Thursday, August 21, 2025

 

 نئی امن تجویز اور  نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی۔۔ امریکی سرپرستی  کا خمار؟؟؟

پیر (18اگست) کے دن غزہ مزاحمت کاروں نے اُس معاہدے کو مبینہ طور پر قبول کر لیا جو ایک روزپہلے مصر اور قطر کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ منصوبے کے تحت، 10 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 150 فلسطینی رہا ہوں گے۔ مرنے والے قیدیوں کی لاشیں بھی واپس کی جائینگی جبکہ مزید قیدیوں اور مستقل جنگ بندی پر بات چیت دوسرے مرحلے میں ہوگی۔ عارضی جنگ بندی کا دورانیہ 60 دن ہوگا۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی بعض شرائط نرم کر دی ہیں، مثلاً سرحدی بفر زون کے معاملے پر وہ اب 800 میٹر تا ایک کلومیٹر کا دائرہ ماننے پر آمادہ ہیں، جبکہ اسرائیل 1 تا 1.2 کلومیٹر چاہتا ہے۔ یہ تجویز بڑی حد تک اسی منصوبے سے ملتی جلتی ہے جو چند ماہ قبل امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیش کیا تھا، جس پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسری طرف نیتن یاہو نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں جزوی معاہدے میں دلچسپی نہیں، اور جنگ صرف اس وقت رکے گی جب تمام قیدی ایک ساتھ رہا کیے جائیں اور اسرائیلی شرائط پوری ہوں، یعنی مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں۔ اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمائت ہے جنھوں نےنیتن یاہو کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کسی ڈیل سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا، کیونکہ اب تک جو قیدی رہا ہوئے ہیں، ان کی پشت پر فوجی دباؤ ہی کارفرما تھا۔ لگتا ہے کہ چچاسام کی نیت اور اسرائیل کی ضد قیامِ امن کا یہ نیاموقع بھی ضائع کر دے گی۔

غزہ شہر پر حملہ اور غرب اردن میں قبضہ گردوں کی غارت گری

اس سے تین دن پہلے اسرائیلی فوج غزہ شہر کے مضافاتی علاقے پر شدید گولہ باری سے بڑے حملے کا آغاز کرچکی ہے۔اسرائیلی حزبِ اختلاف، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس کارروائی کو ایک نئے قتل عام کا نقطہ آغاز قرار دیا، لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کے خیال میں غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، اس نئی فوجی مہم جوئی کا ہدف پورے غزہ پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کی بے دخلی ہے، تاکہ صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront منصوبے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

غزہ پر مکمل قبضے کے لئے بھرپور فوجی آپریشن کے ساتھ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ فوجی پہرے میں قبضہ گردوں نے فلسطینی آبادیوں میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہزاروں فلسطینی آبائی زمینوں سے بے دخل ہو کر اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیے گئے۔

نئی اسرائیلی بستی کا منصوبہ یا  فلسطینی ریاست کی تدفین؟

اسی ہفتے اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے قریب E1 سیٹلمنٹ پروجیکٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اگر مکمل ہوا تو فلسطینی ریاست کا تسلسل جغرافیائی طور پر ٹوٹ جائے گا۔ یروشلم اور غیر قانونی اسرائیلی بستی "معالیہ ادومیم" (Ma’ale Adumim) کے درمیان واقع E1 میں تعمیرات کا منصوبہ تین دہائیوں سے عالمی دباؤ کے تحت رکا ہوا تھا۔بدھ 13 اگست کو معالیہ ادومیم کی پہاڑیوں پر ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسموترچ نے بتایا کہ E1 منصوبے کے پہلے مرحلے میں 3401 نئے گھروں اور متعلقہ سہولتوں کی تعمیر کے لیے رقم مختص کر دی گئی ہے۔ انھوں نے تکبر سے چور لہجے میں کہا کہ E1 منصوبے سے فلسطینی ریاست کا تصور دفن ہو جائے گا۔

یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں، کیونکہ اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی، مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور رام اللہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردے گی۔ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد  فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر "گہری تشویش" کا اظہار کیا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے زمینی حقائق اور نقشہ تبدیل کرنے کے ٹھوس عملی اقدامات، قراردادوں اور بیانات سے غیر مؤثر نہیں کیے جا سکتے۔ ای ون  منصوبہ محض زمین پر قبضہ نہیں بلکہ تاریخ، امید، اور انصاف پر حملہ ہے۔

گریٹر اسرائیل: تعویذ، توسیع، اور عرب ردعمل

دنیا غزہ و غرب اردن پر تشویش کا اظہار کر رہی تھی کہ 14 اگست کو وزیراعظم نیتن یاہو نے'اسرائیلِ کبریٰ یا Greater Isreal  منصوبے کی رونمائی کر دی۔ مقامی i24News کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے تصور سے گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔یہ تصور 1967 کی جنگ کے بعد زیادہ مقبول ہوا، جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیاں ہتھیالیں۔

انٹرویو کے دوران میزبان شیرون گال (Sharon Gal) نے نیتن یاہو کو "ارضِ موعود" کا ایک نقشہ نما تعویذ دیا، جس میں گریٹر اسرائیل کا ایک توسیع شدہ نقشہ دکھایا گیا تھا۔ عبرانی انجیل کی عام تعبیرات میں اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک سمجھی جاتی ہیں،  یعنی موجودہ اسرائیل کے ساتھ اردن، لبنان، شام، عراق، مصر کے کچھ حصے اور شمالی سعودی عرب۔ البتہ مکہ اور مدینہ ان علاقوں سے کافی دور ہیں جو "گریٹر اسرائیل" کے زیادہ تر نقشوں میں دکھائے جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، گریٹر اسرائیل کا تصور صرف آزاد فلسطین کے لیے موت کا پیغام نہیں بلکہ عرب دنیا پر قبضے کی شیطانی خواہش ہے۔ اس انٹرویو پر عرب لیگ، اردن، مصر، قطر، سعودی عرب اور مقتدرہ فلسطین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

