جنرل قاسم سلیمانی کا قتل
3 جنوری کو صبح سویرے بغداد کے بین القوامی ہوئی اڈے
(سابق صدام حسین انٹرنیشنل ائیرپورٹ) کے قریب امریکی میزائیل حملے میں پاسداران انقلابِ
اسلامی ایران (IRGC)کے معروف کمانڈر اور سپاہ قدس (Al-Quds Force)کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اپنے اتحادی یعنی شیعہ ملیشیا حشد الشعبی (PMF)کے نائب ابو مہدی المہندس (انجنیر) کے ہمراہ جاں بحق
ہوگئے۔
سپاہ قدس کے قریبی حلقوں کا
کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی 2 جنوری کو صبح سویرے اپنے خصوصی طیارے میں تہران سے دمشق
پہنچے جہاں سے وہ بذریعہ کار لبنان کے دارالحکومت بیروت آئے۔ بیروت میں جنرل
سلیمانی نے مبینہ طور پر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے تفصیلی ملاقات کی۔ وہ
مغربین (مغرب و عشا) پڑھ کر دمشق واپس آئے اور رات ڈھائی بجے کے قریب اپنے طیارے
میں بغداد روانہ ہوئے۔ عراق میں کسی کو جنرل صاحب کی آمد کی خبر نہ تھی اور انکے
بغداد آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے جناب ابومہدی المہندس کو بتایا گیا کہ جنرل سلیمانی
کا طیارہ بغداد اترنے والا ہے اور سلیمانی
صاحب ان سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔ پیغام سن کر ابومہدی المہندس ائرپورٹ
پہنچے، جنرل صاحب کا استقبال کیا اور یہ دونوں حضرات حفاظتی عملے کے ہمراہ دو
مخلتف کاروں میں وہاں سے روانہ ہوئے۔
جیسے ہی یہ گاڑیاں ائرپورٹ سے
نکل کرمرکزی شاہراہ پر آئیں، امریکی ڈرون سے داغے جانے والے میزائیل نے آگے والی
گاڑی کے پرخچے اڑادئے جبکہ دوسرا میزائیل دوسری گاڑی سے کچھ آگے گرا۔ بچ جانے والی
گاڑی کے ڈرائیور نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کار کو روکا اور واپس موڑنے کی
کوشش کی لیکن اسی دوران ڈرون سے تیسرا میزائیل داغا گیاجو سیدھا اس گاڑی کو لگا۔کہا
جارہا ہے کہ پہلی گاڑی میں جنرل قاسمی اور پیچھے آنے والی کار میں حشد الشعبی کے
نائب سوار تھے۔ محمکہ سراغرسانی، عراقی وزارت دفاع اور محکمہ شہری ہوابازی کو جنرل سلیمانی کی بغدادآمد کی کوئی اطلاع نہ تھی اور اب تک
یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ کس نے ابومہدی کو یہ اطلاع دی جس پر وہ ائرپورٹ پہنچے۔
بغداداو تہران کے سراغرساں حلقوں کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کی دمشق روانگی کے
وقت سے نگرانی کی جارہی تھی اور انکے طیارے کے بغداد پہنچنے پر انھیں 'منکر
نکیروں' نے حشد الشعبی کے نائب کمانڈر کو جنرل صاحب کے استقبال کا پیغام بھیجا
جنکی ہدائت پر بغداد ائرپورٹ کے کنٹرول ٹاور نے طیارے کی Landingکے انتظامات کئے۔ گویا بہت ہی
ہوشیاری سے ابومہدی کو مقتل کا راستہ دکھایا گیا تاکہ ایک تیر سے دوشکار کیا
جاسکے۔
تاہم عرب سیاسی و سفارتی تجزیہ
نگار تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کررہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے عراقی وزیراعظم
عادل عبدالمہدی ایران و سعودی عرب کے
درمیان مصالحت کی کوششوں میں مصروف تھے اور دونوں جانب سے مثبت اشارے مل رہے تھے۔ سلسلہ
جنبانی کو درہم برہم کرنےکیلئے27 دسمبر کو
کرکوک (عراقی کردستان) میں امریکہ کے فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا جس میں امریکی
فوج کا ایک سویلین کانٹریکٹر ہلاک اور کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ عراقی خفیہ اداروں کا
خیال ہے کہ یہ داعش کی کاروائی تھی لیکن امریکیوں کے مطابق حملہ ایران کی حمائت سے
شیعہ ملیشیا کتائب حزب اللہ نے کیاتھا۔ ایران اور حشد الشعبی دونوں نے اس واقعے کی
مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی لیکن واشنگٹن نے ان وضاحتوں کو تسلیم
نہیں کیا اور دودن بعد امریکی ڈرون نے عراق اور شام کی سرحد پر کتائب حزب اللہ کے
