غزہ مزاحمت کار بہت گندے (Nasty)لوگ ہیں۔ صدر ٹرمپ
خودکو مزاحمت کاروں سے آزاد کرکے، ہمارے قیدی
آزاد کردو۔ اسرائیل کی اہل غزہ کو دھمکی
دوسرے مرحلے کے مذاکرات سے پہلے غیر مسلح ہونے کی
تجویز مزاحمت کاروں نے مسترد کردی
دورانئے کے اعتبار سے غزہ خونریزی اسرائیل کی
طویل ترین جنگ بن چکی ہے
یہ سیاسی مفادات کی جنگ ہے۔اسرائیل
کے ہزاروں فوجی اور خفیہ اداروں کے افسران کا بیان
کنیڈا کی انتخابی مہم میں غزہ نسل کشی کی
بازگشت
امریکی جامعات میں حبس کی کیفیت۔ اربوں ڈالر
کی وفاقی گرانٹ معطل
ایمیگریشن جج نے طالب علم رہنما محمود خلیل
کی ملک بدری کا فیصلہ درست قرار دے دیا
غزہ کے
طول و عرض پر بمباری اور برو بحر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں
کی رہائی کیلئےمصر کی ثالثی میں 'دہشت گردوں' سے براہ راست مذاکرات بھی کررہاہے۔
جمعہ 11 اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر
اسرائیلی اہلکار نے KAN نیوز ایجنسی کو بتایا
کہ نیتن یاہو، آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے
عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے پر تیارہیں۔اس دوران پائیدار امن مذاکرات کیلئے چالیس
سے 70دن حملے بند رہیں گے۔ جبکہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور ر فح سے اسرائیلی فوج کی
واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پرقائم
ہیں۔ اس 'انکشاف' سے کچھ دیر قبل صدر ٹرمپ نے واشنگٹن
میں کابینہ اجلاس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ 'ہم اسرائیل اور مزاحمت کاروں سے رابطے میں ہیں، قیدیوں کی رہائی بہت قریب ہے
لیکن مزاحمت کار بہت گندے
(Nasty) لوگ ہیں'۔
ان مثبت
اشاروں سے پھوٹنے والی امید کی کرن 14 اپریل کو اسوقت دم توڑ گئی جب مزاحمت کاروں کے ترجمان سمیع ابوظہری نے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیلی تجاویز کا متن
انھیں موصول ہوچکا ہے جسکے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مزاحمت
کاروں کو غیرمسلح ہونا ہوگا۔ ترجمان نے کہا یہ مطالبہ ہم کروڑوں بار مسترد کرتے
ہیں۔اپنی جوابی تجویز میں مزاحمت کاروں نے کہا کہ اگر اسرائیل امن معاہدہ کرکے غزہ
سے اپنی فوج واپس بلالے تو اسکے سارے کے سارے قیدی بیک وقت رہا کردئے جائینگے۔اسرائیل
کے غیر جانبدار تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ اسلحہ رکھنے کی تجویز وزیرتزویراتی (Strategic)امور
ران ڈرمر کے ذہن کی اختراع اور امن کی راہ میں بارودی سرنگ بچھانے کی ایک کوشش ہے۔
یہ خبر سامنے آتے ہی ہزاروں لوگوں نے تل ابیب میں ران ڈرمر کے گھر کے باہر دھرنا
ڈال کر بیٹھ گئے۔
ہفتہ 12 اپریل کو جہاں امن مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا وہیں
اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے آخری
انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شایع ہواہے
اسکے مطابق اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری
پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ ابھی اب اسرائیل فوج کا
سیکیورٹی زون ہے۔ وزیردفاع نےاہل غزہ سے کہا 'کہ وہ خود کو مزاحمت کاروں سے آزاد
کرکے ہمارے قیدیوں کو آزاد کردیں کہ یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے۔ اب مزاحمت
کار خود ہی راہ فرار اختیار کررہے ہیں اور انکے لئے تمہاری حفاظت ممکن نہیں لہذا
بہتر یہی ہے کہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچالو'۔یعنی
بقول حضرت احمد فراز
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو ۔۔
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا ۔۔بس
ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
تاہم
معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا فاضل وزیردفاع بیان کر رہے ہیں۔ اس طویل خونریزی نے
جہاں غزہ اور اہل غزہ کو برباد کردیا وہیں سرائیلی فوج میں بھی تھکن بلکہ
جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اس سے پہلے 1967 کی جنگ میں
مصر، شام، اردن، عراق اور لبنان کے ساڑھے چار لاکھ سپاہی، 800 طیارے اور 2500 سے
زیادہ ٹینک صرف چھ دن ثابت قدم رہ سکے۔چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے کل 900 سپاہی ہلاک ہوئے۔چھ سال بعد 1973 کی جنگ
