یوکرینی معدنیات۔ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟
چینی
بالادستی سے خائف صدر ٹرمپ کی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ کے معدنی وسائل پر
یوکرین کے معدنیات سے مالامال علاقے روس کے
قبضے میں
یوکرین کے صدر ولادیمیر
زیلینسکی اور امریکی صدر کے درمیاں قصرِ مرمریں کے
بیضوی دفتر میں حالیہ جھڑپ کے تناظر پر بحث ختم ہوئی نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ ہم نے
اس سے پہلے عرض کیا، جوہری ہتھیار روس کے حوالے کرنے پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے یوکرین کو حفاظت و سلامتی کی جوضمانتیں
دی گئی تھیں ان سے روگردانی کے علاوہ یوکرین میں سابق فرزندِ اول ہنٹر بائیڈن کی
مبینہ کرپشن کے بارے میں ثبوت و شواہد پیش کرنے میں یوکرینی صدر کی ناکامی (یا
انکار) کی بناپر دونوں رہنماوں کے درمیان بد گمانی کی خلیج پہلے سے موجود تھی۔
اسکے علاوہ یوکرین کے معدنی وسائل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی للچائی نظریں بھی جناب زیلینسکی
کو چبھ رہی تھیں۔
جب پہلی بار امریکی صدر نے یوکرین کے
معدنی ذخائر تک رسائی کی خواہش ظاہر کی تو صدر زیلنسکی نے یہ کہہ اسے مسترد کردیا
کہ یوکرین برائے فروخت نہیں ہے۔ لیکن غیر ملکی مدد پر گزر اوقات کرنے والوں کو کہ
جنکا نہ تن اپنا ہو نہ من، ایسا کہنا زیب
نہیں دیتا اور پھر جب مخاطب کرم ظرف بھی ہو تو کفارے کیلئےسجدہ سہو کافی نہیں بلکہ
توہین کا پورا ٹوکرا سر پر اٹھاناپڑتا ہے۔یاسا ہی کچھ جناب زیلنسکی کے ساتھ ہوا۔صدر ٹرمپ نے انھیں ڈکٹیٹر کے خطاب سے نوازتے
ہوئے دھمکی دی کہ اگر 500 ارب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل سے امریکہ کو مستفید ہونے
کا موقع نہ دیا گیاتو یوکرین کی مالی مدد معطل کردی جائیگی۔
یوکرین
کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے جنگ کا خاتمہ ضروری ہے چنانچہ 18 فروری کو سعودی دارالحکومت ریاض
میں امریکی و روسی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں فریقین نے یوکرین روس جنگ ختم
کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔اس نشست میں یوکرین کو مدعو نہیں کیا
گیا، جو صدر ٹرمپ کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ انکے لئے ولادیمر زیلنسکی ایک
ناپسندیدہ شخصیت بن چکےہیں۔جناب زیلنسکی بچّے نہیں، انھیں معلوم ہے کہ صدر ٹرمپ سے
لڑائی انکی سیاسی عاقبت کیلئے سخت نقصان دہ ہے، چانچہ انھوں نے اپنی وزارت خارجہ
کو ہدائت کی کہ یوکرین کیلئے صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے جنرل (ر) کیتھ کیلوگ سے
معدنیات کے معاملے پر بات کی جائے۔ وزارت خارجہ کی دعوت پر جناب کیلوگ کیف پہنچے
اور اشک شوئی کیلئے زیلنسکی کو جنگ زدہ قوم کا جرات مند رہنما کہہ کر مخاطب کیا۔یہ
دراصل صدر زیلنسکی کی چوٹ کھائی انا پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش تھی۔دونوں ممالک
یوکرینی معدنیات کی تلاش و ترقی کے ایک معاہدے پر رضامند ہوگے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں
رضا سے زیادہ جبر کا پہلو تھا لیکن جو آپکے گھر میں دانے ڈلواتا ہو اس کے آگے سرکو
جھکا لینا ہی عقلمندی ہے۔ اس معاہدے پر دستخط ، زیلنسکی کے حالیہ دورے کے ایجنڈے
کا اہم نکتہ تھا۔لیکن ملاقات کے آغاز پر ہی جو ہوا اسکا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست
میں کرچکے ہیں۔
باہمی
تعلقات میں آئی سلوٹوں کو دور کرنے کیلئے صدر زیلنسکی نے اپنے امریکی ہم منصب کو
خط لکھا جس میں معافی تو نہیں مانگی لیکن جھڑپ پر افسوس (Regret)کا اظہار کرکے غلطی تسلیم کرلی۔اسی کیساتھ
معدنیات کے بارے میں معاہدے کا مسودہ امریکہ بھیج دیا گیا جبکہ روس سے امن کیلئے
سعودی عرب میں امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات پر بھی
یوکرین آمادہ ہوگیا۔
اب آتے
ہیں یوکرین کے معدنی وسائل کی طرف جسکی امریکہ حوالگی پر صدر زیلنسکی کے تحفظات
حالیہ ناخوشگوار جھڑپ کی وجہ بنے۔قارئین یقیناً جاننا چاہتے
ہونگے کہ یہ معدنیات کیا ہیں، اور امریکہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟
نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں
Rare Earth Elementsیا REEs کہا جاتا ہے، 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جو سمارٹ
فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ان میں
سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم،
سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم،
یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔علم کیمیا کے ماہرین نے عناصر کے اس گروپ کو Lanthanides کانام دیا ہے جسکا یونانی زبان میں مطلب ہے 'ڈھکا ہوا' یعنی
خالص حالت میں یہ عناصر بہت کم جگہ دستیاب ہیں۔عام طور سے ان قیمتی
معدنیات میں تھوریم اور یورینیم جیسے تابکاری عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ اِن ناپسندیدہ
کثافتوں سے جان چھڑاناممکن
تو ہے لیکن اس مشکل عمل پربھاری سرمایہ
خرچ ہوتا ہے۔
تاہم دنیا میں کئی مقامات پر
یہ عناصر خالص حالت میں پائے جاتے ہیں۔ان میں چین سرِ فہرست ہے جہاں REEsذخائر کا مجموعی حجم چار کروڑ چالیس لاکھ ٹن
ہے جو آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ اور انرجی اسٹڈیز کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے نایاب
معدنیات کا 90 فیصد ہے۔ ہندوستان دوسرے پر نمبر ہے جہاں 69
لاکھ ٹن REEsموجود ہیں، ارٹیس لاکھ (38)ٹن کیساتھ روس کا تیسرا نمبر ہے اور چوتھے
نمبر پر ویتنام جہاں نایاب معدنیات کا مجموعی حجم 25 لاکھ ٹن ہے۔ گرین لینڈ پر بھی
صدر ٹرمپ کی نظریں ہیں جہاں ان قیمتی عناصر کا تخمینہ 15لاکھ ٹن ہے،امریکہ میں REEs
کا مجموعی حجم 19 لاکھ ٹن ہے۔ نایاب معدنیات کے اعتبار سے یوکرین دنیا کے 10 بڑے
ممالک میں نہیں آتا، تاہم امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں REEsکے پانچ فیصد ذخائر اسی ملک میں ہیں۔دلچسپ بات
کہ معدنیات پر نظر رکھنے والے موقر برطانوی
ادارے بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ المعروف Benchmarkکے مطابق،یوکرین میں REEsکے
حوالے سے اب تک جو تخمینے لگائے گئے ہیں وہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔یوکرینی
ماہرین ارضیات دارالحکومت کیف، شمال وسطی یوکرین میں Vinnytsiaاور چند دوسرے مقامات پر بھی ان معدنیات کی
موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں مساحت ارضی کا کوئی ٹھوس کام
نہیں کیا گیا۔یوکرین میں ان معدنیات کے دریافت شدہ ذخائر مشرقی یوکرین میں لوہانسک
(Luhansk)اور ڈونیتسک (Donetsk)صوبوں پر مشتمل علاقے دنباس (Donbas)،
اسکے مغرب میں زیپوریزا (Zaporizhia)، دریائے دنائپر (Dnieper)
کے کنارے، تاتاروں کے جزیرہ نما کریمیا اور