ٹھکانوں پر حملہ کرکے 4 کمانڈروں سمیت 25
جنگجووں کو ہلاک اور 55 سے زیادہ جوانوں
کو زخمی کردیا۔
اپنے کمانڈروں کی ہلاکت پر حشد
الشعبی مشتعل ہوگئی اور 31 دسمبر کو ہزاروں افراد بغداد میں امریکی سفارت خانے پر چڑھ دوڑے۔ عراقی
فوج کی بروقت کاروائی سے سفارتی عملہ محفوظ رہا لیکن مظاہرین نے عمارت کی بیرونی
دیواروں کو آگ لگادی۔ اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے صدر ٹرمپ نے ایران
کو امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ 'ایران کو اس کی بھاری
قیمت چکانی ہوگی'
واشنگٹن و تہران کے درمیان
کشیدگی کے باوجود وزیراعظم عبدالمہدی نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کی
کوششیں جاری رکھیں۔ عراقی وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یکم جنوری کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایرانی صدر محمد روحانی
کے نام ایک مکتوب بھیجا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو بات چیت کے ذریعے
حل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ رفقا سے مشورے کے بعد ایرانی صدر نے اس خط کا
جواب تیار کیا جو حساسیت کے پیش نظر ایلچی کے ذریعے وزیراعظم عبدالمہدی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور رہبر
ایران حضرت آئت اللہ خامنہ ای کے معتمد خاص جنرل قاسم سلیمانی پیام رساں مقرر
ہوئے۔ جوابی خط عراقی وزیراعظم کے حوالے کرنے سے پہلے جنرل صاحب نے شامی صدر بشار
الاسد اور حزب اللہ کے سربراہ کو اعتماد میں لیا۔ وہ یہ خط لیکر بغداد ایرپورٹ سے
ایوان وزیراعظم جارہے تھے کہ انھیں پہلے سے گھات لگائے ڈرون نے نشانہ بنالیا۔
62 سالہ قاسم سلیمانی نے ایران
کے جنوبی صوبے کرمان کے ایک چھوٹے سے گاوں قنات ملک کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔
وہ ابھی 20 سال کے تھے کہ شاہ ایران کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ اسوقت آئت اللہ
خمینی پیرس میں جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ آئت اللہ اپنے انقلابی خطبات پیرس میں ریکارڈ
کراتے اور کیسٹ کی کاپیاں بناکر انھیں سارے ایران میں تقسیم کردیا جاتا۔ اسی بناپر اس تحریک کو Sonyانقلاب کا نام دیا گیا۔ کرمان
صوبے میں ان کیسٹوں کی تقسیم نوجوان قاسم سلیمانی کے ذمہ تھی۔یہ کام بے حد خطرناک
تھا کہ شاہ ایران کی خفیہ ایجنسی
ساوک کے ایجنٹ سارے ملک میں پھیلے ہوئے
تھے اورہزاروں انقلابی کارکن ساوک کے سفاک ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
اپنی شجاعت، حکمت اور معاملہ
فہمی کی بنا پر قاسم زیرزمین انقلابی قیادت کے بے حد قریب ہوگئے اور جب شاہ ایران
کی معزولی کے بعد آئت اللہ خمینی کی سرپرستی میں انقلابی حکومت قائم ہوئی تو قاسم
سلیمانی نے IRGCمیں شمولیت اختیار کرلی۔ سلیمانی نے باقاعدہ فوجی تربیت حاصل نہیں کی
تھی لیکن وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر IRGCمیں بہت کامیاب رہے۔ 1980 میٓں جب صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو قاسم
سلیمانی ہتھیار اٹھاکر محاذ پر چلے گئے اور بے مثال شجاعت سے انھو ں نے اپنا مقام بنالیا۔
اسی دوان ایرانی قیادت نے بیرون ملک لاحق خطرات سے حفاظت کیلئے مشرق وسطیٰ کے
مخلتف ممالک میں اپنے ہمددردوں کو عسکری بنیادوں پر منظم کرنا شروع کیا۔ دوسری
انقلابی تنظیموں یعنی لبنان کی حزب اللہ، پاکستان کی شیعہ تنظیموں اورافغانستان کی
حزب وحدت وغیرہ سے قریبی تعلقات استوار کئے گئے۔ اس کام کیلئے IRGCنے سپاہ قدس کے نام سے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا جسکے
سربراہ قاسم سلیمانی مقرر ہوئے اور یہیں سے جناب سلیمانی کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔
ستم ظریفی کہ امریکہ کے ہاتھوں
