جن پہ
تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ابھی کپتان ایم کیو ایم اور GDA(پیر پگارا) کے نازو نخرے
اٹھااٹھا کر ہلکان ہوئے جارہے تھے کہ ق لیگ
نے بھی آنکھیں دکھانی شروع کردیں
شنید ہے کہ چودھدری شجاعت نے وفاقی حکومت کو ایک ہفتے کا
نوٹس دیدیا ہے
کپتان کا المیہ یہ ہے کہ موئی مقتدرہ نے دھاندلی و بے ایمانی سے انھیں وزیراعظم تو بنا دیا لیکن جیسے مانو بی
نے اپنے بھانجے کو حفظ ماتقدم کے طور پر
درخت پر چڑھنا نہیں سکھا یا تھا ویسے ہی عفیفہ نے انھیں واضح اکثریت دلانے کے بجائے بیساکھیوں کے
سہارے تخت پر بٹھا دیا تاکہ موصوف قابو میں رہیں
جیسے ٹیم کے انتخاب
میں انھوں نے خوشامدیوں کو ترجیح دی ویسے ہی حکومت سازی کیلئے ایم کیو ایم اور ق لیگ
کی شکل میں مستند بلیک میلزر اور کم
ظرفوں کا انتخاب کیا
342 رکنی قومی
اسمبلی میں حکومت سازی کیلئے 172 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ کپتان کے اپنے ارکان کی
تعداد 156ہے جو جناب شیخ رشید کے ساتھ 157ہوگئی ہے
اسکا مطلب ہے کہ انھیں اقتدار پر رہنے کیلئے 15 دوسرے ارکان
کی حمایت چاہیے
اگر ایم کیو ایم اپنے 7اور ق لیگ 5ارکان کو لے کر الگ ہوگئی تو کپتان کیلئے مشکل
ہو سکتی ہے
عمران خان ایم کیو ایم اور ق لیک کی علیحدگی کے بعد بھی مینگل GDA, BAP, جمہوری وطن پارٹی اور دو آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر
گنتی پوری کرسکتے ہے لیکن جی ڈی اے اور مینگل
بھی کپتان سے خوش نہیں
ہمیں ڈر ہے کہ تحریک انصاف
کے ساتھی نام سن کر ہی مشتعل ہوجائینگے ہیں لیکن اقتدار کے تسلسل و استحکام کیلئے بہتر یہی ہوگا
کہ وزیراعظم مولانا فضل الرحمان سے اختلاف ختم کرکے ایم ایم اے کو ساتھ ملا لیں
ایم ایم سے کے پاس 16نشستیں ہیں
اسطرح حکمراں اتحاد کو173ارکان کی حمائت حاصل ہوجائیگی
مولانا فضل الرحمان سے انکے مخالفین کے شکووں کی فہرست بڑی
طویل ہے لیکن پارلیمانی معاہدوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے انکے بارے میں کوئی شکایت
نہیں
لیکن اسکے لئے عمران
خان کو اپنی زبان پر شائستگی کی لگام ڈالنی ہوگی۔
اب تک پی ٹی آئی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے
اسکی بڑی وجہ کپتان کی زبان ہے
اسلام کے ٹھیکیدار
اور ڈیزل انکا تکیہ کلام ہے جو وزیراعظم کے شایان شان نہیں
اسی کے ساتھ انھیں اپنے کم ظرف و بدتمیز رفقا فواد چودھری،
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور فیصل واوڈا جیسوں
کو بھی قابو کرنا ہوگا
رویوں میں یہ ہلکی
سی تبدیلی مستحکم حکومت کیلئے کوئی بڑی قیمت نہیں
No comments:
Post a Comment