واشنگٹن میں چوٹی ملاقات اور غزہ کا غیر یقینی منظرنامہ
جنگ بندی
یا نئی چال؟
غزہ سے شہریوں کے انخلا پر نیتن یاہو اور
ٹرمپ میں اتفاق
غذاکی کمی یا malnutrition سے غزہ کا ہر بچہ متاثر ہے
فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے چار
ہفتوں میں 613فلسطینی جاں بحق
اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند
اورتجارتی تعلقات منقطع کر دئے جائیں۔ اقوام متحدہ
ایک طبی ماہر اور ایک صحافی
کا قتل
اسرائیلی وزیراعظم
آجکل امریکہ میں ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ غزہ میں جنگ
بندی کا حکم دینے کیلئے صدر ٹرمپ نے انھیں یہاں طلب کیا ہے ۔ یکم جولائی کو واشنگٹن
سے فلوریڈا جاتے ہوئے انھوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے دورۂ واشنگٹن پر
آنے والے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے غزہ میں جنگ کے خاتمے پر "بہت سخت
مؤقف" اختیار کریں گے۔ اس سے ایک دن پہلے
امریکی
صدر نے پیشکش کی تھی کہ اگر مزاحمت کار اگلے 60 دنوں میں 10 قیدی اور 18 لاشیں اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو
جائیں، تو وہ مستقل امن کے لیے ذاتی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔یکم جولائی کو صدر
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل"
پر
لکھا:"دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران ہم تمام
فریقین کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے پر کام کریں گے۔"اپنے مخصوص انداز
میں اس خوشخبری کو دھمکی میں ملفوف کرتے ہوئے مزید کہا:"میری امید ہے کہ
مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں مزاحمت کار اس معاہدے کو قبول کرلیں، کیونکہ اس سے بہتر
موقع دوبارہ نہیں ملے گا، بلکہ حالات مزید بگڑیں گے۔"
صدر
ٹرمپ کی خوشخبریوں کا کھوکھلاپن اس بات سے عیاں تھا کہ انھوں نے اشارتاً بھی یہ
نہیں بتایا کہ معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟۔ درحقیقت، یہ تجویز کئی ماہ سے جاری
مذاکرات کا ایک تسلسل ہے۔ بات چیت کا بنیادی تنازعہ یہ ہے کہ مزاحمت کار
مستقل جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے 60 دن بعد دوبارہ
جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے آج تک کسی امن معاہدے
کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔
امن
کیلئے اسرائیل کی دلچسپی کا اظہار اسی وقت ہوگیا جب پانچ جولائی کو وزیراعظم کےدفتر (PMO)نے ایک بیان میں
کہا کہ قطری تجویز پر مزاحمت کاروں کی جانب سے پیش کردہ یہ تین ترامیم اسرائیل کے
لیے ناقابلِ قبول ہیں:
- عارضی جنگ بندی کے دوران مستقل امن کے لیے مذاکرات
جاری رہیں اور حتمی معاہدے تک جنگ دوبارہ نہ چھیڑی جائے۔
- انسانی امداد کی بلا رکاوٹ آمد کی ضمانت دی جائے،
اور امداد کی تقسیم اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور غزہ ہلالِ احمر کے ذریعے
ہو، نہ کہ متنازعہ تنظیم GHF کے تحت۔
- اسرائیلی فوج ان پوزیشنوں پر واپس چلی جائے جن پر
مارچ میں دونوں فریق رضامند ہوئے تھے۔
مزاحمت
کاروں نے اس بیان کا باضابطہ جواب نہیں دیا، تاہم القدس نیوز کے مطابق ان کے عسکری
ترجمان نے کہا:"جنگ اس وقت ختم ہوگی جب مستقل امن معاہدہ
ہماری شرائط پر ہوگا۔ دوسری صورت میں ہمارے لیے آزادی یا موت ہی راستہ ہے۔"اتوار
کو واشنگٹن روانگی سے قبل تل ابیب ایئرپورٹ پر نیتن یاہو نے اپنا یہ عزم پھر
