تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا
صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کردیا جس
میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی ہے۔ منگل 28 جنوری کو اسرائیلی
وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں 181 صفحاتی امن
دستاویز جاری کی گئیں جس میں اسرائیل و فلسطین کا مجوزہ نقشہ بھی شامل ہے
معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی
فلسطین کو شریک مشورہ تو دور کی بات اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ صدر
ٹرمپ نےاسےغیر معمولی اور اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انکے مجوزہ منصوبے میں فلسطین کے زیر
انتظام علاقے میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اسرائیل کے قائد حزب اختلاف بن یامین (بینی) گینٹز کو صدرٹرمپ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ مسٹر گینٹز نے امن منصوبے
کو تاریخی سنگ میل قرار دیتے ہوئے وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں اس پر مخلصانہ
عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا۔
مجوزہ منصوبے کے اہم نکات:
·
فلسطینیوں کے کلیدی مطالبے ’’دو ریاستی فارمولے' کو تسلیم کیا گیا ہے
·
دریائے اردن کے مغربی کنارے اور
دوسری فلسطینی آبادیوں پر اسرائیلی اقتدار
کوقانونی حیثیت حاصل ہوگی ۔
·
گولان اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہوگا
·
بیت المقدس بدستور اسرائیل کا
دارالحکومت رہے گا
·
بیت المقدس کے مشرقی مضافاتی علاقے میں فلسطین کا دارالحکومت قائم کیا
جائیگا ۔ مسجد اقصیٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے کھول دیا جائیگا ۔
·
مجوزیعہ نقشے میں ننھا سا فلسطین
ساری دنیا سے کٹا اور اسرائیل سے
گھرا ہوا ہے ۔
·
غزہ کے راستے بحر روم سے رسائی ممکن ہے لیکن آبی آمدو رفت اسکے شمال میں
اشدود بندرگاہ سے ہوگی جو اسرائیل کا حصہ ہے
یعنی اہل غزہ اپنے گھر کی کھڑکیوں
سے صرف سمندر کا نظارہ کرسکیں گے
·
دنیا سے فلسطین کا رابطہ رفاح سے ہوگا جو مصر کے کنٹرول میں ہے۔ رفاح گیٹ
ایک عرصے سے مقفل ہے جسکی کنجیاں جنرل السیسی کے پاس ہیں
·
فلسطین میں 15 اسرا ئیلی بستیاں بھی ہونگی جو فلسطینیوں کی زمین پر آباد کی جائینگی۔ ان
آبادیوں کی حفاظت کیلئے اسرائیل فوج تعینات ہوگی اگر فلسطینی ٹرمپ پلان کو تسلیم
کرلیں تو اسرائیل اگلے 4 برس تک کوئی نئی بستی تعمیر نہیں کریگا۔
·
اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ 4 سال بعد کیا ہوگا؟ متن سے تو ایسا لگ رہا
ہے کہ انجماد کی مدت گرزر جانے کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کو انکے مکانات اور زمینوں
سے بے دخل کرکے نئی اسرائیلی بستیوں کی
تعمیر جاری رکھے گا۔
·
معاہدے میں فلسطینیوں کیلئے فراخدلانہ اقتصادی مراعات کی پیشکش کی گئی
ہے۔مصرکی سرحد پر ایک جدید ترین صنعتی شہر
اور فارم ہاوس کی شکل میں عظیم الشان زراعتی مرکز تعمیرکیا جائیگا۔ امریکہ کے داماد اول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر
صدر ٹرمپ کے مشیر جیررڈ کشنر معاہدے کےاقتصادی پہلو کی تفصیلات کا اعلان گزشتہ سال بحرین میں کرچکے ہیں۔ انکا
کہنا ہے کہ امن کے قیام سے فلسطینیوں
کیلئے خوشی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ جیررڈ کشنر کو یقین ہے کہ
عرب اور امریکی ادارے فوری طور پر 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگے
ردعمل:
·
مقتدرہ فلسطین اور عرب ممالک نے امن معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔ انکا کہنا
ہے کہ پائیدار امن کیلئے بیت المقدس سمیت
مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیل کی واپسی ضروری ہے۔
·
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنماں سینیٹر برنی سینڈرز، سینیٹر
ایلزبیتھ وارن، سینٹرکرس مرفی اور سینیٹر کرس وان ہولین نے منصوبے کو غیر منصفانہ
اور ناقابل عمل قراردیا
·
فلسطینی نژاد رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب نے کہا کہ سیاسی بازی گری سے
امن و انصا ف قائم نہیں ہوسکتا
معاہدے کی رونمائی ایسے
وقت میں کی گئی ہے جب صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں کو سخت آزمائش درپیش ہے
·
صدر ٹرمپ کے خلاف امریکی سینیٹ میں
اختیارات کے ناجائز استعمال پر مواخذے کی کاروائی جاری ہے تو دوسری طرف
·
نیتن یاہو پر فراڈ اور رشوت ستانی کے الزام میں تین مقدمات قائم کئے گئے
ہیں اور انکی گرفتاری دنوں کی بات معلوم ہورہی ہے
·
اسرائیل میں چھ ہفتے بعد انتخابات ہیں تو صدر ٹرمپ کونومبر
میں انتخابات کا سامنا ہے
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ معاہدہ امن کی آڑ
میں یہ 'دونوں دوست' اپنے نسل پرست و جنگجو ووٹ بینک کو متحرک کرنے کی کوششوں میں
مصروف ہیں
No comments:
Post a Comment