Thursday, March 27, 2025

 

بمباری میں شدت، ہسپتال خصوصی ہدف، تازہ دم ٹینک ڈویژن غزہ بھیج دیا گیا

ویزے کی حامل جامعہ براون ہسپتال کی لبنان نژاد اسسٹنٹ پروفیسر امریکہ بدر

غزہ کے ایک سابق افسر کا ہندوستانی داماد گرفتار

ایندھن ختم۔۔ کتابیں کاپیاں جلا کر چولہے دہکائے جارہے ہیں

 امن مذاکرات اب تلواروں کے سائے میں ہونگے۔ نیتن یاہو

دوپاکستانی صحافیوں کا دورہ اسرائیل

غزہ پر 17 مارچ سے خوفناک بمباری کا جو سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے اس میں ہر روز شدت آتی جاری ہے۔اہل غزہ کو فضا سے برسنے والی آتش و آہن کی بارش کیساتھ ٹینک کے گولوں اور بحیرہ روم میں تعینات جنگی جہازوں سے برستےشعلوں کا سامنا ہے۔ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے۔ اہل غزہ 19 جنوری کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کےبعد اپنے تباہ حال  گھروں میں واپس آگئے ہیں اور بمباری کا براہ رست نشانہ نہ بننے پر بھی محض خوفناک دھماکوں سے ہی یہ بوسیدہ ومخدوش اور گری و ادھڑی عمارتیں مہندم ہوکر مکینوں کی مدفن  بن رہی ہیں۔

امریکہ نے غزہ پر دوبارہ حملے کی بھرپوراورغیرمشروط حمائت کا اعلان کیا ہے۔ قصر مرمریں کی ترجمان محترمہ کیرولائن لیوٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'صدر ٹرمپ غزہ میں اسرائیل کے حالیہ اقدامات کی مکمل حمائت کرتے ہیں' قوم سے اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم نے بہت دوٹوک لہجے میں کہا کہ اب امن مذاکرات تلواروں کے سائے (Under the Fire)میں ہونگے۔ جنگی جنون کے نتیجے میں نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔انکے وکیل نے عدالت کو درخواست دی تھی کہ نازک ملکی صورتحال کی بناپر وزیراعظم کے اصالتاً یا وکالتاً مقدمے کی پیروی ممکن نہیں۔

حملوں کے دوبارہ آغاز پر دنیا کا ردعمل اظہارِ تشویش سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جرمن وزیرخارجہ محترمہ انالینا بئیر بک نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے لڑائی کے دوبارہ آغاز نے  علاقے میں امن کی امید کو خاک کردیا ہے، جبکہ یورپی یونین کی نگراں خارجہ امور محترمہ Kaja Kallas نے فون پر اپنےاسرائیلی ہم منصب کو باور کرایا کہ غزہ میں اسرائیل کی حالیہ عسکری مہم یورپی عوام کیلئے“ناقابل قبول” ہے۔ ایک عرب سفیر نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ جنگ کے دوبارہ آغاز کے محرکات نیتن یاہو کے ذاتی اور سیاسی مفادات ہیں۔ احتیاط کا یہ عالم کہ فاضل سفیر نے اپنی شناخت پوشییدہ رکھنے کی شرط پر یہ بیان جاری کیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNICEFکی ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی بمباری سے صرف ایک دن میں 126 بچے جاں بحق ہوئے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان نے UNICEEFکی اس رپورٹ کا خلاصہ انسٹا گرام پر دیتے ہوئے لکھا کہ  غزہ پر (اسرائیلی) حملے کے بعد نظر آنے والے مناظر لرزہ خیز ہیں۔

عبوری جنگ بندی تحلیل کرنے کا بنیادی محرک غزہ خالی کرانا معلوم ہوتا ہے۔کرپشن کے مقدمات سے نیتن یاہو کی گلو خلاصی، اندرون ملک سراغرساں ادارے شاباک (Shin Bet)کے سربراہ کی برطرفی سے پیدا ہونے والے عوامی  ردعمل کو ٹھنڈا کرنا، اٹارنی جنرل کی معزولی اور مقامی و جماعتی سیاست گری کے اضافی فوائد کا حصول اس وحشت کے ثانوی مقاصد ہیں۔حملے کے دوبارہ آغاز پر وزیردفاع  اسرائیل کاٹز نے عسکری کاروائی کا ہدف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے قیدی رہا نہ کئے گئے تو رہائشی علاقوں سے شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل پر غزہ کے بڑے علاقے کا اسرائیل سے الحاق کرلیا جائیگا۔ انکا کہنا تھا کہ اسرائیل، صدر ٹرمپ کے 'غزہ خالی کرو' منصوبے پر علمدرآمد کیلے تمام عسکری، شہری اور سفارتی وسائل استعمال کریگا۔اہل غزہ کی جبری جلاوطنی کیلئے بریگیڈیر جنرل عفر ونٹر کی سربراہی میں Depopulation Directorateقائم کردیا گیاہے۔ ساتھ ہی لبنانی جریدے الاخبار نے انکشاف کیا ہےکہ مصر کے جنرل السیسی پانچ لاکھ اہل غزہ کو صحرائے سینائی میں بسانے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔اور تواور مقتدرہ فلسطین (PA) اور الفتح (PLO) مزاحمت کاروں سے غزہ چھوڑنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ الفتح کے ترجمان منصورالحق نے کہا حماس غزہ کا اقتدار چھوڑ کر اہل غزہ کی نسل کشی رکواسکتی ہے۔

لیکن مزاحمت کار ہتھیار رکھنے یا غزہ خالی کرنےکو تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں 'صفحہ ہستی سے مٹادینے' کے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے نمائندہِ خصوصی اسٹیو وٹکاف نے بیان جاری کیا کہ 'اگر غزہ مزاحمت کار سیاسی طاقت کے طور پر باقی رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اسلحہ رکھ کر عسکریت سے اجتناب کرنا ہوگا'، مزاحمت کاروں نے فاضل ایلچی صاحب کے بیان کو مہمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ عسکریت نہیں مزاحمت ہے، فلسطینی عوام یہ ہتھیار غاصبوں کی مزاحمت کیلئے استعمال کررہے پیں۔ اپنے بنیادی حق کیلئے ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے عین مطابق ہے'