دہرایا کہ "مزاحمت کاروں کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ، بلکہ انکا
غزہ سے انخلا، ہمارا ہدف ہے۔"
اسرائیلی
وزیراعظم کے امریکہ پہچتے ہی کہدیا گیا کہ نیتن یاہو،
ٹرمپ ملاقات سے پہلے اور بعد میں فوٹوسیشن ہوگا نہ پریس کانفرنس اور نہ مشترکہ
اعلامیہ جاری ہوگا۔عشائیہ بھی نجی نوعیت کا تھا جس میں دونوں رہنما اپنی بیگمات
کےساتھ شریک ہوئے۔اس راز داری کی بنا پر اس ملاقات کی کوئی تفصیل وہائٹ ہاوس یا تل
ابیب نے جاری نہیں کی۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم کیساتھ امریکہ جانیوالے ایک اہلکار
نے بتایا کہ 'دونوں رہنماوں کے درمیان غزہ انخلا پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے اور صرف
عملدرآمد کا طریقہ کار (Operational
Coordination) طئے کرنا باقی ہے۔ملاقات کے دوران ان ممالک کی فہرست کو آخری شکل دی
گئی جو اہل غزہ کو قبول کرلیں۔حوالہ:ٹائمز آف اسرائیل
اسرائیلی وفد میں شامل ایک
اور افسر نے مستقبل کے غزہ کا نقشہ کچھ اسطرح پیش کیا 'مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر
غزہ سے چلے جائینگے، کوئی اورقوت (محمود
عباس کی مقتدرہ فلسطین) نظم و نسق سنبھالے گی تاہم غزہ اسرائیلی 'حفاظت'
میں رہے گا۔ یہ "حفاظت" نہیں بلکہ مکمل "نظامِ حکومت" ہوگا'۔حوالہ: یروشلم ٹائمز
عین اسی وقت تل ابیب میں
وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ر فح کے ملبے پر نئی "فلاحی جنت" کی تعمیر کا
اعلان کیا۔اسکی تفصیل بیان کرتے ہوئے جناب کاٹز نے کہا کہ ر فح کی تباہ شدہ جگہ پر 6 لاکھ فلسطینیوں
کے لیے ایک Humanitarian
City تعمیر
ہوگا۔ ابتدا میں یہاں ان لوگوں کو بسایا جائیگا جو بمباری کے باعث بے گھر ہوکر
ساحلی علاقے المَواسی میں پناہ گزین ہیں۔فلسطینیوں کو اس زون سے باہر جانے کی
اجازت نہیں ہوگی۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ فلسطینی "رضاکارانہ طور پر"
غزہ خود ہی چھوڑ دیں تو انکے لئے زیادہ بہتر ہوگا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو غزہ کی
پوری آبادی کو اسی زون میں منتقل کردیا جائیگا۔
یعنی 25 لاکھ اہل غزہ کی ملک
بدری، مزاحمت کے مکمل خاتمے اور غزہ پر اسرائیل کے غیر مشروط کنٹرول کی تجویز صدر
ٹرمپ کیلئے قابل قبول ہے ۔ قیدیوں کی باحفاظت رہائی کیلئے عبوری جنگ بندی کی
جائیگی جس پر جاری گفتگو کو آگے بڑھانے کیلئے صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف ایک
دوروز میں قطر جارہے ہیں۔ مزاحمت کاروں کی جانب سے واشنگٹن مذاکرات پر کوئی ردعمل
سامنے نہیں آیا لیکن اگر اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا پر آنے والی خبروں کو درست
مان لیا جائے تو مزاحمت کاروں کا جواب سب کو معلوم ہے۔
جنگ
بندی کی بات شروع ہوتے ہی اسرائیلی مظالم میں شدت آگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی
کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے مطابق، گزشتہ
چار ہفتوں میں اسرائیلی فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 613 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔اسرائیل اب پناہ گزین
خیموں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
غذائی بحران اور اسپتالوں کی تباہی
امریکی
ڈاکٹر فیروزسدھونے غزہ سے واپسی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ، اسرائیلی فوج نے غزہ کے ہسپتالوں کو تباہ کردیا
