Thursday, August 14, 2025

 غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ

آپریشن، اسرائیلی فوج کیلئے مہلک ہوسکتا ہے۔ فوج کی تنبیہ

اسرائیل کے سابق دفاعی حکام کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل

ہرقیمت پر آزادی و خودمختاری کو دفاع کیا جائیگا ۔ مزاحمت کاروں کا عزم

جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کردی

مصر، غزہ کی گیس، اسرائیل سے خریدے گا، 35 ارب ڈالر کا معاہدہ

شفا ہسپتال کے باہر صحافیوں کے خیمے پر حملہ، چارقلمکار اورڈرائیور جاں بحق

فوج کی شدید مخالفت کے باوجود اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ  منظور کرلیا۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے فوج کو پانچ ماہ کی مہلت دی ہے۔ آپریشن پلان کے مطابق پانچ ڈویژن فوج وسط شہر پر چڑھائی کریگی۔بھارتی نیوز چینل CNN-News 18سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے  کہا کہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم وہ اس پر براہ راست حکومت نہیں کرے گا۔ انکا کہنا تھا کہ 'ہماری منزل غزہ کو فتح کرنا نہیں، بلکہ مزاحمت کاروں کا خاتمہ اور قیدیوں کی بازیابی ہے۔ اس کے بعد غزہ کو ایک عارضی عرب حکومت کے سپرد کیا جائے گا'۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بہت صراحت سے کہا کہ قبضے کے بعد غزہ، مقتدرہ فلسطین (PA) کو دیا جائے گا اور نہ اسے مزاحمت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ پٹی کی سیکیورٹی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔انٹرویو کے سرسری تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہونے کی صورت میں غزہ نیا غربِ اردن بنے گا۔اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ساحلی پٹی کی حتمی صورت گری صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront کی شکل میں ہونی ہے۔

فوجی مخالفت اور حزبِ اختلاف کی تنقید

تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ کابینہ میں اس  معاملے پر بحث کے دوران فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر نےکھل کر کہا کہ یہ مہم جوئی، فوج کے بھاری جانی نقصان کے ساتھ غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی دوران قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لاپید نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات ظاہر کیے۔ انہوں نے عبرانی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'غزہ پر قبضہ ایک بہت ہی برا خیال ہے۔ اس طرح کی مہم جوئی اُس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک قوم کی اکثریت آپ کے ساتھ نہ ہو ۔اگلے روز ایک بیان میں جناب لاپید نے دوبارہ کہا کہ 'یہ منصوبہ ایک اور جنگ کو دعوت دے رہا ہے جس کا نتیجہ قیدیوں کی ہلاکت، مزید فوجیوں کی شہادت اور قوم کے اربوں شیکال (اسرائیلی کرنسی) کا ضیاع ہوگا، جو چند انتہاپسند وزرا کے واہموں پر قربان کیا جا رہا ہے۔'

چند روز پہلے عبرانی میڈیا نے انکشاف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے تقریباً 80 ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں، جن کی اکثر دوبارہ محاذ پر جانے کے قابل نہیں۔اسرائیلی فوج کی کل تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 70ہزار ہے جسے چار لاکھ 65 ہزار ریزرو سپاہیوں کی مدد حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی اعلیٰ فوجی افسران غزہ میں جاری جنگ کو کسی امن معاہدے کے ذریعے جلد از جلد ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔

سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا ویڈیو پیغام

اسی ہفتے اسرائیل کے 19 سابق اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں نے ایک مشترکہ ویڈیو پیغام میں غزہ میں جنگ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس جنگ میں فتوحات سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، اور یہ جنگ اب کسی فوجی ضرورت کی بجائے سیاسی مقاصد کے تحت جاری رکھی جا رہی ہے۔ اسرائیلی  ISI ،شاباک (Shin Bet)کے سابق سربراہ نداف آراگامان کا کہنا تھا: "اب ہم محض اپنے نقصانات کی تلافی میں لگے ہیں"۔ موساد کے سابق ڈائریکٹر تمیر پاردو نے بہت واشگاف لہجے میں کہا:"ہم شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں۔"اس ویڈیو کانفرنس میں اسرائیلی فوج، موساد اور شاباک کے کئی سابق سربراہان شامل تھے۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کاعزم