غزہ خالی کرانے کیلئے بھرپور نفسیاتی مہم شروع کردی گئی ہے۔ اسرائیلی طیاروں سےغزہ میں پمفلٹ گرائے جارہے ہیں، جسمیں لکھا ہے 'دنیا کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے۔ تم سب مٹا بھی دیئے جاؤ تو دنیا کے نقشے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا خود ہی اپنے بارے میں سوچو۔ امریکہ اور نہ یورپ کو کوئی پرواہ نہیں۔حتی کہ تمہارے عرب ممالک کی بھی ساری ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں، وہ ہمیں مال اور اسلحہ بھیجتے ہیں اور تمہیں کفن۔ جلدی نکلو، کھیل ختم ہونے والا ہے'۔ ایک اور پمفلٹ میں عوامی جائزے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نصف سے زیادہ اہل غزہ نقل مکانی پر رضامند ہیں۔

غزہ کو شمال و جنوب میں تقسم کرنے کیلئے اسرائیلی فوج نے نظارم راہداری (Netzarim Corridor) بنائی تھی۔ جنگ بندی کی ایک شرط کے طور پر اسرائیل نے یہ راہ داری خالی کردی تھی لیکن اب اس پر دوبارہ قبضہ کرلیاگیا ہے۔دوسری طرف مصر کی سرحد پر قائم فلاڈیلفی راہداری کو بھی وسعت دی جارہی ہے۔ عسکری کاروائی میں شدت لانے کو ایک تازہ دم ٹینک ڈویژن غزہ بھیج دیا گیا ہے۔ شدید ناکہ بندی کی وجہ سے سارے غزہ میں قحط کا عالم ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPکے مطابق ایندھن ختم ہونے کی بناپر پرانی کتابیں جلا کر چولہے دہکائے جارہے ہیں۔ گزشتہ دس دنوں میں مزاحمت کارقیادت کے بہت سے سینئر رہنماجاں بحق ہوگئے۔

تازہ اسرائیلی کاروائی کا مرکزی ہدف اسپتال اور طبی سہولیت کے بچےکچھے مراکز ہیں۔نصر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کو اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری، کرکے تباہ کردیا، اسکا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ نے ڈھٹائی سے کہا کہ وہاں دہشت گرد چھپے ہوئے تھے۔ غزہ کے واحد انسدادِکینسر مرکز Turkish-Palestinian Friendship Hospital  کو بمباری کرکے ریت کا ڈھیر بنادیاگیا۔ اسرائیلی فوج نے  اسپتال کی تباہی سے پہلے اور بعد کی تصاویر فخریہ انداز میں جاری کیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی کیمپوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے  ر فح کے قریب زخمیوں کو لے کر جانے والی ایمبیولنس پر بمباری کی گئی۔

امریکہ نے بھی علاقے میں عسکری موجودگی کو مزید تقویت دینے کا اعلان کیاہے۔ بحرجاپان میں تعینات جوہری ایندھن سے لیس طیارہ بردار جہاز USS Carl Vinsonکو بحیرہ احمر کی طرف روانہ کیا جارہا ہے۔طیارہ بردار جہاز ہیری ٹرومین پہلے ہی وہاں موجود ہے۔کچھ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ حوثیوں کو کچلنے کیلئے صدر ٹرمپ وہاں زمینی فوج اتارنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیلی عسکری ماہرین کی دانست میں اضافی بحری اثاثے'غزہ خالی کرو مہم'میں معاونت  کیلئے استعمال ہونگے۔

غزہ خالی کرانے ساتھ غرب اردن سے فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، 23 مارچ کو اسرائیلی ٹینکوں کے آڑ لیکر قبضہ گردوں (Settlers)کا ہجوم الخلیل (Hebron)کے قصبے سوسیۃ پر چڑھ دوڑا۔ ان اوباشوں نے  فلسطینیوں کے مکانوں، دوکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔فسادیوں کے واپس جانے کے بعد پولیس آپریشن شروع ہوا اور 'دہشت گردی' کے الزام میں آسکر ایوارڈ یافتہ حمدان بلال سمیت سوسیہ کے تین رہائشی گرفتار کرلئے گئے۔حمدان بلال اور اسکے فلسطینی ساتھی نے اسرائیلی فلمساز کے ساتھ مل کر غرب اردن میں قبضہ گردوں کی دہشت گردی پر No other landکے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جسے گزشتہ ماہ آسکر ایوارڈ ملا تھا۔

سخت بے سروسامانی اور مشکل حالات میں بھی غزہ کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی حملہ شروع ہونے کے دوسرے ہی دن  غزہ سے راکٹ داغ دئے گئے۔امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے ان راکٹوں کو فضا ہی میں غیر موثر کردیا۔ایک راکٹ کا ملبہ تل ابیب کے فیشن ایبل مضافاتی علاقے رشان لیتزیوں Rishon Lezionمیں گرا۔ کوئی جانی اور مالی نقصان تو نہ ہوا لیکن علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔امریکہ کی شدید بمباری کے باوجود حوثیوں کے میزائیل حملے بھی جاری ہیں۔بحیرہ مردار کے آس پاس اور یروشلم میں ہوائی حملے کے سائرن نے عوام کا سکون غارت کردیا ہے، 19 مارچ کو بن گوریان ائرپورٹ پر میزائیل حملے کا سائرن اسوقت بجا جب لوگ حکومت کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ مظاہرین نے جان بچانے کیلئے زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگادی۔اس بھگدڑ میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے لبنانی مزاحمت کاروں کی عسکری صلاحیت مکمل طور پر کچل دینے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن 22 مارچ کو لبنان سے اسرائیی شہر المطلۃ پر 5 راکٹ برسائے گئے۔  آئرن ڈوم نے پانچوں راکٹ فضا ہی میں ناکارہ کردئے لیکن علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔

دوبارہ جنگ شروع کرنے پر اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین سخت پریشان ہیں۔  غزہ سے رہا ہونے والے 40قیدیوں نے حکومت کے نام ایک کھلے خط میں لکھا کہ نیتن یاہو نے ایک بے مقصد اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کاراستہ منتخب کرلیا ہے۔ یہ راستہ قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ بات چیت کے ذریعے قیدیوں کی رہائی اور پائیدار امن میں سب کا فائدہ ہے۔ اسرائیل کے سابق چیف جسٹس ہارون باراک نے  چینل 12 اور Ynetکو انٹرویو دیتے ہوئے غزہ جنگ اور سیاسی کشیدگی کو انتہائی خطرناک قراردیا۔ انکاکہنا ہے کہ سیاسی تناؤ تشویشناک حدوں کو چھو رہا ہے، غزہ امن اور ملک کے اند مفاہمت کیلئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اسرائیل بہت جلد خانہ جنگی کا شکار ہوجائیگا۔

نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مشرقی یروشلم سے فلسطینی صحافی محترمہ لطیفہ عبدالطیف کو گرفتار کرلیا گیا۔رائٹرز،ABC، BBC، الجزیرہ اور دوسرے ادارے خبروں و تجزیوں کیلئے فری لانس لطیفہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ چند روز قبل انھیں گھرآتے ہوئے دہشت گردوں سے ہمدردی کے الزام میں گرفتار کرکے جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو جج صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ کسی دہشت گرد کا نام لینا کب سے دہشت گردی ہوگیا۔ لیکن مجسٹریٹ کےحکم کے باوجود لطیفہ کو رہا نہیں کیا گیا۔

گزشتہ ہفتے مشہور درسگاہ جامعہ براون (Brown University, RI)کی اسسٹنٹ پروفیسر، ماہر امراضِ گردہ لبنانی نژاد ڈاکٹر ارشہ الواح کو امریکہ واپس آتے ہوئے بوسٹن ائرپورٹ سے گرفتار کرکے ملک بدر کردیا گیا، ڈاکٹر صاحبہ کے پاسپورٹ پر لگے H1B ویزا کی مدت 2028 تک ہے۔ ڈاکٹر ارشہ الواح پر الزام ہے کہ انھوں نے حسن نصراللہ کے جنازے میں شرکت کی تھی جودہشت گردوں سے سہولت کاری کی ایک شکل ہے۔

جامعہ جارج ٹاون میں سفارتکاری کے ہندوستانی طالب علم بدرخان سوری کو گرفتار کرکے جلاوطنی کا پروانہ تھمادیاگیا۔ سوری کا قصور یہ ہے کہ اسکی فلسطینی نژاد امریکی اہلیہ کے والد غزہ حکومت کے ایک سابق افسر ہیں۔سوری کی ملک بدری کے خلاف وفاقی جج محترمہ پیٹریشیا گائلس نے حکم امتناعی جاری کردیا تاہم یہ بےگناہ فی الحال جیل ہی میں رہیگا کہ عزیزِ مصر ہوں یا دورِ حاضر کے فرعون  لوگوں کو بلاوجہ جیل میں ڈالنا بے ایمان حکمرانوں کا پرانا ہتھکنڈا ہے۔جامعہ کولمبیا کے طالب علم محمود خلیل کے مقدمے کی سماعت اگلے ماہ ہوگی۔غزہ نسل کشی کیخلاف مظاہروں کے اس پرعزم قائد پر سام دشمنی (Antisemitism) کا الزام ہے، جسکی پاداش میں  گرین کارڈ (مستقل رہائشی ویزا) منسوخ کرکے جلاوطنی کیلئے اسے 8 مارچ کو گرفتار کیا گیا۔ وفاقی جج نے حکم امتناعی جاری کرکے اسکی جلا وطنی تو معطل کردی لیکن محمود ابھی تک جیل میں ہے۔جامعہ کورنیل (Cornell University)میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ممدو طعل کو غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں شرکت پر جامعہ کی انتظامیہ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ چنانچہ حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے عدالت سے رجوع کرلیا۔ اپنی درخواست میں ممدو نے استدعا کی ہے کہ ایمیگریشن حکام کو اسکے خلاف کاروائی سے روکا جائے۔پیر24 مارچ کو ملنے والے ایک نوٹس میں اسےفوری طور پر ایمگریشن حکام کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیاگیا ہے۔ دوسری طرف محکمہ انصاف نے عدالت کے نام مکتوب میں فاضل جج کو مطلع کیا کہ مظاہروں میں حصہ لینے کی بنا پر ممدو طعل کا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کیا جاچکا ہے۔

پکڑ دھکڑ کے باوجود اسرائیل کا تعاقب جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ہالی ووڈ میں اسرائیلی اداکارہ غال گیدت (Gal Gadot) کی Walk of Fameایوارڈ تقریب کے دوران غزہ نسل کشی کیخلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا۔نعروں کی وجہ سے تقریب میں بار بار خلل آیا۔

گزشتہ نشست میں ہم نے ایک باضمیر پاکستانی آرکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری کا ذکر کیا تھا جنھوں نےاسرائیلی ادارے وولف فاونڈیشن کا ایوارڈ اور ایک لاکھ ڈالر یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ میں اسرائیلیوں سے اعزازوصول کرکے اہل غزہ کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکوں گی۔ اُسی پاکستان کے دو صحافیوں قیصر عباس اور شبیر خان نے اسرائیل کا دورہ کیا۔دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطہ پیدا کرنا ہے۔ قیام اسرائیل کے دوران وہ تل ابیب میں Hostage Squareگئے اور غزہ کے قریب ان علاقوں کی 'زیارت'  کی جہاں سات اکتوبر 2023کو مزاحمت کاروں نے کاروائی کی تھی۔ ان دونوں کو معصوم اسرائیلیوں کے خلاف  'دہشت گرد' کاروائی کے اثار دیکھ شدید صدمہ پہنچا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 مارچ 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 مارچ 2025

روزنامہ امت کراچی 28 مارچ 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 مارچ 2025


Wednesday, March 26, 2025

 

اسرائیل کا قطر گیٹ اسکینڈل

آجکل اسرائیل میں قطر  گیٹ اسکینڈل کا بڑا چرچا ہے۔ اندرون ملک سراغرساں ادارے شاباک (Shin Bet) کے مطابق، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران  وزیراعظم نیتن یاہو کے مشیر  اور ترجمان ایلی  فیلڈسٹائن  (Eli Feldstien)نے قطری حکام سے رشوت وصولکی۔اس اسکینڈل کا انکشاف وزارت اطلاعات کے  سابق ڈائریکٹر جنرل ، سلام فلبر (Shlomo Filber)نے کیا تھا ۔ سلام فلبر نے الزام لگایا کہ حقیقت  طشت از بام کرنے پر  وزیراعظم کے تین دوسرے مددگاروں   جوناتھن  اورخ (Yonathan Orich)،عفر گولان (Ofer Golan)اور اسرائیل آئن ہارن (Israel Einhorn)نے انھیں اسقدر  ڈرایا اور دھمکایاکہ موصوف کو اپنے عہدے سے استعفٰی دینا پڑا۔ جبکہ ان تین افراد کا کہنا ہے کہ سارا فساد وزیراعظم کے چہیتے ایلی فیلڈسٹائن نے پھیلایا ہے۔ ہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق ہے نہ ہمیں کسی کو ڈرانے دھمکانے کی ضرورت۔

