Thursday, January 16, 2025

غزہ میں امن کی امیدِ موہوم قیدی چھڑانے کیلئے ڈانلڈ ٹرمپ کا شدید دباو مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ؟؟؟ سلطنت اسرائیل و یہودہ کے قبل از مسیح نقشے کی اشاعت امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کا بل منظور کرلیا فوجیوں کے والدین کا نیتھں یاہو کے نام کھلا خط، ہمارے بچوں کو جنگ کا ایندھن مت بناو ہمارے وزیراعظم امن مذاکرات سبوتاژ کررہے ہیں۔ ٹرمپ سے ماں کی التجا میکسیکو میوزیم میں نیتھن یاہو کا مجسمہ توڑ دیا گیا جامعہ کولمبیا کی سینئر پروفیسر استعفیٰ پر مجبور

 

غزہ میں امن کی امیدِ موہوم

قیدی چھڑانے کیلئے ڈانلڈ ٹرمپ کا شدید دباو

مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ؟؟؟

سلطنت اسرائیل و یہودہ کے قبل از مسیح نقشے کی اشاعت

امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کا بل منظور کرلیا

فوجیوں کے والدین کا نیتھں یاہو کے نام کھلا خط، ہمارے بچوں کو جنگ کا ایندھن مت بناو

ہمارے وزیراعظم امن مذاکرات سبوتاژ کررہے ہیں۔ ٹرمپ سے  ماں کی التجا

میکسیکو میوزیم میں نیتھن یاہو کا مجسمہ توڑ دیا گیا

جامعہ کولمبیا کی سینئر پروفیسر استعفیٰ پر مجبور

غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے مزاحمت کاروں پر ڈانلڈ ٹرمپ کا دباو شدید ہوگیا ہے، وہ اپنی حلف برداری (20جنوری) سے پہلے قیدیوں کی رہائی پر بضد ہیں۔ صدر بائیڈن بھی جاتے جاتے یہ تمغہ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا'یرغمالیوں کے مذاکرات میں 'حقیقی پیش رفت' ہو رہی ہے، لیکن اہل غزہ معاہدے کی راہ میں 'رکاوٹ ہیں۔اس پر ہمیں معروف مزاح نگار کرنل محمد خان یاد آگئے جنھوں نے اپنے ایک دل پھینک دوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ 'موصوف ہر کچھ عرصہ بعد ایک نئے عشق کی کامیابی پر ہم دوستوں کو مٹھائی کھلانے کے بعد جذباتی لہجے میں روداد قلبی کچھ اسطرح بیان کرتے ' یار میرا عشق 50 فیصد کامیاب ہوچکا، میں تو بالکل یکسو ہوں بس وہ راضی ہوجائے تو سہرا سجالوں' بھولے بائیڈن تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ورنہ انھیں بھی معلوم ہے  کہ معاہدہ فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے، جب مزاحمت کار آمادہ نہیں تو پھر کیسی پیش رفت؟؟۔ اہل غزہ کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔بائیڈن اور ڈانلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ ترجیح قیدیوں کی رہائی جبکہ مزاحمت کار قیدیوں کے تبادلے سے پہلے جنگ بندی چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیووٹکاف (Steve Witkoff)دوحہ میں قطری و مصری حکام سے بات چیت کرکے 11 جنوری کو اسرائیل پہنچے جہاں انھوں نے وزیراعظم نیتھن یاہو سے گفتگو کی جسکے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد مزاحمت کاروں سے ملاقات کیلئے قطر بھیج دیا گیا۔ وفد میں اندرون ملک سراغراساں ادارے شاباک (Shin Bet)کے ڈائریکٹر ران بار بھی شامل ہیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق، اسٹیو وٹکاف نے قطر، مصر اسرائیل کی قیادت کو یہ بتادیا ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر 20 جنوری سے پہلے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف صدر بائیڈن کے خصوصی ایلچی برٹ مک گرک (Brett McGurk)اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس بھی دوحہ سے 12 جنوری کو اسرائیل پہنچ گئے۔

