نئی
امن تجویز اور نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی۔۔
امریکی سرپرستی کا خمار؟؟؟
پیر
(18اگست) کے دن غزہ مزاحمت کاروں نے اُس معاہدے کو مبینہ
طور پر قبول کر لیا جو ایک روزپہلے مصر اور قطر کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
منصوبے کے تحت، 10 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 150 فلسطینی رہا ہوں گے۔ مرنے والے
قیدیوں کی لاشیں بھی واپس کی جائینگی جبکہ مزید قیدیوں اور مستقل جنگ بندی پر بات
چیت دوسرے مرحلے میں ہوگی۔ عارضی جنگ بندی کا دورانیہ 60 دن ہوگا۔بظاہر ایسا لگ
رہا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی بعض شرائط نرم کر دی ہیں، مثلاً سرحدی بفر زون کے
معاملے پر وہ اب 800 میٹر تا ایک کلومیٹر کا دائرہ ماننے پر آمادہ ہیں، جبکہ
اسرائیل 1 تا 1.2 کلومیٹر چاہتا ہے۔ یہ تجویز بڑی حد تک اسی منصوبے سے ملتی جلتی
ہے جو چند ماہ قبل امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیش کیا تھا، جس پر بات آگے نہ بڑھ
سکی۔ دوسری طرف نیتن یاہو نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں جزوی معاہدے
میں دلچسپی نہیں، اور جنگ صرف اس وقت رکے گی جب تمام قیدی ایک ساتھ رہا کیے جائیں
اور اسرائیلی شرائط پوری ہوں، یعنی مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں۔ اسرائیل
کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمائت ہے جنھوں نےنیتن یاہو کے موقف
کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کسی ڈیل سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ
ڈالنا ہوگا، کیونکہ اب تک جو قیدی رہا ہوئے ہیں، ان کی پشت پر فوجی دباؤ ہی
کارفرما تھا۔ لگتا ہے کہ چچاسام کی نیت اور اسرائیل
کی ضد قیامِ امن کا یہ نیاموقع بھی ضائع کر دے گی۔
غزہ شہر پر حملہ اور غرب
اردن میں قبضہ گردوں کی غارت گری
اس سے
تین دن پہلے اسرائیلی فوج غزہ شہر کے مضافاتی علاقے پر شدید گولہ باری سے بڑے حملے
کا آغاز کرچکی ہے۔اسرائیلی حزبِ اختلاف، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی
یونین نے اس کارروائی کو ایک نئے قتل عام کا نقطہ آغاز قرار دیا، لیکن وزیراعظم
نیتن یاہو کے خیال میں غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا اس کے سوا
کوئی دوسرا راستہ نہیں۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، اس نئی فوجی مہم
جوئی کا ہدف پورے غزہ پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کی بے دخلی ہے، تاکہ صدر ٹرمپ کے
مجوزہ پرتعیش Beachfront منصوبے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
غزہ پر
مکمل قبضے کے لئے بھرپور فوجی آپریشن کے ساتھ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی
تیاریاں بھی جاری ہیں۔ فوجی پہرے میں قبضہ گردوں نے فلسطینی آبادیوں میں قتل و
غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہزاروں فلسطینی آبائی زمینوں سے بے دخل ہو کر
اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیے گئے۔
نئی اسرائیلی بستی کا منصوبہ یا فلسطینی ریاست کی تدفین؟
اسی
ہفتے اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے قریب E1
سیٹلمنٹ پروجیکٹ کو
دوبارہ فعال کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اگر مکمل ہوا
تو فلسطینی ریاست کا تسلسل جغرافیائی طور پر ٹوٹ جائے گا۔ یروشلم اور غیر قانونی
اسرائیلی بستی "معالیہ ادومیم"
(Ma’ale Adumim) کے درمیان واقع E1 میں تعمیرات کا
منصوبہ تین دہائیوں سے عالمی دباؤ کے تحت رکا ہوا تھا۔بدھ 13 اگست کو معالیہ
ادومیم کی پہاڑیوں پر ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسموترچ نے بتایا کہ E1 منصوبے کے پہلے
مرحلے میں 3401 نئے گھروں اور متعلقہ سہولتوں کی تعمیر کے لیے رقم مختص کر دی گئی
ہے۔ انھوں نے تکبر سے چور لہجے میں کہا کہ E1 منصوبے سے فلسطینی
ریاست کا تصور دفن ہو جائے گا۔
یہ
دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں، کیونکہ اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی،
مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور رام اللہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردے گی۔ مغربی
کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔
اقوام
متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر "گہری تشویش" کا اظہار کیا ہے،
لیکن اسرائیل کی جانب سے زمینی حقائق اور نقشہ تبدیل کرنے کے ٹھوس عملی اقدامات،
قراردادوں اور بیانات سے غیر مؤثر نہیں کیے جا سکتے۔ ای ون منصوبہ محض زمین پر قبضہ نہیں بلکہ تاریخ،
امید، اور انصاف پر حملہ ہے۔