مغربی دنیا: مذمت، مگر عمل ندارد

جرمنی کی جانب سے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کے سوا مغرب کی طرف سے کوئی عملی قدم اٹھتا نظر نہیں آتا۔ زبانی مذمت، تشویش، اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اظہارِ عزم جاری ہے۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لَکسن (Christopher Luxon) نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو نے ہوش کھو دیے ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری بے دخلی، فوجی قبضہ، اور پناہ گزینوں پر حملے ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ جناب لکسن نے کہا کہ انکا ملک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہا ہے۔

اطالوی وزیر خارجہ گوڈو کروسیٹو نے غزہ اور یوکرین کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نیتن یاہو کو "اسرائیل کا پیوٹن" قرار دیا۔ روزنامہ La Stampa سے ایک انٹرویو میں انھوں نے سوال کیا: کیا یورپ اب بھی اسرائیل کو روکنے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھائے گا؟

دوہرا معیار: یوکرین ہیرو، غزہ ناگزیر نقصان؟

اطالوی وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغرب پر دوہرے معیار کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا غزہ میں مرنے والوں کو "ناگزیر نقصان" یا Collateral Damage اور یوکرین میں مرنے والوں کو "ہیرو" کہتی ہے۔ شاید تعریف کے یہ معیار بھی نیٹو کے نقشے کے ساتھ بدلتے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، لاکھوں بے گناہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، جبکہ عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے۔

مذہبی حوالوں کی سیاست: خدا کی استعانت یا سیاسی ڈھال؟

امریکہ میں اسرائیل کے حامی سیاستدان تنقید سے بچنے کے لیے خودساختہ مذہبی حوالے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیکساس (Texas)سے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ "انجیل مقدس کے مطابق اسرائیل پر لعنت کرنے والے پر خدا کی لعنت اور اس کی استعانت کرنے پر برکت ہوگی"۔جب میزبان ٹکر کارلسن (Tucker Carlson) نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: "کیا واقعی آپ انجیل کا اقتباس بیان کر رہے ہیں؟" تو سینیٹر صاحب نے اس کی تصدیق کی۔ تاہم کینیڈا کے مسیحی اخبار Christian Courier نے حالیہ اشاعت میں ٹیڈ کروز کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انجیل میں ایسی کوئی بات درج نہیں۔

اسی انداز میں امریکی سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے سربراہ لنزی گراہم (Lindsey Graham)نے 13 اگست کو ایک تقریر میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کو خبردار کیا کہ اگر امریکی حکومت نے اسرائیل کی مدد بند کی تو "خدا ہم پر سے ہاتھ کھینچ لے گا"۔ یہ بیان بظاہر پارٹی کی رکن مارجری ٹیلر گرین کے اس الزام کا جواب تھا، جس میں انہوں نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔

فنکاروں کی بغاوت: میڈونا اور جورا کی صدائیں

جہاں سیاستدان اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی میں مصروف  ہیں، وہیں فنکار و اداکار اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کی مشہور پاپ گلوکارہ میڈونا (Madonna)نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا، اعلیٰ حضرت پوپ لیو چہار دہم سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ غزہ کا دورہ کریں اور وہاں کے معصوم بچوں کے لیے انسانیت کے دروازے کھولیں۔

سوشل میڈیا پر میڈونا نے لکھا:"اے محترم باپ، براہِ کرم غزہ جائیں اور اپنی روشنی ان بچوں تک پہنچائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ سب کے بچے ہیں، مجھ سے ان کی اذیت دیکھی نہیں جاتی۔ آپ واحد شخصیت ہیں جنہیں غزہ میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بابا! پلیز کہہ دیجیے کہ آپ (غزہ) جا رہے ہیں۔"

یہ اپیل اس لیے بھی غیر معمولی تھی کہ میڈونا کا تل ابیب میں گھر ہے، اور وہ اسرائیل کی پرجوش حامی سمجھی جاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ مسیحی ہونے کا باوجود میڈونا سبت کے احترام میں ہفتے کے روز موسیقی کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتیں اور وہ یہودی تہوار بھی مناتی ہیں دوسری طرف  سر پر Kippah (یہودی ٹوپی) جمائے دیوارِ گریہ سے لپٹے روتے دھوتے نیتن یاہو سبت کے دن بھی غزہ کے بچوں پر آگ برساتے ہیں۔

اسی ہفتے کوپن ہیگن فیشن ویک کے دوران، Marimekko کے بہار/گرمی 2026 شو میں ماڈل اور موسیقار Jura نے کیٹ واک پر فلسطینی پرچم کی نمائش کی، جس پر انگریزی میں لکھا تھا:“Act now against genocide”

انسٹاگرام پر محترمہ نے پیغام دیا:"فلسطین کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بھوک سے ہلاکت آج برداشت کر لی، تو پھر دنیا کے امیر ترین لوگ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آئندہ کس اقلیت کو نشانہ بنایا جائے۔"

فوجی ضمیر کی بیداری: پائلٹوں کا احتجاج

غزہ پر مکمل قبضے کے بارے میں اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ فضائیہ کے ایک سو سے زیادہ ریٹائرڈ ہوا بازوں اور سابق اعلیٰ افسران نے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پریس کو جاری کردہ کھلے خط میں ان افسران نے لکھا کہ قیدیوں کی واپسی کو سیاسی مفادات کے تحت مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنگ بند کی جائے اور قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔خط کے اختتام پر ان پائلٹوں نے جذباتی انداز میں لکھا:

"ہم نے اپنی زندگیوں میں کئی بار خطرات مول لیے ہیں، لیکن آج ہم خاموش رہ کر سب سے بڑا خطرہ مول لیں گے، اپنی انسانیت کھو دینے کا۔"

ملک گیر ہڑتال: قیدیوں کی واپسی یا سیاسی قربانی؟

اتوار 17 اگست کو قیدیوں کی بازیابی اور غزہ جنگ بندی کے لیے ملک گیر ہڑتال ہوئی، جس سے پورا اسرائیل مفلوج ہو کر رہ گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ اس دوران نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے صدر دفتر، وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، وزیرِ تزویراتی امور ران ڈرمر اور دیگر وزرا کے گھروں کے سامنے دھرنے دیے گئے۔پولیس سے تصادم میں کئی مظاہرین زخمی ہوئے اور 38 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

