غزہ امن مذاکرات بے
نتیجہ ختم
مزاحمت کار جنگ بندی نہیں موت چاہتے ہیں۔ صدر
ٹرمپ
غزہ جنگ حکومت کی تزویراتی، عملی اور سیاسی ناکامی ہے۔ اسرائیلی
قائدحزب اختلاف
غزہ کے لوگ چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے ہیں ۔ اقوام متحدہ
فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
نیتن یاہو کو گرفتار نہ کرنے پر عالمی فوجداری عدالت کا ہنگری کو
نوٹس
راشن تقسیم مراکز پر فلسطنییوں کے قتل عام کی دوسری گواہی
دودن میں غزہ کے دوصحافی قتل
اندیشوں اور خدشات کے عین مطابق غزہ امن
مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ قطر کے دارالحکومت میں بات چیت 18 دن تک جاری رہی۔
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے 10 اسرائیلی قیدیوں اور 18 لاشوں کی
واپسی کے بدلے، اسرائیلی عقوبت کدوں سے
ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کا فارمولا پیش کیا
تھا، لیکن اہلِ غزہ، جنگ کے مکمل خاتمے، امداد کی فوری و غیر مشروط بحالی، اور
اسرائیلی فوج کے انخلا سے قبل قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہ تھے۔ ہتھیار ڈالنے کا
مطالبہ بھی ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
مذاکرات میں شریک ایک اسرائیلی اہلکار نے
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جناب وٹکوف نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ضمانت دی
کہ عارضی جنگ بندی ایک پائیدار معاہدے تک جاری رہے گی، لیکن مزاحمت کار اسرائیلی
انخلا کے مطالبے پر قائم رہے۔ چنانچہ برہم ہو کر اسٹیو وٹکوف یہ کہتے ہوئے میز سے
اٹھ گئے کہ مزاحمت کاروں کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی
نہیں۔ انھوں نے اہل غزہ کے موقف کو "خودغرضانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کار باہم مربوط ہیں
اور نہ نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
بعد
ازاں صحافیوں سے گفتگو میں اسٹیو وٹکوف نے امن مذاکرات کی ناکامی کا الزام مزاحمت
کاروں پر دھر تے ہوئے کہا کہ امریکہ قیدیوں کی آزادی اور غزہ
میں استحکام کے لیے نئی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ اسی لہجے میں صدر ٹرمپ نے
واشنگٹن میں صحافیوں سے کہا کہ مزاحمت کار جنگ بندی نہیں چاہتے، ہم نے اپنا وفد
قطر سے واپس بلا لیا ہے۔ اب ان کے لیڈروں کا تعاقب کیا جائے گا۔اگلے روز صدر ٹرمپ
غصے سے بولے: "غزہ کے مزاحمت کار کوئی معاہدہ نہیں کرنا
چاہتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ مرنا چاہتے ہیں۔ اب اسرائیل کو یہ کام مکمل کرنا ہوگا،
یعنی مزاحمت کا مکمل صفایا۔"
جن
لوگوں کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے، ان میں سے بیشتر بھوک اور قحط کے ہاتھوں نیم مردہ
ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA کے کمشنر جنرل فلپ
لازارینی کا کہنا ہے "غزہ کا ہر پانچواں
بچہ غذائی قلت (Malnutrition) کا شکار ہے اور باقی لوگ زندہ ہیں نہ مردہ، بلکہ چلتے پھرتے انسانی
ڈھانچے ہیں۔ غزہ کے ہر خیمے پر موت دستک دے رہی ہے۔"
مزاحمت کار امریکہ کو ایک
دیانت دار ثالث نہیں سمجھتے اور ان تحفظات کی وجوہات بہت منطقی ہیں۔نسل کشی کیلئے
اسرائیل کو مہلک ہتھیارفراہم کرانے کے ساتھ امریکہ سفارتی سطح پر اسرائیل کی مکمل
