحمت امریکہ کیلئے سخت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ واشنگٹن میں دفاعی ماہرین کے ایک
اجتماع میں جناب برزنسکی نے کہا کہ روس گرم پانیوں کے تعاقب میں آیا ہے اور اسکی
اصل منزل بلوچستان کا ساحل ہے۔ دفاع کیلئے صدر کارٹر نے پاکستان کو دوسال دورانئے
پر مشتمل 40 کروڑ ڈالر کی فوجی مدد پیش کی جسے جنرل ضیاالحق نے peanutsکہہ کر
مسترد کردیا۔ جنرل صاحب کی یہ بات امریکہ میں بہت مشہور ہوئی کہ کارٹر صاحب مونگ
پھلی کے کاشتکار تھے۔ اس سے پہلے ضیا
الحق، جناب ذوالفقار علی بھٹو کی جاں بخشی کیلئے امریکی صدر کی درخواست مسترد
کرچکے تھے۔
سفارتی
سطح پر صدر کارٹر کی بڑی کامیابی تخفیف
اسلحہ کیلئے روس (اسوقت سوویت یونین) سے تزویراتی ہتھیار کے عدم پھیلاو المعروف SALTمعاہدہ ہے جس پر 1979 میں صدر لیونڈ بریزنیف اور کارٹر نے دستخط کئے۔
نومبر
1980 کے انتخابات میں انھیں رپبلکن پارٹی کے رانلڈ ریگن کے ہاتھوں بری طرح شکست
ہوئی۔ صدارت سے سبکدوشی کے بعد بھی صدر کارٹر عالمی سطح پر قیام امن، انسانی حقوق،
فروغ جمہوریت اور نسلی تعصب اور سب سے بڑھ کر رفاحی کاموں میں سرگرم رہے۔انھوں نے
بے گھر لوگوں کو مکان بنا کر دئے اور تعمیری کام میں وہ خود بطور مزدور کام کرتے
تھے۔تنازعات کے پرامن حل کی تلاش، جمہوریت اور انسانی حقوق کے دفاع اور معاشی و سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ان
کی جدوجہد کے اعتراف میں جمی کارٹر کو
2002 کا نوبل امن انعام عطا ہوا۔
جمی
کارٹر فلسطینیوں کے حقوق کے کھل کرحامی تھے۔ انھوں نے غزہ اور غرب اردن کا دورہ
کرکے 2006 میں Palestine: Peace Not Apartheidکے عنوان سے ایک کتاب شایع کی جس میں انھوں
نے لکھا کہ 'اسرائیل کی پالیسیاں نسلی امتیاز کے حوالے سے جنوبی افریقہ سے بھی بدتر ہیں'۔
دلیل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینی بستیوں کے درمیان بلند دیوار
تعمیر کی گئی ہے ہے جو نسلی تفریق (Segregation)
کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔جمی کارٹر اسرائیل
کی سالمیت کے پرعزم و پرجوش حامی تھے لیکن نسل پرست پالیسیوں کی غیر مبہم مذمت کی بنا
پر امریکہ کااسرائیلی نواز طبقہ انھیں سخت ناپسند کرتا تھا۔ اسی بناپر ہم نے اپنے سرنامہ کلام میں جناب کارٹر کو “غیر صیہونی” امریکی
صدر لکھا ہے۔
جمی
کارٹر بطور امریکی صدر بہت کامیاب اور مقبول نہ رہے لیکن نصف صدی کے دوران وہ امریکہ
کے واحد صدر ہیں جنکے دور میں امریکہ نے کسی جگہ فوجی مداخلت یا عسکری کاروائی
نہیں کی۔ ایران کے معاملے میں ان پر فوجی آپریشن کیلئے شدید دباو تھا لیکن بزدلی کا طعنہ سہنے کے
باوجود انھوں نے صبرومتانت کا دامن نہ چھوڑا اور انتخابات میں شرمناک شکست بھی
گوارا کرلی۔ ایک اور اہم بات کہ اعلیٰ ترین منصب حاصل ہونے پر بھی اپنے گاوں سے
انکا رابطہ برقرار رہا۔ انھوں نے اپنا گھر 1960 میں تعمیر کیا تھا اور موت تک وہ
اسی گھر میں رہے اور وہ ہر جگہ اپنا تعارف مونگ پھلی کے کاشتکار کے طور پر کرواتے
تھے۔ راسخ العقیدہ مسیحی جمی کارٹر، پلینز کے Baptist
Churchمیں نوجوانوں کو ہفتہ وار انجیل مقدس بھی پڑھاتے
تھے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 جنوری 2025
روزنامہ امت کراچی 3 جنوری 2025
No comments:
Post a Comment