Friday, April 11, 2025

 

اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ ہنگری و امریکہ

ہمارے بچوں کیلئے غزہ میں  جہنم دہکا کر نیتن یاہو سیرسپاٹے کررہے ہیں، لواحقین کا شکوہ

غزہ انخلا پر صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو میں اتفاق

جوہری پروگرام پر امریکہ سے براہ راست ملاقات کا ٹرمپ دعویٰ ایران نے مسترد کردیا

ملک بھر میں ہنگاموں، عدالتی کاروائیوں اور قطر گیٹ اسکینڈل کے شور میں اسرائیلی وزیراعظم پورا ہفتہ ملک سے باہر رہے۔ اس دوران وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے دفتر میں گھمسان کی لفظی جنگ ہوئی۔لواحقین کی ملاقات کے دوران ایک قیدی سارجنٹ نمرود کے والد یہودا کوہن نے وزیردفاع سے پوچھا کہ ملاقات میں وزیراعظم کیوں موجود نہیں تو مسٹر کاٹز نے بتایا کہ نیتن یاہو ہنگری اور امریکہ کے دورے پر ہیں۔ یہ سن کر یہودا کوہن نے کہا 'ہمارے بچوں کیلئے غزہ میں جہنم دہکا کر نیتن یاہو سیرسپاٹے کررہے ہیں'۔ تالیوں کی گونج میں یہودا نے کہا کہ 'غزہ جنگ کا محرک نیتن یاہو کا ذاتی و سیاسی مفاد ہے اور تم سب اسکے زرخرید غلام بنے ہوئے ہو'۔جب وزیردفاع نے کوہن سے کہا کہ تشریف رکھیں میں آپکے تحفظات کا جواب دیتا ہوں تو دلگرفتہ باپ چیخ کر بولا “تم نے جنگ صرف اسلئے دوبارہ شروع کی تاکہ عظمتِ یہود جماعت، حکومت میں واپس آجائے۔ ہمارے بچے واپس آئیں نہ آئیں، بن گوئر (عظمتِ یہود کے سربراہ) کی اتحاد میں واپسی تمہاری واحد ترجیح تھی'

نیتن یاہو ہنگری صرف یہ ثابت کرنے گئے تھے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری سے خوفزدہ نہیں۔ یورپی یونین میں ہنگری وہ واحد ملک ہے جس نے ICCکے پروانہ گرفتاری کو مسترد کردیا ہے بلکہ نیتن یاہو کی دارالحکومت بڈاپیسٹ آمد پر میزبان وزیراعظم وکٹر کوربن نے اپنے ملک کو ICCکی عملداری سے سرکاری طور پر علیحدہ کرلیا۔ نیتن یاہو سے بغلگیر ہوتے ہوئے وزیراعظم کوربن نے کہا میرے عظیم دوست کیلئے یہ ہنگری کا تحفہ ہے۔

ہنگری میں تین دن گزارنے کے بعد نیتن یاہو 7 اپریل کو صبح سویرے واشنگٹن پہنچے۔یروشلم سے جاری ہونے والے سرکاری اعلامئے میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم محصولات یا Tarif پر بات کرینگے لیکن مشرق وسطیٰ کے معاملے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے اسی وقت کہدیا کہ ملاقات میں غزہ انخلا اور 'ٹرمپ غزہ' کے نام سے پٹی پر پرتعیش تفریح گاہ بنانے کے منصوبے کو آخری شکل دی جائیگی اور ایران پر حملے کی تفصیلات طئے کی جائینگی۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے بھی اندازہ ہوا کہ محصولات پر بات تو محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کو کی گئی ہے ورنہ ملاقات کا اصل مقصد اور بنیادی ایجنڈا غزہ درندگی آخری فلسطینی کے قتل یا انخلا تک جاری رکھنے ، یمن قتل عام میں تیزی لانے اور ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمے کیلئے حکمت عملی وضع کرنا تھا۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ انخلا کے ٹرمپ منصوبے کی پھرپور حمائت کا اعادہ کیا۔ انکا کہنا تھاکہ اہل غزہ کو ہم نے قید نہیں کیا، وہ جہاں چاہے جاسکتے ہیں۔یوکرین اور شامی تنازعے کے دوران مقامی آبادی کی نقل مکانی ہوئی تو غزہ انخلا میں کیا مسئلہ ہے؟۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے ممالک اہل غزہ کی مہمان نوازی کو تیار ہیں اور ان سے ہماری بات چیت جاری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ محفوظ اور رہنے کے قابل نہیں رہا اور ہر اہل بصیرت غزہ کا انخلا تجویز کررہا ہے کہ یہ  ساحلی پٹی، موت کی وادی میں تبدیل ہوچکی ہے۔امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ  'کچھ عناصر' کے خیال میں یہ مناسب فارمولا نہیں۔

بقراطی جھارٹے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ 2005 میں غزہ سے اسرائیل کا انخلا ایک غلط فیصلہ تھا۔ صدر ٹرمپ کی اس بات پر اسرائیلی وزیراعظم خاموش رہے حالانکہ یہ انخلا رضاکارانہ یا برضا و رغبت نہیں تھا بلکہ پٹی پر پھنسی اسرائیلی سپاہ کو بچانے کیلئے اسرائیل نے غزہ خالی کیا تھا۔ یہ فیصلہ Disengagement Plan 2005 کے نام سے مشہور جسے سابق وزیراعظم ایریل شیرون کی کابینہ نے خود تجویز کیا جسکے بعد کنیسہ (پارلیمنٹ) نے45 کے مقابلے میں 67 ووٹوں سے فرار کی توثیق کی۔ اسوقت بھی برسراقدار لیکڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو تھے۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد 21 بستیوں کو اپنے ہاتھوں مسمار کرکے اسرائیلی فوج وہاں سے واپس ہوئی تھی بلکہ معاہدے کے تحت اسرائیلیوں نے غربِ اردن کی چار قبضہ بستیاں بھی خالی کی تھیں۔ اپنے گھروں کو مسمار کرتے ہوئے بہت سی اسرائیلی خواتین بین کررہی تھیں کہ “ہائے بنو قینقاع، ہائے بنی نضیر۔

بیضوی دفتر میں ہونے والی صحافیوں کی اسی نشست میں صدر ٹرمپ نے یہ چشم کشاانکشاف فرمایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 'بڑی سطح' کے براہ راست  مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت کہاں ہورہی ہے اور دونوں جانب سے کون کون سر جوڑے بیٹھا ہے، تام صدر ٹرمپ کا لہجہ پرامید وپراعتماد تھا۔انھوں نے کہا کہ گفتگو کا دوسرا دور 12 اپریل کو ہوگا۔

اپنے پہلو میں بیٹھے نیتن یاہو کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جوہری تنازعے کا سفارتی حل سب کے مفاد میں ہے۔امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہمارا مشترکہ مقصد ہے اور اگر یہ ہدف بات چیت سے حاصل کرلیا جائے تو اس سے بہتر کچھ نہیں۔ ایسے ہی پرامن انداز میں ہم لیبیا کے جوہری پروگرام کو ختم کرچکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا “ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل یا نہ تیار نہ کرسکے

امریکی صدر کے اس انکشاف پر سب کو حیرت ہوئی اور ایران پر نظر رکھنے والے صحافتی ماہرین نے اسی وقت کہدیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا امریکی صدر نے بیان کررہے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی اور چند گھنٹوں بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک اعلی افسر نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست بات نہیں ہورہی، تاہم عمان کی ثالثی میں ابتدائی گفتگو کا آغاز ہوا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 اپریل 2025




 

 

No comments:

Post a Comment