نیتن یاہو کے اس منصوبے پر فلسطینی مزاحمت کاروں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مدد سے دشمن کا یہ خواب کسی قیمت پر پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔اس بیان میں کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا گیا کہ عرب یا غیر عرب جو قوت بھی غزہ کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کریگی اسے قبضہ گرد سمجھا جائیگا اور قبضہ گردوں سے ہمارے سلوک کے بارے دنیا کسی ابہام میں نہ رہے۔

عالمی ردعمل

جنگ میں توسیع کے اس منصوبے کی برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ، سعودی عرب، اردن اور پاکستان سمیت تقریباً تمام دنیا نے شدید مخالفت کی ہے۔اسرائیلی منصوبے کی خبر جاری ہوتے ہی جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا کہ غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی ساز و سامان کی اسرائیل کو ترسیل فوری طور پر روکدی گئی ہے۔ دوسری طرف وسطی یورپ کے ملک سلووانیہ (Slovenia) نے غرب اردن کے قبضہ گرد علاقوں میں بننے والی مصنوعات کی اپنے ملک میں درآمد پر پابندی لگادی۔ایک سرکاری بیان میں حکومت نے کہا کہ ہمارا ملک ایسی کسی لین دین یا تجارت کا حصہ نہیں بن سکتا جن سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، زمینوں پر قبضے، اور فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔سلوانیہ اس پہلے نیتن کابینہ کے دوانتہاپسند وزرا اتامر بن گوئر اور بیزلیل اسموترچ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر انکا اپنے ملک میں داخلہ ممنوع قرار دے چکا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے حمائت  اور انسانیت سوز تاریخی حوالہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فرمایا کہ "غزہ میں کسی ڈیل (deal)سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا"۔نوبل انعام کے خواہشمند صدر ٹرمپ کا یہ بیان دراصل جنگ کو طول دینے، بچوں کے ذبح کرنےاور بھوک و قحط کو ہتھیار بنانے کی حمائت ہے۔

امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائک ہکابی برطانوی وزیراعظم کی مخالفت پر سخت مشتعل ہیں۔ انھوں نے شعلہ فشاں ٹویٹ میں وزیراعظم اسٹارمر سے سوال کیا کہ برطانیہ نے ڈریسڈن میں کیا کیا تھا؟۔ فروری 1945 میں، برطانیہ اور امریکہ نے جرمن شہر ڈریسڈن (Dresden)پر 3,900 ٹن بم برسائے، جس سے 25,000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے اور دریائے ایبے (Elbe)کے کنارے واقع یہ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔یہ حملہ آج بھی جنگی جرائم کے مباحث میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ہکابی صاحب کا طنز کہ "اگر اسٹارمر اُس وقت وزیراعظم ہوتے تو آج برطانیہ جرمنی زبان  بول رہا ہوتا"، صرف تاریخی لاعلمی نہیں بلکہ انسانیت کی توہین ہے۔

اسرائیلی فضائیہ کا اعترافِ جرم

منظم و مربوط عالمی تعاقب سے خوفزدہ اسرائیلی جرنیل، صفائیاں پیش کرتے نظر آرہےہیں۔ایک اعلیٰ فوجی اجلاس میں فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل تومر بار (Tomer Bar) نے غزہ میں شہری ہلاکتوں کے سنگین اضافے کا ذمہ دار جنوبی کمان کو قراردے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کمان نے جنگ کے مقاصد کے حصول میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ناقص حکمتِ عملی اپنائی، جس کے باعث شہری جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔حوالہ Haaretz  ۔قانون کےباب میں ہمارا علم صفر سے بھی کم ہے لیکن کیا جنرل تومر کا یہ بیان اعترافِ جرم نہیں جسے بنیاد بناکر مہذب دنیا، اسرائیل اور اسکے سہولت کاروں کوقتل عام  کی سزا دے اور انھیں تاوان کی ادائیگی پر مجبور کرے؟