پشت پناہی کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ غزہ امن کیلئے کتنے مخلص ہیں اسکا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ بندی کے بارے میں سلامتی کونسل کی ہر قرارداد کو امریکہ نے
ویٹو کیا۔ صدر ٹرمپ کی غزہ میں ایک پرتعیش تفریح گاہ
قائم کرنے کی خواہش کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ اس کیلئے شہری انخلا کی تجویز پیش
کرچکے ہیں۔مزاحمت کار اس ہدف کی راہ کی واحد رکاوٹ ہیں۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ
بھوک اور بمباری سے راستے کا یہ پتھر بھی ہٹایا جاسکتا ہے لیکن اس صورت میں
اسرائیلی قیدیوں کی موت یقینی ہے۔مزاحمت کار سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ بندی کا جھانسہ دیکر قیدی رہا کرانا چاہتے
ہیں جسکے بعد بمباری اور بھوک کا ہتھیار بے خوف استعمال کیا جاسکے گا۔
اسرائیل
جنگ ہار رہا ہے؟؟؟
طویل جنگ
اور فوج کے بھاری جانی نقصان سے اب اسرائیلی بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔اسرائیلی
قائد حزب اختلاف یائر لاپیڈ(Yair
Lapid) کا خیال ہے کہ اس جنگ نے
اسرائیل کو تباہی سے سوا کچھ نہیں دیا۔ اتوار 27 جولائی تل ابیب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے غزہ جنگ کو نیتن یاہو حکومت کی تزویراتی، عملی اور سیاسی
ناکامی قرار دےدیا۔جناب لاپید کا کہنا تھا کہ حکومت کو خود علم نہیں کہ غزہ
میں فوجی کیوں مر رہے ہیں، اب یرغمالیوں کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں اور
انسانی بحران سنگین تر ہو رہا ہے۔ اپوزیشن رہنما نے سنگین خطرات کا اندیشہ ظاہر
کرتے ہوئے کہا "اسرائیل کو غزہ میں بھوک ختم کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے کہ
یہ یہودی اقدار کا تقاضہ ہے۔ اگر حالات ایسے ہی ریے تواسرائیل پر اقتصادی و قانونی
پابندیاں لگ سکتی ہیں اور جو فوجی جنگ میں شریک رہے ہیں، انہیں بیرونِ ملک گرفتاری
کا سامنا ہو سکتا ہے"
عالمی ردعمل: فرانس، برطانیہ
فلسطین کے حوالے سے ایک اہم
پیش رفت فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اعلان ہے۔ صدر میکراں نے
انسٹاگرام پر 24 جولائی کو لکھا'فرانس آئندہ ستمبر میں، اقوامِ متحدہ کی جنرل
اسمبلی کے اجلاس سے پہلے، ریاستِ فلسطین کو باقاعدہ تسلیم کرلے گا۔یہ قدم فرانس کی
مشرقی وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کی تاریخی وابستگی کے مطابق اٹھایا جا رہا
ہے'۔ اس اعلان پر فرانس کی
نسل پرست مسلم دشمن رہنما میرین لاپن (Marine Le pen)نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم
کرنا دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ کچھ ایسا ہی ررعمل امریکی وزیرخارجہ
مارکو روبیو کا ہے جنھوں نے اس فیصلے کو 7 اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ قراردیا۔
دوسری طرف برطانوی وزیراعظم
کیئر اسٹارمرنے فلسطینی ریاست کے قیام کو جنگ بندی سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ "ریاست کا قیام فلسطینی عوام
کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف اور دو
ریاستی حل کی طرف لے جائے گی، جو فلسطین و اسرائیل دونوں کو امن و سلامتی کی ضمانت
فراہم کرے گا۔" اسرائیل
کو مہلک ترین ہتھیار فراہم کرنے کے ساتھ امن کی خواہش کو غزہ کے مظلوموں کے ساتھ
ایک بھیانک مذاق کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