رمضان (جنگ یوم کپر) صرف 23 دن جاری رہی،
اس جنگ میں مصر اور شام کو الجزائر، عراق، لیبیا اور تیونس کے علاوہ شمالی کوریا
اور کیوبا کی مدد بھی حاصل تھی۔ جنگ رمضان میں اسرائیل کے 2800 فوجی مارے گئے۔
جبکہ حالیہ خونریزی 560 دنوں سے جاری ہے جس میں 40 ہزار مزاحمت کاروں کے مقابلہ پر
اسرائیل نے محفوظ (Reserve)سپاہیوں سمیت اپنے لاکھوں فوجی جھونک رکھے ہیں۔جھڑپوں میں اسرائیل کے 2000 کے قریب سپاہی ہلاک اور 75 ہزار
سے زیادہ زخمی ہوئے جنکی نصف تعداد معذور ہوچکی ہے۔
دہشت گردی اور قومی سلامتی
کا ہوا کھڑا کرکے نیتن یاہو اور انکے انتہا پسند اتحادی غزہ مزاحمت کاروں کے مکمل
خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا راگ الاپ رہے ہیں اورامریکی صدر بھی انکی لئے میں
لئے ملائے ہوئے ہیں لیکن فوج میں جنم لینے
والی بیچینی اب منظر عام پر آنا شروع ہوگئی ہے۔
نواپریل کو اسرائیل فضائیہ
کے ایک ہزار سے زیادہ (Reserve)افسران نے چیف آف ائر اسٹاف میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھاجسکی
نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شہری آبادی پر
وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہئے۔ اس
خط پر نیتن یاہو سخت غصے میں آگئے اور وزیردفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ 'اس حرکت
سے فوج میں بددلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا لہذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً
برطرف کردیا جائے'۔قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا reserve دستے کا حصہ بنالیا
جاتاہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دولاکھ Active
سپاہ کے شانہ بشانہ تین لاکھ محفوظ سپاہی
لڑائی میں شریک ہیں جوایک ماہ محاذ پر گزار کر 30 دن آرام کرتے ہیں۔
ابھی
ان باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی
بحریہ کے 150سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیردفاع کے نام ایسا ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے غزہ
خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ بے مقصد جنگ سے اسرائیل
کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔خط میں ایک
جملہ یہ بھی ٹانک دیا گیاکہ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیراعظم نے 59اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈالدی
ہے۔ شام کو میڈیکل کور کے سینکڑوں افسران نے اسی مضمون کا سندیسہ اپنی قیادت کو
بھجوادیا۔ عبرانی چینل 12 کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے
بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے کہ "غزہ میں
جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کیلئے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے لڑی جا
رہی ہے"۔
جمعہ 11 اپریل کو فوج کے
انتہائی اہم 8200انٹیلیجنیس یونٹ کے 250 ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانیوالے خط نے
اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کردیا۔جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین 18 سے 21 سال کے 5000 نوخیز جوانوں پر مشتمل
اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل ودماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان
افسران نے کہا کہ لمبی و بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو تھکادیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کیلئے
خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کرکے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی
رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔یونٹ 8200 کے خط پر وزیراعظم نے شدید ردعمل
کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔
پیر 14 فروری کو موساد کے
سابق سربراہوں سمیت سینکڑوں سابق ایجنٹ
بھی جنگ بندی تحریک میں شامل ہوگئے اور وزیراعظم کے نام کھلے خط میں انھوں نے قیدیوں
کی رہائی کی خاطر فوری امن معاہدے کا مطالبہ کردیا۔خط میں کہا گیا ہے کہ لڑائی
دوبارہ شروع کرکے نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالدی ہیں۔ اس
خط پر موساد کے سابق سربراہ دانیال جاسم (Danny Yatom)، ابراہیم حلوی (Efraim Halevy اور تامر پاردو (Tamir