نیتن یاہو  نے معاملے کی 'حساسیت'  کا ہواکھڑا کرکے عدالت سے زباں بندی یا Gag Orderحاصل کرلیا۔ یعنی  تاحکم ثانی  اس معاملے کی کوئی تفصیل افشا نہیں  جاسکتی،  چانچہ  اب تک یہ  نہیں معلوم نہ ہوسکا کہ قطری حکام نے  اسرائیلی افسر  (یا افسران)کو کس کام کیلئے رشوت پیش کی۔ شاباک نےاٹارنی جنرل  کے نام اپنی ابتدائی رپورٹ میں  ایلی فلیڈسٹائن پر  جو الزمات عائد کئے ہیں ان میں  رشوت  خوری، غیر ملکی ایجنٹ سے رابطہ، عوامی اعتماد کی پامالی، منی لانڈرنگ اور ٹیکس جرائم شامل ہیں۔ شاباک کے مطابق رشوت بہت مہین طریقے سے حاصل کی گئی۔ یعنی   مذاکرات کے دوران چونکہ ایلی فیلڈاسٹائن قطر کے مہمان تھے لہٰذا انھیں اعزازیہ عطاکیا گیا۔ حوالہ:عبرانی  اخبار معارف (Maariv)

سیاسی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اعزازیہ تو   دودھ کی بالائی ہے۔ اصل آمدنی اس سے بہت زیادہ ہے  اور اس بہتی گنگا میں نیتن یاہو اور انکی اہلیہ نے  جی بھر کے اشنان فرمایا۔دوسری طرف وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ادارے کے سابق سربراہ رونن بار کی نااہلی پرانگلیاں اٹھ رہی تھیں اور نیتن یاہو نے انھیں متنبہ کردیا تھا کہ اگر شاباک  کی کارکردگی میں واضح بہتری نہ آئی تو رونن بار کو برطرف کردیا  جائیگا۔ ذلت آمیز سبکدوشی  کو 'دیانتی شہادت' کا رنگ دینے کیلئے رونن بار نے رشوت خوری کا افسانہ تراشہ ہے۔ رونن بار کی برطرفی پرشدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے   حزب اختلاف نے ملک گیر تحریک چلارکھی ہے۔ اٹارنی  جنرل محترمہ غالی بہراف معیارہ (Gali Baharaav-Miara)  نے رونن بار کی برطرفی کو خلاف ضابطہ قراردیا اور اس کو بنیاد بناتے ہوئےاسرائیلی عدالت عالیہ نے جناب بار کی برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا  جس پر مشتعل ہوکر نیتن یاہو اٹارنی جنرل کو بھی برطرف کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی کابینہ نے 23 مارچ کو اٹارنی جنرل کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی۔ خیال ہے کہ موصوفہ بہت جلد برطرف کردی جائینگی۔

شاباک کے سربراہ اور اٹارنی جنرل کی برطرفی  اسرائیل کا اندرونی معاملہ جس سے بیرونی دنیا کو کوئی سروکار نہیں لیکن  اگر قطر گیٹ اسکینڈل میں کوئی حقیقت ہے تو  یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ قطری حکام نے نیتن یاہو کے ترجمان کو کس خدمت کے عوض رشوت دی ؟۔ تاہم عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے Gag order کی بناپر اس راز تک پہنچنا ممکن نہیں ۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 مارچ 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 مارچ 2025


Thursday, March 20, 2025

 

غزہ پر بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع

فلسطین کے بارے میں اپنی زبان بند رکھو۔ کلیہ صحافت، جامعہ کولمبیا کا اپنے طلبہ کو انتباہ

اہل غزہ کو بسانے کیلئےسوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ کے بعد شام سے گفتگو

امریکہ کے اعتراض پر G-7 تنظیم، فلسطینی ریاست کے موقف سے دستبردار

غزہ خالی کرنے کے سوا مزاحمت کاروں کےپاس اورکوئی راستہ نہیں۔ اسٹیو وٹکاف

شدید بمباری اور حملوں کے باوجود غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کا نظام محفوظ

پاکستانی آرکیٹیکٹ نے اسرائیلی انعام وصول کرنے سے انکار کردیا

انیس جنوری کو شروع ہونے والی عارضی جنگ بندی اسرائیل نے ختم کردی۔ منگل  18 مارچ کو سحری کے وقت ساری پٹی پر شدید بمباری سے جنگ  کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ سو افراد جاں بحق اور تین سو سے زیادہ زخمی ہیں۔اسرائیلی وزیردفاع نے بمباری کیساتھ بری فوج کو بھی پیشقدمی کا حکم دیدیا ہے۔ حسب توقع امریکہ نے اسکا الزام اہل غزہ کے سر دھردیا۔ قصر مرمریں کی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا کہ مزاحمت کاروں نے قیدیوں کو رہا نہ کرکے جنگ بندی میں توسیع کے بجائے جنگ کا خود انتخاب کیا ہے۔

بمباری دوبارہ شروع کرنے کی پیشبندی کئی ہفتوں سے جاری تھی۔امن مذاکرات کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکاف کے لب و لہجے میں تبدیلی سے اندازہ ہورہاتھا کہ امریکہ کو معاملے کے پرامن حل سے دلچسپی نہیں اور صدر ٹرمپ غزہ کو بزور طاقت خالی کرانےکا عزم کرچکے ہیں۔قطر سے واپس جاتے ہوئے جناب وٹکاف نے بہت دوٹوک لہجے میں دھمکی دی کہ 'مزاحمت کار تمام قیدی فوراً رہا کردیں، ورنہ انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑیگی'۔ انھوں نے کہا کہ 'دہشت گرد' سمجھ رہے ہیں کہ وقت انکے ساتھ ہے، ایسا ہرگز نہیں، ہر گزرتے دن کیساتھ غزہ پر جہنم کے دروازے وا ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں'۔اس سے ایک دن پہلے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر FOX ٹیلی ویژن کے بل ہیمر Bill Hemmerسے گفتگو کرتے ہوئے جناب وٹکاف بہت اعتماد سے بولے 'مزاحمت کاروں کے ہتھیار ڈال کر غزہ خالی کردینے سے پٹی پر امن کا آغاز ہوگا'۔ جب میزبان نے پوچھا'کیامزاحمت کار یہ شرائط قبول کرلیں گے؟۔ تو موصوف بلاتوقف بولے 'ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ غزہ خالی کردینے کے سوا مزاحمت کاروں کے پاس اور کوئی راستہ یا چارہ نہیں'