گریٹر اسرائیل: تعویذ، توسیع، اور عرب ردعمل
دنیا
غزہ و غرب اردن پر تشویش کا اظہار کر رہی تھی کہ 14 اگست کو وزیراعظم نیتن یاہو نے'اسرائیلِ کبریٰ یا Greater
Isreal منصوبے کی رونمائی کر دی۔
مقامی i24News کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ
وہ "گریٹر اسرائیل" کے تصور سے گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔یہ تصور 1967
کی جنگ کے بعد زیادہ مقبول ہوا، جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ،
صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیاں ہتھیالیں۔
انٹرویو
کے دوران میزبان شیرون گال (Sharon Gal) نے نیتن یاہو کو "ارضِ موعود" کا
ایک نقشہ نما تعویذ دیا، جس میں گریٹر اسرائیل کا ایک توسیع شدہ نقشہ دکھایا گیا
تھا۔ عبرانی انجیل کی عام تعبیرات میں اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل سے دریائے
فرات تک سمجھی جاتی ہیں، یعنی موجودہ
اسرائیل کے ساتھ اردن، لبنان، شام، عراق، مصر کے کچھ حصے اور شمالی سعودی عرب۔ البتہ مکہ اور مدینہ ان علاقوں سے کافی دور ہیں جو
"گریٹر اسرائیل" کے زیادہ تر نقشوں میں دکھائے جاتے ہیں۔ سادہ
الفاظ میں، گریٹر اسرائیل کا تصور صرف آزاد فلسطین کے لیے موت کا پیغام نہیں بلکہ
عرب دنیا پر قبضے کی شیطانی خواہش ہے۔ اس انٹرویو پر عرب لیگ، اردن، مصر، قطر،
سعودی عرب اور مقتدرہ فلسطین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
مغربی دنیا: مذمت، مگر عمل ندارد
جرمنی
کی جانب سے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کے سوا مغرب کی طرف سے کوئی عملی قدم اٹھتا
نظر نہیں آتا۔ زبانی مذمت، تشویش، اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اظہارِ
عزم جاری ہے۔
آسٹریلیا
کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لَکسن (Christopher Luxon) نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے
ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو نے ہوش کھو دیے ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری بے
دخلی، فوجی قبضہ، اور پناہ گزینوں پر حملے ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قانون کی
خلاف ورزی ہیں۔ جناب لکسن نے کہا کہ انکا ملک فلسطینی
ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہا ہے۔
اطالوی
وزیر خارجہ گوڈو کروسیٹو نے غزہ اور یوکرین کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نیتن یاہو
کو "اسرائیل کا پیوٹن" قرار دیا۔ روزنامہ La Stampa سے ایک انٹرویو
میں انھوں نے سوال کیا: کیا یورپ اب بھی اسرائیل کو روکنے کے لیے عملی قدم نہیں
اٹھائے گا؟
دوہرا معیار: یوکرین ہیرو، غزہ ناگزیر نقصان؟
اطالوی
وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغرب پر
دوہرے معیار کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا غزہ میں مرنے والوں کو
"ناگزیر نقصان" یا Collateral Damage اور یوکرین میں
مرنے والوں کو "ہیرو" کہتی ہے۔ شاید تعریف کے یہ معیار بھی نیٹو کے نقشے
کے ساتھ بدلتے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا
کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، لاکھوں بے گناہ بھوک اور پیاس
سے مر رہے ہیں، جبکہ عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مذہبی حوالوں کی سیاست: خدا کی استعانت یا سیاسی ڈھال؟
امریکہ
میں اسرائیل کے حامی سیاستدان تنقید سے بچنے کے لیے خودساختہ مذہبی حوالے استعمال
کر رہے ہیں۔ ٹیکساس (Texas)سے ریپبلکن سینیٹر
ٹیڈ کروز نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ "انجیل مقدس کے مطابق اسرائیل پر
لعنت کرنے والے پر خدا کی لعنت اور اس کی استعانت کرنے پر برکت ہوگی"۔جب میزبان ٹکر کارلسن (Tucker
Carlson) نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: "کیا واقعی آپ انجیل کا اقتباس
بیان کر رہے ہیں؟" تو سینیٹر صاحب نے اس کی تصدیق کی۔ تاہم کینیڈا کے مسیحی
اخبار Christian Courier نے حالیہ اشاعت میں ٹیڈ کروز کو غلط
قرار دیتے ہوئے کہا کہ انجیل میں ایسی کوئی بات درج نہیں۔
اسی
انداز میں امریکی سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے سربراہ لنزی گراہم (Lindsey
Graham)نے
13 اگست کو ایک تقریر میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کو خبردار کیا کہ اگر امریکی
حکومت نے اسرائیل کی مدد بند کی تو "خدا ہم پر سے ہاتھ کھینچ لے گا"۔ یہ
بیان بظاہر پارٹی کی رکن مارجری ٹیلر گرین کے اس الزام کا جواب تھا، جس میں انہوں
نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔
فنکاروں کی بغاوت: میڈونا اور جورا کی صدائیں