اسرائیل کے انتہا پسند و نسل پرست حکمران اتحاد نے ہڑتال کی مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مزاحمت کاروں کے خاتمے اور غزہ پر قبضے سے پہلے قیدیوں کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دشمنوں کو فنا کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا، جبکہ وزیرِ داخلہ اتامر بن گوئر نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال ناکام ہو گئی۔

دوسری جانب قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لیپڈ نے کہا کہ حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قیدیوں کی قربانی دینے کا کوئی حق نہیں، اور احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قیدیوں کی واپسی کے لیے ایک جامع معاہدہ نہیں ہو جاتا۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے:

گیارہ اگست کو غزہ کے حق پرست صحافی انس الشریف کی تدفین ہوئی، اور دوسرے ہی دن ان کے جواں سال بھتیجے مصعب الشریف نے قلم سنبھال لیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 اگست 2025

روزنامہ امت کراچی 22 اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 اگست 2025


Thursday, August 14, 2025

 غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ

آپریشن، اسرائیلی فوج کیلئے مہلک ہوسکتا ہے۔ فوج کی تنبیہ

اسرائیل کے سابق دفاعی حکام کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل

ہرقیمت پر آزادی و خودمختاری کو دفاع کیا جائیگا ۔ مزاحمت کاروں کا عزم

جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کردی

مصر، غزہ کی گیس، اسرائیل سے خریدے گا، 35 ارب ڈالر کا معاہدہ

شفا ہسپتال کے باہر صحافیوں کے خیمے پر حملہ، چارقلمکار اورڈرائیور جاں بحق

فوج کی شدید مخالفت کے باوجود اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ  منظور کرلیا۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے فوج کو پانچ ماہ کی مہلت دی ہے۔ آپریشن پلان کے مطابق پانچ ڈویژن فوج وسط شہر پر چڑھائی کریگی۔بھارتی نیوز چینل CNN-News 18سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے  کہا کہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم وہ اس پر براہ راست حکومت نہیں کرے گا۔ انکا کہنا تھا کہ 'ہماری منزل غزہ کو فتح کرنا نہیں، بلکہ مزاحمت کاروں کا خاتمہ اور قیدیوں کی بازیابی ہے۔ اس کے بعد غزہ کو ایک عارضی عرب حکومت کے سپرد کیا جائے گا'۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بہت صراحت سے کہا کہ قبضے کے بعد غزہ، مقتدرہ فلسطین (PA) کو دیا جائے گا اور نہ اسے مزاحمت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ پٹی کی سیکیورٹی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔انٹرویو کے سرسری تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہونے کی صورت میں غزہ نیا غربِ اردن بنے گا۔اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ساحلی پٹی کی حتمی صورت گری صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront کی شکل میں ہونی ہے۔

فوجی مخالفت اور حزبِ اختلاف کی تنقید

تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ کابینہ میں اس  معاملے پر بحث کے دوران فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر نےکھل کر کہا کہ یہ مہم جوئی، فوج کے بھاری جانی نقصان کے ساتھ غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی دوران قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لاپید نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات ظاہر کیے۔ انہوں نے عبرانی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'غزہ پر قبضہ ایک بہت ہی برا خیال ہے۔ اس طرح کی مہم جوئی اُس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک قوم کی اکثریت آپ کے ساتھ نہ ہو ۔اگلے روز ایک بیان میں جناب لاپید نے دوبارہ کہا کہ 'یہ منصوبہ ایک اور جنگ کو دعوت دے رہا ہے جس کا نتیجہ قیدیوں کی ہلاکت، مزید فوجیوں کی شہادت اور قوم کے اربوں شیکال (اسرائیلی کرنسی) کا ضیاع ہوگا، جو چند انتہاپسند وزرا کے واہموں پر قربان کیا جا رہا ہے۔'

چند روز پہلے عبرانی میڈیا نے انکشاف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے تقریباً 80 ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں، جن کی اکثر دوبارہ محاذ پر جانے کے قابل نہیں۔اسرائیلی فوج کی کل تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 70ہزار ہے جسے چار لاکھ 65 ہزار ریزرو سپاہیوں کی مدد حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی اعلیٰ فوجی افسران غزہ میں جاری جنگ کو کسی امن معاہدے کے ذریعے جلد از جلد ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔

سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا ویڈیو پیغام

اسی ہفتے اسرائیل کے 19 سابق اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں نے ایک مشترکہ ویڈیو پیغام میں غزہ میں جنگ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس جنگ میں فتوحات سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، اور یہ جنگ اب کسی فوجی ضرورت کی بجائے سیاسی مقاصد کے تحت جاری رکھی جا رہی ہے۔ اسرائیلی  ISI ،شاباک (Shin Bet)کے سابق سربراہ نداف آراگامان کا کہنا تھا: "اب ہم محض اپنے نقصانات کی تلافی میں لگے ہیں"۔ موساد کے سابق ڈائریکٹر تمیر پاردو نے بہت واشگاف لہجے میں کہا:"ہم شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں۔"اس ویڈیو کانفرنس میں اسرائیلی فوج، موساد اور شاباک کے کئی سابق سربراہان شامل تھے۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کاعزم

نیتن یاہو کے اس منصوبے پر فلسطینی مزاحمت کاروں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مدد سے دشمن کا یہ خواب کسی قیمت پر پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔اس بیان میں کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا گیا کہ عرب یا غیر عرب جو قوت بھی غزہ کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کریگی اسے قبضہ گرد سمجھا جائیگا اور قبضہ گردوں سے ہمارے سلوک کے بارے دنیا کسی ابہام میں نہ رہے۔

عالمی ردعمل

جنگ میں توسیع کے اس منصوبے کی برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ، سعودی عرب، اردن اور پاکستان سمیت تقریباً تمام دنیا نے شدید مخالفت کی ہے۔اسرائیلی منصوبے کی خبر جاری ہوتے ہی جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا کہ غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی ساز و سامان کی اسرائیل کو ترسیل فوری طور پر روکدی گئی ہے۔ دوسری طرف وسطی یورپ کے ملک سلووانیہ (Slovenia) نے غرب اردن کے قبضہ گرد علاقوں میں بننے والی مصنوعات کی اپنے ملک میں درآمد پر پابندی لگادی۔ایک سرکاری بیان میں حکومت نے کہا کہ ہمارا ملک ایسی کسی لین دین یا تجارت کا حصہ نہیں بن سکتا جن سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، زمینوں پر قبضے، اور فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔سلوانیہ اس پہلے نیتن کابینہ کے دوانتہاپسند وزرا اتامر بن گوئر اور بیزلیل اسموترچ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر انکا اپنے ملک میں داخلہ ممنوع قرار دے چکا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے حمائت  اور انسانیت سوز تاریخی حوالہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فرمایا کہ "غزہ میں کسی ڈیل (deal)سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا"۔نوبل انعام کے خواہشمند صدر ٹرمپ کا یہ بیان دراصل جنگ کو طول دینے، بچوں کے ذبح کرنےاور بھوک و قحط کو ہتھیار بنانے کی حمائت ہے۔

امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائک ہکابی برطانوی وزیراعظم کی مخالفت پر سخت مشتعل ہیں۔ انھوں نے شعلہ فشاں ٹویٹ میں وزیراعظم اسٹارمر سے سوال کیا کہ برطانیہ نے ڈریسڈن میں کیا کیا تھا؟۔ فروری 1945 میں، برطانیہ اور امریکہ نے جرمن شہر ڈریسڈن (Dresden)پر 3,900 ٹن بم برسائے، جس سے 25,000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے اور دریائے ایبے (Elbe)کے کنارے واقع یہ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔یہ حملہ آج بھی جنگی جرائم کے مباحث میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ہکابی صاحب کا طنز کہ "اگر اسٹارمر اُس وقت وزیراعظم ہوتے تو آج برطانیہ جرمنی زبان  بول رہا ہوتا"، صرف تاریخی لاعلمی نہیں بلکہ انسانیت کی توہین ہے۔

اسرائیلی فضائیہ کا اعترافِ جرم

منظم و مربوط عالمی تعاقب سے خوفزدہ اسرائیلی جرنیل، صفائیاں پیش کرتے نظر آرہےہیں۔ایک اعلیٰ فوجی اجلاس میں فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل تومر بار (Tomer Bar) نے غزہ میں شہری ہلاکتوں کے سنگین اضافے کا ذمہ دار جنوبی کمان کو قراردے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کمان نے جنگ کے مقاصد کے حصول میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ناقص حکمتِ عملی اپنائی، جس کے باعث شہری جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔حوالہ Haaretz  ۔قانون کےباب میں ہمارا علم صفر سے بھی کم ہے لیکن کیا جنرل تومر کا یہ بیان اعترافِ جرم نہیں جسے بنیاد بناکر مہذب دنیا، اسرائیل اور اسکے سہولت کاروں کوقتل عام  کی سزا دے اور انھیں تاوان کی ادائیگی پر مجبور کرے؟

عوامی احتجاج

غزہ جنگی جرائم پر اسرائیلی فوج کےخلاف مختلف ممالک میں مقدمات اور انکے خلاف عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے۔ گرشتہ ہفتے امریکی ریاست مزوری کے شہر سینٹ لوئس (St Louis) میں ایک امریکی شہری، جب اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے کر اپنے گھر پہنچا تو محلے کی دیواروں پر "Death to the IDF"لکھ کر اسکا استقبال کیا گیا اور مشتعل افراد نے تین گاڑیوں کو آگ لگادی۔پیرس میں اسرائیل کی سرکاری ایرلائن El-Alکے دفتر پر لوگوں نے سرخ رنگ چھڑک کر Genocide Airlineلکھدیا۔ غزہ نسل کشی کے خلاف نیویارک میں امریکی یہودیوں نے شہر کے محاسب مالیات  (Comptroller)بریڈ لینڈر نے قیادت میں مظاہرہ کیا جس میں غزہ کی نسلی تطہیر بند کرو، قحط ختم کرو اور ہولوکاسٹ کے حوالے سے never again کے نعرے لگائے گئے۔

غزہ کی دولت پر اسرائیل اور مصر کا مشترکہ ڈاکہ

ایک طرف آسٹریلیا۔ یورپ اور خود امریکہ میں اہل غزہ سے یکجہتی کے مظاہرے ہورہے ہیں تو دوسری جانب مصر بحیرہ روم میں غزہ کے پانیوں سے نکالی جانے والی قدرتی گیس اسرائیل سے خریدنے جارہا ہے۔ لیویاتھن (Leviathan) کے نام سے مشہور یہ گیس فیلڈ جغرافیائی طور پر "Offshore Gaza" ہے۔معاہدے کے تحت مصر 2040تک 130 ارب مکعب میٹر (130 bcm) گیس خریدے گا، جس کی کل مالیت تقریباً 35 ارب ڈالر ہوگی۔فلسطینی وسائل کی چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، دوسال پہلے متحدہ عرب امارات کی سرکاری کمپنی مبادلہ پیٹرولیم نے  ثمر (Tamar)گیس فیلڈ میں 1 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی . ثمر کو بھی اہل غزہ اپنا ثمر قرار دیتے ہیں۔ ثمر کا کچھ حصہ لبنانی پانیوں میں ہونے کی وجہ سے لبنان نے اسکی ملکیت کیلئے اقوام متحدہ میں استغاثہ دائر کررکھا ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اتوار،  10 اگست کو  غزہ میں اسرائیلی حملے نے ایک میڈیا خیمہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، جس میں الجزیرہ کے انس الشریف، محمد قریقع، ابراہیم زاہر، محمد نفّال اور ایک ڈرائیور جان سے گئے ۔یہ حملہ شفا اسپتال کے قریب اُس وقت ہوا جب وہاں ایمرجنسی کی خبریں رپورٹ کی جا رہی تھیں۔صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل کی ایک واضح جنگی حکمت عملی ہے، تاکہ اس کے مظالم دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 232 سے زیادہ صحافی اپنا مقدس فرض ادا کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں ایک اسرائیلی نامہ نگار بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے مغربی دنیا کے بیشتر میڈیا ادارے سیاسی و معاشی مفادات کے باعث اسرائیلی درندگی پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ غزہ کے صحافی محض واقعات کے گواہ نہیں رہے، بلکہ خود اس وحشیانہ مہم کا براہِ راست ہدف بن چکے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 اگست 2025



Thursday, August 7, 2025

 