Pardo) کے علاوہ250سابق افسران کے دستخط ہیں
غزہ
نسل کشی کی بازگشت کینیڈا میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں 28 اپریل کو انتخابات ہونے
ہیں۔ آٹھ اپریل کو جب کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی، کالگری (Calgary)کے ایک انتخابی جلسے میں تقریر کیلئے اسٹیج پر آئے تو بہت
سے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہا 'جناب کارنی !!!غزہ میں نسل کشی کا بھیانک عمل جاری ہے،
پہلے اس پر اظہار خیال کیجئے'۔ کنیڈین وزیراعظم نے جواب دیا۔ 'مجھے یہ بات معلوم ہے
اسی لئے ہم نے (اسرائیل) کو اسلحے کی فراہمی بند کردی ہے'۔یہ خبر سن کر نیتن یاہو
آپے سے باپر ہوگئے اور ٹویٹر (X)پر پیغام داغ دیا کہ 'ایک جمہوری ملک کی
حمائت کے بجائے جو منصفانہ انداز میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے، جناب کارنی
خونخوار دہشت گردوں کی حمائت کررہے ہیں'۔
جنگی جنون کو ہوا دینے
کیلئے عراق میں میزائیل کی تنصیب کا شوشہ
بھی چھوڑ دیا گیاہے۔ پہلے ٹائمز آف لندن نے خبر شایع کی کہ ایران نے اپنے عراقی جنگجو جتھے قوات الحشد الشعبی (PMF) کو قدس 351اورجمال
69منجنیقی (Ballistic)میزائل
فراہم کردیے ہیں۔اخبار نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی شہادت
یا ثبوت پیش نہ کیا۔ لیکن دودن بعد اسی کہانی کو رائٹرز نے بھی چھاپ دیا۔ دلچسپ
بات کہ صرف چند دن پہلے تک امریکی حکام سینہ پھلا کر کہہ رہے کہ 'یمن کے حوثیوں کا
حشر دیکھ ایران نے اپنی عراقی ملیشیا کو غیر مسلح کرنا شروع کردیا ہے'۔ عراق میں
دورمار میزائیلوں کی تنصیب کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا لیکن اسرائیلی میڈیا
اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔
امریکی
جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کاسلسلہ جاری ہے۔
جمعہ 11 اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کولمبیا میں
طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکہ بدری کا
فیصلہ سنادیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُرتشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی
میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف
فردِ جرم، وزیرخارجہ مارکو روبیو کی
دوصفحاتی یاد داشت (MEMO)پر مشتمل ہے جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیرخارجہ
نےتحریر کیاکہ ' 7 مارچ کو انہیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں
معلومات ملی تھیں، جسکے مطالعے کے بعد انھیں یقین ہوگیا کہ خلیل کے امریکہ میں
قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے
گا۔یہود مخالف مظاہرے اور تخریبی سرگرمیاں، امریکہ میں یہودی طلبہ کے خلاف معاندانہ
ماحول کے فروغ کا سبب بن سکتی ہیں۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز (Jamee Comans) نے اپنے مختصر فیصلے
میں لکھا 'میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں'۔ فیصلہ
سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کرکے کہا'یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے جو
میرے خاندان سے ایک ہزار میل دور ہے۔ جواں سال محمود خلیل 8 مارچ سے نظر بند ہے۔پیر
14 دسمبر کو جامعہ کولمبیا کے ایک اور طالب علم محسن مہدوی کو ریاست ورمونٹ (Vermont) سے اسوقت گرفتار کرلیا گیا
جب وہ شہریت کیلئے انٹرویو دینے آیا تھا۔ دوسری طرف غزہ
نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے جامعہ کورنیل کی ایک
ارب اور Northwestern یونیورسٹی کیلئے 79کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل
کردی ہے۔
امریکہ اور
اسرائیل کے سخت و غیر لچکدار موقف و روئے کے باوجود عرب ممالک کا تل ابیب سے
تعاون جاری ہے۔ گزشتہ
ہفتے اسرائیل کیساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے بھی شرکت کی۔
خلیج یونان پر ہونے والی اس مشق میں امریکہ، ہندوستان، فرانس، اٹلی اور پولینڈ نے
حصہ لیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 اپریل 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 18 اپریل 2025
روزنامہ امت کراچی 18 اپریل 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 اپریل 2025
No comments:
Post a Comment