برطرف ہونے سے پہلے خصوصی امریکی ایلچی آدم بوہلر نے اعتماد سازی کیلئے امریکی شہری ایڈن الیگزندڑ کو رہااور چار امریکیوں کی لاشوں کی حوالگی کی تجویزپیش کی تھی۔مزاحمت کاروں نے یہ درخواست قبول کرلی لیکن وزیراعظم نیتن یاہو نے اس پیشکش کو چالاکی اور نفسیاتی حربہ قرار دیکر مسترد کردیا۔ امریکی وزیرخارجہ کے خیال میں ایک امریکی قیدی اور چار لاشوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 400 فلسطیینوں کی رہائی ایک 'احمقانہ فارمولا' ہے۔ شائد فاضل وزیرخارجہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ امریکی ثالثی میں وضع کئے جانیوالے معاہدے کے دوران یہ فارمولا طئے ہواتھا۔

غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کے موقف میں ابہام و تضاد سے ایسا لگا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں اور انکے آتشیں بیانات انتہاپسندوں کو مطمئن رکھنے کی ایک کوشش ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے غزہ پر قبضے کو یقینی بناناچاہتے ہیں۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران جب وہاں موجود ایک صحافی نے وزیراعظم مارٹن سے پوچھا 'فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے (صدر ٹرمپ)  منصوبے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تومارٹن صاحب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی جناب ٹرمپ بولے 'کوئی بھی کسی فلسطینی کو بے دخل نہیں کر رہا'۔ اس بات پر فلسطینیوں نے اطمینان کا اظہار کیا لیکن اس یقین دہانی کی بازگشت ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اہل غزہ کو بسانے کیلئے سوڈان ، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطوں کی خبرسامنے آگئی۔ اسکا انکشاف سب سے پہلے ٹائمز آف اسرائیل نے کیا جسکے مطابق امریکہ اور اسرائیل ان ممالک سے رابطے میں ہیں۔صومالی لینڈ کو اب تک دنیا نے آزاد ملک تسلیم نہیں کیا اور جیسے سوڈان کو دہشت گردوں کی اعانت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکالنے کے وعدے پر خرطوم کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا ویسے ہی فلسطینیوں کی میزبانی کے عوض صومالی لینڈ کو اقوام متحدہ کی رکنیت پیش کی جائیگی۔دوسرے دن عبرانی چینل 12 نے بتایاکہ 25 لاکھ اہل غزہ کو بسانے کیلئےشام سے بات چیت شروع کردی گئی ہے۔ شام کے عبوری  صدر احمد الشرع نے مغرب سےاچھے تعلقات کی خواہشمند ظاہر کی ہے چنانچہ چچا سام پیشکش کررہے ہیں کہ اگر دمشق اہل غزہ کو لینے پر راضی ہوجائے تو ہماری مہرومحبت کے دروازے وا ہوجائینگے۔ انکار کی صورت میی جہنم کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

اسی دوران اسرائیل میں ایک داخلی بحران پیدا ہوگیا۔ داخلی ادارہ سراغرسانی،  شاباک (Shin Bet)کے سربراہ رونن بار اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ شاباک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سیاسی مفادات کیلئے غزہ امن معاہدے کی راہ میں نہ صرف روڑے اٹکارہے ہیں بلکہ حکمت عملی سے اختلاف کی بناپر نیتن یاہومجھے برطرف کرنا چاہتے ہیں۔ اس افواہ کی 16 مارچ کی شام اسوقت تصدیق ہوگئی جب وزیراعظم نے رونن بار کو برطرف کرنے کیلئے کابینہ کا اجلاس بلالیا۔ کابینہ اجلاس کا نوٹس آتے ہی اٹارنی جنرل محترمہ غالی بہراف معیارا Gali Baharav-Miara نے وزیراعظم آفس کیخلاف قطری حکام کو رشوت کھلانے کا کھاتہ کھول دیا۔جواب میں وزیراعظم کے انتہا پسند اتحادیوں کی طرف سے شاباک کے سربراہ کیساتھ اٹارنی جنرل کو بھی برطرف کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا۔اسوقت کشیدگی مزید بڑھ گئی جب حزب اختلاف نے 18مارچ کو  بھرپور احتجاج کا اعلان کردیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک پر ہونے والے مظاہرے کی قیادت شاباک کے سابق سربراہ جورام کوہن، موساد کے سابق سربراہ تمرپاردو اور سابق پولیس کمشنر Roni Alsheich کرینگے۔ حزب اختلاف کے تمام ارکان پارلیمان کو شرکت کی ہدائت کی ہے۔

فلسطینیوں سے کشیدگی کو ہوا دیکر سیاسی دباو کا مقابلہ نیتن یاہو کی آزمائی ہوئی حکمت عملی ہے چنانچہ یہ افواہ اڑادی گئی کہ مزاحمت کار ایک بڑے حملے کی تیاری کررہے ہیں۔عسکری حلقوں کے حوالے سے چینل 12 نے انکشاف کیا کہ  اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں میں غزہ اسرائیل سرحد پر 'مشکوک' سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور ایسالگ رہا ہے کہ مزاحمت کار 7 اکتوبر 2023 کی طرح سرحدی دیہاتوں پر ایک بڑے حملے کی تیاری کررہے ہیں۔سنسنی پیدا کرنے کیلئے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے غزہ سرحد پر واقع تمام اسکول بند کرنے کے ساتھ ریلوں کو بھی معطل کرنے کا حکم دیدیا۔غیر جانبدار عسکری مبصرین نے اسی وقت یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جنگی جنون پھیلاکر نیتن یاہو اور انکے انتہا پسند اتحادی غزہ پر اسرائیل کے نئے حملوں کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث وزیراعظم کیلئے شرمندگی سے بچنے کا یہ سب سے آسان راستہ ہے۔