عوامی احتجاج

غزہ جنگی جرائم پر اسرائیلی فوج کےخلاف مختلف ممالک میں مقدمات اور انکے خلاف عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے۔ گرشتہ ہفتے امریکی ریاست مزوری کے شہر سینٹ لوئس (St Louis) میں ایک امریکی شہری، جب اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے کر اپنے گھر پہنچا تو محلے کی دیواروں پر "Death to the IDF"لکھ کر اسکا استقبال کیا گیا اور مشتعل افراد نے تین گاڑیوں کو آگ لگادی۔پیرس میں اسرائیل کی سرکاری ایرلائن El-Alکے دفتر پر لوگوں نے سرخ رنگ چھڑک کر Genocide Airlineلکھدیا۔ غزہ نسل کشی کے خلاف نیویارک میں امریکی یہودیوں نے شہر کے محاسب مالیات  (Comptroller)بریڈ لینڈر نے قیادت میں مظاہرہ کیا جس میں غزہ کی نسلی تطہیر بند کرو، قحط ختم کرو اور ہولوکاسٹ کے حوالے سے never again کے نعرے لگائے گئے۔

غزہ کی دولت پر اسرائیل اور مصر کا مشترکہ ڈاکہ

ایک طرف آسٹریلیا۔ یورپ اور خود امریکہ میں اہل غزہ سے یکجہتی کے مظاہرے ہورہے ہیں تو دوسری جانب مصر بحیرہ روم میں غزہ کے پانیوں سے نکالی جانے والی قدرتی گیس اسرائیل سے خریدنے جارہا ہے۔ لیویاتھن (Leviathan) کے نام سے مشہور یہ گیس فیلڈ جغرافیائی طور پر "Offshore Gaza" ہے۔معاہدے کے تحت مصر 2040تک 130 ارب مکعب میٹر (130 bcm) گیس خریدے گا، جس کی کل مالیت تقریباً 35 ارب ڈالر ہوگی۔فلسطینی وسائل کی چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، دوسال پہلے متحدہ عرب امارات کی سرکاری کمپنی مبادلہ پیٹرولیم نے  ثمر (Tamar)گیس فیلڈ میں 1 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی . ثمر کو بھی اہل غزہ اپنا ثمر قرار دیتے ہیں۔ ثمر کا کچھ حصہ لبنانی پانیوں میں ہونے کی وجہ سے لبنان نے اسکی ملکیت کیلئے اقوام متحدہ میں استغاثہ دائر کررکھا ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اتوار،  10 اگست کو  غزہ میں اسرائیلی حملے نے ایک میڈیا خیمہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، جس میں الجزیرہ کے انس الشریف، محمد قریقع، ابراہیم زاہر، محمد نفّال اور ایک ڈرائیور جان سے گئے ۔یہ حملہ شفا اسپتال کے قریب اُس وقت ہوا جب وہاں ایمرجنسی کی خبریں رپورٹ کی جا رہی تھیں۔صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل کی ایک واضح جنگی حکمت عملی ہے، تاکہ اس کے مظالم دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 232 سے زیادہ صحافی اپنا مقدس فرض ادا کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں ایک اسرائیلی نامہ نگار بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے مغربی دنیا کے بیشتر میڈیا ادارے سیاسی و معاشی مفادات کے باعث اسرائیلی درندگی پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ غزہ کے صحافی محض واقعات کے گواہ نہیں رہے، بلکہ خود اس وحشیانہ مہم کا براہِ راست ہدف بن چکے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 اگست 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 اگست 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 اگست 2025



No comments:

Post a Comment