Thursday, January 9, 2020

جنرل قاسم سلیمانی کا قتل


جنرل قاسم سلیمانی کا قتل
3 جنوری کو صبح سویرے بغداد کے بین القوامی ہوئی اڈے (سابق صدام حسین انٹرنیشنل ائیرپورٹ) کے قریب امریکی میزائیل حملے میں پاسداران انقلابِ اسلامی ایران (IRGC)کے معروف کمانڈر اور سپاہ قدس (Al-Quds Force)کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اپنے اتحادی یعنی شیعہ ملیشیا حشد الشعبی (PMF)کے نائب ابو مہدی المہندس (انجنیر) کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے۔
سپاہ قدس کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی 2 جنوری کو صبح سویرے اپنے خصوصی طیارے میں تہران سے دمشق پہنچے جہاں سے وہ بذریعہ کار لبنان کے دارالحکومت بیروت آئے۔ بیروت میں جنرل سلیمانی نے مبینہ طور پر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے تفصیلی ملاقات کی۔ وہ مغربین (مغرب و عشا) پڑھ کر دمشق واپس آئے اور رات ڈھائی بجے کے قریب اپنے طیارے میں بغداد روانہ ہوئے۔ عراق میں کسی کو جنرل صاحب کی آمد کی خبر نہ تھی اور انکے بغداد آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے جناب ابومہدی المہندس کو بتایا گیا کہ جنرل سلیمانی کا طیارہ بغداد اترنے والا ہے اور  سلیمانی صاحب ان سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔ پیغام سن کر ابومہدی المہندس ائرپورٹ پہنچے، جنرل صاحب کا استقبال کیا اور یہ دونوں حضرات حفاظتی عملے کے ہمراہ دو مخلتف کاروں میں وہاں سے روانہ ہوئے۔
جیسے ہی یہ گاڑیاں ائرپورٹ سے نکل کرمرکزی شاہراہ پر آئیں، امریکی ڈرون سے داغے جانے والے میزائیل نے آگے والی گاڑی کے پرخچے اڑادئے جبکہ دوسرا میزائیل دوسری گاڑی سے کچھ آگے گرا۔ بچ جانے والی گاڑی کے ڈرائیور نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کار کو روکا اور واپس موڑنے کی کوشش کی لیکن اسی دوران ڈرون سے تیسرا میزائیل داغا گیاجو سیدھا اس گاڑی کو لگا۔کہا جارہا ہے کہ پہلی گاڑی میں جنرل قاسمی اور پیچھے آنے والی کار میں حشد الشعبی کے نائب سوار تھے۔ محمکہ سراغرسانی، عراقی وزارت دفاع اور محکمہ شہری ہوابازی کو جنرل سلیمانی کی بغدادآمد کی کوئی اطلاع نہ تھی اور اب تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ کس نے ابومہدی کو یہ اطلاع دی جس پر وہ ائرپورٹ پہنچے۔ بغداداو تہران کے سراغرساں حلقوں کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کی دمشق روانگی کے وقت سے نگرانی کی جارہی تھی اور انکے طیارے کے بغداد پہنچنے پر انھیں 'منکر نکیروں' نے حشد الشعبی کے نائب کمانڈر کو جنرل صاحب کے استقبال کا پیغام بھیجا جنکی ہدائت پر بغداد ائرپورٹ کے کنٹرول ٹاور نے طیارے کی Landingکے انتظامات کئے۔ گویا بہت ہی ہوشیاری سے ابومہدی کو مقتل کا راستہ دکھایا گیا تاکہ ایک تیر سے دوشکار کیا جاسکے۔
تاہم عرب سیاسی و سفارتی تجزیہ نگار تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کررہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی  ایران و سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں مصروف تھے اور دونوں جانب سے مثبت اشارے مل رہے تھے۔ سلسلہ جنبانی کو درہم برہم کرنےکیلئے27 دسمبر کو  کرکوک (عراقی کردستان) میں امریکہ کے فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا جس میں امریکی فوج کا ایک سویلین کانٹریکٹر ہلاک اور کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ عراقی خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ یہ داعش کی کاروائی تھی لیکن امریکیوں کے مطابق حملہ ایران کی حمائت سے شیعہ ملیشیا کتائب حزب اللہ نے کیاتھا۔ ایران اور حشد الشعبی دونوں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی لیکن واشنگٹن نے ان وضاحتوں کو تسلیم نہیں کیا اور دودن بعد امریکی ڈرون نے عراق اور شام کی سرحد پر کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے 4 کمانڈروں سمیت  25 جنگجووں کو ہلاک  اور 55 سے زیادہ جوانوں کو زخمی کردیا۔
اپنے کمانڈروں کی ہلاکت پر حشد الشعبی مشتعل ہوگئی اور 31 دسمبر کو ہزاروں افراد  بغداد میں امریکی سفارت خانے پر چڑھ دوڑے۔ عراقی فوج کی بروقت کاروائی سے سفارتی عملہ محفوظ رہا لیکن مظاہرین نے عمارت کی بیرونی دیواروں کو آگ لگادی۔ اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے صدر ٹرمپ نے ایران کو امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ 'ایران کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی'