غزہ سے رہا ہونے والے ایک قیدی تل شوہام (Tal Shoham)کے اس انکشاف کی بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی کہ شدید بمباری اور ہلاکت خیز حملوں کے باوجود غزہ میں سرنگوں کا نظام نہ صرف صحیح سلامت ہے بلکہ لڑائی کے دوران بھی اسکی مرمت، تعمیر نو اور توسیع کا کام جاری رہا۔ شوہام نے  Foxٹیلی ویژن کو بتایا کہ گرفتاری کے دوران اس نے سرنگوں کے توسیع کے کام میں ایک دن کا وقفہ بھی نہیں دیکھا۔اسرائیلی محکہ سراغرسانی کا خیال ہے کہ غزہ میں زیرزمین سرنگوں کی مجموعی لمبائی ساڑھے تین سو میل سے زیادہ ہے۔ سوا سال کی مسلسل بمباری کے باوجود یہ زیرزمین نظام بالکل ٹھیک ہے اور متاثر ہونے والی اکثر سرنگوں کی مرمت بھی کرلی گئی ہے۔ اس نوعیت کے خودساختہ انکشافات سے جنگی جنون و خوف کی فضا بناکر نیتن یاہو نے غزہ پر بھرپور حملہ کردیا۔

گزشتہ دس دنوں سے غزہ تاریکی میں ڈوباہوا ہے۔ امدادی سامان پر مکمل پابندی کی وجہ ساری پٹی شدید عذائی قلت کا شکار ہے۔ بمباری سے صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے جس  میں بہتری کی کوئی امید  نظر نہیں آتی اور تبدیلی آئے بھی کیسے کہ دنیا کو اسکی پرواہ تک نہیں۔ خوف کا یہ عالم کہ امریکی جامعات کے شعبہ ہائے صحافت اور ابلاغ عامہ اپنے طلبہ کوفلسطین کے بارے زباں بندی کا مشورہ دے رے ہیں۔ جامعہ کولمبیا کے رئیس کلیہِ صحافت و ابلاغ عامہ جے کوب (J. Cob)اور سینئر پروفیسر ڈاکٹر اسٹیورٹ کارل (Stuart Karle)نے امریکہ میں زیرتعلیم غیر ملکی طلبہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ 'اگر آپ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپکے پیج پر مشرق وسطیٰ کا بہت زیادہ ذکر نہ ہو۔ یہ بڑا خطرناک وقت ہے، کوئی بھی آپ کی حفاظت نہیں کر سکتا'۔

ایسے ہی خوف کا شکار G-7کی قیادت نظر آرہی ہے۔کیینڈا کے وزرائے خارجہ اجلاس میں غرب اردن پر فوجی آپریشن اور فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں پر تشویش کا اظہار ہوا۔ مسئلے کے پائیدار حل کیلئے دوریاستی حل تجویز کیا گیا لیکن امریکہ کے اعتراض پر مشترکہ اعلامئے میں دوریاستی فارمولاحذف کردیا گیا اور غرب اردن میں فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں کی مذمت کے بجائے 'تشدد پرتحفظات' جیسا مبہم لفظ ٹانک دیا گیا۔ مہذب دنیا نے ابھی سچ بولنے کی تہذیب نہیں سیکھی۔

اسرائیل کے مذہبی عناصر 'ٹرمپ سرکار' کو حصولِ عظمتِ اسرائیل کی نشانی قراردے رہے ہیں۔ وزیر ماحولیات نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا 'ٹرمپ انتظامیہ،  خدا نے ہماری نصرت کو بھیجی ہے اور خدا ہمیں واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اب زمین (غزہ) کا وارث بننے کا وقت آ گیا ہے۔ حوالہ: عبرانی ریڈیو رشدِ بیت انگریزی ترجمہ روزنامہ الارض

غزہ اور غرب اردن کیساتھ اب دوسرے علاقوں کی عرب آبادیوں میں بھی عسکری آپریش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ الخلیل الاسفل (Lower Galilee) کے شہر عرّابہ پر اسرائیلی فوج نے دھاوہ بولا جس میں تین نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ گھر گھر چھاپوں میں  100 سے زیادہ افراد گرفتار کرلئے گئے۔غرب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف قابضین کے خلاف حملوں میں شدت آگئی ہے۔ نابلوس کے قریب دوما میں فلسطینیوں کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔ رات کو کی جانیوالی اس وحشیانہ کاروائی میں دیاسلائی دکھانے سے پہلے گھروں کو باہر سے مقفل کردیا گیاتھا۔ شاید یہ ٹرمپ صاحب کی دھمکی 'جہنم کے دروازے کھولدینے' کا عملی مظاہرہ تھا۔ بھرپور جنگ سے چار دن پہلے، نمازِ جمعہ کے دوران شمالی غزہ میں بیت لاہیہ پر بمباری کی گئی جس میں ترک خبر رساں ایجنسی Anadoluکے صحافی محمد اسلام سمیت 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔

امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف آوازاٹھانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ انصاف کے اس الزام کے بعد کہ جامعہ کولمبیا کی انتظامیہ نے مطلوب افراد کو پناہ دے رکھی ہے، طلبہ کے ہاسٹل اور تدریسی عملے کی رہائش گاہیں کھنگالی گئیں۔ چھاپے کے دوران کوئی گرفتارعمل میں نہیں آئی لیکن دوسرے دن  گھر سے فلسطینی طالبہ لقیٰ قرضیہ کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ پی ایچ ڈی کی ایک تامل (ہندوستانی) طالبہ  رنجھن سرینیواسن، تعلیم ادھوری چھوڑکر خود ہی کینیڈا چلی گئی۔اسکے سوشل میڈیا اکاونٹ پر غزہ کے حق میں مواد دیکھ کر جامعہ نے اسکا ویزا منسوخ کرادیا تھا۔ملزمان کو پناہ دینے کے الزامات اور وفاقی گرانٹ میں کٹوٹی سے گھبرا کرجامعہ نے گزشتہ سال مظاہرے کرنے والے کئی طلبہ کو جامعہ سے خارج کرنے کے علاوہ بہت سے فارغ التحصیل طلبہ کی اسناد معطل کردیں۔ان اقدامات کے خلاف یہودی صدائے امن (Jewish Voice for Peace)کے زیراہتمام نیویارک کے ٹرمپ ٹاور پر 14 مارچ کو طلبہ نے دھرنا دیا۔مظاہرین نے سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر لکھا تھا Not in Our Nameیعنی ہم یہودیوں کے نام پر ظلم نہ کرو۔گروپ کی قائد سونیا نوکس نے تقریر کرتے ہوئے امریکی یہودیوں سے کہا کہ آج فلسطینیوں کے حقوق کی پامال برداشت کرلی گئی تو کل کوئی اور اقلیت نشانہ بنے گی۔اگر آج آواز نہ اٹھائی تو کل آواز اٹھ ہی نہ سکے گی۔ پولیس نے پرتشدد کاروائی کرکے دھرنا دینے والوں کومنتشر کردیا اور 100 افراد گرفتا کرئے گئے جن پر نجی عمارت میں بلااجازت داخل ہونے اور کاروبار میں خلل ڈالنے کے پرچے کاٹے گئے ہیں۔