جہاں
سیاستدان اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی میں مصروف ہیں، وہیں فنکار و اداکار اپنے جذبات کا کھل کر
اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کی مشہور پاپ گلوکارہ میڈونا (Madonna)نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا، اعلیٰ
حضرت پوپ لیو چہار دہم سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ غزہ کا دورہ کریں اور وہاں کے
معصوم بچوں کے لیے انسانیت کے دروازے کھولیں۔
سوشل
میڈیا پر میڈونا نے لکھا:"اے محترم باپ،
براہِ کرم غزہ جائیں اور اپنی روشنی ان بچوں تک پہنچائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر
ہو جائے۔ یہ سب کے بچے ہیں، مجھ سے ان کی اذیت دیکھی نہیں جاتی۔ آپ واحد شخصیت ہیں
جنہیں غزہ میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بابا! پلیز کہہ دیجیے کہ آپ (غزہ) جا
رہے ہیں۔"
یہ
اپیل اس لیے بھی غیر معمولی تھی کہ میڈونا کا تل ابیب میں گھر ہے، اور وہ اسرائیل
کی پرجوش حامی سمجھی جاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ مسیحی ہونے کا باوجود میڈونا سبت کے
احترام میں ہفتے کے روز موسیقی کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتیں اور وہ یہودی تہوار
بھی مناتی ہیں دوسری طرف سر پر
Kippah (یہودی ٹوپی) جمائے دیوارِ گریہ سے لپٹے روتے دھوتے نیتن یاہو سبت
کے دن بھی غزہ کے بچوں پر آگ برساتے ہیں۔
اسی
ہفتے کوپن ہیگن فیشن ویک کے دوران، Marimekko کے بہار/گرمی 2026
شو میں ماڈل اور موسیقار Jura نے کیٹ واک پر
فلسطینی پرچم کی نمائش کی، جس پر انگریزی میں لکھا تھا:“Act now against genocide”
انسٹاگرام
پر محترمہ نے پیغام دیا:"فلسطین کے بغیر
ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بھوک سے ہلاکت
آج برداشت کر لی، تو پھر دنیا کے امیر ترین لوگ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ
آئندہ کس اقلیت کو نشانہ بنایا جائے۔"
فوجی ضمیر کی بیداری: پائلٹوں کا احتجاج
غزہ پر
مکمل قبضے کے بارے میں اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ فضائیہ
کے ایک سو سے زیادہ ریٹائرڈ ہوا بازوں اور سابق اعلیٰ افسران نے فوجی ہیڈ کوارٹر
کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پریس کو جاری کردہ کھلے خط میں ان افسران نے لکھا کہ قیدیوں
کی واپسی کو سیاسی مفادات کے تحت مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنگ بند
کی جائے اور قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔خط کے اختتام پر ان پائلٹوں نے
جذباتی انداز میں لکھا:
"ہم نے
اپنی زندگیوں میں کئی بار خطرات مول لیے ہیں، لیکن آج ہم خاموش رہ کر سب سے بڑا
خطرہ مول لیں گے، اپنی انسانیت کھو دینے کا۔"
ملک گیر ہڑتال: قیدیوں کی واپسی یا سیاسی قربانی؟
اتوار
17 اگست کو قیدیوں کی بازیابی اور غزہ جنگ بندی کے لیے ملک گیر ہڑتال ہوئی، جس سے
پورا اسرائیل مفلوج ہو کر رہ گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا۔
اس دوران نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے صدر دفتر، وزیر دفاع اسرائیل کاٹز،
وزیرِ تزویراتی امور ران ڈرمر اور دیگر وزرا کے گھروں کے سامنے دھرنے دیے
گئے۔پولیس سے تصادم میں کئی مظاہرین زخمی ہوئے اور 38 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
اسرائیل
کے انتہا پسند و نسل پرست حکمران اتحاد نے ہڑتال کی مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ
مزاحمت کاروں کے خاتمے اور غزہ پر قبضے سے پہلے قیدیوں کی واپسی کی کوئی ضمانت
نہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دشمنوں کو فنا کیے بغیر امن قائم نہیں
ہو سکتا، جبکہ وزیرِ داخلہ اتامر بن گوئر نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال ناکام ہو گئی۔
دوسری
جانب قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لیپڈ نے کہا کہ حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے
قیدیوں کی قربانی دینے کا کوئی حق نہیں، اور احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک
قیدیوں کی واپسی کے لیے ایک جامع معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
قتل
گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے:
گیارہ
اگست کو غزہ کے حق پرست صحافی انس الشریف کی تدفین ہوئی، اور دوسرے ہی دن ان کے
جواں سال بھتیجے مصعب الشریف نے قلم سنبھال لیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 اگست 2025
ہفت
روزہ دعوت دہلی 22 اگست 2025
روزنامہ
امت کراچی 22 اگست 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 اگست 2025