واشنگٹن و تہران کے درمیان کشیدگی کے باوجود وزیراعظم عبدالمہدی نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کی کوششیں جاری رکھیں۔ عراقی وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یکم  جنوری کو سعودی  ولی عہد محمد بن سلمان نے ایرانی صدر محمد روحانی کے نام ایک مکتوب بھیجا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ رفقا سے مشورے کے بعد ایرانی صدر نے اس خط کا جواب تیار کیا جو حساسیت کے پیش نظر ایلچی کے ذریعے وزیراعظم  عبدالمہدی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور رہبر ایران حضرت آئت اللہ خامنہ ای کے معتمد خاص جنرل قاسم سلیمانی پیام رساں مقرر ہوئے۔ جوابی خط عراقی وزیراعظم کے حوالے کرنے سے پہلے جنرل صاحب نے شامی صدر بشار الاسد اور حزب اللہ کے سربراہ کو اعتماد میں لیا۔ وہ یہ خط لیکر بغداد ایرپورٹ سے ایوان وزیراعظم جارہے تھے کہ انھیں پہلے سے گھات لگائے ڈرون نے نشانہ بنالیا۔
62 سالہ قاسم سلیمانی نے ایران کے جنوبی صوبے کرمان کے ایک چھوٹے سے گاوں قنات ملک کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ ابھی 20 سال کے تھے کہ شاہ ایران کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ اسوقت آئت اللہ خمینی پیرس میں جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ آئت اللہ اپنے انقلابی خطبات پیرس میں ریکارڈ کراتے اور کیسٹ کی کاپیاں بناکر انھیں سارے ایران میں تقسیم کردیا جاتا۔  اسی بناپر اس تحریک کو  Sonyانقلاب کا نام دیا گیا۔ کرمان صوبے میں ان کیسٹوں کی تقسیم نوجوان قاسم سلیمانی کے ذمہ تھی۔یہ کام بے حد خطرناک تھا کہ شاہ ایران کی  خفیہ ایجنسی ساوک  کے ایجنٹ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے اورہزاروں انقلابی کارکن ساوک کے سفاک ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
اپنی شجاعت، حکمت اور معاملہ فہمی کی بنا پر قاسم زیرزمین انقلابی قیادت کے بے حد قریب ہوگئے اور جب شاہ ایران کی معزولی کے بعد آئت اللہ خمینی کی سرپرستی میں انقلابی حکومت قائم ہوئی تو قاسم سلیمانی نے IRGCمیں شمولیت اختیار کرلی۔  سلیمانی نے باقاعدہ فوجی تربیت حاصل نہیں کی تھی لیکن وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر IRGCمیں بہت کامیاب رہے۔ 1980 میٓں جب صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو قاسم سلیمانی ہتھیار اٹھاکر محاذ پر چلے گئے اور  بے مثال شجاعت سے انھو ں نے اپنا مقام بنالیا۔ اسی دوان ایرانی قیادت نے بیرون ملک لاحق خطرات سے حفاظت کیلئے مشرق وسطیٰ کے مخلتف ممالک میں اپنے ہمددردوں کو عسکری بنیادوں پر منظم کرنا شروع کیا۔ دوسری انقلابی تنظیموں یعنی لبنان کی حزب اللہ، پاکستان کی شیعہ تنظیموں اورافغانستان کی حزب وحدت وغیرہ سے قریبی تعلقات استوار کئے گئے۔ اس کام کیلئے IRGCنے سپاہ قدس کے نام سے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا جسکے سربراہ قاسم سلیمانی مقرر ہوئے اور یہیں سے جناب سلیمانی کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔
ستم ظریفی کہ امریکہ کے ہاتھوں انتہائی بے بسی کے عالم میں مارے جانیوالے جنرل قاسم سلیمانی کی  چچا سام پر مہربانیوں کی فہرست خاصی طویل ہےٖ۔
نائن الیون (9/11)سانحے کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو قاسم سلیمانی سے مدد طلب کی گئی۔ جنرل سلیمانی نے افغان شیعہ تنظیم حزب وحدت کی مدد سے طالبان مخالف شمالی اتحاد کو امریکی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا اور  تاجکستان کے راستے پنج شیر اسلحہ بھجوایا۔ اس دوران امریکی ٹیلی ویژن پر لاکھوں لوگوں نے وہ منظر دیکھا جب شمالی اتحاد کے سپاہی ' مرگ بر امریکہ' لکھے لکڑی کےبڑے بڑے صندوق کھول کر ساختہ ایران اسلحہ نکال رہے تھے۔26 ستمبر 2001 کو جب گیری شروئن Gary Schroen کی قیادت میں امریکی سی آئی اے کا 8 رکنی ہراول دستہ پنج شیر اترا تو جنرل سلیمانی کی ہدائت پر بدنام زمانہ پیشہ ور قاتل اور گلم جم ملیشیا کے سربراہ عبدالرشیم دوستم نے انکا استقبال کیا۔ گیری شروئن اپنے ساتھ 30 لاکھ ڈالر نقد لائے تھے جو طالبان مخالف جنگجووں میں تقسیم کئے گئے۔ 5 ہفتوں کی شدید بمباری کے باوجود امریکہ افغان سر زمین پر اپنی فوج اتارنے میں ہچکچا رہا تھا۔جنرل سلیمانی کی حوصلہ افزائی پر عبدالرشید دوستم  تاجک اور شیعہ ملیشیا لیکر قندھار پہنچے اور امریکی چھاتہ بردار فوج کو اترنے اور شہر کی جانب پیش قدمی کیلئے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ اس دوران دوستم نے وحشت کا جو بازار گرم کیا اسکے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔طالبان کی مخالفت میں جنرل سلیمانی نے افغانستان میں امریکیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔
عراق کے معاملے میں امریکی سی آئی آے کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے دودن پہلے ایک ریڈیو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2013 میں جب امریکہ و برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملے کے تیاری اپنے عروج پر تھی تو جنرل قاسم سلیمانی نے ڈیوڈ پٰیٹریاس کو خود پیغام بھیج کر تعاون کی پیش کش کی۔ پیغام میں جنرل سلیمانی نے بہت ہی صراحت کے ساتھ کہا 'اس ضمن میں امریکہ کو صرف انھیں سے رابطہ رکھنا چاہئے کہ انکے علاوہ ایرانی فوج کا کوئی اور جرنیل آپکی مدد نہیں کرسکتا'
شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف مقبول عوامی مزاحمت کوکچلنے کیلئے  بھی جنرل سلیمانی اور سپاہ القدس نے جو کردار اداکیا وہ قابل افسوس ہے۔ طاقت کے بدترین استعمال سے لاکھوں شامی موت کے گھاٹ اترے اور یہ ہنستا بستا ملک فرقہ واریت کی ایسی بھٹی میں تبدیلی ہوگیا جسکا ایندھن  پھول سے بچے ہیں۔
ایران دنیا بھر کے شیعوں کا نمائندہ ملک ہے اور اسکے رہبرحضرت آئت اللہ خامنہ ای شیعان عالم کے روحانی پیشوا ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری شدید کشیدگی کے باوجو واشنگٹن نے ایران پر براہ است حملے سے گریز کیا ہے۔ 1979میں ایرانی طلبہ نے تہران کے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے امریکی سفارتکاروں کر 444 دن یرغمال بنائے رکھا۔ امریکی فوج نے انھیں چھڑانے کیلئے ناکام آپریشن بھی کیا لیکن nuke Iranکے ملک گیر مطالبے کے باوجود صدر جمی کارٹرنےکسی بڑی کاروائی سے گریز کیا۔ جب 1988 میں امریکی بحریہ نے ایران کا مسافر بردار طیارہ گرایا جس میں عملے سمیت 290 افراد مارے گئے تو امریکہ نے  13 کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر ہرجانہ اداکرکے معاملے کو ٹھنٖڈا کرلیا۔
ایران کے خلاف صدر ٹرمپ کے اس انتہائی قدم کی کوئی منطقی توجیح اب تک سامنے نہیں  آئی۔آتشیں بیانات کے باوجود صدر ٹرمپ جنگ اور فوجی کاروائی کو برابر ٹال رہے ہیں۔ وہ جنگ کو سفارتکاری بلکہ قیادت کی ناکامی سمجھتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی صدور شمالی کوریا کو دھمکی دیتے رہے جس سے کشیدگی اور امریکی فوجی اخراجات میں اضافے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا لیکن انھوں نے بات چیت کے ذریعے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اونھ کو معقولیت پر مائل کرلیا۔
2012 میں جب سابق صدر اوباما دوسری مدت کا انتخاب لڑرہے تھے اسوقت جوہری تنازعے کی بناپر  ایران اورامریکہ کے تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ صدر اوباما انتخاب جیتنے کیلئے ایران پر حملہ کرناچاہتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ صدر اوباما کو بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا اور وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے فوجی قوت کا سہارا لیناچاہتے ہیں۔صدر ٹرمپ افغانستان کے مسئلے کو بھی پر امن انداز میں  حل کرنے کی طرف مائل نظر آرہے ہیں۔
امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ غیر روائتی صدر ہونے کے دعویدار صدر ٹرمپ' مجبور' ہوکر روائتی ہتھکنڈوں پر اتر آئےہیں۔ صدر ٹرمپ کو امریکی کانگریس کی جانب سے مواخذے کا سامنا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں یہ 'مقدمہ' سینیٹ میں پیش ہوگا جہا ں صدر کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ تحریک کی کامیابی کیلئے مواخذے کے حق میں 67 ووٹ آنا ضروری ہیں جبکہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس اور انکے آزاد اتحادیوں کا مجموعی پارلیمانی حجم صرف 47 ہے لہذا اس تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں لیکن بظاہر پر اعتماد اور بے نیاز نظر آنے والے صدر ٹرمپ  سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی موجودگی میں رسوا کن سماعت اور اسکے عام انتخابات پر ممکنہ منفی اثرات سے خاصے فکر مند  ہیں۔
عام انتخابات سے پہلے 'دبنگ' اقدامات دوسری مدت کا انتخاب لڑنے والے امریکی صدور کی روائت ہے