غزہ پر فیصلہ کن حملے کی تیاری

اسرائیل و امریکہ کی حمایت یافتہ GHF امداد یا نسل کشی کا پردہ؟

غزہ نسل کشی ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اس ماہ کے آغاز سے تل ابیب میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی فوج کو بحری، فضائی اور بری تینوں جانب سے غزہ پر ایک بھرپور و فیصلہ کن حملے کا حکم دے دیا ہے۔ اس حکم کی تصدیق، تردید یا وضاحت تو اب تک نہیں ہوئی، لیکن عسکری سربراہ جنرل ایال زامیر کے دورہ امریکہ کی عین وقت پر منسوخی سے اس خبر میں صداقت نظر آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کا قحط بدترین مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور ہولناکی کے اعتبار ہے اس نوعیت کے قحط کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔تازہ ترین جائزے کے مطابق غزہ کے 17فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور مجموعی طور سے پٹی پر آباد ہر تیسرے فرد کو کئی دنوں سے خوراک نہیں ملی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ ہوئے تو وسیع پیمانے پر اموات یقینی ہیں۔ غزہ کے تین لاکھ 20 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ خوراک کی کمی اسرائیلی قیدیوں کو بھی متاثر کررہی ہے۔ مزاحمت کاروں نے 25 جولائی کو  ایک قیدی ایویتر ڈیوڈ Evyatar David کی تصویر شایع کی جس میں کم خوراکی کے اثرات نظر آرہے ہیں۔اس تصویر کی اشاعت پر اسرائیل اور اسکے امریکی و مغربی اتحادیوں نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ مزاحمت کاروں کا موقف ہے کہ ناکہ بندی کی بنا پر غذئی اجناس میسر ہی نہیں تو قیدیوں کو کہاں سے کھلائیں؟۔

اقوامِ متحدہ نے اسرائیل و امریکہ کے حمایت یافتہ Humanitarian Foundation (GHF) کے ذریعے امداد کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے اس سے تعاون ختم کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ، راشن کے لیے قطار بنائے ایک ہزار سے زیادہ بھوکے فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔ عینی شاہدین نے خوراک لینے والوں کو براہ راست نشانہ بنانے کی گواہی دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ GHF امداد کے نام پر فلسطینیوں کی توہین اور قتل کر رہی ہے، اور یہ ماڈل بنیادی انسانی اصولوں سے متصادم ہے۔

صدر ٹرمپ کا تضاد اور امریکی ایلچی کا دورہ:

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو غزہ میں قحط کے وجود سے انکار کرتے ہوئے وہاں سے جاری تصاویر کو AI کا کمال قرار دے رہے ہیں۔ مگر خود صدر ٹرمپ  کہہ اٹھے کہ "بھوک کی تصاویر اصلی ہیں، یہ جھٹلائی نہیں جا سکتیں۔" امریکی صدر نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کو غزہ جانے کا حکم دیا، لیکن ساتھ ہی اپنے پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر یہ بھی فرمایا کہ "غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر یرغمالیوں کو رہا کر دیں۔" جس دن اسٹیو وٹکاف، اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہکابی کے ہمراہ فوجی پہرے میں غزہ پہنچے، راشن مراکز پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید 90 افراد جاں بحق ہوگئے۔

مزاحمت کاروں کا مؤقف: یروشلم کے بغیر امن ممکن نہیں:

غزہ سے واپسی پر تل ابیب میں جناب وٹکاف نے قیدیوں کے لواحقین کو یقین دلایا کہ امریکہ اور اسرائیل وسعت دینے کے بجائے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں، اور قیدیوں کی واپسی ہی اصل فتح ہے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ مزاحمت کار امن معاہدے کے لیے خود کو غیر مسلح کرنے پر تیار ہیں۔ مگر اہلِ غزہ نے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے کہ ، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو،مزاحمت کار مسلح جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔

نیتن یاہو کی نیت پر سوالات اور صدر ٹرمپ کی سفاکی:

بظاہر ٹرمپ، وٹکاف اور نیتن یاہو تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ مذاکراتی عمل میں رکاوٹ اہلِ غزہ کی مزاحمت ہے۔ لیکن معروف امریکی جریدے The Atlantic کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے دو سابق اہلکاروں نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر کے خیال میں "نیتن یاہو اپنی سیاسی طاقت کو بچانے کے لیے غزہ جنگ کو طول دے رہے ہیں۔" کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار صدر کی نظریاتی حلیف اور دائیں بازو کی سخت گیر شخصیت، محترمہ مارجری ٹیلر گرین (MTG) نے بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے: "غزہ میں اسرائیل جو کر رہا ہے، وہ نسل کشی ہے!" یہ بیان ریپبلکن صفوں میں ابھرتی نئی فکری لہر کا اشارہ ہے۔

صدر ٹرمپ نے نہ تو The Atlantic میں شائع ہونے والے انکشافات کی تردید کی اور  نہ ہی MTG کے نسل کشی والے بیان کی مذمت۔ گویا وہ ایک طرف مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری جانب نیتن یاہو کی نیت پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں۔فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر ٹرمپ، نیتن یاہو سے  واقعی بدظن ہو چکے ہیں یا ان کے بیانات کی متضاد سمتیں امریکی صدر کی سیاسی تلون مزاجی کا شاخسانہ ہیں؟

امریکی عوام کی بدلتی رائے:

گیلپ کے ایک جائزے میں بھی غزہ نسل کشی کے بارے میں امریکی رائے عامہ کے نئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی شہری اسرائیل کی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں کے مخالف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں اسرائیل کی مخالفت عروج پر ہے، اور صرف 8 فیصد ڈیموکریٹس اور 25 فیصد آزاد خیال افراد ان کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ نوجوانوں یعنی 35 سال سے کم عمر امریکیوں میں اسرائیل مخالفت کی شرح 90 فیصد کے قریب ہے۔

ابلاغ عامہ پر بھی اب غزہ کے بارے میں صحیح خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بچوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ لیکن 30 جولائی کو واشنگٹن پوسٹ نے نام اور عمر کے ساتھ مسلے جانے والے پھولوں کی مکمل فہرست شائع کر دی۔ اس کے مطابق اب تک 18,500 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 953 نونہالوں کی عمر ایک سال سے بھی کم تھی۔