ہے، اور اب پورے غزہ میں کوئی اسپتال، کلینک یا ڈسپنسری پوری طرح کام نہیں کر رہی۔
وہاں ر بچہ غذائی قلت یا
malnutrition کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کی سخت رپورٹ
اقوام
متحدہ کی نمائندہ (Rapporteur)، فرانسسکا البانیز نے جنیوا میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا
کہ:"اسرائیل غزہ میں منظم نسل کشی کر رہا ہے۔
60 سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں اس جرم میں ملوث ہیں۔"، انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ:"اسرائیل
کو اسلحے کی فراہمی بند اور اس سے تجارتی و مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔"
اسرائیل
کے سفارتی مشن نے اس رپورٹ کو "قانونی لحاظ سے بے
بنیاد، توہین آمیز اور منصب کا غلط استعمال" قرار دیا۔
عوامی دباؤ اور اندرونی حملے
ادھر
اسرائیل میں قیدیوں کے لواحقین اور عام شہریوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 5 جولائی
کو غزہ کی سرحد اور کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے جنگ کے خلاف مظاہرے کیے۔
اسی
دوران اسرائیلی فوج کو اپنے ہی مسلح کیے گئے قبضہ گردوں کی جانب سے حملوں کا سامنا
ہے۔ 30 جون کو ایک فوجی اڈے پر حملہ کر کے کئی تنصیبات اکھاڑ دی گئیں۔ اطلاعات کے
مطابق وزیرِ داخلہ ایتامار بن گوئر ان گروپوں کو نجی ملیشیا کی شکل دے رہے ہیں۔عرب
کہاوت ہے: "کتے کو اتنا مت
کھلاؤ کہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے"۔
بین الاقوامی ردعمل
میلبورن،
آسٹریلیا میں چار جولائی کو میلبورن
، آسٹریلیا میں انتہا پسند اسرائیلی رہنما شاہار سیگل (Shahar Segal) کے مزرنون (Miznon) ریستوران پر نوجونوان نے مظاہرہ کیا اور اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے
لگائے۔ سیگل صاحب غزہ میں امداد تقسیم کرنے کے امریکی واسرائیلی مشترکہ ادارے GHF، المعروف 'قتل کا جال'
کے ترجمان ہیں۔ مظاہرے کے دوران دھکم پیل سے ریستوران کے برتن ٹوٹ گئے اور میزیں
الٹ گئیں۔ اسی دن غروب آفتاب کے وقت ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا۔ یہودی
عبادتگاہ (Synagogue) کو اسوقت
آگ لگانے کی کوشش کی گئی جب وہاں سبت کی عبادت ہورہی تھی۔اس واقعہ میں کوئی جانی
نقصاں نہیں ہوا اور ربائی (امام) سمیت وہاں موجود تمام لوگ بحفاظت وہاں سے نکال
لیے گئے۔کسی بھی عبادتگاہ پر حملے کا کوئی جواز نہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ
فلسطینیوں اور مسلمانوں سمیت تمام لوگوں نے اسکی مذمت کی۔
طبی ماہر اور صحافی کا قتل
گزشتہ
ہفتے ڈاکٹر مروان سلطان، ڈائریکٹر انڈونیشین ہسپتال، اسرائیلی حملے میں جاں بحق
ہوئے۔ پچاس دن میں اسرائیل نے 70 طبی اہلکاروں کو قتل کیا ہے۔
اسی
دوران ایک ساحلی ریستوران پر حملے میں 32 سالہ صحافی
اسماعیل ابو حطب سمیت 95 افراد جاں بحق ہوئے۔ غزہ میں اب تک 228صحافی دنیا کو سچ دکھانے کا مقدس فریضہ انجام
دینے ہوئے اپنی جان قربان کرچکے ہیں۔
نوٹ:
کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً
استعمال کیا گیا ہے
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 جولائی 2025
ہفت
روزہ دعوت دہلی 11 جولائی 2025
روزنامہ
امت کراچی 11 جولائی 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 جولائی 2025
No comments:
Post a Comment