1998 میں جب سابق صدر بل کلنٹن کو مواخذے کا سامنا تھا تو موصوف نے عراق پر آگ و آہن کی بارش کردی۔ Operation Desert Fox کے نام سے 4 دن تک  عراق کے طول و عرض پر خوفناک بمباری کے علاوہ خلیج میں تعینات امریکہ کے بحری جہازوں سے عراقی شہروں پر گولہ باری کی گئی۔ہنگامی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بل کلنٹن کی ڈیموکریٹک پارٹی مواخذے کی کاروائی کچھ روز کیلئے معطل کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اسی بنا پر صدر کے مخالفین نے عراق پر اس حملے کو 'جنگِ مونیکا' کا نام دیا۔
کچھ اسی طرح کی حکمت عملی سابق صدر اوباما نے بھی اپنائی جب 2012کے انتخابات سے پہلے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اسامہ کی عجلت میں بحری تدفین اور تصاویر کے اجرا سے اجتناب کی بنا پر یہ معاملہ خاصہ مشکوک ہے۔ غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن 2002 کے آغاز میں تورابورا حملے میں مارے جاچکے تھے اور ایبٹ آباد اپریشن محض ایک انتخابی ڈرامہ تھا
ایبٹ آباد ہی کی طرز پر گرشتہ برس 27 اکتوبر کو داعش کے مبینہ سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت منظر عام پر آئی۔ISIS کے 48 سالہ سربراہ کو شامی صوبے ادلیب کے ایک گاوں باریشا میں نشانہ بنایا گیا۔ اوباما انتظامیہ نے ایبٹ اباد آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے امریکی صدر اور انکےمشیروں  کی تصویر جاری کی تھی۔ اس  بار بالکل اسی انداز میں صدر ٹرمپ نائب صدر پینس اور وزیردفاع کے ہمراہ یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔  
ایرانی فوج کے قلب پر اس حملے کی وجہ مواخذہ اور صدارتی انتخابات ہیں یا سعودی ایران ممکنہ مفاہمت کے دروازے کو قفل لگانا، صدر ٹرمپ کی یہ جرات رندانہ دنیا اور خاص طور سے مشرق وسطیٰ کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی۔ رہبر ایران  آیت اللہ خامنہ ای بہت دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل سلیمانی عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت تھے۔ امریکہ نے جنرل سلیمانی پر حملہ کر کے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے جسکی اسے بھاری قیمت اداکرنی ہوگی۔
عسکری ماہرین تہران کی جانب سے نپے تلے جواب کی توقع کررہے ہیں۔پاکستان، افغانستان، شام، لبنان، یمن اور عراق میں ایرانیوں کی جڑیں خاصی گہری ہں۔ دوسری طرف خلیجی ممالک میں چالیس ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں۔ پورے خطے میں ایران نواز عسکری تنظیمیں اور فدائین موجود ہیں جنکے ذریعے تہران  امریکی مفادات اور ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ دشمن کا دوست دشمن کے اصول پر ایران اور یمن کے حوثی سعودی عرب میں تیل و گیس کے میدانوں اور تنصیبات کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ایران کے حق میں نہیں۔ تہران کو اسلامی دنیا میں  سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ ترکی کے علاوہ کسی مسلم ملک نے جنرل سلیمانی کے قتل کی مذمت نہیں کی۔ ایران کے دوسرے پڑوسی یعنی پاکستان، افغانستان اور عراق پر امریکہ کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔
عراقی پارلیمنٰٹ سے فوجی انخلا کی قرارداد منظور ہونے پر امریکی فوج کے مقامی کمانڈر بریگیڈیر ولیم سیلی نے عراقی جرنیل کے نام خط میں پارلیمنٹ کے احترام اور امریکی فوج کی فوری واپسی کا عندیہ دیا لیکن خط کی سیاہی خشک ہونے پہلے ہی امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے اپنے وضاحتی بیان میں عراق سے امریکی فوج کے انخلا کو یکسر مسترد کردیا۔ امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے بغداد میں تعنیات اپنے کمانڈر کے خط کو قبل ازوقت و نامناسب قرار دیکر عراق کی آزادی و خودمختاری کو ہوا میں اڑادیا
اس واقعے پر پاکستان کےطرز عمل سے عمران حکومت کی بے بسی و بے اختیاری کھل کر سامنے آگئی۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے اپنے پاکستانی ہم منصب یا حکومت سے بات کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو فون کیا۔ امریکی ذرایع کے مطابق بات چیت کے دوران جنرل باجوہ نے پاکستان میں امریکہ کے سفارتی عملے اور عسکری مفادات کے تحٖفظ کا یقین  دلایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو لیکن جنرل باجوہ سے پومپیو کی گفتگو کے فوراً بعد امریکی وزارت دفاع  نے پاکستان کے فوجی افسران کی تربیت پر پابندی ختم کردی۔ دوسرے دن  اس معاملے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے پاکستانی حکومت کی  جانب سے پالیسی بیان جاری کیا جس میں عراق کی قومی خودمختاری کا ذکر کئے بغیر اس معاملے میں مکمل غیر جانبداری کا عزم ظاہر کیا گیا۔ توقع تھی کہ ترکی کی طرح پاکستان بھی امریکہ کی جانب سے عراق کی سالمیت و خودمختاری کی پامالی پر  تشویش کا اظہار کریگا۔ عجیب بات کہ اس سارے معاملے میں پاکستانی وزارت خارجہ کا کردار بلکہ وجود نظر ہی نہیں آیا۔