سلوانیہ کے بعد ہالینڈ:
گزشتہ ہفتے وسطی یورپ کے ملک
سلووینیا نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ اور وزیر قومی سلامتی اتمار بن گوئر
کو ناپسندیدہ شخصیات (Persona Non Grata) قرار دے کر انکی ملک میں آمد پر پابندی لگادی تھی اور اب ان دونوں
پر ایسی ہی پابندیاں نیدر لینڈ (Netherlands)نے عائد کردیں ہیں۔ولندیزی وزیرخارجہ Caspar
Valdekampکے مطابق پابندی کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے
آبادکاروں کو بارہا فلسطینی آبادی کے خلاف تشدد پر اُکسایا اور غزہ کی پٹی پر یہ
نسلی تطہیر (ethnic cleansing)
کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ICC کا دباؤ: ہنگری کو نوٹس
امریکہ کی جانب سےتادیبی پابندیوں کے باوجود عالمی فوجداری عدالت (ICC)اپنی حیثیت منوانے کیلئے پرعزم
نظر آرہی ہے۔ عدالت نے نیتن یاہو کی گرفتاری سے انکار پر ہنگری کے خلاف
کارروائی کا آغاز کر دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے
اپریل 2025 میں ہنگری کے دارالحکومت بودڈاپیسٹ کا دورہ کیا تھا، لیکن ICC کا رکن ملک ہونے کے باوجود ہنگری نے
انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے اسے Rome Statute کی کھلی خلاف ورزی
قرار دیاہے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے دلیل دی کہ "ہم دل سے
ICC پر
عمل نہیں کرتے" اور عدالت سے علیحدگی کی تیاری کر رہے ہیں۔ICC نے یہ
دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "داخلی قانون سازی
عالمی ذمہ داریوں سے فرار کا جواز نہیں بن سکتی۔"۔ یہ معاملہ ICC کے
سالانہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جو دسمبر میں متوقع ہے۔
گھر کی ایک اور گواہی:
اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے 27 جون کو ایک رپورٹ شایع کی تھی جسکے مطابق اسرائیلی
فوجی افسران نے انکے نمائندے کو بتایا کہ انہیں خوراک تقسیم مراکز کے قریب غیر
مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تھا، چاہے کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔"اس
رپورٹ کے بعد فوجی استغاثہ (IDF Prosecutor) نے ممکنہ جنگی جرائم کی چھان بین کا مطالبہ کیا تھا۔ اب بی بی سی
کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق امریکی فوجی اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے امدادی اہلکار انتھونی
ایگیلار (Anthony Aguilar) نے بھی اسی نوعیٹ کے ہولناک انکشافات کیے ہیں۔جی
ایچ ایف، غزہ میں امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں کام کرنے والا ایک امدادی ادارہ
ہے، جس کا مقصد فلاحی سامان کی تقسیم ہے۔ انیس (19) جولائی کو نشر ہونے والےاس
انٹرویو میں ایگیلار نے کہا 'میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نہتے، بھوکے
فلسطینیوں پر ٹینکوں، توپوں اور مارٹر سے حملے کیے گئے۔ یہ سب اسرائیلی فوج (IDF) اور امریکی کنٹریکٹرز کے
ہاتھوں ہوا۔ یہ جنگی جرائم ہیں'۔ ان کے مطابق GHF کے مراکز پر اندھا دھند اور غیر ضروری طاقت" استعمال کی گئی، IDF اور امریکی اہلکاروں نے گولہ باری اور
فائرنگ کے ذریعے شہریوں کو نشانہ بنایا۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنے پورے کیریئر ،
حتیٰ کہ جنگی علاقوں میں بھی اتنی سفاکی نہیں دیکھی جتنی مجھے غزہ میں نظر آئی۔