اسرائیل اور امریکہ سے جاری ہونے والی خبروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ ہیں اور اگر 'چند' زیر بحث نکات پر مفاہمت ہوگئی تو امن معاہدہ بس دنوں کی بات ہے۔ اس سے پہلے مستضعفین غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر اصرار کررہے تھے جس پر اسرائیل بظاہر تیار نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مزاحمت کار اس نکتے پر اسرائیل کو مراعات دینے کو تیار ہوگئے ہیں یا اسرائیل کے موقف میں نرمی کے اثار ہیں۔اس معاملے کو جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی ناک کا مسئلہ بنالیا ہے اور وہ مزاحمت کاروں، قطر، مصر اور اسرائیل سب پر دباو ڈال رہے ہیں۔ اہل غزہ کو براہ راست دھمکی دینا تو نومنتخب امریکی صدر کیلئے ممکن نہیں لیکن وہ مصر اور خلیجی حکمرانوں سے کہہ رہے کہ کس بھی طرح مستضعفین کو قیدیوں کی رہائی پر آماد کرو ورنہ یہ خود تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا۔

مذاکرات کی کامیابی اور قیدیوں کی رہائی سے قطع نظر فلسطیینوں کیلئے راحت کا ہمیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ امن معاہدے کے بعد بھی اسرائیل لبنان کی طرح مختلف حیلوں اور بہانوں سے غزہ پر حملے جاری رکھے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیردفاع اسرائیل کٹز کی صدارت میں فوجی سربراہوں کا اجلاس ہوا جس میں غزہ پر ایک نئے حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جنوبی لبنان، یمن، غزہ اور غرب اردن کے مختلف مقامات پر بمباری میں اس ہفتے شدت محسوس ہوئی۔ اسی کیساتھ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی کھل کر تشہیر کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹویٹر پر 928 قبل مسیح میں بنا سلطنت اسرائیل و یہودا کا نقشہ  شایع ہوا جس میں اردن، غرب اردن، شام اور لبنان کے بڑے حصے کو اسرائیلی سلطنت کا حصہ قراردیا گیا ہے۔ نقشے کی عربی میں اشاعت معنی خیز ہے۔

غزہ کے ساتھ غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکانات کے انہدام کا سلسلہ جاری ہے۔ خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)نے ان کاروائیوں پر شدید مزاحمت کا خدشہ ظاہر کیا تھا، چنانچہ اسرائیلی فوج کی تین تازہ دم بٹالین جنین کی طرف روانہ کردی گئیں ہیں۔ قبضہ گرد انتہا پسندوں نے غرب اردن میں جگہ جگہ بل بورڈ لگا دئے ہیں جن پر عربی میں لکھا کہ فلسطین کا کوئی مستقبل نہیں۔

اسرائیل کی حمائت میں امریکہ کا عزم غیر متزلزل لگ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے پر امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوجداری عدالت ICCپر پابندیوں کا بل 155کے مقابلے میں 243ووٹوں سے منظور کرلیا، ڈیموکریٹس کی اکثریت نے بل کی مخالفت کی۔ یہ بل گزشتہ برس بھی منظور ہوا تھا لیکن سینٹ سے منظور نہ ہونے کی بناپر یہ مسودہ قانون غیر موثر ہوگیا۔ تاہم اب جبکہ سینیٹ پر ریپبلکن کو واضح برتری حاصل ہے اس بل کی ایوان بالا سے منظوری کا امکان بہت روشن ہے۔ دوسری طرف،  واشنگٹن، غزہ بربریت کو نسل کشی نہ قرار دینے کے موقف پر ثابت قدم ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ 'غزہ میں مارے جانیوالے شہریوں کی تعداد ناقابل قبول ہے لیکن اسرائیلی آپریشن کو نسل کشی نہیں کہا جاسکتا'

تاہم بھاری جانی نقصان سے خود اسرائیل کے اندر جنگ بندی کیلئے مطالبہ زور پکڑگیا ہے۔ غزہ تعینات 800 فوجیوں کے والدین نے وزیراعظم نیتھن یاہو کے نام ایک کھلے خط میں لکھا 'ہمارے بچے آپکی ہوس اقتدار کا ایندھن بن رہے ہیں۔یہ بے مقصد جنگ صرف آپ کی اپنے مفاد میں ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ایک غیر ضروری جنگ میں جھونکے جارہے ہیں جو آپ کے اقدامات سے ہم پر آئی ہے۔ ہمارے بچوں نے بہت سے دوستوں کو کھو دیا اور ذہنی اور جسمانی طور پر مررہے ہیں اور زخمی ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے پاس غزہ میں رہنے کا کوئی جواز سوائے وہاں آباد ہونے کی مسیحائی خواہشات کے' حوالہ: ٹائمر آف اسرائیلِ یروشلم پوسٹ، Ynetnews