انتہائی بے بسی کے عالم میں مارے جانیوالے جنرل قاسم سلیمانی کی چچا سام پر مہربانیوں کی فہرست خاصی طویل ہےٖ۔
نائن الیون (9/11)سانحے کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا
فیصلہ کیا تو قاسم سلیمانی سے مدد طلب کی گئی۔ جنرل سلیمانی نے افغان شیعہ تنظیم
حزب وحدت کی مدد سے طالبان مخالف شمالی اتحاد کو امریکی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ
کیا اور تاجکستان کے راستے پنج شیر اسلحہ
بھجوایا۔ اس دوران امریکی ٹیلی ویژن پر لاکھوں لوگوں نے وہ منظر دیکھا جب شمالی
اتحاد کے سپاہی ' مرگ بر امریکہ' لکھے لکڑی کےبڑے بڑے صندوق کھول کر ساختہ ایران
اسلحہ نکال رہے تھے۔26 ستمبر 2001 کو جب گیری شروئن Gary Schroen کی قیادت میں امریکی سی آئی اے کا 8 رکنی ہراول دستہ پنج شیر اترا
تو جنرل سلیمانی کی ہدائت پر بدنام زمانہ پیشہ ور قاتل اور گلم جم ملیشیا کے
سربراہ عبدالرشیم دوستم نے انکا استقبال کیا۔ گیری شروئن اپنے ساتھ 30 لاکھ ڈالر
نقد لائے تھے جو طالبان مخالف جنگجووں میں تقسیم کئے گئے۔ 5 ہفتوں کی شدید بمباری
کے باوجود امریکہ افغان سر زمین پر اپنی فوج اتارنے میں ہچکچا رہا تھا۔جنرل
سلیمانی کی حوصلہ افزائی پر عبدالرشید دوستم
تاجک اور شیعہ ملیشیا لیکر قندھار پہنچے اور امریکی چھاتہ بردار فوج کو
اترنے اور شہر کی جانب پیش قدمی کیلئے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ اس دوران دوستم نے
وحشت کا جو بازار گرم کیا اسکے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔طالبان کی مخالفت
میں جنرل سلیمانی نے افغانستان میں امریکیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔
عراق کے معاملے میں امریکی سی
آئی آے کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے دودن پہلے ایک ریڈیو انٹرویو میں
انکشاف کیا کہ 2013 میں جب امریکہ و برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملے کے تیاری
اپنے عروج پر تھی تو جنرل قاسم سلیمانی نے ڈیوڈ پٰیٹریاس کو خود پیغام بھیج کر
تعاون کی پیش کش کی۔ پیغام میں جنرل سلیمانی نے بہت ہی صراحت کے ساتھ کہا 'اس ضمن میں
امریکہ کو صرف انھیں سے رابطہ رکھنا چاہئے کہ انکے علاوہ ایرانی فوج کا کوئی اور جرنیل
آپکی مدد نہیں کرسکتا'
شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف
مقبول عوامی مزاحمت کوکچلنے کیلئے بھی
جنرل سلیمانی اور سپاہ القدس نے جو کردار اداکیا وہ قابل افسوس ہے۔ طاقت کے بدترین
استعمال سے لاکھوں شامی موت کے گھاٹ اترے اور یہ ہنستا بستا ملک فرقہ واریت کی
ایسی بھٹی میں تبدیلی ہوگیا جسکا ایندھن پھول سے بچے ہیں۔
ایران دنیا بھر کے شیعوں کا
نمائندہ ملک ہے اور اسکے رہبرحضرت آئت اللہ خامنہ ای شیعان عالم کے روحانی پیشوا
ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری شدید کشیدگی کے باوجو واشنگٹن نے ایران پر
براہ است حملے سے گریز کیا ہے۔ 1979میں
ایرانی طلبہ نے تہران کے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے امریکی سفارتکاروں کر 444
دن یرغمال بنائے رکھا۔ امریکی فوج نے انھیں چھڑانے کیلئے ناکام آپریشن بھی کیا
لیکن nuke Iranکے ملک گیر مطالبے کے باوجود صدر جمی کارٹرنےکسی بڑی
کاروائی سے گریز کیا۔ جب 1988 میں امریکی بحریہ نے ایران کا مسافر بردار طیارہ
گرایا جس میں عملے سمیت 290 افراد مارے گئے تو امریکہ نے 13 کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر ہرجانہ اداکرکے معاملے
کو ٹھنٖڈا کرلیا۔
ایران کے خلاف صدر ٹرمپ کے اس
انتہائی قدم کی کوئی منطقی توجیح اب تک سامنے نہیں آئی۔آتشیں بیانات کے باوجود صدر ٹرمپ جنگ اور
فوجی کاروائی کو برابر ٹال رہے ہیں۔ وہ جنگ کو سفارتکاری بلکہ قیادت کی ناکامی
سمجھتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی صدور شمالی کوریا