جناب ایگیلار نے یہ بھی کہا کہ GHF کا امدادی نظام "مجرمانہ" تھا۔
جی ایچ ایف نےایگیلار کے
دعووں کو "بے بنیاد اور جھوٹا" قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ وہ ایک ماہ قبل
"نامناسب رویے" پر برخواست کیے گئے اور برطرفی کے بعد انہوں نے GHF کو دھمکیاں دیں تھیں کہ اگر بحال نہ کیا
گیا تو وہ کارروائی کریں گے۔ ہمارے لئے اسرائیلی الزام کی تصدیق یا تردید ممکن
نہیں لیکن روزنامہ الارض کی رپورٹ اور انتھونی ایگیلار کی گواہی ایک دوسرے کی
تصدیق کرتی نظر آتی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی تنقید
عالمی عدالت کی طرح اقوام
متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن بھی سرگرم نظر آرہا ہے۔ کمیشن کے سربراہ وولکر تُرک (Volker Türk) نے برطانوی حکومت کی جناب سے
فلسطین ایکشن (Palestine Action)نامی
تنظیم پر پابندی کو بین الاقوامی قوانین سے متصادم قراردیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج
کو دہشتگردی کہنا، دہشتگردی جیسے بھیانک جرائم کی اہمیت و سنگینی کو مجروح کرتا
ہے۔برطانوی میں جنگی سازوسامان تیار کرنے والی کمپنیوں کے خلاف پرامن اور علامتی
احتجاج کرنے پر فلسطین ایکشن کو دہشتگرد قرار دے دیاگیا ہے اور تنظیم سے وابستگی،
حمایت یا اس کی علامتوں کی نمائش پر 14 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم
ہوئے:
صحافیوں کا چن چن کر خاتمہ
اسرائیلی جنگی حکمتِ عملی کا کلیدی حصہ ہے۔غزہ کی مکمل ناکہ بندی اور سخت ترین
سنسر شپ کے باعث انسانیت کے خلاف جرائم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں،لیکن پٹی پر
موجود صحافیوں نے قلم کا محاذ پوری جرات سے سنبھالا ہوا ہے اور یہ متحرک صحافی
اسرائیلی درندگی کا خاص نشانہ ہیں۔ فلسطینی ذرایع کے مطابق جارحیت کے آغاز سے اب
تک 200 سے زیادہ صحافی قلم کی حرمت پر قربان ہو چکے ہیں۔ اس ہفتے دو صحافی قتل کئے
گئے۔ خاتون صحافی ولاء الجعبری(Walaa Al-Jaba’ari) کا گھر 23 جولائی کو اسرائیلی بمباروں نشانہ بنا۔حملے میں ولاء، ان
کے شوہر امجد الشاعر اور ان کے چار معصوم بچے شہید ہو گئے۔ دل دہلا دینے والی بات
یہ ہے کہ ولاء امید سے تھیں۔ اسکے دودن بعد فوٹو جرنلسٹ آدم ابو حربد کو خاموش کردیا گیا۔گھر تباہ ہونے
کے بعد آدم اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غزہ شہر کے علاقے یرموک میں خیمہ زن تھے۔
اسرائیلی ڈروں نے انکے خیمے کو تاک کر نشانہ بنایا۔ حملے میں آدم کی بیوی اور بچے
زخمی ہوگئے۔غزہ کے صحافی بمباری کےساتھ بھوک اور قحط کا سامنا بھی کر رہے
ہیں۔ایسوسی ایٹیڈ پریس، AFP، رائٹرز اور بی بی سی (BBC)ابلاغ عامہ کے بڑے عالمی اداروں نے غزہ
کے فاقہ زدہ صحافیوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ کہ جنگ
زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے فاقہ کشی ایک نیا اور خطرناک اضافہ
ہے۔انہوں نے اسرائیل سے صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ داخلے اور اخراج کی اجازت دینے
اور علاقے میں خوراک کی ترسیل یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم اگست 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی یکم اگست 2025
روزنامہ امت یکم اگست 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 3اگست 2025
No comments:
Post a Comment