اسلام آباداس معاملے پر غیر جانبداری کی چادر اوڑھنے میں اپنی عافیت سمجھ رہا ہے لیکن پاکستان کیلئے معاملہ اتنا آسان نہیں۔ فوجی تربیت  بحال کرکے امریکہ نے خدمت سے پہلے حق المحنت اداکردیا ہے یعنی سودے کو پرکشش بنانے کیلئےdo moreکے بجائے take now, pay laterکی حکمت عملی کے ساتھ ہی 'بلڈی سولینز'  کو یکسر نظر انداز کرکے امریکہ نے قومی پالیسیوں کی تدوین و ترتیب کے باب میں پاکستانی مقتدرہ کو اپنی ترجیحات و خواہشات سے بھی آگاہ کردیا ہے  
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 جنوری
2020


Friday, January 3, 2020

کچھ عجیب لیکن مبارک و پر عزم اتفاق


کچھ عجیب لیکن مبارک و پر عزم اتفاق
سویلین بالادستی پاکستانی جمہوریت پسندوں کا ایک پرانا خواب ہے
کچھ عرصہ پہلے عدالت عظمیٰ نے جنرل قمر باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے مسئلے پر ایک جرات مندانہ فیصلہ سناکر  قوم کو جرنیلوں کی تقرری کے حوالے سے سویلین بالادستی کا سنہری  موقع فراہم کیا
اس پر سیلیکٹید کا ردعمل تو منطقی تھا کہ جسکا کھاتا ہے اسکا گاتا ہے
لیکن جمہوریت کے بڑے بڑے علمبردار بھی بوٹ  پر واری و فدا   ہوگئے
کیا نواز شریف اور کیا زرداری  سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
اور تو اور بائیں بازو کے سرخیل جناب اسفند یار ولی بھی سجدے میں گرے نظر ارہے ہیں
 صرف جماعت اسلامی نے
آرمی ترمیمی بل کی مخالفت کااعلان کیا ہے۔ اس سے بل کی منظوری پر تو کوئی اثر نہیں پڑیگا کہ جماعت اسلامی کے پاس قومی اسمبلی میں  صرف ایک ہی  نشست ہے
اتفاق سے یہ نشست بھی  NA-1ہے جس پر مولانا عبدالاکبر چترالی براجمان ہیں
اس پر انگریزی  کلام سے ایک انتخاب
Only One You  by T. G. Sheppard

I've seen this world from corner to corner
There ain't much ground that I haven't covered
I've drank it's wine
I've tasted it's pleasures
I've known some love
And I've known some lovers
If there's one lesson in the livin' I've done
The best things only come along in numbers of one
There's only one Eiffel Tower
One finest hour
One New York town
One 5th Avenue
There's only one Mona Lisa
One Leaning Tower Of Pisa
One Paris and there's only one you


Thursday, January 2, 2020

بحر روم میں کشیدگی! ترکی و لیبیا بمقابلہ مصر، اسرائیل اور یونان


بحر روم میں کشیدگی! ترکی و لیبیا بمقابلہ مصر، اسرائیل اور یونان
بدقسمتی سے دنیا بھر کی بڑی آبی گزرگاہیں، شاہراہیں، آبنائیں اور سمندر عسکری کشیدگی کی زد میں ہیں۔ بحر جنوبی چین (South China Sea)میں آزاد جہاز رانی کے مسئلے پر امریکہ اور چین کو ایک دوسرے کے موقف سے سخت اختلاف ہے۔ چین بحرالکاہل کے جنوبی حصے کو اپنی ملکیت تصور کرتا ہے اور اس نے یہاں بہت سے مصنوعی جزیرے بناکر بحری اڈے قائم کر لئےہیں۔ امریکہ بہادر کو بحر جنوبی چین پر بیجنگ کی اجارہ داری کسی طور قابل قبول نہیں اور تباہ کن جہاز وں کے گشت سے واشنگٹن مسلسل یہ باور کرارہا ہے کہ بحر جنوبی چین اقوام عالم کیلئے ایک کھلا سمندر اور آبی گزرگاہ ہے۔ جاپان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا بھی یہی موقف ہے۔
کچھ ایساہی معاملہ جزیرہ نمائے کوریا، بحر جاپان، خلیج کوریا، بحر زرد (Yellow Sea) اور آبنائے کوریا کا ہے کہ جہاں جوہری ہتھیار سمیت حشر بپا کرنے کے سامان سے آراستہ و پیراستہ  روس، چین اور امریکی بحریہ کے  جہاز ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور جنوبی کوریا چچا سام کی نصرت کو موجود ہیں۔ بحرالکاہل کے جنوب میں چین و تائیوان کے درمیان واقع آبنائے فارموسابھی کشیدگی کی زد میں ہے۔
بحر احمر اور بحر عرب کے درمیان آبنائے باب المندب کے قریب ایک عرصے سے صورتحال کشیدہ ہے جبکہ خلیج فارس گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ کے ایک جدید ترین ڈرون کی تباہی اور سعودی جہازوں پر تباہ کن میزائل حملوں کا نطارہ بھی کرچکی ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے ایک نیا آبی محاذ گرم ہوتا نظر آرہا ہے اور وہ ہے بحر روم کا مشرقی کنارہ۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں کے برعکس یہاں علاقائی ممالک اپنی قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور 'سپر پاورز' کی براہ راست دلچسپی فی الحال ظاہر نہیں ہوئی ۔ یہ درست کہ کشیدگی میں  مغرب و امریکہ کے دلاروں یونان، مصر اور اسرائیل کے ملوث ہونے کی بنا پر واشنگٹن اور برسلز کی حمائت بڑی واضح ہے لیکن اب تک کسی بڑی طاقت نے اپنے عسکری اثاثے یہاں نہیں اتارے