کو دھمکی دیتے رہے جس سے کشیدگی اور امریکی فوجی اخراجات میں اضافے کے علاوہ کچھ
حاصل نہ ہوا لیکن انھوں نے بات چیت کے ذریعے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ
اونھ کو معقولیت پر مائل کرلیا۔
2012 میں جب سابق صدر اوباما
دوسری مدت کا انتخاب لڑرہے تھے اسوقت جوہری تنازعے کی بناپر ایران اورامریکہ کے تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ اس
دوران صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ صدر اوباما انتخاب جیتنے کیلئے ایران پر حملہ
کرناچاہتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ صدر اوباما کو بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا اور وہ
اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے فوجی قوت کا سہارا لیناچاہتے ہیں۔صدر ٹرمپ افغانستان
کے مسئلے کو بھی پر امن انداز میں حل کرنے
کی طرف مائل نظر آرہے ہیں۔
امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے
کہ غیر روائتی صدر ہونے کے دعویدار صدر ٹرمپ' مجبور' ہوکر روائتی ہتھکنڈوں پر اتر
آئےہیں۔ صدر ٹرمپ کو امریکی کانگریس کی جانب سے مواخذے کا سامنا ہے۔ اگلے چند
ہفتوں میں یہ 'مقدمہ' سینیٹ میں پیش ہوگا جہا ں صدر کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ تحریک
کی کامیابی کیلئے مواخذے کے حق میں 67 ووٹ آنا ضروری ہیں جبکہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس
اور انکے آزاد اتحادیوں کا مجموعی پارلیمانی حجم صرف 47 ہے لہذا اس تحریک کی
کامیابی کا کوئی امکان نہیں لیکن بظاہر پر اعتماد اور بے نیاز نظر آنے والے صدر
ٹرمپ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی موجودگی
میں رسوا کن سماعت اور اسکے عام انتخابات پر ممکنہ منفی اثرات سے خاصے فکر مند ہیں۔
عام انتخابات سے پہلے 'دبنگ'
اقدامات دوسری مدت کا انتخاب لڑنے والے امریکی صدور کی روائت ہے
1998 میں جب سابق صدر بل کلنٹن
کو مواخذے کا سامنا تھا تو موصوف نے عراق پر آگ و آہن کی بارش کردی۔ Operation Desert Fox کے نام سے 4 دن تک عراق کے طول و عرض پر خوفناک بمباری کے علاوہ
خلیج میں تعینات امریکہ کے بحری جہازوں سے عراقی شہروں پر گولہ باری کی گئی۔ہنگامی
صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بل کلنٹن کی ڈیموکریٹک پارٹی مواخذے کی کاروائی کچھ
روز کیلئے معطل کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اسی بنا پر صدر کے مخالفین نے عراق پر اس
حملے کو 'جنگِ مونیکا' کا نام دیا۔
کچھ اسی طرح کی حکمت عملی سابق
صدر اوباما نے بھی اپنائی جب 2012کے انتخابات سے پہلے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں
اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اسامہ کی عجلت میں بحری تدفین اور
تصاویر کے اجرا سے اجتناب کی بنا پر یہ معاملہ خاصہ مشکوک ہے۔ غیر جانب دار مبصرین
کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن 2002 کے آغاز میں تورابورا حملے میں مارے جاچکے تھے
اور ایبٹ آباد اپریشن محض ایک انتخابی ڈرامہ تھا
ایبٹ آباد ہی کی طرز پر گرشتہ
برس 27 اکتوبر کو داعش کے مبینہ سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت منظر عام پر آئی۔ISIS کے 48 سالہ سربراہ کو شامی صوبے ادلیب کے ایک گاوں باریشا میں
نشانہ بنایا گیا۔ اوباما انتظامیہ نے ایبٹ اباد آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے امریکی
صدر اور انکےمشیروں کی تصویر جاری کی تھی۔
اس بار بالکل اسی انداز میں صدر ٹرمپ نائب
صدر پینس اور وزیردفاع کے ہمراہ یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔
ایرانی فوج کے قلب پر اس حملے
کی وجہ مواخذہ اور صدارتی انتخابات ہیں یا سعودی ایران ممکنہ مفاہمت کے دروازے کو