غزہ میں قید ایک اسرائیلی فوجی نمرود کوہن کی والدہ وکی کوہن نے  ڈانلڈ ٹرمپ کو ایک کھلا خط لکھا کہ 'ہمارے وزیر اعظم معاہدے کو سبوتاژ اور جنگ کو روکنے سے انکار کر رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے پر ہی ہمارا بیٹا واپس آ سکتا ہے۔ہمیں بس آپ سے ہی امید ہے اسلئے کہ (آپ ہی ) نیتن یاہو کو جنگ کے خاتمے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی فوج میں بیچینی بھی بڑھتی جارہی ہے اور سینکڑوں فوجی غزہ جانے پر تیار نہیں۔ ایک ریزرو سپاہی، 28 سالہ یوتم ولک نے کہا کہ '7 اکتوبر کے حملے کے بعد میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار غزہ گیا کہ میرے ملک کی بقا کا معاملہ تھا لیکن اب اسلحہ نہیں سفاتکاری کی ضرورت ہے۔ آخر ہم کتنے فلسطینیوں کو قتل اور اپنے کتنے مہہ پاروں کو قربان کرینگے۔میں جیل کو غزہ کی دلدل پر ترجیح دونگا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق  130 سے زیادہ سپاہیوں نے غزہ جانے سے انکار کردیا۔ ایک کھلے اجتماع میں ان جوانوں نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ 'ہمارا ضمیر نہتوں پر گولیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتا'

دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کیخلاف نفرت کے اظہار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آٹھ جنوری کو میکسیکو کے میوزیم میں ایک نوجوان نے وہاں نصب اسرائیلی وزیراعظم نیتھن یاہو کے مومی مجسمے کے قریب سرخ رنگ کا چھڑکاو کیا، ہتھوڑے سے مجسمے کے چہرے کو توڑا اور پھر 'فلسطین زندہ باد'، سوڈان زندہ باد' اور پورتوریکو زندہ باد 'کا نعرہ لگاتے ہوئے اسے زمیں بوس کردیا۔ یہ ساری کاروائی دن دیہاڑے درجنوں لوگوں سے سامنے ہوئی اور تماشائیوں نے تالیاں بجائیں۔ 

باضمیر دانشوروں کی آزمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ میں جامعہ کولمبیا کے کلیہ قانون کی سینئر پروفیسر ڈاکٹر کیتھرین فرینکKatherine Franke کو انتظامیہ اور ریپبلکن پارٹی کے ارکان کانگریس کی طرف سے شدید دباو کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ڈاکٹر صاحبہ انسانی حقوق خاص طور سے صنفی مساوات اور صنفی تعصب سے متعلق امور کی ماہر ہیں۔ غزہ نسل کشی پر انکا موقف بڑا دوٹوک تھا۔ جب کولمبیا کے طلبہ احتجاجاً خیمہ زن ہوئے تو ڈاکٹر صاحبہ نے طلبہ کے حقِ احتجاج و اجتماع کا قانونی دفاع کیا۔ انھوں نے جامعہ کے ڈیڑھ سو اساتذہ کی دستخطوں سے انتظامیہ کو خط لکھا جس میں کہا گہا تھا کہ طلبہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فلسطین پر 75 سالہ قبضے کے سیاق و سباق میں غزہ تنازعہ کو پیش کریں۔اس خط کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحبہ تنقید کا نشانہ بنیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کہ وہ کلاس میں اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں منفی تبصرے کرتی ہیں۔ چنانچہ انکے خلاف ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے فیصلہ سنایا کہ اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں ڈاکٹر کیتھرین کے تبصرے امتیازی تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحبہ مستعفی ہوگئیں۔ اپنے استفیٰ میں ڈاکٹر کیتھرین فرینک نے لکھا کہ 'انھیں عملاً برطرف کر دیا گیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈےاسپیشل کراچی17جنوری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 17جنوری 2025

روزنامہ امت کراچی 17 جنوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 جنوری 2025


No comments:

Post a Comment