9 لاکھ 70 ہزار مربع میل پر مشتمل بحر روم خشکی سے گھرا سمندر ہے جسے ہسپانیہ اور مراکش کے درمیان واقع آبنائے جبل الطارق خلیج یونان کے راستے بحر اوقیانوس سے ملاتی ہے۔ 711 میں اسی مقام سے طارق بن زیاد نے 1700 (کچھ روائت میں 12000)بربر مجاہدین کے ساتھ سمندر عبور کرکے ہسپانیہ پر کامیاب حملہ کیا۔
بحر روم سے آنے والا بحری ٹریفک مشرق میں سوا کلو میٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) یا آبنائے چناکلے کے ذریعے بحر روم سے بحیرہ مرمراآتا   ہے۔بحیرہ مرمرا کو ترکی میں نہر استنبول کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس (Strait of Bosporus)  کے ذریعے بحیرہ مرمراکو بحر اسود تک رسائی مل جاتی ہے۔ جنوب مشرق میں 675 فٹ چوڑی نہر سوئز بحر روم کو بحر احمر  سے ملاتی ہے۔ بحر احمر کو بحر قلزم بھی کہا جاتاہے۔
بحر روم اور بحر اسود پر ترکی کی گرفت بہت گہری ہے جو حاسدوں کو پسند نہیں۔ تاہم حالیہ کشیدگی کی وجہ جہاز رانی و مواصلات سے زیادہ معدنیات ہیں۔ بحرروم کی تہہ کے نیچے تیل وگیس کے چشمے موجزن ہیں جن پر قبضے کیلئے علاقے کے تمام ممالک اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ جنوب مشرقی ساحل پر لبنان، غزہ اور مصر کے پانیوں میں گیس کے کئی بڑے ذخائز دریافت ہوئے ہیں۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کہ فلسطین اور لبنان کے خزانے پر اسرائیل بہت بے شرمی سے ہاتھ صاف کررہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ اس ڈکیتی کے خلاف آواز اٹھائے۔غزہ اور لبنان کے ساحلوں کے قریب اسرائیلی کی نجی تیل کمپنی دالیک  (DALEK) اور امریکہ کی نوبل انرجی نے  لیویاتن  Leviatan، تامر ، ماری ، میرا، میرین 1 اور 2 کے نام سے گیس کے میدان دریافت کئے ہیں جبکہ کئی مقامات پر گیس کی تلاش و ترقی کیلئے کھدائی کا کام جاری ہے۔ لیوتن نام بھی اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ عبرانی روایات کے مطابق  قدرت نے اپنے متقی بندوں کی حٖفاظت کیلئے خوفناک اژدہوں کا ایک جوڑا تخلیق کیا ہے۔ مادہ اژدہا لیویاتن ہے جو اسرائیل کے گرد گہرے پانیوں میں 'مومنین' کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہے جبکہ نر اژدہا بہیمہ (Behemoth)خشکی و صحرا میں 'اہل ایمان' کی حفاظت کرتا ہے۔ دلچسپ بات کہ راسخ العقیدہ یہودی اس کہانی کو مہمل بلکہ شرک تصور کرتے ہیں۔
معاملہ صرف غزہ اور لبنان کے وسائل کی چوری تک محدود نہیں۔ جس دلیری سے مصر کی دولت پر شب خون مارا جارہا ہے وہ اس سے زیادہ دردناک ہے۔ مصر کے ساحل سےمتصل سمندر میں ہالینڈ کی شیل کمپنی ایک عرصے سے قسمت آزمائی کررہی تھی۔ حسنی مبارک کے دورِ نامبارک میں فوجی جنتا اور کمیشن مافیا کا گٹھ جوڑ عدم دلچسپی اور ناکامی کےباوجود  شیل Shellکے ٹھیکے کی بار بار تجدید کرکے مال بٹور رہا تھا۔ 2012 کے وسط میں اقتدار سنبھالتے ہی صدر محمد مورسی نے وزارت پیٹرولیم کی تنظیم نو کرتے ہوئے انھیں بحر روم میں گیس کی تلاش تیز کرنے کا ہدف دیا۔ نئی انتظامیہ نے شیل کا ٹھیکہ منسوخ کرکے دنیا بھر کی تیل کمپنیوں کو تلاش و ترقی کے کام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔بحر روم کا یہ علاقہ بے حد پرکشش ہے چنانچہ اطالوی کمپنی eni نے بھاری بولی لگاکر شروق بلاک میں تلاش کے حقوق اپنے نام کرلئے۔ ٹھیکہ ملتے ہی eniنےکھدائی کا آغاز کیا اور  اور پئے در پئے 7 کنویں کھود کر 30 ہزار ارب مکعب فٹ گیس کا عظیم الشان ذخیرہ دریافت کرلیا جسے ظہر کا نام دیا گیا۔ظہر سے یومیہ پیداوار کا حجم 2 ارب 70 کروڑ مکعب فٹ ہے۔ صرف 12 ماہ بعد ہی صدر مورسی معزول کرکے عقوبت خانے پہنچادئے گئے اور کمیشن مافیا کو سونے کی ایک نئی چڑیا ہاتھ لگ گئی۔ اسرائیلی کی خوشنودی کیلئےترقی کا کام سست کردیا گیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اونے پونے گیس کی فروخت شروع ہوئی لیکن کچھ ہی ماہ بعد معاہدہ یہ کہہ کر منسوخ کردیا گیا کہ مصر قومی دولت صرف اپنے لئے استعمال کریگا اور ظہر سے نکلنے والی گیس فروخت نہں ہوگی۔ بظاہر تو یہ بڑی عمدہ بات تھی لیکن سیاسی ہاتھیوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔
ظہر گیس کی برآمد پر پابندی کا اصل محرک  لیویاتن Leviathan سے نکلنے والی گیس کیلئے خریدار کی تلاش تھا۔ لبنان، ترکی، شام اور یونان اسرائیلی گیس خریدنے کیلئے تیار نہیں اور لبیا تیل و گیس میں خود کفیل ہے۔ اسرائیل کے پاس اس کی فروخت کا واحد طریقہ  یہ تھا کہ گیس کو LNGمیں تبدیل کرکے اسے ٹینکروں کے ذریعے یورپ برآمد کردیا جائے۔ لیکن LNGپلانٹ لگانے کا خرچ بہت زیادہ تھا چنانچہ 2010 میں دریافت ہونے والی یہ گیس فیلڈ گزشتہ 9 سال سے بند پڑی تھی۔
دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل اور مصر کے درمیان گیس فروخت کے ایک معاہدے (GSA)کی خبر شائع ہوئی۔معاہدے کے تحت مصر  لیویاتن سے 54 کروڑ 80 لاکھ (548mmcfd)مکعب فٹ گیس یومیہ خریدے گا۔ یہ معاہدہ 15 سال کیلئے ہے یعنی ان پندرہ برسوں کے 3tcfگیس فروخت کی جائیگی۔
 مصری ذرایع ابلاغ پر تو اسے کوئی اہمیت نہیں ملی لیکن ساری دنیا میں شور برپا ہے کہ اب اسرائیل بھی  گیس برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ کچھ منچلے تو یہ بھی کہہ گئے کہ اسرائیلی وزارت پیٹرولیم اوپیک OPECکی رکنیت کیلئے درخواست دے رہی ہے اور متحدہ عرب امارات نے اس سلسلے میں اسرائیل کو اپنی حمائت کا یقین دلایا ہے۔
بحرروم کا محل وقوع کچھ اسطرح ہے کہ اس سمندر کی حدود واضح نہیں اور ہر ملک اسکے پانیوں پر اپنا حق جتا رہا ہے۔ جنوب مشرقی حصے  میں  لیویاتن اور مصر کی ظہر گیس فیلڈ کی دریافت کے بعد سے بحر روم کے شمال مشرقی علاقے میں بھی تیل و گیس کی تلاش  وترقی کے کام میں تیزی آگئی ہے۔ یہاں اپنی سرحدوں سے جزیرہ قبرص تک کے علاقے کو ترکی  نے مخصوص  اقتصادی زون   یا EEZقراردیا ہے اور انقرہ  اس علاقے میں کسی اور کی موجودگی برداشت کرنے کو تیار نہں۔ گزشتہ برس کے آغاز میں اٹلی کی Eni نے قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش کیلئے Saipem 12000نامی رگ بردار جہاز (Drillship)بھیجا جسے وہاں پہنچتے ہی ترک بحریہ نے گھیر لیا اور ڈبونے کی دھمکی دیکروہاں سے چلے جانے پر مجبور کردیا۔ اس رگ بردار جہاز نے بعد میں کراچی کے قریب مشہور زمانہ کیکڑا ون کی کھدائی کی۔یونان اس علاقے پر ترکی کا  حق   قبول  نہیں کرتا اور وہ یونانی قبرص سے مل کر علاقے میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ کئی مرتبہ دونوں کی بحریہ آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن صدرایردوان کے دوٹوک روئیے کی بنا پر یونانیوں  نے پسپائی اختیار کرلی۔ ترکی و یونان دونوں ہی نیٹو (NATO)کے رکن ہیں  چنانچہ دسمبر کی نیٹو سربراہ کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھا۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت  تمام یورپی ممالک نے یونان کی حمائت کی لیکن صدرایردوان نے صاف صاف کہدیا کہ ترکی نیٹو چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی اقتصادی شہہ رگ سے دستبردار نہیں ہوگا۔
بحر روم پر بالادستی کیلئےاسرائیل اور مصر کے گٹھ جوڑ پر ترکی کو سخت تشویش ہے۔ یونان بھی ترکی کی  مخالفت میں اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ چنانچہ صدر ایردوان بحر روم کے جنوبی ساحل پر شمالی افریقہ کے ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش سے قریبی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ ان تمام ممالک کو بحر روم میں اسرائیلی بحریہ کی بڑھتی ہوئی قوت پر تشویش ہے۔ اسکے علاوہ لیبیا میں بد امنی سے تیونس بھی متاثر ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک صدر نے تیونس کا دورہ کیا جہاں تیونس کے دفاع اور اسکے قدرتی وسائل کی ترقی پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ نئے تیونسی صدر قیس سعید ترکی سے قریبی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ دوسری طرف النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کے تیونسی پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوجانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان ہاہمی تعلقات میں خاصی گرمجوشی آگئی ہے۔