قفل لگانا، صدر ٹرمپ کی یہ جرات رندانہ دنیا اور خاص طور سے مشرق وسطیٰ کیلئے
انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی۔ رہبر ایران آیت اللہ خامنہ
ای بہت دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل سلیمانی عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت
تھے۔
امریکہ نے جنرل سلیمانی پر حملہ کر کے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے جسکی اسے بھاری
قیمت اداکرنی ہوگی۔
عسکری
ماہرین تہران کی جانب سے نپے تلے جواب کی توقع کررہے ہیں۔پاکستان، افغانستان، شام،
لبنان، یمن اور عراق میں ایرانیوں کی جڑیں خاصی گہری ہں۔ دوسری طرف خلیجی ممالک
میں چالیس ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں۔ پورے خطے میں ایران نواز عسکری
تنظیمیں اور فدائین موجود ہیں جنکے ذریعے تہران امریکی مفادات اور ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
دشمن کا دوست دشمن کے اصول پر ایران اور یمن کے حوثی سعودی عرب میں تیل و گیس کے
میدانوں اور تنصیبات کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ایران کے حق میں
نہیں۔ تہران کو اسلامی دنیا میں سفارتی
تنہائی کا سامنا ہے۔ ترکی کے علاوہ کسی مسلم ملک نے جنرل سلیمانی کے قتل کی مذمت
نہیں کی۔ ایران کے دوسرے پڑوسی یعنی پاکستان، افغانستان اور عراق پر امریکہ کی
گرفت خاصی مضبوط ہے۔
عراقی
پارلیمنٰٹ سے فوجی انخلا کی قرارداد منظور ہونے پر امریکی فوج کے مقامی کمانڈر
بریگیڈیر ولیم سیلی نے عراقی جرنیل کے نام خط میں پارلیمنٹ کے احترام اور امریکی
فوج کی فوری واپسی کا عندیہ دیا لیکن خط کی سیاہی خشک ہونے پہلے ہی امریکی فوج کے
جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے اپنے وضاحتی بیان میں عراق سے امریکی فوج کے
انخلا کو یکسر مسترد کردیا۔ امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے بغداد میں تعنیات اپنے
کمانڈر کے خط کو قبل ازوقت و نامناسب قرار دیکر عراق کی آزادی و خودمختاری کو ہوا
میں اڑادیا
اس
واقعے پر پاکستان کےطرز عمل سے عمران حکومت کی بے بسی و بے اختیاری کھل کر سامنے
آگئی۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے اپنے پاکستانی
ہم منصب یا حکومت سے بات کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو فون کیا۔
امریکی ذرایع کے مطابق بات چیت کے دوران جنرل باجوہ نے پاکستان میں امریکہ کے
سفارتی عملے اور عسکری مفادات کے تحٖفظ کا یقین
دلایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو لیکن جنرل باجوہ سے پومپیو کی گفتگو
کے فوراً بعد امریکی وزارت دفاع نے
پاکستان کے فوجی افسران کی تربیت پر پابندی ختم کردی۔ دوسرے دن اس معاملے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف
غفور نے پاکستانی حکومت کی جانب سے پالیسی
بیان جاری کیا جس میں عراق کی قومی خودمختاری کا ذکر کئے بغیر اس معاملے میں مکمل
غیر جانبداری کا عزم ظاہر کیا گیا۔ توقع تھی کہ ترکی کی طرح پاکستان بھی امریکہ کی
جانب سے عراق کی سالمیت و خودمختاری کی پامالی پر
تشویش کا اظہار کریگا۔ عجیب بات کہ اس سارے معاملے میں پاکستانی وزارت
خارجہ کا کردار بلکہ وجود نظر ہی نہیں آیا۔
اسلام
آباداس معاملے پر غیر جانبداری کی چادر اوڑھنے میں اپنی عافیت سمجھ رہا ہے لیکن
پاکستان کیلئے معاملہ اتنا آسان نہیں۔ فوجی تربیت
بحال کرکے امریکہ نے خدمت سے پہلے حق المحنت اداکردیا ہے یعنی سودے کو
پرکشش بنانے کیلئےdo
moreکے بجائے take now, pay laterکی
حکمت عملی کے ساتھ ہی 'بلڈی سولینز' کو
یکسر نظر انداز کرکے امریکہ نے قومی پالیسیوں کی تدوین و ترتیب کے باب میں
پاکستانی مقتدرہ کو اپنی ترجیحات و خواہشات سے بھی آگاہ کردیا ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 جنوری
2020
No comments:
Post a Comment