ان روح فرسا خبروں اور چند روز پہلے کے حوصلہ افزا بیانات کے بعد 4 اگست کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر اپنے چہرے سے  نقاب اتاردی کہ 'غزہ کی جنگ تکلیف دہ تو ہے لیکن  یہ نسل کشی نہیں' امریکی صدر کے اس سفاکانہ جواب پر مجلس میں خاموشی طاری ہوگئی جسے توڑتے ہوئے موصوف بولے' 7 اکتوبر 2023کو کچھ ہولناک واقعات پیش آئے تھے"۔ جب غزہ کے بارے میں ان سے دوبارہ پوچھا گیا تو امریکی صدر نے فرمایا:"ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو کھانا ملے… ہم نہیں چاہتے کہ لوگ بھوکے مریں۔"

اسرائیل میں بیچینی:

ان خبروں کی اشاعت کے بعد اسرائیل میں بھی گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ 31 اگست کی رات تل ابیب کے حبیمہ (Habima) چوک پر انسانی حقوق کی عرب اور اسرائیلی تنظیموں نے مشترکہ مظاہرہ کیا۔ ہزاروں افراد "بس کرو! قتل بند کرو، بھوک بند کرو، ترکِ انسانیت بند کرو" کے نعرے لگا رہے تھے۔ اداکار یوسی زاباری نے کہا: "ہمیں نسل کشی کے لفظ سے زیادہ اُس فعل سے ڈرنا چاہیے جو ہم کر رہے ہیں۔" ان کا اشارہ ممتاز اسرائیلی دانشور و ادیب ڈیوڈ گروسمین کی طرف تھا، جنھوں نے گزشتہ ہفتے اطالوی جریدے La Republicana سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ خونریزی کو نسل کشی کہدیا جس پر موصوف کے خلاف قوم پرستوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔

آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست، خواب یا فر یب؟؟؟؟

عالمی سطح پر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا رجحان مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ، مالٹا اور کینیڈا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی توثیق درکار ہے، اور امریکہ اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس 'جسارت' پر کینیڈا کو اضافی محصولات (Tariffs) کی دھمکی دی ہے۔فلسطینی ریاست کے خدوخال کا معاملہ بھی گنجلک ہے۔ مجوزہ متن میں مقتدرہ فلسطین (PA) کو فلسطین کا نمائندہ تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ محمود عباس کی قیادت میں مقتدرہ کی حیثیت یہ ہے کہ رام اللہ میں بھی ان کی بات نہیں سنی جاتی۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے غزہ کے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ جب 670 دن کی مسلسل بمباری اور بھوک انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کر سکی، تو کاغذ کے اس ٹکڑے کی کیا حیثیت؟

قبضہ گردوں کی سہولت کاری:

غزہ کے ساتھ ساتھ غربِ اردن کی صورتِ حال بھی روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی فوجی تحفظ میں انتہا پسند آبادکار فلسطینی بستیوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں قتل و غارت کے ساتھ کھیتوں، باغات اور مویشیوں کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 29 عدد بلڈوزر نما آل ٹیرین گاڑیاں (ATVs) فراہم کی گئی ہیں، جن پر جدید ترین ڈرون، کمیونیکیشن سسٹم، نائٹ ویژن ونڈ شیلڈ، پانی کے ٹینک اور بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز نصب ہیں۔یہ گاڑیاں اسرائیلی وزرا عورت اسٹروک (Settlement Minister) اور بیزلیل اسموترچ (وزیر خزانہ) نے 29 جولائی کو آبادکاروں کے حوالے کیں، جن کی مجموعی لاگت 2کروڑ20 لاکھ  ڈالر سے زائد ہے۔

القدس شریف میں دراندزی:

اتوار 3 اگست کو وزیرِ داخلہ اتامار بن گوئر نے مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) میں داخل ہو کر عبادت  کی، حالانکہ 1967 کے بعد اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ اور القدس اوقاف کو تحریری ضمانت دی تھی کہ غیر مسلم زائرین کو کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس معاہدے کو "Status Quo" کہا جاتا ہے۔ بن گوئر نے عبادت کے بعد فخر سے کہا: "میں نے مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں موسیٰؑ کے رب کو یاد کیا۔"

ایک فلسطینی دانشور کا قتل:

اسرائیلی قبضہ گردوں نے غربِ اردن کے الخلیل (ہیبرون) کے قریب ایک گاؤں میں معروف فلسطینی صحافی اور استاد عودہ ہثلین کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ وہ "No Other Land" نامی آسکر یافتہ دستاویزی فلم کی تیاری میں شریک تھے، جو فلسطینی برادری کے خلاف اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرتی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 8 اگست2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 8اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر10 اگست 2025


 

 

 

Friday, August 1, 2025

 

غزہ امن مذاکرات بے نتیجہ ختم

مزاحمت کار جنگ بندی نہیں موت چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ

غزہ جنگ حکومت کی تزویراتی، عملی اور سیاسی ناکامی ہے۔ اسرائیلی قائدحزب اختلاف

غزہ کے لوگ چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے ہیں ۔ اقوام متحدہ

فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

نیتن یاہو کو گرفتار نہ کرنے پر عالمی فوجداری عدالت کا ہنگری کو نوٹس

راشن تقسیم مراکز پر فلسطنییوں کے قتل عام کی دوسری گواہی

دودن میں غزہ کے دوصحافی قتل

اندیشوں اور خدشات کے عین مطابق غزہ امن مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ قطر کے دارالحکومت میں بات چیت 18 دن تک جاری رہی۔ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے 10 اسرائیلی قیدیوں اور 18 لاشوں کی واپسی کے بدلے، اسرائیلی عقوبت کدوں سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کا فارمولا پیش کیا تھا، لیکن اہلِ غزہ، جنگ کے مکمل خاتمے، امداد کی فوری و غیر مشروط بحالی، اور اسرائیلی فوج کے انخلا سے قبل قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہ تھے۔ ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ بھی ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔

مذاکرات میں شریک ایک اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جناب وٹکوف نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ضمانت دی کہ عارضی جنگ بندی ایک پائیدار معاہدے تک جاری رہے گی، لیکن مزاحمت کار اسرائیلی انخلا کے مطالبے پر قائم رہے۔ چنانچہ برہم ہو کر اسٹیو وٹکوف یہ کہتے ہوئے میز سے اٹھ گئے کہ مزاحمت کاروں کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھوں نے اہل غزہ کے موقف کو "خودغرضانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کار باہم مربوط ہیں اور نہ نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں اسٹیو وٹکوف نے امن مذاکرات کی ناکامی کا الزام مزاحمت کاروں پر دھر تے ہوئے کہا کہ امریکہ قیدیوں کی آزادی اور غزہ میں استحکام کے لیے نئی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ اسی لہجے میں صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے کہا کہ مزاحمت کار جنگ بندی نہیں چاہتے، ہم نے اپنا وفد قطر سے واپس بلا لیا ہے۔ اب ان کے لیڈروں کا تعاقب کیا جائے گا۔اگلے روز صدر ٹرمپ غصے سے بولے: "غزہ کے مزاحمت کار کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ مرنا چاہتے ہیں۔ اب اسرائیل کو یہ کام مکمل کرنا ہوگا، یعنی مزاحمت کا مکمل صفایا۔"

جن لوگوں کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے، ان میں سے بیشتر بھوک اور قحط کے ہاتھوں نیم مردہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کا کہنا ہے "غزہ کا ہر پانچواں بچہ غذائی قلت (Malnutrition) کا شکار ہے اور باقی لوگ  زندہ ہیں نہ مردہ، بلکہ چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے ہیں۔ غزہ کے ہر خیمے پر موت دستک دے رہی ہے۔"

مزاحمت کار امریکہ کو ایک دیانت دار ثالث نہیں سمجھتے اور ان تحفظات کی وجوہات بہت منطقی ہیں۔نسل کشی کیلئے اسرائیل کو مہلک ہتھیارفراہم کرانے کے ساتھ امریکہ سفارتی سطح پر اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ غزہ امن کیلئے کتنے مخلص ہیں اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ بندی کے بارے میں سلامتی کونسل کی ہر قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کیا۔ صدر ٹرمپ کی غزہ میں ایک پرتعیش تفریح گاہ قائم کرنے کی خواہش کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ اس کیلئے شہری انخلا کی تجویز پیش کرچکے ہیں۔مزاحمت کار اس ہدف کی راہ کی واحد رکاوٹ ہیں۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ بھوک اور بمباری سے راستے کا یہ پتھر بھی ہٹایا جاسکتا ہے لیکن اس صورت میں اسرائیلی قیدیوں کی موت یقینی ہے۔مزاحمت کار سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ بندی کا جھانسہ دیکر قیدی رہا کرانا چاہتے ہیں جسکے بعد بمباری اور بھوک کا ہتھیار بے خوف استعمال کیا جاسکے گا۔

اسرائیل جنگ ہار رہا ہے؟؟؟

طویل جنگ اور فوج کے بھاری جانی نقصان سے اب اسرائیلی بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔اسرائیلی قائد حزب اختلاف یائر لاپیڈ(Yair Lapid) کا خیال ہے کہ اس جنگ نے اسرائیل کو تباہی سے سوا کچھ نہیں دیا۔ اتوار 27 جولائی تل ابیب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے غزہ جنگ کو نیتن یاہو حکومت کی تزویراتی، عملی اور سیاسی ناکامی قرار دےدیا۔جناب لاپید کا کہنا تھا کہ حکومت کو خود علم نہیں کہ غزہ میں فوجی کیوں مر رہے ہیں، اب یرغمالیوں کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں اور انسانی بحران سنگین تر ہو رہا ہے۔ اپوزیشن رہنما نے سنگین خطرات کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا "اسرائیل کو غزہ میں بھوک ختم کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے کہ یہ یہودی اقدار کا تقاضہ ہے۔ اگر حالات ایسے ہی ریے تواسرائیل پر اقتصادی و قانونی پابندیاں لگ سکتی ہیں اور جو فوجی جنگ میں شریک رہے ہیں، انہیں بیرونِ ملک گرفتاری کا سامنا ہو سکتا ہے"

عالمی ردعمل: فرانس، برطانیہ

فلسطین کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اعلان ہے۔ صدر میکراں نے انسٹاگرام پر  24 جولائی کو لکھا'فرانس آئندہ ستمبر میں، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے، ریاستِ فلسطین کو باقاعدہ تسلیم کرلے گا۔یہ قدم فرانس کی مشرقی وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کی تاریخی وابستگی کے مطابق اٹھایا جا رہا ہے'۔ اس اعلان پر فرانس کی نسل پرست مسلم دشمن رہنما میرین لاپن (Marine Le pen)نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ کچھ ایسا ہی ررعمل امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کا ہے  جنھوں نے اس فیصلے کو  7 اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ قراردیا۔

دوسری طرف برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمرنے فلسطینی ریاست کے قیام کو جنگ بندی سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ "ریاست کا قیام فلسطینی عوام کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف اور دو ریاستی حل کی طرف لے جائے گی، جو فلسطین و اسرائیل دونوں کو امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کرے گا۔" اسرائیل کو مہلک ترین ہتھیار فراہم کرنے کے ساتھ امن کی خواہش کو غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

سلوانیہ کے بعد ہالینڈ:

گزشتہ ہفتے وسطی یورپ کے ملک سلووینیا نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ اور وزیر قومی سلامتی اتمار بن گوئر کو ناپسندیدہ شخصیات (Persona Non Grata) قرار دے کر انکی ملک میں آمد پر پابندی لگادی تھی اور اب ان دونوں پر ایسی ہی پابندیاں نیدر لینڈ (Netherlands)نے عائد کردیں ہیں۔ولندیزی وزیرخارجہ Caspar Valdekampکے مطابق پابندی کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے آبادکاروں کو بارہا فلسطینی آبادی کے خلاف تشدد پر اُکسایا اور غزہ کی پٹی پر یہ نسلی تطہیر (ethnic cleansing) کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ICC کا دباؤ: ہنگری کو نوٹس