بڑی طاقتوں کی بے ضمیری اور مہذب دنیا کے دوغلے کردار کا ماتم اپنی جگہ لیکن ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر افراد کی بھی دنیا میں کمی نہیں۔معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کو اسرائیلی ادارے وولف فاونڈیشن نے ایوارڈ اور ایک لاکھ ڈالر انعام سے نوازا۔ ایوارڈ کیلئے لاری صاحبہ نے کسی مقابلے میں شرکت نہیں کی تھی بلکہ ادارے نے دنیا بھر کے آرکیٹیکٹ کے ڈیزائن کا جائزہ لینے کے بعد چند ماہرین کو انعام دینے کا فیصلہ کیا۔ جب یاسمین لاری کو اطلاع ملی تو انھوں نے انعام لینے سے انکار کردیا۔ اپنے مختصر پیغام میں انھوں نے کہا 'افسوس کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کیلئے کچھ نہیں کرسکے لیکن اسرائیلی مظالم کے خلاف میں اتنا ضرور کرونگی جتنی مجھ میں سکت ہے۔اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 مارچ 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 مارچ 2025

روزنامہ امت کراچی 21 مارچ 2025


ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 مارچ 2025

Thursday, March 13, 2025

 

یوکرینی معدنیات۔  ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟

 چینی بالادستی سے خائف صدر ٹرمپ کی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ کے معدنی وسائل پر

یوکرین کے معدنیات سے مالامال علاقے روس کے قبضے میں

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی اور امریکی صدر کے درمیاں قصرِ مرمریں کے بیضوی دفتر میں حالیہ جھڑپ کے تناظر پر بحث ختم ہوئی نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا، جوہری ہتھیار روس کے حوالے کرنے  پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے یوکرین کو حفاظت و سلامتی کی جوضمانتیں دی گئی تھیں ان سے روگردانی کے علاوہ یوکرین میں سابق فرزندِ اول ہنٹر بائیڈن کی مبینہ کرپشن کے بارے میں ثبوت و شواہد پیش کرنے میں یوکرینی صدر کی ناکامی (یا انکار) کی بناپر دونوں رہنماوں کے درمیان بد گمانی کی خلیج پہلے سے موجود تھی۔ اسکے علاوہ یوکرین کے معدنی وسائل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی للچائی نظریں بھی جناب زیلینسکی کو چبھ رہی تھیں۔

جب پہلی بار امریکی صدر نے یوکرین کے معدنی ذخائر تک رسائی کی خواہش ظاہر کی تو صدر زیلنسکی نے یہ کہہ اسے مسترد کردیا کہ یوکرین برائے فروخت نہیں ہے۔ لیکن غیر ملکی مدد پر گزر اوقات کرنے والوں کو کہ جنکا نہ تن اپنا ہو نہ من،  ایسا کہنا زیب نہیں دیتا اور پھر جب مخاطب کرم ظرف بھی ہو تو کفارے کیلئےسجدہ سہو کافی نہیں بلکہ توہین کا پورا ٹوکرا سر پر اٹھاناپڑتا ہے۔یاسا ہی کچھ جناب زیلنسکی کے ساتھ ہوا۔صدر ٹرمپ نے انھیں ڈکٹیٹر کے خطاب سے نوازتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر 500 ارب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل سے امریکہ کو مستفید ہونے کا موقع نہ دیا گیاتو یوکرین کی مالی مدد معطل کردی جائیگی۔

یوکرین کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے جنگ کا خاتمہ  ضروری ہے چنانچہ 18 فروری کو سعودی دارالحکومت ریاض میں امریکی و روسی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں فریقین نے یوکرین روس جنگ ختم کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔اس نشست میں یوکرین کو مدعو نہیں کیا گیا، جو صدر ٹرمپ کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ انکے لئے ولادیمر زیلنسکی ایک ناپسندیدہ شخصیت بن چکےہیں۔جناب زیلنسکی بچّے نہیں، انھیں معلوم ہے کہ صدر ٹرمپ سے لڑائی انکی سیاسی عاقبت کیلئے سخت نقصان دہ ہے، چانچہ انھوں نے اپنی وزارت خارجہ کو ہدائت کی کہ یوکرین کیلئے صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے جنرل (ر) کیتھ کیلوگ سے معدنیات کے معاملے پر بات کی جائے۔ وزارت خارجہ کی دعوت پر جناب کیلوگ کیف پہنچے اور اشک شوئی کیلئے زیلنسکی کو جنگ زدہ قوم کا جرات مند رہنما کہہ کر مخاطب کیا۔یہ دراصل صدر زیلنسکی کی چوٹ کھائی انا پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش تھی۔دونوں ممالک یوکرینی معدنیات کی تلاش و ترقی کے ایک معاہدے پر رضامند ہوگے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں رضا سے زیادہ جبر کا پہلو تھا لیکن جو آپکے گھر میں دانے ڈلواتا ہو اس کے آگے سرکو جھکا لینا ہی عقلمندی ہے۔ اس معاہدے پر دستخط ، زیلنسکی کے حالیہ دورے کے ایجنڈے کا اہم نکتہ تھا۔لیکن ملاقات کے آغاز پر ہی جو ہوا اسکا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔

باہمی تعلقات میں آئی سلوٹوں کو دور کرنے کیلئے صدر زیلنسکی نے اپنے امریکی ہم منصب کو خط لکھا جس میں معافی تو نہیں مانگی لیکن جھڑپ پر افسوس (Regret)کا اظہار کرکے غلطی تسلیم کرلی۔اسی کیساتھ معدنیات کے بارے میں معاہدے کا مسودہ امریکہ بھیج دیا گیا جبکہ روس سے امن کیلئے سعودی عرب میں امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات پر بھی  یوکرین آمادہ ہوگیا۔

اب آتے ہیں یوکرین کے معدنی وسائل کی طرف جسکی امریکہ حوالگی پر صدر زیلنسکی کے تحفظات حالیہ ناخوشگوار جھڑپ کی وجہ بنے۔قارئین یقیناً جاننا چاہتے ہونگے کہ یہ معدنیات کیا ہیں، اور امریکہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں Rare Earth Elementsیا REEs کہا جاتا ہے، 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جو سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔علم کیمیا کے ماہرین نے عناصر کے اس گروپ کو Lanthanides کانام دیا ہے جسکا یونانی زبان میں مطلب ہے 'ڈھکا ہوا' یعنی خالص حالت میں یہ عناصر بہت کم جگہ دستیاب ہیں۔عام طور سے ان قیمتی معدنیات میں تھوریم اور یورینیم جیسے تابکاری عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ اِن ناپسندیدہ کثافتوں سے جان چھڑاناممکن تو  ہے لیکن اس مشکل عمل پربھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔

تاہم دنیا میں کئی مقامات پر یہ عناصر خالص حالت میں پائے جاتے ہیں۔ان میں چین سرِ فہرست ہے جہاں REEsذخائر کا مجموعی حجم چار کروڑ چالیس لاکھ ٹن ہے جو آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ اور انرجی اسٹڈیز کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے نایاب معدنیات کا 90 فیصد ہے۔ ہندوستان دوسرے پر نمبر ہے جہاں 69  لاکھ ٹن REEsموجود ہیں، ارٹیس لاکھ (38)ٹن کیساتھ روس کا تیسرا نمبر ہے اور چوتھے نمبر پر ویتنام جہاں نایاب معدنیات کا مجموعی حجم 25 لاکھ ٹن ہے۔ گرین لینڈ پر بھی صدر ٹرمپ کی نظریں ہیں جہاں ان قیمتی عناصر کا تخمینہ 15لاکھ ٹن ہے،امریکہ میں REEs کا مجموعی حجم 19 لاکھ ٹن ہے۔ نایاب معدنیات کے اعتبار سے یوکرین دنیا کے 10 بڑے ممالک میں نہیں آتا، تاہم امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں REEsکے پانچ فیصد ذخائر اسی ملک میں ہیں۔دلچسپ بات کہ معدنیات پر نظر رکھنے والے موقر برطانوی ادارے بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ المعروف Benchmarkکے مطابق،یوکرین میں REEsکے حوالے سے اب تک جو تخمینے لگائے گئے ہیں وہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔یوکرینی ماہرین ارضیات دارالحکومت کیف، شمال وسطی یوکرین میں  Vinnytsiaاور چند دوسرے مقامات پر بھی ان معدنیات کی موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں مساحت ارضی کا کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔یوکرین میں ان معدنیات کے دریافت شدہ ذخائر مشرقی یوکرین میں لوہانسک (Luhansk)اور ڈونیتسک (Donetsk)صوبوں پر مشتمل علاقے دنباس (Donbas)، اسکے مغرب میں زیپوریزا (Zaporizhia)، دریائے دنائپر (Dnieper) کے کنارے، تاتاروں کے جزیرہ نما کریمیا اور اسکے شمال میں بحیرہ آزوو (Azov) کے ساحل پر ہیں۔ یہ تمام کا تمام علاقہ روس کے قبضے میں ہے۔ یوکرین مساحت ارضی کے مطابق ملک میں بیٹری بنانے کے کام آنے والے قیمتی عنصر لیتھیم (Lithium)کے دریافت شدہ ذخائر کاتخمینہ ساڑھے چار لاکھ ٹن ہے لیکن اسکے بڑے حصے پر بھی روسی قابض ہیں۔

یعنی یوکرین میں نایاب معدنیات کے ذخائر تو ہیں لیکن روسی قبضے کی وجہ سے ان تک پہنچنافی الحال ممکن نہیں، شائد اسی لئے یوکرینی حکومت نے صدر ٹرمپ کے عتاب سے بچنے کیلئے اپنے معدنی وسائل تک امریکی رسائی کی کڑوی گولی یہ سوچ کر نگل لی کہ جب دادا مریں گے تب بیل بٹیں گے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں نایاب معدنیات کے دریافت شدہ ذخائرکی مقداریوکرین سے زیادہ ہے لیکن صدر ٹرمپ خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے یوکرینی معدنی وسائل تک رسائی کا معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ وہ سینہ پھلاکر امریکی عوام کو بتاسکیں کہ انکی انتظامیہ یوکرین کو مدد میں دی گئی ایک ایک پائی سود کے ساتھ واپس لے رہی ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کی گیا، ان معدنیات کے عالمی ذخائر کا 90 فیصد چین کے پاس ہے۔ خام ذخائر کے علاوہ چین نے نایاب معدنیات کی کانکنی اور نتھارنے (Processing)کے باب میں زبردست مہارت حاصل کرلی ہے۔امریکی مساحت ارضی کےمطابق امریکہ درآمد کئے والے REEsمیں چین کا حصہ 72 فیصد ہے۔ امریکہ کیلئے مزید پریشان کن بات کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان نایاب معدنیات کی بہت سی بڑی کانوں کے مالک چینی ادارے ہیں۔حالیہ تجارتی جنگ میں چین نے جن جوابی اقدمات کا عندیہ دیا ہے ان میں امریکہ کو REEsبرآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔

ٹرمپ کے مشیر خصوصی ایلون مسک کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے نعرے Make America Great Againیا MAGAکو عملی جامہ پہنانے میں مصنوعی ذہانت (AI)اور اس میدان کی دوسری ٹیکنالوجی اہم کردار اداکرینگی۔جدید الیکٹرانکس،ڈرونز، غیر مرئی ہتھیار سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے  ڈیٹا مراکز کیلئے روائتی معدنیات یعنی تانبا، لیتھیم، سیلیکون، ورق پزیر ہیرا (Palladium)کے ساتھ REEsکی بہت بڑی مقدار درکار ہے۔ امریکہ بہادربلاشبہ ٹیکنالوجی کے مردِ میدان ہیں لیکن ارضیات، کانکنی اور خاص طور سے نایاب معدنیات کی تلاش و ترقی میں انکا چین سے کوئی مقابلہ نہیں۔ معدنیات کو سنوارنے اور نتھارنے کی ٹیکنالوجی میں تو مہارت حاصل کی جاسکتی لیکن اسکے ذخائر پر قدرت نے چین کو جو برتری عطا کردی ہے اسکا صدر ٹرمپ کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ شائد اسی لئے انکی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ پر ہیں۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر یوکرین اپنے معدنی وسائل تک امریکہ کہ رسائی دینے پر رضامند ہو بھی جائے توکیا روس،  معدنیات سے مالامال یہ علاقے امریکی کانکنوں کیلئے خالی کردیگا؟؟ْ؟؟؟

اعتراف و تشکر: مضمون کیلئے مساحت ارضی پاکستان (GSP) کے سابق سربراہ جناب حسن گوہر اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ کے سابق سربراہ معین رضاخان سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 مارچ 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 مارچ 2025