لیبیا کو شدید دہشت گردی کا سامنا ہے جسکے سرغنہ امریکی شہریت کے حامل خودساختہ جنرل خلیفہ ابوالقاسم حفتر ہیں۔ 76 برس کے حفتر کرنل قذافی کی آنکھ کاتارہ تھے اور چاڈ کی خانہ جنگی کو کچلنے کیلئے 1986 میں جب لیبیاکی  فوج وہاں بھیجی گئی تو اسکے سربراہ کرنل حفتر ہی تھے۔اس دوران انکا رویہ انتہائی خراب تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انکے خلاف مقدمہ بھی قائم ہوا۔ کرنل قذافی کے خلاف تحریک کو کچلنے کیلئے بھی حفتر صاحب نے انتہائی وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن جیسے ہی انھیں اندازہ ہوا کہ قذافی اقتدار کی بنیادیں ہل چکی ہیں  موصوف فوج سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ بعد انھیں شہریت دیدی گئی۔ 2014 میں وہ لیبیا واپس آئے اور بھتہ خوری کیلئے اپنی ملیشیا بنالی۔ انکاہدف تیل کی تنصیبات ہیں اور کامیاب کاروائیوں کی بنا پر لیبیا کی حکومت کو شبہہ ہے کہ حفتر ملیشیا کو درپردہ اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک کی حمائت حاصل ہے۔
امریکہ اور یورپ سے مایوس ہوکر لیبیااب اپنے دفاع کیلئے ترکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔  27 نومبر کو ترکی اورلیبیا نے 'مشترکہ آبی  حدود'  کےعنوان سے مفاہمت کی ایک  یادداشت  یا MOUپر دستخط  کردئے۔ استنبول میں صدر ایردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیض السراج کے درمیان طئے پائے والے معاہدے کے مطابق  ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جنکی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ  کی ذمہ داری ہوگی ۔ ترکی کے وزیر توانائی جناب فاتح دنمیز نے اعلان کیا کہ جیسے ہی دونوں مملکوں نے MOUکی توثیق کی، ترکی اپنا Yavuz Drillshipکھدائی کیلئے روانہ کردیگا جبکہ اسکی  Seismicکشتیاں  پہلے ہی سے  آزمائش و پیمائش میں مصروف  ہیں۔
اس معاہدے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یونان نے لیبیا کے سفیر کو ملک چھوڑدینے کا حکم دیدیا۔ اسی کے ساتھ یونانی وزیراعظم نے نیٹو کو مطلع کیا ہے کہ وہ خلیج یونان اور وسطی بحر روم میں ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے بحری اثاثے تعینات کررہے ہیں۔ دوسری طرف یونانی قبرص نے  ترکی    کے خلاف  عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے تاہم  ترکی  امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کو اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ جنرل السیسی جنھیں صدر ایردوان کی صورت سے بھی  نفرت ہے اس تنازعے میں دامے درمے قدمے سخنے یونان کے ساتھ ہیں۔ ترکی اور یونان کے مابین 1974 میں قبرص کے مسئلے پر گھمسان کی جنگ ہوچکی ہے جس میں ترک فوج نے نہ صرف یونانیوں کو سخت نقصان پہنچا یابلکہ قبرص کے ایک ایک بڑے علاقے پر سے یونانی قبضہ ختم کرواکر وہاں آزاد و خودمختار ترک قبرصی ریاست قائم کردی گئی۔ اسرائیل نے اپنے سرکاری موقف کا اعلان نہیں کیا تاہم ترکی سے نفرت میں اسکی ہمدردی یونان کے ساتھ ہے۔
خیال ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ترک پارلیمان لیبیا سے ہونے والے معاہدے ہر بحث کریگی اور بہت آسانی سے اس معاہدے کی توثیق ہوجائیگی۔ صدر ایردوان  کہہ چکے ہیں کہ جیسے ہی انکی پارلیمان نے معاہدے کی منظوری دی وہ لیبیا کے دفاع اور جنرل حفتر کی سرکوبی کیلئے اپنی فوج وہاں بھیج دینگے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ انکی فوج اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی عملداری قائم کرنے کیلئے جارہی ہے لہذا اسکی مخالفت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور  پیچیدگی یہ ہے کہ حفتر مافیا میں کرائے کے روسی فوجی بھی شامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ روسی باشندہ یوجنی پرگوزن جوحفتر مافیا کیلئے کرائے کے لڑاکے بھرتی کرتا ہے روسی فوج کیلئےاشیائے خوردونوش کا کانٹریکٹر رہ چکا ہے۔ پرگوزن کو  روسی صدر پیوٹن کا باورچی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا ٖڈر بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر ترک فوج نے حفتر مافیا کے خلاف فیصلہ کن کاروائی  شروع کی تو کہیں روسی فوج اسکے دفاع میں نہ آجائے۔ تاہم روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بہت صراحت کئ ساتھ کہا ہے کہ روسی حکومت اپنے شہریوں کو دوسرے ملک جانے سے روک نہیں سکتی ہے اور نہ ہی کریملن اپنے شہریوں کی 'نجی سرگرمیوں' کا ذمہ دار ہے۔ اس وضاحت سے ایسا تاثر ابھررہا ہے کہ ترک فوج اور حفتر سے تصادم میں روس غیر جانبدار رہیگا لیکن ہر قسم کے خدشات اور اندیشے موجود ہیں۔ امریکہ اور یورپ بھی ترک فوج کے ہاتھوں حفتر مافیا کی پامالی کو شائد ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کریں اور اسرائیل و مصر کے ذریعے حفتر دہشت گردوں کی مدد اور پشت پناہی خارج از مکان نہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 جنوری
2020