امریکہ کی جانب سےتادیبی پابندیوں کے باوجود عالمی فوجداری عدالت (ICC)اپنی حیثیت منوانے کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے۔ عدالت نے نیتن یاہو کی گرفتاری سے انکار پر ہنگری کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم  نے اپریل 2025 میں ہنگری کے دارالحکومت بودڈاپیسٹ کا دورہ کیا تھا، لیکن ICC کا رکن ملک ہونے کے باوجود ہنگری نے انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے اسے Rome Statute کی کھلی خلاف ورزی قرار دیاہے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے دلیل دی کہ "ہم دل سے ICC پر عمل نہیں کرتے" اور عدالت سے علیحدگی کی تیاری کر رہے ہیں۔ICC نے یہ دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "داخلی قانون سازی عالمی ذمہ داریوں سے فرار کا جواز نہیں بن سکتی۔"۔ یہ معاملہ ICC کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جو دسمبر میں متوقع ہے۔

گھر کی ایک اور گواہی:

اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے 27 جون  کو ایک رپورٹ شایع کی تھی جسکے مطابق اسرائیلی فوجی افسران نے انکے نمائندے کو بتایا کہ انہیں خوراک تقسیم مراکز کے قریب غیر مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تھا، چاہے کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔"اس رپورٹ کے بعد فوجی استغاثہ (IDF Prosecutor) نے ممکنہ جنگی جرائم کی چھان بین کا مطالبہ کیا تھا۔ اب بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق امریکی فوجی اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے امدادی اہلکار انتھونی ایگیلار (Anthony Aguilar) نے  بھی اسی نوعیٹ کے ہولناک انکشافات کیے ہیں۔جی ایچ ایف، غزہ میں امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں کام کرنے والا ایک امدادی ادارہ ہے، جس کا مقصد فلاحی سامان کی تقسیم ہے۔ انیس (19) جولائی کو نشر ہونے والےاس انٹرویو میں ایگیلار نے کہا 'میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نہتے، بھوکے فلسطینیوں پر ٹینکوں، توپوں اور مارٹر سے حملے کیے گئے۔ یہ سب اسرائیلی فوج (IDF) اور امریکی کنٹریکٹرز کے ہاتھوں ہوا۔ یہ جنگی جرائم ہیں'۔ ان کے مطابق GHF کے مراکز پر اندھا دھند اور غیر ضروری طاقت" استعمال کی گئی، IDF اور امریکی اہلکاروں نے گولہ باری اور فائرنگ کے ذریعے شہریوں کو نشانہ بنایا۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنے پورے کیریئر ، حتیٰ کہ جنگی علاقوں میں بھی اتنی سفاکی نہیں دیکھی جتنی مجھے غزہ میں نظر آئی۔ جناب ایگیلار نے یہ بھی کہا کہ GHF کا امدادی نظام "مجرمانہ" تھا۔

جی ایچ ایف نےایگیلار کے دعووں کو "بے بنیاد اور جھوٹا" قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ وہ ایک ماہ قبل "نامناسب رویے" پر برخواست کیے گئے اور برطرفی کے بعد انہوں نے GHF کو دھمکیاں دیں تھیں کہ اگر بحال نہ کیا گیا تو وہ کارروائی کریں گے۔ ہمارے لئے اسرائیلی الزام کی تصدیق یا تردید ممکن نہیں لیکن روزنامہ الارض کی رپورٹ اور انتھونی ایگیلار کی گواہی ایک دوسرے کی تصدیق کرتی نظر آتی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی تنقید

عالمی عدالت کی طرح اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن بھی سرگرم نظر آرہا ہے۔ کمیشن کے سربراہ وولکر تُرک (Volker Türk) نے برطانوی حکومت کی جناب سے فلسطین ایکشن (Palestine Action)نامی تنظیم پر پابندی کو بین الاقوامی قوانین سے متصادم قراردیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کو دہشتگردی کہنا، دہشتگردی جیسے بھیانک جرائم کی اہمیت و سنگینی کو مجروح کرتا ہے۔برطانوی میں جنگی سازوسامان تیار کرنے والی کمپنیوں کے خلاف پرامن اور علامتی احتجاج کرنے پر فلسطین ایکشن کو دہشتگرد قرار دے دیاگیا ہے اور تنظیم سے وابستگی، حمایت یا اس کی علامتوں کی نمائش پر 14 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے:

صحافیوں کا چن چن کر خاتمہ اسرائیلی جنگی حکمتِ عملی کا کلیدی حصہ ہے۔غزہ کی مکمل ناکہ بندی اور سخت ترین سنسر شپ کے باعث انسانیت کے خلاف جرائم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں،لیکن پٹی پر موجود صحافیوں نے قلم کا محاذ پوری جرات سے سنبھالا ہوا ہے اور یہ متحرک صحافی اسرائیلی درندگی کا خاص نشانہ ہیں۔ فلسطینی ذرایع کے مطابق جارحیت کے آغاز سے اب تک 200 سے زیادہ صحافی قلم کی حرمت پر قربان ہو چکے ہیں۔ اس ہفتے دو صحافی قتل کئے گئے۔ خاتون صحافی ولاء الجعبری(Walaa Al-Jaba’ari) کا گھر 23 جولائی کو اسرائیلی بمباروں نشانہ بنا۔حملے میں ولاء، ان کے شوہر امجد الشاعر اور ان کے چار معصوم بچے شہید ہو گئے۔ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ ولاء امید سے تھیں۔ اسکے دودن بعد فوٹو جرنلسٹ  آدم ابو حربد کو خاموش کردیا گیا۔گھر تباہ ہونے کے بعد آدم اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غزہ شہر کے علاقے یرموک میں خیمہ زن تھے۔ اسرائیلی ڈروں نے انکے خیمے کو تاک کر نشانہ بنایا۔ حملے میں آدم کی بیوی اور بچے زخمی ہوگئے۔غزہ کے صحافی بمباری کےساتھ بھوک اور قحط کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ایسوسی ایٹیڈ پریس، AFP، رائٹرز اور بی بی سی (BBC)ابلاغ عامہ کے بڑے عالمی اداروں نے غزہ کے فاقہ زدہ صحافیوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ کہ جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے فاقہ کشی ایک نیا اور خطرناک اضافہ ہے۔انہوں نے اسرائیل سے صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ داخلے اور اخراج کی اجازت دینے اور علاقے میں خوراک کی ترسیل یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی یکم اگست 2025

روزنامہ امت یکم اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 3اگست 2025