اسکے شمال میں بحیرہ آزوو (Azov) کے ساحل پر ہیں۔ یہ تمام کا تمام علاقہ روس
کے قبضے میں ہے۔ یوکرین مساحت ارضی کے مطابق ملک میں بیٹری
بنانے کے کام آنے والے قیمتی عنصر لیتھیم (Lithium)کے دریافت شدہ ذخائر کاتخمینہ ساڑھے چار لاکھ
ٹن ہے لیکن اسکے بڑے حصے پر بھی روسی قابض ہیں۔
یعنی
یوکرین میں نایاب معدنیات کے ذخائر تو ہیں لیکن روسی قبضے کی وجہ سے ان تک پہنچنافی
الحال ممکن نہیں، شائد اسی لئے یوکرینی حکومت نے صدر ٹرمپ کے عتاب سے بچنے کیلئے
اپنے معدنی وسائل تک امریکی رسائی کی کڑوی گولی یہ سوچ کر نگل لی کہ جب دادا مریں
گے تب بیل بٹیں گے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں نایاب معدنیات کے دریافت شدہ
ذخائرکی مقداریوکرین سے زیادہ ہے لیکن صدر ٹرمپ خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے یوکرینی
معدنی وسائل تک رسائی کا معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ وہ سینہ پھلاکر امریکی عوام کو
بتاسکیں کہ انکی انتظامیہ یوکرین کو مدد میں دی گئی ایک ایک پائی سود کے ساتھ واپس
لے رہی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کی گیا، ان
معدنیات کے عالمی ذخائر کا 90 فیصد چین کے پاس ہے۔ خام ذخائر کے علاوہ چین نے نایاب معدنیات کی کانکنی اور نتھارنے (Processing)کے باب میں زبردست مہارت حاصل کرلی ہے۔امریکی
مساحت ارضی کےمطابق امریکہ درآمد کئے والے REEsمیں
چین کا حصہ 72 فیصد ہے۔ امریکہ کیلئے مزید پریشان کن بات کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان نایاب معدنیات کی بہت
سی بڑی کانوں کے مالک چینی ادارے ہیں۔حالیہ
تجارتی جنگ میں چین نے جن جوابی اقدمات کا عندیہ دیا ہے ان میں امریکہ کو REEsبرآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔
ٹرمپ کے مشیر خصوصی ایلون
مسک کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے نعرے Make America Great
Againیا MAGAکو عملی جامہ پہنانے میں مصنوعی ذہانت (AI)اور اس میدان کی دوسری ٹیکنالوجی اہم کردار
اداکرینگی۔جدید الیکٹرانکس،ڈرونز، غیر مرئی ہتھیار سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی
اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا مراکز کیلئے روائتی
معدنیات یعنی تانبا، لیتھیم، سیلیکون، ورق
پزیر ہیرا (Palladium)کے ساتھ REEsکی بہت بڑی مقدار
درکار ہے۔ امریکہ بہادربلاشبہ ٹیکنالوجی کے مردِ میدان ہیں لیکن ارضیات،
کانکنی اور خاص طور سے نایاب معدنیات کی تلاش و ترقی میں انکا چین سے کوئی مقابلہ
نہیں۔ معدنیات کو سنوارنے اور نتھارنے کی ٹیکنالوجی میں تو مہارت حاصل کی جاسکتی
لیکن اسکے ذخائر پر قدرت نے چین کو جو برتری عطا کردی ہے اسکا صدر ٹرمپ کے پاس
کوئی توڑ نہیں۔ شائد اسی لئے انکی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ پر ہیں۔لیکن اصل
سوال یہ ہے کہ اگر یوکرین اپنے معدنی وسائل تک امریکہ کہ رسائی دینے پر رضامند ہو
بھی جائے توکیا روس، معدنیات سے مالامال
یہ علاقے امریکی کانکنوں کیلئے خالی کردیگا؟؟ْ؟؟؟
اعتراف
و تشکر: مضمون کیلئے مساحت ارضی پاکستان (GSP) کے سابق سربراہ جناب حسن گوہر اور پاکستان پیٹرولیم
لمیٹیڈ کے سابق سربراہ معین رضاخان سے استفادہ کیا گیا ہے۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 مارچ 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 14 مارچ 2025
No comments:
Post a Comment